’’اسی
بنا پر ہم نے اسرائیل کو یہ لکھ کر دے دیا کہ جو کوئی کسی کی جان لے ،بغیر اس کے
کہ اس نے کسی کی جان لی ہو یا زمین میں فساد کیا ہو، تو گویا اس نے تمام انسانوں
کا خون کیا۔۔۔۔۔‘‘ (المائدہ
:۲۳)
ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کی
صفات بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:’’وہ اس جان کو جسے اللہ نے محترم قرار دیا ہے بغیر
حق کے ہلاک نہیں کرتے اور نہ زنا کرتے ہیں، اور جو کوئی ایسا کرے گا وہ کیے کی سزا
پائے گا۔‘‘ (الفرقان:
۶۸)
احادیث میں بھی تاکید کی گئی ہے کہ بے گناہ کا
خون بہانا بد ترین گناہ ہے۔ انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: ’’بڑے
گناہوں میں سب سے بڑا گناہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا ہے اور قتلِ نفس اور والدین کی
نا فرمانی اور جھوٹ بولنا۔‘‘ حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے رسول اللہ ﷺْ نے فرمایا’’
جس نے کلمے کے ایک جز سے بھی مسلمان کے قتل میں مدد کی وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ
سے اس حال میں ملے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا’’اللہ کی رحمت
سے مایوس۔‘‘ (سنن ابن ماجہ :۲۷۱۸ )
سورۃ انعام آیت ۱۵۱ کا ایک ٹکڑا اس طرح ہے کہ وَلَا تَقْتُلُوْ االنَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِا لْحَقِّ ا س آیت کی تفسیر اور تشریح میں مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں:
’’یعنی
انسانی جان جو فی الاصل خدا کی طرف سے حرام ٹھہرائی گئی ہے ، ہلاک نہ کی جائے مگر
حق کے ساتھ ۔ اب رہا یہ سوال کہ ’’ حق کے ساتھ‘‘ کا کیا مفہوم ہے، تو اس کی تین
صورتیں قرآن میں بیان کی گئی ہیں اور دو صورتیں اس پر زائد نبی ﷺْ نے بیان فرمائی
ہیں۔ قرآن کی بیان کردہ صورتیں یہ ہے۔(۱) انسان کسی دوسرے انسان کے قتلِ عمد کا مجرم
ہو اور اس پر قصاص کا حق قائم ہو گیا ہو۔ (۲) دین حق کے قیام کی راہ میں مزاحم ہو اور اس
سے جنگ کیے بغیر چارہ نہ رہا ہو۔(۳) داراسلام
کے حد ود میں بدامنی پھیلائے یا اسلامی نظام حکومت کو الٹنے کی سعی کرے۔ باقی دو
صورتیں جو حدیث میں ارشاد ہوئی ہیں، یہ ہیں:(۴) شادی شدہ ہونے کے باوجود
زنا کرے۔(۵) ارتد
اد اور خروج از جماعت کا مرتکب ہو۔ ان
پانچ صورتوں کے سوا کسی صورت میں انسان کا قتل انسان کے لئے حلال نہیں ہے، خواہ وہ
مومن ہویا ذمی یا عام کافر۔‘‘ (تلخیص
تفہیم القرآن،ص۲۴۶)
اللہ
تعالیٰ کا ارشاد ہے۔’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارے لیے قتل کے مقدموں میں
قصاص کا حکم لکھ دیا گیا ہے۔ آزاد آدمی نے قتل کیا ہو تو اس آزاد ہی سے بدلہ
لیا جائے ، غلام قاتل ہو تو وہ غلام ہی قتل کیا جائے اور عورت اس جرم کی مرتکب ہو
تو اس عورت ہی سے قصاص لیا جائے۔ ہاں اگر کسی قاتل کے ساتھ اس کا بھائی کچھ نرمی
کرنے کے لئے تیار ہو تو معروف طریقے کے مطابق خون بہا کا تصفیہ ہونا چاہیے اور
قاتل کو لازم ہے کہ راستی کے ساتھ خوں بہا ادا کرے۔ یہ تمہارے رب کی طرف سے تخفیف
اور رحمت ہے۔ اس پر بھی جو زیادتی کرے، اس کے لئے درد ناک سزا ہے۔‘‘ (البقرہ:
۱۷۸)
یہاں
ایک بات قابل غور ہے کہ مذکورہ آیت یَا اَیُّھَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ کُتِبَ عَلَیْکُمْ سے
شروع ہوتی ہے اور اسی طرح صیام والی آیت میں بھی یہی الفاظ آئے ہیں اور خطاب بھی
ایمان لانے والوں سے ہو رہا ہے حالانکہ اُمّتِ مسلمہ کی اکثریت ماہ صیام میں روزے
پابندی سے رکھتے ہیں لیکن قصاص کی طرف د ھیان ہی نہیں دیتے۔ یہ قصاص والی آیت کے
ساتھ انتہائی ظلم ہے۔ مذکورہ آیت کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’عقل و خِرد
رکھنے والو، تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے۔ اُمید ہے کہ اس قانون کی خلاف ورزی سے
پرہیز کرو گے۔‘‘
مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں:
’’یہ
ایک دوسری جاہلیت کی تردید ہے، جو پہلے بھی بہت سے دماغوں میں موجود تھی اور آج
بھی بکثرت پائی جاتی ہے۔ جس طرح اہل جاہلیت کا ایک گروہ انتقام کے پہلو میں افراط
کی طرف چلا گیا ، اسی طرح ایک دوسرا گروہ عفو کے پہلو میں تفریط کی طرف گیا ہے،
اور اس نے سزائے موت کے خلاف اتنی تبلیغ کی ہے کہ بہت سے لوگ اس کو ایک نفرت انگیز
چیز سمجھنے لگے ہیں اور دُنیا کے متعدد ملکوں نے اسے بالکل منسوخ کر دیا ہے قرآن
اسی پر اہل عقل کو مخاطب کرکے تنبیہ کرتا ہے کہ قصاص میں سوسائٹی کی زندگی ہے۔
جوسو سائیٹی انسانی جان کا احترام نہ کرنے والوں کی جان محترم ٹھیراتی ہے، وہ
دراصل اپنی آستین میں سانپ پالتی ہے۔ تم ایک قاتل کی جان بچا کر بہت سے بے گناہ
انسانوں کی جانیں خطرے میں ڈالتے ہو۔‘‘ (تلخیص تفہیم القرآن ،ص۶۱)
بات کو مزید تقویت دلانے کے لئے حضرت انس بن مالک ؓ کی
روایت ملاحظہ ہو:
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ قبیلہ عُرینہ کے کچھ
لوگ رسول اللہ ﷺْ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مسلمان ہو کر مدینہ میں رہنے لگے، مگر
وہاں کی آب و ہوا انہیں مواقف نہ آئی اور وہ بیمار پڑ گئے۔ ایک روایت کے مطابق
ان کے رنگ زرد پڑ گئے اور پیٹ بڑھ گئے تھے۔ آنحضرت ﷺْ نے ان سے فرمایا’’اگر تم
ہمارے اونٹوں میں جاکر رہو اور ان کے دودھ اور دوا کے طور پر اُن کے پیشاب پیو تو
تمہاری صحت درست ہو جائے۔‘‘چنانچہ وہ مدینہ سے باہر اونٹوں کی چرا گاہوں میں پہنچے
اور جب آرام ہو گیا تو رسول اللہ ؐکے چرواہوں کو قتل کرکے اونٹوں کو ہانگ کر لے
گئے اور اسلام سے پھر گئے۔
ان
کی اس حرکت کی جب آپ ﷺْ کو خبر ہوئی تو آپؐ نے لوگوں کو بھیج کر انہیں پکڑوایا ،
اُن کے ہاتھ پائوں کٹوائے، ان کی آنکھیں نکلوائیں اور انہیں دھوپ میں چھوڑ دیا
یہاں تک کہ وہ مر گئے۔
(ابن ماجہ، جلد ثانی، باب ’’من
حارب و سعی فی الارض فسادًا)
صحیح بخاری میں بھی مختلف طریقوں سے اسی مضمون کی روایتیں درج ہیں۔ صحیح مسلم میں حضرت انسؓ کے حوالے سے آنکھیں اندھی کرانے کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ انہوں نے آنحضرت ؐ کے چرواہوں کی آنکھیں سلائی پھیر کر پھوڑ دی تھیں اس لئے آپؐ نے اُن سے آنکھوں کا قصاص لیا۔ ابودوٗد اور نسائی میں ابو الزناد کے واسطہ سے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کی یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ یہ آیت انہیں عُرینوں کے باب میں نازل ہوئی تھی اور حضرت ابوہریرہؓ کا بھی یہی بیان ہے۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے مولانا مودودیؒ کی پہلی باقاعدہ تصنیف ’’الجہا دنی الاسلام‘‘ ص /۲۸۔۲۷۔‘‘
انسانی
جان کی حرمت کے پیش نظر ہی اسلام نے اس سے نقصان پہنچانے والوں کے لیے قصاص کی سخت
سزا مقرر کر رکھی ہے۔ جب سے دُنیا نے قتلِ عمد کے جرم میں سزائے موت کو ختم کر دیا
ہے، جس جس ملک میں بھی مبنی بر انصاف اس سزا کو ختم کیا گیا وہاں نا حق قتل کی
وارداتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم ممالک اپنے اپنے
ملکوں میں اسلامی قانون کا نفاذ عمل میں لا کر دُنیا کو دکھائے کہ حقیقی معنوں میں
انسانی جان کا تحفظ کیسے کیا جانا چاہیے۔
Jazakallah sir
ReplyDeleteReally great may allaha accept ur effort and give u the best reward
ReplyDeleteJazakAllah...
ReplyDeleteJazakallah
ReplyDelete#GooDeffort Love u siR g❤❤❤
ReplyDeleteAlhamdulilah
ReplyDeleteMashaallah
ReplyDeleteMashaallah
ReplyDeleteJazakallah
ReplyDelete