Performing Good Deeds: Why To Delay? (Part 1)


     اللہ تعالٰی نے انسان کو”اشرف المخلوقات“بنا کر ایک امتیازی مقام عطا کیا اور اس مقام پر برقرار رہنے کے لیے اسے بار بار اپنی حقیقت پر غوروفکر کرنا چاہئیے۔اس غوروفکر کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان کو اپنے محبوبِ حقیقی کی طرف بڑھنے میں کافی حد تک مدد ملتی ہے۔انسان کی فطرت میں خدا کی طرف بڑھنے کا جذبہ اور میلان ٹھیک اُسی طرح پایا جاتا ہے جس طرح لوہے کے اندر مقناطیس کی طرف کھینچنے کی یا آگ کے شعلے کے اندر اُوپر اٹھنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ انسان جب اللہ جل شانہ کی عظمتِ شان،قدرتِ کاملہ،حکمتِ بالغہ اور شانِ ربوبیت پر سنجیدگی سے غوروخوض کرتا ہے تو آناً فاناً اسے رب کی پہچان ملتی ہے اور دل میں جذبوں کا ٹھاٹھيں مارتا ہوا سمندر اُبھرنے لگتا ہے،جو رب کو راضی کرنے تک تھمنے کا نام نہیں لیتے ہیں۔انسان آیات آفاق اور آیات انفس سے سہارا لیتے ہویے اللہ تبارک و تعالٰی کی طرف محوِ سفر ہوجاتا ہے۔اُس کے دل میں قربِ الٰہی کی پیاس اُبھرتی ہے اور اس پیاس کو بُجھانے کے لیے وہ اپنی پوری زندگی کو عبادت کے رنگ میں رنگ لیتا ہے۔جب اسے رب کی پہچان ملتی ہے تو اس کے دل میں یہ داعیہ پیدا ہوتا ہے کہ جس مالک نے یہ ساری کائنات بنائی ہے اور جس مالک نے مجھ پر نعمتوں اور رحمتوں کی بارش برسائی ہے اور مجھے ایک حقیر نطفے سے پیدا کرکے”احسن تقویم“ پر فائز کیا ہے،اس مالک کا بھی مجھ پر کوئی حق ہوگا؟اس سوال کے اٹھتے ہی انسان کے اندر کچھ کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور یہی لمحہ انسان کی زندگی کا Turning point ہوتا ہے۔اس مقام پر انسان رب کو راضی کرنے کے لیے خود بخود مختلف کاموں کو کرنے کا عزمِ مصمم کر لیتا ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب انسان کو نیک کام کرنے کا داعیہ پیدا ہو جایے اور نیک کام کرنے کا محرک سامنے آیے،تو اس وقت اسے کیا کرنا چاہیئے؟شریعت نے اس سوال کا جواب اس طرح دیا ہے کہ نیک کام کا داعیہ پیدا ہوتے ہی ٹال مٹول کے بجائے اسے سرِانجام دینا چاہیئے۔عربی میں اسے”مبادرت“ کہتے ہیں یعنی کسی کام کو جلدی سے کر لینا،ٹال مٹول نہ کرنا،اور آئندہ کل پر نہ چھوڑنا۔قرآنِ پاک نے اس حوالے سے ہمیں ان الفاظ میں رہنمائی فرمائی ہے:

وَسَارِعُوۡۤا اِلٰى مَغۡفِرَةٍ مِّنۡ رَّبِّكُمۡ وَجَنَّةٍ عَرۡضُهَا السَّمٰوٰتُ وَالۡاَرۡضُۙ اُعِدَّتۡ لِلۡمُتَّقِيۡنَۙ ۞ (آل عمران:133)

اور مسابقت کرو اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے عرض کی طرح ہے، جو پرہیزگاروں کے لیے تیار کی گئی ہے“

         ”مسارعت“کے معنٰی ہیں،جلد سے جلد کوئی کام کرنا،دوسروں سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنا۔قرآنِ پاک میں ایک دوسری جگہ آیت کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے میں اسی دعوت کی ترغیب ان الفاظ میں دی گئی ہے:

فَاسۡتَبِقُوا الۡخَيۡرٰتِؕ(البقرہ:148) 

 ”تم نیکیوں کی راہ میں سبقت کرو“


     مذکورہ آیات میں یہی درس پنہاں ہے کہ نیک کام کرنے کا داعیہ جوں ہی دل میں پیدا ہو جایے تو اسے فورًا ادا کرنا چاہئیے۔لیکن بدقسمتی سے ہم اکثروبیشتر ٹال مٹول کا شکار ہوجاتے ہیں اور یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ یہ”ٹال مٹول“،”تاخیر“ اور”پھر کبھی“ہمارے دشمن اور ہماری مستقبل کے لیے انتہائی تباہ کن ہیں۔یہ نشہ آور چیزوں سے زیادہ نقصان دہ ہیں اور ان چیزوں کا شکار ہوکر ایک متحرک کارکن بھی”جمود“کا لبادہ اوڑھ کر تحریکِ اسلامی کو خود اپنے ہاتھوں ہی قربان کر دیتا ہے۔امام عبد الرحمٰن ابن جوزیؒ نے اپنی کتاب منہاج القاصدین میں توجہ کے باب میں ”تسویف“(آئیندہ کر لوں گا) کے موضوع پر تحریر کیا ہے:

 *”آئیندہ پر ٹالنے والے بالعموم ہلاک ہو جاتے ہیں۔کیونکہ وہ ایک ہی جیسی دو چیزوں میں فرق کر جاتے ہیں۔آئیندہ پر ٹالنے والے کی مثال اس آدمی کی سی ہے،جسے ایک درخت اکھاڑنے کی ضرورت ہو۔وہ دیکھے کہ درخت بہت مضبوط ہے۔شدید مشقت سے اکھڑے گا،تو وہ کہے میں ایک سال کے بعد اس کو اکھیڑنے کے لیے آؤں گا۔وہ یہ نہیں جانتا کہ درخت جتنی مدت باقی رہے گا،مضبوط ہوتا جائے گا اور اس کی جتنی عمر لمبی ہوتی جائے گی،یہ خود کمزور ہوتا جائے گا۔جب وہ طاقت ور ہونے کے باوجود درخت کی کمزوری کی حالت میں اسے نہیں اکھاڑ سکتا تو جب وہ خود کمزور ہو جائے گا اور درخت مزید طاقت ور،تو پھر اس پر کیسے غالب آسکے گا۔“*


      مزاج اور رویے کے باعث اہم چیزوں کو غیر اہم امور کے مقابلے میں مٶخر کرنے کے عمل کو ہم تساہل یا ٹال مٹول کہتے ہیں۔انگریزی میں اسکے لیے ”Procrastination“ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ہم بعض اہم کاموں کو اس لیے چھوڑ دیتے ہیں کہ انہیں کرنے کا موڑ ہی نہیں ہوتا،بعض اوقات انہیں اس لیے چھوڑ دیتے ہیں کہ انہیں کرنے کے مناسب وقت اور سکون نہیں ہوتا،بعض اوقات اس لیے چھوڑ دیتے ہیں کہ کرنے کے لیے ابھی کافی وقت اور عمر باقی ہے۔ہم اللہ تعالٰی کی ایک انمول نعمت یعنی”وقت“ کو رایگاں کرتے رہتے ہیں۔ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: 

   *”جوں ہی آنے والے دن کی پو پھٹتی ہے تو وہ آواز لگاتا ہے:اے آدم کی اولاد!میں اللہ کی نئی مخلوق ہوں اور تمارے اعمال کا گواہ،اس لیے مجھ سے زیادہ زاد راہ لے سکتے ہو،لےلو،میں پھر کبھی لوٹ کر نہیں آٶں گا۔“*(حلیة الاولیاء)

   ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ:

     *”مومن کی دو دھڑکے لگے رہتے ہیں،ایک اس کا ماضی جس کے بارے میں وہ نہیں جانتا کہ اللہ اس کے کیا نتائج ظاہر کرے گا اور دوسرا اس کا مستقبل جس کے بارے میں وہ نہیں جانتا کہ اللہ تعالٰی نے اس کے متعلق کیا فیصلہ کر رکھا ہے۔اس لیے آدمی کو اپنی جان کی خاطر اپنی جان کو،آخرت کی خاطر دنیا کو،بڑھاپے سے پہلے جوانی کو اور موت سے پہلے زندگی کو کام میں لانا چاہئیے۔“*(بیہقی فی شعب الایمان)

      امام ابن جوزیؒ فرماتے ہیں کہ عمر کی سانسوں میں سے ہر سانس ایک نفیس جوہر ہے جس کا معاوضہ کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔

       ہماری زندگی میں”کل“ کا لفظ ایک دھوکا ہے۔ کیونکہ ماضی میں ہمیں اس بات کا تجربہ ہوا ہے کہ آنے والی”کل“ ایک اور نئی”کل“میں خود بخود تبدیل ہو جاتی ہے اور انسان کے اہم کام ویسے کے ویسے ہی رہ جاتے ہیں۔ایک مومن کے لیے شیطان کا سب سے بڑا حربہ یہ ہوتا کہ وہ اسے نیک کام کا ارادہ کرتے وقت”کل“ کا سبز باغ دکھاتا ہے،لیکن وہ ”کل“ پھر زندگی بھر اسے اپنا چہرہ بھی نہیں دکھاتا ہے۔کبھی کبھار وہ اس کے سامنے مستقبل کے حوالے سے پُرکشش پیکج پیش کرکے اپنے دام میں لے کر ترجیہی بنیادوں پر اہم کاموں کو چھوڑ کر اسے غیر اہم کام کراکے اس کو ایک نئی Ideology پر فٹ کردیتا ہے۔مدحوشی کی حالت میں اس دعوت کو قبول کر کے وہ روحانی موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے،جو کہ ایک مومن کے لیے ایسا خسارہ ہے کہ جس کی تلافی ناممکن ہے۔انسان کا ازلی دشمن یعنی شیطان جب دیکھتا ہے کہ ایک انسان اپنے آپ میں تبدیلی لانا چاہتا ہے تو وہ اسکو یہی مشورہ دیتا ہے کہ کچھ وقفہ کے بعد ہی آپ کو یہ عزم باندھ لینا چاہئیے اور انسان بھی جب اس داعیہ کو ٹال دیتا ہے تو پھر ساری عمر بھی اسے اس داعیہ پر عمل کرنے کی نوبت ہی نہیں آتی اور اس کے لئے ہدایت بس ایک خواب ہی رہ جاتی ہے۔اسی چیز کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اللہ تعالٰی نے ہمیں پہلے ہی قرآنِ پاک میں ان الفاظ میں خبردار کیا ہے کہ:

اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْهُ عَدُوًّاؕ-اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَهٗ لِیَكُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِؕ(فاطر:6)

بیشک شیطان تمہارا دشمن ہے تو تم بھی اسے دشمن سمجھو، وہ تو اپنے گروہ کو اسی لیے بلاتا ہے تاکہ وہ بھی دوزخیوں میں سے ہوجائیں“

    شیطان کو دشمن سمجھنے سے مراد یہی ہے کہ اس کی ہر دعوت کو ٹھکرا دیاجایے۔کیونکہ دشمن سے انسان بات کرنا تو گوارہ نہیں کرتا کجا کہ اس کی دعوت پر لبیک کہے۔جوں ہی انسان کے دل میں نیک عمل کا داعیہ پیدا ہو جاتا ہے تو شیطان دوست اور خیرخواہ کی روپ میں دشمن بن کر آتا ہے اور سوچتا ہے کہ اگر اُس نے اپنے عزم کو فوراً عملی جامہ پہنا دیا تو میری ناک خاک آلود ہو جائے گی۔مذکورہ آیت میں یہ اشارہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ شیطان کو گھٹنے ٹیک دینے پر مجبور کرنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ نیک کام کا داعیہ پیدا ہوتے ہی بلاتاخیر کام میں لگنا چاہئیے۔کیونکہ کیا پتہ کل یہ داعیہ رہے یا نہ رہے اور اگر داعیہ زندہ بھی رہے تب بھی معلوم نہیں کہ حالات موافق ہوں یا نہ ہوں۔ہر ایک نیک کام کا ایک مقررہ وقت ہوتا ہے اور ٹال مٹول کا راستہ پکڑ کر انسان کو پھر اللہ تعالٰی اس کی توفیق ہی صلب کر لیتا ہے۔کمزور ایمان رکھنے والے مسلمان اکثر نفسِ امارہ اور شیطانی ترغیبات کے جال میں پھنس جاتے ہیں اور ان کی داعیات کو قبول کرکے پھر انہیں عظیم خسارے سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔جب بھی اللہ کی پکار آتی ہے تو یہ افراد فوراً لبیک نہ کرتے ہوئے زمین کی طرف لگ جاتے ہیں اور بالاٰخر علائقِ دنیوی کی محبت کی زنجیروں میں پھنس جاتے ہیں۔کچھ وقفہ کے بعد جب انہیں کاروانِ حق اس فعلِ بد کے بابت سوال پوچھتے ہیں تو یہ لوگ ”مجبوریوں“ کا حوالہ دے کر تحریک کے قائد اور کارکنوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں،لیکن ان کے ضمیر کی آواز کو کون دبا سکتا ہے؟قرآنِ پاک نے اِن ضعيف الایمان لوگوں کی تصویر کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے:

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مَا لَـكُمۡ اِذَا قِيۡلَ لَـكُمُ انْفِرُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ اثَّاقَلۡـتُمۡ اِلَى الۡاَرۡضِ‌ ؕ اَرَضِيۡتُمۡ بِالۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا مِنَ الۡاٰخِرَةِ‌ ۚ فَمَا مَتَاعُ الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا فِى الۡاٰخِرَةِ اِلَّا قَلِيۡلٌ ۞(التوبہ:38) 

اے ایمان والو ! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تمہیں کہا جاتا ہے کہ نکلو اللہ کے راستے میں تو ڈھے جاتے ہو زمین کی طرف کیا تم ریجھ گئے ہو دنیا کی زندگی پر آخرت کے مقابلے میں سو نہیں ہے دنیا کی زندگی کا سروسامان آخرت کے مقابلے میں مگر قلیل۔“


     نیکی کا داعیہ اللہ تعالٰی کی طرف سے ایک معزز مہمان ہوتا ہے،جس کی خاطر خواہ مدارات کرنی چاہئیے۔اس حوالے سے بزرگانِ دین فرماتے ہیں کہ:

    *”ہر نیکی کے بارے میں ایک مومن کو نہایت محتاط ہونا چاہئیے ۔جب نیکی کا کوئی خیال دل میں آتا ہے تو یوں سمجھ لیجئے کہ ایک معزز مہمان آپ کے گھر کے دروازے پر آیا ہے۔کوئی بھی معزز مہمان اپنی عزت کے معاملے میں نہایت حساس ہوتا ہے اگر میزبان اس کے استقبال میں ذرا بھی سردمہری کا ثبوت دیتا ہے تو معزز مہمان دروازے ہی سے واپس لوٹ جاتا ہے۔نیکی کا خیال بھی ایک معزز مہمان کی مانند ہے جیسے ہی آئے تو لپکتے ہوئے اسے تھام لینا چاہئیے اور پہلی فرصت میں اس پر عمل کرنا چاہئیے اور اگر تساہل سے کام لیا تو یہ آیا ہوا مہمان لوٹ بھی سکتا ہے تو پھر عین ممکن ہے کہ کبھی لوٹ کر نہ آئے۔“*

      عقل و خرد رکھنے والوں کے لئے اللہ تعالٰی نے سورۃ الانفال آیت نمبر٢٤ میں اسی چیز کی طرف ان الفاظ میں اشارہ دیا ہے:

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اسۡتَجِيۡبُوۡا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوۡلِ اِذَا دَعَاكُمۡ لِمَا يُحۡيِيۡكُمۡ‌ۚ وَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰهَ يَحُوۡلُ بَيۡنَ الۡمَرۡءِ وَقَلۡبِهٖ وَاَنَّهٗۤ اِلَيۡهِ تُحۡشَرُوۡنَ ۞ 

*”اے ایمان والو ! اللہ اور رسول کی دعوت پر لبیک کہو جبکہ وہ تمہیں اس چیز کی طرف بلائیں جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے اور خوب جان لو کہ اللہ حائل ہوجاتا ہے آدمی اور اس کے دل کے درمیان اور یاد رکھو کہ اسی کی طرف تم جمع کیے جاٶ گے۔“*


نوٹ:(مضمون کے بقیہ حصے کو اگلی قسط میں ملاحظہ فرمائیں)

Comments

  1. May Allah SWT give u the jannah as a reward of this propagation

    ReplyDelete

Post a Comment