Introduction About Quran



 عظمتِ قرآن 

               اللہ تعالیٰ کا اپنے کلام اور قرآن کریم کو پہلے لوح محفوظ میں رکھنا ۔ پھر لوح محفوظ سے بیت العزۃ کی طرف نازل فرمانا اور پھر جبرئیل امین کے ذریعہ رسول کریم پر اتارنا ، قرآن کریم کی عظمت و بر تری کی وجہ سے ہے ، تاکہ آسمانوں میں رہنے والے فرشتے جان لیں کہ اللہ کا یہ کلام خاتمہ الانبیاء اور افضل المرسلین پر نازل کیا جارہا ہے ، اور زمین پر بسنے والی مخلوق جن و انس بھی عظمت قرآن کا مشاہدہ کر لے ، کیونکہ کوئی اہم اور ضروری چیز ہی باربار مختلف دستاویزوں اور دفاتر میں منتقل کی جاتی ہے اور متعدددفاتر میں اس کو سربمہر کرنے کے بعد جاری کیا جاتا ہے۔ شاہی فرامین میں جو اہم ترین فرمان ہوتے ہیں ان کا نفاذ بیک وقت اچانک نہیں ہوتا بلکہ اسی طرح بتدریج اور متعدد دفتروں میں اسکو بھیجنے اور سر بمہر کر نے کے بعد جاری کئے جاتے ہیں ۔

                                                                                     ( عظمت ِ قرآن کریم ، از ڈاکٹر حافظ محمد یونس ، ص ۲۵ ۔ ۲۶)

  قُرآن عالمگیر اور ابدی ہدایت ہے

     ۱۔     رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر     ہد ا یت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے، جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کافرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔             ( سورۃ  بقرۃ :  ۱۸۵)

   ۲۔یہ ایک کتاب ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے۔ بڑی خیر و برکت والی ہے ۔ اُس چیز کی تصدیق کرتی ہے جو اس سے پہلے آئی تھی اور اس لئے نازل کی گئی ہے کہ اس کے ذریعہ سے تم بستیوں کے اِس مرکز   ( یعنی مکہّ ) اور اس کے اطراف میں رہنے والوں کو متنبہ کرو۔ جو لوگ آخرت کو مانتے ہیں وہ اِس کتاب پر ایمان لاتے ہیں اور ان کا حال یہ ہے کہ اپنی نمازوں  کی پابندی کرتے ہیں۔                       ( سورۃ الانعام :  ۹۲)

۳۔حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی  ہے ۔ جو لوگ اسے مان کر بھلے کام کرنے لگیں انہیں یہ بشارت دیتا ہے کہ ان کے لئے بڑا اجر ہے ۔                         ( سورۃ بنی اسرائیل:  ۹)

۴۔یہ ایک پیغام ہے سب انسانوں کے لئے اور یہ بھیجا گیا ہے اس لئے کہ اُن کو اس کے ذریعہ سے خبردار کردیا جائے اور وہ جان لیں کہ حقیقت میں خدا بس ایک ہی ہے اور جو عقل رکھتے ہیں وہ ہوش میں آجائیں۔

                                                                                                                               ( سورۃ ابراھیم: ۵۲)

۵۔لوگو تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آگئی ہے ۔ یہ وہ چیز ہے جودلوں  کے امراض کی شفا ہے اور جو اسے قبول کر لیں ان کے لئے رہنمائی اور رحمت ہے۔ اے نبی ؐ کہوکہ یہ اللہ کا فضل اور اس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اس نے بھیجی، اس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے ، یہ اُن سب چیزوں سے بہتر ہے جنہیں لوگ سمیٹ رہے ہیں۔           ( سورۃ یونس :۵۸)

قُرآن کا اصل مقصد

۱۔  ا،ل،م، ص ۔ یہ ایک کتاب ہے جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے ، پس اے نبیؐ، تمہارے دل میں اس سے کوئی جھجک نہ ہو اُس کے اتارنے کی غرض یہ ہے کہ تم اس کے ذریعہ سے ( منکرین کو ) ڈراؤ اور ایمان لانے والے لوگوں کو نصیحت ہو۔     ( سورۃ اعراف: ۱ ۔ ۲)

۲۔ا ۔ ل۔ ر ۔ اے نبی ؐ ، یہ کتاب ہے جس کو ہم نے تمہاری طرف نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوںکو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاؤ، ان کے رب کی توفیق سے ، اس خدا کے راستے پر جو زبر دست اور اپنی ذات میں آپ محمودہے ۔

                                                                                                                                                              (سورۃابراہیم : ۱)

۳۔کیا اِن لوگوں نے قرآن پر غور نہیں کیا ، یاد لوں پر اُن کے قُفل ( تالے) چڑھے ہوئے ہیں ۔       ( سورۃ محمد : ۲۴)

قُرآن کا موضوع ، مرکزی مضمون اور مُدّعا

            قرآن کا موضوع انسان ہے اس اعتبار سے کہ بلحاظ حقیقت ِ نفس الامری اُس کی فلاح اور خسران کس چیز میں ہے۔

  قرآن کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ ظاہر بینی یا قیاس آرائی یا خواہش کی غلامی کے سبب سے انسان نے خدا اور نظامِ کائنات اور اپنی ہستی اور اپنی دنیوی زندگی کے متعلق جو نظریات قائم کیے ہیں اور اُن نظریات کی بنا پر جو روییّ اختیار کر لیے ہیں وہ سب حقیقتِ نفس الامری کے لحاظ سے غلط اور نتیجے کے اعتبار سے خود انسان ہی کے لئے تباہ کُن ہیں ۔ حقیقت وہ ہے جو انسان کو خلیفہ بناتے وقت خدا نے خودبتا دی تھی۔اور اس حقیقت کے لحاظ سے انسان کے لئے وہی رویّہ درست اور خوش انجام ہے جو خدا کو اپنا واحد حاکم اور معبود تسلیم کر کے اس دنیا میں اس کی ہدایت کے مطابق اپنی پوری زندگی کو گذارا جائے۔

            قرآن کا مُدّعا انسان کو اُس صحیح رویّہ کی طرف دعوت دینا اور اللہ کی اُس ہدایت کو واضح طور پر پیش کرنا ہے جسے انسان اپنی غفلت سے گُم اور شرارت سے مسخ کرتا رہا ہے۔            ( مقدمہ تفہیمُ القرآن، جلد اول، ص ۲۰۔۱۹)

قُرآن مجید ہی فتنوں سے نجات دِلانے کا ذریعہ ہے        

حضرت علیؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں خبردار میں نے رسول اللہ ﷺ سے سُنا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’آگاہ ہوجاؤ ایک بڑا فتنہ آنے والا ہے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اس فتنہ سے نجات پانے کا ذریعہ کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:’ اللہ کی کتاب،اس میں تم سے پہلی اُمتوں کے ( سبق آموز) واقعات ہیں اور تمہارے بعدکی اطلاعات( یعنی اعمال و اخلاق کے مستقبل میں ظاہر ہونے والے دنیوی و اخروی نتائج) بھی ہیں اور تمہارے درمیان جو مسائل پیدا ہوں گے ان کا حکم اور فیصلہ ( عادلانہ حل) موجود ہے، وہ فیصلہ کُن کلام ہے ( یعنی دنیا اور آخرت میں فیصلے اس کی بنیاد پر ہوں گے ) اور وہ فضول بات نہیں ہے، جو سر کشی کی وجہ سے اس کو چھوڑے گا اللہ تعالیٰ اس کو توڑ کے رکھ دے گا اور جو کوئی قرآن کے بغیر ہدایت تلاش کرے گا اللہ اس کو گمراہ کردے گا ( یعنی وہ ہدایتِ حق سے محروم رہے گا ) ۔ قرآن ہی اللہ کی مضبوطی رسّی ( یعنی اللہ سے تعلق کا مضبوط وسیلہ) ہے اور حکمت بھرا ذکر ہے اور وہی صراطِ مستقیم ہے ، وہی حق مبین ہے جس کے اتباع سے خیالات کجی سے محفوظ رہتے ہیں اور زبانیں اس میں تحریف نہیں کرسکتیں ( یعنی جس طرح پچھلی کتابوں کو محرّفین نے کچھ کا کچھ پڑھ کر ان کو تبدیل کر دیا ، اس طرح قرآن میں کوئی تحریف نہیںہو سکے گی) اور علم والے کبھی اس کے علم سے سیر نہیں ہوں گے ( یعنی قرآن میں تدبر کا عمل اور حقائق و معارف کی تلاش کا سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ جاری رہے گا اور کبھی ایسا وقت نہیں آئے گا کہ قرآن کا علم حاصل کرنے والے محسوس کریں کہ ہم نے علمِ قرآن پر پورا عبور حاصل کر لیا ہے بلکہ ان کے علم کی طلب اور بڑھتی جائے گی) اور وہ (قرآن) کثرتِ تلاوت سے کبھی پُرانا نہیں ہوگا (یعنی جس طرح دنیا کی دوسری کتابوں کا حال ہے کہ بار بار پڑھنے کے بعد ان کے پڑھنے میں آدمی کو لُطف نہیں آتا قرآن مجید کا معاملہ بالکل برعکس ہے یہ جتنا پڑھا جائے گا اور جتنا اس میں تدبرو تفکر کیا جائے گا اتنا ہی اس کے لطف و لذت میں اضافہ ہوگا ) اور اس کے عجائب( یعنی دقیق و لطیف حقائق اورحکمت و معرفت کے نئے نئے پہلو)کبھی ختم نہیں ہوں گے ۔قرآن کی یہ شان ہے کہ جب جنّا ت نے اس کو سنا تو بے اختیاربول اٹھے:

’’ ہم نے دل کو متاثر کرنے والا قرآن سنا ہے جو رہنمائی کرتا ہے بھلائی کی طرف ، پس ہم اس پر ایمان لے آئے۔ ‘‘

            جس نے قرآن کے مطابق بات کہی اس نے سچی بات کہی اور جس نے قرآن پر عمل کیا وہ اجر و ثواب کا مستحق ہوا اور جس نے قرآن کے موافق فیصلہ کیا اس نے عدل و انصاف کیا اور جس نے قرآن کی طرف دعوت دی اس کو صراطِ مستقیم کی ہدایت نصیب ہوگئی۔ ‘‘         ( مطالعہ حدیث ، حدیث نمبر ۹ ، ص ۷۱۔۷۰)

قُرآن قُربِ الہٰی کا سب سے بہترین ذریعہ

 حضرت ابو ذر غفاری ؓسے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا :

    ’’ تم لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع اور اس کے یہاں تقرّب اس چیز سے بڑھ کر کسی اور چیز سے حاصل نہیں کر سکتے جو خود اُسی ( اللہ تعالیٰ) سے نکلی ہے ، یعنی قرآن مجید۔‘‘

            درحقیقت قرآن چونکہ اللہ کا کلام ہے اور کلام متکلّم کی صفت ہوتا ہے ، تو اس سے بڑھ کر قریب ہونے کا کوئی اور ذریعہ ہو ہی نہیں سکتا ۔ چنانچہ جب کوئی شخص قرآن پڑھتا ہے تو گویا وہ اللہ سے ہم کلام ہوتا ہے ۔

                                                                                                                                                  ( بیان القرآن جلد اول ص ۹۳)

            بندوں کو اپنے رب سے  جوڑنے والی سب سے مؤثر چیز قرآن پاک ہے، اﷲ کی کتاب جس کو خود اﷲ نے حبل اﷲ یعنی  اﷲ کی رسی فرمایا ہے، اور اسے مضبوطی سے تھامے رہنے کا حکم دیا ہے :وَاعْتَصِمُوْ بِحَبْلِ اﷲِ جَمِیْعًا وَّلاَ تَفَرَّقُوْا ۔

            ترجمہ:۔’’تم سب مل کر مضبوطی سے اﷲ کی رسی کو  تھامے رہو ۔ انتشا رکا شکار نہ ہو جاؤ۔‘‘

اس رسی سے بڑھ کر کوئی ایسی رسی نہیں جو بندے کو اپنے رب سے قریب کر سکے۔  فروہ بن نوفل اشجعی سے ایک روایت آتی ہے، وہ فرماتے ہیں :

’’ میں حضرت خباب بن ارت کا پڑوسی تھا ۔ ایک بار ہم مسجد سے ساتھ ہی نکلے، انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ لیا ، اور فرمایا :

   عزیز من، تم اﷲ تعالیٰ سے قریب ہونے کے لئے کچھ بھی کر ڈالو ، تم اس کا قرب حاصل کرنے کے لئے کوئی ایسی چیز نہیں پا سکتے جو اس کے کلام سے زیادہ اس سے محبوب ہو ۔

            حقیقت یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے کتابُ اﷲ سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔

                                                                                               ( اصلاح و تربیت کے رہنما اصول ، از محمد عنایتُ اﷲ اسدسبحانی ،ص ۴۶ )

 قُرآن مجید انسانیت کے لئے سب سے بڑا تحفہ ہے

            خالق کائنات نے انسانیت کو جو سب سے بڑا تحفہ اور سب سے عظیم عطیّہ عطا فرمایا وہ قرآن مجید ہے ۔ انسانیت کو یہ عظیم ترین عطیّہ خدا وندی عطا اس وقت ہوا ، جب ساری کائنات پر جہالت اور تاریکی کے بادل چھائے ہوئے تھے اور جس طرح مُردہ زمین اپنی زندگی کے لئے بارش کی بھیک مانگتی ہے، اسی طرح مُردہ و تباہ حال انسانیت ایک حیات بخش نظام کے لئے نہایت بے قراری کے ساتھ آسمانوں کی طرف نگاہیں اُٹھا اُٹھا کر دیکھ رہی تھی ۔ انسانیت کا سب سے بڑا ہمدرد اور شفیق ترین انسان غارِ حرا کی خلوتوںمیں اس بات پر غور و فکر کرتا رہتا تھا کہ بد اخلاقیوں اور ہوسناکیوں کے گرد اب میں پھنسی ہوئی انسانیت کو کیونکراس کے اصل مقام و مرتبہ سے آشنا کیا جائے ۔ یہ غمخوارِ ملّت و مونسِ انسانیت ایک دن حرا میں اسی فکر میں مستغرق تھے کہ یکایک یہ آواز گونجی:۔  

                     اِقْرَأْ باِسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ

            یہ ایک نئے پیغام ، نئی تہذیب ، نئے تمدّن ،ایک حیات بخش نظام یعنی خدا کے کلام قرآن مجید کے نزول کا آغاز تھا ۔ جو سینہ مہبطِ وحی بنا ، وہ انسانیت کے اسی سب سے بڑے ہمدرد اور مونس و غمخوار کا سینہ تھا ، قرآن مجید نے جنہیں رحمتہ للعا لمینؐ کا لقب عطا فرمایا۔

            قرآن مجید کی تلاوت اور معانی و مفا ہیم کے سمجھنے سمجھانے کے لئے تدبّر و تفکّرافضل ترین عبادت ہے بلکہ دین و عبادت کی تمام تر عمارت قرآن مجید ہی کی اساس پر استوار ہے۔ قرآن مجید میں احکام بھی ہیں شرائع بھی، امثال بھی ہیں اور مواعظ و تاریخ بھی ۔ نہ امورِ دین سے متعلق کوئی ایسی چیز ہے جس کی قرآن مجید میں توضیح و تبیین نہ کر دی گئی ہو اور نہ نظامِ کائنات سے متعلق کوئی بات ہے جس کی قرآن حکیم میں وضاحت و صراحت نہ کر دی گئی ہو۔       ( قرآن کے فنّی محاسِن ،ازپروفیسر سیّد قطب شہید،ؒ  ص ۶۔۷)

قُرآن تو خیر کا سر چشمہ ہے

            قرآن تو خیر کا سر چشمہ ہے ۔ جتنی اور جیسی خیر تم اس سے مانگو گے یہ تمہیں دے گا ۔ تم اس سے محض جن بھوت بھگانا اور کھانسی بخار کا علاج اور مقدمہ کی کامیابی اور نوکری کا حصول اور ایسی ہی چھوٹی ذلیل و بے حقیقت چیزیں مانگتے ہو تو یہی تمہیں ملیں گی ۔ اگر دنیا کی بادشاہی اور روئے زمین کی حکومت مانگو گے تو وہ بھی ملے گی اوراگر عرش الٰہی کے قریب پہنچنا چا ہو گے تو یہ تمہیں وہاں بھی پہنچا دے گا ۔ یہ تمہارے اپنے ظرف کی بات ہے کہ سمندر سے پانی کی دوبوند یں مانگتے ہو ، ورنہ سمندر تو دریا بخشنے کے لئے بھی تیار ہے۔

                                                                                                                           (خطبات اول، از سید ابو اعلیٰ مودودیؒؒ ،ص ۱۹)

 

قُرآن میں جتنی طاقت ہے یہ طاقت کسی اور چیز میں نہیں

            قرآن میں جتنی طاقت ہے، زندگیوں کو بدل دینے کی، لوگوں میں حبِّ الٰہی کی بجلیاں دوڑادینے کی، سوئے ہوئے انسانوں کو جگا دینے اور جوش عمل سے سرشار کر دینے کی، قلب و روح کی خطرناک بیماریوں کو دور کر دینے اور انہیں صحت مند بنا دینے کی ، یہ طاقت کسی اور چیز میں نہیں ۔ یہی کتاب ہے جو ایک مومن کے اندر ایک ایک حکم الٰہی کو بجا لانے کا شوق و جذبہ پیدا کرتی ہے۔ طاعت الٰہی کا ایسا جنون پیدا کر دیتی ہے کہ پھر وہ  اس چکر میں پڑتا ہی نہیں ، کہ کیا فرض ہے اور کیا نفل؟ وہ تو بس یہ دیکھتا ہے کہ یہ کام اس کے رب کو پسند ہے، لہذا اسے کرنا ہے اور حبی جان سے کرنا ہے، حتّٰی کہ اگر اس کے لئے جان سے کھیلنا پڑے تو اس سے بھی پیچھے نہیں ہٹنا ہے ۔

  کتاب الٰہیکی ایک ایک آیت اس کے دامنِ دل کو کھینچتی اور اس کے ایمان کی لو تیز کر دیتی ہے ۔ ایک ایک آیت میں اسے عظمت الٰہی کے جلوے نظر آتے ہیں، جو اسے خشوع و خضوع کی کیفیات سے سرشار کر دیتے ہیں اور روتے روتے اس کی آستینیں تر ہو جاتی ہیں ۔

            یہ وہ آنسو ہوتے ہیں، جو اﷲ تعالیٰ کو بہت پسند ہوتے ہیں، یہ آنسو بندے کو اپنے رب سے بہت قریب کر دیتے ہیں ۔ اتنا قریب کر دیتے ہیں کہ پھر وہ خالص اپنے رب کا ہو کر رہ جاتا ہے اور اس کے دین کی سربلندی کے لئے سراپا جدو جہد بن جاتا ہے ۔

            یہ وہ انسان ہوتا ہے جس کا فرشتے ہر موڑ پر استقبال کرتے ہیں اور شیطان دور سے ہی اسے دیکھ کر اپنا راستہ تبدیل کر دیتا ہے ۔

            رسول پاکؐ کی تحریک دعوت ایسے ہی افراد پر مشتمل تھی۔ یہ اپنے رب کے مقرب  ترین بندے تھے۔ لہذا رب کی نصرتیں ان کے ساتھ رہیں اور وہ اس زمین پر اسلامی نظام قائم کرنے میں صدفی صد کامیاب رہے ۔

                                                                                     ( اصلاح و تربیت کے رہنما اصول ،از محمد عنایت اﷲ اسد سبحانی،  ص ۴۷ ۔ ۴۸  )

قرآن دنیا کی واحد کتاب ہے جس نے نوعِ انسانی کے افکار، اخلاق تہذیب اور طرز زندگی  پر اتنی وسعت ، اتنی گہرائی اور اتنی ہمہ گیری کے ساتھ اثر ڈالا ہے کہ دنیا میں  اس کی کوئی  نظیر نہیں ملتی ہے ۔ پہلے اس کی تاثیر نے ایک قوم کو بدلا  اور پھر اس قوم نے اٹھ کر دنیا کے ایک بہت بڑے حصے کو بدل ڈالا ۔ کوئی دوسری کتاب ایسی نہیں ہے  جو اس قدر انقلاب انگیز ثابت ہوئی ہو۔ پھر یہ کتاب صرف کاغذ کے صفات پر لکھی نہیں رہ گئی ہے۔ بلکہ عمل کی  دنیا میں  اس کے ایک ایک لفظ میں خیالات کی تشکیل اور ایک مستقل تہذیب کی تعمیر کی ہے ۔(۱۴) سو برس سے اس کے ان اثرات کا سلسلہ جاری ہے،اور روز بہ روز اس کے یہ اثرات پھیلتے جا رہے ہیں ۔

                                                                                                                     ( تفہیم الاحادیث، از سید مودودی ؒ  ، جلد ہشتم ، ص ۱۵ )

  ’’قرآن نے اس اُمت کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی بھی صورت گری کی ہے ، اور اسے باقی انسانیت کے لئے خیر و صلاح کا علَم بردار بنایا ہے ۔ یہی وہ چیز تھی جس نے چھٹی صدی عیسوی کی ظلم اور تاریکی سے بھری ہوئی دنیا کو تاریخ کے ایک نئے دور سے روشناس کرایا ۔ جس نے عرب کے اُونٹ چرانے والوں کو انسانیت کا حدی خواں بنایا ۔ جس نے ریگستان کے بدوؤں کو تہذیب و تمدن کا معمار بنا دیا ۔ جس نے مفلسوں اور فاقہ کشوں میں سے وہ لوگ اُٹھائے،  جو انسانیت کے رہبر بنے۔ جس نے وہ نظام قائم کیا ، جس نے طاغوت کی ہر قوت سے ٹکر لی اور اسے مغلوب کر ڈالا‘‘                            ( پروفیسر خورشیداحمد )

قُرآن شاہِ کلید

            ’’ جاہلیت کے زمانے میں میں نے بہت کچھ پڑھا ہے ۔ قدیم و جدید  فلسفہ، سائنس، معاشیات، سیاسیات وغیرہ پر اچھی خاصی ایک لائبریری دماغ میں اتار چکا ہوں  مگر جب آنکھ کھول کر قرآن پڑھا تو بخدا یوں محسوس ہوا کہ جو کچھ  پڑھا تھا سب  ہیچ تھا ، علم کی جڑ اب ہاتھ آئی ہے۔ کانٹ، ہیگل ، نٹشے ، مارکس اور دنیا کے تمام بڑے بڑے مفکرین اب مجھے بچے نظر آتے ہیں۔ بے چاروں پر  ترس آتا ہے کہ ساری عمر جن گتھیوں کو سلجھانے میں  الجھے رہے اور جن مسائل پر بڑی بڑی کتابیں تصنیف کر ڈالیں پھر بھی حل نہ کر سکے۔ اُن کو اس کتاب نے ایک ایک دو دو فقروں میں حل کرکے  رکھ دیا ہے ۔ میری اصل محسن بس یہی کتاب ہے ۔ اس نے مجھے بدل کر رکھ دیا ہے ۔ حیوان سے انسان بنا دیا ۔ تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئی ۔  ایسا چراغ میرے ہاتھ میں  دے دیا کہ زندگی کے جس معاملے  کی طرف نظر ڈالتا ہوں حقیقت اس طرح برملا دکھائی دیتی ہے کہ گویا اس پر پردہ نہیں ہے۔ انگریزی میں اس کنجی کو شاہِ کلید (Master Key)  کہتے ہیں جس سے ہر قفل(تالا) کھل جائے سو میرے لئے یہ  قرآن ’’ شاہ ِکلید‘‘ ہے۔  مسائل حیات کے جس قفل پر اسے لگاتا ہوں کُھل جاتا ہے۔ جس خدا نے یہ کتاب بخشی ہے اُس کا شکر ادا کرنے سے میری زبان عاجز ہے۔         (  سید مودودی ؒ  )

شیخ الہند محمود الحسن صاحبؒ  کا نسخہ کیمیا

            میں نے جہان تک جیل کی تنہائیوں میں اس پر غور کیا ہے کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی اور دنیوی ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہورہے ہیں تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے ۔ ایک ان کا قرآن چھوڑ دینا ، دوسرے ان کے آپس کے اختلافات اور خانہ جنگی، اس لئے میں وہیں سے یہ عزم لے کر آیا ہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کام میں صرف کروں کہ قرآن کریم کو لفظاََ اور معناََ عام کیا جائے، بچوں کے لئے لفظی تعلیم کے مکاتب ہر بستی میں قائم کئے جائیں، بڑوں کو عوامی درسِ قرآن کی صورت میں اس کے معانی سے روشناس کرایا جائے اور قرآنی تعلیمات پر عمل کے لئے آمادہ کیا جائے ، اور مسلمانوں کے باہمی جنگ و جدال کو کسی قیمت پر برداشت نہ کیا جائے۔                 ( قرآن مجید سمجھ کر پڑھیں، از عتیق الرحمٰن اصلاحی، ص ۱۱)

حضرت عبداللہ بن مبارکؒ کا طرزِ عمل

            حضرت عبداللہ بن مبارک ؒ تبع تابعین کے دَور کی شخصیت ہیں ۔ انہوں نے اپنا معمول بنالیا تھا کہ سال میں چھ مہینے سرحدوں پر جہاد میں شریک ہوتے ۔ اُس دَور میں دارالاسلام کی سرحدیں بڑھ رہی تھیں اور اس کے لئے جہادجاری تھا ۔ جب کہ چھ مہینے آپؒ  گھر پر گذارتے اور اِس عرصے میں لوگوں سے ملنے جلنے سے حتی الا مکان گریز کرتے ۔ صرف نماز با جماعت کے لئے مسجد میں آتے ، باقی وقت گھر پر ہی رہتے۔ کسی نے کہا کہ عبداللہ! آپ تنہائی پسند ہو گئے ہیں ، تنہائی سے آپ کی طبیعت اکتاتی نہیں ؟ انہوں نے فرمایا : ’’ کیا تم اُس شخص کو تنہا سمجھتے ہو جو اللہ سے ہم کلام ہوتا ہے اور رسول اللہﷺ کی صحبت سے فیض یاب ہوتا ہے۔ ؟‘‘لوگ حیران ہوئے کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں ۔ جب اس کی وضاحت طلب کی گئی تو فرمایا کہ دیکھو جب میں اکیلا ہوتا ہوں تو قرآن پڑھتا ہوں یا حدیث پڑھتا ہوں ۔ جب قرآن پرھتا ہوں تو اللہ سے ہم کلام ہوتا ہوں اور جب حدیث پڑھتا ہوں تو رسول اللہ ﷺ کی صحبت سے فیض یاب ہوتا ہوں ۔                        (  بیان القرآن، جلد اول،  ص  ۹۳)

فہمِ قُرآن کے لئے جذبہ انقلا ب کی ضرورت از ڈاکٹر اِسرار احمدؒ

       فہم قرآن کے لیے بنیادی اصول اور بنیادی ہدایات یا اشارات کے ضمن میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے یہ بات بڑی  خوبصورتی سے تفہیم القرآن کے مقدمے میں کہی ہے کہ قرآن محض نظریات اور خیالات کی کتاب نہیں ہے کہ آپ کسی ڈرائنگ روم میں یا کتب خانے میں آرام کرسی پر بیٹھ کر اسے پڑھیں اور اس کی ساری باتیں سمجھ جائیں۔  کوئی محقّق یا ریسرچ سکالر ڈکشنریوں اور تفسیروں کی مدد سے اسے سمجھنا چاہے تو نہیں سمجھ سکے گا ۔ اس لیے کہ یہ ایک دعوت اور تحریک کی کتاب ہے۔ مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں ۔    ’’ ۔۔۔۔۔ اب بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ سِرے سے نزاعِ کفر و دین اور معرکہ اسلام و    جا ہلیت کے میدان میں قدم ہی نہ رکھیں اور اس کشمکش کی کسی منزل سے گذرنے کا آپ کو اتفاق ہی نہ ہوا ہو اور پھر محض قرآن کے الفاظ پڑھ پڑھ کر اس کی ساری حقیقتیں آپ کے سامنے بے نقاب ہوجائیں ! اسے تو پوری طرح آپ اُسی وقت سمجھ سکتے ہیں جب اسے لے کر اٹھیں اور دعوت الی اللہ کا کام شروع کریں اور جس جس طرح یہ کتاب ہدایت دیتی جائے اُسی طرح قدم اُٹھاتے چلے جائیں ۔ تب وہ سارے تجربات آپ کو پیش آئیں گے جو نزولِ قرآن کے وقت پیش آئے تھے ۔ مکّہ اور حبش اور طائف کی منزلیں بھی آپ دیکھیں گے اور بدر ، اُحد سے لے کرحُنین اور تبوک تک کے مراحل بھی آپ کے سامنے آئیں گے۔ ابو جہل اور ابو لہب سے بھی آپ کو واسطہ پڑے گا ۔ منافقین اور یہود بھی آپ کو ملیں گے ۔‘‘

                                                                                                                                            ( بیان القرآن ،جلد اول ،ص ۷۲)

فہمِ قرآن کی دُعا

            نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’ جو بندہ بھی اپنے کِسی فِکر و غم میں یہ دُعا پڑھے گا ۔ خدا اُس کے فِکر و غم کو دُور فرما کر خوشی و مسرت سے نوازے گا ۔‘‘

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ عَبْدُکَ ، اِبْنُ عَبْدِکََ ، اِبْنُ اَمَتِکَ نَا صِِیَتِیْ بِِیَدِ کَ،مَاضٍ فِیْ حُکْمِکَ،عَدْلُنْ فِیْ قَضَآئِکَ اَسْئَا لُکَ بِکُلِّ اسْمٍ ھُوَلَکَ،سَمَّیْتَ بِہٖ نَفْسَکَ اَوْ اَنْزَلْتَہٗ فِیْ کِتَابِکَ اَوْ عَلَّمْتَہٗٗ اَحَدً امِّنْ خَلْقِکَ اَوِاسْتَاْثَرْتَ بِہٖ فِیْ عِلْمِ الْغَیْبِ عِنْدَکَ، اَنْ تَجْعَلَ الْقُرْاٰنَ رَبِیْعَ قَلْبِیْ،وَنُوْرَصَدْرِیْ وَجِلَآئَ حُذْنِیْ وَذِھَابَ ھَمِّیْ وَغَمِّیْ۔                            ( مسند احمد ، ابن حبّان)

            ’’ خدایا ! میں تیرا بندہ ہوں ، تیرے بندے کا بیٹا ہوں ، تیری بندی کا بیٹا ہوں ، میری پیشانی تیری مٹھی میں ہے، مجھ پر تیرا ہی حکم نافذ ہے ۔ میرے حق میں تیرا فیصلہ عین     انصاف ہے ، میں تجھ سے تیرے ہر اس نام کے واسطے سے جو تیرے لیے سزاوار ہے، جو تو نے اپنے لئے رکھا ہے ، یاتونے اپنے کتاب میں اُتارا ہے ، یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو بتایا ہے ، یاتو نے  اپنے پاس اپنے خزانہ غیب میں اُسے پوشیدہ ہی رہنے دیا ہے ، یہ درخواست کرتا ہوں کہ قرآن کو میرے دل کی بہار ، میرے سینے کا نور، میرے غم کا مدوااور میری فکر و پریشانی کا علاج بنادے۔‘‘

            حدیث کے راوی حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ  کا بیان ہے کہ بنی ﷺ سے پوچھا گیا ’’ ہم اِس دُعا کو سیکھ لیں؟‘‘ تو آپؐ نے ارشاد فرمایا ’’ جو شخص بھی اس دُعا کو سُنے وہ ضرور اس کو سیکھے اور ضرور یاد کرے ‘‘۔

                                                                                                                           ( آداب زندگی ، ازمحمد یوسف اصلاحی ،ص۳۴۰)

از یک آئینی مسلماں زندہ است
ماہمہ خاک و دِل آگاہ اوست

 

پیکرِ ملت ز قرآں زندہ است
اعتصا مش کُن کہ حبل اللہ اوست !

علامہ اقبالؒ کا پیغام

 

 

’’وحدت ِآئین ہی مسلمان کی زندگی کا اصل راز ہے اور ملتِ اسلامی کے جسدِ ظاہری میں روح ِباطنی کی حیثیت صرف قرآن کو حاصل ہے ۔ ہم تو سرتاپا خاک ہی خاک ہیں ، ہمار ا  قلبِ زندہ اور ہماری روحِ تابندہ تو اصل میں قرآن ہی ہے۔لہذا اے مسلمان ! تو قرآن کو مضبوطی سے تھام لے کہ حبل اللہ ( اللہ کی رسی) یہی ہے  ‘‘۔

 

فضائل قُرآن

اَللہ کا کلام دوسرے کلاموں سے اُسی طرح افضل ہے جس طرح خود اللہ تعالیٰ

   ’’ حضرت ابو سعید خُدریؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جس شخص کو قرآن مجید ( کے مطالعہ) نے میرا ذکر کرنے اور مجھ سے دعا مانگنے سے روک رکھا ہو میں اُس کو وہ افضل ترین چیز دوں گا جو دعا مانگنے والوں کو دیتا ہوں ۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ کے کلام کی فضیلت باقی تمام کلاموں پر ایسی ہے جیسی اللہ تعالیٰ کی اپنی مخلوق پر ہے ‘‘۔   ( رواہ الترمذی و الدارمی و البیھقی)

قُرآن مجید قیامت کے روز شفیع بن کر آئے گا

            ’’ حضرت ابو امامہ ؓ سے روایت ہے ، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سُنا ہے قرآن مجید پڑھا کرو کیوں کہ وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے لئے شفیع ( سفارش کرنے والا ) بن کر آئے گا ۔ دو چمکتی ہوئی روشن سُورتیں البقرۃ اور آ ل ِعمران پڑھا کرو۔ کیونکہ یہ دونوں قیامت کے روز اس طرح سے آئیں گی جیسے کہ وہ چھتریاں ہیں یا سایہ کرنے والے بادل ہیں یا پرندوں کے دو جھنڈ ہیں جو پر پھیلائے ہوئے ہوں ۔ وہ اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے حجت پیش کرنے والی ہوں گی ۔ سورۃ البقرۃ پڑھا کرو کیوں کہ اس کا اختیار کرنا برکت ہے اور اس کا چھوڑ دینا حسرت ہے اور باطل پرست اس کو برداشت نہیں کر سکتے ۔‘‘     ( رواہ مسلم)

قُرآن کو اُخروی فلاح کا ذریعہ بناؤ

            ’’ حضرت عبیدہ ملیکی ؓ جو ایک صحابیؓ ہیں ، بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے اہل قرآن ( مراد ہے قرآن پڑھنے والو) قرآن کو تکیہ مت بنا لو بلکہ اس کی تلاوت کرو جس طرح کہ اس کی تلاوت کرنے کا حق ہے ، رات اور دن کے اوقات میں ، اور اسے علانیہ پڑھو ، خوش آوازی کے ساتھ پڑھو ، اور جو کچھ مضامین اس میں ہیں ان پر غورکرو اُمید ہے تمہیں فلاح نصیب ہوگی ، اور اس کا ثواب جلدی حاصل کرنے کی کوشش نہ کرو ، کیوں کہ (آخرت میں ) اس کا ثواب لازماً ہے۔‘‘      ( رواہ البیہقی فی شعب الایمان )

تشریح  فرمایا کہ قرآن کو تکیہ نہ بنا لو ۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن کو تکیے کی جگہ رکھ کر نہ سویا کرو بلکہ اس کا یہ مفہوم بعدکے فقرے سے سامنے آتا ہے کہ قرآن سے غفلت نہ بر تو ، صبح و شام اس کی تلاوت کرو ۔ اس کا ذکرعام کرو اور اسکے مضامین میں غور و فکرکرو۔ یہ حال نہ ہو کہ قرآن آپ کے پاس موجود ہو لیکن آپ غفلت میں پڑے رہیں اور کبھی نظر اٹھا کر بھی اس کی طرف نہ دیکھیں اور اس سے رہنما ئی حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں ۔                                  ( تفہیم الاحادیث ، جلد ہشتم ، ص ۳۰)

عامل قُرآن کے والدین کو ایک روشن تاج پہنا یا جائے گا

’’حضرت معاذ جہنیؓ رسول اللہ ﷺ کایہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جو شخص قرآن پڑھتا ہے اور اس کے مطابق عمل کرتا ہے قیامت کے روز اس کے والدین کو ایک تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی ایسی ہو گی کہ اگر سورج بھی تمہارے گھروں میں اُتر آئے تو وہ اس کی روشنی سے عمدہ ہوگی ۔ پھر تمہارا کیا خیال ہے کہ جو شخص خود قرآن کے مطابق عمل کر نے والا ہے اس کی شان کیا ہو گی۔‘‘                      (رواہ احمد و ابو داؤد)

معلّمِ قُرآن کی فضیلت

            ’’ حضرت عثمان  ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا :  تم میں سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو قرآن کا علم حاصل کریں اور ( دوسروں کو ) اس کی تعلیم دیں ‘‘                         ( رواہ البخاری )

تشریح:۔نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد ِ گرامی کا مفہوم یہ ہے کہ جو لوگ پہلے قرآن مجید سے خود تعلیم ِ ہدایت حاصل کریں اور اسکے بعد خلقِ خدا تک اس کو پہنچانے کا فریضہ انجام دیں  وہ تمہارے اندر سب سے بہتر انسان ہیں۔

             ایک شخص تو وہ ہے کہ جب اﷲ کی ہدایت اس کے پاس پہنچے تو وہ اس کے مطابق اپنی زندگی کی اصلاح کرے، یقینًاوہ بھی اچھا انسان ہے۔ لیکن اس سے، اور باقی سب انسانوں سے بہتر وہ ہے جو اﷲ کی ہدایت پا کر نہ صرف  یہ کہ اپنی زندگی کو اس کے مطابق درست کرے بلکہ خلقِ خدا تک بھی اس تعلیم کو پہنچانے کی کوشش کرے تاکہ دوسروں کی زندگی کی اصلاح بھی ہو سکے ۔                             ( تفہیم الاحادیث، جلد ہشتم، ص ۳۲ )

جس سینے میں قُرآن نہیں وہ ایک ویرانہ ہے 

            ’’ حضرت عبد اﷲ بن عباس ؓ کا بیان ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا :  جس شخص کے سینے میں قرآن نہیں ہے اُس کی مثال اُجڑے ہوئے گھر کی سی ہے۔‘‘                            ( رواہ الترمذی والدارمی )

تشریح :۔ اگر کسی کا سینہ قرآن سے خالی ہے تو وہ ایک ایسا ویران گھر ہے جس میں بسنے والا کوئی نہیں ہے۔ اس سینے میں کوئی چیز ایسی موجود نہیں ہے جس کی بنا پر اسے ایک صاحبِ ضمیر اور ذی شعور انسان کا سینہ کہا جا سکے ۔

                                                                                                                                       ( تفہیم الاحادیث، جلد ہشتم، ص  ۳۸  )

قُرآن کریم باعث برکت ہے

     مسند دارمی میں حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا :

            ’’ اﷲ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق سے ایک ہزار سال قبل سورۃ طٰہٰ ، اور سورۃ یٰسین تلاوت فرمائی۔  جب فرشتوں نے اس کلام الٰہیکو سنا تو کہنے لگے : مبارک ہے وہ امت جس پر یہ قرآن نازل کیا جائے گا اور مبارک ہیں وہ سینے جو اس کو محفوظ کریں گے، اور مبارک ہیں وہ زبانیں جو اس کو پڑھیں گی۔ ‘‘

                                                                                                                                       ( مشکوٰۃ شریف ، باب فضائل القرآن )

قُرآن کریم باعث سکینت ہے

   حضرت ابو ہریرہ  ؓ کی ایک طویل روایت ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا :

            ’’ اﷲ کے گھروں میں سے جس گھر میں بھی لوگ اکٹھے ہو کر قرآن مجید تلاوت کریں گے اور درس و تدریس میںمصروف ہوں گے، تو وہاں  ان پر ایک خاص سکینت نازل ہوگی اور ان کو اﷲ کی رحمت ڈھانپ لے گی۔  اور  فرشتے ان کو گھیرے میں لے لیں گے۔ اور اﷲ تعالیٰ اپنے پاس والوں کے سامنے ان کا تذکرہ کرے گا۔‘‘

ایک روایت میں یہ ہے :’’ یہ سکینت قرآن کی وجہ سے نازل ہوتی ہے‘‘۔

                                                                                                     ( بخاری، کتاب التفسیر، باب ھو الذی انزل السکینۃ، جلد ۳، ص ۱۱۸ )

’’ قُرآن کریم‘‘  دلوں کے زنگ اتارنے کا ذریعہ ہے

            حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

            ’’ بے شک لوگوں کے دلوں کو زنگ لگ جاتا ہے، جس طرح لوہا زنگ آلود ہو جاتا ہے ، جب کہ اس پر پانی پڑ جائے‘‘۔ صحابہ کرام  ؓ نے عرض کیا :  یا رسول اﷲ ! دلوں کو زنگ سے صاف کرنے کا کیا طریقہ ہے ؟ آپؐ  نے فرمایا : ’’ موت کو کثرت سے یاد کرنا اور قرآن پاک کی تلاوت کرنا ‘‘ ۔                         ( بیہقی بحوالہ مشکوٰۃ، باب فضائل القرآن )

   تعلیمِ قُرآن کی فضیلت

            نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

            ’’ جو مسلمان مسجدوں میں بوقت صبح دو آیتوں کی تعلیم دیتے ہیں  یا دو آیتوں کی خود تلاوت کرتے ہیں ، ان کا ثواب بار گاہِ الٰہی میں دو اونٹنیوں کے صدقہ سے زیادہ  ہے‘‘۔                         ( مسلم شریف  ،  ج  ا،  ص  ۲۷۰  )

                  ’’اے ابو ذر! تم صبح اس طرح کرو کہ کتاب اللہ کی ایک آیت سیکھو تو وہ تمہارے لئے سو (۱۰۰)رکعت نماز پڑھنے سے بہتر ہے‘‘۔                      ( ابن ماجہ)

تلاوت سب سے افضل عبادت ہے

نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :  اَفْضَلُ عِبَادَۃِ اُمَّتِیْ تِلَاوَۃُ الْقُرآنِ  ۔

  ’’ میری امّت کی سب سے افضل عبادت تلاوت قرآ ن کریم ہے‘‘ ۔                            ( کنز العمال ، جلد  اوّل  ،  ص ۱۲۸  )

قُرآن کے حامل سے دوستی کا فائدہ 

  نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

            ’’ قرآن مجید کے حامل وہ ہیں  جو اﷲ کے کلام کی تعلیم دیتے ہیں ، اور اﷲ کے نور سے وابستگی رکھتے ہیں۔ جو ان سے دوستی رکھے گا تو بے شک وہ اﷲ سے دوستی رکھتا ہے ، اور جس نے ان سے عداوت رکھی تو گویا وہ اﷲ سے عداوت رکھتا ہے ‘‘ ۔                      ( مسلم شریف، باب فضائل القرآن  )

حافظ قُرآن کا مَقام

حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا :

            ’’ قرآن کے حافظوں کی عزت کرو ۔ جو ان کی عزت کرتا ہے وہ اﷲ کی  عزت کرتا ہے ‘‘۔

    حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا :  ’’ حافظ قرآن کو کہا جائے گا، تو قرآن کی تلاوت کرتا جا اور جنت کے درجات اور منازل پر چڑھتا جا ۔  تیری آخری منزل وہی ہوگی    جہاں تو تلاوت ختم کرے گا‘‘ ۔

                                                                                                                                             ( کنز العمال، جلد اوّل، ص ۱۳۱  )

قُرآن کریم کے ذریعہ غم دور ہو جاتے ہیں

آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی دعاؤں میں ہے :

            ’’ اَللّٰھُمَّ  اجْعَلِ  الْقُرآن َ رَبِیْعَ قَلْبِیْ وَجَلَائَ ھُمُومِیْ واَحْزَانِیْ ‘‘ 

  ’’ اے اﷲ قرآن کو میرے دل کی شادابی  اور چین اور میری پریشانیوں اور غموں کو دور کرنے کا ذریعہ بنا دے ‘‘۔

                                                                                                         ( منازل العرفان فی القرآن، از محمد مالک کاندھلوی،  ص ۴۲ ) 

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کریم دلوں کی شادابی، چین و سکون اور راحت ہے اور اس میں انسان  کے افکار،غم اور پریشانیوں کی تاریکیاں دور کر دینے کا بہترین سامان ہے۔               ( عظمت ِقرآن کریم ،از ڈاکٹر حافظ محمد یونس ، ص ۵۶  )

خوش الحانی سے قُرآن پڑھنے والا اﷲ کو پسند ہے 

            نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

  اﷲ تعالیٰ خوش آواز قرآن خواں کی آواز پر پوری توجہ دیتا ہے ( نہایت شوق کے ساتھ سنتا ہے ) ۔ ‘‘

                                                                                                                                                    ( کنز العمال ، جلد اوّل ،  ص ۱۵۰  )

تاثیر قُرآن

قُرآن سن کر حضور ؐ کی کیفیت

            ’’ حضرت عبد اﷲ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے، جب کہ وہ منبر پر تشریف فرما تھے۔ مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا : مجھے پڑھ کر سناؤ ۔ میں نے عرض کیا کیا میں آپ ؐ  کو پڑ ھ کر سناؤں درآں حالے کہ آپ ؐ  ہی پر تو قرآن اُترا ہے؟ حضور ؐ نے فرمایا  : ہاں میں چاہتا ہوںکہ قرآن کسی دوسرے شخص سے سنوں ۔ پھر میں نے سورۃ نساء کی تلاوت کی۔  یہاں تک کہ میں اس آیت پر پہنچا … ’’کیا بنے گی ان لوگوں پر اس وقت جب کہ ہم ہر امت پر ایک گواہ لائیں گے اور اے نبی ؐ  ہم آپ  کو اس امُت پر گواہ بنا کر کھڑا کریں گے‘‘… جب میں اس مقام پر پہنچا تو حضور ؐ نے فرمایا : بس کافی ہے … اچانک میری نگاہ حضور ؐ کے چہرہ مبارک پر پڑی تو کیا دیکھتا ہوں کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں ۔‘‘    ( متفق علیہ )

قُرآن پڑھنے کی آواز سن کر فِرشتے جمع ہو جاتے ہیں

بخاری شریف میں حضرت  اسید بن حضیر رضی اﷲ عنہ کا واقعہ مذکور ہے کہ ایک دفعہ تہجد میں سورۃ بقرۃ کی تلاوت کر رہے تھے کہ اچانک ان کا گھوڑا جو قریب بندھا ہوا تھا، بدکنے لگا۔ وہ خاموش ہوئے تو گھوڑا رک گیا۔ پھر تلاوت شروع کی تو اسی طرح پھر اُچھلنے لگا۔ نماز سے فارغ ہوئے تو سر اوپر  اٹھا کر دیکھا تو ایک سائبان  نظر آرہا تھا ، جس میں بہت سی شمعیں  روشن تھیں ۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے عرض کیا تو آپ  ؐ نے فرمایا : ’’ یہ فرشتے تھے جو تمہاری تلاوت کی آواز سننے کے لئے قریب ہو گئے تھے۔ اگر تو برابر پڑھتا جاتا تو عجیب و غریب مناظر دیکھتا اور لوگ اپنی آنکھوں سے فرشتوں کو انسانی شکل میں دیکھ لیتے۔‘‘                    (  بخاری) 

 

قُرآن پڑھنے والے پر سکینت نازل ہوتی ہے

            ’’ حضرت براء بن عازِب رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی سورئہ کہف پڑھ رہا تھا اور اس کے قریب  ہی ایک گھوڑا  دو رسیوں  کے ساتھ بندھا ہوا تھا۔ اس دوران میں ایک بادل سا اس پر سایہ فگن ہوا ، اور وہ آہستہ آہستہ نیچے آتا چلا گیا ۔ جیسے جیسے وہ نیچے آتا رہا  اس کا گھوڑا زیادہ اُچھلنے کودنے لگا ۔ جب صبح ہوئی تو وہ شخص نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اُس نے آپ ؐ سے اس واقعہ کا ذکر کیا۔ آپ ؐ نے فرمایا  کہ وہ سکینت تھی جو قرآن کے ساتھ نازل ہو رہی تھی‘‘۔    

                 ( متفق علیہ )

کفار پر قُرآن کی دہشت

            قرآن مجید کی اثر اندازی اور دل ربائی نے کفار کو اس قدر دہشت زدہ کر رکھا تھا کہ وہ اس کی آواز کو کانوں میں پڑنے سے ڈرتے تھے۔ وہ کہتے  تھے :

                    لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذَاالْقُرآنِ وَ الْغَوْا فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تَغْلِبُوْنً

            ’’ اس قرآن کی طرف توجہ نہ دو، اور شور ڈالو تاکہ تم غالب آجاؤ ‘‘                      (  سورۃ حٰمٓ السّجدہ، آیت ۲۶ ) 

فَاروق اعظم رضی اﷲ عنہ پر قُرآن کا اثر

            حضرت عمر فاروق  اعظم  ؓ  زمانہ کفر میں کتنے سخت تھے مگر سورۃ طٰہٰ کی چند آیات سُن کر  دگر گوں ہو گئے اور بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگتے ہیں اور سیلاب اشک سے دل میں کفر کی جو بھٹی دہک رہی تھی ، سرد پڑ جاتی ہے ۔ قلب نور ایمانی سے منور ہو جاتا ہے اور سیدھے آستانہ نبوت پر جا کر حلقہ بگوش اسلام ہو جاتے ہیں ۔

علامہ اقبال ؒ نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے :

زشامِ ما بروں آور سحررا
تومے دانی کہ سوز قرأت تو

 

بہ قرآن باز خواں اہل نظر را
دگر گوں کرد تقدیر عمر  ؓ را 

            ’’ ایک تقدیر عمر ؓ  کے دگر گوں  ہونے سے تاریخ نے کیسا سنہری ورق حاصل کر لیا۔ آہ  وہ سوز قرأت کہاں ہے جس نے تقدیر عمر  ؓ کو دگر گوں کیا۔                      (  ارمغان حجاز، از شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال ؒ ، ص ۱۳۲ )

  نجاشی شاہ حبش پر قُرآن کا اثر

            نجاشی شاہ حبش کے دربار میں جب حضرت جعفر طیار ؓ  نے سورۃ مریم تلاوت کی تو اس پر رقت طاری ہو گئی اور وہ اتنا رویا کہ اس کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہو گئی ۔

قُرآن مجید میں ہے :

ترجمہ :۔اور جب اس کتاب کو سنتے ہیں جو رسول  ( سب سے آخری پیغمبر ) پر نازل ہوئی تو تم دیکھتے ہو ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں ، اس لئے کہ انہوں نے حق بات پہچان لی۔‘‘        ( سورۃ المائدہ آیت ۸۳ )

نجاشی شاہ حبش بے ساختہ کہنے لگا  :

’’ خدا کی قسم ! یہ کلام  اور انجیل کا کلام دونوں ایک ہی چراغ کی روشنیاں ہیں ۔‘‘

                                                                                                     ( ابن ہشام ، باب ارسال قریش الی الحبشۃ، ج ا ، ص ۳۶ )

ولید بن مغیرہ پر قُرآن کا اثر

            ولید بن مغیرہ قریش کے رئو ساء میں  بڑی شخصیت کا مالک تھا  اور بہت نامور زبان دان تھا ۔ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ     ’’ قرآن کی کچھ آیات تو سنائیے۔ میں بھی سنوں آپ ؐ پر کیا وحی آرہی ہے؟‘‘  حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے چند آیات پڑھ کر سنائیں ، اس نے دوبارہ پڑھوا کر سنیں تو بے تاب ہو کر کہنے لگا کہ ’’ خدا کی قسم ! اس میں تو کچھ اور ہی شیرینی اور تازگی ہے، اس کے نخل کی شاخوں میں پھل ہیں اور اس کا تنا بھاری ہے ( یہ ہر گز کسی انسان کا کلام نہیں ) خدا کی قسم محمد ؐ کے کلام میں ایک عجیب حلاوت اور شیرینی ہے اس قول کی جڑ نہایت تر و تازہ  اور اس کی شاخیں ثمر دار ہیں ۔ ‘‘                                ( کتاب الروض الانف، جزء اول،  ص۱۷۳ )   

تم خوار ہوئے تارکِ قُرآن ہو کر

قرآن مجید کے حقوق

    ’’حضرت عبیدہ ملیکی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: اے قرآن والو ! قرآن کو اپنا تکیہ اور سہارانہ بنالو ، بلکہ دن اور رات کے اوقات میں اس کی تلاوت کیا کرو جیسا کہ اس کا حق ہے اور اس کو پھیلاؤ اور اس کو خوشی الحانی سے پڑھا کرو اور اس میں تد بر کرو امید رکھو کہ تم اس سے فلاح پا جاؤگے اور اس ثواب کے حوالے سے جلد ی نہ کرو، اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا عظیم ثواب ( اپنے وقت پر) ملنے والا ہے ۔‘‘

ہر مسلمان پر قرآن مجید کے درج ذیل پانچ حقوق عائد ہوتے ہیں:

            ۱۔          قرآن مجید پر ایمان لانا

              ۲۔       قرآن مجید کی تلاوت کرنا

             ۳۔       قرآن مجید کو سمجھنا

             ۴۔       قرآن مجید پر عمل کرنا

            ۵۔       قرآن مجید کی تعلیمات دوسروں تک پہنچانا۔

قُرآن سے اعراض کرنے والوں کا انجام

’’ اور جس نے میرے ذکر ( قرآن) سے اعراض کیا تو یقینا اس کا گزران ( معیشت) تنگ ہوگی اور قیامت کے دن اُسے اندھا کھڑا کریں گے۔ وہ کہے گا کہ اے میرے رب تو نے مجھے اندھا کیوں کھڑا کیا جب کہ دنیا میں تو میں خوب دیکھتا تھا ۔ اللہ فرمائے گا کہ اسی طرح تیرے پاس ہماری آیات آئی تھیں لیکن تونے انہیں نظر اندازکیا تو آج کے دن تجھے بھی نظر انداز کیا جائے گا‘‘۔             ( سورۃطٰہٰ آیت ۱۲۶ ۔ ۱۲۴)

 

اللہ کی کتاب پر ظلم کا نتیجہ

            دنیا میں سب سے بڑھ کر ظلم اللہ کی کتاب پاک کے ساتھ ہورہا ہے ، اور یہ ظلم کرنے والے وہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اس کتاب پر ایمان رکھتے ہیں اور اس پر جان قربان کر نے کے لئے تیار ہیں ۔ بے شک وہ ایمان رکھتے ہیں اور اسے جان سے عزیز رکھتے ہیں ، مگرافسوس یہ ہے کہ وہی اس پر سب سے زیادہ ظلم کرتے ہیں ۔ اور اللہ کی کتاب پر ظلم کرنے کا جو انجام ہے وہ ظاہر ہے ۔ خوب سمجھ لیجیے! اللہ کا کلام انسان کے پاس اس لئے نہیں آتا کہ وہ بد بختی اور نکبت و مصیبت میں مبتلا ہو:مَآاَنْزَلْنَاعَلَیْکَ الْقُُرْاٰنَ لِتَشْقٰیہ’’یہ قرآن ہم نے اس لیے تم پر نازل نہیں کیا کہ تم مصیبت میں پڑ جاؤ۔‘‘

 (سورۃ طٰہٰ ا ٓیت ۱) ۔ یہ سعادت اور نیک بختی کا سر چشمہ ہے۔ شقاوت اور بد بختی کا ذریعہ نہیں ہے ۔ یہ قطعی ناممکن ہے کہ کوئی قوم خدا کے کلام کی حامل ہو اور پھر دنیا میں ذلیل و خوار ہو ، دوسروں کی محکوم ہو ، پاؤں میں روندی اور جو تیوں سے ٹھکرائی جائے،  اس کے گلے میں غلامی کا پھندا ہو اور غیروں کے ہاتھ میں اس کی باگیں ہوں اور وہ اس کو اس طرح ہا نکیں جیسے جانور ہانکے جاتے ہیں ۔ یہ انجام اس کا صرف اسی وقت ہوتا ہے جب وہ اللہ کے کلام پر ظلم کرتی ہے ۔۔۔۔ پس جو قوم خدا کی کتاب رکھتی ہو اور پھر بھی ذلیل و خوار اور محکوم و مغلوب ہو تو سمجھ لیجئے کہ وہ ضرور کتاب الٰہی پر ظلم کر رہی ہے اور اس پر یہ سارا و بال اسی ظلم  کا ہے ۔ خدا کے اس غضب  سے نجات پانے کی اس کے سوا کوئی صورت نہیں کہ اس کی کتاب کے ساتھ ظلم کرنا چھوڑ دیا جائے اور اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کی جائے ۔ اگر آپ اس گناہ عظیم سے باز نہ آئیں گے تو آپ کی حالت ہر گز نہ بدلے گی خواہ آپ گاؤں گاؤں کالج کھول دیں اور آپ کا بچہ بچہ گر یجویٹ  ہو جائے اور آپ یہودیوں کی طرح سود خواری کر کے کروڑ پتی ہی کیوں نہ بن جائیں ۔               ( خطبات اول ص ۲۰ ۔ ۲۱)

قُرآن کریم سے ہمارا تعلق

            ذرا سوچئے! جس قرآن سے ہماری دنیا اور آخرت کی فلاح وابستہ ہے اس قرآن کے ساتھ ہمارا موجودہ تعلق کی کیاکیفیت ہے؟

            ۔          ریشمی جزدان میں لپیٹ کر رکھنا

            ۔          بچیوں کو جہیز میں دینا

            ۔          مرنے والے کے سرہانے پڑھنا

            ۔             باہمی اختلافات کی صورت میں اپنی سچائی ثابت کرنے کے لئے قرآن اٹھانا

            ۔          عدالتوںمیں قسم کھانے کے لئے استعمال کرنا

            ۔          پریشانی کے وقت فال کھولنے کے لئے استعمال کرنا

            ۔          آفات اور بلاؤں سے محفوظ رہنے کے لئے پڑھنا

            ۔          حسنِ قرأت کی محافل منعقد کرنا

            ۔          حصولِ ثواب اور ایصالِ ثواب کی غرض سے تلاوت کرنا

فریادِرسول ﷺ

            ’’ اور پیغمبرکہے گا کہ اے میرے ربّ میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔ـ‘‘              ( الفرقان : ۳۰)

            حضرت شاہ عبدالقادر ؒ نے اس آیت کے متعلق لکھا ہے : ’’ چھوڑ دینے کی کئی صورتیں ہیں ۔ اس کو نہ ماننا اور اس پر ایمان نہ لانا  بھی چھوڑ دینا ہے اس میں غور نہ کرنا اور سوچ سمجھ کر نہ پڑھنا بھی چھوڑ دینا ہے ، اور اس کے اوامر کا بجا لانا اور منہیات سے اجتناب نہ کرنا بھی چھوڑ دینا ہے قرآن کی پروانہ کر کے دوسری چیزوں جیسے بیہودہ ناولوں ، دیوانوں لغو باتوں کھیل تماشوں راگ رنگ میں مصروف ہونا بھی چھوڑ دینا ہے۔ افسوس ہے کہ آج کل کے مسلمان قرأت کی طرف سے نہایت غافل ہو رہے ہیں ۔ اس کے پڑھنے ، سوچنے سمجھنے اور ہدایت اور ہدایات سے مستفید ہونے کی طرف توجہ نہیں کرتے اور یہ حکم کھلم کھلا ترکِ قرآن پاک ہے۔     ( مقدمہ موضح القرآن ،ص ۲)

 

    بقولِ علّامہ اقبالؒ                      ؎ 

خوار از مہجوری قرآں شُدی

 

  شکوہ سنج گردشِ دوراں شُدی!

 

                                   

’’( اے مسلمان) تیری ذلّت اور رُسوائی کا اصل سبب تو یہ ہے کہ تو قرآن سے دُوراور

 بے تعلق ہوگیا ہے ، لیکن تو اپنی اس زبوں حالی پر الزام گردشِ زمانہ کودے رہا ہے !‘‘

Comments

Post a Comment