The Path Of Determination




یہ دنیا ہر انسان کے لیے دار العمل ہے۔انسان وہ واحد بااختیار مخلوق ہے جسے اللّٰہ عزوجل کی جانب سے شکر یا کفر کا راستہ منتخب کرنے کی مکمل آزادی بخشی گئی ہے۔اسے ایک طرف بہترین ساخت پر پیدا کیا گیا ہے اور دوسری طرف اسے ایسی قوتوں اور صلاحیتوں سے آراستہ کیا گیا اور ایسے جذبات و مطالبات اس کی جبلّت میں سمو دیے گئے ہیں جن کی اسے بحثیتِ انسان واقعی ضرورت تھی۔اللّٰہ تعالیٰ نے اسے سننے،دیکھنے اور سوچنے سمجھنے کی غیر معمولی نعمتوں سے نوازا اور اس سے بڑھ کر حقیقت یہ کہ زمین میں جو کچھ ہے وہ سب کا سب انسان کے لیے ہے،دنیا میں اس کی تخلیقی حیثیت اللّٰہ رب العالمین کے خلیفہ اور نائب کی ہے۔لہٰذا ایک انسان جب سنجیدہ غور و فکر سے کام لیتا ہے تو اسے اپنے چہار جانب ان گنت نعمتیں نظر آتی ہیں۔ان تمام نعمتوں سے بڑھ کر اسے جس خاص فضل و عنایت سے نوازا گیا وہ نعمتِ اسلام ہے۔اسلام ایک ایسا راستہ ہے جو سیدھے اللّٰہ کی طرف جاتا ہے،جسے دوسرے الفاظ میں”صراط مستقیم“کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔بدقسمتی سے غفلت میں پڑے ہوئے انسان نے ازل سے ہی نفسانی خواہشات،شیطانی ترغیبات اور خدا بیزار ماحول کا اتباع کر کے اپنے لیے نئی مصنوعی راہوں میں نجات ڈھونڈی،حالانکہ وقت نے ثابت کر دیا کہ یہ اسے دھوکے کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔لیکن اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کو یوں ہی بے بسی کے اندھیرے میں نہ چھوڑا بلکہ رسالت کی شکل میں اس کی مدد کی اور اسے وہ احکام صاف اور صریح لفظوں میں بتا دیے جن کے بغیر وہ بندگی اور اطاعت کی راہ اختیار ہی نہیں کر سکتا تھا۔تمام انبیائے کرام علیہم السلام نے تادمِ واپسیں انسان کو پورے عزم و یقین اور مکمل اعتماد و ایمان اور انتہائی صبر و ضبط اور انتھک محنت کے ساتھ صراطِ مستقیم ہی کی طرف بلایا اور زندگی کی آخری سانسوں تک اسی راہ پر مستقل مزاجی کے ساتھ چلنے کی تلقین کی تاکہ یہ اللّٰہ کی رضا حاصل کر کے بآسانی اپنی حقیقی منزلِ مقصود کو پہنچنے میں کامیاب ہو جائے۔اس پُرخطر و پُرمشقت کام کو بحسن و خوبی انجام دینے کی خاطر اگرچہ انہوں نے ہر قسم کی قربانی دی لیکن وہ اپنے مقام پر ثابت قدم رہے کیونکہ وہ اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ حق و باطل کی کشمکش میں یقیناً حوصلہ شکن مشکلات ضرور پیش آتی ہیں۔

تاریخ کے اوراق الٹنے سے یہ چیز صاف دکھائی دیتی ہے کہ جن لوگوں نے ناموافق حالات میں اپنے لیے راہِ عزیمت کا انتخاب کیا،انہیں اگرچہ بُری طرح آزمایا گیا لیکن بالآخر کامیابی نے انہی کے قدموں کو چوم لیا۔ان کی زندگی کا مقصد اللّٰہ کی رضاجوئی کے سوا کچھ بھی نہ تھا،وہ اللّٰہ ہی کے لیے جینا اور اللّٰہ ہی کے لیے مرنا پسند کرتے تھے،وہ اپنا تن من دھن اللّٰہ کی راہ میں لٹانے کا عہد کر چکے تھے،جب بھی کبھی حالات نے انہیں پکارا انہوں نے آگے بڑھ کر کھرا سونا ہونے کا ثبوت دیا،مال کی ضرورت پڑی تو انہوں نے بڑھ چڑھ کر ایثار کیا،جان دینے کا وقت آیا تو انہوں نے گردن کٹوانے سے دریغ نہ کیا،ہجرت کا حکم آیا تو انہیں وطن چھوڑنے میں ذرا پس و پیش نہ ہوا،جنگ کے میدانوں میں انہیں اپنے خونی رشتوں کے خلاف تلوار نکالنے میں ذرا بھی تامل نہ ہوا،اللّٰہ کے رشتے کے سامنے وہ اپنا ہر رشتہ کاٹ چکے تھے اور اسلام کے مفاد کے مقابلے میں وہ ہر مفاد کو شکست دے چکے تھے،یہی لوگ اسلام کا قیمتی اثاثہ ہیں اور انہی لوگوں کے اعمال کی روشنی قیامت تک تاریخ کو روشن رکھے گی اور آج تک مسلمان انہی کے بلند حوصلوں سے گرمی محسوس کر رہیں ہیں۔انہوں نے راہِ خدا میں اپنا سب کچھ اللّٰہ کی رضاجوئی اور جنت کے عوض بیچ دیا تھا،جس کی نشاندہی قرآنِ پاک ان الفاظ میں کر رہا ہے:

اِنَّ اللّٰهَ اشۡتَرٰى مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اَنۡفُسَهُمۡ وَاَمۡوَالَهُمۡ بِاَنَّ لَهُمُ الۡجَــنَّةَ‌۔(التوبہ:111)

*”حقیقت یہ ہے کہ اللّٰہ نے مومنوں سے اُن کے نفس اور اُن کے مال جنّت کے بدلے خرید لیے ہیں۔“*

دوسری جگہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَمِنَ النَّاسِ مَنۡ يَّشۡرِىۡ نَفۡسَهُ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِ اللّٰهِ‌ؕ وَ اللّٰهُ رَءُوۡفٌ ۢ بِالۡعِبَادِ۔(البقرۃ:207)

*”اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اللّٰہ کی رضاجوئی کے لیے اپنے آپ کو بیچ دیتے ہیں،اور اللّٰہ اپنے بندوں پر نہایت مہربان ہے۔“*

اس آیتِ مبارکہ کے ذیل میں مولانا اسحاق مدنیؒ لکھتے ہیں:

”ایمان کا تقاضا کہ جان بھی اللّٰہ کیلئے قربان:کہ یہ جان ہماری نہیں،ہمارے اسی خالق ومالک کی ہے۔اس پر ہماری مرضی نہیں چلے گی،بلکہ اسی وحدہ لا شریک کی مرضی چلے گی۔یہ اس کا ہم پر حق ہے اور اسی میں ہماری بہتری و بھلائی اور فوز و فلاح ہے۔روایات میں ہے کہ جب حضرت صہیب رومیؓ ہجرت کے ارادے سے نکلے،تو کفار قریش نے ان کا راستہ روک لیا کہ تم نہیں جاسکتے۔تو آپؓ نے ان سے فرمایا کہ دیکھو تم لوگ اچھی طرح جانتے ہو،کہ میں تم میں سب سے بڑا تیر انداز ہوں،جب تک ایک بھی تیر میرے ترکش میں باقی رہا تم لوگ میرے قریب نہیں آسکو گے،اور جب تیر ختم ہوگئے تو میں تمہارے ساتھ اپنی تلوار سے لڑونگا،جب تک میرے اندر تلوار اٹھانے کی سکت رہی،اور جب اس سے بھی رہ گیا،تو پھر تمہاری مرضی،تم میرے ساتھ جو چاہو سلوک کرلینا،مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں۔اور اگر تم لوگ مال چاہتے ہو،تو آؤ میں تم کو اپنے مال کا پتہ دے دیتا ہوں،جا کر لے لو،اور میرا راستہ خالی کر دو۔تو ان لوگوں نے آپؓ کی یہ بات مان لی،اور وہ مال کے بدلے آپؓ کا راستہ خالی کرنے پر راضی ہوگئے،اور آپؓ اپنے دین و ایمان کی حفاظت کی خاطر اپنا سب مال و دولت ان کے حوالے کر کے خالی ہاتھ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ پہنچ گئے،اور وہاں پہنچ کر اپنا سب ماجرا آنحضرتﷺ کی خدمت میں پیش کیا،تو آپﷺ نے فرمایا کہ”رَبِحَ الْبَیْعُ اَبَا یَحْییٰ،رَبِحَ الْبَیْعُ اَبَا یَحْییٰ“ ”ابو یحییٰ تمہارا یہ سودا کامیاب ہوگیا،ابو یحییٰ تمہارا یہ سودا کامیاب ہوگیا“اور فرمایا کہ تمہارے بارے میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔صَلَوَات اللّٰہ وَسََلامُہٗ عَلَیْہ وَرِضْوَان اللّٰہ عَلَیْہِم اَجْمَعِیْنَ۔سو اللّٰہ پاک کی راہ میں اور اس کی رضا کیلئے اپنا سب کچھ قربان کر دینا،خسارے کا نہیں سراسر نفع کا سودا ہے کہ اس خالق کل اور مالک مطلق کی رضاء و خوشنودی دارین کی فوز و فلاح کی ضامن اور کفیل ہے۔“(تفسیر مدنی)


مکہ کے ابتدائی حالات میں ان روشن ستاروں پر ظلم اور اذیت کی چکی پورے زوروں سے چل رہی تھی۔ایک طرف نبی اکرمﷺ اور آپ کی نبوت پر اعتراضات کی بارش تھی،قرآن کریم کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کیے جا رہے تھے اور دوسری طرف غریب اور بے سہارا مسلمانوں کے لیے زندگی انتہائی دشوار بنائی جا رہی تھی۔کفار کا ایک ہی مقصد تھا کہ ظلم و جبر اور ناقابلِ برداشت اذیتوں کے ذریعے مسلمان ارتداد کے شکار ہو جائیں۔اللّٰہ تعالیٰ نے ان کٹھن حالات میں مسلمانوں کے حوصلے بڑھانے کے لیے بروقت وحی نازل کی تاکہ یہ سب عزیمت کی راہ اپنائیں کیونکہ وہ اہلِ عزیمت کو پسند کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مقامِ عزیمت کو پالینے کے لیے انہوں نے نہایت خطرناک حالات میں بھی عزیمت پر عمل کرنا ضروری سمجھا۔ذیل کی آیتِ مبارکہ میں اسی فلسفہ کو بیان کیا گیا ہے:

مَنۡ كَفَرَ بِاللّٰهِ مِنۡۢ بَعۡدِ اِيۡمَانِهٖۤ اِلَّا مَنۡ اُكۡرِهَ وَقَلۡبُهٗ مُطۡمَئِنٌّۢ بِالۡاِيۡمَانِ وَلٰـكِنۡ مَّنۡ شَرَحَ بِالۡكُفۡرِ صَدۡرًا فَعَلَيۡهِمۡ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰهِ‌ۚ وَلَهُمۡ عَذَابٌ عَظِيۡمٌ۔(النحل:106)

*”جو شخص ایمان لانے کے بعد کُفر کرے(وہ اگر)مجبور کیا گیا ہو اور دل اُس کا ایمان پر مطمئن ہو(تب تو خیر)مگر جس نے دل کی رضا مندی سے کُفر کو قبول کر لیا اس پر اللّٰہ کا غضب ہے اور ایسے سب لوگوں کے لیے بڑا عذاب ہے۔“*

مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے اس آیتِ مبارکہ کے ذیل میں بہت ہی قیمتی نوٹ لکھا ہے،لکھتے ہیں:

”اس آیت میں ان مسلمانوں کے معاملے سے بحث کی گئی ہے جن پر اس وقت سخت مظالم توڑے جارہے تھے اور ناقابل برداشت اذیتیں دے دے کر کفر پر مجبور کیا جا رہا تھا۔ان کو بتایا گیا ہے کہ اگر تم کسی وقت ظلم سے مجبور ہو کر محض جان بچانے کے لیے کلمہ کفر زبان سے ادا کر دو،اور دل تمہارا عقیدہ کفر سے محفوظ ہو،تو معاف کر دیا جائے گا۔لیکن اگر دل سے تم نے کفر قبول کر لیا تو دنیا میں چاہے جان بچا لو،خدا کے عذاب سے نہ بچ سکو گے۔

اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جان بچانے کے لیے کلمہ کفر کہہ دینا چاہیے۔یہ صرف رخصت ہے۔اگر ایمان دل میں رکھتے ہوئے آدمی مجبوراً ایسا کہہ دے تو مواخذہ نہ ہوگا۔ورنہ مقامِ عزیمت یہی ہے کہ خواہ آدمی کا جسم تکا بوٹی کر ڈالا جائے بہرحال وہ کلمہ حق ہی کا اعلان کرتا رہے۔دونوں قسم کی نظیریں نبیﷺ کے عہد مبارک میں پائی جاتی ہیں۔ایک طرف خبابؓ بن ارت ہیں جن کو آگ کے انگاروں پر لٹایا گیا یہاں تک کہ ان کی چربی پگھلنے سے آگ بجھ گئی،مگر وہ سختی کے ساتھ اپنے ایمان پر جمے رہے۔بلالؓ حبشی ہیں جن کو لوہے کی زرہ پہنا کر چلچلاتی دھوپ میں کھڑا کر دیا گیا،پھر تپتی ہوئی ریت پر لٹا کر گھسیٹا گیا مگر وہ احد احد ہی کہتے رہے۔حبیب بن زیدؓ بن عاصم ہیں جن کے بدن کا ایک ایک عضو مسیلمہ کذاب کے حکم سے کاٹا جاتا تھا اور پھر مطالبہ کیا جاتا تھا کہ مسیلمہ کو نبی مان لیں،مگر ہر مرتبہ وہ اس کے دعوائے رسالت کی شہادت دینے سے انکار کرتے تھے یہاں تک کہ اسی حالت میں کٹ کٹ کر انہوں نے جان دے دی۔دوسری طرف عمار بن یاسرؓ ہیں جن کی آنکھوں کے سامنے ان کے والد اور ان کی والدہ کو سخت عذاب دے دے کر شہید کر دیا گیا،پھر ان کو اتنی ناقابل برداشت اذیت دی گئی کہ آخر انہوں نے جان بچانے کے لیے وہ سب کچھ کہہ دیا جو کفار ان سے کہلوانا چاہتے تھے۔پھر وہ روتے روتے نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللّٰہ مَا تُرِکْتُ حَتّٰی سَبَبْتُکَ وَ ذَکَرْتُ اٰلِھَتَھُمْ بِخَیْرٍ۔”یا رسول اللّٰہ،مجھے نہ چھوڑا گیا جب تک کہ میں نے آپ کو برا اور ان کے معبودوں کو اچھا نہ کہہ دیا“۔حضور نے پوچھا کَیْفَ تَجِدُ قَلْبَکَ۔”اپنے دل کا کیا حال پاتے ہو“؟عرض کیا مُطْمَئِنًا بالْاِیْمَانِ۔”ایمان پر پوری طرح مطمئن“۔اس پر حضورﷺ نے فرمایا ان عادُوْا فَعُدْ۔ ”اگر وہ پھر اس طرح کا ظلم کریں تو تم پھر یہی باتیں کہہ دینا“۔(تفہیم القرآن)


   آج دنیا میں جو گروہ بھی یہ عزم لے کر اٹھے کہ ساری دنیا کو ایک اللّٰہ کی بندگی کی طرف لے کر آنا ہے،دین کی سربلندی جس کا نصب العین ہو،رضائے الٰہی جس کا منتہائے مقصود ہو اور اُخروی نتائج جس کا مطمحِ نظر ہو اسے یہ بات ذہن میں تازہ رکھنی چاہیے کہ یہ راستہ شیروں کا راستہ ہے،جہاں اللّٰہ کے دَر کا بھکاری بننا ہوتا ہے اور ساتھ ہی اسکی رضا کے سوا ہر چیز سے بے نیازی برتنی پڑتی ہے،دنیا کا ہر بندھن کاٹنا پڑتا ہے،رب کے تصوّر میں ڈوبنا اور اسی کے اشاروں پر نثار ہو جانے کے اشتیاق میں کھو جانا پڑتا ہے،اپنی ساری توانائیوں کو اللّٰہ کی بندگی کے لیے اور اس کے دین کی نصرت و اقامت کے لیے وقف کرنا پڑتا ہے،بہت سارے مفادات سے ہاتھ اٹھانا پڑتا ہے اور بہت سی مراعات سے کنارہ کش ہونا پڑتا ہے،یہاں یہ عزم اور اس فیصلے سے دنیا کو باخبر کرنا ہوتا ہے کہ کوئی اللّٰہ کے دین کی بنیادیں ڈھانا چاہے گا تو ہم اُسے ٹکڑے ٹکڑے کریں گے۔یہ معاملہ ایک گروہ کے لیے ہی مختص نہیں ہے بلکہ جو شخص بھی تنِ تنہا عزیمت کا راستہ اختیار کر کے اپنے قدموں کو سست نہ ہونے دے گا اسے ضرور بالضرور آزمائش کی بھٹی میں تپا کر کھرا سونا بنا دیا جائے گا تاکہ یہ مُسلم اُمت میں بحثیتِ وفادار سپاہی کام آئے اور یہی قانونِ قدرت بھی ہے،جس کے متعلق خرم مرادؒ لکھتے ہیں:

”اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے دین کا قانون بتا دیا ہے کہ جو شخص دین کا عَلم لے کر کھڑا ہو،دین کا جھنڈا اٹھائے،شہادتِ حق کا نعرہ بلند کرے،اور اقامت دین کا دعویٰ کرے،اس کو ٹھنڈے پیٹوں اس راہ سے گزرنے نہیں دیا جائے گا۔اس کی آزمایش بڑی سخت ہوگی۔اس کے سامنے صبح سے شام تک بے شمار انتخاب کے مواقع آئیں گے۔لمحہ لمحہ اس کا امتحان ہوگا۔اس کو جان ایک دفعہ نہیں دینا پڑے گی بلکہ روز جینا اور روز مرنا ہوگا۔ایک دفعہ مرنا تو شاید آسان ہو لیکن روز روز مرنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔موت صرف جسم سے جان کے نکل جانے کا نام نہیں ہے،بلکہ اپنی خواہش،اپنی آرزو اور اپنی تمنا کو مارنا بھی موت کی ایک صورت ہے۔آخر انسان عبارت کس چیز سے ہے،ہڈیوں اور گوشت سے نہیں بلکہ ان آرزوؤں اور تمناؤں سے،جو اس کے دل و دماغ کے اندر بستی ہیں۔یہ وہ چیز ہے جس کے بغیر راہ حق،دعوت اور جہاد کی منزل طے نہیں ہو سکتی۔اس بات کو واضح طور پر کئی جگہ بیان کیا گیا ہے۔فرمایا:

اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَo(العنکبوت:2) 

*”کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ’’ہم ایمان لائے‘‘اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟“*

    ذرا اندازِ بیان پر غور کیجیے۔ذکر ان کا ہو رہا ہے جو مٹھی بھر لوگ مکے میں ایک اللّٰہ کے اوپر ایمان لے کر آئے ہیں،جو خدا سے محبت کرتے ہیں اور خدا ان سے محبت کرتا ہے،لیکن لہجے میں بڑی اجنبیت ہے اور بڑی غیریت ہے کہ کیا لوگ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ایمان لانے کے بعد انھیں آزمایا نہ جائے گا۔حالانکہ یہ کوئی عام لوگ نہیں ہیں بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے جسم وجان کا سودا کر کے اپنا ہاتھ رسولِ اکرمﷺ کے ہاتھ میں دے دیا تھا۔پھر بھی یہ نہیں کہا کہ میرے بندے یہ سمجھ بیٹھے ہیں،بلکہ یوں کہا گیا ہے کہ لوگ یہ سمجھ بیٹھے ہیں۔گویا ایمان لانے کے بعد ہر ایک کو آزمایش کا سامنا کرنا ہوگا۔یہ ایک ایسا قانون ہے جس سے کسی کو مفر نہیں۔

      ایمان کا دعویٰ ہوگا تو آزمایا بھی ضرور جائے گا۔اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں جب تک کہ برے کو بھلے سے الگ نہ کر دیا جائے۔ایک مقام پر قرآنِ مجید نے اس طرف یوں اشارہ کیا ہے:

مَا کَانَ اللّٰہُ لِیَذَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلٰی مَآ اَنْتُمْ عَلَیْہِ حَتّٰی یَمِیْزَ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِط (اٰل عمرٰن:179)

*”اللّٰہ مومنوں کو اس حالت میں ہرگز نہ رہنے دے گا جس میں تم لوگ اس وقت پائے جاتے ہو۔وہ پاک لوگوں کو ناپاک لوگوں سے الگ کر کے رہے گا۔“*

     گویا اس وقت تک کامیابی سے ہمکنار ہونا ممکن نہیں ہے جب تک کہ برے اور بھلے کی تمیز نہ ہو جائے۔یہ اس لیے کہ زبان سے دعویٰ کرنے والے تو بہت ہوتے ہیں،لوگ بہت سے لبادے اوڑھ لیتے ہیں،بظاہر شیر نظر آتے ہیں،لیکن کس کے سینے میں واقعی شیر کا دل ہے،اور کون اتنی ہمت اور جرأت رکھتا ہے کہ نہ صرف حلال وحرام کی پابندی کرے،بلکہ آگے بڑھ کر ان جائز اور حلال چیزوں کو بھی چھوڑ دے کہ جن کی قربانی راہ حق میں چلنے کے لیے ناگزیر ہو۔یہ وہ چیزیں ہیں جن کی آزمایش ضروری ہے،جس کے لیے وہ ہلا ڈالے جائیں گے،جس کے لیے انھیں جھنجھوڑا جائے گا،آروں سے چیرے جائیں گے،زندہ زمین کے اندر گاڑے جائیں گے اور ان کا گوشت لوہے کی کنگھیوں سے نوچا جائے گا۔یہ سب کس لیے ہے،اس لیے کہ اللّٰہ کی زمین پر اللّٰہ کا نظام یعنی عدل و انصاف کا نظام قائم ہو۔“(رخصت و عزیمت،ص ١٥-١٢)

Comments