The Sacrifices Of Prophet Ibrahim (A.S.) And Us


  

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اُس ماحول میں اپنی آنکھیں کھولیں جہاں چہار جانب شرک،بت سازی،بت پرستی اور مادہ پرستی کا بازار گرم تھا۔لوگ وہاں شکل کے لحاظ سے انسان لیکن انسانیت کے صفت سے کوسوں دور تھے۔انہیں اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے بتوں کو پوجنے پر بڑا ناز تھا اور اسی فعلِ بد میں وہ شب و روز مصروف تھے۔ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگ چکی تھی اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا تھا کیونکہ وہ فطرتِ سلیمہ سے جنگ کرنے پر تُلے ہوئے تھے۔وہ اپنی ساری خداداد صلاحیتوں کو پتھر اور لکڑی کے ٹکڑوں پر صرف کر رہے تھے۔مقاصدِ زندگی کو بچانے اور ضروریاتِ زندگی کو قربان کرنے سے وہ ناآشنا تھے۔وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ مقاصد کے زندہ رہنے سے زندگی محفوظ ہوتی ہے اور مقاصد کے مٹ جانے سے زندگی تباہ و برباد ہو جاتی ہے۔پورا ماحول وہاں حرص و ہوس سے جکڑا ہوا تھا اور انسانوں کے اذہان محدود و مقید تھے،جو ایک تنگ دائرے کے ارد گرد گھوم رہے تھے۔مادیت کا اس حد تک غلبہ تھا کہ روحانیت کے لفظ سے ہی وہ متنفر تھے۔باپ دادا کی اندھی تقلید میں وہ بری طرح مبتلا تھے اور رسم و رواج کی بیڑیوں میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔مجموعی طور پر پوری قوم کا شیرازہ منتشر ہو چکا تھا کیونکہ لوگوں کے قلبی احساسات،ذہنی لگاؤ اور جسمانی اعمال میں یکسانی و ہم آہنگی کے بجائے بُعد اور تصادم جاری تھا۔خواہشات کی اتباع کی وجہ سے لوگوں نے اپنے دلوں میں فطرت کا نُور بجھا دیا تھا۔یہ گناہوں کا ہی منطقی نتیجہ تھا کہ اُن کے دل پتھروں کے مانند ہوگئے تھے اس لیے وہ حق کی دعوت کو سننے کے روادار نہ تھے بلکہ اس کی مخالفت میں پیش پیش تھے۔


حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عزلت نشینی اور گوشہ گیری اختیار کرنے کے بجائے اپنی قوم کے ایک ایک دروازے پر دستک دی تاکہ لوگوں پر فریضہ دعوت و تبلیغ کی حجت قائم ہو سکے۔آپ علیہ السلام اپنی ذمہ داری کی گراں باریوں سے بخوبی واقف تھے،یہی وجہ ہے کہ آپ علیہ السلام نے زندگی کا ہر زخم اور ہر دکھ اس بارِ امانت کی ادائیگی کے سلسلے میں نہایت صبر و سکون سے برداشت فرمایا۔انہوں نے ناموافق و نامساعد حالات میں اللّٰہ تعالیٰ کی دعوت پیش کی اور تنِ تنہا وقت کی قوتوں سے ٹکراتے ہوئے زندگی گزاری۔وہ کبھی وقت کا دھارا تبدیل کرنے میں کامیاب ہوگئے اور کبھی اس راہ میں کام آکر استقامت اور اپنے موقف کی حقانیت کا چراغ روشن کر گئے،بعد میں آنے والی نسلوں نے جس سے روشنی پائی۔آپ علیہ السلام نے محض اپنے رب سے محبت و خلت اور اس راستے میں ایثار و قربانی کی بے نظیر اور درخشاں مثالیں چھوڑ کر ہمارے لیے ہدایت کے بینات کا سامان فراہم کیا۔آپ علیہ السلام نے دعوت کے میدان میں قدم رکھتے ہی”لومۃ لائم“کی پرواہ کیے بغیر ڈنکے کی چوٹ کہا کہ میرا اس خدا بیزار معاشرہ کے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔پوری قوم حق و باطل کی آمیزش سے ایک نظام برپا کرنا چاہتے تھے لیکن آپ علیہ السلام نے اعلان برات اختیار کرتے ہوئے اپنے موقف کا برملا اظہار کیا اور کمپرومائز کی دعوت کو بلا خوف و تردد مسترد کر دیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اِن کی دعوت تو کفر اور ایمان،نور و ظلمت،زمین اور آسمان اور آگ اور پانی کو اکٹھا کرنے والی بات ہے جسے کسی بھی صورت میں قبول نہیں کیا جائے گا۔علامہ اقبالؒ نے اسی حقیقت کو اپنے الفاظ میں اس طرح پیش کیا ہے؎

          *باطل دُوئی پسند ہے،حق لا شریک ہے*

          *شِرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول!*


حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی سراسر امتحان و ابتلاء سے عبارت تھی۔آپ علیہ السلام نے راہِ خدا میں بلا کسی تامل و ہچکچاہٹ کے ہر قسم کی قربانی دی اور یہی وجہ ہے کہ آپ ہر امتحان میں کامیاب رہے۔آپ علیہ السلام کا آخری امتحان،جسے اللّٰہ تعالیٰ نے”بلاء مبین“ کہہ کر لوگوں پر آشکارا کیا کہ یہ واقعتاً ایک بہت بڑی آزمائش تھی،جس سے گزرنا ناممکن اور جس کا تصور بھی کپکپا دینے کے لیے کافی ہے۔اپنے لختِ جگر کو صرف اللّٰہ تعالیٰ کی رضامندی کے لیے رب کے حضور پیش کرنا ہی وہ ہوش ربا عمل تھا جس نے رہتی دنیا تک”وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ“کی شاندار اور منفرد تفسیر قائم کر دی۔آپ علیہ السلام نے زندگی میں قدم بقدم مصائب کو ایمان کے راستے کی سنت سمجھا اور وہ بخوبی جانتے تھے کہ ایمان کا کھرا اور کھوٹا ہونا مصائب و مشکلات میں مبتلا ہونے کے بعد ہی واضح ہو جاتا ہے،یہ راہِ حق کی آزمائشیں ہی ہیں جو اللّٰہ سے محبت کا دعویٰ کرنے والوں کو ہمیشہ پیش آتی ہیں کیونکہ؎

       جفا جو عشق میں ہوتی ہے وہ جفا ہی نہیں

       ستم نہ ہو تو محبت میں کچھ مزا ہی نہیں

                                                      (علامہ اقبالؒ)


حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کا ایک ایک صفحہ جاں بازی اور جاں سپاری کے کارناموں سے روشن ہے۔آپ علیہ السلام کا دل ہر وقت اللّٰہ کے لیے ٹڑپتا تھا اور آپ علیہ السلام اس کی رضا پر قربان ہونے کے لیے ہر دم بے چین رہتے تھے۔آپ علیہ السلام نے ہمیشہ زندگی میں عزیمت و استقامت اور اطاعت و محبت الٰہی کا ثبوت دیا۔اگرچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کے ہر ایک پہلو میں ہمارے لیے عبرت اور نصیحت ہے لیکن آپ علیہ السلام کی زندگی کا نمایاں پہلو قربانی ہے۔راہِ وفا میں ہم جس بڑی سے بڑی قربانی کا تصور کر سکتے ہیں،آپ علیہ السلام نے وہ قربانی پیش کی اور یہی وجہ ہے کہ انہیں اللّٰہ رب العزت نے کامیابی کی نوید سنائی اور تمغہ اعزاز”إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا“ کا خِلْعَت پیغمبری پر ایسا سجایا کہ آج بھی چمکتا اور دمکتا نظر آرہا ہے۔آپ علیہ السلام نے یہ ثابت کر کے ہمارے لیے انمٹ نقوش چھوڑے کہ گھر ہو یا وطن،دولت ہو یا اقتدار،بیوی ہو یا فرزند،یہ تعلق اور محبت کے تمام حوالے بہت عزیز ہیں،لیکن اللّٰہ سے تعلق اور اس کی محبت ان سب سے بڑھ کر ہے،جس کے مقابلے میں ان میں سے کسی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ایک مومن سب سے زیادہ اللّٰہ تعالیٰ سے محبت کرتا ہے،اس حوالے سے ڈاکٹر محمد اسلم صدیقیؒ لکھتے ہیں کہ:

”ایک مومن وہ اپنی تمام ضرورتیں رکھتا ہوا بھی غیر مشروط محبت کا تعلق صرف اپنے اللّٰہ سے رکھتا ہے۔اسے اپنے ماں باپ،اپنے بیوی بچوں،اپنے دوست احباب اور ضرورت کی اور چیزوں سے بھی پیار اور محبت ہے۔لیکن اس محبت کو وہ اللّٰہ کی محبت پر کبھی غالب نہیں آنے دیتا۔جب بھی ان دونوں محبتوں میں تصادم ہوتا ہے تو اللّٰہ کی محبت کے سامنے باقی ہر محبت دم توڑ جاتی ہے۔حتیٰ کہ آدمی کی اپنی ذات اللّٰہ کی محبت کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔اللّٰہ کی محبت کا حق ادا کرتے ہوئے اگر مال لٹانا پڑے تو وہ دریغ نہیں کرتا،بچوں کی قربانی دینا پڑے تو وہ اس کے لیے تیار رہتا ہے،حتیٰ کہ اپنی ذات کو بھی اگر قربان کرنا پڑے تو اسے وہ نعمت غیر مترقبہ خیال کرتا ہے۔ایک مومن اور غیر مومن میں یہی وہ حقیقی فرق ہے جو دونوں کی حقیقی پہچان ہے۔مومن مردم بےزار نہیں ہوتا کہ وہ کسی سے بھی تعلق نہ رکھے،وہ نہایت دلآویز شخصیت کا مالک ہوتا ہے۔مسلمان کے لہو میں دل نوازی کا سلیقہ پایا جاتا ہے۔مروت و اخوت مومن کا وہ حسن عالمگیر ہے جس سے پوری دنیا نے فائدہ اٹھایا ہے۔وہ ایک شفیق باپ،ایک پیار کرنے والا شوہر،ایک ایثار کرنے والا بھائی،ایک مروت سے کام لینے والا شہری ہے۔جس کی ایک ایک ادا سے اپنائیت جھلکتی ہے۔لیکن اس کے یہ تمام تعلقات محبت کی اس سطح سے نیچے رہتے ہیں جہاں سے اللّٰہ کی محبت شروع ہوتی ہے۔ضرورت پڑنے پر اس طرح کی تمام محبتیں اللّٰہ کی محبت پر قربان کر دی جاتی ہیں۔لیکن اس کی ذات،اس کی صفات،اس کے احکام اور اس کے حقوق سے محبت کو کسی صورت بھی قربان نہیں کیا جاسکتا۔“(روح القرآن،جلد اول،ص ٥٨١-٥٨٢)


آپ علیہ السلام کی بے لوث قربانیاں ہمیں یہی سبق سکھاتی ہیں کہ جب تک ایک انسان اپنے مال و دولت اور رشتہ و پیوند سے زیادہ اللّٰہ سے محبت نہ رکھے تب تک اس کے لیے اللّٰہ رب العزت کی قُربت کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا ہے۔ذیل کی آیتِ مبارکہ اسی حقیقت کی عکاسی کر رہی ہے:

قُلۡ اِنۡ كَانَ اٰبَآؤُكُمۡ وَاَبۡنَآؤُكُمۡ وَاِخۡوَانُكُمۡ وَاَزۡوَاجُكُمۡ وَعَشِيۡرَتُكُمۡ وَ اَمۡوَالُ ۨاقۡتَرَفۡتُمُوۡهَا وَتِجَارَةٌ تَخۡشَوۡنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرۡضَوۡنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَيۡكُمۡ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ وَ جِهَادٍ فِىۡ سَبِيۡلِهٖ فَتَرَ بَّصُوۡا حَتّٰى يَاۡتِىَ اللّٰهُ بِاَمۡرِهٖ‌ ؕ وَاللّٰهُ لَا يَهۡدِى الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِيۡنَ۔(التوبہ:24)

*”(اے نبی ﷺ! ان سے) کہہ دیجیے کہ اگر تمہارے باپ تمہارے بیٹے تمہارے بھائی تمہاری بیویاں(اور بیویوں کے لیے شوہر) تمہارے رشتہ دار اور وہ مال جو تم نے بہت محنت سے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس کے مندے کا تمہیں خطرہ رہتا ہے اور وہ مکانات جو تمہیں بہت پسند ہیں(اگر یہ سب چیزیں) تمہیں محبوب تر ہیں اللّٰہ اس کے رسول اور اس کے رستے میں جہاد سے تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللّٰہ اپنا فیصلہ سنا دے اور اللّٰہ ایسے فاسقوں کو راہ یاب نہیں کرتا۔“*

ڈاکٹر اسرار احمدؒ اس آیتِ مبارکہ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: 

”یہاں آٹھ چیزیں گنوا دی گئی ہیں کہ اگر ان آٹھ چیزوں کی محبتوں میں سے کسی ایک یا سب محبتوں کا جذبہ اللّٰہ،اس کے رسول اور اس کے رستے میں جہاد کی محبتوں کے جذبے کے مقابلے میں زیادہ ہے تو پھر اللّٰہ کے فیصلے کا انتظار کرو۔یہ بہت سخت اور رونگٹے کھڑے کردینے والا لہجہ اور انداز ہے۔ہم میں سے ہر شخص کو چاہیے کہ اپنے باطن میں ایک ترازو نصب کرے۔اس کے ایک پلڑے میں یہ آٹھ محبتیں ڈالے اور دوسرے میں اللّٰہ،اس کے رسولﷺ اور جہاد کی تین محبتیں ڈالے اور پھر اپنا جائزہ لے کہ میں کہاں کھڑا ہوں! چونکہ انسان خود اپنے نفس سے خوب واقف ہے بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہٖ بَصِیْرَۃٌ (القیامہ)اس لیے اسے اپنے باطن کی صحیح صورت حال معلوم ہوجائے گی۔بہر حال اس سلسلے میں ہر مسلمان کو معلوم ہونا چاہیے کہ اگر تو اس کی ساری خواہشیں،محبتیں اور حقوق بیوی،اولاد،نفس وغیرہ کے حقوق ان تین محبتوں کے تابع ہیں تو اس کے معاملات ایمان درست ہیں،لیکن اگر مذکورہ آٹھ چیزوں میں سے کسی ایک بھی چیز کی محبت کا گراف اوپر چلا گیا تو بس یوں سمجھیں کہ وہاں توحید ختم ہے اور شرک شروع ! اسی فلسفہ کو علامہ اقبالؒ نے اپنے اس شعر میں اس طرح پیش کیا ہے:

      یہ مال و دولت دنیا،یہ رشتہ و پیوند 

      بتان وہم و گماں،لَا اِلٰہَ الاَّ اللّٰہ!

آیت زیر نظر میں جو آٹھ چیزیں گنوائی گئی ہیں ان میں پہلی پانچ رشتہ وپیوند کے زمرے میں آتی ہیں جب کہ آخری تین مال و دولت دنیا کی مختلف شکلیں ہیں۔علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ ان چیزوں کی اصل میں کوئی حقیقت نہیں ہے،یہ ہمارے وہم اور توہم کے بنائے ہوئے بت ہیں۔جب تک لَا اِلَہ الاَّ اللّٰہ کی شمشیر سے ان بتوں کو توڑا نہیں جائے گا،بندۂ مومن کے نہاں خانۂ دل میں توحید کا علم بلند نہیں ہوگا۔“(بیان القرآن)

Comments

Post a Comment