Performing Good Deeds : Why To Delay? (Part 4)



    ایک انسان کی فطرت میں یہ بات موجود ہے کہ وہ مستقبل کے حوالے سے فکر مند رہتا ہے اور اس بات کو مدِ نظر رکھ کر وہ مختلف چیزیں جمع کرنے کے چکر میں لگ جاتا ہے۔شاہراہِ زندگی پر سفر کرتے ہوئے اگرچہ اسے نشیب وفراز کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن کامیابی سے ہمکنار ہونے کے لئے وہ ان چیزوں کی پرواہ کئے بغیر اپنا سفر جاری و ساری رکھتا ہے۔مستقبل کا خوف اسے چین سے سونے نہیں دیتا اور حالات پر کڑی نظر رکھ کر وہ وقت سے فائدہ اٹھا کر اپنی ضروریاتِ زندگی جمع کرنے میں ہی اپنی نجات سمجھتا ہے۔مستقبل کے حوالے سے متفکر رہنا انسان ہی میں نہیں بلکہ یہ ہمیں چھوٹے چھوٹے کیڑے مکوڑوں میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے،جن میں سرفہرست ”چیونٹی“ ہے۔چیونٹی ایک عام معاشرتی مکوڑا ہے،جو تقریباً دنیا کے ہر حصے میں پائی جاتی ہے۔یہ حشرات الارض کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے،چیونٹیوں کا شمار دنیا کے مشقت کرنے والے مخلوقات میں ہوتا ہے۔مستقبل کے حوالے سے ان کی مشقت اور ان کا متفکر رہنا ہر ایک انسان کے مشاہدے میں ہے۔حیرانی کی بات ہے کہ یہ ایک چھوٹی سی مخلوق موسمِ سرما کو ذہن میں رکھتے ہوئے موسمِ بہار سے ہی رزق جمع کرنے میں لگ جاتی ہے،کیونکہ اسے پہلے ہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ آئیندہ موسمِ سرما میں میرے لیے اپنے بل سے سر نکالنا بھی مشکل ہوگا۔لہٰذا وہ موسمِ سرما کو اپنے لئے عظیم فتنہ سمجھ کر اولین فہرست میں ہی کام میں لگ جاتی ہے اور اس کام کو وہ بڑی جانفشانی کے ساتھ سرِ انجام دیتی ہے۔”صحیح کام صحیح وقت پر“ کے اصول کو عملی جامہ پہنا کر وہ مستقبل میں نہ فقروفاقہ کا شکار ہوجاتی ہے اور نہ ہی اپنے آنسو بہا کر اپنے غم کا اظہار کرتی ہے بلکہ وہ وقت پر مطمئن اور شاداں و فرحاں نظر آنے لگتی ہے۔وہ اُس وقت یہ مصرعہ سنا کر اپنی اندرونی کیفیت کا اظہار کرتی ہےکہ”شادم از زندگئ خویش کہ کارے کردم“یعنی میں اپنی زندگی سے خوش ہوں کہ میں نے بہت بڑا کام کیا۔

   اس دنیا میں چیونٹی کی طرح ہر ایک انسان اپنی مستقبل میں آرام دہ زندگی گزارنے کے لئے فکر مند ہے اور اس کے نتیجے میں ہی وہ اپنی ضروریاتِ زندگی جمع کرنے میں کوشاں ہے۔اگرچہ اس کام میں کوئی قباحت نہیں ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بندہ مومن کا اصل ”مستقبل“کون ہے؟اس مستقبل کے حوالے سے اسے کونسا ”زادِ راہ“ زیادہ سے زیادہ جمع کرنا چاہئیے؟اور اس مستقبل کے حوالے سے صراطِ مستقیم پر قدم بقدم اسے کون سی چیز ثبات دے کر مستقل مزاجی سے چلا سکتی ہے؟چونکہ قرآنِ پاک ایک زندہ و جاوید کتاب ہے جو کہ سائل کے ہر ایک سوال کا جواب دینے کے لئے ہر وقت تیار ہے،بس سائل بننے کی دیر ہے۔پہلے سوال کا جواب دے کر قرآن کہتا ہے کہ بندہ مومن کا اصل مستقبل ”آخرت کی زندگی“ ہے،جس کی خاطر ہی وہ جان توڑ کر محنت کرتا ہے اور اپنی منزلِ مقصود پر پہنچ کر اس کی انتھک کوشش کو قبول کرکے اسے ضرور بالضرور بھرپور اجر سے نوازا جائے گا:

وَمَنۡ اَرَادَ الۡاٰخِرَةَ وَسَعٰى لَهَا سَعۡيَهَا وَهُوَ مُؤۡمِنٌ فَاُولٰۤئِكَ كَانَ سَعۡيُهُمۡ مَّشۡكُوۡرًا ۞(الاسراء:19)

”اور جو شخص آخرت کا طلبگار ہوتا ہے اور اس کے لیے پوری طرح جدوجہد کرتا ہے درآنحالیکہ وہ مومن بھی ہو، پس یہی وہ لوگ ہیں جن کی کوشش مقبول ہوگی۔“

اس آیتِ پاک کے حوالے سے سید قطب شہیدؒ اس طرح رقمطراز ہیں:
”۔۔۔۔ پس جو لوگ آخرت چاہتے ہیں ضروری ہے کہ اس کے لئے سعی بھی کریں۔ اس کی ذمہ داریاں ادا کریں۔ اور اسکے تقاضے پورے کریں اور یہ تمام جدوجہد ایمان کے بعد ہو،ظاہر ہے کہ ایمان محض خواہش اور تمنا کا نام نہیں ہے،بلکہ ایمان یہ ہے کہ وہ دل میں بیٹھ جائے اور عملِ صالح اس کی تصدیق کرے۔ یہاں یہ بات درست ہے کہ آخرت کے لئے سعی کرنے کے نتیجے میں انسان دنیا کے مفاد اور سہولتوں اور لذتوں سے یکدم محروم نہیں ہوتا۔ بلکہ اس دنیا میں رہتے ہوئے وہ آخرت کو مدنظر رکھتا ہے،یہ نہیں ہوتا کہ دنیا ہی اس کا منتہائے مقصود ہو،آخرت بھی پیش نظر ہوتی ہے اور جب آخرت انسان کے پیش نظر ہو تو پھر دنیا کا رہن سہن انسان کے لئے مضر نہیں ہوتا اور جو شخص صرف دنیا چاہتا ہے وہ جہنم میں ملامت زدہ اور رحمت سے محروم پھینک دیا جائے گا اور جو شخص آخرت کے لئے ساعی ہے تو اس کا استقبال ملا اعلیٰ میں نہایت ہی عزت اور تکریم سے ہوگا،کیونکہ اس نے دنیا کو چھوڑ کر آخرت کے لئے کام کیا اور قریب کو چھوڑ کر اس نے بعید اور بلند آفاق کی طرف نظریں اٹھائیں۔
 دنیا کی زندگی کی حقیقت کیا ہے؟وہ لوگ اس کی حقیقت کو اچھی طرح جانتے ہیں جو کیڑوں مکوڑوں، حشرات الارض،حیوانات اور وحوش کی زندگی کا مطالعہ کرتے رہتے ہیں۔ دنیا کی انسانی زندگی اور دنیا میں مذکورہ بالا حشرات الارض کی زندگی میں کوئی بنیادی امتیاز نہیں ہے۔ انسان کی انسانیت کے ساتھ لائق زندگی تو آخرت کی زندگی ہے،یہ اللہ کے جوار میں دائمی زندگی ہے۔کیونکہ انسان کو اللہ نے ایک خاص انداز سے پیدا کیا اور اس کو برابر کیا۔ اس کے اندر اپنی خاص روح پھونکی اور اسے زمین کے اوپر آباد کیا اور یہاں اسے مستحکم کرکے علم سے نوازا اور فرشتوں پر برتری عطا کی۔
 جو شخص دنیا کے لئے جدوجہد کرے اس کے سامنے بھی میدان کھلا ہے اور جو آخرت کے لئے جدوجہد کرے اس کے لئے بھی میدان کھلا ہے۔ دونوں کو اللہ ان کے مطلوبہ مقاصد اور مطالب اور اہداف تک پہنچاتا ہے۔ کوئی دنیا چاہے یا آخرت،اللہ کسی کی راہ نہیں روکتا جہاں کوئی چاہے اللہ کی مشیت اسے لے جاتی ہے۔“         (فی ظلال القرآن)

  دوسرے سوال کا جواب دےکر قرآن کہتا ہے کہ بندہ مومن کے لئے”باقیات الصالحات“ ہی وہ زادِ راہ ہے جنہیں زیادہ سے زیادہ جمع کرنے کی فکر میں اسے لگنا چاہئیے تاکہ راستے میں کہیں عین وقت پھر پچھتانا نہ پڑے:

اَلۡمَالُ وَ الۡبَـنُوۡنَ زِيۡنَةُ الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا‌ ۚ وَالۡبٰقِيٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَيۡرٌ عِنۡدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَّخَيۡرٌ اَمَلًا ۞(الکھف:46)

”مال اور اولاد دنیوی زندگی کی زینت ہیں اور باقی رہنے والے اعمالِ صالحہ،باعتبارِ ثواب اور باعتبارِ امید تمہارے رب کے نزدیک بہتر ہیں۔“

اس آیتِ مبارکہ کے ذیل میں مولانا ڈاکٹر محمد اسلم صدیقیؒ لکھتے ہیں:
”۔۔۔ آنحضرت ﷺ نے اگرچہ بعض مواقع پر تسبیح و تہلیل اور بعض اذکار کو باقیات الصالحات قرار دیا اور کبھی بعض اعمال کو،لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ عمل جو شریعت کے مطابق اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کیا جائے وہ باقیات الصالحات میں شامل ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کبھی اسے ضائع نہیں ہونے دیتا۔ ہمدردی و غمخواری، رحم دلی و مروت، جودوسخاوت، قربانی و ایثار اور اطاعت و عبادت یہ تمام اعمال حُسنِ نیت کے ساتھ باقیات الصالحات میں شامل ہیں اور اپنے اصل کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے یہاں تو یقیناً ہمیشہ باقی رہنے والے ہیں،دنیا میں بھی اس کے اثرات تادیر قائم رہتے ہیں۔اس لیے یہاں فرمایا گیا کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کے یہاں بہترین اجر چاہتے ہو تو وہ بھی تمہیں اعمالِ صالحہ کے نتیجہ میں ملے گا اور اگر تم انسانیت کے لیے بہترین امید کے خواہاں ہو یا اپنے لیے اللہ تعالیٰ سے اچھے انجام کی امید رکھنا چاہتے ہو تو اس کی ضمانت بھی ایمان کے بعد اعمالِ صالحہ کے سوا کسی اور چیز سے نہیں دی جاسکتی۔اس لیے اہل دنیا کو اگر انسانیت کی بھلائی مقصود ہے تو وہ ان چیزوں میں نہیں جو حیات دنیا کی زینت ہیں بلکہ ان اعمال میں ہے جو حیات دنیا کی بقاء کا ذریعہ اور اس کی پائیداری کا سبب ہیں۔“(روح القرآن)

تیسرے سوال کا جواب دے کر قرآن کہتا ہےکہ”احتسابِ نفس“ ہی وہ چیز ہے جو بندہ مومن کو شاہراہِ زندگی پر مستقل مزاجی کے ساتھ چلا کر بالاٰخر اسے حقیقی کامیابی سے ہمکنار کرا سکتا ہے:

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا اتَّقُوا اللّٰهَ وَلۡتَـنۡظُرۡ نَـفۡسٌ مَّا قَدَّمَتۡ لِغَدٍ‌ ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ ۞(الحشر:18)

”اے لوگو!جو ایمان لائے ہو،اللہ سے ڈرو،اور چاہیے کہ ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا سامان کیا ہے،اور اللہ سے ڈرتے رہو،جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس کو جاننے والا ہے۔“

اس آیت کے حوالے سے مولانا سید ابو الاعلٰی مودودیؒ نے ایک ایسا شاندار نوٹ لکھا ہے،جو کہ صد فی صد اصلی بات سمجھانے میں کافی حد تک مدد دیتا ہے۔لکھتے ہیں:
”کل سے مراد آخرت ہے۔ گویا دنیا کی یہ پوری زندگی ”آج“ہے اور”کل“ وہ یوم قیامت ہے جو اس آج کے بعد آنے والا ہے۔ یہ انداز بیان اختیار کر کے اللہ تعالیٰ نے نہایت حکیمانہ طریقہ سے انسان کو یہ سمجھایا ہے کہ جس طرح دنیا میں وہ شخص نادان ہے جو آج کے لطف و لذت پر اپنا سب کچھ لٹا بیٹھا ہے اور نہیں سوچتا کہ کل اس کے پاس کھانے کو روٹی اور سر چھپانے کو جگہ بھی باقی رہے گی یا نہیں،اسی طرح وہ شخص بھی اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مار رہا ہے جو اپنی دنیا بنانے کی فکر میں ایسا منہمک ہے کہ اپنی آخرت سے بالکل غافل ہوچکا ہے،حالانکہ آخرت ٹھیک اسی طرح آنی ہے جس طرح آج کے بعد کل آنے والا ہے،اور وہاں وہ کچھ نہیں پاسکتا اگر دنیا کی موجودہ زندگی میں اس کے لیے کوئی پیشگی سامان فراہم نہیں کرتا۔ اس کے ساتھ دوسرا حکیمانہ نکتہ یہ ہے کہ اس آیت میں ہر شخص کو آپ ہی اپنا محاسب بنایا گیا ہے۔ جب تک کسی شخص میں خود اپنے برے اور بھلے کی تمیز پیدا نہ ہوجائے،اس کو سرے سے یہ احساس ہی نہیں ہوسکتا کہ جو کچھ وہ کر رہا ہے وہ آخرت میں اس کے مستقبل کو سنوارنے والا ہے یا بگاڑنے والا۔ اور جب اس کے اندر یہ حس بیدار ہوجائے تو اسے خود ہی اپنا حساب لگا کر یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ اپنے وقت، اپنے سرمایے، اپنی محنت،اپنی قابلیتیں اور اپنی کوششوں کو جس راہ میں صرف کر رہا ہے وہ اسے جنت کی طرف لے جا رہی ہے یا جہنم کی طرف۔ یہ دیکھنا اس کے اپنے ہی مفاد کا تقاضا ہے، نہ دیکھے گا تو آپ ہی اپنا مستقبل خراب کرے گا۔“ (تفہیم القرآن)
   لہٰذا اس فانی زندگی کو غنیمت جان کر بندہ مومن کو چاہئیے کہ وہ بلاتاخیر اپنی منزلِ حقیقی پر نظر رکھ کر زیادہ سے زیادہ اعمالِ صالحہ جمع کرنے میں لگ جائے اور ساتھ میں احتسابِ نفس کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے تاکہ وہ شاہراہِ زندگی پر کامیابی کے ساتھ سفر طے کر سکے۔مذکورہ حکمت سے بھرے ہوئے فلسفے کو اختیار کرنے کے لیے ہمارے لیے قرآنِ پاک کی ذیل کی ایک آیت ہی جھٹکا دینے کے لیے کافی ہے،یہ ایک ایسی آیت ہے جو کہ واقعی طور پر زندہ ضمیر انسان کے رگ و پے میں داخل ہونے کے بعد اسے بے چین کر دیتی ہے:

عَلِمَتۡ نَفۡسٌ مَّا قَدَّمَتۡ وَاَخَّرَتۡؕ‏ ۞(الانفطار:5)

”اس وقت ہر شخص کو پتہ چل جائے گا کہ اس نے کیا آگے بھیجا ہے اور کیا پیچھے چھوڑا ہے۔“

   تفسیر دعوت القرآن میں مولانا شمس پیرزادہؒ اس آیتِ مبارکہ کے ذیل میں لکھتے ہیں:
”آگے بھیجنے(ما قدمت)سے مراد آدمی کا اچھا یا برا عمل ہے۔جو اس نے اخروی زندگی کے لیے کیا۔گویا انسان روزانہ اپنے اعمال کا پارسل نئی دنیا کو بھیجتا ہے، جہاں قیامت کے دن وہ پہنچنے والا ہے۔۔۔۔۔پیچھے چھوڑنے(ما اخرت) سے مراد تقوٰی اور نیکی کے وہ کام ہیں جو انسان کے کرنے کے تھے،لیکن اس نے نہیں کئے۔اس طرح قیامت کے دن ہر شخص کو اس کی کارکردگی اور اس کی کوتاہیاں اچھی طرح معلوم ہو جائے گی۔“

 لہٰذا موت کو جس طرح بھی آنا ہو آجائے،ہماری تو بس یہی آرزو ہونی چاہئیے کہ موت کا فرشتہ آئے تو یہ پیغام لے کر آئے کہ:

يٰۤاَيَّتُهَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّةُ۞ارۡجِعِىۡۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرۡضِيَّةً‌ ۞فَادۡخُلِىۡ فِىۡ عِبٰدِىۙ ۞وَادۡخُلِىۡ جَنَّتِى۞(الفجر:30-27)

”اے اطمینان پانے والی روح۔اپنے رب کی طرف لوٹ چل،تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی۔تومیرے(نیک) بندوں میں شامل ہوجا۔اور میری جنت میں داخل ہوجا۔“


*نوٹ*:(مضمون کے بقیہ حصے کو اگلی قسط میں ملاحظہ فرمائیں)


Comments

Post a Comment