The Cry Of The Land Of Palestine.

   



فلسطین ارضِ مقدس(Consecrative Land) ہے،یہ قبلہ اول ہے،ثالث الحرمین ہے، قرآنِ مجید میں پانچ مرتبہ لفظ”بارکنا“استعمال ہوا ہے،اور پانچوں مرتبہ یہ لفظ شہر قدس سے متعلق ہے۔نماز فرض ہونے کے بعد١٦ماہ تک مسجدِ اقصٰی کی طرف رُخ کر کے نماز پڑھی گئی،اسراءومعراج کا واقعہ بھی اسی سرزمین سے متعلق ہے،اسی سفر میں رسولِ خداصلى الله عليه وسلم نےتمام انبیاء کی امامت کی۔یہ سرزمین انبیاءوصالحین کی پناہ گاہ(hideaway) رہی ہے،قرآنِ پاک میں سورۃ التین میں اللہ تبارک وتعالٰی نے جو”زیتون“کی قسم کھائی ہے،بعض مفسرین کے نزدیک اس کا معنٰی فلسطین کا علاقہ ہے کیونکہ یہ علاقہ اس کی پیداوار کے لیے مشہور تھا۔مؤرخین کے نزدیک شہداء کے خون سے کوئی اسلامی سرزمین اتنی لالہ زار نہیں ہوئی جتنی یہ سرزمین ہوئی ہے۔

         جہاں یہ سب حقائق ہیں اور اس کی برکتیں مسلم ہیں،وہیں یہ بھی المیہ ہے کہ یہ مقدس سرزمین آج دشمنوں کے نرغے میں ہے۔٦٣٦ء میں مسلمانوں کا اقتدار شہر قدس پر قائم ہوا،پھر١٠٩٠ءتک مسلمانوں نے  اس کے تقدس کی حفاظت کی،اس کے بعد عیسائیوں نے١٠٩٩ء میں اس شہر مقدس کی تمام حرمتوں کو پامال کرتے ہویے قبضہ کر لیا۔آخر ایک صدی کی وحشت ناکیوں کے بعد خاندان کرد کے ایک مرد مومن سلطان صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں ١١٨٧ءمیں پھر ارضِ مقدس اس کے امینوں کے ہاتھوں آگئی۔یہ سلسلہ چلتا رہا،دشمنانِ اسلام شازشیں (collusions) رچتے رہیں،تھیوڈ پرٹزل نے١٨٩٧ءمیں سویزرلینڈ میں پہلی بار یہودی وطن کے قیام کا ناپاک منصوبہ پیش کیا،اور آخر کار ١٥مئی ١٩٤٨کو مملکت اسرائیل قائم ہوگئی۔لیکن”لکل داع دوا“ یعنی اللہ تبارک و تعالٰی نے ہر ایک بیماری کے قلع قمع (annihilation) کرنے کے لیے دوا بھی پیدا کر رکھی ہے، کے اصول کے تحت اگر مملکتِ اسرائیل امتِ مسلمہ کے لیے بیماری کے مترادف ہے تو مملکتِ پاکستان اس کے خاتمے کے لیے دوا کی حیثیت رکھتی ہے،جو کہ اللہ کے فضل وعنایت سے اس کے ایک سال پہلے یعنی ١٩٤٧ کو منصہ شہود پر حکمتًا لائی گئی۔اسرائیل کے بارے میں قائدِاعظم محمد علی جناح نے واشگاف الفاظ میں فرمایا ہے کہ:”یہ اُمت کے قلب میں خنجر گُھسایا گیا۔یہ ایک ناجائز ریاست ہے جسے پاکستان کبھی تسلیم نہیں کرے گا۔“

          ساڑھے سات سو سال بعد فلسطین صلیبیوں اور صہیونیوں کے اتحاد(concord) اور مشترکہ سازشوں اور مسلمانوں کی کمزوریوں کے نتیجے میں ان کے ہاتھ سے نکل گیا،اور پھر جون١٩٦٧ءمیں ان بد باطنوں نے قبلہ اول مسجد اقصٰی کو بھی اپنے غاصبانہ قبضہ میں لے لیا۔ 

          یہ ایک بڑی تلخ کہانی(bitter legend ) ہے،جس کو سنتے ہی ہر ایک زندہ ضمیر انسان کانپ اُٹھ جاتا ہے۔اسرائیل مسلسل ظلم و سفا کی اور بربریت کا مرتکب ہو رہا ہے۔اس کی وجہ سے خون کی ندیاں بہ گئیں،عفیف و پاک دامن عورتوں کی عزت لوٹی گئی،بچے بچیاں یتیم و بے سہارا ہوگئیں،خواتین بیوہ ہو گئیں،ماؤں نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے جگر گوشوں کو جامِ شہادت نوش کرتے دیکھ کر انہیں جنت میں دوبارہ ملنے تک بوسہ اور دیدار پر اکتفا کرکے ہی انھیں اللہ تبارک وتعالٰی کے حضور  پیش کیا، کمزور بوڑھوں کو بھی نہیں بخشا گیا،مکانوں کو بلڈوزروں سے مسمار کیا گیا، ہرے بھرے اور سرسبز و شاداب کھیت جلا دیے گیے،نوجوانوں کو ٹارچر کے ذریعے سے ابدی نیند سُلا دیا گیا۔غرض ہر ایک مسلم گھرانہ ان کے ظلم و بربریت کا نشانہ آج تک بنتا رہا اور واپسی میں فلسطینیوں نے صبر کے دامن کو مضبوطی سے پکڑے رکھا اور آج تک اپنے پرچم کو ہاتھ سے گرنے نہ دیا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس ایک متعین(determined)،واضح نصب العین اور اصول و عقیدہ ہے،جس کی خاطر وہ سنگین حالات میں بھی ادنٰی کمزوری نہیں دکھاتے ہیں اور ہمیشہ پامردی اور جان فروشی سے کام لیتے ہیں۔اور تاریخ میں یہ بات مسلم رہی ہے کہ جو لوگ یقین کی راہ پر مستقل مزاجی(unwaveringly)سے چلتے ہیں انہیں لازمًا منزلیں پناہ دیتے ہیں۔

            صہیونیت کو اپنے پلان میں جوں جوں ناکامی کا سامنا ہو رہا ہے وہ جنون(lunacy)میں مبتلا ہوکر فلسطینی بچوں کو اپنی جارحیت کا نشانہ بنا رہی ہے،اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ٢٠٠٠ء میں جب تحریک انتقاضہ وجود میں آئی اور اس نےصہیونی جارحیت کو پتھروں اور غلیل سے لگام دینے کی کوشش کی،جس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہوئی تو صہیونیت کو اندازہ ہوا کہ ان بچوں کا استیصال کرنا ضروری ہے اور آج تک وہ اس وحشیانہ طرزِ عمل میں پیش پیش ہے۔وقت کا موسٰی کہیں حکومت کے تخت کو اُلٹ نہ دے،اس چیزکو ذہن میں رکھتے ہویے انہوں نے فرعون کی تدبیر اپنا کر”یذبحون ابناءکم“کی روشن مثال قائم کر دی۔انھوں نے اپنی چالیں چلائیں اور اللہ نے بھی اُن کی چالوں کا توڑ کر دیا،وہ اس طرح کہ فلسطینیوں کو اُس نے یہ خصوصیت فرمائی کہ ان میں پیدائش کا تناسُب(proportion) دنیا کی تمام دوسری قوموں سے زیادہ رکھا،یہی وجہ ہے کہ اگر وہاں ایک بچے کو شہید کیا جاتا ہے تو اس کے بدلے میں دس بچے جنم لیتے ہیں۔یہ اللہ تعالٰی کا فضل و کرم ہے کہ جس میں دشمنانِ اسلام کے لیے بڑی عبرت پنہاں ہے۔

             اسرائیل نے اپنے ظلم،جبر اور بربریت سے تمام حدودوقیود کو پامال کر ڈالا اور اس کا بھیانک(ghastly) اور سنگین ترین جُرم یہ ہے کہ اُس نے معصوم اور بے قصور انسانوں کا قتلِ ناحق کرکے اپنے لیے ابدی ذلت اور مسکنت  کو دعوت دی۔حالانکہ اللہ تعالٰی بے خبر نہیں ہے ان کرتوتوں سے جو یہ ظالم لوگ کر رہے ہیں،بلکہ وہ انھیں ڈھیل دیتے ہویے سخت عذاب کی طرف لے جا رہے ہیں۔قرآنِ پاک میں اس چیز کا تذکرہ ان الفاظ میں دیکھنےکو ملتا ہے:

وَلَا تَحۡسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا عَمَّا يَعۡمَلُ الظّٰلِمُوۡنَ‌ ؕ اِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمۡ لِيَوۡمٍ تَشۡخَصُ فِيۡهِ الۡاَبۡصَارُ۔

 ”اور یہ خیال مت کرو کہ اللہ تعالیٰ بیخبر ہے ان کرتوتوں سے جو یہ ظالم کررہے ہیں۔ وہ تو انھیں ڈھیل دے رہا ہے اس دن کے لیے جس میں نگاہیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی“        (ابراہیم:٤٢)

         جب مسجدوں کے مناروں سے دن رات میں پانچوں بار اذان کی آواز آتی ہے تو امتِ مسلمہ کے مسلمانوں کو مسجد اقصٰی پانچوں بار ہی پکار کر یہی آواز دیتی ہے کہ میں محصور(besieged) ہوں،مجھے ظالموں کے پنجوں سے چھڑا دو۔ یہ آواز ہمیں یاد دلاتی ہی کہ جب صلیبیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کر لیا تھا تو اس قبضہ کو ختم کرنے کے لیے عماد الدین زنگی،نور الدین زنگی،سلطان صلاح الدین ایوبی اور ظاہر بیبرس نے بلا لحاظ مسلک و ملک اور قومیت کے متحد ہو کر بیت المقدس کو آزاد کرانے میں تن من دھن سے حصہ لیا اور سب سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گیے،اجتماعی سطح پر آج بھی ہمیں یہ پیغام ملتا ہے کہ ہم اپنی صفوں کو متحد کریں،کیونکہ ہماری صفوں میں سخت انتشار(dispersion) اور انارکی ہے،ہماری جماعتوں میں اتحاد نہیں ہے،ہم ایک قوم و ملت ہیں لیکن ہمارے راستے الگ الگ ہیں،اختلاف نے گھن کی طرح اندر سے ہمیں کھا لیا،یہ امت عاجز و درماندہ،ناتواں اور کمزور ہے اس کا شیرازہ بکھر چکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ دشمن ہم پر غلبہ پانے میں کافی حد تک کامیاب ہوتے ہویے نظر آرہے ہیں۔ اجتماعی سطح پر ہماری جو صورتِ حال ہے اس کو علامہ اقبالؒ نے ان الفاظ میں بے نقاب کیا ہے    ؎

صفیں کج دل پریشاں سجدہ بے ذوق

کہ  جذب  اندروں  باقی  نہیں    ہے

          حالاتِ حاضرہ کو دیکھتے ہویے یہ بات صاف محسوس ہوتی ہے کہ اسلامی دفاعی(defensive) طاقت دشمن کے مقابلہ میں بہت کم ہے لہٰذا جب تک تمام اسلامی طاقتیں متحدوہم آہنگ نہ ہوں گی اس وقت تک مسلمان  اپنے خلاف خطرات و مشکلات  پر صحیح طور پر قابو نہ پاسکیں گے اور مسئلہ فلسطین کے خواب کو بھی اسی کام کے ذریعہ سے ہی شرمندہ تعبیر کیا جا سکتا ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ تمام اسلامی طاقتیں ایک ہو جائیں۔علامہ اقبالؒ نےبھی ہمیں اس چیز کی طرف دعوت ان الفاظ میں دی ہے    ؎

ایک ہوجائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں

ورنہ ان بکھرے ہویے تاروں سے کیا بات بنے

           فلسطینی بھائیوں کو زیادہ تر اُمیدیں(expectations) عربوں سے وابستہ تھیں لیکن بدقسمتی سےوہ شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپا کر حقائق کو ہی اب ٹالنے لگے،وہ اپنے ایرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھے زبانی جمع خرچ سے بھی گریز کر رہے ہیں۔  اُن کو عربوں کا گِلہ زیادہ ہے کیونکہ اپنوں کے لگایے گیے زخم بہت گہرے ہوتے ہیں۔ احادیث میں پہلے پہل جب ہم عربوں کے متعلق حضورصلى الله عليه و سلم کی زبانی”ویل للعرب“ کے الفاظ دیکھتے تھے تو ہر صاحبِ علم حیران ہوتا تھا کہ اُن کے متعلق حضورصلى الله عليه و سلم نے اتنے سخت الفاظ کیوں کہے،لیکن وقت نے ثابت کر دیا کہ واقعی طور پر وہ اسی لقب کے مستحق تھے چونکہ ” جن کے رتبے ہیں سوا اُن کی سوا مشکل ہے!“۔

           ہم تمام عرب اور اسلامی دنیا کے تمام مسلمانوں سےمطالبہ (demand) کرتے ہیں کہ وہ اپنے فلسطینی بھائیوں کی جدوجہد میں دامے،درمے،قدمے سخنے مدد کریں،ہمارے لیے حرام اور ناجائز ہے کہ ہم شکم سیر ہوکر کھائیں،میٹھی نیند سوئیں اور ہمارے فلسطینی بھائیوں کو روٹی کا ایک ٹکڑا بھی نصیب نہ ہو،ان کے بچے اور عورتيں قتل کیے جائیں،ان کے گھر مسمار کیے جائیں اور ہم زبانی ہمدردی سے بھی گیے گزرے ہوگیے۔

                اس موقع پر ہمیں اپنی ذمے داری ادا کرنی چاہیے اور جو کچھ کرسکتے ہیں اس میں دریغ نہیں کرنا چاہیے _

         اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا :” مسلمانوں کی مثال ایک جسم کی سی ہے کہ اگر اس کے کسی عضو میں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو پورا جسم اس سے متاثر ہوتا ہے اور بخار اور بے خوابی کا شکار ہو جاتا ہے۔“      (بخاری :6011 ، مسلم: 2586)

           اس لیے ہماری ذمے داری ہے کہ فلسطین کے اپنے مظلوم بھائیوں سے یک جہتی(unanimity) کا اظہار کریں ، ان کے درد کو محسوس کریں اور ان کے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں صبر و استقامت بخشے ، ان کی قربانیوں اور شہادتوں کو قبول فرمائے،ان کو ظالم کے پنجے سے جلد از جلد آزاد کرایے۔آمین اور ذیل کی  قرآنی دعا کا پڑھنا انشآءاللہ ہم سب کے لیے مفید ثابت رہے گا:

رَبَّنَا لَا تَجۡعَلۡنَا فِتۡنَةً لِّـلۡقَوۡمِ الظّٰلِمِيۡنَۙ‏۔وَنَجِّنَا بِرَحۡمَتِكَ مِنَ الۡقَوۡمِ الۡكٰفِرِيۡنَ۔(یونس:٨٥،٨٦)

   ” اے ہمارے رب ہمیں ظالم قوم کے لیے فتنہ نہ بنااور اپنی رحمت سے ہم کو کافروں سے نجات دے دے۔“

Comments

Post a Comment