🌹 *سجدہ:ہر درد کا درماں*🌹


✍️ ندیم احمد میر


    آج جب ہم اپنے معاشرے پر نظر دوڑاتے ہیں(جس کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے ) تو ہر ایک انسان کو کسی نہ کسی پریشانی میں مبتلا دیکھتے ہیں۔ماضی،حال اور مستقبل کے تفکرات نے ہر انسان کو جیسے بے چین کر رکھا ہے۔زندگی کی بے شمار مصروفیات انسان کو تھکا دیتی ہیں،جس سے اس پر بیزاری طاری ہو جاتی ہے اور وہ نئے کاموں کے لیے پُرعزم نہیں ہو پاتا ہے۔دورِ حاضر میں انسان اگرچہ سورج کی شعاعوں کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگیا لیکن اس کے باوجود بھی وہ اُداس دل،پریشان ذہن اور بوجھل کندھے لیے ہوئے پھرتا ہے۔اس کے وجود کے اوپر مایوسی کے بادل اور مصیبتوں کے پہاڑ ہیں اور اس کی کشتی بھنور میں بری طرح پھنس کر ہچکولے لے رہی ہے۔اس کی عقل تھکی ہوئی،دل بُجھا سا اور سینہ تنگ ہو چکا ہے اور بیچارہ اب دلی سکون کی خاطر در در کی ٹھوکریں کھا رہا ہے۔تمام اقسام کی آسائش و سہولیات میسر ہونے کے باوجود بھی ذہنی دباؤ(Depression)کا شکار ہے۔اس کے مسائل کی ایک لمبی فہرست ہے لیکن ان کا حل ڈھونڈنے سے بھی اسے نہیں ملتا ہے۔اپنی سوچوں سے نکلنا بھی چاہتا ہے لیکن نکل نہیں پاتا اور خوف کے مارے اب چھوٹے چھوٹے مسائل بھی اسے پہاڑ جیسے دِکھنے لگتے ہیں۔امرِ واقعہ ہے کہ وہ لامحدود خواہشیں اور تمنائیں لیے ہوئے ہے جسے یہ محدود دنیا میں پورا کرنا چاہتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کا پورا وجود تھکا ماندہ پڑا ہوا ہے۔

یہ شب و روز صرف ایک سوال پر غور و خوض کرتا ہے کہ آخر میرے اس دردِ پیہم کا درماں کہاں ہے؟ اللّٰہ تعالیٰ انسان پر بے انتہا شفیق اور مہربان ہے جو ہمیشہ چاہتا ہے کہ مصائب و مشکلات میں یہ گِھرا ہوا بندہ میرے دربار میں”سجدہ“کر کے دائمی سکون کا پروانہ اپنے ساتھ لے کر جائے۔یہ وہی اللّٰہ ہے جس کے ہاں اپنے بندے کا ہر زخم بھرا جاتا ہے کیونکہ اسے اس کا ہر زخم یاد ہوتا ہے اور یہ واحد اس کی ذات ہے جو اعلان کر رہی ہے کہ:
وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا‌۔(مریم:64)
*”اور تمہارا ربّ بُھولنے والا نہیں ہے۔“*

سجدہ کیا ہے؟ سجدہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ایک عبادی عمل ہے جس میں خشوع و خضوع اور تعظیم کی خاطر خدا کے سامنے اپنی پیشانی رکھی جاتی ہے۔اس کائنات میں جب انسان نے پہلے آنکھ کھولی تو فرمانبرداری کے جس عمل سے وہ آشنا ہوا وہ سجدہ ہی تھا۔اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں فرشتے بھی موجود تھے اور ابلیس بھی اور اللّٰہ تعالیٰ انہیں آدم علیہ السّلام کے بارے میں حکم ارشاد فرما رہے تھے کہ:
وَاِذۡ قَالَ رَبُّكَ لِلۡمَلٰۤئِكَةِ اِنِّىۡ خَالـِقٌۢ بَشَرًا مِّنۡ صَلۡصَالٍ مِّنۡ حَمَاٍ مَّسۡنُوۡنٍ‏۔فَاِذَا سَوَّيۡتُهٗ وَنَفَخۡتُ فِيۡهِ مِنۡ رُّوۡحِىۡ فَقَعُوۡا لَهٗ سٰجِدِيۡنَ۔(الحجر:29۔28)
*”پھر یاد کرو اُس موقع کو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ”میں سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے ایک بشر پیدا کر رہا ہوں۔جب میں اُسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر جانا“۔*
کیونکہ آدم علیہ السّلام کو سجدہ کرنا اللّٰہ تعالیٰ کے حکم کی فرمانبرداری تھی،پس فرشتوں نے سجدہ کیا اور فرمانبردار کہلائے لیکن ابلیس نے انکار کیا،جس کی وجہ سے ملعون ٹھہرا اور راندہ درگاہ ہوگیا۔

اللّٰہ تعالیٰ کو اپنے کمزور بندے کا سجدہ بے حد پسند ہے اور یہی وجہ ہے کہ قرآنِ پاک میں اللّہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر سجدہ کرنے والوں کی تعریف فرمائی ہے۔اللّٰہ تعالیٰ راتوں کو قیام کرنے والے مومنین کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں:
وَالَّذِيۡنَ يَبِيۡتُوۡنَ لِرَبِّهِمۡ سُجَّدًا وَّقِيَامًا۔(الفرقان:64)
*”جو اپنے ربّ کے حضور سجدے اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں۔“*

اللہ تعالی اصحابِ محمدﷺ کی تعریف بھی سجدہ کے ساتھ کرتے ہیں:
مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰهِ‌ ؕ وَالَّذِيۡنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الۡكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيۡنَهُمۡۖ ‌ تَرٰٮهُمۡ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضۡوَانًا‌ۖ سِيۡمَاهُمۡ فِىۡ وُجُوۡهِهِمۡ مِّنۡ اَثَرِ السُّجُوۡدِ‌ ؕ ذٰلِكَ مَثَلُهُمۡ فِى التَّوۡرٰٮةِ ۛ ۖۚ وَمَثَلُهُمۡ فِى الۡاِنۡجِيۡلِ۔(الفتح:29)
*”محمدؐ اللہ کے رسول ہیں،اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں۔تم جب دیکھو گے انہیں رکوع و سجود،اور اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی طلب میں مشغول پاؤ گے۔سجود کے اثرات ان کے چہروں پر موجود ہیں جن سے وہ الگ پہچانے جاتے ہیں۔یہ ہے ان کی صفت توراة میں اور انجیل  میں۔“*

اللّٰہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے والے لوگوں کی علامت یہ ہے کہ جب انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو وہ اللّٰہ کے حضور سجدے میں گر جاتے ہیں۔ارشاد ربانی ہے:
اِنَّمَا يُؤۡمِنُ بِاٰيٰتِنَا الَّذِيۡنَ اِذَا ذُكِّرُوۡا بِهَا خَرُّوۡا سُجَّدًا وَّسَبَّحُوۡا بِحَمۡدِ رَبِّهِمۡ وَهُمۡ لَا يَسۡتَكۡبِرُوۡنَ۔(السجدہ:15)
*”ہماری آیات پر تو وہ لوگ ایمان لاتے ہیں جنہیں یہ آیات سُنا کر جب نصیحت کی جاتی ہے تو سجدے میں گر پڑتے ہیں اور اپنے ربّ کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے۔“*

اللّٰہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں سجدہ کو ان الفاظ میں ہدایت یافتہ لوگوں کی نشانی قرار دیتے ہیں:
اُولٰٓئِكَ الَّذِيۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰهُ عَلَيۡهِمۡ مِّنَ النَّبِيّٖنَ مِنۡ ذُرِّيَّةِ اٰدَمَ وَمِمَّنۡ حَمَلۡنَا مَعَ نُوۡحٍ وَّمِنۡ ذُرِّيَّةِ اِبۡرٰهِيۡمَ وَاِسۡرَآءِيۡلَ وَمِمَّنۡ هَدَيۡنَا وَاجۡتَبَيۡنَا‌ ؕ اِذَا تُتۡلٰى عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتُ الرَّحۡمٰنِ خَرُّوۡا سُجَّدًا وَّبُكِيًّا۔(مریم:58)
*”یہ وہ پیغمبر ہیں جن پر اللہ نے انعام فرمایا آدمؑ کی اولاد میں سے،اور اُن لوگوں کی نسل سے جنہیں ہم نے نوحؑ کے ساتھ کشتی پر سوار کیا تھا،اور ابراہیمؑ کی نسل سے اور اسرائیلؑ کی نسل سے اور یہ ان لوگوں میں سے تھے جن کو ہم نے ہدایت بخشی اور برگزیدہ کیا ان کا حال یہ تھا کہ جب رحمان کی آیات ان کو سنائی جاتیں تو روتے ہوئے سجدے میں گر جاتے تھے۔“*

سجدہ اللّٰہ تعالیٰ پر ایمان لانے والوں کی علامت ہے۔اس حوالے سے ہمیں قرآنِ پاک سیدنا موسی علیہ السّلام اور جادوگروں کا قصہ سناتے ہیں۔جب ان پر حق واضح ہوگیا تو وہ اپنے رب پر کامل ایمان لاتے ہوئے سجدے میں گر گئے:
فَاُلۡقِىَ السَّحَرَةُ سُجَّدًا قَالُوۡۤا اٰمَنَّا بِرَبِّ هٰرُوۡنَ وَمُوۡسٰى۔(طہ:70)
*”آخر کو یہی ہوا کہ سارے جادُوگر سجدے میں گِرا دیے گئے اور پُکار اُٹھے”مان لیا ہم نے ہارونؑ اور موسیٰؑ کے ربّ کو۔“*

اللّٰہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں سجدے کو ان الفاظ میں فرمانبرداری کی علامت قرار دیتے ہیں:
اَمَّنۡ هُوَ قَانِتٌ اٰنَآءَ الَّيۡلِ سَاجِدًا وَّقَآئِمًا يَّحۡذَرُ الۡاٰخِرَةَ وَيَرۡجُوۡا رَحۡمَةَ رَبِّهٖ‌ؕ قُلۡ هَلۡ يَسۡتَوِى الَّذِيۡنَ يَعۡلَمُوۡنَ وَالَّذِيۡنَ لَا يَعۡلَمُوۡنَ‌ؕ اِنَّمَا يَتَذَكَّرُ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ۔(الزمر:9)
*”(کیا اِس شخص کی روش بہتر ہے یا اُس شخص کی)جو مطیعِ فرمان ہے،رات کی گھڑیوں میں کھڑا رہتا اور سجدے کرتا ہے،آخرت سے ڈرتا اور اپنے ربّ کی رحمت سے اُمید لگاتا ہے؟ اِن سے پوچھو،کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں کبھی یکساں ہو سکتے ہیں؟نصیحت تو عقل رکھنے والے ہی قبول کرتے ہیں۔“*

قرآنِ پاک کے علاوہ احادیثِ مبارکہ میں بھی سجدے کی اہمیت و فضیلت بیان کی گئی ہے۔کائنات کی ہر ایک چیز سجدہ کرتی ہے،جس کا بیّن ثبوت سورۃ النحل آیت نمبر ٤٩ پیش کر رہی ہے۔اس حوالے سے ایک روایت بھی ملاحظہ کیجیے:
”حضرت ابو ذر غفاریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ  نے جب سورج غروب ہوا تو ان سے پوچھا کہ تم کو معلوم ہے یہ سورج کہاں جاتا ہے؟ میں نے عرض کی کہ اللّٰہ اور اس کے رسول ہی کو علم ہے۔آپﷺ نے فرمایا کہ یہ جاتا ہے اور عرش کے نیچے پہنچ کر پہلے سجدہ کرتا ہے۔پھر(دوبارہ آنے)کی اجازت چاہتا ہے اور اسے اجازت دی جاتی ہے اور وہ دن بھی قریب ہے،جب یہ سجدہ کرے گا تو اس کا سجدہ قبول نہ ہوگا اور اجازت چاہے گا لیکن اجازت نہ ملے گی۔بلکہ اس سے کہا جائے گا کہ جہاں سے آیا تھا وہیں واپس چلا جا۔چناچہ اس دن وہ مغربی ہی سے نکلے گا۔اللہ تعالیٰ کے فرمان والشمس تجري لمستقر لها ذلک تقدير العزيز العليم(یٰسٓ:38) میں اسی طرف اشارہ ہے۔“(بخاری:3199)

سجدہ کرنے والی پیشانی کا مقام اللّٰہ تعالیٰ کے ہاں بہت اعلیٰ و ارفع ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے جہنم کی آگ نہیں کھائے گی،جس پر ذیل کی روایت شاہد ہے:
حضرت ابوہریرہؓ نے بیان کیا کہ کچھ لوگوں نے عرض کیا:یا رسول اللہ! کیا قیامت کے دن ہم اپنے رب کو دیکھ سکیں گے۔نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ کیا سورج کو دیکھنے میں تمہیں کوئی دشواری ہوتی ہے جبکہ اس پر کوئی بادل(ابر) وغیرہ نہ ہو؟ صحابہ نے عرض کیا:نہیں یا رسول اللہ! نبی کریمﷺ  نے فرمایا کہ کیا جب کوئی بادل نہ ہو تو تمہیں چودہویں رات کے چاند کو دیکھنے میں کوئی دشواری ہوتی ہے؟ صحابہ نے عرض کیا:نہیں یا رسول اللہ! آپﷺ نے فرمایا کہ پھر تم اللہ تعالیٰ کو اسی طرح قیامت کے دن دیکھو گے۔اللہ تعالیٰ لوگوں کو جمع کرے گا اور کہے گا کہ تم میں سے جو شخص جس چیز کی پوجا پاٹ کیا کرتا تھا وہ اسی کے پیچھے لگ جائے،چناچہ جو لوگ سورج کی پرستش کیا کرتے تھے وہ اس کے پیچھے لگ جائیں گے اور جو لوگ چاند کی پوجا کرتے تھے وہ ان کے پیچھے ہو لیں گے۔جو لوگ بتوں کی پرستش کرتے تھے وہ ان کے پیچھے لگ جائیں گے اور آخر میں یہ امت باقی رہ جائے گی اور اس میں منافقین کی جماعت بھی ہوگی،اس وقت اللہ تعالیٰ ان کے سامنے اس صورت میں آئے گا جس کو وہ پہچانتے نہ ہوں گے اور کہے گا کہ میں تمہارا رب ہوں۔لوگ کہیں گے تجھ سے اللہ کی پناہ۔ہم اپنی جگہ پر اس وقت تک رہیں گے جب تک کہ ہمارا پروردگار ہمارے سامنے نہ آئے۔جب ہمارا رب ہمارے پاس آئے گا تو ہم اسے پہچان لیں گے(کیونکہ وہ حشر میں ایک بار اس کو پہلے دیکھ چکے ہوں گے)پھر حق تعالیٰ اس صورت میں آئے گا جس کو وہ پہچانتے ہوں گے اور ان سے کہا جائے گا(آؤ میرے ساتھ ہو لو)میں تمہارا رب ہوں! لوگ کہیں گے کہ تو ہمارا رب ہے،پھر اسی کے پیچھے ہو جائیں گے اور جہنم پر پل بنا دیا جائے گا۔رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میں سب سے پہلا شخص ہوں گا جو اس پل کو پار کرے گا اور اس دن رسولوں کی دعا یہ ہوگی کہ اے اللہ! مجھ کو سلامت رکھیو۔اے اللہ! مجھ کو سلامت رکھیو اور وہاں سعدان کے کانٹوں کی طرح آنکڑے ہوں گے۔تم نے سعدان کے کانٹے دیکھے ہیں؟صحابہ کرام نے عرض کیا جی ہاں دیکھے ہیں یا رسول اللہ! آپﷺ  نے فرمایا کہ وہ پھر سعدان کے کانٹوں کی طرح ہوں گے البتہ اس کی لمبائی چوڑائی اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔وہ لوگوں کو ان کے اعمال کے مطابق اچک لیں گے اور اس طرح ان میں سے بعض تو اپنے عمل کی وجہ سے ہلاک ہوجائیں گے اور بعض کا عمل رائی کے دانے کے برابر ہوگا،پھر وہ نجات پا جائے گا۔آخر جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلے سے فارغ ہوجائے گا اور جہنم سے انہیں نکالنا چاہے گا جنہیں نکالنے کی اس کی مشیت ہوگی۔یعنی وہ جنہوں نے کلمہ لا إله إلا الله کی گواہی دی ہوگی اور اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دے گا کہ وہ ایسے لوگوں کو جہنم سے نکالیں۔فرشتے انہیں سجدوں کے نشانات سے پہچان لیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آگ پر حرام کر دیا ہے کہ وہ ابن آدم کے جسم میں سجدوں کے نشان کو کھائے۔چناچہ فرشتے ان لوگوں کو نکالیں گے۔یہ جل کر کوئلے ہو چکے ہوں گے پھر ان پر پانی چھڑکا جائے گا جسے”ماء الحياة“زندگی بخشنے والا پانی کہتے ہیں۔اس وقت وہ اس طرح تر و تازہ ہو جائیں گے جیسے سیلاب کے بعد زرخیز زمین میں دانہ اگ آتا ہے۔“(بخاری:6573)

شفاعتِ کبریٰ کی انتہا بھی سجدے پر ہی منحصر ہے،جیسا کہ ذیل کی روایت سے پتہ چلتا ہے:
حضرت ابوہریرہؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ  کی خدمت میں گوشت لایا گیا اور دست کا حصہ آپ کو پیش کیا گیا۔تو آپ نے اپنے دانتوں سے اسے ایک بار نوچا اور نبی کریمﷺ  کو دست کا گوشت بہت پسند تھا۔پھر آپﷺ  نے فرمایا کہ قیامت کے دن میں سب لوگوں کا سردار ہوں گا تمہیں معلوم بھی ہے یہ کون سا دن ہوگا؟ اس دن دنیا کے شروع سے قیامت کے دن تک کی ساری خلقت ایک چٹیل میدان میں جمع ہوگی کہ ایک پکارنے والے کی آواز سب کے کانوں تک پہنچ سکے گی اور ایک نظر سب کو دیکھ سکے گی۔سورج بالکل قریب ہو جائے گا اور لوگوں کی پریشانی اور بے قراری کی کوئی حد نہ رہے گی جو برداشت سے باہر ہو جائے گی۔لوگ آپس میں کہیں گے،دیکھتے نہیں کہ ہماری کیا حالت ہوگئی ہے۔کیا ایسا کوئی مقبول بندہ نہیں ہے جو اللہ پاک کی بارگاہ میں تمہاری شفاعت کرے؟ بعض لوگ بعض سے کہیں گے کہ آدم(علیہ السلام) کے پاس چلنا چاہیے۔چناچہ سب لوگ آدم(علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے آپ انسانوں کے پردادا ہیں،اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور اپنی طرف سے خصوصیت کے ساتھ آپ میں روح پھونکی۔فرشتوں کو حکم دیا اور انہوں نے آپ کو سجدہ کیا اس لیے آپ رب کے حضور میں ہماری شفاعت کر دیں،آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم کس حال کو پہنچ چکے ہیں۔آدم(علیہ السلام) کہیں گے کہ میرا رب آج انتہائی غضبناک ہے۔اس سے پہلے اتنا غضبناک وہ کبھی نہیں ہوا تھا اور نہ آج کے بعد کبھی اتنا غضب ناک ہوگا اور رب العزت نے مجھے بھی درخت سے روکا تھا لیکن میں نے اس کی نافرمانی کی،پس نفسی،نفسی،نفسی مجھ کو اپنی فکر ہے تم کسی اور کے پاس جاؤ۔ہاں نوح(علیہ السلام) کے پاس جاؤ۔چناچہ سب لوگ نوح (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے،اے نوح! آپ سب سے پہلے پیغمبر ہیں جو اہل زمین کی طرف بھیجے گئے تھے اور آپ کو اللہ نے شکر گزار بندہ(عبد شکور) کا خطاب دیا۔آپ ہی ہمارے لیے اپنے رب کے حضور میں شفاعت کر دیں،آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم کس حالت کو پہنچ گئے ہیں۔نوح(علیہ السلام) بھی کہیں گے کہ میرا رب آج اتنا غضبناک ہے کہ اس سے پہلے کبھی اتنا غضبناک نہیں تھا اور نہ آج کے بعد کبھی اتنا غضبناک ہوگا اور مجھے ایک دعا کی قبولیت کا یقین دلایا گیا تھا جو میں نے اپنی قوم کے خلاف کرلی تھی۔نفسی،نفسی،نفسی آج مجھ کو اپنے ہی نفس کی فکر ہے تم میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ،ابراہیم(علیہ السلام) کے پاس جاؤ۔سب لوگ ابراہیم(علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے،اے ابراہیم! آپ اللہ کے نبی اور اللہ کے خلیل ہیں روئے زمین میں منتخب،آپ ہماری شفاعت کیجئے،آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں کہ ہم کس حالت کو پہنچ چکے ہیں۔ابراہیم(علیہ السلام) بھی کہیں گے کہ آج میرا رب بہت غضبناک ہے؟ اتنا غضبناک نہ وہ پہلے ہوا تھا اور نہ آج کے بعد ہوگا اور میں نے تین جھوٹ بولے تھے(راوی) ابوحیان نے اپنی روایت میں تینوں کا ذکر کیا ہے۔نفسی،نفسی،نفسی مجھ کو اپنے نفس کی فکر ہے۔میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ۔ہاں موسیٰ(علیہ السلام) کے پاس جاؤ۔سب لوگ موسیٰ(علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے اے موسیٰ! آپ اللہ کے رسول ہیں،اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی طرف سے رسالت اور اپنے کلام کے ذریعہ فضیلت دی۔آپ ہماری شفاعت اپنے رب کے حضور میں کریں،آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ ہم کس حالت کو پہنچ چکے ہیں۔موسیٰ(علیہ السلام) کہیں گے کہ آج اللہ تعالیٰ بہت غضبناک ہے،اتنا غضبناک کہ وہ نہ پہلے کبھی ہوا تھا اور نہ آج کے بعد کبھی ہوگا اور میں نے ایک شخص کو قتل کر دیا تھا،حالانکہ اللہ کی طرف سے مجھے اس کا کوئی حکم نہیں ملا تھا۔نفسی،نفسی،نفسی بس مجھ کو آج اپنی فکر ہے،میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ۔ہاں عیسیٰ(علیہ السلام) کے پاس جاؤ۔سب لوگ عیسیٰ(علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے۔اے عیسیٰ! آپ اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں جسے اللہ نے مریم علیھا السلام پر ڈالا تھا اور اللہ کی طرف سے روح ہیں،آپ نے بچپن میں ماں کی گود ہی میں لوگوں سے بات کی تھی،ہماری شفاعت کیجئے،آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ ہماری کیا حالت ہوچکی ہے۔عیسیٰ بھی کہیں گے کہ میرا رب آج اس درجہ غضبناک ہے کہ نہ اس سے پہلے کبھی اتنا غضبناک ہوا تھا اور نہ کبھی ہوگا اور آپ کسی لغزش کا ذکر نہیں کریں گے(صرف)اتنا کہیں گے،نفسی،نفسی،نفسی میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ۔ہاں،محمد(ﷺ) کے پاس جاؤ۔سب لوگ نبی کریمﷺ  کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے،اے محمد(ﷺ)! آپ اللہ کے رسول اور سب سے آخری پیغمبر ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیئے ہیں،اپنے رب کے دربار میں ہماری شفاعت کیجئے۔آپ خود ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ ہم کس حالت کو پہنچ چکے ہیں۔نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ آخر میں آگے بڑھوں گا اور عرش تلے پہنچ کر اپنے رب عزوجل کے لیے سجدہ میں گر پڑوں گا،پھر اللہ تعالیٰ مجھ پر اپنی حمد اور حسن ثناء کے دروازے کھول دے گا کہ مجھ سے پہلے کسی کو وہ طریقے اور وہ محامد نہیں بتائے تھے۔پھر کہا جائے گا،اے محمد! اپنا سر اٹھایئے،مانگئے آپ کو دیا جائے گا۔شفاعت کیجئے،آپ کی شفاعت قبول ہو جائے گی۔اب میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور عرض کروں گا۔اے میرے رب! میری امت،اے میرے رب! میری امت پر کرم کر،کہا جائے گا اے محمد! اپنی امت کے ان لوگوں کو جن پر کوئی حساب نہیں ہے،جنت کے داہنے دروازے سے داخل کیجئے ویسے انہیں اختیار ہے،جس دروازے سے چاہیں دوسرے لوگوں کے ساتھ داخل ہوسکتے ہیں۔پھر نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔جنت کے دروازے کے دونوں کناروں میں اتنا فاصلہ ہے جتنا مکہ اور حمیر میں ہے یا جتنا مکہ اور بصریٰ میں ہے۔“(بخاری:4712)

جنت میں رسول اللّٰہﷺ کی رفاقت کا دارومدار بھی سجدے پر ہی موقوف ہے،جس کی واضح دلیل ذیل کا واقعہ پیش کرتا ہے:
”حضرت ربیعہ بن کعب اسلمیؓ کہتے ہیں میں رسول اللہﷺ  کے ساتھ رات گزارتا تھا،آپ کو وضو اور حاجت کا پانی لا کر دیتا،آپﷺ نے مجھ سے فرمایا:مانگو مجھ سے،میں نے عرض کیا:میں جنت میں آپ کی رفاقت چاہتا ہوں؟ آپﷺ نے فرمایا:اس کے علاوہ اور کچھ؟،میں نے کہا:بس یہی،آپﷺ  نے فرمایا:اچھا تو اپنے واسطے کثرت سے سجدے کر کے(یعنی نماز پڑھ کر)میری مدد کرو۔“(ابوداؤد:1320)

مذکورہ وضاحت سے یہ بات عیاں ہوئی کہ اللّٰہ اور رسولِ اکرمﷺ کی نگاہوں میں سجدے کی بہت ہی قدر و منزلت ہے۔سجدہ ایک طرف اگر قربتِ الٰہی کی معراج ہے تو دوسری طرف ہمارے سارے دردوں کا درماں بھی ہے۔آج ہمارے معاشرے میں ہر طرف بے سکونی و بے اطمینانی کا سماں ہے،جہاں ہر ایک شہری سکون کا متلاشی ہے۔اگر ہم اپنے تمام مسائل کا حل چاہتے ہیں،اپنی زندگی میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں،اپنے غموں کے بوجھ کو کم کرنا چاہتے ہیں،اپنے دل و دماغ کی تھکاوٹ کو ختم کرنا چاہتے ہیں،اپنی ظاہری اور باطنی بیماریوں سے نجات کے خواہشمند ہیں تو اس کے لیے ناگزیر ہے کہ ہم اپنے رب کے دربار میں وہ سجدہ ڈالیں جو اسے بے انتہا محبوب ہو۔اس حوالے سے محمد اکبر لکھتے ہیں کہ:
لوگوں کی کڑوی کسیلی باتوں سے،کسی کی بے وفائی سے،کسی کا اپنے وعدوں سے پھر جانے سے،کسی اپنے کی منافقت سے،کسی کو سب کچھ دینے کے بعد،اُس کے منہ سے”کچھ نہ دینے“کا جملہ سن کر،کسی کے شدید انتظار کے بعد خالی ہاتھ لوٹ آنے سے،کسی کو حق بات سمجھانے پر”مجنون،شاعر،جادو گر،جادو زدہ“ کے الفاظ سن کر بھی دل میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں اور سینہ تنگ ہو جاتا ہے۔
اب جب عقل اور دل تھک جائیں تو ان کی تھکاوٹ کیسے اتاریں؟ کیسے ان کا بوجھ کم کریں؟ اس کا جواب قرآن کریم کی اس آیت میں ہے:
وَلَـقَدۡ نَـعۡلَمُ اَنَّكَ يَضِيۡقُ صَدۡرُكَ بِمَا يَقُوۡلُوۡنَۙ‏۔فَسَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّكَ وَكُنۡ مِّنَ السّٰجِدِيۡنَۙ‏۔(الحجر:98-97)
*”ہمیں معلوم ہے کہ جو باتیں یہ لوگ تم پر بناتے ہیں ان سے تمہارے دل کو سخت کوفت ہوتی ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو،اس کی جناب میں سجدہ بجا لاؤ۔“*
دماغ یا دل کا بوجھ ہلکا کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ اپنے رب کی تسبیح شروع کر دو،اپنا سر سجدہ میں رکھ دو۔اُداس دل،پریشان ذہن اور بوجھل کندھے جب ربِ محبت کی دہلیز پر گرتے ہیں تو سکون کی ایک لہر انہیں اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اور سارے دردوں کا درماں ہو جاتا ہے۔جب بھی اپنے اندر سے تھکے ہوں تو سجدہ کریں کیونکہ سجدہ تھکاوٹ کو ختم کرتا ہے،باطنی بیماریوں کو شفا دیتا ہے۔سجدہ کے بارے میں خود ربِ محبت نے فرمایا:
 وَاسۡجُدۡ وَاقۡتَرِبْ۔(علق:19)
*”ہرگز نہیں،اُس کی بات نہ مانو اور سجدہ کرو اور(اپنے ربّ کا) قرب حاصل کرو۔“*
سجدہ میں کچھ وقت کے لیے آنکھوں کے سامنے سے ہر چیز اوجھل ہو جاتی ہے اور آنکھیں ٹھنڈ پاتی ہے،ایسے ہی باطن کی تلاطم خیز موجیں بھی ٹھہر جاتی ہیں۔سجدہ ایک باغ ہے جس میں جب کوئی دل داخل ہوتا ہے تو نکلنا نہیں چاہتا،اس میں ایسی لذت اور مٹھاس ہے جس کو لفظوں کی زبان نہیں دے سکتے،سجدہ جس جگہ پر ہو رہا ہوتا ہے،وہ چھوٹی سی ہوتی ہے لیکن اُس کی وجہ سے باطن میں جو کیفیت پیدا ہوتی ہے،اُس سے ایک نئی دنیا اور نیا جہاں کھلتا ہے۔ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے اداسیوں کے گھر سے نکل کر سکون کے محلات میں جا بسے ہوں۔
سجدہ کرنے والوں کی پیشانیاں راتوں کی کتھا سناتی ہیں،ان کی آنکھیں رات کی تاریکی میں حاصل کی گئی روشنی سے دیکھتی ہیں،ان کے کان رب کی سرگوشیاں سنتے ہیں،ان کے لبوں پر رب ودُوود کا نام ہوتا ہے،ان کا سینہ کھلا ہوا اور سوچ دور بین ہوتی ہے۔
سجدے کے وقت آنسوؤں اور غموں کے پہاڑوں کو ریزہ ریزہ ہوتے کوئی دیکھ نہیں سکتا،اس ملاقات کی کوئی ٹوہ نہیں لگا سکتا،سجدے میں دل کی قُربتوں کو کوئی ماپ نہیں سکتا۔بس سجدہ سب سے پہلا اور آخری حل ہے ہمارے غموں کو کم کرنے اود دل و دماغ کی تھکاوٹ اتارنے کا:
      *یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے* 
      *ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات*
                     (آؤ رب سے باتیں کریں،ص 398-397)

Comments

Post a Comment