*🌹حیاتِ دنیا:متاعِ غرور*🌹
(قسط:اول)
✍️ ندیم احمد میر
اللّٰہ تعالیٰ پوری کائنات کے تنہا خالق و مالک اور مُدبِّر و مُنتظِم ہیں۔اس کائنات میں انسان ہی وہ واحد مخلوق ہے،جس کے لیے باقی تمام مخلوقات مُسَخَّر کر دی گئی ہیں،جسے مسجودِ ملائکہ ہونے کا شرف حاصل ہے اور جسے کثیر مخلوقات پر فضیلت بھی بخشی گئی ہے۔اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کو مٹی کے گارے سے پیدا فرمایا اور پھر اسے بہت سے مراحل سے گزار کر ایک مکمل وجود بخشا اور یوں اس پر بے شمار عنایات فرمائیں۔انسان کے شایانِ شان تو یہ تھا کہ وہ بندگیِ رب میں باقی تمام مخلوقات سے سبقت لے جائے لیکن بدقسمتی سے وہ سرکشی اور بغاوت پر تُلا ہوا ہے۔آخر کیا وجہ ہے کہ انسان اپنے مقام و منصب کو بھول کر معصیت اور نافرمانی کا راستہ اختیار کر لیتا ہے؟ پوری سنجیدگی کے ساتھ جب اس سوال پر غور و خوض کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ دراصل انسان دنیا کی زندگی کو ہی سب سے بڑی حقیقت سجھنے لگا ہے،اسے آخرت کی زندگی کا نہ تو کامل یقین ہے اور نہ ہی اس کی فکر۔
امرِ واقعہ یہ ہے کہ حُبِّ دنیا ہی وہ روگ ہے کہ جو انسان کو ہر بھلائی سے محروم کر دیتا ہے اور یہی وہ بنیادی بیماری ہے کہ جس سے کئی اور خطرناک بیماریاں پھوٹتی ہیں۔اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے رسی کے دراز ہونے کی وجہ سے ایک انسان اندھوں کی طرح ٹامک ٹوئیاں مارتے پھرتا ہے اور بالآخر اس کی رحمت سے خود کو محروم کر کے اس کے غضب کا شکار ہو جاتا ہے۔جس انسان کا مطمحِ نظر فقط یہ دنیاوی زندگی اور اس کے تعیُّشات سے لطف اندوز ہونا ہو تو اسے یہ جان لینا چاہیے کہ یہ رویہ نتیجے کے اعتبار سے ہرگز فائدہ مند نہیں ہے۔چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں فرماتے ہیں کہ:
كَلَّا بَلۡ تُحِبُّوۡنَ الۡعَاجِلَةَ۔وَتَذَرُوۡنَ الۡاٰخِرَةَ۔(القیامہ:21-20)
*”ہرگز نہیں،اصل بات یہ ہے کہ تم لوگ جلدی حاصل ہونے والی چیز (یعنی دنیا) سے محبت رکھتے ہو اور آخرت کو چھوڑ دیتے ہو۔“*
اِنَّ هٰٓؤُلَاۤءِ يُحِبُّوۡنَ الۡعَاجِلَةَ وَيَذَرُوۡنَ وَرَآءَهُمۡ يَوۡمًا ثَقِيۡلًا۔(الدھر:27)
*”یہ لوگ تو جلدی حاصل ہونے والی چیز(دُنیا)سے محبت رکھتے ہیں اور آگے جو بھاری دن آنے والا ہے اسے نظر انداز کر دیتے ہیں۔“*
دنیا کی زندگی مختصر مگر پُرفریب ہے،جس میں دنیوی آرزوئیں بڑی دلکش اور خوش آئند نظر آتی ہیں جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ایک غافل انسان آخرت سے بالکل بیگانہ ہو کر دنیوی زندگی کے ظاہری پہلو سے دھوکہ کھا کر اسی پر ساری توجہ دے کر ابدی خُسران کا شکار ہو جاتا ہے۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يَعۡلَمُوۡنَ ظَاهِرًا مِّنَ الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا ۖۚ وَهُمۡ عَنِ الۡاٰخِرَةِ هُمۡ غٰفِلُوۡنَ۔(الروم:7)
*”لوگ دنیا کی زندگی کا بس ظاہری پہلو جانتے ہیں اور آخرت سے وہ خود ہی غافل ہیں۔“*
حالانکہ اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں واضح الفاظ میں تمام انسانوں کو باخبر کیا ہے کہ کہیں دنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں نہ ڈال دے،جس کا بیّن ثبوت ذیل کی آیات پیش کرتی ہیں:
يٰۤـاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّ وَعۡدَ اللّٰهِ حَقٌّۖ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الۡحَيٰوةُ الدُّنۡيَاۖ وَلَا يَغُرَّنَّكُمۡ بِاللّٰهِ الۡغَرُوۡرُ۔(فاطر:5)
*”لوگو،اللہ کا وعدہ یقیناً برحق ہے،لہٰذا دنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے اور نہ وہ بڑا دھوکے باز تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکہ دینے پائے۔“*
يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّكُمۡ وَاخۡشَوۡا يَوۡمًا لَّا يَجۡزِىۡ وَالِدٌ عَنۡ وَّلَدِهٖ وَلَا مَوۡلُوۡدٌ هُوَ جَازٍ عَنۡ وَّالِدِهٖ شَيۡــئًا ؕ اِنَّ وَعۡدَ اللّٰهِ حَقٌّ ۖ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الۡحَيٰوةُ الدُّنۡيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُمۡ بِاللّٰهِ الۡغَرُوۡرُ۔(لقمان:33)
*”لوگو! بچو اپنے ربّ کے غضب سے اور ڈرو اُس دن سے جبکہ کوئی باپ اپنے بیٹے کی طرف سے بدلہ نہ دے گا اور نہ کوئی بیٹا ہی اپنے باپ کی طرف سے کچھ بدلہ دینے والا ہوگا۔فی الواقع اللہ کا وعدہ سچّا ہے۔پس یہ دُنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے اور نہ دھوکہ باز تم کو اللہ کے معاملے میں دھوکہ دینے پائے۔“*
ایک انسان جب حیاتِ دنیا کو اپنی منزل بنا لے،اپنی خواہشات کو اپنا رہنما بنا لے،ضروریاتِ زندگی کو مقصدِ حیات ٹھہرا لے اور دنیوی زندگی کو ترجیح دے کر کبھی بھول کر بھی یاد نا کرے کہ آخرت بھی آنی ہے اور مجھے اپنے ایک ایک عمل کا حساب دینا ہے،تو ایسے ہی انسان کو اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کی دولت سے محروم رکھا جاتا ہے۔ذیل کی آیات میں اسی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے:
مَنۡ كَفَرَ بِاللّٰهِ مِنۡۢ بَعۡدِ اِيۡمَانِهٖۤ اِلَّا مَنۡ اُكۡرِهَ وَقَلۡبُهٗ مُطۡمَئِنٌّۢ بِالۡاِيۡمَانِ وَلٰـكِنۡ مَّنۡ شَرَحَ بِالۡكُفۡرِ صَدۡرًا فَعَلَيۡهِمۡ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰهِۚ وَلَهُمۡ عَذَابٌ عَظِيۡمٌ۔ذٰلِكَ بِاَنَّهُمُ اسۡتَحَبُّوا الۡحَيٰوةَ الدُّنۡيَا عَلَى الۡاٰخِرَةِ ۙ وَاَنَّ اللّٰهَ لَا يَهۡدِى الۡقَوۡمَ الۡكٰفِرِيۡنَ۔(النحل:107-106)
*”جو شخص ایمان لانے کے بعد کفر کرے(وہ اگر) مجبور کیا گیا ہو اور دل اس کا ایمان پر مطمئن ہو(تب تو خیر) مگر جس نے دل کی رضا مندی سے کفر کو قبول کر لیا اس پر اللہ کا غضب ہے اور ایسے سب لوگوں کے لیے بڑا عذاب ہے۔یہ اس لیے کہ اُنہوں نے آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی کو پسند کر لیا،اور اللہ کا قاعدہ ہے کہ وہ اُن لوگوں کو راہ نجات نہیں دکھاتا جو اُس کی نعمت کا کفران کریں۔“*
مولانا امین احسن اصلاحیؒ دوسری آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ:
”ذٰلِكَ بِاَنَّهُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا عَلَي الْاٰخِرَةِ ۙ وَاَنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ۔یہ وجہ بیان ہوئی ہے اس بات کی کہ کیوں ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہے۔فرمایا کہ یہ اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے اپنی دنیا کی زندگی کو آخر پر ترجیح دی ہے۔اور خدا کی پکڑ سے بے پروا ہو کر اپنے آپ کو کفر کے حوالے کر دیا۔اللہ ان لوگوں کے لیے تو اپنی ہدایت کی راہ کھولتا ہے جو ہر حال میں اس کی ہدایت ہی کو اپنا نصب العین بناتے ہیں لیکن ان لوگوں کو راہ یاب نہیں کرتا جو مشکلات سے گھبرا کر کفر ہی کو اپنا ملجا و ماوی بنا لیتے ہیں۔“(تدبر قرآن)
قرآنِ پاک میں ایک اور جگہ اللّٰہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اۨلَّذِيۡنَ يَسۡتَحِبُّوۡنَ الۡحَيٰوةَ الدُّنۡيَا عَلَى الۡاٰخِرَةِ وَيَصُدُّوۡنَ عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَيَبۡغُوۡنَهَا عِوَجًا ؕ اُولٰۤئِكَ فِىۡ ضَلٰلٍۢ بَعِيۡدٍ۔(ابراہیم:3)
*”جو دُنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں،جو اللہ کے راستے سے لوگوں کو روک رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ راستہ(ان کی خواہشات کے مطابق)ٹیڑھا ہو جائے۔یہ لوگ گمراہی میں بہت دُور نکل گئے ہیں۔“*
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ:
”یا بالفاظ دیگر جنہیں ساری فکر بس دنیا کی ہے،آخرت کی پروا نہیں ہے۔جو دنیا کے فائدوں اور لذتوں اور آسائشوں کی خاطر آخرت کا نقصان تو مول لے سکتے ہیں، مگر آخرت کی کامیابیوں اور خوشحالیوں کے لیے دنیا کا کوئی نقصان،کوئی تکلیف اور کوئی خطرہ،بلکہ کسی لذت سے محرومی تک برداشت نہیں کرسکتے۔ جنہوں نے دنیا اور آخرت دونوں کا موازنہ کر کے ٹھنڈے دل سے دنیا کو پسند کرلیا ہے اور آخرت کے بارے میں فیصلہ کرچکے ہیں کہ جہاں جہاں اس کا مفاد دنیا کے مفاد سے ٹکرائے گا وہاں اسے قربان کرتے چلے جائیں گے۔“(تفہیم القرآن)
اس میں کوئی شک نہیں کہ جو شخص آخرت سے بے پرواہ ہو کر دنیا کی زندگی سے دھوکہ کھا کر اس پر مطمئن ہو جاتا ہے اس کا انجام انتہائی بھیانک ہوگا۔قرآنِ پاک نے ذیل کی آیات میں اس انجام کو بیان کیا ہے:
قُلۡ هَلۡ نُـنَبِّئُكُمۡ بِالۡاَخۡسَرِيۡنَ اَعۡمَالًا۔اَلَّذِيۡنَ ضَلَّ سَعۡيُهُمۡ فِى الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا وَهُمۡ يَحۡسَبُوۡنَ اَنَّهُمۡ يُحۡسِنُوۡنَ صُنۡعًا۔اُولٰۤئِكَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمۡ وَلِقَآئِهٖ فَحَبِطَتۡ اَعۡمَالُهُمۡ فَلَا نُقِيۡمُ لَهُمۡ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ وَزۡنًـا۔(الکہف:105-103)
*”اے محمدؐ،ان سے کہو،کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں؟۔وہ کہ دنیا کی زندگی میں جن کی ساری سعی و جہد راہِ راست سے بھٹکی رہی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیات کو ماننے سے انکار کیا اور اس کے حضور پیشی کا یقین نہ کیا اس لیے اُن کے سارے اعمال ضائع ہو گئے،قیامت کے روز ہم انہیں کوئی وزن نہ دیں گے۔“*
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ ان آیات کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
”اس آیت کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ایک وہ جو ہم نے ترجمے میں اختیار کیا ہے۔اور دوسرا یہ کہ”جن کی ساری سعی و جہد دنیا کی زندگی ہی میں گم ہو کر رہ گئی“۔یعنی انہوں نے جو کچھ بھی کیا خدا سے بےنیاز اور اور آخرت سے بےفکر ہو کر صرف دنیا کے لیے کیا۔دنیوی زندگی ہی کو اصل زندگی سمجھا۔دنیا کی کامیابیوں اور خوشحالیوں ہی کو اپنا مقصود بنایا۔خدا کی ہستی کے اگر قائل ہوئے بھی تو اس بات کی کبھی فکر نہ کی کہ اس کی رضا کیا ہے اور ہمیں کبھی اس کے حضور جا کر اپنے اعمال کا حساب بھی دینا ہے۔اپنے آپ کو محض ایک خود مختار و غیر ذمہ دار حیوان عاقل سمجھتے رہے جس کے لیے دنیا کی اس چراگاہ سے تمتع کے سوا اور کوئی کام نہیں ہے۔
یعنی اس طرح کے لوگوں نے دنیا میں خواہ کتنے ہی بڑے کارنامے کیے ہوں،بہرحال وہ دنیا کے خاتمے کے ساتھ ہی ختم ہوجائیں گے۔اپنے قصر اور محلات،اپنی یونیورسٹیاں اور لائبریریاں،اپنے کارخانے اور معمل،اپنی سڑکیں اور ریلیں،اپنی ایجادیں اور صنعتیں،اپنے علوم و فنون اور اپنی آرٹ گیلریاں،اور دوسری وہ چیزیں جن پر وہ فخر کرتے ہیں،ان میں سے تو کوئی چیز بھی اپنے ساتھ لیے ہوئے وہ خدا کے ہاں نہ پہنچیں گے کہ خدا کی میزان میں اس کو رکھ سکیں۔وہاں جو چیز باقی رہنے والی ہے وہ صرف مقاصد عمل اور نتائج عمل ہیں۔اب اگر کسی کے سارے مقاصد دنیا تک محدود تھے اور نتائج بھی اس کو دنیا ہی میں مطلوب تھے اور دنیا میں وہ اپنے نتائج عمل دیکھ بھی چکا ہے تو اس کا سب کیا کرایا دنیائے فانی کے ساتھ ہی فنا ہوگیا۔آخرت میں جو کچھ پیش کر کے وہ کوئی وزن پاسکتا ہے وہ تو لازماً کوئی ایسا ہی کارنامہ ہونا چاہیے جو اس نے خدا کی رضا کے لیے کیا ہو،اس کے احکام کی پابندی کرتے ہوئے کیا ہو اور ان نتائج کو مقصود بنا کر کیا ہو جو آخرت میں نکلنے والے ہیں۔ایسا کوئی کارنامہ اگر اس کے حساب میں نہیں ہے تو وہ ساری دوڑ دھوپ بلاشبہ اکارت گئی جو اس نے دنیا میں کی تھی۔“(تفہیم القرآن)
مَنۡ كَانَ يُرِيۡدُ الۡحَيٰوةَ الدُّنۡيَا وَ زِيۡنَتَهَا نُوَفِّ اِلَيۡهِمۡ اَعۡمَالَهُمۡ فِيۡهَا وَهُمۡ فِيۡهَا لَا يُبۡخَسُوۡنَ۔اُولٰٓئِكَ الَّذِيۡنَ لَـيۡسَ لَهُمۡ فِىۡ الۡاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ ۖ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوۡا فِيۡهَا وَبٰطِلٌ مَّا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ۔(ھود:16-15)
*”جو لوگ بس اِسی دنیا کی زندگی اور اس کی خو ش نمائیوں کے طالب ہوتے ہیں ان کی کار گزاری کا سارا پھل ہم یہیں ان کو دے دیتے ہیں اور اس میں ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی مگر آخرت میں ایسے لوگوں کے لیے آگ کے سوا کچھ نہیں ہے (وہاں معلوم ہو جائے گا کہ) جو کچھ انہوں نے دنیا میں بنایا وہ سب ملیامیٹ ہو گیا اور اب ان کا سارا کیا دھرا محض باطل ہے۔“*
مَنۡ كَانَ يُرِيۡدُ الۡعَاجِلَةَ عَجَّلۡنَا لَهٗ فِيۡهَا مَا نَشَآءُ لِمَنۡ نُّرِيۡدُ ثُمَّ جَعَلۡنَا لَهٗ جَهَنَّمَۚ يَصۡلٰٮهَا مَذۡمُوۡمًا مَّدۡحُوۡرًا۔(بنی اسرائیل:18)
*”جو کوئی عاجلہ کا خواہشمند ہو،اسے یہیں ہم دے دیتے ہیں جو کچھ بھی جسے دینا چاہیں،پھر اس کے مقسُوم میں جہنّم لکھ دیتے ہیں جسے وہ تاپے گا ملامت زدہ اور رحمت سے محرُوم ہو کر۔“*
الَّذِيۡنَ اتَّخَذُوۡا دِيۡنَهُمۡ لَهۡوًا وَّلَعِبًا وَّغَرَّتۡهُمُ الۡحَيٰوةُ الدُّنۡيَا ۚ فَالۡيَوۡمَ نَنۡسٰٮهُمۡ كَمَا نَسُوۡا لِقَآءَ يَوۡمِهِمۡ هٰذَا ۙ وَمَا كَانُوۡا بِاٰيٰتِنَا يَجۡحَدُوۡنَ۔(الاعراف:51)
*”جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تفریح بنا لیا تھا اور جنہیں دنیا کی زندگی نے فریب میں مبتلا کر رکھا تھا۔اللہ فرماتا ہے کہ آج ہم بھی انہیں اسی طرح بُھلا دیں گے جس طرح وہ اِس دن کی ملاقات بھُولے رہے اور ہماری آیتوں کا انکار کرتے رہے۔“*
اِنَّ الَّذِيۡنَ لَا يَرۡجُوۡنَ لِقَآءَنَا وَرَضُوۡا بِالۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا وَاطۡمَاَنُّوۡا بِهَا وَالَّذِيۡنَ هُمۡ عَنۡ اٰيٰتِنَا غٰفِلُوۡنَۙ۔اُولٰٓئِكَ مَاۡوٰٮهُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوۡا يَكۡسِبُوۡنَ۔(یونس:8-7)
*”حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے اور دنیا کی زندگی ہی پر راضی اور مطمئن ہو گئے ہیں، اور جو لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں اُن کا آخری ٹھکانہ جہنم ہو گا اُن برائیوں کی پاداش میں جن کا اکتساب وہ(اپنے اس غلط عقیدے اور غلط طرز عمل کی وجہ سے) کرتے رہے۔“*
مَنۡ كَانَ يُرِيۡدُ حَرۡثَ الۡاٰخِرَةِ نَزِدۡ لَهٗ فِىۡ حَرۡثِهٖۚ وَمَنۡ كَانَ يُرِيۡدُ حَرۡثَ الدُّنۡيَا نُؤۡتِهٖ مِنۡهَا وَمَا لَهٗ فِى الۡاٰخِرَةِ مِنۡ نَّصِيۡبٍ۔(الشوری:20)
*”جو کوئی آخرت کی کھیتی چاہتا ہے اُس کی کھیتی کو ہم بڑھاتے ہیں،اور جو دنیا کی کھیتی چاہتا ہے اُسے دنیا ہی میں سے دیتے ہیں مگر آخرت میں اُس کا کوئی حصّہ نہیں ہے۔“*
جو شخص دنیوی زندگی کو ہی مقصد بنا کر عیش و عشرت میں غرق ہو جاتا ہے اور شتر بے مہار بن کر زندگی گزارتا ہے،ایسا شخص خدا کی ناراضگی مول لے کر جہنم کی طرف پیش قدمی کرتا ہے۔قرآنِ پاک نے اس بدنصیب انسان کی تصویر ان الفاظ میں کھینچی ہے:
فَاَمَّا مَنۡ طَغٰىۙ۔وَاٰثَرَ الۡحَيٰوةَ الدُّنۡيَا۔فَاِنَّ الۡجَحِيۡمَ هِىَ الۡمَاۡوٰىؕ۔(النازعات:39-37)
*”تو جس نے سرکشی کی تھی اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی تھی،دوزخ ہی اس کا ٹھکانا ہوگی۔“*
مولانا ڈاکٹر محمد اسلم صدیقیؒ ان آیات کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
”سب سے پہلے اس بات کو واضح فرمایا کہ وہ کون بدنصیب ہیں جن کا ٹھکانہ آخرت میں جہنم ہوگا۔ارشاد فرمایا کہ جس نے اپنی زندگی کو طغیانی کی نذر کردیا۔دریا میں جب طغیانی آتی ہے تو دریا اپنے کناروں کو توڑ کر باہر نکل جاتا ہے۔ اسی طرح انسانی زندگی میں جب طغیانی اور سرکشی آتی ہے تو وہ توحید اور شرک، حلال اور حرام،جائز اور ناجائز اور اوامر اور نواہی کی حدود کو توڑ کر زندگی کو بگٹٹ اور بے روک ٹوک آوارہ پھرنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔اسے دنیا کی زندگی مہلت عمل اور آخرت کی تیاری کے لیے دی گئی ہے۔لیکن وہ اس دنیا ہی کو مقصد بنا کر عیش و عشرت میں غرق کردیتا ہے۔وہ ہر اس چیز کے درپے ہوتا ہے جو اس کی عیش و عشرت کا سامان بن سکے۔جو اس کی خواہشات کو غذاء بہم پہنچا سکے،جو اس کے سر پر کلغی سجا سکے،اور جو اس کے آرام و راحت کا ذریعہ بنے۔اسے اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ حلال کیا ہے اور حرام کیا ہے۔میرا سر کس آستانے پر جھکتا ہے اور میں اپنے دل کو کس سے آباد رکھتا ہوں۔اسے بھول کر بھی کبھی آخرت کا خیال نہیں آتا۔اور اگر آتا بھی ہے تو وہ حیات دنیا کو حیات آخرت پر ترجیح دیتے ہوئے دنیا کی فکر کرتا ہے اور آخرت کو بھول جاتا ہے۔اس کے احساسات،اس کے خیالات،اس کے افکار اور اس کے اعمال پر صرف خواہشات کا پہرہ ہوتا ہے۔اسے اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ میں جو کچھ کررہا ہوں اس سے میرا اللہ خوش ہوگا یا ناراض ہوگا۔اس نے مجھے زندگی گزارنے کے لیے جو ضابطہ حیات دیا ہے میں اس کی پابندی کررہا ہوں یا اسے پامال کررہا ہوں۔کسی مقام پر بھی اس کی خواہشاتِ نفس میں رکاوٹ پیدا نہیں ہوتی۔وہ شتر بےمہار بن کر زندگی گزارتا ہے۔ایسا شخص یقینا اپنے اللہ کو ناراض کرلیتا ہے اور اس کا ٹھکانہ یقینا جہنم ہوگا۔“(روح القرآن)
Comments
Post a Comment