🌹 *قرآن:کتابِ مظلوم*🌹
✍️ ندیم احمد میر
قرآن ایک زندہ و جاوید کتابِ ہدایت،کتابِ انقلاب،کتابِ منیر،کتابِ آئین اور کتابِ انسانیت ہے جس کا بنیادی اور مرکزی موضوع انسان ہے۔قرآن انسان کو رب سے ملانے اور اسے پھر سے جنت میں اعلیٰ مقام دلانے کے لیے آیا ہے۔قرآن بے شمار خوبیوں اور کمالات سے پُر کتاب ہے اور کسی انسانی کلام میں اتنے انواع و اقسام کی خوبیاں اور کمالات جمع ہو ہی نہیں سکتے۔قرآن ایمان کا منبع اور تزکیہ کا مکمل منتظم ہے۔قرآن نسخہ شفا،زادِ راہ اور سفر کا ساتھی(صاحب فی السّفر)ہے۔قرآن اوّل تا آخر عمل کی دعوت ہے۔قرآن کے لفظ لفظ میں رحمت و شفقت کا ایک جھونکا،محبّت کا ایک پیغام اور سکون و طمانیت کا سامان ہے۔قرآن ایک انسان کی تمام ضرورتیں پوری کر دیتا ہے۔قرآن سے دلوں میں نور اور سرور پیدا ہوتا ہے۔جو کام ابرِ رحمت کے قطرے کھیتوں میں کرتے ہیں وہی کام آیاتِ قرآنی کی تلاوت دلوں میں کرتی ہے۔قرآن ایک انسان کے لیے عمل اور جدوجہد کی راہیں کھولنے اور عزم و ارادہ پیدا کرنے اور ہمت و حوصلہ بڑھانے والی کتاب ہے۔قرآن وہ کتاب ہے جو صحیح اور غلط کے درمیان فرق و تمیز کرنے کے لیے ایک انسان کے دل میں اور نگاہوں کے سامنے فرقان کی میزان آویزاں کر دیتی ہے۔قرآن اللّٰہ کی رسی ہے،جو بندوں کو اپنے رب سے جوڑ دیتی ہے۔قرآن برکتوں کا سرچشمہ اور اللّٰہ تعالیٰ کی تمام رحمتوں کی شاہِ کلید ہے۔قرآن آفتاب علم و حکمت ہے،جس کی روشنی میں انسان اپنی منزلیں طے کر سکتا ہے۔قرآن دل کی بیماریوں کا علاج اور روحانی ترقیوں کا زینہ ہے۔قرآن انسان کی روح کو زندگی اور غذا دیتا ہے،وہ انسان کے باطن کو پروان چڑھاتا ہے اور اس کی روحانی تکمیل کرتا ہے۔قرآن بلندیوں کے راستے دکھانے والا کلام ہے۔قرآن علوم کا بحرِ بیکراں ہے،جس پر جتنا غور کیا جائے اس کی تہہ سے اتنے ہی علم و حکمت کے موتی نکل آئیں گے۔قرآن میں انتہائی وسعت ہے جو کہ وسیع ظرف والے دل میں ہی سماں سکتا ہے۔قرآن کے بحرِ ذخار میں غواصی کرنا فخر و شرف کی بات ہے۔قرآن پر تدبر کرنا تشنگانِ علم کے لیے بے حد ضروری ہے اور یہی ایک راہ ہے جس کے ذریعے وہ قرآن کی روح سے پوری طرح آشنا ہو سکتا ہے۔بلاشبہہ یہ راستہ دشوار،پُرخطر اور لمبا ہے لیکن اس کو کیا کیا جائے کہ اس راستے کو اپنائے بغیر منزل تک پہونچنا ممکن نہیں۔قرآن ایک منظم کتاب ہے،جس میں سورتوں اور آیتوں سے لے کر الفاظ تک باہم مربوط ہیں۔نظمِ قرآن کی اہمیت اگر ذہنوں سے اوجھل ہو جائے تو علم کا ایک بہت بڑا دروازہ جویائے حق کے لیے بند رہے گا۔قرآن علم کے ایک اتھاہ سمندر کے مانند ہے،جس کے وجود سے چہار دانگ عالَم میں مختلف علوم کے دریا نکل آتے ہیں،جو پوری دنیا کو علم کے نور سے روشناس کراتے ہیں۔اس حقیقت سے تو کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ قرآن مجید ایک ادبی شاہکار ہے۔زندگی کے جتنے شعبے ہیں،یہ کتاب ان تمام سے متعلق رہنمائی دیتی ہے۔یہ صرف کتابِ ہدایت ہی نہیں بلکہ اس میں ہدایت کے بیّنات بھی ہیں۔مزید یہ کہ یہی کتاب حق کی کسوٹی اور پہچان ہے۔اس کتابِ حکیم کے عجائب بے شمار ہیں،جو کبھی بھی ختم نہیں ہو سکتے اور نہ ہی ان کا احاطہ کیا جا سکتا ہے۔اگرچہ قرآن کی بہترین تفسیر خود قرآن ہے لیکن حدیث و سیرت کا پورا سرمایہ بھی قرآن فہمی کا قیمتی اور بہترین سرمایہ ہے،جن سے قرآن فہمی کا مسافر عہدہ برآ نہیں ہو سکتا۔یہ انسانی دسترس سے ماوراء ہے کہ وہ اس کلامِ الٰہی کی توصیف بیان کرے۔اس حوالے سے محمد عنایت اللہ اسد سبحانی لکھتے ہیں کہ:
”بظاہر قرآن ایک نہایت سادہ سی کتاب ہے،مگر حقیقت میں وہ ایک اتھاہ سمندر ہے جس کی گہرائی کبھی ناپی نہیں جا سکتی!
وہ علم و حکمت کا ایسا خزانہ جس کے موتی کبھی شمار نہیں کیے جا سکتے!
وہ ایک ایسا آفتاب ہے جس کی کرنیں کبھی سمیٹی نہیں جا سکتیں!
وہ ایک ایسا خوان کرم ہے جس کی نعمتیں کبھی کم نہیں ہوسکتیں!
وہ ایک ایسا چشمہ حیات ہے جس کے سوتے کبھی خشک نہیں ہو سکتے!
وہ ایک ایسا آسمان ہے جہاں مہر و ماہ کا ہجوم ہے!
وہ ایک ایسا میخانہ ہے جس کے ساغر و مینا کبھی گنے نہیں جا سکتے،پینے والوں کی کتنی ہی کثرت ہو،وہاں کبھی تشنہ لبی کا شکوہ نہیں کیا جا سکتا،مختصر یہ کہ اس کتابِ الٰہی کی توصیف نہیں کی جاسکتی۔“(علامہ حمید الدین فراہیؒ،ص 95)
ایک وقت تھا جب کہ پوری انسانیت گُھپ اندھیروں میں پڑ کر بے مقصد گزار رہی تھی۔ہر سُو گناہوں کا بازار گرم تھا اور انسانیت اس پہ شرمسار تھی۔اس لیے وہ ایک ابرِ رحمت کے لیے ترستی تھی تاکہ جُھلستا ہوا معاشرہ ایک صحت مند اور مثالی معاشرے میں تبدیل ہو جائے۔اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت برجوش آئی اور اس نے چلچلاتی دھوپ میں اچانک انسانیت کے سر پر بادل نمودار کر دئے تاکہ بارانِ رحمت کو اس کے اوپر انڈیل دیا جائے،جو کہ عرشِ الٰہی سے قرآن کی شکل میں برسنے لگا اور مسلسل تئیس سال تک برستا رہا۔جس نے دلوں کے بنجر زمین کو زرخیزی بخش کر شاداب کر دیا اور انہیں محبوبِ حقیقی کی محبت کا مسکن بنا دیا۔انسان کو اپنی شخصیت سے آگاہ کیا اور اسے جہاں بینی اور جہاں بانی کے زریں اصول سکھائے۔ضلالت و گمراہی کے قعر عمیق سے نکال کر انسانوں کو ہدایت کی شاہراہ پر گامزن کر دیا۔اپنے ہی جیسے انسانوں کی غلامی کا طوق اتار پھینک کر وحدتِ الٰہی کا انہیں علمبردار و نقیب بنا دیا۔اسی نسخہء کیمیا سے آپﷺ نے عرب کی مس خام کو کندن بنا دیا اور ایک ایسا انقلاب برپا کیا جس کے نتیجے میں:
*رہا ڈر نہ بیڑے کو موج بلا کا*
*اِدھر سے اُدھر پھر گیا رخ ہوا کا*
ماضی میں صحابہ کرامؓ نے اس کے دم سے ہی چمنستان علم میں بہار لائی،جہالت کی خزاں روپوش کر دی،شاندار اور دل کش تہذیب قائم کی،باطل کا خرمن خاکستر کیا،ان کے ایوانوں میں دھول اُڑا دی اور مستحکم شہنشاہوں کو اکھاڑ کر رکھ دیا۔یہ اس لیے ہوا کیونکہ ان کی ساری دلچسپیوں اور عرق ریزیوں کا محور بس یہی قرآنِ پاک تھا اور اسی میں انہوں نے اپنی تمام قوتیں اور ساری ذہانتیں صرف کر ڈالیں،ان کے پاس جو کچھ تھا بس یہی قرآن تھا۔قرآن پاک نے ان کے دلوں کو چمکا کر بالکل آئینہ کر دیا تھا۔قرآن پاک پر تدبر و تفکر ہی ان کا سب سے لذیذ مشغلہ تھا،یہی ان کا دن رات وظیفہ اور یہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ان کے اندر قرآن پاک کا نور حکمت اس طرح سرایت کر گیا تھا،اس کی ضیاپاشیوں سے ان کے دل و دماغ اس طرح منور ہوگیے تھے کہ اب وہ جو کچھ سوچتے،قرآن پاک کی ہی روشنی میں سوچتے،جو کچھ لکھتے قرآن پاک کے ہی آئینہ میں لکھتے تھے۔انہیں جو کچھ بھی دیکھنا ہوتا قرآن پاک کے ہی روشنی میں دیکھتے تھے،علم و تحقیق کے جس کوچہ میں بھی قدم رکھتے ان کے ہاتھ میں یہی قندیل ہوتی تھی۔انہوں نے جس وادی میں بھی قدم رکھا قرآن پاک کا چراغ ان کے ہاتھ میں تھا اور ان کے سینوں میں قرآنی علوم کے چشمے ابلتے تھے۔یہ قرآن پاک ہی ان کا رہبر اور وہی ان کا محور تھا۔وہ کتاب الٰہی پر ہر پہلو سے غور کرتے تھے،وہ ہر ہر زاویہ سے قرآن کے علوم و معارف اور اس کے اسرار و حکم کا سراغ لگاتے تھے۔وہ قرآن کے سچے عاشق اور اس کے لفظ لفظ پر جاں نثار کرنے والے لوگ تھے۔وہ علوم القرآن کے واقف اسرار اور قرآن پاک کے دانائے رموز تھے۔قرآن ہی ان کے دل و دماغ اور علم و عمل پر حاوی تھا۔قرآن پاک سے والہانہ تعلق کے نتیجہ میں ایک ایک آیت پر غور و تدبر اور اس سے اثر پذیری کی کیفیت نے ان کی رگوں میں محبت الٰہی کی بجلیاں دوڑا دی تھیں،اقامت دین اور غلبہ اسلام کے لیے ان کے اندر اِک جنونی کیفیت پیدا کر دی تھی۔انہوں نے قرآن پاک کو حرزِ جاں اور وردِ زباں بنایا تھا اور اسے اپنی خلوت و جلوت کا رفیق اور اپنی صبح و شام کا ساتھی بنایا تھا۔انہوں نے قرآن پاک کو اپنے ذہن و دماغ کے گلزاروں میں بسایا تھا اور اپنی تمام طاقتوں اور صلاحیتوں کو اس کی خدمت میں لگا دیا تھا۔انہوں نے اپنی زندگیوں کو قرآن کی روشنی میں سنوارا تھا اور اسی کے چاند تاروں سے اپنے آسمانوں کو سجایا تھا۔وہ قرآن پاک کے ساتھ اپنے شب و روز گزارتے تھے اور اسی کی روشنی میں اپنی زندگی کا سفر طے کرتے تھے۔انہوں نے اس کتاب کے ذریعہ اپنی قلبی بیماریوں کا علاج کیا اور وہ اپنی اخلاقی بلندیوں اور روحانی عظمتوں سے بھی ہمکنار ہوگئے۔اس کلامِ عظیم کا حق انہوں نے اس طرح ادا کیا کہ اس کی ایک ایک آیت پر ڈیرا ڈال دیا،اس کی گہرائیوں میں جو موتی ہیں اور اس کی بلندیوں میں جو بجلیاں ہیں ان تمام سے اپنی قسمت کے ایوانوں کو مزین کر دیا۔قرآن پاک ہی تنہا وہ سرچشمہ ہدایت اور چشمہ صافی تھا،جس سے وہ لوگ سیراب ہوئے تھے اور یہی وہ آفتاب علم و حکمت تھا،جس کی روشنی میں وہ اپنی منزلیں طے کرتے تھے۔قرآن پاک سے انہیں اس قدر والہانہ وابستگی تھی کہ وہ لوگ رب کریم کا کوئی اشارہ پاتے ہی سر تسلیم خم کر دیتے،اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے جان کی بازی لگا دیتے،وہ اپنے رب کی بندگی اور اس کے احکام کی تعمیل کے لیے ہر آن مستعد رہتے،وہ اپنے دین کے لیے ہر طرح کی مصیبتیں جھیلتے اور ہر طرح کی قربانیاں دینے کے لیے ہمہ آن تیار رہتے تھے۔قرآن پاک ہی ان لوگوں کا ذہن اور دماغ تھا،یہی ان کی طبیعت اور ان کا مزاج تھا،یہی ان کا کردار اور ان کا گفتار تھا،یہی ان کی سیرت اور ان کا اخلاق تھا،ان کے خیالات و جذبات میں قرآن پاک کا ہی جلوہ تھا،ان کی رگوں میں دوڑنے والے خون میں قرآن پاک کی ہی بجلیاں کوند رہی تھیں،ان کے افکار اور ان کی امنگیں قرآن پاک کی ہی آئینہ دار تھیں،المختصر یہ کہ وہ قرآن پاک کی چلتی پھرتی تصویر تھیں،ان کا ایک ایک قول اور ایک ایک عمل قرآن پاک کا ترجمان تھا۔
قرآنِ پاک کی آیات کے اندر وہ سحر ہے کہ جس نے سلیم الفطرت انسانوں کے دلوں کو مفتوح اور ذہنوں کو مسحور کر لیا۔انتہائی قلیل مدت میں قرآن نے عرب کے شتر بانوں کو جہاں بانوں کی صف میں لاکھڑا کیا،حجاز کے صحرا نشینوں کو بزم عالم کا صدر نشیں بنا دیا اور مؤمنین کو عزت و اقبال کی ساری کامرانیاں عطا کیں۔اس کی تاثیر اور ہمہ گیری نے عرب کے باریہ نشینوں اور عجم کے مادہ گزیدوں کو انسانیت کے لیے باعثِ شرف اور اخلاق و فضائل اور تہذیب و تمدن کا رہنما بنا دیا،اسی چھوٹی سی کتاب نے عرب کے ناخواندہ لوگوں کو علم و حکمت کے موتیوں سے مالا مال کیا اور انہیں اس بحر کا شناور اور اس میدان کا شہسوار بنا دیا۔اس نے انسانیت کو فرش سے اٹھا کر عرش پر بٹھا دینے میں ایک کلیدی رول ادا کرنے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔پروفسر خورشید احمد لکھتے ہیں کہ:
”قرآن نے انسانیت کو ایک نیا راستہ دکھایا ہے۔اس نے قبیلے،نسل،رنگ،خاک و خون اور جغرافیائی تشخص کے بتوں کو پاش پاش کیا ہے۔اس نے یہ اعلان کیا ہے کہ پوری انسانیت ایک گروہ ہے اور اس میں جمع تفریق اور نظامِ اجتماعی کی تشکیل کے لیے صرف ایک ہی اصول صحیح ہے،یعنی عقیدہ اور مسلک۔اسی اصول کے ذریعے اس نے ایک نئی اُمت بنائی اور اس اُمت کو انسانیت کی اصلاح اور تشکیل نو کے عظیم کام پر مامور کر دیا:
كُنۡتُمۡ خَيۡرَ اُمَّةٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَتَنۡهَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡكَرِ وَتُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِؕ (آل عمران:110)
”اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔“
قرآن نے اس اُمت کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی بھی صورت گری کی ہے،اور اسے باقی انسانیت کے لیے خیر و صلاح کا علم بردار بنایا ہے۔یہی وہ چیز تھی جس نے چھٹی صدی عیسوی کی ظلم اور تاریکی سے بھری ہوئی دنیا کو تاریخ کے ایک نئے دور سے روشناس کرایا۔جس نے عرب کے اُونٹ چرانے والوں کو انسانیت کا حدی خواں بنایا۔جس نے ریگستان کے بدوؤں کو تہذیب و تمدن کا معمار بنا دیا۔جس نے مفلسوں اور فاقہ کشوں میں سے وہ لوگ اٹھائے،جو انسانیت کے رہبر بنے۔جس نے وہ نظام قائم کیا،جس نے طاغوت کی ہر قوت سے ٹکر لی اور اسے مغلوب کر ڈالا۔“(قرآن مجید اور اسلامی جدوجہد،ص 37)
قرآن طاقت کا ایک بہت بڑا خزانہ ہے،جو آج بھی مُردہ اور تباہ حال انسانیت کو ایک حیات بخش نظام عطا کر سکتا ہے،بد اخلاقیوں اور ہوسناکیوں کے گرداب میں پھنسی ہوئی انسانیت کو اس کے اصل مقام و مرتبہ سے آشنا کر سکتا ہے،فساد سے بھری ہوئی دنیا کو تباہی سے بچا سکتا ہے اور اپنے ماننے والوں کو انسانیت کا رہنما اور تاریخ کا معمار بنا سکتا ہے،بشرطیکہ اس کے وہ حقوق ادا کئے جائیں جو اس کے شایانِ شان ہیں۔محمد عنایت اللّٰہ اسد سبحانی لکھتے ہیں کہ:
مسلمانوں کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ قرآن پاک ہی ان کے ہر مسئلے کا حل ہے،وہ ان کے ہر دکھ کا مداوا اور ان کی ہر بیماری کا علاج ہے،وہ ان کی عظمت و شوکت کا راز اور ان کی عزت و قوت کا سرچشمہ ہے،یہ ایسی کتاب ہے جو ہر مرحلے میں مسلمانوں کی دست گیری اور نازک سے نازک موقع پر ان کی چارہ گری کر سکتی ہے۔۔۔قرآن پاک ہی ایک ایسی کتاب ہے،جس کے قدر داں ناپید ہیں۔جبکہ تنہا یہی وہ کتاب ہے جو سسکتی اور بلکتی ہوئی امت مسلمہ کو اس کی مصیبتوں سے نجات دلا سکتی ہے اور بھٹکتی اور ٹھوکریں کھاتی ہوئی انسانیت کے لیے مشعل راہ بن سکتی ہے۔جبکہ تنہا یہی وہ کتاب ہے جو انسانیت کو اس کا کھویا ہوا سکون واپس دلا سکتی ہے۔جو بے چین دلوں کو چین اور مضطرب روحوں کو سکون کی دولت سے مالا مال کر سکتی ہے۔۔۔تنہا قرآن پاک ہی وہ خوان نعمت ہے،جس سے آسودہ ہو کر ہم دنیا کو آسودہ کر سکتے ہیں۔تنہا قرآن پاک ہی وہ مشعل راہ ہے،جسے ہاتھ میں لے کر ہم تاریکیوں کے دبیز پردے چاک کر سکتے اور ترقی کی منزلیں طے کر سکتے ہیں۔(قرآن ہی ہے دوائے دل،ص 46-41)
لیکن اس سے بڑا المیہ کیا ہوگا کہ دورِ حاضر کے نام نہاد مسلمانوں نے اسے کتابِ مہجور بنا دیا ہے،دلوں میں سجانے کے بجائے اسے طاقوں میں سجا دیا،زندگی کا عمل بنانے کے بجائے اسے گلے کا تعویز بنا دیا،کتابِ زندگی اور کتابِ انقلاب سمجھ کر اپنی زندگی اسکی رہنمائی میں دے دینے اور اجتماعی زندگی میں اس کے ذریعہ انقلاب برپا کرنے کے بجائے اسے صرف حصولِ ثواب کی کتاب بنا دی۔مولانا ڈاکٹر محمد اسلم صدیقیؒ کے بقول:
”آج ہم روئے زمین پر ایک ایسی امت ہیں جن کے پاس قرآن کریم کی شکل میں ہیروں کی ایک کان موجود ہے مگر ہم اسے خزف ریزے سمجھ کر پسِ پشت پھینک چکے ہیں۔ہمارے پاس زندگی کے ایک ایک مسئلے کا حل موجود ہے مگر ہم اسے درخوارِ اعتنا سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ہمارے پاس ایک بہترین نظامِ زندگی میسر ہے مگر اسے نافذ کرنے کے لیے آمادہ نہیں۔ہمارے ہاتھوں میں عصائے موسیٰ ہے لیکن ہم جادوگروں کی رسیوں خوف زدہ ہیں۔ہمارے پاس ایک مشعلِ حق ہے لیکن ہم تاریکیوں میں ٹامک ٹوئیاں مارنے پر مصر ہیں۔قرآن ہم سے فریاد کرتا ہوا سنائی دیتا ہے اللّٰہ ہی بہتر جانتا ہے ہم کب اس پر کان دھریں گے۔“(تفسیر رُوحُ القرآن،جلد اول،ص ٤٧)
خرم مرادؒ لکھتے ہیں:
”آج ہمارے پاس وہی قرآن ہے۔اس کے لاکھوں نسخے گردش میں ہیں۔گھروں میں،منبروں سے دن اور رات مسلسل اس کی تلاوت کی کی جاتی ہے۔اس کے معنی و مطالب کے جاننے کے لیے تفاسیر کے ذخیرے موجود ہیں۔اس کی تعلیمات کو بیان کرنے کے لیے،اور ہمیں اس کے مطابق زندگی گزارنے پر آمادہ کرنے کے لیے،تقاریر کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔لیکن آنکھیں خشک رہتی ہیں،دلوں پر اثر نہیں ہوتا،دماغوں تک بات نہیں پہنچتی،زندگیوں میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ایسا لگتا ہے کہ ذلت و پستی قرآن کو ماننے والوں کے لیے لکھ دی گئی ہے۔ایسا کیوں کیوں ہے؟اس لیے کہ اب ہم قرآن کو زندہ حقیقت کے طور پر نہیں پڑھتے۔یہ ایک مقدس کتاب ضرور ہے مگر ہمارا خیال ہے کہ ہمیں صرف ماضی کی باتیں بتاتی ہے۔۔۔کافروں کے بارے میں،مسلمانوں کے بارے میں،عیسائیوں اور یہودیوں کے بارے میں،مومنین اور منافقین کے بارے میں۔۔۔وہ جو کسی زمانے میں ہوتے تھے!(قرآن کا راستہ، ص:٢٢)
ذرا سوچیے! جس مُسلم اُمّت نے اپنے منشور و دستور کو”مہجوری“ کا مقام دیا ہو وہ روزِ محشر کے دن کیا منہ دکھائے گی اپنے اللّٰہ اور اس کے رسولِ برحقﷺ کو؟ ایک حساس اُمتی کے پاؤں تلے زمین کھسک جاتی ہے جب روزِ محشر کی اس شکایتِ نبویﷺ کی ایک جھلک اس کی آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے جو رب کے سامنے نبی رحمتﷺ اپنی امت کے ان افراد کے خلاف کریں گے جنہوں نے نہ قرآن کو قابلِ التفات سمجھا ہوگا اور نہ ہی اس کے حقوق ادا کئے ہوں گے:
وَقَالَ الرَّسُوۡلُ يٰرَبِّ اِنَّ قَوۡمِى اتَّخَذُوۡا هٰذَا الۡقُرۡاٰنَ مَهۡجُوۡرًا(الفرقان:25)
*اور رسُولؐ کہے گا کہ”اے میرے ربّ،میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو نشانہ تضحیک بنا لیا تھا۔“*
اس آیتِ مبارکہ کے ذیل میں ڈاکٹر اسرار احمدؒ فرماتے ہیں:
”تاویل خاص کے مطابق حضور ﷺ کی یہ شکایت قریش مکہّ کے بارے میں ہے کہ اے میرے پروردگار! میں نے تیرا پیغام ان تک پہنچانے اور انہیں قرآن سنانے کی ہر امکانی کوشش کی ہے،لیکن یہ لوگ کسی طرح اسے سننے اور سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں،جبکہ اس آیت کی تاویل عام یہ ہے کہ حضورﷺ کی یہ شکایت قیامت کے دن اپنی امت کے ان افراد کے خلاف ہوگی جو اس”مہجوری“ کے مصداق ہیں،کہ ان لوگوں نے قرآن کو لائقِ التفات ہی نہ سمجھا۔علامہ اقبالؒ کے اس مصرعے میں اسی آیت کی تلمیح پائی جاتی ہے: ع”خوار از مہجورئ قرآں شدی“کہ اے مسلمان آج تو اگر ذلیل و خوار ہے تو اس کا سبب یہی ہے کہ تو نے قرآن کو چھوڑ دیا ہے۔
اس سلسلے میں ایک بہت اہم اور قابل غور نکتہ یہ بھی ہے کہ قریش مکہّ نے تو اپنی خاص ضد اور ڈھٹائی میں قرآن کو اس موقف کے تحت ترک کیا تھا کہ یہ اللہ کا کلام ہے ہی نہیں اور محمدﷺ نے خود اپنی طرف سے اسے گھڑ لیا ہے۔لیکن آج اگر کوئی شخص کہے کہ میں قرآن پر ایمان رکھتا ہوں اور اسے اللہ کا کلام مانتا ہوں،مگر عملی طور پر اس کا رویہ ایسا ہو کہ وہ قرآن کو لائقِ اعتناء نہ سمجھے،نہ اسے پڑھنا سیکھے،نہ کبھی اس کے پیغام کو جاننے کی کوشش کرے تو گویا اس کے حال یا عمل نے اس کے ایمان کے دعوے کی تکذیب کردی۔چناچہ اس آیت کے حاشیے ترجمہ شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ میں مولانا شبیر احمد عثمانیؒ اس بارے میں اپنی رائے کا اظہار ان الفاظ میں فرماتے ہیں:”آیت میں اگرچہ مذکور صرف کافروں کا ہے تاہم قرآن کی تصدیق نہ کرنا،اس میں تدبر نہ کرنا،اس پر عمل نہ کرنا،اس کی تلاوت نہ کرنا،اس کی تصحیح قراءت کی طرف توجہ نہ کرنا،اس سے اعراض کر کے دوسری لغویات یا حقیر چیزوں کی طرف متوجہ ہونا،یہ سب صورتیں درجہ بدرجہ ہجران قرآن کے تحت میں داخل ہوسکتی ہیں۔“
مقام غور ہے کہ آج اگر ہم اپنی دنیا سنوارنے کے لیے انگریزی زبان میں تو مہارت حاصل کرلیں لیکن قرآن کا مفہوم سمجھنے کے لیے عربی زبان کے بنیادی قواعد سیکھنے کی ضرورت تک محسوس نہ کریں،تو قرآن پر ہمارے ایمان کے دعوے اور اس کو اللہ کا کلام ماننے کی عملی حیثیت کیا رہ جائے گی؟چناچہ ہر مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ قرآن کے حقوق کے بارے میں آگاہی حاصل کرے،اس سلسلے میں عملی تقاضوں کو سمجھے اور ان تقاضوں پر عمل کرنے کی حتی المقدور کوشش کرتا رہے۔اس موضوع پر میرا ایک نہایت جامع کتابچہ”مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق“دستیاب ہے۔اس کا انگلش،عربی،فارسی اور ملایا زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔قرآن کے حقوق کا ادراک حاصل کرنے کے لیے اس کتابچے کا مطالعہ ان شاء اللہ بہت مفید ثابت ہوگا۔(بیان القرآن)
قرآنِ کریم کے متعلق ہمارے معاشرے میں مجرمانہ طرزِ فکر اور طرزِ عمل پایا جاتا ہے۔یہ قرآنِ پاک کے ساتھ اسی ظلم کا نتیجہ ہے کہ ہمارے پاس اتنی اعلیٰ و ارفع نعمت اور آفاقی و ابدی سرچشمہ ہدایت ہونے کے باوجود بھی اپنے معاشرے میں تبدیلی کا نام و نشان تک نہیں ملتا اور روز بروز عصرِ حاضر کا انسان بے شمار مسائل و مشکلات سے دوچار ہو رہا ہے۔جب تک ہم اس گناہِ عظیم سے باز آکر قرآنِ پاک کی حقیقی عظمت،اہمیت،افادیت اور زندگی گزارنے کے لیے اس کی اصل حیثیت کو سمجھنے میں کامیاب نہیں ہوں گے تب تک ہماری مجموعی حالت نہیں بدلے گی۔مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے اس حوالے سے چند چشم کشا سطور تحریر کئے ہیں،جنہیں یہاں ہدیہ ناظرین کیا جا رہا ہے۔لکھتے ہیں:
”پس جو قوم خدا کی کتاب رکھتی ہو اور پھر بھی ذلیل و خوار اور محکوم و مغلوب ہو تو سمجھ لیجیے کہ وہ ضرور کتاب الٰہی پر ظلم کر رہی ہے اور اس پر یہ سارا وبال اسی ظلم کا ہے۔خدا کے اس غضب سے نجات پانے کی اس کے سوا کوئی صورت نہیں کہ اس کی کتاب کے ساتھ ظلم کرنا چھوڑ دیا جائے،اور اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کی جائے۔اگر آپ اس گناہ عظیم سے باز نہ آئیں گے تو آپ کی حالت ہرگز نہ بدلے گی خواہ آپ گاؤں گاؤں کالج کھول دیں اور آپ کا بچہ بچہ گریجویٹ ہو جائے اور آپ یہودیوں کی طرح سودخواری کر کے کروڑ پتی ہی کیوں نہ بن جائیں۔“(خطبات،ص ٤٣)
Comments
Post a Comment