تاریخ کے دو کردار اور ہم

    ایک انسان کو دنیا میں قدم رکھتے ہی مختلف چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اپنی عارضی زندگی کا سفر طے کرتے ہوئے جوں ہی اسے مسائل کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ دیکھنے کو ملتا ہے تو یہ گھٹنے ٹیک دیتا ہے،جو کہ اس کی ناکامی کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔حالانکہ انسان کو ازل سے ہی یہ بات اپنے ذہن میں مستحضر رکھنی چاہیے کہ میں نے اُس دنیا میں جینا شروع کیا جہاں قدم قدم پر مختلف آزمائشوں کا آنا ناگزیر ہے۔انسان کی اصل منزل اُخروی کامیابی ہے،جس کی حصول یابی کے لیے ضروری ہے کہ یہ راہِ حق میں آنے والی صعوبتوں کو خندہ پیشانی سے استقبال کرتے ہوئے آگے ہی بڑھتا چلا جائے۔انسان چاہے خوش حال زندگی گزار رہا ہو یا بدحال،دونوں صورتوں میں اسے یہاں پرکھا جائے گا۔اللّٰہ تعالیٰ اسی حقیقت کو انسان کے ذہن نشین کرتے ہوئے قرآنِ پاک میں فرماتے ہیں کہ:
وَنَبۡلُوۡكُمۡ بِالشَّرِّ وَالۡخَيۡرِ فِتۡنَةً‌(الانبیاء:35)
*”اور ہم آزماتے رہتے ہیں تم لوگوں کو شر اور خیر کے ذریعے سے۔“*
اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے ڈاکٹر اسرار احمدؒ فرماتے ہیں کہ:
”اس دنیا میں تمہاری آزمائش کے لیے تم لوگوں کو ہم مختلف قسم کی کیفیات سے دو چار کرتے رہتے ہیں۔خیر و شر اور خوشی و غم کے بارے میں تم لوگوں کے اپنے پیمانے اور اپنے معیارات ہیں اور اسی مناسبت سے ان کیفیات کے بارے میں تمہارے منفی یا مثبت تاثرات ہوتے ہیں،مگر ضروری نہیں کہ حقیقت بھی تمہارے ہی تاثرات کے مطابق ہو۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تم لوگ جسے شر سمجھتے ہو وہ حقیقت میں خیر ہو اور جو چیز تمہارے نقطہ نظر سے خیر ہے وہ اصل میں شر ہو۔سورة البقرۃ میں فرمایا گیا: وَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَہُوْا شَیْءًا وَّہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَعَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْءًا وَّ ہُوَ شَرٌّ لَّکُمْ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ”اور ہو سکتا ہے کہ تم کسی شے کو ناپسند کرو اور وہ تمہارے لیے بہتر ہو۔اور ہو سکتا ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو درآنحالیکہ وہی تمہارے لیے بری ہو۔اور اللّٰہ جانتا ہے،تم نہیں جانتے۔“
 بہر حال دنیا میں پیش آنے والے اچھے برے یہ حالات تمہاری آزمائش کے لیے ہیں۔“(بیان القرآن)

یہ رہی عام انسان کی بات اور جب یہی انسان ایک پاکباز تحریک میں شعوری طور پر اپنا نام درج کراتا ہے تو اس کی زندگی میں پھر نئی اقسام کی آزمائشیں آتی رہتی ہیں،جو اس کے ایمان کو جِلا بخش کر اسے مزید نکھارنے اور کندن بنانے میں کلیدی رول ادا کر دیتی ہیں۔اللّٰہ تعالیٰ اس تحریک میں مختلف قسم کے نرم و گرم حالات کے ذریعے کھرے اور کھوٹے کو الگ کرتا ہے اور دنیا پر یہ ظاہر کرتا ہے کہ کون مقصد کے شیدائی ہیں اور کون محض زبان کے غازی۔کیونکہ یہ تحریک دنیا کے سب سے نازک اور کٹھن کام کے لیے اٹھی ہوتی ہے اس لیے اللّٰہ تعالیٰ یہ پسند نہیں کرتا ہے کہ سچے اہل ایمان اور منافق،سب خلط ملط رہیں۔ایک سخت آزمائش کو لا کر طیب اور خبیث کو الگ الگ کیا جاتا ہے۔تاریخ میں جنگ احد کو اسی لیا بپا کیا گیا تاکہ اس تلچھٹ کو الگ کیا جائے۔قرآنِ پاک میں ارشادِ ربانی ہے:
مَا كَانَ اللّٰهُ لِيَذَرَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ عَلٰى مَاۤ اَنۡـتُمۡ عَلَيۡهِ حَتّٰى يَمِيۡزَ الۡخَبِيۡثَ مِنَ الطَّيِّبِ‌ؕ(آل عمران:179)
*”اللّٰہ مومنوں کو اس حالت میں ہرگز نہ رہنے دے گا جس میں تم اس وقت پائے جاتے ہو۔وہ پاک لوگوں کو ناپاک لوگوں سے الگ کر کے رہے گا۔“*
مولانا امین احسن اصلاحیؒ اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”یہ اشارہ ہے اس حکمت کی طرف جو احد کی اس آزمائش میں اہل ایمان کے لیے مضمر تھی۔فرمایا کہ اب تک مسلمانوں کی جماعت خام و پختہ،خبیث و طیب اور مخلص و منافق ہر قسم کے افراد پر مشتمل رہی ہے۔یہ بات اللّٰہ تعالیٰ کی حکمت کے خلاف تھی کہ جو جماعت تمام دنیا کی صلاح و فلاح کا ذریعہ بننے والی ہے وہ اس طرح صالح و فاسد کا ملغوبہ بنی رہے۔چناچہ اس نے چاہا کہ اس کے فاسد عناصر کو اس سے الگ کیا جائے تاکہ مخلص اہل ایمان ابھر کر سامنے آئیں اور اپنی صلاحیتوں کے مطابق پروان چڑھیں۔اس کے لیے ایک شکل تو یہ تھی کہ تمام مسلمانوں کو غیب کا علم دے دیا جاتا کہ وہ خود معلوم کرسکتے کہ کون ان کے اندر مخلص ہے،کون منافق۔لیکن یہ بات اللّٰہ کی سنت کے خلاف ہے کہ وہ غیب کے اسرار سے ہر ایک کو واقف کر دے۔غیب کی باتوں کے لیے اپنے رسولوں میں سے وہ جن کو چاہتا ہے منتخب کرتا ہے اور ان کو امور غیب میں سے جس چیز سے چاہتا ہے آگاہ فرماتا ہے۔اس کی دوسری شکل یہ تھی کہ تمہاری جماعت کو کوئی ایسا امتحان پیش آئے جو خود تمہارے کھرے اور کھوٹے اور مخلص و منافق کو چھانٹ کر الگ کردے۔یہی شکل اللّٰہ کی سنت کے مطابق ہے چناچہ واقعہ احد کی صورت میں یہ امتحان تمہارے سامنے آگیا۔اور اس امتحان نے تمہارے کھرے اور کھوٹے میں امتیاز کر دیا۔“(تدبر قرآن)

تاریخ گواہ ہے کہ زمانہ کے ساتھ ساتھ تحریک کا دائرہ بھی وسیع ہوتا گیا اور اس کے مخلص افراد پورے جوش و جذبہ میں منزل کی جانب بڑھتے ہی چلے گئے یہاں تک کہ انہیں ایک اعصاب شکن جنگ کا سامنا کرنا پڑا،جس میں انہیں بری طرح آزمایا گیا اور تاریخ اسے غزوہ احزاب یا خندک کے نام سے جانتی ہے۔یہ اسلام اور کفر کے درمیان ایک فیصلہ کن جنگ تھی۔اس جنگ کی حالتِ خوف کا تذکرہ خود قرآنِ پاک ان الفاظ میں کرتا ہے:
اِذۡ جَآءُوۡكُمۡ مِّنۡ فَوۡقِكُمۡ وَمِنۡ اَسۡفَلَ مِنۡكُمۡ وَاِذۡ زَاغَتِ الۡاَبۡصَارُ وَبَلَغَتِ الۡقُلُوۡبُ الۡحَـنَـاجِرَ وَتَظُنُّوۡنَ بِاللّٰهِ الظُّنُوۡنَا۔هُنَالِكَ ابۡتُلِىَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ وَزُلۡزِلُوۡا زِلۡزَالًا شَدِيۡدًا(الاحزاب:11-10)
*”جب وہ اُوپر سے اور نیچے سے تم پر چڑھ آئے جب خوف کے مارے آنکھیں پتھرا گئیں،کلیجے منہ کو آ گئے،اور تم لوگ اللّٰہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔اُس وقت ایمان لانے والے خوب آزمائے گئے اور بُری طرح ہلا مارے گئے۔“*

اس نازک موقعہ پر قرآنِ پاک ہمارے سامنے ذیل کے دو تاریخی کردار لاتا ہے:

*پہلا کردار:*
وَلَمَّا رَاَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الۡاَحۡزَابَ ۙ قَالُوۡا هٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَرَسُوۡلُهٗ وَ صَدَقَ اللّٰهُ وَرَسُوۡلُهٗ ۚ وَمَا زَادَهُمۡ اِلَّاۤ اِيۡمَانًـا وَّتَسۡلِيۡمًا۔مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ رِجَالٌ صَدَقُوۡا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَيۡهِ‌ۚ فَمِنۡهُمۡ مَّنۡ قَضٰى نَحۡبَهٗ وَمِنۡهُمۡ مَّنۡ يَّنۡتَظِرُ‌ ۖ وَمَا بَدَّلُوۡا تَبۡدِيۡلًا۔(الاحزاب:23-22)
*”اور سچے مومنوں (کا حال اُس وقت یہ تھا کہ) جب انہوں نے حملہ آور لشکروں کو دیکھا تو پکار اٹھے کہ”یہ وہی چیز ہے جس کا اللّٰہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا،اللّٰہ اور اُس کے رسولؐ کی بات بالکل سچّی تھی“اِس واقعہ نے اُن کے ایمان اور ان کی سپردگی کو اور زیادہ بڑھا دیا۔ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اللّٰہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کر چکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے انہوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔“*

*دوسرا کردار:*
 وَيَسۡتَاۡذِنُ فَرِيۡقٌ مِّنۡهُمُ النَّبِىَّ يَقُوۡلُوۡنَ اِنَّ بُيُوۡتَنَا عَوۡرَة‌ٌ وَمَا هِىَ بِعَوۡرَةٍ ۛۚ اِنۡ يُّرِيۡدُوۡنَ اِلَّا فِرَارًا۔(الاحزاب:13)
*”جب ان کا ایک فریق یہ کہہ کر نبیؐ سے رخصت طلب کررہا تھا کہ”ہمارے گھر خطرے میں ہیں“حالانکہ وہ خطرے میں نہ تھے،دراصل وہ(محاذِ جنگ سے) بھاگنا چاہتے تھے۔“*

یہ دو کردار تحریک سے وابستہ افراد کی آنکھوں کے سامنے کبھی بھی اوجھل نہیں رہنے چاہیے۔یہ دو کردار مومن اور کافر گروہ ہرگز بھی نہیں ہے بلکہ یہ گروہ مومنین کے اندر کی تقسیم ہے اور اس چیز کو مدِ نظر رکھ کر یہاں ہر ایک کارکن کو اپنا احتساب خود کرنا ہوگا کہ میں عملی اعتبار سے کہاں کھڑا ہوں؟ نامساعد حالات میں تحریک کے کارکنوں کو اپنے گریبانوں میں جھانک کر تو دیکھنا چاہیے کہ کہیں ہم حبِّ دنیا میں غرق ہو کر رخصت طلب کرنے والا کردار تو ادا نہیں کر رہیں ہیں۔اس سے بڑھ کر المیہ کیا ہوگا کہ سازگار حالات میں ہمارے یہاں بلند و بالا دعوؤں کی بھرمار ہوتی ہے لیکن جوں ہی حالات بگڑنے لگتے ہیں تو ہم تحریک کو چھوڑ کر صرف اپنے حقیر مفادوں کی خاطر ہی جینے لگتے ہیں،یہ رویّہ تحریک کے ساتھ وفاداری کے بجائے غدّاری کی غمازی کرتی ہے،جو کہ مخلص کارکنوں کے شایانِ شان نہیں ہوتا ہے۔اگر یہ یقینِ محکم رکھا جائے کہ جو کچھ راہِ حق میں لگ رہا ہے ایک دن اس سے  کہیں بڑھ کر ملے گا تو یہ سودا زیادہ گراں نہیں لگے گا۔تحریک قدم بقدم قربانی کا تقاضا کرتی ہے لہٰذا اس سے وابستہ افراد کو اگر مذکورہ پہلا کردار ادا کرنا ہے تو اس کے لیے صحابہ کرامؓ کی طرح اپنی زندگی کی ساری پونجی کو بھی غلبہ حق کے لیے کھپانا ہوگا اور ان شاء اللّٰہ مستقبل میں یہی ان کے لیے ایک کامیاب تجارت ثابت ہوگی۔مولانا سید جلال الدین عمریؒ اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ:
*”اللّٰہ کے دین کے لیے جدوجہد اس بات کی متقاضی ہے کہ آدمی اس کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی کے لیے تیار رہے۔مال و دولت،قوت و صلاحیت اور وہ سب کچھ جو اس کے بس میں ہے اس راہ میں لگا دے۔اگر اس راہ میں اعزہ و اقربا بھی،جن سے اس کا خونی رشتہ اور گہرے سماجی تعلقات ہوتے ہیں،رکاوٹ بن رہے ہوں تو انھیں نظر انداز کرنے میں ہچکچاہٹ نہ محسوس کرے،کیوں کہ قرابت اور رشتہ داری اور رفاقت و محبت اپنی جگہ پر عزیز اور محبوب سہی،لیکن وہ پاکیزہ عقیدہ اور نصب العین،جسے ایک مومن نے اپنایا ہے،وہ سب سے عزیز اور ہر تعلق سے زیادہ محبوب ہے۔ان کی محبوبیت کی راہ میں اگر کوئی چیز مانع ہوتی ہے تو مردِ مومن اسے راستہ کا کانٹا سمجھ کر نکال پھینکے گا۔اگر وہ جوہر بے بہا کھو جائے اور دنیا کی نعمتیں بھی اس کے عوض حاصل ہو جائیں تو ایک صاحبِ ایمان کے لیے ٹوٹے کا سودا ہوگا،لیکن اپنے عقیدے اور نصب العین پر ساری دنیا بھی لٹانی پڑے تو یہ اس کے لیے ایک کامیاب تجارت ہوگی۔“*(تجلّیاتِ قرآن،ص ١٦٢)

Comments