Performing Good Deeds:Why To Delay?(Part 7)


  اللہ تعالی نے اس پوری کائنات کو تخلیق فرمایا ہے جس میں بے شمار مخلوقات  پائی جاتی ہیں۔یہ تمام مخلوقات اپنی تمام تر قوت و شوکت کے باوجود ایک شاہکار مخلوق یعنی انسان کے لیے مسخر و مطبع کردی گئی ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اللہ کے چہیتے اس انسان کو نہ صرف ان سے خدمت لینے کا حق دیا گیا بلکہ کائنات کی پاک و منزہ مخلوق یعنی فرشتوں کا اسے مسجود بنا دیا گیا اور اشرف المخلوقات کا تاج اس کے سر پر سجایا گیا ہے۔پوری کائنات کی مخلوقات اگر انسان کی خدمت کے لیے بنائے گئے،تو آخر انسان کا مقصدِ تخلیق کیا ہے؟اس سوال کا تشفی بخش جواب خود ہی اللہ تبارک و تعالی اپنے کلامِ پاک میں اس طرح دیتے ہیں کہ:

وَمَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَالۡاِنۡسَ اِلَّا لِيَعۡبُدُوۡنِ(الذاريات:56)

*”میں نے جِنّ اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔“*

شیخ سعدیؒ نے اس مفہوم کی ترجمانی اس طرح کی ہے:؎

        *زندگی آمد برائے بندگی*
        *زندگی بے بندگی شرمندگی!*

اب انسان اگر اپنی ہی تخلیق کی غرض و غایت سے غافل رہے تو لازمی طور پر یہ زندگی بھر ٹھوکروں پر ٹھوکریں کھاتا رہے گا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ آج مادی و علمی لحاظ سے اس نے بہت ترقی کی ہے لیکن اپنی زندگی کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت و بندگی کے قالب میں ڈھالنے سے قاصر رہا تو انسانی سطح پر اس کی ساری زندگی بیکار اور رائیگاں ہے۔علامہ اقبالؒ نے اپنے ان اشعار میں اس کی اسی ناکامی کی طرف اشارہ کیا ہے:؎

    *ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا* 

    *اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا* 

    *جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا*

    *زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا!*

لمحہ فکریہ یہ ہے کہ انسان اپنے رب کے ہاں اعلی و ارفع منصب ملنے کے باوجود بھی سرکشی و بغاوت پر تلا رہتا ہے۔قرآنِ پاک میں اللہ تعالی اس غافل اور بے مقصد زندگی گزارنے والے انسان کو سخت الفاظ میں سرزنش کرتے ہوئے مخاطب ہیں کہ:

يٰۤاَيُّهَا الۡاِنۡسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الۡكَرِيۡمِ(انفطار:6)

*”اے انسان،کس چیز نے تجھے اپنے اُس رب کریم کی طرف سے دھوکے میں ڈال دیا۔“*

اس آیتِ مبارکہ کے ذیل میں مولانا اسحاق مدنی لکھتے ہیں کہ:

”انسان سے اس کے ضمیر کو جھنجھوڑنے والا ایک سوال:سو ارشاد فرمایا گیا”اے انسان تجھے کس چیز نے دھوکے میں ڈال دیا اپنے رب کریم کے بارے میں؟”جس کے کرم و احسان کے عظیم الشان مظاہر ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں،اور جس کی رحمتوں اور عنایتوں میں تو سر تا پا ڈوبا ہوا ہے،اور جس کا تقاضا یہ تھا کہ تو ہر وقت اور طرح سے اس کے آگے اور صرف اسی کے آگے جھک جاتا اور جھکا ہی رہتا۔اور دل و جان سے اس کی اطاعت و بندگی میں ہمیشہ مشغول و منہمک رہتا،مگر تو ہے کہ تو اسی کا باغی اور سرکش بن گیا،اور حق عبادت و بندگی ادا کرنے کی بجائے تو اس کو بھلا بیٹھا۔اور تکبر و غرور میں مبتلا ہوگیا،آخر تجھے کس چیز نے اپنے رب کریم کے بارے میں دھوکے میں ڈال دیا،وہ اگر اپنی شان کریمی کی بنا پر تجھے ڈھیل دیئے جارہا ہے تو اس سے دھوکہ کھانے کی بجائے اس کا تقاضا تو یہ تھا اور یہ ہے کہ تو ہمیشہ اور ہر حال میں اپنے ظاہر و باطن اور اپنے قلب و قالب اور دل و جان سے اس کے حضور جھک جھک جائے،کہ یہ اس خالق و مالک اور اس کے کرم کا تجھ پر حق بھی ہے اور اسی میں تیرا بھلا اور فائدہ بھی ہے۔دنیا کی اس عارضی زندگی میں بھی اور آخرت کے اس ابدی جہاں میں بھی جو کہ اس کو بعد آنے والا ہے،جو ابدی ہے اور جس کی کامیابی اصل اور حقیقی کامیابی ہے،اور اس طرح تو دارین کی سعادت اور سرخروئی سے بہرہ ور اور سرفراز ہوجاتا،لیکن تو ہے کہ الٹا اس کے اس حلم و کرم کی بنا پر اسی کے بارے میں دھوکے میں پڑ گیا اور اس کے حقوق و فرائض سے آگہی اور ادائیگی کے بارے میں غفلت اور لاپروائی برتتا ہے۔“(تفسیر مدنی)

دوسری جگہ ارشادِ ربانی ہے:

يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّكُمۡ وَاخۡشَوۡا يَوۡمًا لَّا يَجۡزِىۡ وَالِدٌ عَنۡ وَّلَدِهٖ  وَلَا مَوۡلُوۡدٌ هُوَ جَازٍ عَنۡ وَّالِدِهٖ شَيۡــئًا‌ ؕ اِنَّ وَعۡدَ اللّٰهِ حَقٌّ‌  ۖ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الۡحَيٰوةُ الدُّنۡيَا  وَلَا يَغُرَّنَّكُمۡ بِاللّٰهِ الۡغَرُوۡرُ‏(لقمان:33)

*”لوگو! بچو اپنے ربّ کے غضب سے اور ڈرو اُس دن سے جبکہ کوئی باپ اپنے بیٹے کی طرف سے بدلہ نہ دے گا اور نہ کوئی بیٹا ہی اپنے باپ کی طرف سے کچھ بدلہ دینے والا ہوگا۔فی الواقع اللہ کا وعدہ سچّا ہے۔پس یہ دُنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے اور نہ دھوکہ باز تم کو اللہ کے معاملے میں دھوکہ دینے پائے۔“*

اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے مولانا سید ابو الاعلی مودودیؒ لکھتے ہیں:

”یعنی دوست،لیڈر،پیر اور اسی طرح کے دوسرے لوگ تو پھر بھی دور کا تعلق رکھنے والے ہیں،دنیا میں قریب ترین تعلق اگر کوئی ہے تو وہ اولاد اور والدین کا ہے۔مگر وہاں حالت یہ ہوگی کہ بیٹا پکڑا گیا ہو تو باپ آگے بڑھ کر یہ نہیں کہے گا کہ اسکے گناہ میں مجھے پکڑ لیا جائے،اور باپ کی شامت آرہی ہو تو بیٹے میں یہ کہنے کی ہمت نہیں ہوگی کہ اس کے بدلے مجھے جہنم میں بھیج دیا جائے۔اس حالت میں یہ توقع کرنے کی کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ کوئی دوسرا شخص وہاں کسی کے کچھ کام آئے گا۔لہٰذا نادان ہے وہ شخص جو دنیا میں دوسروں کی خاطر اپنی عاقبت خراب کرتا ہے،یا کسی کے بھروسے پر گمراہی اور گناہ کا راستہ اختیار کرتا ہے۔اس مقام پر آیت نمبر 15 کا مضمون بھی نگاہ میں رہنا چاہیے جس میں اولاد کو تلقین کی گئی تھی کہ دنیوی زندگی کے معاملات میں والدین کی خدمت کرنا تو بیشک ہے مگر دین و اعتقاد کے معاملے میں والدین کے کہنے پر گمراہی قبول کرلینا ہرگز صحیح نہیں ہے۔

اللہ کے وعدے سے مراد یہ وعدہ ہے کہ قیامت آنے والی ہے اور ایک روز اللہ کی عدالت قائم ہو کر رہے گی جس میں ہر ایک کو اپنے اعمال کی جوابدہی کرنی ہوگی۔ 

دنیا کی زندگی سطح بیں انسانوں کو مختلف قسم کی غلط فہمیوں میں مبتلا کرتی ہے،کوئی یہ سمجھتا ہے کہ جینا اور مرنا جو کچھ ہے بس اسی دنیا میں ہے،اس کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہے،لہٰذا جتنا کچھ بھی تمہیں کرنا ہے بس یہیں کرلو،کوئی اپنی دولت اور طاقت اور خوشحالی کے نشے میں بدمست ہو کر اپنی موت کو بھول جاتا ہے اور اس خیال خام میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ اس کا عیش اور اس کا اقتدار لازوال ہے۔کوئی اخلاقی و روحانی مقاصد کو فراموش کر کے صرف مادی فوائد اور لذتوں کو مقصود بالذات سمجھ لیتا ہے اور”معیار زندگی“کی بلندی کے سوا کسی دوسرے مقصد کو کوئی اہمیت نہیں دیتا خواہ نتیجے میں اس کا معیار آدمیت کتنا ہی پست ہوتا چلا جائے۔کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ دنیوی خوشحالی ہی حق و باطل کا اصل معیار ہے،ہر وہ طریقہ حق ہے جس پر چل کر یہ نتیجہ حاصل ہو اور اس کے برعکس جو کچھ بھی ہے باطل ہے۔کوئی اسی خوشحالی کو مقبول بارگاہ الٰہی ہونے کی علامت سمجھتا ہے اور یہ قاعدہ کلیہ بنا کر بیٹھ جاتا ہے کہ جس کی دنیا خوب بن رہی ہے،خواہ کیسے ہی طریقوں سے بنے،وہ خدا کا محبوب ہے،اور جس کی دنیا خراب ہے،چاہے وہ حق پسندی و راست بازی ہی کی بدولت خراب ہو،اس کی عاقبت بھی خراب ہے۔یہ اور ایسی ہی جتنی غلط فہمیاں بھی ہیں،ان سب کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں”دنیوی زندگی کے دھوکے“سے تعبیر فرمایا ہے۔ 

الغرور (دھوکے باز) سے مراد شیطان بھی ہوسکتا ہے،کوئی انسان یا انسانوں کا کوئی گروہ بھی ہوسکتا ہے،انسان کا اپنا نفس بھی ہوسکتا ہے،اور کوئی دوسری چیز بھی ہو سکتی ہے۔کسی شخص خاص یا شئے خاص کا تعین کیے بغیر اس وسیع المعنی لفظ کو اس کی مطلق صورت میں رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ مختلف لوگوں کے لیے فریب خوردگی کے بنیادی اسباب مختلف ہوتے ہیں۔جس شخص نے خاص طور پر جس ذریعہ سے بھی وہ اصل فریب کھایا ہو جس کے اثر سے اس کی زندگی کا رخ صحیح سمت سے غلط سمت میں مڑ گیا وہی اس کے لیے الغرور ہے۔ 

”اللہ کے معاملے میں دھوکا دینے“کے الفاظ بھی بہت وسیع ہیں جن میں بیشمار مختلف قسم کے دھوکے آجاتے ہیں۔کسی کو اس کا”دھوکے باز“یہ یقین دلاتا ہے کہ خدا سرے سے ہے ہی نہیں۔کسی کو یہ سمجھاتا ہے کہ خدا اس دنیا کو بنا کر الگ جا بیٹھا ہے اور اب یہ دنیا بندوں کے حوالے ہے۔کسی کو اس غلط فہمی میں ڈالتا ہے کہ خدا کے کچھ پیارے ایسے ہیں جن کا تقرب حاصل کر لو تو جو کچھ بھی تم چاہو کرتے رہو،بخشش تمہاری یقینی ہے۔کسی کو اس دھوکے میں مبتلا کرتا ہے کہ خدا تو غفور الرحیم ہے،تم گناہ کرتے چلے جاؤ،وہ بخشتا چلا جائے گا۔کسی کو جبر کا عقیدہ سمجھاتا ہے اور اس غلط فہمی میں ڈال دیتا ہے تم تو مجبور ہو،بدی کرتے ہو تو خدا تم سے کراتا ہے اور نیکی سے دور بھاگتے ہو تو خدا ہی تمہیں اس کی توفیق نہیں دیتا۔اس طرح کے نہ معلوم کتنے دھوکے ہیں جو انسان خدا کے بارے میں کھا رہا ہے،اور اگر تجزیہ کر کے دیکھا جائے تو آخر کار تمام گمراہیوں اور گناہوں اور جرائم کا بنیادی سبب یہی نکلتا ہے کہ انسان نے خدا کے بارے میں کوئی نہ کوئی دھوکا کھایا ہے تب ہی اس سے کسی اعتقادی ضلالت یا اخلاقی بے راہ روی کا صدور ہوا ہے۔“(تفہیم القرآن)

مذکورہ بالا آیات انسان کو جھنجھوڑنے اور خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کے لیے کافی ہیں۔دنیوی زندگی انسان کے لیے ایک امتحان گاہ ہے،اللہ کی طرف سے اس میں جو محدود وقت میسر ہے اس کے اندر ہی اسے اپنی اخروی زندگی بنانی ہوگی۔لیکن افسوس کہ انسان دنیا کی چمک دمک دیکھ کر اور پھر اس پر فریفتہ ہوکر اپنے انجام کو ہی بھول جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج ہر قسم کی آسائش و سہولیات میسر ہونے کے باوجود بھی یہ امن و سکون کی تلاش میں ہر دم سرگرداں رہتا ہے۔پہلے تو یہ نیک عمل کرنے پر آمادہ ہوتا ہی نہیں اور اگر کبھی اس کے دل میں نیک کام کرنے کی تحریک اٹھتی ہے تو چشمِ زدن میں ہی یہ ٹال مٹول کا فارمولا اپنا کر پھر غفلت کی نیند ڈالتا ہے۔حالانکہ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ بلا عذر نیک کاموں کو مؤخر کرنا انسان کے زوال و انحطاط کی بنیادی وجہ ہے۔لَیت و لَعَلّ کی بری عادت کو چھوڑ کر ایک انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ نیک کام میں دیر نہ کرے کیونکہ آج عمل کا وقت ہے،لہذا اسے زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرنے میں سبقت کرنی چاہیے۔اسی کی ترغیب دیتے ہوئے حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ:

*”دنیا پیٹھ پھیرنے والی ہے اور آخرت سامنے آرہی ہے۔انسانوں میں دنیا وآخرت دونوں کے چاہنے والے ہیں۔پس تم آخرت کے چاہنے والے بنو،دنیا کے چاہنے والے نہ بنو،کیونکہ آج تو کام ہی کام ہے حساب نہیں ہے اور کل حساب ہی حساب ہوگا اور عمل کا وقت باقی نہیں رہے گا۔“*(بخاری:6417)

دانائی اور عقلمندی کا تقاضا ہے کہ ہم موت سے پہلے ہی ہوش کے ناخن لیں کیونکہ موت کا سامنا کرنے کے بعد پھر خوابِ غفلت سے بیدار ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔بدقسمتی سے یہ سب جانتے ہوئے بھی ہماری اکثریت غفلت والی زندگی گزارتے ہیں۔اس حوالے سے وادی کشمیر کے معروف قلمکار جناب ڈاکٹر مجتبی فاروق صاحب لکھتے ہیں کہ:

”ہمارا المیہ یہ ہے کہ جب موت آتی ہے تب بیدار ہوتے ہیں۔حضرت علیؓ نے اسی لیے ارشاد فرمایا:الناس نیام فاذا ماتوا انتبھوا،یعنی لوگ خوابِ غفلت میں ہیں جب انھیں موت آئے گی تو بیدار ہوں گے۔مشہور جرمن نژاد مستشرق،ماہر اسلامیات اور اقبالیات ڈاکٹر این میری شمل(Annemarie Schimmel:1932-2003) کا جب انتقال ہوا تو ان کی قبر کے کتبہ پر حضرت علیؓ کا یہی قول لکھا گیا ہے۔اور کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اس بارے میں وصیت کی تھی کہ جب میرا انتقال ہوگا تب میرے قبر کے کتبے پر یہی قول لکھا جائے تاکہ لوگ بیدار ہونے کے لیے سنجیدگی سے غور کریں۔ہمارے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے کہ ہم ہر وقت سوتے رہتے ہیں اور اپنی زندگی خوابِ غفلت میں گزارتے ہیں،ایک ایک لمحہ گزر جاتا ہے اور ہمیں اس کا احساس بھی نہیں ہوتا ہے،ایک ایک دن گزر جاتا ہے اور ہم بیدار ہونے کا نام نہیں لیتے ہیں،سال پہ سال گزر جاتے ہیں اور ہم غفلت میں پڑے رہتے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم تب ہی بیدار ہوں گے جب ہماری روح قبض کر لی جائے گی۔ہم اس غفلت کی زندگی میں تب تک رہتے ہیں جب تک ہم قبر کی زیارت نہ کریں یعنی جب تک قبر میں نہ اتارا جائے۔لیکن اس وقت بیدار ہونا کوئی فائدہ نہیں دے گا۔دانائی اور عقلمندی کی بات یہ ہے کہ موت سے قبل ہی یا قبر میں اتارنے سے پہلے ہی ہم بیدار ہو جائیں۔انسان کو ہر دن اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ آج میں نے اپنی زندگی میں نیا کیا کیا ہے اور اپنی عملی زندگی میں کتنا اضافہ کیا ہے؟۔اگر کوئی صحیح اضافہ نہیں کیا ہے تو انسان کو اس پر زبردست احتساب کرنا چاہیے،ورنہ یوں ہی وقت گزرتا رہے گا۔

             *صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے*

             *عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے*

زندگی کو اگر اخلاقی اور قانونی دائرہ میں نہ رکھا جائے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔بدیع الزماں سعید نورسیؒ کے پاس ایک دن بہت سے نوجوان آئے جو جنسی شہوات،جوانی اور زندگی میں پیش آنے والے مختلف خطرات سے تحفظ حاصل کرنے کے لیے مؤثر مزاحمت کے خواہشمند تھے۔بدیع الزماں سعید نورسیؒ نے ان نوجوانوں سے کہا کہ”تمہاری جوانی کو لازما ایک نہ ایک روز ختم ہونا ہے اور اگر تم نے جائز اور قانونی دائرے میں رہتے ہوئے استعمال نہ کیا تو یہ بہت جلد ختم ہو جائے گی۔یہ جوانیاں تمہارے لیے خوشیاں لانے کے بجائے اس دنیا،قبر اور بعد کی دنیا میں دکھ،تکلیف،آفت اور بدبختی کا باعث بنے گی لیکن اس کے برعکس اگر تم نے جوانی کے عطیہ کو نفس کی پاکیزگی،دیانت داری،خدا اور اس کے رسولوں کی تابعداری اور باعزت طور پر استعمال کیا تو یہ نہ صرف دائمی طور پر قائم رہے گی،بلکہ جنت میں ابدی جوانی کے حصول کا باعث بھی ہوگی۔“اس تعلق سے حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ کا ارشاد ملحوظ نظر رکھنا چاہیے کہ جب انھوں نے فرمایا”میں کسی چیز پر اتنا نادم اور شرمندہ نہیں ہوا جتنا کہ ایسے دن کے گزرنے پر جس کا سورج غروب ہوگیا اور جس میں میرا ایک دن کم ہوگیا اور اس میں میرے عمل میں اضافہ نہ ہوسکا۔“حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ کا ارشاد ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے اور بیدار ہونے کے لیے کافی ہے۔“(نوجوان معاصر مسائل تجزیہ اور حل،ص:٣٣-٣٥)

لہذا انسان کو چاہیے کہ اپنے مقصدِ تخلیق کو ذہن سے اوجھل نہ ہونے دے،اپنی منزلِ مقصود کی طرف رواں دواں رہے اور موت سے پہلے ہی نیک کاموں میں سبقت کرے۔جن لوگوں نے دنیا میں نیک کاموں کی طرف مسابقت کی ہوگی آخرت میں وہی لوگ اللہ تعالی کے مقرب ہوں گے اور سابقین میں سے ہوں گے۔جیسا کہ ارشادِ باری تعالی ہے:

وَالسّٰبِقُوۡنَ السّٰبِقُوۡنَۚ۔اُولٰٓئِكَ الۡمُقَرَّبُوۡنَ‌ۚ۔فِىۡ جَنّٰتِ النَّعِيۡمِ(الواقعة:12۔10)

*”اور آگے والے تو پھر آگے والے ہی ہیں،وہی تو مقرب لوگ ہیں،نعمت بھری جنتوں میں رہیں گے۔“*

ان آیات کے ذیل میں مولانا سید ابو الاعلی مودودیؒ لکھتے ہیں:

 ”سابقین(آگے والوں) سے مراد وہ لوگ ہیں جو نیکی اور حق پرستی میں سب پر سبقت لے گئے ہوں،بھلائی کے ہر کام میں سب سے آگے ہوں،خدا اور رسول کی پکار پر سب سے پہلے لبیک کہنے والے ہوں،جہاد کا معاملہ ہو یا انفاق فی سبیل اللہ کا یا خدمت خلق کا یا دعوت خیر اور تبلیغ حق کا،غرض دنیا میں بھلائی پھیلانے اور برائی مٹانے کے لیے ایثار و قربانی اور محنت و جانفشانی کا جو موقع بھی پیش آئے اس میں وہی آگے بڑھ کر کام کرنے والے ہوں۔اس بنا پر آخرت میں بھی سب سے آگے وہی رکھے جائیں گے۔گویا وہاں اللہ تعالیٰ کے دربار کا نقشہ یہ ہوگا کہ دائیں بازو میں صالحین،بائیں بازو میں فاسقین،اور سب سے آگے بارگاہ خداوندی کے قریب سابقین۔حدیث میں حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے لوگوں سے پوچھا”جانتے ہو قیامت کے روز کون لوگ سب سے پہلے پہنچ کر اللہ کے سایہ میں جگہ پائیں گے؟“لوگوں نے عرض کیا اللہ اور اللہ کا رسول ہی زیادہ جانتا ہے۔فرمایا الذین اعطوا الحق قبلوہ،واذا سئِلوہ بذلوہ،وحکموا الناس کحکمہم لا نفسہم،”وہ جن کا حال یہ تھا کہ جب ان کے آگے حق پیش کیا گیا انہوں نے قبول کرلیا،جب ان سے حق مانگا گیا انہوں نے ادا کردیا،اور دوسروں کے معاملہ میں ان کا فیصلہ وہی کچھ تھا جو خود اپنی ذات کے معاملہ میں تھا۔“(مسند احمد)۔(تفہیم القرآن)

Comments