The Apostolic Tenderness Of Holy Prophet And We



اللہ سبحان و تعالیٰ نے نوعِ انسانی کی ہدایت کے لئے بے شمار انبیاء کرام  مبعوث فرمائے لیکن یہ سب انبیاء کرام ؑ مخصوص زمانے میں مخصوص قوم کے لئے ربّانی کام کی خاطر مامور ہوتے تھے۔ بالآخر جب نوعِ انسانی پچپن کی حالت سے گذر کر سنِ بلوغ کو پہنچ گئی تو حضرت محمد ﷺْ کو وہ بڑا قانون یعنی القرآن دے کر بھیجا گیا جو کہ رہتی دُنیا تک نوعِ انسانی کی ہدایت کے لئے مکمّل کتاب ہے اور اس کتاب کی حفاظت کا ذمہ اللہ سبحان و تعالیٰ نے خود اپنے اوپر لے لیا ہے۔ حضرت محمد ﷺْ کو جب بالخصوص عرب کی سر زمین کی طرف مبعوث کیا گیا تو وہاںہر طرف گھٹا ٹوپ اندھیراچھایا ہوا تھا، صدیوں سے ریگستان میں آزادی کی زندگی بسر کرنے سے عرب قوم میں جہالت پھیل گئی تھی اور جہالت بھی ایسی کہ اُن کو آدمی بنانا کسی معمولی انسان کا کام نہیں تھا لیکن حضور ﷺْ نے القرآن کے ذریعہ سے ہی اس قوم کی کایا پلٹ ڈالی ۔ حضور ﷺْ نے ۲۳ سالہ کے مختصر زمانہ میں ایک ہمہ گیر اور ہمہ جہت انقلاب برپا کر دیا جو کہ تاریخ انسانی میں پہلا انقلاب دیکھنے کو مل رہا ہے چونکہ باقی انقلابات نے انسانی زندگی کے ایک مخصوص شعبہ میں اپنے نقوش چھوڑ دئیے۔ تاریخ انسانی میں جتنی عظیم شخصیات ہیں وہ اگر ایک پہلو سے بلندی پر فائز نظر آتے ہیں لیکن دوسری طرف ان کا کوئی مقام ہی نہیں۔ اس کے برعکس پوری انسانی تاریخ میں حضور ﷺْ ہی وہ واحد شخصیت ہیں جو زندگی کے ہر شعبہ میں انتہائی بلندی پر سِرَاجًا مُّنِیْرًاکی طرح نظرآتے ہیں۔ اس بات کا لوہا غیروں کو بھی منوانا پڑا جن میں سر فہرست ڈاکٹر مائکل ہارٹ ہیں جس نے اپنی مشہور و معروف کتاب ’’The Hundred‘‘میں اس چیز کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے:

“My choice of Muhammad to lead the list of the world's most influential persons may surprise some readers and may be questioned by others, but he was the only man in history who was supremely successful on both the religious and secular levels”

اگر چہ حضورﷺْ کی پوری زندگی میں ہمارے لئے اُسوہ حسنہ ہے۔جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے:

’’یقینًا تمہارے لئے اللہ کے رسول ﷺْ میں ایک نہایت اعلیٰ نمونہ ہے۔‘‘ (الاحزاب:۲۱)

لیکن آپ ﷺْ کی سیرتِ طیّبہ کا سب سے ابھرا ہوا پہلو داعیانہ تڑپ ہے، وہ یہ کہ آپ ﷺْ لوگوں کی ہدایت کے لئے مضطرب رہتے اور آپﷺْ لوگوں کو راہِ راست پر لانے کے لئے ہر لمحہ اور ہر آن بے قرار رہتے ۔ یہ اسی بے قراری کا نتیجہ ہے کہ آپ ﷺْ نے مکّے کے ایک ایک فرد کے دروازے پر پہنچ کر اسے قبول حق کی دعوت دی، قریش کے سرداروں کو خطاب کیا، مکے کے غریبوں اور غلاموں کو بھی دعوت دی، غرض آپ ﷺْ نے ہر دروازے کی کنڈی کھٹکٹائی، ہر ایک ضمیر کو دستک دی اور ایک ایک کان کو اپنی میٹھی میٹھی باتیں سنائیں۔ لیکن مشرکین مکّہ کی طرف سے ہر طرح کی مخالفت ہوئی، ہر طرح سے حوصلہ شکنی اور دل آزاری ہوئی ، روحانی اور جسمانی اذیتیں بھی پہنچائی گئیں لیکن آپﷺْ مایوس نہیں ہوئے، مایوس ہونا تو درکنار، آپ ﷺْ کی درد مندی اور بے قراری میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا گیا۔ یہ آپ ﷺْ کی بے قراری ہی کا نتیجہ تھا کہ جب مشرکین مکّہ نے دعوت حق کو قبول کرنے سے انکار کر دیاتو آپﷺْ کو دوسرے میدانوں کی جستجو ہوئی اور آپ ﷺْ کو ان کٹھن حالات میں دعوتِ دین کی خاطر طائف کا تاریخی سفربھی کرنا پڑا۔ اس سفر میں آپﷺْ کو بہت اذیتیں اٹھانی پڑیں، لونڈوں اور اوباشوں نے پتھراؤ کیا جس کی وجہ سے جسمِ اطہر لہو لہان ہو گیا لیکن اس کے باوجود بھی آپﷺْ کا عزم جوان رہا اور آپﷺْ کی بے قراری بڑھتی ہی گئی۔ آپ ﷺْ نے داعیانہ تڑپ میں رات دیکھی نہ دن، بیماری دیکھی نہ صحت بلکہ ہر لمحہ اور ہر آن اس کام کو جاری و ساری رکھا اور جہاں بھی موقعہ ملا اس سے

بھر پور فائدہ اٹھایا۔ 

روایتوں میں آتا ہے ، ایک بار آپ ﷺْ سخت بخار کی حالت میں تھے، جسمِ اطہر توے کی مانند جل رہا تھا، اسی حالت میں یہ خبر ملی کہ مکہ میں باہر سے کوئی قافلہ آیا ہوا ہے۔ آپﷺْ فورًا اٹھے اور اس قافلے سے ملاقات کے لئے چل دیے۔ حضرت خدیجہؓ گھبرا اٹھیں: ہائے آپﷺْ کو کتنا سخت بخارہے ! اس بخار میں آپ ﷺْ کہاں جا رہے ہیں؟ فرمایا: خدیجہ ! اگر قافلہ واپس چلا گیا اور میں اس تک رب کا پیغام نہ پہنچا سکا تو اپنے رب کو کیا منہ دکھاؤں گا؟ 

آپ ﷺْ کی یہ بے قراری جسمانی حد تک ہی محدود نہ تھی بلکہ جب قوم نے آپ ﷺْ کی بات قبول کرنے سے انکار کر دیا تو آپ ﷺْ اندر ہی اندر ان کے غم میں گھلنے لگے، جس پر اللہ سبحان و تعالیٰ نے آپﷺْ کو بار بار تسلی دی:

فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلٰی اٰثَارِ ھِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا (کہف:۶)

’’ایسا لگتا ہے تم ان کے پیچھے اپنی جان دے دو گے، اگر وہ اس کتاب پر ایمان نہیں لاتے۔‘‘

لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْ مِنِیْنَ (الشعراء:۳)

’’ایسا لگتا ہے تم اپنی جان دے دو گے ، اس بات پر کہ وہ ایمان نہیں لاتے۔‘‘

ایک طرف مسلسل اور انتھک محنت و جدو جہد تھی، دوسری طرف تمسخر، استہزاء ، دل آزاری، گالیاں اور پاغل و مجنون کے القاب تھے۔ آپ اندازہ کیجئے کہ آپﷺْ کے دل مبارک پر کیا گزر رہی ہوتی اور بَاخِعٌ نَّفْسَکَنے کتنے دلکش انداز میں اس کی عکاسی کی ہے۔ آپ ﷺْ کو صرف ایک دُھن ہے، ایک ہی شوق ہے، ایک ہی غم ہے اور ایک ہی سوز ہے کہ ایساکیسے ہو کہ یہ لوگ راہ راست پر آجائیں، اللہ کی آگ سے بچ پائیں اور دُنیا میں عدل و قسط کا نظام قائم کرنے کے لئے کوشاں ہو جائیں۔ اسی فکر نے آپ ﷺْ کی دن و رات کو ایک کر دیا تھا۔ آپ ﷺْ کو ایک طرف رب اور اسکے مخلوق کی محبت تھی، دوسری طرف جن سے محبت ہے وہ محبوبِ حقیقی سے دور چلے جا رہے ہیں اور آپﷺْ انہیں آگ کے گھڑوں میں گرنے سے بچا کر رب کے راستے پر لانے میں محوِ جستجو ہیں۔ آپﷺْ نے خود ہی اس کی عکاسی یوں فرمائی ہے:

’’میری مثال ایسی ہے کہ جیسے ایک شخص نے آگ جلائی اور جب سارا گرد و پیش روشن ہو گیا تو کیڑے اور پروانے آگ میں گرنے لگے۔ اب وہ شخص ہے کہ ان کو روک رہا ہے لیکن پتنگے ہیں کہ اس کی کوششوں پر غالب ہوتے چلے جا رہے ہیں اور آگ میں گرے پڑ رہے ہیں۔ اسی طرح میں تمہیں کمر سے پکڑ پکڑ کر آگ سے روک رہا ہوں اور تم ہو کہ آگ میں گرے

پڑ رہے ہو۔‘‘      (بخاری، مسلم)

ایک شاعر نے بھی حضور ﷺْ کی اس داعیانہ تڑپ کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے ؎

طائف میں مقدس خون ٹپکا، مکہ میں کبھی پتھر کھائے

بس ایک تڑپ تھی، کیسی تڑپ؟ انسان ہدایت پا جائے


مخلوق کی ہدایت کی خاطر ہم نے حضورﷺْ کی دن رات بے قراری کی حالت میں محنت اور دوڑ دھوپ دیکھی۔ آج ہم حبِ رسول اور عشقِ نبی ﷺْ کا خوب ڈنکا بجاتے ہیں ۔ ہمیں اپنے گر یبانوں مین جھانکنا چاہیے ۔ کیا ہمیں مخلوق کی محبت ہے؟ کیا لوگوں کی ہدایت کی خاطر ہمیں کبھی بے قراری محسوس ہوئی؟ کیا لوگوں کو گمراہی میں دیکھ کر ہما را دل کڑھتا اور سوز غم میں مبتلا ہوتا ہے؟ کیا ہم نے اپنے عزیزوں جن میں ہمارے ماں باپ، بھائی بہن ، بیوی بچے، رشتہ داراقربا، دوست و احباب، اپنے ساتھ پڑھنے اور کام کرنے والوں کو حق کی دعوت پہنچائی ہے؟ کیا ہمیں اپنے اولاد کی ہدایت کی اتنی فکر ہے جتنی کہ اسکے مستقبل کو شانداربنانے میں ہے؟ کیا ہمیں اشاعتِ حق کی اتنی فکر لاحق ہے جتنی کہ Careerبنانے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں ہے؟کیا ہمیں اللہ کا پیغام اللہ کے بندوں تک پہنچانے کی دُھن موجود ہے؟ کیا ہمیں بھٹکے ہوئے انسانوں کو جنت کے راستے پر لانے کی فکر لاحق ہے؟ کیا لوگوں کو نافرمانیوں میں دیکھ کر ہمیں یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ یہ آگ کے گھڑوں میں چھلانگ لگاتے ہیں؟ کیا قوم کی مجموعی حالت پر ہم نے کبھی غور خوض کرکے غارِ حرا کا سنت زندہ کیا ہے؟ کیا ہم حضورﷺْ کی اس عظیم سنت یعنی سنتِ دعوت کو زندہ کرنے میں بے قرارہیں؟ یقین جانئے کہ جب تک کسی نہ کسی درجہ میں حضورﷺْ کی داعیانہ تڑپ کا رنگ و نقش ہماری زندگی میں نہ اُترے گا اُس وقت تک ہم اس کام کو کرنے بلکہ اس کا نام لینے کے بھی اہل نہ ہونگے کہ جو کام نبی کریم ﷺْ نے کیا۔ آخر پر اللہ سبحان و تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ ہمیں ہدایت نصیب فرما کر ہمیں زیادہ سے زیادہ دینِ حق کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرما ئے۔ آمین


Comments

Post a Comment