Expediencies Of Trials(Part:1)


    ایک انسان کلمہ طیبہ کے انقلابی بولوں کے ذریعے ہی اپنا داخلہ امتِ محمدیﷺ‎ میں کر دیتا ہے،جسے اللہ تعالی کی طرف سے پورے کرہ ارض پر اقامتِ دین جیسے بلند ترین مشن کو برپا کرنے کے لیے منصہ شہود پر لایا گیا ہے۔جونہی یہ انسان راہِ حق کا متلاشی بن جاتا ہے تو یہ اپنے سامنے بہت سارے دلکش و دلفریب راستوں کو پاتا ہے۔اپنے ضمیر سے باتیں کرتے ہوئے یہ چاہتا ہے کہ میرے اوپر حق کا راستہ روشن ہو جائے تاکہ اس پر مرتے دم تک قائم و دائم رہ کر بالآخر میں اپنی منزلِ مقصود کو حاصل کر سکوں۔اپنے معاشرے میں چہار جانب جب یہ مفاد پرست لوگوں کو دنیوی محبت میں بری طرح ڈوبتے ہوئے دیکھتا ہے تو اس کے سر پر مایوسی کے بادل منڈلانے لگتے ہیں اور اسے اپنی فکر اور زیادہ لاحق ہو جاتی ہے۔قانونِ قدرت کے تحت اللہ کی رحمت برجوش آتی ہے اور اسے کسی مردِ خدا یا قافلہ حق سے واسطہ پڑتا ہے،جو اسے حق کے راستے کا پتہ دیتا ہے۔پھر یقینِ محکم اور مضبوط ارادے کے ساتھ جب یہ پہلا ہی قدم اس راستے پر ڈالتا ہے تو اس کے پورے وجود پر آزمائشوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے،جو تا دمِ واپسیں تھمنے کا نام ہی نہیں لیتا ہے۔اس راستے پر آنے سے پہلے یہ شاہانہ زندگی بسر کر رہا ہوتا ہے،جسے یک دم خیرباد کرنا کوئی بازیچہ اطفال نہیں ہے۔اپنی منزل کی طرف جب ہی یہ پیش قدمی کرتا ہے تو قدم قدم پر اس کے ایمان اور اخلاص کی آزمائشیں بھی بڑھنے لگتی ہیں۔اپنے وجود کی خستہ حالی اور مصائب کا ہجوم دیکھتے ہی دل شکستہ ہو کر یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ آخر میرے ساتھ یہ کیا ہو رہا ہے؟کہیں میں نے خواہشِ نفس کے پرستاروں کا راستہ تو نہیں پکڑ لیا؟اللہ تعالی اپنے ہدایت کے اس پیاسے بندے کو اکیلے نہیں چھوڑتا اور نہ ہی اسے ضائع ہونے دیتا ہے بلکہ اس کی بھرپور رہنمائی کرتا ہے تاکہ یہ بیقرار بندہ کہیں ٹھوکروں کی نذر نہ ہو جائے۔اسے الہامی طور پر چند اور مقصد کے شیدائیوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات بڑھانے کی ترغیب دیتا ہے تاکہ یہ سب”بنیان مرصوص“کی شکل اختیار کر کے آزمائش کی بھٹی میں تپ کر باہم دلاسہ دیتے ہوئے مسِ خام سے کندن بننے میں کامیاب ہو جائیں۔اجتماعیت کی برکت کی وجہ سے ہی یہ پرفتن دور میں جینے کا سلیقہ سیکھتے ہیں،حق و صداقت کے موقف پر پہاڑ کی طرح جمے رہتے ہیں اور اپنے دلوں کو مضبوط کر کے حق کی اقامت کے لیے کھڑا ہونے میں پھر باک محسوس نہیں کرتے ہیں۔یہ بات ازل سے ہی مسلم ہے کہ جو چیز جتنی زیادہ قیمتی ہوتی ہے،اس کی آزمائش بھی اسی معیار کے مطابق ہوتی ہے اور اللہ کے ہاں انسان کا مرتبہ جتنا اونچا ہوگا اتنا ہی کڑا امتحان اس کو لیا جاتا ہے،جس کا بین ثبوت انبیا۶ علیہم السلام کی مبارک زندگیاں ہیں۔یہ مشاہدے سے بھی ہمیشہ دیکھنا میں آچکا ہے کہ پہاڑ کی چوٹی سے دھند اور ایک بہادر مومن کے سر سے مصیبتیں کبھی ختم نہیں ہوتیں۔ایک پاکباز اور بلند نصب العین رکھنے والی تحریک کو اپنے خونِ جگر سے سینچنے والے سرفروشان اسلام کو دلدوز مناظر سے ہمیشہ سابقے پیش آتے تھے۔ماضی میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی بندہ خدا نے عشق الہی کا دعوی بھی کیا اور پھر اسے آزمائش کی بھٹی میں تپایا نہ گیا۔اگر بندے کے دل میں اللہ کی محبت رچی بسی ہو تو پھر اس کے مقدر میں آرام و آسائش کے بجائے آزمائشیں اور سختیاں ہی ہوتی ہیں،جو کہ اسے بلند و بالا درجات پر فائز کرنے میں معین و مددگار ثابت ہوتی ہیں۔

    *محبت کے مقدر میں کہاں آرام اے ہمدم*

*کہیں شعلہ کہیں بجلی کہیں سیماب ہوتی ہے*

حق کے راستے پر آزمائشوں کا آنا بے حد یقینی ہے اور یہ اس راہ کی لازمی سنتیں ہیں۔یہ ہر مدعیِ ایمان کے لیے سنتِ الٰہی میں ازل سے ہی مقرر ہے۔بدقسمتی سے ایک کم ظرف انسان راہِ حق پر آتے ہی دشواریوں کی ایک لمبی فہرست پیش کر دیتا ہے اور اپنی منزل کی طرف مزید پیش قدمی کرنے سے رک جاتا ہے۔لیکن اسے کیا خبر کہ اس کی زندگی کے مصائب،مشکلات اور دشواریاں ہی دراصل اس کی ترقی کے زینے ہوتے ہیں جنہیں پھاند کر یہ اپنے خدا تک پہنچ سکتا ہے۔اس کا رب چاہتا ہے کہ بندہ اپنی زندگی کے تمام اثاثے کو میرے حوالے کر دے تاکہ اللہ رب العزت جنت کا دروازہ اس کے لیے کھولنے پر تیار ہو جائے۔جنت میں اس جھوٹے مدعیِ ایمان کے لیے کہاں جگہ ہوگی جو دین و ایمان کی راہ میں جان،مال،خون اور آنسو نثار کرنا تو دور کی بات پسینے کی ایک بوند بھی بہانا اس پر گراں گزر جاتا ہو۔اس حوالے سے مولانا ڈاکٹر محمد اسلم صدیقیؒ لکھتے ہیں کہ:

”جب بھی کوئی مرد خدا یا کوئی قافلہ حق اس راہ پر چلا ہے تو کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اسے اس طرح کی مشکلات سے دوچار نہ ہونا پڑا ہو۔جس طرح ایک کاشت کار کاشتکاری کے دوران موسم کی شدت سے دوچار ہوتا ہے اسے محنت کرتے ہوئے پسینہ بہانا پڑتا ہے۔اس کے جسمانی اعصاب کا باربار امتحان ہوتا ہے اور پھر وہ کبھی امیدویاس کے مراحل سے بھی گزرتا ہے،اگر کوئی کاشتکار یہ کہے کہ مجھے زمین میں محنت کرنے سے انکار نہیں لیکن میں ان مشکلات کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔تو اسے یہی جواب سننا پڑے گا کہ یہ مشکلات تو اس کام کے لوازم ہیں۔ان کے بغیر کاشتکاری یا زمین سے فصل وصول کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔یہی حال اللہ کے دین کی سربلندی اور اسے مخلوقِ خدا تک پہنچانے کا بھی ہے۔جو شخص بھی انسانی اصلاح کے لیے کوشش کرے گا اس کے لیے یہ یقینی ہے کہ وہ انسانوں کی مخالفت سے دو چار ہو۔مخالفین کے جو بس میں ہوگا وہ کر گزریں گے۔اسے اگر اپنے فرض سے بے پناہ تعلق ہے تو اسے ان تمام مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔“(روح القرآن)

  *یہ قدم قدم بلائیں یہ سواد کوئے جاناں*
  *وہ یہیں سے لوٹ جائے جسے زندگی ہو پیاری* 

شاہراہِ زندگی پر راہِ حق کے مسافر کے اوپر ہر آن آزمائشیں آتی رہتی ہیں تاکہ اللہ کے ہاں اس کی قدر و منزلت اور بڑھ جائے۔اگر آزمائشیں نہ آتیں تو اس کرگاہِ حیات میں اہلِ حق اور اہلِ باطل کو کس طرح ممیز کر دیا جاتا؟ یہ آزمائشیں ہی ہیں جو راہِ وفا کے جانثاروں کو دورِ ابتلا سے گزر کر ایک نئی توانائی لے کر انہیں آگے بڑھاتی ہیں۔قرآنِ پاک اہلِ حق کو جگہ جگہ یہ بات ذہن نشین کرتا ہے کہ پرصعوبت ماحول میں آپ پر اعتراضات و اختلافات کے وار اور مصائب و شدائد کے پہاڑ توڑے جائیں گے لیکن باطل کے ساتھ سمجھوتے اور دشوار گزار حالات میں بغیر سودے بازی کے ڈٹ کے کام کرنا اور اسباب کے بجائے اللہ تعالی پر اعتماد کرنا،یہی آپ کے لیے عزیمت کی راہ ہے،جسے کسی بھی صورت میں چھوڑا نہیں جا سکتا۔خالقِ کائنات راہِ حق میں انسان کو ہزار طریقوں سے آزماتا ہے تاکہ دنیا پر یہ مبرہن ہو جائے کہ یہ جانباز سپاہی ہے یا کاٹھ کا پتلا۔کیا یہ ممکن ہے کہ ایک انسان اپنے نصب العین سے محبت کا دم بھرے لیکن اس کے ظرف کو نہ دیکھا جائے کہ وہ کس حد تک عشق الہی سے معمور ہے،یہ ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ کسی نصب العین سے عشق کا دعوی کرنا کھیل نہیں ہے بلکہ یہ اپنے وجود کو ایک طویل دورِ ابتلا میں ڈالنے کا نام ہے،جس میں پھر اپنی ساری متاع حیات کو جھونک دینا پڑتا ہے۔آزمائش کی وادی میں آکر اگر کوئی بندہ ریزرویشن(Reservation) رکھ کر آتا ہے تو اسے مسلسل آزمائشیں ہی قافلہ حق سے الگ کر دیتی ہیں تاکہ یہ علیحدہ ہو کر دینِ باطل کا ہی خادم بن جائے کیونکہ ایسا ناہنجار،منافق اور مصالحت پسند انسان کسی بھی وقت پورے قافلہ حق کو ہی لرزہ براندام کر سکتا ہے۔ہر دین خواہ دینِ حق ہو یا دینِ باطل غلبہ چاہتا ہے اور اپنے کارکنوں کو آزمائش کی بھٹی میں تپا کر اور انہیں فولاد بنا کر رزم گاہ حق و باطل میں اپنے جوہر دکھانے کے قابل بنا دیتا ہے۔عیشِ ابدی کا سودا زیادہ قربانی اور ایثار چاہتا ہے اور یہ زیاں کا نہیں بلکہ نفع کا سودا ہے۔ڈاکٹر سید اسعد گیلانیؒ لکھتے ہیں کہ:

اگرچہ خلوصِ ایمان اور قربانی و جانفشانی ہر دین کے قیام کے لیے ناگزیر ہے خواہ وہ دینِ حق ہو یا دینِ باطل،مگر دینِ حق اس سے بہت زیادہ اخلاص اور قربانی مانگتا ہےجو دینِ باطل کے قیام کے لیے درکار ہے حق ایک ایسا باریک بیں صراف ہے جو ذرا سی کھوٹ کو بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔وہ خالص سونا چاہتا ہے آزمائشوں کی بھٹی میں سے گزر کر جب تک ساری کھوٹ جل نہ جائے اور پورے معیار(Standard) کا کندن نہ نکل آئے وہ اپنے نام سے اس کو بازار میں لانے کی ذمہ داری لینا پسند نہیں کرتا،کیونکہ وہ حق ہے،باطل نہیں ہے کہ کھوٹے سکے اور ملمع کیے ہویے زیور بیچتا پھرے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن بار بار کہتا ہے:

مَا كَانَ اللّٰهُ لِيَذَرَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ عَلٰى مَاۤ اَنۡـتُمۡ عَلَيۡهِ حَتّٰى يَمِيۡزَ الۡخَبِيۡثَ مِنَ الطَّيِّبِ‌ؕ(آل عمران:179)

*”اللہ مومنوں کو اس حالت میں ہرگز نہ رہنے دے گا جس میں تم اس وقت پائے جاتے ہو۔وہ پاک لوگوں کو ناپاک لوگوں سے الگ کر کے رہے گا۔“*

اَحَسِبَ النَّاسُ اَنۡ يُّتۡرَكُوۡۤا اَنۡ يَّقُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا وَهُمۡ لَا يُفۡتَـنُوۡنَ۔وَلَقَدۡ فَتَـنَّا الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡ‌ فَلَيَـعۡلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ صَدَقُوۡا وَلَيَعۡلَمَنَّ الۡكٰذِبِيۡنَ۔(العنکبوت:3-2)

*”کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ”ہم ایمان لائے“اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟حالاں کہ ہم اُن سب لوگوں کی آزمائش کر چکے ہیں جو اِن سے پہلے گزرے ہیں اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے کہ سچّے کون ہیں اور جھوٹے کون۔“*

اَمۡ حَسِبۡتُمۡ اَنۡ تَدۡخُلُوا الۡجَـنَّةَ وَ لَمَّا يَاۡتِكُمۡ مَّثَلُ الَّذِيۡنَ خَلَوۡا مِنۡ قَبۡلِكُمۡؕ مَسَّتۡهُمُ الۡبَاۡسَآءُ وَالضَّرَّآءُ وَزُلۡزِلُوۡا حَتّٰى يَقُوۡلَ الرَّسُوۡلُ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَهٗ مَتٰى نَصۡرُ اللّٰهِؕ اَلَاۤ اِنَّ نَصۡرَ اللّٰهِ قَرِيۡبٌ۔(البقرة:214)

*”پھر کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت کا داخلہ تمہیں مِل جائے گا،حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا ہے،جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکا ہے؟ان پر سختیاں گزریں،مصیبتیں آئیں،ہلا مارے گئے،حتٰی کہ وقت کا رسول اور اس کےساتھی اہل ایمان چیخ اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی۔اس وقت انھیں تسلّی دی گئی کہ ہاں اللہ کی مدد قریب ہے۔“*

اَمۡ حَسِبۡتُمۡ اَنۡ تُتۡرَكُوۡا وَلَـمَّا يَعۡلَمِ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ جَاهَدُوۡا مِنۡكُمۡ وَلَمۡ يَتَّخِذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ وَلَا رَسُوۡلِهٖ وَلَا الۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَلِيۡجَةً‌ ؕ وَاللّٰهُ خَبِيۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ۔(التوبة:16)

*”کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی چھوڑ دیے جاؤ گے حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو دیکھا ہی نہیں کہ تم میں سے کون وہ لوگ ہیں جنہوں نے﴿اس کی راہ میں﴾جاں فشانی کی اور اللہ اور رسول اور مومنین کے سوا کسی کو جگری دوست نہ بنایا،جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔“*

وَمِنَ النَّاسِ مَنۡ يَّقُوۡلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ فَاِذَاۤ اُوۡذِىَ فِى اللّٰهِ جَعَلَ فِتۡنَةَ النَّاسِ كَعَذَابِ اللّٰهِؕ وَلَئِنۡ جَآءَ نَـصۡرٌ مِّنۡ رَّبِّكَ لَيَـقُوۡلُنَّ اِنَّا كُنَّا مَعَكُمۡ‌ؕ اَوَلَـيۡسَ اللّٰهُ بِاَعۡلَمَ بِمَا فِىۡ صُدُوۡرِ الۡعٰلَمِيۡنَ۔وَلَيَـعۡلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَلَيَـعۡلَمَنَّ الۡمُنٰفِقِيۡنَ۔(العنکبوت:11-10)

*”لوگوں میں سے کوئی ایسا ہے جو کہتا ہے کہ ہم ایمان لائے اللہ پر مگر جب وہ اللہ کے معاملہ میں ستایا گیا تو اس نے لوگوں کی ڈالی ہوئی آزمائش کو اللہ کے عذاب کی طرح سمجھ لیا اب اگر تیرے رب کی طرف سے فتح و نصرت آگئی تو یہی شخص کہے گا کہ”ہم تو تمہارے ساتھ تھے“کیا دنیا والوں کے دلوں کا حال اللہ کو بخوبی معلوم نہیں ہے؟اور اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہی ہے کہ ایمان لانے والے کون ہیں اور منافق کون۔“*

وَلَـنَبۡلُوَنَّكُمۡ بِشَىۡءٍ مِّنَ الۡخَـوۡفِ وَالۡجُـوۡعِ وَنَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَالۡاَنۡفُسِ وَالثَّمَرٰتِؕ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيۡنَۙ۔الَّذِيۡنَ اِذَآ اَصَابَتۡهُمۡ مُّصِيۡبَةٌ ۙ قَالُوۡٓا اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّـآ اِلَيۡهِ رٰجِعُوۡنَؕ۔اُولٰٓئِكَ عَلَيۡهِمۡ صَلَوٰتٌ مِّنۡ رَّبِّهِمۡ وَرَحۡمَةٌ‌ وَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡمُهۡتَدُوۡنَ۔(البقرة:157-155)

*”اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر،فاقہ کشی،جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں گے۔اِن حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے،تو کہیں کہ”ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے“انہیں خوش خبری دے دو ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی،اُس کی رحمت اُن پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رَو ہیں۔“*

قرآن یہ سب کچھ کہنے کے ساتھ اس حقیقت پر بھی متنبہ کر دیتا ہے کہ:

وَلَوۡ يَشَآءُ اللّٰهُ لَانْـتَصَرَ مِنۡهُمۡ وَلٰـكِنۡ لِّيَبۡلُوَا۟ بَعۡضَكُمۡ بِبَعۡضٍ‌ؕ(محمد:4)

*”اللہ چاہتا تو خود ہی ان سے نمٹ لیتا،مگر(یہ طریقہ اس نے اس لیے اختیار کیا ہے)تاکہ تم لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ سے آزمائے۔“*

یعنی یہ نہ سمجھنا کہ اللہ اپنے باغیوں کی سرکوبی نہیں کر سکتا اس لیے تم سے مدد مانگتا ہے۔نہیں وہ اتنی زبردست طاقت رکھتا ہے کہ چاہے تو ایک اشارے میں ان کو تباہ کر کے رکھ دے اور اپنے دین کو قائم کر دے،مگر اس نے جہاد اور محنت و قربانی کا بار تم پر اس لیے ڈالا ہے کہ وہ تم انسانوں کو ایک دوسرے کے مقابلہ میں آزمانا چاہتا ہے جب تک باطل پرستوں سے تمہارا تصادم نہ ہو اور اس تصادم میں مصائب و شدائد اور خطرات و مہالک پیش نہ آجائیں سچے اہلِ ایمان جھوٹے مدعیوں سے ممیز نہیں ہو سکتے اور جب تک ناکارہ لوگوں میں سے کارآمد آدمی چھٹ کر الگ نہ ہو جائیں وہ جتھا نہیں بن سکتا جو خلافاتِ الہیہ کی ذمہ داری سنبھالنے کا اہل ہو۔(حکمتِ تبلیغ ص ١١٣۔١١٦)

Comments