Expediencies Of Trials(Part:2)


      ایک انسان جب مومن کی حیثیت سے اور بندگی کا عزم لے کر راہِ حق پر آتا ہے تو آزمائشیں بھی ساتھ ساتھ اکٹیو ہو کر اس کا استقبال کرتی رہتی ہیں۔اللہ کا فضل ہے کہ یہ ہر طرف سے،ہر میدان میں اور ہر صورت میں آتی رہتی ہیں تاکہ بندہ مومن کو ان کی پہچان ہو کر انہیں انگیز کرنے کی پریکٹس مل جائے۔پہلے پہل یہ اس کے وجود کو ہلا کے رکھ دیتی ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور ایمان میں توانائی آنے کے بعد پھر یہ اس کی فکری تطہیر میں حوصلہ بخش پیغام لانے کے لیے آتی ہیں۔اگرچہ یہ زندگی کے ہر شعبے میں آکر اسے اپنا چہرہ دکھاتی ہیں لیکن بندہ مومن کو ہمیشہ یہ بات ملحوظ رکھنی چاہیے کہ یہ میرے ایمان کی آزمائش ہو رہی ہے۔اور اسے چاہیے کہ انہیں خلاف توقع نہ سمجھیں،ان کے آگے جھک نہ پڑیں اور ان سے بھاگنے کے بجائے پورے وقار کے ساتھ انہیں انگیز کر جائیں تاکہ اس کا نام بھی ان جوانمردوں میں شمار ہو جائے جنہوں نے ماضی میں آزمائشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کر کے جادہ مستقیم پر انمٹ نقوش چھوڑے اور بالآخر عظیم موت کو گلے لگا لیا۔

انسان کا یہ گمان کرنا بھی کفر ہے کہ اللہ تعالی اہلِ ایمان کو بغیر کسی مصلحت کے آزماتا ہے۔یہ آزمائشیں ہی ہیں جن کے ذریعے تحریک کے مخلص کارکنوں کو اخلاقی و روحانی ارتقا۶ ملتا ہے۔یہ آزمائشیں ہی ہیں جو ایک مومن کی صلاحیتوں کو پروان چڑھاتی ہیں،اس کے کمزور دل میں پہاڑ جیسی استقامت پیدا کر دیتی ہیں،اس کی کمزوریوں کو بروقت نشاندہی کرنے میں اور مصائب و مشکلات کی لگاتار ٹکریں کھا کھا کر انہیں طاقت سے بدلانے میں بھرپور تعاون دیتی ہیں،اس کے دل کو صاف کر کے اسے ایمان کے نور سے بھر دیتی ہیں،غلبہ اسلام کی خاطر اسے جنونی حالت میں کام کرنے کے لیے متحرک کر دیتی ہیں،اللہ کی کبریائی کا نقش اس کے دل پر گہرا جما کر اسے اللہ کی خاطر ساری دنیا سے ٹکر لینے کے لیے کھڑا کر دیتی ہیں،اس کا قلبی لگاؤ تحریک کے رہنما سے زیادہ مقصدِ تحریک کے ساتھ مضبوط کر دیتی ہیں،اسے اللہ کے لیے جینا اور اللہ ہی کے لیے مرنا سکھاتی ہیں،اس کے صبر و استقلال کو ایسی جلا بخشتی ہیں کہ اگر پورا قافلہ راہِ فرار اختیار کر جائے تب بھی یہ تنِ تنہا راہِ حق پر کھڑا رہتا ہے اور لوگوں کو زندگی کے آخری سانسوں تک منزل کی طرف بلاتا رہتا ہے۔مولانا صدر الدین اصلاحیؒ نے آزمائش کی مصلحتوں کے حوالے سے بڑے ہی قیمتی باتیں لکھی ہیں،جو کہ آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔لکھتے ہیں:
”قرآن کہتا ہے کہ یہ آزمائشیں مومن کو اتنا اونچا اٹھا دیتی ہیں کہ دنیا کی کسی بڑی سے بڑی کامیابی سے اس پر کوئی نشہ چھا سکتا ہے نہ کسی ناکامی سے اس کا دل ٹوٹنے پاتا ہے۔وہ وقار کا ایک پہاڑ بن جاتا ہے،اور خوشی کی بات ہو یا غم کی،کوئی چیز اسے اپنے بہاؤ میں بہا نہیں لے جا سکتی۔غزوہ احد میں جو گہرا زخم مسلمانوں کو پہنچا تھا اس کی مصلحتیں بیان کرتے ہوئے وہ کہتا ہے:
فَاَثَابَكُمۡ غَمًّا ۢ بِغَمٍّ لِّـكَيۡلَا تَحۡزَنُوۡا عَلٰى مَا فَاتَكُمۡ وَلَا مَاۤ اَصَابَكُمۡ‌ؕ(آل عمران:153)
*”اس وقت تمہاری اس روش کا بدلہ اللہ نے تمہیں یہ دیا کہ تم کو رنج پر رنج دیے تاکہ آئندہ کے لیے تمہیں یہ سبق ملے کہ جو کچھ تمہارے ہاتھ سے جائے یا جو مصیبت تم پر نازل ہو اس پر ملول نہ ہو۔“*
یعنی فتح کی منزل قریب آجانے کے باوجود اگر ادھر سے تمہارے رخ موڑ دیے گئے اور تمہیں اپنے نبیﷺ‎ کے زخمی ہو جانے،اپنے بہت سے ساتھیوں کے شہید ہو جانے اور اپنی جیتی ہوئی لڑائی کا پانسہ پلٹ جانے سے جو غم بالائے غم پہنچا،اس کا ایک اہم فائدہ یہ ہے کہ اب تم پر یہ حقیقت روشن تر ہو گئی ہوگی کہ فتح اور شکست،خوشی اور غم،بامرادی اور ناکامی،ہر چیز اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔یہ بجائے خود کسی اعتبار کے قابل نہیں،وہ جب چاہے ایک کو دوسری سے بدل دیتا ہے۔اس لیے ہماری نگاہ ہر حال میں اس کی ذات پر رہنی چاہیے،نہ کہ پیش آنے والے حالات پر۔
غور کیجیے یہ کتنی اونچی نعمت ہے جو ایک صاحبِ ایمان کو یہ آزمائشیں عطا کرتی ہیں۔اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ اگرچہ مشکلات اور مصائب مومن کے صبر و استقلال کو آزمانے کے لیے نازل کیے جاتے ہیں،لیکن انجام کار یہی مصائب اس کے اندر صبر و استقلال اور قناعت و بلندی کی صفت کو پروان چڑھانے کا موجب بن جاتے ہیں۔صبر کا جو تخم قلب مومن کے اندر موجود ہوتا ہے یہ آزمائشیں اس کو تیزی سے نشو و نما دیتی ہیں۔اگر مصائب و مشکلات کی بدلیاں نہ اٹھیں تو قوت صبر کو پوری شادابی اور بارآوری ہرگز میسر نہ ہو۔دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ مومن کے اخلاقی ارتقا۶ کے بہت سے ضروری اسباب اور مواقع ملیں ہی نہ اور اس کے اندر ایمان کی وہ پختگی پیدا ہی نہ ہو جو اس کے لیے اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو سکنے کے سلسلے میں ضروری ہے۔اس لیے حق تو یہ ہے کہ جس شخص پر جتنی اہم ذمہ داریاں ہوں اسے اتنا ہی زیادہ آزمائشوں کی بھٹی میں تپایا جائے۔حضورﷺ‎ کے ارشادات بتاتے ہیں کہ حقیقت واقعہ بھی یوں ہی ہے۔آپﷺ‎ سے پوچھا گیا کہ سب سے زیادہ آزمائشیں کن لوگوں پر ڈالی جاتی ہیں؟فرمایا:”انبیا۶ پر“(ترمذی)
یہ ہیں آزمائشوں کی بڑی اور نمایاں مصلحتیں اور ضرورتیں۔یہی غیر معمولی فوائد اور مصالح تھے جن کے پیشِ نظر رسولِ برحقﷺ نے فرمایا تھا کہ:
*”اللہ جس کا بھلا چاہتا ہے اسے مصائب میں مبتلا کرتا ہے۔“*(بخاری)
اور یہ کہ:
*”اللہ بزرگ و برتر جب کسی گروہ سے محبت کرتا ہے تو اسے آزمائشوں کے دَور سے گزارتا ہے۔“*(ترمذی)(اسَاسِ دین کی تعمیر،ص ٣٠١۔٣٠٣)

تاریخ نے ان بزدلوں کا بھی تذکرہ کیا ہے جنہیں آزمائش کی ایک ہی تیز و تند لہر نے الٹا اٹھا کر بہاؤ پر پٹخ دے دیا اور اس لہر نے دنیا پر ثابت کر دیا کہ دراصل ان نامردوں کے اندر سختیوں کا مقابلہ کرنے کی طاقت اور ہمت تھی ہی نہیں۔آج بھی جو بندہ خدا حق کے راستے پر چلنے کا متمنی ہوگا اسے یہ بات پہلے ہی ذہن میں مستحضر رکھنی ہوگی کہ یہ وادی پرخار میں قدم رکھنا ہے اور یہاں قدم قدم پر اپنے تلووں کو زخمی ہونے کے لیے پیش کرنا ہوگا،ظالم معاشرے میں اسے سانس لینے کی مہلت نہ دی جائے گی اور اس معاشرے میں تنِ تنہا اٹھ کر شرک کے مقابلے میں توحید کا علم بلند کر کے اسے جان جوکھوں میں ڈالنا ہوگا۔مخالفتوں کے مقابلے میں اسے اللہ کو اپنا وکیل بنانا ہوگا۔اس کے لیے یہی وہ اعلی ترین فکر و نظریہ ہے جو اسے آزمائش کی مشقت بھری راہ پر تادیر قائم رکھ سکتا ہے۔اس میں کسی شک و ریب کی گنجائش ہے ہی نہیں کہ یہ راستہ لمبا بھی ہے اور دشوار بھی،لیکن اس کو کیا کیا جائے کہ اس راستے کو اپنائے بغیر منزل تک پہونچنا ممکن نہیں۔

ایک مومن کی پوری زندگی صبر سے عبارت ہے اور عملی دنیا میں اسے راہِ حق پر قدم رکھتے ہی صبر کا امتحان شروع ہو جاتا ہے۔جس زندگی میں قدم قدم پر آزمائشوں کا ہجوم ہو اس کا معاملہ موٹر کار کے معاملہ جیسا ہے-موٹر کار میں اگر بریک نہ ہو تو خواہ موٹر کار کتنی ہی اچھی اور مہنگی کیوں نہ ہو،وہ منزل پر نہیں پہنچ سکتی-موٹر کار میں جو اہمیت بریک کی ہے،وہی اہمیت آزمائش والی زندگی میں صبر کی ہے۔انتہائی کٹھن حالات اور آزمائشوں کے طوفان میں اگر کوئی چیز بندہ مومن کی ڈھارس بندھاتی ہے تو وہ یہی عقیدہ ہے کہ میرا اللہ بے خبر نہیں ہے بلکہ سب کچھ دیکھ رہا ہے کہ میں کن حالات سے گزر رہا ہوں اور اسے راضی کرنے کی خاطر کس طرح کی سختیاں جھیل رہا ہوں۔یہی وہ عقیدہ ہے جو ناگفتہ بہ حالات میں اسے جادہ مستقیم پر بغیر کسی مصلحت اور شکوہ شکایت کے مستقل مزاجی سے چلا سکتا ہے۔یہ اللہ کا طے شدہ وعدہ ہے کہ بندہ جب اس کی ڈالی ہوئی آزمائشوں کو صبر کے ساتھ انگیز کر کے اپنی منزلِ مقصود کی طرف رواں دواں رہے گا تو اس کے بدلے میں اسے جنت جیسی عظیم نعمت سے نوازا جائے گا۔ارشاد باری تعالی ہے:
وَجَزٰٮهُمۡ بِمَا صَبَرُوۡا جَنَّةً وَّحَرِيۡرًا(الدھر:12)
*”اور اُن کے صبر کے بدلے میں اُنہیں جنّت اور ریشمی لباس عطا کرے گا۔“*
*”یہاں صبر بڑے وسیع معنی میں استعمال ہوا ہے،بلکہ در حقیقت صالح اہل ایمان کی پوری دنیوی زندگی ہی کو صبر کی زندگی قرار دیا گیا ہے۔ہوش سنبھالنے یا ایمان لانے کے بعد سے مرتے دم تک کسی شخص کا اپنی ناجائز خواہشوں کو دبانا،اللہ کی باندھی ہوئی حدوں کی پابندی کرنا،اللہ کے عائد کیے ہوئے فرائض کو بجا لانا،اللہ کی خوشنودی کے لیے اپنا وقت،اپنا مال،اپنی محنتیں،اپنی قوتیں اور قابلتیں،حتی کہ ضرورت پڑنے پر اپنی جان تک قربان کردینا،ہر اس لالچ اور ترغیب کو ٹھکرا دینا جو اللہ کی راہ سے ہٹانے کے لیے سامنے آئے،ہر اس خطرے اور تکلیف کو برداشت کرلینا جو راہ راست پر چلنے میں پیش آئے،ہر اس فائدے اور لذت سے دست بردار ہو جانا جو حرام طریقوں سے حاصل ہو،ہر اس نقصان اور رنج اور اذیت کو انگیز کر جانا جو حق پرستی کی وجہ سے پہنچے،اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے اس وعدے پر اعتماد کرتے ہوئے کرنا کہ اس نیک رویے کے ثمرات اس دنیا میں نہیں بلکہ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں ملیں گے،ایک ایسا طرز عمل ہے جو مومن کی پوری زندگی کو صبر کی زندگی بنا دیتا ہے۔یہ ہر وقت کا صبر ہے،دائمی صبر ہے،ہمہ گیر صبر ہے اور عمر بھر کا صبر ہے۔“*(تفہیم القرآن)

ذرا ذرا سی مصیبت پر چیخیں اٹھانا اور آہ و فغاں کا بازار گرم کرنا،بار بار زبان پر حرفِ شکایت لانا جیسی چیزیں ایک مومن کو زیب نہیں دیتی ہیں بلکہ مصائب کے ہجوم میں اسے اللہ تعالی کی رحمت کے سائے تلے آکر”صبر و رضا“ اور”دعا“کا راستہ پکڑنا چاہیے تاکہ یہ سب آزمائشوں سے سلامت باکرامت نکل آئے۔بندہ مومن کو اگر راہِ حق میں بار بار آزمائش کی شکل میں ایک چٹان حائل ہو تو اس کے کنارے سے اسے اپنا راستہ نکال لینا چاہیے-اور تا دمِ آخریں مسائل و مشکلات کی پرپیچ وادیوں میں اس کے لیے نجات کی راہ یہی ہے کہ ٹکراو کے ذریعے جو مسئلہ حل نہ ہو رہا ہو اس کا حل صابرانہ تدبیر میں دریافت کرے-جہاں بولنا بظاہر کار آمد نہ ہو وہاں خاموشی کا اسلوب اختیار کرے-جو کام جسمانی طاقت کے ذریعے بنتا ہوا نظر نہ آئے وہاں عقل و دانش کی طاقت کو استعمال کرے لیکن ہمت نہ ہارے کیونکہ آزمائشوں کا مقابلہ کیے بغیر ہمت سے کام نہ لینا بزدلوں کا کام ہے،جن سے کوئی تاریخ بن نہیں پاتی ہے-آزمائشوں کی ہمہ گیری دیکھ کر بندہ مومن کو اپنی جان کے بجائے زیادہ سے زیادہ اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیے کیونکہ اس فانی دنیا میں دولتِ ایمان ہی اس کی سب سے قیمتی پونجی ہوتی ہے،جسے بچا کر اگر اس کی جان بھی چلی جائے تب بھی یہ ایک نفع بخش سودا ہے۔یہی پیغام بندہ مومن کو قرآنِ پاک کی اس آیت میں ملتا ہے:
كُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَةُ الۡمَوۡتِ ۖ  ثُمَّ اِلَيۡنَا تُرۡجَعُوۡنَ‏(العنکبوت:57)
*”ہر متنفس کو موت کا مزا چکھنا ہے،پھر تم سب ہماری طرف ہی پلٹا کر لائے جاؤ گے۔“*

*”یعنی جان کی فکر نہ کرو۔یہ تو کبھی نہ کبھی جانی ہی ہے۔ہمیشہ رہنے کے لیے تو کوئی بھی دنیا میں نہیں آیا ہے۔لہذا تمہارے لیے فکر کے لائق مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اس دنیا میں جان کیسے بچائی جائے۔بلکہ اصل لائق فکر مسئلہ یہ ہے کہ ایمان کیسے بچایا جائے اور خدا پرستی کے تقاضے کس طرح پورے کیے جائیں۔آخر کار تمہیں پلٹ کر ہماری طرف ہی آنا ہے۔اگر دنیا میں جان بچانے کے لیے ایمان کھو کر آئے تو اس کا نتیجہ کچھ اور ہوگا اور ایمان بچانے کے لیے جان کھو آئے تو اس کا انجام کچھ دوسرا ہوگا۔پس فکر جو کچھ بھی کرنی ہے اس بات کی کرو کہ ہماری طرف جب پلٹو گے تو کیا لے کر پلٹو گے،جان پر قربان کیا ہوا ایمان؟ یا ایمان پر قربان کی ہوئی جان؟“*(تفہیم القرآن)

*”یعنی جان کی فکر نہ کرو۔یہ تو کبھی نہ کبھی جانی ہی ہے۔ہمیشہ رہنے کے لیے تو کوئی بھی دنیا میں نہیں آیا ہے۔لہذا تمہارے لیے فکر کے لائق مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اس دنیا میں جان کیسے بچائی جائے۔بلکہ اصل لائق فکر مسئلہ یہ ہے کہ ایمان کیسے بچایا جائے اور خدا پرستی کے تقاضے کس طرح پورے کیے جائیں۔آخر کار تمہیں پلٹ کر ہماری طرف ہی آنا ہے۔اگر دنیا میں جان بچانے کے لیے ایمان کھو کر آئے تو اس کا نتیجہ کچھ اور ہوگا اور ایمان بچانے کے لیے جان کھو آئے تو اس کا انجام کچھ دوسرا ہوگا۔پس فکر جو کچھ بھی کرنی ہے اس بات کی کرو کہ ہماری طرف جب پلٹو گے تو کیا لے کر پلٹو گے،جان پر قربان کیا ہوا ایمان؟ یا ایمان پر قربان کی ہوئی جان؟“*(تفہیم القرآن)

Comments