Way To Heaven۔

ایک انسان ہمیشہ اس راستے کو پسند کرتا ہے جس پر لوگوں کا ہجوم ہو چونکہ یہ راستہ اسے آسان معلوم ہوتا ہے۔لوگوں کی ظاہری حالت اور چرب زبانی دیکھ کر اسے ایک امید لاحق ہوتی ہے کہ یہ لوگ بڑی جانفشانی کے ساتھ اسلام کے راستے میں مجھے ہر معاملے میں support کریں گے اور واقعی طور پر چند لمحوں تک ایسا دیکھنے کو ملتا ہے۔لیکن اچانک جب آزمائشوں کا بادل سامنے نظر آتا ہے تو ہر ایک اپنی جان،اپنا گھر اور اپنا career بچانے کی فکر میں لگ جاتا ہے اور اس موڈ پر جنت کے طالب کو ہر ایک اکیلے چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔یہ وقت اس بندہ مومن کے لیے ایک بہت بڑی آزمائش ہوتی ہے۔اب یہ اپنے آپ کو اکیلے پاتا ہے،سوچتا ہے کیا کروں چونکہ اپنے جگری دوستوں نے بھی ساتھ چھوڑ دیا۔اب اس کے لیے دو ہی راستے ہیں،ایک آرام دہ مگر بزدلوں کا راستہ اور دوسرا جاں گسل مگر ہمت والوں کا راستہ۔اگر یہ سچ مچ میں جنت کا طالب ہے تو اسے لازمی طور پر مذکورہ دوسرا راستہ ہی پورے جوش اور پوری قوت و ہمت کے ساتھ اپنانا چاہیئے،چاہے اسے اس راستے پر اکیلے ہی کیوں نہ چلنا پڑے۔یہ بات ازل سے ہی مسلم ہے کہ جنت کا راستہ آزمائشوں سے گھیرا ہوا ہے،لہٰذا یہ بات پیش نظر رہے کہ عظیم انعام کو پانے کے لئے عظیم قربانی دینی ناگزیر ہے اور Difficult Roads Leads To Beautiful Destinations

   جنت کے راستے پر آکر ہی جب لوگوں نے وہاں آزمائشوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ پایا تو وہ بے چین ہوگئے اور اندر ہی اندر سوچنے لگے کہ آخر یہ کیا معاملہ ہے جو ہمارے ساتھ ہو رہا ہے؟قرآنِ پاک کے ذریعے سے انہیں ان الفاظ میں متنبہ کیا گیا:

اَحَسِبَ النَّاسُ اَنۡ يُّتۡرَكُوۡۤا اَنۡ يَّقُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا وَهُمۡ لَا يُفۡتَـنُوۡنَ ۞(العنکبوت:2)

کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اِتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ”ہم ایمان لائے“اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟

    اس آیتِ مبارکہ کے ذیل میں مولانا سید ابو الاعلٰی مودودیؒ نے ایک ایسا ممتاز اور شاہکار نوٹ لکھا ہے جسے پڑھتے ہی ایک انسان اپنے ایمان پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہو ہی جاتا ہے،لکھتے ہیں:

”جن حالات میں یہ بات ارشاد فرمائی گئی ہے وہ یہ تھے کہ مکہ معظمہ میں جو شخص بھی اسلام قبول کرتا تھا اس پر آفات اور مصائب اور مظالم کا ایک طوفان ٹوٹ پڑا تھا،کوئی غلام یا غریب ہوتا تو اس کو بری طرح مارا پیٹا جاتا اور سخت ناقابل برداشت اذیتیں دی جاتیں،کوئی دکاندار یا کاریگر ہوتا تو اس کی روزی کے دروازے بند کردیے جاتے یہاں تک کہ بھوکوں مرنے کی نوبت آجاتی،کوئی کسی بااثر خاندان کا آدمی ہوتا تو اس کے اپنے خاندان کے لوگ اس کو طرح طرح سے تنگ کرتے اور اس کی زندگی اجیرن کردیتے تھے۔ان حالات نے مکہ میں ایک سخت خوف اور دہشت کا ماحول پیدا کردیا تھا جس کی وجہ سے بہت سے لوگ تو نبیﷺ کی صداقت کے قائل ہوجانے کے باوجود ایمان لاتے ہوئے ڈرتے تھے،اور کچھ لوگ ایمان لانے کے بعد جب دردناک اذیتوں سے دورچار ہوتے تو پست ہمت ہو کر کفار کے آگے گھٹنے ٹیک دیتے تھے۔ ان حالات نے اگرچہ راسخ الایمان صحابہ کے عزم و ثبات میں کوئی تزلزل پیدا نہ کیا تھا،لیکن انسانی فطرت کے تقاضے سے اکثر ان پر بھی ایک شدید اضطراب کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔چناچہ اسی کیفیت کا ایک نمونہ حضرت خباب بن ارتؓ کی وہ روایت پیش کرتی ہے جو بخاری،ابو داؤد اور نسائی نے نقل کی ہے۔وہ فرماتے ہیں کہ جس زمانے میں مشرکین کی سختیوں سے ہم بری طرح تنگ آئے ہوئے تھے،ایک روز میں نے دیکھا کہ نبیﷺ کعبہ کی دیوار کے سائے میں تشریف رکھتے ہیں،میں نے حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ،آپ ہمارے لیے دعا نہیں فرماتے؟ یہ سن کر آپ کا چہرہ جوش اور جذبے سے سرخ ہوگیا اور آپ نے فرمایا تم سے پہلے جو اہل ایمان گزر چکے ہیں ان پر اس سے زیادہ سختیاں توڑی گئی ہیں،ان میں سے کسی کو زمین میں گڑھا کھود کر بٹھایا جاتا اور اس کے سر پر آرہ چلا کر اس کے دو ٹکڑے کر ڈالے جاتے،کسی کے جوڑوں پر لوہے کے کنگھے گھسے جاتے تھے تاکہ وہ ایمان سے باز آجائے،خدا کی قسم یہ کام پورا ہو کر رہے گا،یہاں تک کہ ایک شخص صنعاء سے حضرموت تک بےکھٹکے سفر کرے گا اور اللہ کے سوا کوئی نہ ہوگا جس کا وہ خوف کرے۔

اس اضطرابی کیفیت کو ٹھنڈے صبر و تحمل میں تبدیل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو سمجھاتا ہے کہ ہمارے جو وعدے دنیا اور آخرت کی کامرانیوں کے لیے ہیں،کوئی شخص مجرد زبانی دعوائے ایمان کر کے ان کا مستحق نہیں ہوسکتا،بلکہ ہر مدعی کو لازماً آزمائشوں کی بھٹی سے گزرنا ہوگا تاکہ وہ اپنے دعوے کی صلاحیت کا ثبوت دے۔ہماری جنت اتنی سستی نہیں ہے اور نہ دنیا ہی میں ہماری خاص عنایات ایسی ارزاں ہیں کہ تم بس زبان سے ہم پر ایمان لانے کا اعلان کرو اور ہم وہ سب کچھ تمہیں بخش دیں۔ان کے لیے تو امتحان شرط ہے،ہماری خاطر مشقتیں اٹھانی ہوں گی،جان و مال کا زیاں برداشت کرنا ہوگا،طرح طرح کی سختیاں جھیلنی ہوں گی،خطرات،مصائب اور مشکلات کا مقابلہ کرنا ہوگا،خوف سے بھی آزمائے جاؤ گے اور لالچ سے بھی،ہر چیز جسے عزیز و محبوب رکھتے ہو،ہماری رضا پر اسے قربان کرنا پڑے گا اور ہر تکلیف جو تمہیں ناگوار ہے،ہمارے لیے برداشت کرنی ہوگی،تب کہیں یہ بات کھلے گی کہ ہمیں ماننے کا جو دعوٰی تم نے کیا تھا وہ سچا تھا یا جھوٹا۔یہ بات قرآن مجید میں ہر اس مقام پر کہی گئی ہے جہاں مصائب و شدائد کے ہجوم میں مسلمانوں پر گھبراہٹ کا عالم طاری ہوا ہے،ہجرت کے بعد مدینے کی ابتدائی زندگی میں جب معاشی مشکلات،بیرون خطرات اور یہود و منافقین کی داخلی شرارتوں نے اہل ایمان کو سخت پریشان کر رکھا تھا،اس وقت فرمایا:

اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ ۭ مَسَّتْهُمُ الْبَاْسَاۗءُ وَالضَّرَّاۗءُ وَزُلْزِلُوْا حَتّٰى يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰى نَصْرُ اللّٰهِ ۭ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ (البقرہ:214)

 ”کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے حالانکہ ابھی تم پر وہ حالات نہیں گزرے جو تم سے پہلے گزرے ہوئے (اہل ایمان) پر گزر چکے ہیں؟ ان پر سختیاں اور تکلیفیں آئیں اور وہ ہلا مارے گئے، یہاں تک کہ رسول اور اس کے ساتھ ایمان لانے والے لوگ پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی،(تب انہیں مژدہ سنایا گیا کہ) خبردار رہو،اللہ کی مدد قریب ہے۔“

اسی طرح جنگ احد کے بعد جب مسلمانوں پر پھر مصائب کا ایک سخت دور آیا تو ارشاد ہوا: 

اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَيَعْلَمَ الصّٰبِرِيْنَ ۔(آل عمران:142)

”کیا تم نے سمجھ رکھا ہے کہ جنت میں داخل ہوجاؤ گے،حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو دیکھا ہی نہیں کہ تم میں سے جہاد میں جان لڑانے والے اور پامردی دکھانے والے کون ہیں؟“

قریب قریب یہی مضمون سورة آل عمران،آیت 179،سورة توبہ آیت 16،اور سورة محمد آیت 31 میں بھی بیان ہوا ہے۔ان ارشادات سے اللہ تعالیٰ نے یہ حقیقت مسلمانوں کے ذہن نشین فرمائی ہے کہ آزمائش ہی وہ کسوٹی ہے جس سے کھوٹا اور کھرا پرکھا جاتا ہے،کھوٹا خودبخود اللہ تعالیٰ کی راہ سے ہٹ جاتا ہے اور کھرا چھانٹ لیا جاتا ہے تاکہ اللہ کے ان انعامات سے سرفراز ہو جو صرف صادق الایمان لوگوں کا ہی حصہ ہیں۔“(تفہیم القرآن)

   جنت شدائد سے جبکہ جہنم خواہشات سے پُر ہے۔اس بات پر کامل یقین ہونا چاہئیے تاکہ انسان جنت کے راستے پر مستقل مزاجی سے چل سکے ولیکن اس راستے پر چلنا کٹھن ہو جاتا ہے اور انسان درمیان میں ہی کسی آسان راستے کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے اور بالاٰخر گمراہی کی کھائی میں چلا جاتا ہے۔

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا دوزخ خواہشات نفسانی سے ڈھک دی گئی ہے اور جنت مشکلات اور دشواریوں سے ڈھکی ہوئی ہے۔(بخاری:6487)

     حضرت ابوہریرہ ؓ ہی سے ایک اور روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جب اللہ تعالیٰ جنت اور جہنم کو پیدا کرچکا تو جبرائیل کو جنت کی طرف بھیجا اور کہا:جنت اور اس میں جنتیوں کے لیے جو کچھ ہم نے تیار کر رکھا ہے،اسے جا کر دیکھو،آپ نے فرمایا:وہ آئے اور جنت کو اور جنتیوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے جو تیار کر رکھا ہے اسے دیکھا:آپ نے فرمایا:پھر اللہ کے پاس واپس گئے اور عرض کیا:تیری عزت کی قسم! جو بھی اس کے بارے میں سن لے اس میں ضرور داخل ہوگا، پھر اللہ نے حکم دیا تو وہ ناپسندیدہ اور تکلیف دہ چیزوں سے گھیر دی گئی،اور اللہ نے کہا:اس کی طرف دوبارہ جاؤ اور اس میں جنتیوں کے لیے ہم نے جو تیار کیا ہے اسے دیکھو۔آپ نے فرمایا:جبرائیلؑ جنت کی طرف دوبارہ گئے تو وہ ناپسندیدہ اور تکلیف دہ چیزوں سے گھری ہوئی تھی چناچہ وہ اللہ تعالیٰ کے پاس لوٹ کر آئے اور عرض کیا:مجھے اندیشہ ہے کہ اس میں کوئی داخل ہی نہیں ہوگا،اللہ نے کہا:جہنم کی طرف جاؤ اور جہنم کو اور جو کچھ جہنمیوں کے لیے میں نے تیار کیا ہے اسے جا کر دیکھو،(انہوں نے دیکھا کہ) اس کا ایک حصہ دوسرے پر چڑھ رہا ہے،وہ اللہ کے پاس آئے اور عرض کیا:تیری عزت کی قسم! اس کے بارے میں جو بھی سن لے اس میں داخل نہیں ہوگا۔پھر اللہ نے حکم دیا تو وہ شہوات سے گھیر دی گئی۔اللہ تعالیٰ نے کہا:اس کی طرف دوبارہ جاؤ،وہ اس کی طرف دوبارہ گئے اور (واپس آکر) عرض کیا:تیری عزت کی قسم! مجھے ڈر ہے کہ اس سے کوئی نجات نہیں پائے گا بلکہ اس میں داخل ہوگا۔(ترمذی:2560)

      مذکورہ وضاحت سے یہ بات عیاں ہوئی کہ جنت کا راستہ پھولوں کا سیج نہیں ہے بلکہ ایک پُر مشقت اور طویل راستہ ہے،جس میں قدم قدم پر رکاوٹیں آتی ہیں۔اب قدرتی طور پر یہ سوال ذہن میں اٹھتا ہے کہ آخر اس مشکل راستے کو ہم کیسے سر کر سکتے ہیں؟اس کا تشفی بخش جواب یہ ہے کہ اس کے لیے تقوٰی کی پونجی ناگزیر ہے۔تقوٰی کامیابی کی کلید اور دین کی جان ہے،جس کے بغیر کارزار حیات میں کسی بھی شخص کے لیے کامیابی ممکن نہیں ہے۔اب اگر آدمی سیدھی راہ اختیار کرے اور اس پر چلنے کا عزم کرلے تو اللہ کی مدد اس کے شامل حال ہوتی ہے اور اسے تقوٰی کی زندگی گزارنا آسان ہو جاتا ہے۔ذیل کی آیتِ مبارکہ میں اسی چیز کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:

وَالَّذِيۡنَ اهۡتَدَوۡا زَادَهُمۡ هُدًى وَّاٰتٰٮهُمۡ تَقۡوٰٮهُمۡ۞(محمد:17)

”رہے وہ لوگ جنہوں نے ہدایت پائی ہے،اللہ ان کو اور زیادہ ہدایت دیتا ہے اور انہیں ان کے حصے  کا تقوٰی  عطا فرماتا ہے۔“

     اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں تقوٰی کی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرماۓ تاکہ ہم بآسانی اپنے منزلِ مقصود کو پہنچ سکیں۔آمین

Comments