🌹 *ایک حدیثِ پاک سے غلط استدلال*🌹

✍️ ندیم احمد میر

ایک حدیثِ پاک میں آیا ہے کہ”جس نے میری امت کے فساد کے وقت میری سنت کو مضبوطی سے تھامے رکھا اس کے لیے سو شہیدوں کا اجر ہے۔“(السلسلة الضعيفة:326)
مولانا الیاس گھمن اس حدیثِ پاک کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
”سنت کی دو قسمیں ہیں،سنت عادت و سنت عبادت،نبی کریمﷺ نے بعض اعمال اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت کے طور پر ادا فرمائے اور بعض اپنے بشری اور انسانی تقاضے کی بنا پر۔اگرچہ حضور پاکﷺ کی ساری زندگی عبادت ہی ہے۔دیکھئے جیسے سر مبارک میں تیل،کھنگی اور کھانے کے بعد مسواک،سوتے وقت مسواک،کھانے سے قبل ہاتھ دھونا،میٹھے کا استعمال،جوتے کا استعمال وغیرہ یہ وہ اعمال ہیں جن کو حضرت محمدﷺ نے بطور عادت اور ضرورت کے طور پر استعمال فرمایا ہے۔
مگر وضو کے وقت مسواک کا استعمال،نماز کے لیے وضو،غسل جنابت و دیگر اعمال شریعت جیسے نماز،روزہ،حج وغیرہ ان اعمال کو حضرت محمدﷺ نے عبادت کے طور پر ادا فرمایا ہے۔اس حدیث میں سنت سے مراد وہ حقیقت ہے جس کو حضرت محمدﷺ نے عادت کے طور پر ادا فرمایا ہے اور وہ بھی اجر و ثواب سے خالی نہیں ہیں۔
جہاد ایک ایسا شرعی حکم ہے جس کا زندہ ہونا پورے دین کا زندہ ہونا ہے اور اس کا ختم ہونا پورے دین کا ختم ہونا ہے۔اسی بنا پر جس قدر اس حکم پر زور دیا گیا ہے شاید شریعت نے کسی اور پر اتنا زور نہیں دیا یہ چونکہ پورے دین کی بنیاد ہے۔۔۔حدیث شریف میں ایک سنت کو فساد کے دور میں مضبوطی سے تھامنے یا زندہ کرنے پر(دونوں کا مطلب ایک ہی ہے) سو شہیدوں کے اجر کا وعدہ کیا گیا ہے۔اس لیے یہاں یہ بات بھی خوب سمجھ لیں کہ ایک ہوتا ہے اجر یعنی مزدوری اور ایک ہوتا ہے مقام اور مرتبہ۔اجر،اُجرت اور مزدوری الگ چیز ہے اور مرتبہ بالکل ایک الگ چیز۔سو شہیدوں کا اجر مل جانے سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ ایک شہید کا مرتبہ اور مقام بھی مل جائے۔
اسی لیے میدان جنگ میں جام شہادت نوش کرنے والے مجاہد کے لیے اللّٰہ تعالیٰ نے جس مقام اور مرتبہ کا وعدہ فرمایا ہے اس کے ساتھ سو شہید تو کجا لاکھوں شہدا کا اجر بھی مقابلہ نہیں کر سکتا۔۔۔(جہاد فی سبیل اللّٰہ اور اعتراضات کا علمی جائزہ)

شہید کے مرتبہ اور اجر کو ایک مثال سے سمجھیے۔ایک شخص اسکول کا استاد ہے اور دوسرا یونیورسٹی کے پروفیسر۔استاد اپنی تنخواہ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ کوچنگ کر کے پروفیسر سے زیادہ پیسہ کماتا ہے،تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اُستاد نے پروفیسر کا مقام حاصل کر لیا۔بلکہ اُستاد کا مقام ایک ہے اور پروفیسر کا دوسرا۔اس مثال سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوئی کہ اجر سے مراد کچھ اور ہے اور مقام دوسری چیز ہے۔کوئی شخص گھر بیٹھے مسواک کر رہا ہے اور دوسرا اپنے اسلحہ سے باطل کے خلاف میدان میں کود پڑ کر لڑ رہا ہے۔دونوں کو برابر قرار دینا بے وقوفی نہیں تو اور کیا ہے۔حدیثِ پاک کے ظاہری پہلو پر نظر دوڑا کر آج کچھ لوگوں نے چند سنتوں پر عمل کر کے اپنا مقام مجاہدوں اور غازیوں سے اُونچا کر رکھا ہے۔اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم احادیث کا مفہوم اچھی طرح سمجھیں ورنہ گمراہ ہو جانے کا خطرہ ہے کیوں کہ کتنے لوگوں کا آج گمان ایسا ہی ہے جیسے اوپر بیان کیا گیا ہے،یہ گمراہی نہیں تو اور کیا ہے۔اس حوالے سے مولانا الیاس گھمن کی کتاب”جہاد فی سبیل اللّٰہ اور اعتراضات کا علمی جائزہ“ اور مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی کتاب”الجہاد فی الاسلام“ کا مطالعہ مفید ثابت ہو سکتا ہے تاکہ جہاد کے متعلق جو غلط تصور لوگوں کے ذہنوں میں پیوستہ کر دئے گئے ہیں انہیں بروقت دور کیا جا سکے۔

جہاد کی فضیلت سے متعلق پروفیسر خورشید احمد کا مندرجہ ذیل قول بہت سے شبہات کا ازالہ کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے:
*”اللّٰہ کی راہ میں جان دینے والے کی موت کو عرف عام کی موت سے یہ کہہ کر مہمیز کر دیا گیا ہے کہ یہی اصل حیات ہے۔“*
مذکورہ قول کی گواہی قرآنِ پاک ذیل کے دو جگہوں پہ فراہم کر رہا ہے:
وَلَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ يُّقۡتَلُ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ اَمۡوَاتٌ ؕ بَلۡ اَحۡيَآءٌ وَّلٰـكِنۡ لَّا تَشۡعُرُوۡنَ۔(البقرۃ:154)
*”اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں،انہیں مُردہ نہ کہو،ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں،مگر تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہوتا۔“*

وَلَا تَحۡسَبَنَّ الَّذِيۡنَ قُتِلُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ اَمۡوَاتًا ‌ؕ بَلۡ اَحۡيَآءٌ عِنۡدَ رَبِّهِمۡ يُرۡزَقُوۡنَۙ۔(آل عمران:169)
*”جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں انھیں مُردہ نہ سمجھو،وہ تو حقیقت میں زندہ ہیں،اپنے رب کے پاس رزق پا رہے ہیں۔“*

چند مذہبی مراسم و مناسک کی پابندی جہاد کے عظیم الشان کام کے برابر نہیں ہو سکتی۔قرآنِ پاک دو ٹوک الفاظ میں اس جہاد کو جو اللّٰہ کی راہ میں جان اور مال کے ساتھ کیا جائے افضل اور اعلیٰ قرار دیتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَا يَسۡتَوِى الۡقَاعِدُوۡنَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ غَيۡرُ اُولِى الضَّرَرِ وَالۡمُجَاهِدُوۡنَ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ بِاَمۡوَالِهِمۡ وَاَنۡفُسِهِمۡ‌ ؕ فَضَّلَ اللّٰهُ الۡمُجٰهِدِيۡنَ بِاَمۡوَالِهِمۡ وَاَنۡفُسِهِمۡ عَلَى الۡقٰعِدِيۡنَ دَرَجَةً‌  ؕ وَكُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الۡحُسۡنٰى‌ؕ وَفَضَّلَ اللّٰهُ الۡمُجٰهِدِيۡنَ عَلَى الۡقٰعِدِيۡنَ اَجۡرًا عَظِيۡمًا۔(النساء:95)
*”مسلمانوں میں سے وہ لوگ جو کسی معذوری کے بغیر گھر بیٹھے رہتے ہیں اور وہ جو اللّٰہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرتے ہیں،دونوں کی حیثیت یکساں نہیں ہے۔اللّٰہ نے بیٹھنے والوں کی بہ نسبت جان و مال سے جہاد کرنے والوں کا درجہ بڑا رکھا ہے۔اگرچہ ہر ایک کے لیے اللّٰہ نے بھلائی ہی کا وعدہ فرمایا ہے،مگر اس کے ہاں مجاہدوں کی خدمات کا معاوضہ بیٹھنے والوں سےبہت زیادہ ہے۔“*
ڈاکٹر انیس احمد اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ:
”اس آیت مبارکہ میں قرآن حکیم نے اس غلط العام تصور کو جڑے اکھاڑ کر پھینک دیا ہے کہ میدان جہاد میں شرک و کفر کے خلاف صف آراء ہو کر جان اور مال سے جہاد کرنا”اصغر“ ہے اور کسی گوشہ میں سکون سے بیٹھ کر اللّٰہ اللّٰہ کرنا،تسبیح کے دانے پھیرنا،چلہ کشی کرنا،ایک خود ساختہ وقت معین کے لیے گھر بار چھوڑ کر پاؤں گرد آلود کرنا”افضل“ یا”اکبر“ جہاد ہے! نہ صرف یہ آیت مبارکہ بلکہ دیگر مقامات پر قرآن کریم میدان جہاد میں جان اور مال سے جہاد کرنے کو افضل اور اعلیٰ قرار دیتا ہے۔قرآن کریم کے مال اور جان سے جہاد کرنے کے بارے میں فیصلہ کر دینے کے بعد اس موضوع پر کسی گفتگو کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔اس لیے غلط العام تصور کہ جان اور مال کا جہاد”اصغر“ اور ”مجاہدہ نفس“ اکبر جہاد ہے قرآن کریم کی واضح آیت مبارکہ سے ہٹ کر ایک تصور ہے جس کی بنیاد قرآن و سنت میں نہیں پائی جاتی۔“(روزہ اور ہماری زندگی،ص ١٦٠)

قرآنِ پاک میں دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے:
اَجَعَلۡتُمۡ سِقَايَةَ الۡحَـآجِّ وَعِمَارَةَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَـرَامِ كَمَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَجَاهَدَ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ‌ ؕ لَا يَسۡتَوٗنَ عِنۡدَ اللّٰهِ ‌ؕ وَ اللّٰهُ لَا يَهۡدِى الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِيۡنَ‌ۘ۔اَلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَ هَاجَرُوۡا وَجَاهَدُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ بِاَمۡوَالِهِمۡ وَاَنۡفُسِهِمۡۙ اَعۡظَمُ دَرَجَةً عِنۡدَ اللّٰهِ‌ؕ وَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡفَآئِزُوۡنَ‏۔(التوبۃ:20-19)
*”کیا تم لوگوں نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی مجاوری کرنے کو اس شخص کے کام کے برابر ٹھیرا لیا ہے جو ایمان لایا اللّٰہ پر اور روز آخر پر اور جس نے جانفشانی کی اللّٰہ کی راہ میں؟ اللّٰہ کے نزدیک تو یہ دونوں برابر نہیں ہیں اور اللّٰہ ظالموں کی رہنمائی نہیں کرتا۔اللّٰہ کے ہاں تو انہی لوگوں کا درجہ بڑا ہے جو ایمان لائے اور جنہوں نے اس کی راہ میں گھر بار چھوڑے اور جان و مال سے جہاد کیا وہی کامیاب ہیں۔“*
اس آیت کے ذیل میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے بہت ہی قیمتی نوٹ لکھا ہے۔لکھتے ہیں:
”یعنی کسی زیارت گاہ کی سجادہ نشینی،مجاوری اور چند نمائشی مذہبی اعمال کی بجا آوری،جس پر دنیا کے سطح بیں لوگ بالعموم شرف اور تقدس کا مدار رکھتے ہیں،خدا کے نزدیک کوئی قدر و منزلت نہیں رکھتی۔اصلی قدر و قیمت ایمان اور راہ خدا میں قربانی کی ہے۔ان صفات کا جو شخص بھی حامل ہو وہ قیمتی آدمی ہے خواہ وہ کسی اونچے خاندان سے تعلق نہ رکھتا ہو اور کسی قسم کے امتیازی طرّے اس کو لگے ہوئے نہ ہوں۔لیکن جو لوگ ان صفات سے خالی ہیں وہ محض اس لیے کہ بزرگ زادے ہیں۔سجادہ نشینی ان کے خاندان میں مدتوں سے چلی آرہی ہے اور خاص خاص موقعوں پر کچھ مذہبی مراسم کی نمائش وہ بڑی شان کے ساتھ کر دیا کرتے ہیں،نہ کسی مرتبے کے مستحق ہو سکتے ہیں اور نہ یہ جائز ہوسکتا ہے کہ ایسے بےحقیقت”موروثی“حقوق کو تسلیم کر کے مقدس مقامات اور مذہبی ادارے ان نالائق لوگوں کے ہاتھوں میں رہنے دیے جائیں۔“(تفہیم القرآن)

اللّٰہ کے ہاں انفاق و جہاد میں پہل کرنے والے اور بعد والے بھی برابر نہیں ہو سکتے۔قرآنِ پاک میں اللّٰہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لَا يَسۡتَوِىۡ مِنۡكُمۡ مَّنۡ اَنۡفَقَ مِنۡ قَبۡلِ الۡفَتۡحِ وَقَاتَلَ‌ ؕ اُولٰٓئِكَ اَعۡظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِيۡنَ اَنۡفَقُوۡا مِنۡۢ بَعۡدُ وَقَاتَلُوۡا‌ ؕ وَكُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الۡحُسۡنٰى‌ؕ وَاللّٰهُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِيۡرٌ۔(الحدید:10)
*”تم میں سے جو لوگ فتح کے بعد خرچ اور جہاد کریں گے وہ کبھی اُن لوگوں کے برابر نہیں ہو سکتے جنہوں نے فتح سے پہلے خرچ اور جہاد کیا ہے۔اُن کا درجہ بعد میں خرچ اور جہاد کرنے والوں سے بڑھ کر ہے اگرچہ اللہ نے دونوں ہی سے اچھے وعدے فرمائے ہیں۔جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اُس سے باخبر ہے۔“*
اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ لکھتے ہیں کہ:
”یعنی اجر کے مستحق تو دونوں ہی ہیں،لیکن ایک گروہ کا رتبہ دوسرے گروہ سے لازماً بلند تر ہے،کیونکہ اس نے زیادہ سخت حالات میں اللّٰہ تعالیٰ کی خاطر وہ خطرات مول لیے جو دوسرے گروہ کو در پیش نہ تھے۔اس نے ایسی حالت میں مال خرچ کیا جب دور دور کہیں یہ امکان نظر نہ آتا تھا کہ کبھی فتوحات سے اس خرچ کی تلافی ہوجائے گی،اور اس نے ایسے نازک دور میں کفار سے جنگ کی جب ہر وقت یہ اندیشہ تھا کہ دشمن غالب آ کر اسلام کا نام لینے والوں کو پیس ڈالیں گے۔مفسرین میں سے مجاہد،قَتَادہ اور زید بن اسلم کہتے ہیں کہ اس آیت میں جس چیز کے لیے لفظ”فتح“ استعمال کیا گیا ہے اس کا اطلاق فتح مکہ پر ہوتا ہے،اور عامر شعبی کہتے ہیں کہ اس سے مراد صلح حدیبیہ ہے۔پہلے قول کو اکثر مفسرین نے اختیار کیا ہے،اور دوسرے قول کی تائید میں حضرت ابو سعید خدریؓ کی یہ روایت پیش کی جاتی ہے کہ رسول اللّٰہﷺ نے ہم سے صلح حدیبیہ کے زمانہ میں فرمایا،عنقریب ایسے لوگ آنے والے ہیں جن کے اعمال کو دیکھ کر تم لوگ اپنے اعمال کو حقیر سمجھو گے،مگر لو کان لاحدھم جبل من ذھب فانفقہ ما ادرک مد احدکم ولا نصیفہ۔”ان میں سے کسی کے پاس پہاڑ برابر بھی سونا ہو اور وہ سارا کا سارا خدا کی راہ میں خرچ کر دے تو وہ تمہارے دور طل بلکہ ایک رطل خرچ کرنے کے برابر بھی نہ پہنچ سکے گا“(ابن جریر،ابن ابی حاتم،ابن مردویہ،ابو نعیم اصفہانی)۔نیز اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو امام احمدؒ نے حضرت انسؓ سے نقل کی ہے۔وہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت خالد بن ولیدؓ اور حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ کے درمیان جھگڑا ہو گیا۔دوران نزاع میں حضرت خالدؓ نے حضرت عبد الرحمٰنؓ سے کہا”تم لوگ اپنی پچھلی خدمات کی بنا پر ہم سے دوں کی لیتے ہو“۔یہ بات جب نبیﷺ تک پہنچی تو آپ نے فرمایا”اس خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے،اگر تم لوگ احد کے برابر،یا پہاڑوں کے برابر سونا بھی خرچ کرو تو ان لوگوں کے اعمال کو نہ پہنچ سکو گے“۔اس سے استدلال کیا جاتا ہے کہ اس آیت میں فتح سے مراد صلح حدیبیہ ہے،کیونکہ حضرت خالد اسی صلح کے بعد ایمان لائے تھے اور فتح مکہ میں شریک تھے۔لیکن اس خاص موقع پر فتح سے مراد خواہ صلح حدیبیہ لی جائے یا فتح مکہ،بہرحال اس آیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ درجات کا یہ فرق بس اسی ایک فتح پر ختم ہوگیا ہے۔بلکہ اصولاً اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جب کبھی اسلام پر ایسا کوئی وقت آجائے جس میں کفر اور کفار کا پلڑا بہت بھاری ہو اور بظاہر اسلام کے غلبہ کے آثار دور دور کہیں نظر نہ آتے ہوں،اس وقت جو لوگ اسلام کی حمایت میں جانیں لڑائیں اور مال خرچ کریں ان کے مرتبے کو وہ لوگ نہیں پہنچ سکتے جو کفر و اسلام کی کشمکش کا فیصلہ اسلام کے حق میں ہوجانے کے بعد قربانیاں دیں۔“(تفہیم القرآن)
 
ایک اور پہلو سے شہادت کے مقام کو حاصل کرنے والوں کی زندگی کا یہ بھی ہے کہ وہ دوسروں کے لیے روشن مثال قائم کرتے ہیں،انسان کو موت کے خوف سے بے نیاز کرتے ہیں،زندگی کو ان مقاصد کے لیے قربان کرنے کا داعیہ پیدا کرتے ہیں جو محض ایک فرد نہیں بلکہ پوری اُمت اور تمام انسانوں کو زندگی کے اس مفہوم سے آشنا کراتے ہیں جس سے قومیں زندہ رہنے کے لائق بنتی ہیں۔
آج ایک خاص طبقہ کچھ مخصوص بلکہ مذموم مقاصد کے لیے”جہاد“ اور ”شہادت“ کو ناپسندیدہ الفاظ بنانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن چاند پر تھوکنے سے چاند کی روشنی اور پُرکیف ٹھنڈک پر کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ہر دور میں شہادت کے واقعات ایمان کی تازگی اور حق اور ضلالت کی جدوجہد کرنے والوں کے لیے مہمیز کا ذریعہ بنے ہیں۔یہی وہ عمل ہے جس کے نتیجے میں بالآخر ظلم و استبداد کا نظام سرنگوں ہوتا ہے اور آزادی،عزت،غلبہ حق اور عدل و انصاف کی صبح طلوع ہوتی ہے۔تاریخ کے در و دیوار سے یہ گونج مسلسل سنائی دیتی ہے کہ اسلام کا درخت پانی سے نہیں بلکہ خونِ شہدا کی لالی سے ہی ہمیشہ سے سینچتا چلا آیا ہے۔جتنی زیادہ قربانی مسلمان اسلام پر دیں گے اتنا ہی اسلام آگے بڑھے گا۔جنگ اُحد کی مثال لیجیے چونکہ اس میں ٧٠/ جاں نثاروں نے اپنی جانیں دے کر اسلام کے درخت کو تقویت پہنچائی،نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام زیادہ سے زیادہ پھیل گیا۔اگر اُمت مسلمہ کے ایک شخص نے بھی اسلام کے نام پر خون بہایا ہو تو ہم اس کو نظر انداز نہیں کر سکتے ہیں۔ایک حدیثِ پاک میں آیا ہے کہ:
سیدنا عبد اللّٰہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہﷺ نے کعبہ کی طرف دیکھا اور فرمایا:”‏‏‏‏تو کتنی عظیم حرمتوں والا ہے،دوسری روایت میں ہے:جب رسول اللّٰہﷺ نے کعبہ کی طرف دیکھا تو فرمایا:اے اللّٰہ کے گھر! تجھے مرحبا ہو،تو کتنا عظیم ہے،تیری حرمت کتنی عظیم ہے،لیکن اللّٰہ تعالیٰ کے ہاں ایک مومن کی حرمت تجھ سے زیادہ ہے،بیشک اللّٰہ تعالیٰ نے تجھ سے ایک چیز کو اور مومن سے تین چیزوں یعنی خون،مال اور سوئے ظن کو حرام قرار دیا ہے۔(سلسله احاديث صحيحه:3472)
اسی لیے علامہ اقبالؒ نے کہا کہ:
    *نظر اللہ پہ رکھتا ہے مسلمان غیور*
    *موت کیا شے ہے،فقط عالم معنی کا سفر*
    *ان شہیدوں کی دیت اہل کلیسا سے نہ مانگ*
    *قدر و قیمت میں ہے خوں جن کا حرم سے بڑھ کر*

Comments