ادھم شرقاوی فلسطین کے معروف مصنّف اور ناول نگار ہیں۔ماضی قریب میں ان کی مشہور زمانہ کتاب”رسائل من القرآن“ نے دنیا بھر میں شہرت حاصل کی اور بالخصوص عالمِ عرب میں یہ سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب بن گئی۔ان کا اسلوب نہایت خوبصورت،کامیاب اور پُرکشش ہے۔اردو میں اس کتاب کا باکمال اور سلیس ترجمہ ابو الاعلیٰ سید سبحانی صاحب نے کیا تھا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک قاری کو کتاب مکمل کرنے کے بعد بھی یہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ یہ کتاب اصل میں عربی میں ہے جسے برادرم نے اردو کے قالب میں ڈال دیا ہے۔عزیزی ابو الاعلیٰ بھائی کے لیے یہ سرمایہ افتخار ہے کہ اب انہوں نے ادھم شرقاوی کی ایک اور شاندار کتاب”رسائل من النّبیﷺ“کو بھی اردو کا جامہ پہنا دیا۔
مطالعہ کے حوالے سے ایک قاری کے سامنے بہت ساری کتابوں کا گزر ہوتا ہے لیکن جو کتاب اسے مطالعہ کی مزید پیاس بڑھائے،اللّٰہ کی راہ میں مستقل مزاجی کے ساتھ چلنے کی ہمت دے اور خدا کے گمراہ بندوں کو راہِ راست پر لانے کے لیے کوشاں کرے،تو ان کی نظروں میں اس کتاب کی شان ہی کچھ نرالی ہوتی ہے۔”رسائل من النّبیﷺ“ کا اندازِ تالیف بہت ہی مؤثر اور دل آویز ہے۔مصنّف کسی مستند حدیث کے ایک ٹکڑے کو اٹھا کر اس طرح اس کی دلنشین تشریح کرتے ہیں کہ ایک قاری عملی دنیا میں قدم رکھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔احادیثِ مبارکہ پر سنجیدہ غور و تدبر کے بعد مصنّف نے ایسے اہم نکات قارئین کے لیے نکالے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔بلا مبالغہ کتاب کو پڑھ کر بخوبی محسوس ہوتا ہے کہ مصنّف کا قلم عشق میں ڈوب کر چلتا ہے اور ہر ایک سطر اتنی مقناطیسی کشش رکھتی ہے کہ قاری کے ذہن و قلب کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔مصنّف اپنی گفتگو کے دوران ایک ایسا اسلوب اپناتا ہے جو کہ اپنے اندر عقلی اطمینان اور وجدانی تاثیر دونوں پہلو لیے ہوئے ہوتا ہے۔
کتاب میں جو فرموداتِ نبویﷺ شامل ہیں،ان کی جاذب و دلکش تشریح کو پڑھتے ہی ایک قاری کے سامنے اسوہ رسولﷺ نمایاں ہو جاتا ہے اور اندرون میں چھپے ہوئے جذبات ابھر آتے ہیں اور دل نرم اور لچکدار ہو جاتے ہیں۔مصنّف باتوں کو ایسے دلکش پیرایے میں بیان کرتا ہے کہ دل و ضمیر اطاعت کی طرف مائل ہوتے چلے جاتے ہیں۔جملوں اور عبارتوں کی ترکیب اور بناوٹ میں یکسانیت و ہم آہنگی کا ایسا رنگ پیدا ہوتا ہے کہ تمام عبارتیں اور جملے وزن میں یکساں اور ایک دوسرے کے موافق و ہم وزن نظر آتے ہیں،یہ ایک دوسرے سے اس طرح مربوط ہیں گویا ایک ہی لڑی میں پرو ہوئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ قاری کتاب کے آخر تک کسی قسم کی بوریت محسوس نہیں کرتا ہے۔ویسے تو قارئین کے دلوں کے اندر اترنے کی راہ پالینا زیادہ آسان تو نہیں ہے لیکن یہ تو مصنّف ہی کا کمال ہے کہ وہ کتاب کے ذریعے قاری کے دل تک اچھے جذبات و پیغامات کی ترسیل کرنے کا فن بخوبی جانتے ہیں اور اس میں شاندار کامیابی بھی حاصل کر لیتے ہیں۔کتاب کا بغور مطالعہ کے بعد قاری اس نتیجہ پر پہنچ جاتا ہے کہ اللّٰہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت ہی باقیات میں سے ہے،باقی سب محبتیں ناپائیدار ہیں۔کتاب کے ایک ایک صفحہ میں اس طرح کی تاثیر ہے کہ قاری مصنّف کو داد دیے بغیر نہیں رہتا ہے اور یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ مصنّف گفتار کے بجائے کردار کے غازی ہیں۔مطالعہ کے دوران دل سے نکلی ہوئی ان کی باتوں کی طرف قاری کے کان خود بخود متوجہ ہونے میں کشش محسوس کرتے ہیں،آنکھوں سے گرم گرم آنسو رواں ہوتے ہیں اور ذہن ان کے پیغامات پر غور و فکر کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔اگر یہ کہا جائے کہ مصنّف اس کتاب کے ذریعے قارئین کے دلوں کو فتح کر لیتے ہیں تو بیجا نہ ہوگا۔
اس کتاب کے ہر ایک صفحہ کو مطالعہ کرنے کے بعد قاری کے جذبات کی تربیت ہو جاتی ہے اور دل نرمی و لچک اختیار کر کے اللّٰہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔کتاب کے چھوٹے چھوٹے فقرے قاری کے ذہن و قلب کو روشن کرتے ہیں اور وہ دل کے تاروں کو بھی چھیڑتے ہیں اور اسے ایمان،اخلاق،صبر،شکر،محبت اور زندگی کے اصل مقصد کی یاد دلاتے ہیں۔کتاب کا ہر ایک صفحہ نبی اکرمﷺ کی ابدی تعلیمات کی خوشبو سے معطّر ہے اور اس کا ہر ایک پیغام قاری کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوتا ہے۔محبتِ رسولﷺ کسے کہتے ہیں اور اس کے کیا تقاضے ہیں؟ اس سوال کا تشفی بخش جواب کتاب میں بخوبی ملتا ہے۔اس کتاب کو مطالعہ کرنے کے بعد ایک سنجیدہ قاری کئی بار اپنے ایمان اور محبتِ رسولﷺ کے زبانی دعویٰ پر نظر ثانی کرنے پہ مجبور ہو جاتا ہے اور پھر اسے شرم کے مارے دربارِ الٰہی میں اپنا سر جھکا لینا پڑتا ہے۔صحابہ کرامؓ کس طرح کا والہانہ لگاؤ نبی اکرمﷺ کے ساتھ رکھتے تھے؟ اس سوال کا جواب بھی کئی صفحات میں ملتا ہے اور قاری یہ بات تسلیم کرتا ہے کہ زندگی وہی ہے جسے صحابہ کرامؓ کی طرح عشقِ رسولﷺ میں بسر کی جائے نہ کہ چند مصنوعی خواہشوں اور آرزوؤں کو اپنا مذہب بنا رکھنے میں۔
مقدمہ میں ہندوستان کے معروف اسلامی مفکر جناب سید سعادت اللّٰہ حسینی صاحب کتاب کی اہمیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
*”رسائل من النّبیﷺ مسنون جذبات کا ایک ایسا حسین و جمیل مرقع ہے جس کا ورق ورق بیش قیمت عملی اسباق سے مزین ہے۔رسول اللّٰہﷺ کی سنتوں کا تعلق صرف کھانے پینے،پہننے اوڑھنےاور دیگر ظاہری اعمال تک محدود نہیں ہے۔سنت کا اصل اطلاق تو زیادہ گہرے امور و مسائل پر ہونا چاہیے۔مسنون اخلاق،مسنون رویے،مسنون جذبات،مسنون عادات اور مسنون تعلقات۔۔۔اتباع رسول کا تقاضا ہے کہ ان سب پہلوؤں سے سنتِ رسول کو رہ نما بنایا جائے۔“*(ص 11-10)
کتاب کی خصوصیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے راقم یہاں چند اہم چیدہ سطور کو حوالہ ناظرین کرتا ہے تاکہ انہیں پڑھ کر ایک طرف کتاب کے مطالعے کا اشتیاق بڑھ جائے اور دوسری طرف وہ سیرتِ رسولﷺ کی روشنی میں اپنی زندگی سنوارنے میں پیش قدمی کر سکیں:
*”لوگ پتنگوں کی طرح ہوتے ہیں،بہت بار ایسا ہوتا ہے کہ وہ اپنے پروں میں موجود خوب صورت رنگوں کو نہیں دیکھ پاتے۔اس لیے ہمیشہ لوگوں کی خوبیوں پر ان کی تعریف کر دیا کرو،یہ قلبِ سلیم رکھنے والوں کا شیوہ ہوتا ہے!“*(ص 19)
*”ہمیشہ دوسروں کے ساتھ بھلائی کرو،لیکن یہ بات ہرگز نہ بھولو کہ:*
*ایک اندھا شخص بینائی حاصل کرنے کے بعد سب سے پہلے اس لاٹھی کو پھینک دیتا ہے جو اس کے لیے بڑا سہارا تھی!“*(ص 23)
*”کوئی بھی پرندہ صرف ایک پر سے پرواز نہیں کر سکتا! اس لیے جو بھی اپنا حق لینا چاہتا ہو،اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی پر توجہ دے!“*(ص 24)
*”کوئی بھی انسان سامنے والے کے لیے توبہ کا دروازہ نہیں بند کر سکتا،چاہے وہ نبی ہی کیوں نہ ہو!“*(ص 25)
*”درست بات یہ ہے کہ ہم ظاہر کو دیکھ کر لوگوں سے متعلق رائے قائم نہ کریں!“*(ص 27)
*”سخت گیری اور درشت مزاجی کوئی بہادری کا کام نہیں ہے،نرم دل انسان کو ہی شجاعت اور بہادری کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے!“*(ص 31)
*”یاد رکھو جتنی محبت تم حاصل کرنا چاہتے ہو اتنی ہی محبت تمہیں نچھاور بھی کرنی پڑے گی!“*(ص 32)
*”ذمہ داریوں سے تو ہر کوئی بھاگتا ہے،بس شیر دل افراد ہی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھا پاتے ہیں!“*(ص 36)
*”یاد رکھو،اللّٰہ پاک صرف مساجد میں نہیں ہوتا ہے،اگرچہ مساجد دنیا کی بہترین جگہ ہوتی ہیں،اللّٰہ پاک تو انسانوں کے درمیان بھی موجود ہوتا ہے!“*(ص 44)
*”مومن آزمائشوں سے محفوظ نہیں ہوتا،یہاں تک کہ وہ جنت میں اپنا ٹھکانا دیکھ لے!“*(ص 49)
*”وَرچوئل دنیا میں رہتے ہوئے اپنی حقیقی زندگی کو بھول مت جایا کرو،سوشل میڈیا پر ایسے مصروف نہ جایا کرو کہ اپنی حقیقی تعلقات کو نظر انداز کر ڈالو،خوابوں کے ایسے محل نہ تعمیر کرو کہ ان کے چکر میں اپنے حقیقی گھر کو منہدم کر ڈالو،مجھے ٹویٹر پر ایک ملین سے زیادہ لوگ فالو کرتے ہیں،لیکن جب میں ایک بار بری طرح بیمار پڑا تو میرے پاس میری بیوی کے سوا کوئی نہیں تھا!“*(ص 51)
*”انسان سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو اس کے روشن ماضی کو یاد کرو!۔پہلی ہی غلطی پر اس کی پچھلی تمام نیکیوں کو بھول مت جاؤ!“*(ص 52)
*”اگر تمہاری بیٹی کے لیے کوئی ایسا رشتہ آئے جس کے دین اور اخلاق پر تمہیں اطمینان نہ ہو تو اس سے رشتہ نہ کرو،اگرچہ اس کے پاس قارون کی دولت ہو،کیونکہ یہ بھی امانت میں خیانت ہے!“*(ص 53)
*”اس کائنات میں اللّٰہ پاک کا اصول ہے کہ جو جیسا کرتا ہے اس کو ویسا ہی بدلہ ملتا ہے!“*(ص 54)
*”یہ ایک بہت ہی اہم اصول ہے:اگر تم فائدہ نہیں پہنچا سکتے تو کم از کم نقصان نہ پہنچاؤ!“*(ص 56)
*”انسان پر ایسے مراحل بھی آتے ہیں،جب وہ نہ تو کچھ سن پاتا ہے اور نہ کچھ بول پاتا ہے!“*(ص 60)
*”اگر تم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے تو کم از کم اتنا تو ہوگا کہ اس مقصد کا اجر تم کو نصیب ہو جائے گا!“*(ص 64)
*”ہم میں سے ہر کوئی اپنے میدان میں اہم خدمت انجام دے رہا ہے،اور کسی سے بھی بے نیاز نہیں ہوا جا سکتا،اس لیے یہ نہ پوچھو کہ امت کب بیدار ہوگی؟ پہلی فرصت میں تم خود بیداری کا ثبوت پیش کرو!“*(ص 66)
*”اگر دین کے سپاہی نہیں بن سکتے ہو تو کم از کم دین کی رسوائی کا سبب تو نہ بنو!“*(ص 70)
*”غلطی پر ہیں وہ لوگ جو محبت اور تعلق کے اظہار کو مردانگی کے خلاف سمجھتے ہیں!“*(ص 72)
*”عرب کتنی پیاری بات کہتے تھے:بچپن کی تعلیم پتھر پر نقش کرنے جیسی ہوتی ہے،وہ زندگی بھر ساتھ رہتی ہے،بچپن میں جو تعلیم ذہن میں بٹھا دی جاتی ہے وہ ہمیشہ باقی رہتی ہے!“*(ص 73)
*”ہر وہ چیز جو اللّٰہ کی راہ میں تمہیں چھوڑنی پڑے،اس کو اس احساس کے ساتھ چھوڑو کہ”نفع کا سودا کیا!“*(ص 74)
*”معاملات کرتے وقت لوگوں کے مزاج کا خیال رکھو،ان کو خوش کر دو،تم سکون سے رہو گے!“*(ص 78)
*”زندگی کچھ اعلیٰ کرداروں کا نام ہے،انہی کرداروں میں سے کوئی ایک کردار تمہیں جنت میں لے جائے گا!“*(ص 79)
*”اپنی زندگی کو بہترین طریقے پر گزارو اور دوسروں کے چکر میں نہ پڑو!“*(ص 80)
*”محبت بانٹنے کے لیے مال کی ضرورت نہیں ہوتی،اس کے لیے زندہ”دل“ کافی ہے!“*(ص 82)
*”شوہر کو سکون اسی لڑکی کے پاس ملتا ہے جو بے پردگی اور عریانیت سے محفوظ رہتی ہے!“*(ص 83)
*”اللّٰہ کو تمام طرح کی عبادتیں پسند ہیں،لیکن وہ اذیت رسانی پسند نہیں کرتا! قیامت کے دن سب سے بوجھل انسان وہ ہوگا جو پہاڑوں کے برابر نیکیاں لے کر آیا ہوگا،لیکن دنیا کی زندگی میں اس کی اذیت رسانی سے متاثر لوگ اس پورے پہاڑ کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے لے جائیں گے!“*(ص 84)
*”قدیم عربی کہاوت ہے:جس نے دوسروں کو مشورے میں شریک کیا،اس نے سب کی عقلوں سے فائدہ اٹھایا!“*(ص 87)
*”یاد رکھو،یہ دین بہت قیتی ہے،اس کو ہرگز ہرگز ضائع نہ کرنا!“*(ص 91)
*”زندگی کا یہ اصول ہے کہ اس میں وہی کامیاب ہوتا ہے جو سرینڈر نہیں کرتا!“*(ص 92)
*”گھریلو جھگڑوں میں سب سے بہادر وہی ہوتا ہے جو سب سے زیادہ بزدلی کا مظاہرہ کرے!۔یہ کون سی فتح یا کامیابی ہوئی جس میں انسان اپنے ہی لوگوں کی جان کے درپے ہو جائے!“*(ص 93)
*”تمہاری کچھ عبادات خالص تمہارے اور اللّٰہ کے درمیان ہونی چاہئیں!“*(ص 98)
*”جس طرح اللّٰہ کی راہ میں مرنا بہت بڑی بات ہے،اسی طرح اللّٰہ کی راہ میں جینا بھی بہت بڑی بات ہے!“*(ص 100)
*”صالحین کا معمول تھا کہ وہ دعاؤں کے قبول ہونے سے زیادہ دعاؤں کے قبول نہ ہونے پر خوش ہوتے تھے،کیونکہ جو دعائیں قبول ہوگئیں وہ ان کی اپنی پسند اور انتخاب کا معاملہ تھا،لیکن جو دعائیں قبول نہیں ہوئیں وہ اللّٰہ کی پسند اور انتخاب کا معاملہ ہے!“*(ص 102)
*”دل کی موت اس گناہ سے نہیں ہوتی جو تمہیں رُلا دے،بلکہ اس گناہ سے ہوتی ہے جو تمہاری عقل پر پردہ ڈال دے!“*(ص 104)
*”امت نے وہ دور بھی دیکھا تھا کہ اس کے لشکر ایک عورت کی عصمت کے لیے نکل پڑتے تھے!“*(ص 105)
*”یہ دین اعتدال،توازن اور وسطیت کا دین ہے،یہاں نہ غلو ہے اور نہ تفریط!“*(ص 107)
*”اللّٰہ کی طرف سے عبادات کے کچھ خاص مواقع ہوتے ہیں،ان میں اجر و ثواب کافی بڑھ جاتا ہے،ان کو غنیمت جاننا چاہیے!“*(ص 112)
*”انسان اللّٰہ کا کنبہ ہیں،اور اللّٰہ کے نزدیک محبوب تر وہ ہے جو انسانوں کے لیے اچھا ہے!“*(ص 116)
*”جسے اللّٰہ نے رقتِ قلب کی نعمت دی،اسے بے پناہ نعمتوں سے نوازا!“*(ص 117)
*”تمہاری سہیلی کا شوہر اپنی بیوی کے لیے سونا خرید سکتا ہے لیکن تمہارا شوہر اس پوزیشن میں نہیں ہے،اس لیے اس سوچ کو اپنے اندر سے نکال دو کہ تمہاری زندگی دوسروں کی کاپی بن کر رہے گی!“*(ص 119)
*”بچوں کے پاس تمہاری یادوں کے نام پر صرف وہ محبت ہوتی ہے جو تم ان پر نثار کرتے ہو!“*(ص 120)
*”اگر کبھی تنگی کا سامنا ہو تو فوراً یاد کر لینا کہ تمہارے آقا کس چٹائی پر سوتے تھے!“*(ص 122)
*”اگر تمہیں کسی نے رازدار بنا دیا ہے تو اس کی حفاظت کرو،چاہے جان چلی جائے!“*(ص 123)
*”بہت سے لوگ آپ کی مخالفت اپنے مسائل کی وجہ سے کریں گے،نہ کہ آپ کی وجہ سے!“*(ص 125)
*”نیتوں کا معاملہ بھی حیرت انگیز ہے،یہ فساد کی شکار ہوتی ہیں تو کتنے ہی اعمال اِکارت چلے جاتے ہیں“*(ص 129)
*”علم ایک ایسا سمندر ہے جس کا کوئی ساحل نہیں،جو لوگ سمندر میں کبھی نہیں اترے وہی یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ سمندر تو محض پانی کی ایک جگہ ہے!“*(ص 132)
*”اگر تم معصیت سے نہیں بچ پا رہے ہو،تو نیکیوں میں اضافہ کر لو،اور ان نیکیوں کے ذریعہ معصیت کو زیر کرنے کی کوشش کرو!“*(ص 134)
*”نبیﷺ پر کثرت سے درود بھیجنے پر ضرورتیں پوری ہوتی ہیں،فکرمندیوں کا ازالہ ہوتا ہے،کوتاہیاں معاف ہو جاتی ہیں،اور مشکلات حل ہو جاتی ہیں!“*(ص 135)
*”اللّٰہ کی طرف رجوع کرو،اور کبھی اپنے گناہوں کو اپنے اوپر سوار مت ہونے دو!“*(ص 138)
*”ہم سعی و جہد کر کے اللّٰہ کی عبادت کا حق ادا کرتے ہیں،نتائج اللّٰہ کے حوالے!“*(139)
*”بھاری اور مہنگی شادی کر کے قرض میں ڈوب جانے سے بہتر ہے کہ سادگی والی اور آسان شادی کر لی جائے!“*(ص 145)
*”مالک بن دینار کہا کرتے تھے:ایک لاکھ درہم صدقہ کرنے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ ایک عدد حرام درہم سے بچ کر رہا جائے!“*(ص 152)
*”بڑی بڑی کاروں والوں کو دیکھنے کے بجائے ان لوگوں کو دیکھو جن کے پاس چلنے کو پیر بھی نہیں ہیں!“*(ص 156)
*”اگر حرام پر حلال کا غلاف چڑھانا چاہو گے،تو بہت سے غلاف مل جائیں گے لیکن اگر دین کی تعلیمات پر عمل کرنا چاہتے ہو،تو یاد رکھو،یہ دین ایک ہی ہے!“*(ص 160)
*”اگر تمہارا نام کہیں نہیں آتا تو کوئی بات نہیں،اللّٰہ تمہیں خوب جانتا ہے!“*(ص 161)
*”دعا کی قبولیت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ حرام مال ہے“*(ص 166)
*”راستے پر جھاڑو لگانے والا ایک دین دار اور بااخلاق انسان ہزاروں ڈاکٹروں سے بہتر ہو سکتا ہے!“*(ص 172)
*”زندگی کے ہر موڑ پر اور ہر مرحلے پر اس نصیحت سے سبق لیتے رہنا:ڈٹے رہو،یہاں تک مجھ سے حوضِ کوثر پر ملاقات ہو جائے!“*(ص 174)
*”کبھی کبھی برانڈ،فیشن اور اس جیسی چیزوں کے پیچھے بھاگنا حماقت،فضول خرچی اور ناشکری تک پہنچا دیتا ہے!“*(ص 183)
*”ہمیشہ نیک بن کر رہو،اور اُس بندے کا احسان کبھی نہ بھولو،جو مشکل وقت میں کام آیا تھا!“*(ص 188)
*”قابلِ مبارک باد ہیں وہ لوگ،جن کے خون کا پہلا قطرہ گرنے سے پہلے ہی ان کی مغفرت کر دی جاتی ہے!“*(ص 190)
*”اپنے دل پر زیادہ سے زیادہ توجہ دو،یہی اکیلا رفیق ہے جو آخر تک تمہارا ساتھ دے گا!“*(ص 203)
*”اگر تم دوسرے انسانوں کی تکلیف اور ضرورت کا احساس رکھتے ہو تو تم انسان ہو!“*(ص 217)
*”زبان میں ہڑی نہیں ہوتی لیکن یہ ہڑیاں توڑ ڈالتی ہے،کتنے ہی لوگ اس زبان سے پہنچے گہرے زخم کے سبب رات رات بھر سو نہیں پاتے!“*(ص 230)
*”ہر میدان میں ماہرین کو تلاش کرو،یہ تمہارے لیے گم شدہ سرمایے کی مانند ہوتے ہیں!“*(ص 245)
*”یہ بات ہمیشہ یاد رکھنا کہ:اللّٰہ رب العزت ذلت پر راضی رہ جانے والے بندوں کو پسند نہیں کرتا!“*(ص 272)
*”آج کل ہمارے ساتھ بڑی مشکل یہ ہے کہ ہر کوئی مفتی بنا بیٹھا ہے!“*(ص 324)
*”ہم ہر روز جنت کی طرف اپنے قدم بڑھا سکتے ہیں،بس اس کے لیے لوگوں سے اسلامی اخلاق کے ساتھ پیش آنا پڑے گا!“*(ص 330)
*”ہمیشہ داعی بن کر رہنا چاہیے،قاضی بننے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے!“*(ص 331)
*”محبت اسی کو تو کہتے ہیں کہ تم محبوب کی خوشی میں اپنی خوشی محسوس کرو!“*(ص 344)
Comments
Post a Comment