Supplication : The Only Way Forward (Part 1)


    انسان ایک ایسی کمزور مخلوق کا نام ہے کہ جس کو قدم بقدم مختلف حاجات کی ضرورت پڑتی ہے۔انسان کا ان حاجات کو رب کے سامنے ڈالنے کو ”دعا“ کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔پورے آداب و شرائط کے ساتھ مانگی گئی دعا عرشِ الٰہی کو بھی ہلا کے رکھ دیتی ہے۔دعا اگرچہ ایک طرف اپنے رب کو حاجت روائی کے لئے پکارنا ہے تو دوسری طرف یہ فطرت کی آواز ہے۔انسان کبھی کبھار مسائل کے بھنور میں اس طرح پھنس جاتا ہے کہ اسے کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا،کوئی مشورہ اور تجویز اس کی تکمیل کا ذریعہ نہیں بنتی،ساری امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں،سب سہارے چھوٹ جاتے ہیں اور انسان اپنے آپ کو بے بس اور مجبور محض محسوس کرنے لگتا ہے اور اسے ہر طرف مایوسی کے بادل دِکھنے لگتے ہیں تو آناً فاناً اس کے اندر سے ایک آواز اُبھرتی ہے کہ ایسی حالت میں آپ کو رب کی ذات کے سوا کوئی کام آنے والا نہیں ہے۔انسان چاروناچار رب کے دربار میں اپنی حاضری دینے پر مجبور ہوجاتا ہے اور اسے یہیں پر یہ حاضری دینی بھی چاہئیے۔اس حوالے سے قرآنِ پاک میں رب العٰلمین سرکش انسان کو چیلنج دے کر نصیحت حاصل کرنے کی دعوت ان الفاظ میں دیتا ہے:

اَمَّنۡ يُّجِيۡبُ الۡمُضۡطَرَّ اِذَا دَعَاهُ وَيَكۡشِفُ السُّوۡٓءَ وَيَجۡعَلُكُمۡ خُلَفَآءَ الۡاَرۡضِ‌ ؕ ءَاِلٰـهٌ مَّعَ اللّٰهِ ‌ؕ قَلِيۡلًا مَّا تَذَكَّرُوۡنَ ۞(النمل:62)

”بھلا کون ہے جو بےقرار کی دعا سنتا ہے جب وہ اسے پکارے،اور اس کے دکھ کو دور کرتا ہے اور تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے،کیا اللہ کے سوا کوئی اور معبود بھی ہے،تم لوگ کم ہی نصیحت حاصل کرتے ہو“


  دعا کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کرتے ہوئے قرآنِ پاک نے ذیل کی آیت میں دعا کا سارا فلسفہ سمیٹ کے رکھ دیا ہے۔ اس آیت کو پڑھ کر انسان اس بات سے متفق  ہوجاتا ہے کہ واقعی طور پر دعا عین عبادت اور جانِ عبادت ہے۔اس آیت میں ایک جانب رب کی طرف سے نرم انداز میں بندے کو اپنے دربار میں دعا مانگنے کی دعوت ہے تو دوسری جانب غیر اللہ سے دعا مانگنے پر  ان کی قہاریت اپنے نقطہ عروج پر دیکھنےکو ملتی ہے،اسی سے اندازہ ہوتا ہے کہ غیر اللہ سے دعا مانگنے پر اللہ تعالٰی کتنے غضبناک ہوتے ہوں گے:

وَقَالَ رَبُّكُمُ ادۡعُوۡنِىۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَـكُمۡؕ اِنَّ الَّذِيۡنَ يَسۡتَكۡبِرُوۡنَ عَنۡ عِبَادَتِىۡ سَيَدۡخُلُوۡنَ جَهَنَّمَ دَاخِرِيۡنَ  ۞(المٶمن:60)

”تمہارا رب کہتا ہے”مجھے پُکارو،میں تمہاری دُعائیں قبول کروں گا،جو لوگ گھمنڈ میں آکر میری عبادت سے مُنہ موڑتے ہیں،ضرور وہ ذلیل و خوار ہو کر جہنّم میں داخل ہوں گے۔“

مولانا سید ابوالاعلٰی مودودیؒ نے اس آیتِ مبارکہ کے ذیل میں بہت ہی قیمتی باتیں لکھی ہیں،لکھتے ہیں:

”اس آیت میں دو باتیں خاص طور پر قابل توجہ ہیں۔ ایک یہ کہ دعا اور عبادت کو یہاں مترادف الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ دعائیں عبادت اور جان عبادت ہے۔ دوسرے یہ کہ اللہ سے دعا نہ مانگنے والوں کے لیے”گھمنڈ میں آکر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں“کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ سے دعا مانگنا عین تقاضائے بندگی ہے،اور اس سے منہ موڑنے کے معنی یہ ہیں کہ آدمی تکبر میں مبتلا ہے اس لیے اپنے خالق ومالک کے آگے اعتراف عبودیت کرنے سے کتراتا ہے۔ نبی اکرمﷺنے اپنے ارشادات میں آیت کے ان دونوں مضامین کو کھول کر بیان فرما دیا ہے۔ حضرت نعمان بن بشیر کی روایت ہے کہ حضورﷺنے فرمایا ان الدعاء ھو العبادۃ ثم قرأ ادعونی استجب لکم۔یعنی دعا عین عبادت ہے،پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی (احمد،ترمذی،ابوداؤد ونسائی،ابن ماجہ،ابن ابی حتم،ابن جریر)۔حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ آپﷺنے فرمایا الدعاء مخ العبادۃ،”دعا مغز عبادت ہے“(ترمذی) ۔ حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ حضورﷺنے ارشاد فرمایا من لم یسأل اللہ یغضب علیہ،”جو اللہ سے نہیں مانگتا اللہ اس پر غضبناک ہوتا ہے۔“(ترمذی)

اس مقام پر پہنچ کر وہ عقدہ بھی حل ہوجاتا ہے جو بہت سے ذہنوں میں اکثر الجھن ڈالتا رہتا ہے۔ لوگ دعا کے معاملے پر اس طرح سوچتے ہیں کہ جب تقدیر کی برائی اور بھلائی اللہ کے اختیار میں ہے اور وہ اپنی غالب حکمت و مصلحت کے لحاظ سے جو فیصلہ کرچکا ہے وہی کچھ لازماً رونما ہو کر رہنا ہے تو پھر ہمارے دعا مانگنے کا حاصل کیا ہے۔ یہ ایک بڑی غلط فہمی ہے جو آدمی کے دل سے دعا کی ساری اہمیت نکال دیتی ہے،اور اس باطل خیال میں مبتلا رہتے ہوئے اگر آدمی دعا مانگے بھی تو اس کی دعا میں کوئی روح باقی نہیں رہتی۔قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیت اس غلط فہمی کو دو طریقوں سے رفع کرتی ہے۔ اولاً،اللہ تعالیٰ بالفاظ صریح فرما رہا ہےکہ”مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا“اس سے صاف معلوم ہوا کہ قضا اور تقدیر کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس نے ہماری طرح معاذاللہ،خود اللہ تعالیٰ کے ہاتھ بھی باندھ دیے ہوں اور دعا قبول کرنے کے اختیارات اس سے سلب ہوگئے ہوں۔بندے تو بلا شبہ اللہ کے فیصلوں کو ٹالنے یا بدل دینے کی طاقت نہیں رکھتے،مگر اللہ تعالیٰ خود یہ طاقت ضرور رکھتا ہے کہ کسی بندے کی دعائیں اور التجائیں سن کر اپنا فیصلہ بدل دے۔دوسری بات جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ دعا خواہ قبول ہو یا نہ ہو،بہرحال ایک فائدے اور بہت بڑے فائدے سے وہ کسی صورت میں بھی خالی نہیں ہوتی، اور وہ یہ ہے کہ بندہ اپنے رب کے سامنے اپنی حاجتیں پیش کرکے اور اس سے دعا مانگ کر اس کی آقائی وبالا دستی کا اعتراف اور اپنی بندگی و عاجزی کا اقرار کرتا ہے۔یہ اظہار عبودیت بجائے خود عبادت،بلکہ جان عبادت ہے جس کے اجر سے بندہ کسی حال میں بھی محروم نہ رہے گا قطع نظر اس سے کہ وہ خاص چیز اس کو عطا کی جائے یا نہ کی جائے جس کے لیے اس نے دعا کی تھی۔۔۔۔(تفہیم القرآن)

  کتنی عجیب بات ہے کہ دنیا والے مانگنے سے ناراض ہوتے ہیں جبکہ اللہ تعالٰی مانگنے والے سے خوش اور نہ مانگنے والے سے ناراض ہوتے ہیں۔دنیا داروں سے اگر کوئی ایک دفعہ مانگے تو وہ دے دیں گے۔دوسری دفعہ مانگے تو وہ عذر پیش کریں گے۔تیسری دفعہ مانگے تو زبان سے منع کریں گے۔چوتھی دفعہ مانگے تو رشتہ ناطہ ہی توڑ ڈالیں گے۔جب کہ رب العٰلمین کا معاملہ مختلف ہے،بندہ جتنی دفعہ بھی مانگتا ہے وہ بلا کراہت دیتا ہی چلا جاتا ہے اور جو بندہ اپنا سارا معاملہ ہی اللہ کے سپرد کر دیتا ہے تو اللہ تعالٰی اسے مقربین میں شامل کر دیتا ہے،جو کہ بندے کے لیے سب سے بڑی سعادت ہوتی ہے۔بندہ عاجز کے لئے بہتری بھی اسی میں ہے کہ وہ دنیا کے معاملے میں دوسروں سے آگے بڑھنے کے بجائے قناعت والی زندگی اختیار کرکے بس اللہ تعالٰی سے فضل کا سوال کرے،جس کی تاکید اسے خود اللہ تعالٰی نے ہی قرآنِ پاک میں ان الفاظ میں کر دی ہے:

وَسۡئَـلُوا اللّٰهَ مِنۡ فَضۡلِهٖ ؕ۞(النساء:32)

"ہاں اللہ سے اس کے فضل کی دُعا مانگتے رہو“


 انسان کو سب سے بڑا اور مضبوط رشتہ اپنے خالقِ حقیقی سے ہوتا ہے۔جن چیزوں سے اس رشتے میں مضبوطی آتی ہے ان میں سرفہرست”دعا“ ہے۔دعاٶں کے ذریعے سے بندے کو اپنے معبودِ حقیقی کی قربت میں بھی کافی حد تک مدد ملتی ہے۔انسان کو ہر ایک چیز اللہ تعالٰی نے ہی عطا کر رکھی ہے اور ان تمام اشیاء کو رب کے منشا کے مطابق استعمال میں لانا بھی عین عبادت ہے۔اگر دست و بازو اللہ نے عطا کیے ہیں تو سیدھی سی بات ہے کہ انہیں غیر اللہ کے سامنے پھیلانے میں ہمارے لیے ذلت اور رسوائی ہے اور یہ یماری بے حسی اور ہمارے جہل کا بین ثبوت بھی ہوگا۔اس کے در کا سوالی بنے رہنے میں ہی ہماری ساری عزت،توقیر اور نجات ہے۔واقعی طور پر مجبور تو ہم ہیں پر اللہ مجبور نہیں ہے۔قرآنِ پاک نے اس چیز کا تذکرہ ان الفاظ میں کر دیا ہے:

يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اَنۡتُمُ الۡفُقَرَآءُ اِلَى اللّٰهِۚ وَاللّٰهُ هُوَ الۡغَنِىُّ الۡحَمِيۡدُ ۞(فاطر:15)

”لوگو،تم ہی اللہ کے محتاج ہو اور اللہ تو غنی وحمید ہے۔“

دوسری جگہ قرآنِ پاک میں ارشاد ربانی ہے:

قُلۡ مَا يَعۡبَـؤُا بِكُمۡ رَبِّىۡ لَوۡلَا دُعَآؤُكُمۡ‌ۚ۞(الفرقان:77)

”اے محمدؐ،لوگوں سے کہو”میرے ربّ کو تمہاری کیا حاجت پڑی ہے اگر تم اُس کو نہ  پکارو۔“


 نبی اکرم ﷺ نے بھی دلنشین انداز میں اسی حقیقت کو ایک حدیثِ قدسی میں اس طرح بیان کر دیا ہے:

  حضرت ابوذر غفاریؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ اللہ تبارک وتعالیٰ سے روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ اللہ نے فرمایا:” ۔۔۔۔اے میرے بندو! تم سب گمراہ ہو سوائے اس کے جسے میں ہدایت سے نواز دوں، پس تم مجھ ہی سے ہدایت مانگو میں تمہیں ہدایت دوں گا۔ اے میرے بندو! تم سب بھوکے ہو سوائے اس کے جسے میں کھلاؤں، پس تم مجھ ہی سے کھانا مانگو میں تمہیں کھانا دوں گا۔اے میرے بندو! تم سب ننگے ہو سواۓ اس کے جسے میں لباس پہناؤں پس تم مجھ ہی سے لباس مانگو میں تمہیں لباس دوں گا۔اے میرے بندو! تم سب دن رات گناہ کرتے ہو اور میں سارے گناہوں کو بخش دیتا ہوں پس تم مجھ ہی سے بخشش مانگو، میں تمہیں بخش دوں گا۔اے میرے بندو! تم سب کی رسائی مجھے نقصان پہنچانے تک نہیں ہو سکتی کہ تم مجھے نقصان پہنچاؤ اور نہ تمہاری رسائی مجھے نفع پہنچانے تک ہو سکتی ہے کہ تم مجھے نفع پہنچاؤ۔ اے میرے بندو! اگر تمھارے پہلے کے لوگ اور تمھارے آخر کے لوگ اور تمھارے انسان اور تمھارے جنّات تم میں سب سے زیادہ متقی شخص کے دل جیسے ہوجائیں تو یہ میری سلطنت میں کچھ اضافہ نہ کرے گا۔اے میرے بندو! اگر تمھارے پہلے کے لوگ اور تمھارے آخر کے لوگ اور تمھارے انسان اور تمھارے جنّات،تم میں سب سے زیادہ فاجر شخص کے دل جیسے ہوجائیں تو یہ میری سلطنت میں کچھ کمی نہ کرے گا۔ اے میرے بندو! اگر تمھارے پہلے کے لوگ اور تمھارے آخر کے لوگ،اور تمھارے انسان اور تمھارے جنّات،ایک کھلے میدان میں کھڑے ہو جائیں اور سب مجھ سے سوال کریں اور میں ہر انسان کو اس کی طلب کردہ چیز دے دوں تو اس سے میرے خزانوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی سوائے ایسے جیسے ایک سوئی سمندر میں ڈبونے کے بعد (پانی میں) کمی کرتی ہے۔ اے میرے بندو! یہ تمہارے اعمال ہیں کہ جنہیں میں شمار کر رہا ہوں پھر میں تمہیں ان کا پورا پورا بدلہ دوں گا تو جو شخص بھلائی پائے وہ اللہ کا شکر ادا کرے اور جو اس کے علاوہ پائے تو وہ اپنے ہی نفس کو ملامت کرے۔“(مسلم)


  انسان کو یہ علم ہونا چاہئیے کہ اضطراب،بےکراری اور پریشانی کی حالت میں اس کے لیے ایک بہت بڑا اور  واحد سہارا موجود ہے جو ہر لمحہ اس کی ضروریات کی تکمیل اور فریادرسی کے لیے تیار ہے اور وہ اللہ ذو الجلال والاکرام ہے،جو شب و روز کی گھڑی میں انسان کی پکار سنتا ہے،جسے انسان کے دعا کے لیے اٹھے ہوئے ہاتھ خالی لوٹاتے ہوئے شرم آتی ہے،جو مانگنے والے سے خوش اور نہ مانگنے والے سے ناراض ہوتا ہے۔جس کے خزانوں کی اتنی وسعت ہے کہ بانٹنے سے ان میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔انسان کو چاہئیے کہ اس باب الٰہی کو ضرور کھٹکھٹائے جسے کھٹکھٹانے والا کوئی بھی محروم نہیں رہتا۔کتنی درد بھری آواز میں وہ بندوں کو اپنے در پر بُلاتا ہے کہ مختصر الفاظ میں مضامین کا ایک سمندر سمیٹا گیا ہے۔ان میں ایسا زور ہے کہ دلوں میں تیرونشتر کی طرح اثر کرتے ہیں۔ان میں ایسی شیرینی ہے کہ کانوں میں رس پڑتا معلوم ہوتا ہے۔ایسا نغمہ ہے کہ آدمی بے اختیار جھومنے لگتا ہے۔اپنے محبوبِ حقیقی کی چاہت دیکھ کر بندہ عاجز کی آنکھوں سے خود ہی آنسو ٹپکتے ہیں۔ذرا اپنے ربِ کریم کے نظرِ کرم کو تو دیکھئے:

وَاِذَا سَاَلَـكَ عِبَادِىۡ عَنِّىۡ فَاِنِّىۡ قَرِيۡبٌؕ اُجِيۡبُ دَعۡوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلۡيَسۡتَجِيۡبُوۡا لِىۡ وَلۡيُؤۡمِنُوۡا بِىۡ لَعَلَّهُمۡ يَرۡشُدُوۡنَ ۞

”میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں تو انہیں بتادو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے،میں اس کی پکار کو سنتا اور جواب دیتا ہوں۔لہٰذا انہیں چاہئیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں شاید کہ وہ راہ راست پالیں۔“

اس آیتِ مبارکہ کے ذیل میں سید قطب شہیدؒ نے ایک ایسا شاندار نوٹ لکھا ہے،جو کہ واقعی طور پر انسان کی روح کو اپیل کرکے اسے رب کے در کا فقیر بناکے ہی رکھ دیتا ہے،لکھتے ہیں:

” میں قریب ہوں۔“پکارنے والا جب بھی مجھے پکارے میں اس کی پکار سنتا ہوں۔کیا نرمی ہے؟ذرا نظرکرم ملاحظہ ہو؟الفاظ و معانی کی صفائی دیکھو!انس و محبت دیکھو!روزے کی تکالیف کیا۔بلکہ تمام عبادات کی تکالیف مشقتیں اس قریب و محبت کے مقابلے میں کہاں رہتی ہیں؟اس انس اور محبت کے ٹھنڈے سایے میں احساس مشقت کہاں باقی رہتا ہے؟

 اس آیت کے لفظ لفظ پر انس و محبت کی تازہ شبنم ہے۔”میرے بندے!اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں تو انہیں بتادیجئے کہ میں تو ان سے قریب ہوں پکارنے والا جب پکارتا ہے تو میں اس کی پکارسنتا ہوں اور جواب دیتا ہوں۔“أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ

 عجیب آیت ہے یہ!دل مومن کو میٹھی تازگی،خوشگوار محبت،پرسکوں ورضامندی اور یقین محکم سے بھردیتی ہے۔مومن تسلیم ورضا کی جنت میں پہنچ جاتا ہے۔اسے پر شفقت وصال نصیب ہوتا ہے۔وہ پرامن پناہ گاہ اور پرسکون آرام گاہ میں پہنچ جاتا ہے انس و محبت کی اس فضا میں پرجوش باریابی کے اس ماحول میں اور الہامی قبولیت کے اس پس وپیش میں،اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ہدایت فرماتے ہیں کہ وہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں۔ ہوسکتا ہے کہ یہ ایمان اور یہ اطاعت انہیں راہ ہدایت اور راہ مستقیم پر پہنچادے۔فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ

 ”لہٰذا انہیں چاہئے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لے آئیں شاید وہ راست پالیں۔“

 تسلیم ورضا اور ایمان باللہ کا آخری فائدہ بھی بندوں کا ہے یعنی ہدایت و راہنمائی اور اصلاح حال۔خود اللہ کو ایمان اور بندگی سے کیا فائدہ۔وہ تو دونوں جہانوں سے مستغنی ہے ۔

 غرض ہدایت وہی ہے جو اللہ پر ایمان اور اللہ کی اطاعت پر مبنی ہو۔متلاشیان راہ حق کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو پکاریں،لیکن قبولیت دعا میں جلدی نہ کریں۔کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی حکیمانہ مصلحتوں کے مطابق اور ہر پکار کا جواب اپنے وقت اور مناسب انداز میں دیتے ہیں۔(فی ظلال القرآن )


     بندہ جب بھی رب کے دربار میں تشریف لائے تو اسے نہایت ہی عاجزی اور انکساری کا اظہار کرنا چاہئیے۔اگر خدانخواستہ اسے رب کے دربار سے ٹھکرا دیا گیا تواسے کہیں پے بھی ٹھکانا نہیں مل سکتا ہے۔رب بھی چاہتا ہے کہ بندہ اسے گڑا گڑا کے اور چپکےچپکے پُکارے،جیسا کہ قرآنِ پاک میں اللہ تعالٰی ہی کا ارشاد ہے:

اُدۡعُوۡا رَبَّكُمۡ تَضَرُّعًا وَّخُفۡيَةً‌ ؕ ۞(الاعراف:55)

”اپنے رب کو پکارو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے“

رب بندے کے اُس آنسو سے کیسے غافل ہوسکتا ہے جو اس نے مسکراتے ہوئے پلکوں کے پیچھے چھپا لیا تھا،وہ اس کے اُس دعا کو کیسے نظر انداز کرسکتا ہے جس کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہوئے اس کا دل تکلیف سے پھٹ رہا تھا۔وہ شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے،بس اس کو محسوس کرنے کی ہمت کرنی ہے۔ رب کے سامنے بندے کو یقینِ محکم کے ساتھ ہی اپنے دونوں ہاتھ اٹھانے چاہیئے اور یہ بات اس کے دل میں پہلے ہی ہونی چاہیئے کہ رب کے دربار سے ہی سب کچھ مل سکتا ہے چونکہ وہ ہر چیز کا وارث ہے،اسی کے پاس ہر چیز کا خزانہ ہے۔بندہ محض فقیر اور عاجز ہے۔

  لہٰذا بندہ مومن کو چاہئیے کہ وہ جب اللہ سے مانگے تو اس کے الفاظ بھی عجز کا اظہار کریں اور اس کے جسم پر بھی اس کی عظمت اور اپنی عاجزی کے احساس سے کپکپی طاری ہو۔اس کا لب و لہجہ عاجزی کی تصویر ہو۔اس کا ہر بول زبان سے ٹوٹ ٹوٹ کر نکلے۔اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی برکھا برسے اور دل اس یقین سے سرشار ہو کہ:

کیا  فائدہ  فکرِ  بیش و کم  سے ہوگا

ہم کیا ہیں،جو کوئی کام ہم سے ہوگا 

 جو  ہوا،ہوا  کرم  سے  تیرے

 جو ہوگا،تیرے کرم سے ہوگا


*نوٹ*:(مضمون کے بقیہ حصے کو اگلی قسط میں ملاحظہ فرمائیں)

Comments