🌹 *پاجا سُراغِ زندگی۔۔۔ایک تعارف*🌹

✍️ ندیم احمد میر
  
*نوٹ:پاجا سُراغِ زندگی از مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندویؒ کے تبصرہ پر راقم نے آج Book Readers Club میں پہلی پوزیشن حاصل کی فللّٰہ الحمد اور اب یہ تبصرہ حوالہ ناظرین کیا جا رہا ہے۔*

  مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندویؒ ١٩١٤ء میں تکیہ کلاں ضلع رائے بریلی اترپردیش میں پیدا ہوئے۔وہ ایک مشہور مصنف،مؤرخ،سوانح نگار،تذکرہ نویس،داعی،مفکر،ادیب،مفسرِ قرآن اور عالم دین تھے،ان کا شمار بیسویں صدی کی مایہ ناز شخصیات میں ہوتا ہے۔وہ اپنے زمانے میں عرب و عجم دونوں میں یکساں مقبول تھے۔آپ کی طبیعت میں بڑی جامعیت اور مزاج میں بڑا اعتدال تھا۔مسلکی اور فروعی اختلافات سے ہمیشہ دور رہے۔قومی اور ملی سطح پر ہمیشہ سرگرم عمل رہے اور مسلمانوں کی رہنمائی کرتے رہے،کاخ فقیری سے لے کر ایوان شاہی تک سب کو خطاب کیا اور سب کا دل جیتا۔وہ ایک درویش صفت انسان تھے،ان کی بے نیاز  طبیعت دنیا طلبی سے کوسوں دور تھی،انھوں نے عقل و دل دونوں کو ایک ساتھ جمع کر لیا تھا،تصوف و سلوک کے ساتھ اجتماعی ذمہ داریوں کو نبھانا آسان نہیں ہوتا لیکن انھوں نے ان دونوں صفات کو اپنے اندر جمع کر لیا تھا،انھوں نے کئی نسلوں کی تربیت کی،بحیثیت مربی وہ نہایت کامیاب انسان تھے۔دنیا بھر میں ان کے بے شمار شاگردوں کا وجود اس کی دلیل ہے۔ان کی خدمات کے اعتراف میں ان کو متعدد اعزازات سے نوازا گیا،جن میں حکومت دبئی کی جانب سے دیا جانے والا ”القرآن ایوارڈ“ اور سعودی حکومت کی جانب سے دیا جانے والا ”شاہ فیصل ایوارڈ“سب سے اہم ہے۔

آپؒ نے اللّٰہ کے دین کی نصرت کو اپنی زندگی کا مشن بنا دیا تھا۔آپؒ کی روح قربِ الٰہی کی تمنا سے سرشار تھی اور یہی وجہ ہے کہ باطل کی طرف سے بڑی سے بڑی دھمکی کو بھی آپؒ خاطر میں نہیں لائے اور اسی تمنا نے راہِ حق میں ان کے لیے ہر مصیبت کو آسان کر دیا تھا۔ان کی چھوٹی بڑی کتابوں کی تعداد سیکڑوں سے متجاوز ہے۔آج مولانا کی ایک شاہکار تالیف”پاجا سُراغِ زندگی“ پر میں تبصرہ کرنے جا رہا ہوں۔اس کتاب میں ہر ایک مضمون قاری کے دل کو چُھوتا ہے اور ان کی راہ کے نقوش روشن کرتا ہے۔اردو زبان میں بھی اعلیٰ معیار کے صفحات اور بہترین طباعت کے ساتھ اسے مجلس تحقیقات و نشریات اسلام،لکھنو نے بہت ہی کم قیمت پر شائع کیا ہے اور یہ کتاب ٢٠٠ صفحات پر مشتمل ہے۔

اس کتاب کا ظاہر و باطن نہایت ہی روشن ہے اور ہر ایک قاری یہ کتاب مطالعہ کرنے کے بعد یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ واقعی طور پر مولانا صاحبؒ نے دریا کو کوزے میں بند کیا ہے۔کتاب مکمل کرنے کے بعد قاری کے دل میں ایک عجیب سی ٹھنڈک پیدا ہوتی ہے،یہ مصنف کے قول و فعل میں مطابقت کا بین ثبوت ہے۔بلا مبالغہ میں یہ بات کہتا ہوں کہ یہ کتاب ہر ایک قاری کے اندر ایک نیا جذبہ،جوش اور ولولہ پیدا کر کے اسے”کونو انصار اللہ“ کی صدا لگانے پر مجبور کر ہی دیتی ہے اور دعوتِ دین کی راہ میں اسے چٹان کی طرح جمنے کا حوصلہ دیتی ہے۔قارئین کرام کے لیے ناگزیر ہے کہ ذہنی تحفظات،علمی آلودگیوں اور قلبی وابستگیوں کو چھوڑ کر اس کتاب کا پورے ذوق و شوق کے ساتھ مطالعہ کریں۔اس کتاب کے حوالے سے محمد الحسنی پیش لفظ میں اس طرح رقمطراز ہیں:
”زیر نظر مجموعہ عم مخدوم و معظم مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ مدظلہ کی ان تقریروں پر مشتمل ہے،جو مولانا نے طلبائے دار العلوم ندوۃ العلماء کے سامنے مختلف مواقع پر اور اکثر تعلیمی سال کے آغاز پر کیں،ان تقریروں کا(جو اکثر زبان دل سے کی گئیں اور امید ہے کہ گوش دل سے سنی گئی ہوں گی)مرکزی خیال اور بنیادی موضوع کا ایک ہی تھا،اور وہ یہ ہے کہ ایک طالب علم کی نگاہ کن بلند مقاصد پر رہنی چاہیے اور اپنے محدود و مخصوص ماحول میں رہ کر بھی وہ کیا کچھ بن سکتا ہے،اور اللہ تعالیٰ نے جو جوہر کمال اس کے اندر ودیعت فرمایا ہے،اس کو ترقی دے کر اور چمکا کر وہ کن علمی و روحانی بلندیوں پر اپنا نشیمن بنا سکتا ہے۔“(ص ٩)

اس کتاب کی پہلی تقریر بنامی”اخلاص،جذبہ قربانی اور جوہر ذاتی“ مولانا صاحبؒ نے دار العلوم ندوۃ العلماء میں طلبہ کی ایک الوداعی تقریب ٢٥ دسمبر ١٩٦٣ء کو جمالیہ ہال میں کی تھی۔اس تقریر میں مولانا صاحبؒ نے وہ صفات اور شرائط بیان کئے جن کے بغیر ان کے مقصد کی تکمیل ناممکن ہے اور جو ان کی زندگی کے لیے مشعلِ راہ اور زادِ سفر بن سکتے ہیں۔طلباء کو اپنے اندر اخلاص پیدا کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
”پہلی چیز اخلاص ہے،آپ کسی بڑے سے بڑے بزرگ یا جس کا نام آپ دنیا میں روشن پاتے ہیں،اگر آپ اس کی زندگی کا مطالعہ کریں گے تو اس کی زندگی کی تعمیر میں اخلاص کو ایک اہم عامل پائیں گے،آپ دیکھیں گے کہ اس کی ہر چیز کو اخلاص نے دوام بخشا ہے۔۔۔“(ص ١٩)

جذبہ قربانی اور جوہر ذاتی کو طلباء کے اندر اجاگر کرنے کے لیے ان کی اہمیت پر لب کشائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
”ایثار و قربانی اور عزم یہ وہ طاقت ہے کہ اگر افراد میں ہوتی ہے،تو انہیں ثریا تک پہونچا دیتی ہے،اور اگر کسی ادارہ یا قوم کے اندر بیدار ہو جاتی ہے تو دنیا اس کے سامنے جھک جاتی ہے،اور اس کی بالادستی کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔انسان کا ذاتی جوہر اور اس کی قابلیت ہی وہ چیز ہے،جو ہر وقت اور ہر زمانے میں اس کی ترقی کا واحد ذریعہ ہے۔۔۔“(ص ٢٠)

دوسری تقریر بنامی”مدرسے کا مقصد“مولانا صاحبؒ نے ١٢ مارچ ١٩٦٤ء کو ندوہ کی وسیع مسجد میں طلبائے دار العلوم کے اجتماع میں کی تھی،جسے درجہ ہشتم کے طالب علم نعیم صدیقی اعظمی نے قلمبند کیا ہے۔نئے طلباء کو مدرسے میں کیا ملے گا؟ اور وہ وہاں کیا پائیں گے؟ مولانا صاحبؒ انہیں تاکید کرتے ہیں کہ وہ موقع نکال کر امام غزالیؒ کی کتاب”احیاء العلوم“ کا سنجیدگی سے مطالعہ کریں۔اس تقریر میں طلباء کو یہ بات ذہن میں بٹھاتے ہیں کہ اس دنیا پر کلامِ پاک ہی وہ نعمتِ عظمیٰ ہے،جسے آپ کو انتہائی مضبوطی کے ساتھ پکڑنا چاہیے اور اس کا اہل بننے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔فرماتے ہیں کہ:
”میرے عزیزو! اگر یہاں آپ کو کچھ نہ ملے،سارا مال خرچ کرنے کے بعد صرف یہی ایک نعمت ملے کہ ہم خدا کے کلام کے مخاطب بننے کے اہل ہو جائیں،تو سچ جانئے دنیا کی ساری لذتیں و آرائشیں سب اس ایک نعمت پر قربان،اور اس نعمت عظمیٰ کے ملنے کے بعد آپ کی ساری محنتیں وصول اور آپ کے والدین کی ساری کمائی حاصل۔“(ص ٢٧)

مولانا صاحبؒ ایک دور اندیش اور مشفق استاد تھے جنہیں یہ فکر لاحق تھی کہ کہیں میرے یہ روشن ستارے منزل سے پہلے ہی گھٹنے ٹیک نہ دیں،اسی لیے انہیں پہلے ہی خبردار کیا کہ:
”مجھے خدا کی قسم تمہارے متعلق یہ خطرہ ہرگز نہیں کہ تم یہاں سے جانے کے بعد فقر سے دوچار ہو گے،خطرہ جو ہے وہ صرف اس بات سے کہ کہیں اس نعمتِ عظمیٰ کی ناقدری سے جو اللہ تعالیٰ نے تم کو عطا فرما رہا ہے تم پر ادبار نہ آجائے۔۔۔“(ص ٢٩)

تیسری تقریر بنامی”ذاتی تعلق،ذاتی محنت اور جذبہ خدا طلبِی“ مولانا صاحبؒ نے ٢٠ نومبر ١٩٦٥ء بعد نماز ظہر جمالیہ ہال میں فارغ ہونے والے طلبہ کے اعزاز میں کی تھی۔اپنے طلباء کو تین جامع نصیحتوں سے نوازا اور کہا کہ یہی وہ نصیحتیں ہیں جن کی وجہ سے آپ کی زندگی میں چار چاند لگ سکتی ہے۔پہلی نصیحت”ذاتی تعلق“ کے ارد گرد گھوم رہی تھی۔ایک طالبِ علم کے لیے علم کے سفر میں کیا زادِ راہ ضروری ہے اس پر بات کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
”ایک طالب علم کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ اس کا رجحان جس فن کی طرف ہو،اس کے ماہر اور متخصص کے پاس رہ کر اس سے وہ اپنی صلاحیت کے مطابق استفادہ کرے،بغیر اس ربط کے وہ زیادہ فائدہ نہیں اٹھا سکتا،اگر آپ ادیب بننا چاہتے ہیں تو اس کی پیروی کریں،جس کا ادب آپ کے لیے زیادہ نفع بخش اور مفید ہو،اسی طریقے سے اگر آپ تفسیر یا کسی اور فن سے لگاؤ ہے تو اس کے ماہر استاذ سے اپنا خصوصی ربط قائم رکھیں۔“(ص ٣٤)

دوسری نصیحت میں وہ”ذاتی محنت“ پر فوکس کرتے ہیں اور ان کے کہنے کا مدعا تھا کہ اس کے بغیر آپ اپنی منزل کو حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔فرماتے ہیں کہ:
”دوسری بات جو آپ سے کہنی ہے،وہ یہ ہے کہ آپ تاریخ کی شخصیتوں میں سے جس کا بھی نام لیں،جب آپ اس کی سیرت کا مطالعہ کریں گے،اس کی زندگی کی تہہ تک جانے کی کوشش کریں گے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ اس کی شخصیت کو بنانے اور سنوارنے والی سب سے اہم اور بنیادی چیز اس کی ذاتی محنت اس کی فکر و لگن،مقصد کی دھن اور اس کی تڑپ تھی،اس کے بغیر اگر اساتذہ چاہیں یا عظیم الشان ادارے اس کے لیے کوشش کریں کسی کے بس میں کچھ نہیں ہے،جو بنا ہے،وہ اپنی ذاتی محنت اور جدوجہد سے بنا ہے،یقیناً اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اساتذہ کی رہنمائی بھی ضروری ہے،لیکن اگر اللہ تعالیٰ کی توفیق شامل حال ہے تو پھر اپنی ذاتی محنت انسان اپنے آپ کو سب کچھ بنا سکتا ہے۔“(ص ٣٥)

تیسری نصیحت کا موضوع”جذبہ خدا طلبی“ تھا اس پر لب کشائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
”تیسری بات جو آپ سے کہنی ہے،وہ یہ ہے کہ انسان کو ہر وقت اس چیز کی فکر کرنی چاہیے،جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے،اور جو چیز اس کو حقیقت میں کام آنے والی ہے،وہ آخرت کی فکر خدا کی مرضی اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کا شوق اور جذبہ ہے،اگر انسان کے اندر یہ چیز نہیں ہے تو خواہ وہ بڑے سے بڑا ادیب ہو،بہت بڑا مقرر و خطیب ہو،یا بہت بڑا مفسر و فقیہہ ہو،اِس دولت سے محروم ہی رہے گا،یہ ممکن ہے تھوڑی دیر کے لیے کچھ واہ واہ اور کچھ ناموری اور کچھ داد دادو تحسین حاصل کر لے مگر آگے اس کا کچھ حصہ نہیں،حقیقت میں جو چیز کام آنے والی ہے،وہ خشیتِ الٰہی ہے،وہ آخرت کی فکر ہے،وہ اللہ کی مرضی کی تلاش ہے۔“(ص ٣٦)

مولانا صاحبؒ نے تیسری تقریر”آج نبوّت محمدیﷺ پر الحاد و دہریت کا حملہ ہے،کوئی شاہین ہے جو اس کے مقابلہ کی سعادت حاصل کرے؟“ کے عنوان کے تحت ٣ جولائی ١٩٦٦ء کو سلیمانہ ہال میں طلبائے دار العلوم کے سامنے کی تھی۔اس تقریر میں آپؒ نے ایک شاندار موضوع”عصر حاضر کے فتنے“ پر بات کرتے ہوئے اپنے شاہین صفت طلباء سے کہا کہ:
”آج کتنے بڑے بڑے فتنے ہیں،جو اس وقت جہنم کے شعلوں کی مانند بھڑک رہے ہیں اور پورے پورے اسلامی ملکوں کو جلا کر خاکستر کر دینا چاہتے ہیں،اور صحابہ کرامؓ کے کارناموں پر پانی پھیر دینا چاہتے ہیں۔
آج قسم قسم کے اسلام سوز،ایمان سوز،اخلاق سوز،انسانیت سوز فتنے ابھر رہے ہیں،مادیت،الحاد،قوم پرستی،نبوت محمدیﷺ سے آنکھیں ملانے کے لیے تیار ہے،آج مسیلمہ کذّاب نئے نئے روپ میں آرہا ہے،اور نبوت محمدی کو چیلنج کر رہا ہے۔
آج رسول اللہﷺ کے سرمایہ پر ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے،آپ کے قلعہ میں شگاف پیدا کئے جا رہے ہیں،آپ کے دار السلطنت پر حملہ کیا جا رہا ہے،اگر آج امام ابو حنیفہؒ،امام شافعیؒ،امام مالکؒ،امام احمد بن حنبلؒ ہوتے تو میں یقین کرتا ہوں کہ شاید وہ فقہ کی تدوین بھی تھوڑی دیر کے لیے روک دیتے اور اس مسئلہ کی طرف توجہ کرتے،تم خوش قسمت ہو کہ فقہ حنفیؒ،فقہ شافعیؒ کی تدوین کی خدمت تمہارے ذمہ نہیں ہے،اللّٰہ کی حکمتِ بالغہ اور اس کی قدرت کاملہ نے اس کے لیے پہلے ہی انتظام کر دیا،اور امت کو امام شافعیؒ،امام ابو حنیفہؒ،امام مالکؒ،اور امام احمدؒ جیسے ائمہ عطا کئے،جب کہ ایک لمحہ اور ایک منٹ کی تاخیر کی گنجائش نہیں تھی،تم خوش قسمت ہو،خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہو،آج تمہارے لئے کام کے دوسرے میدان ہیں،آج تمہارے لئے الحاد سے پنجہ آزمائی کا موقعہ ہے۔“(ص ٤٧)

چوتھی تقریر بنامی”اخلاص اور اختصاص یہ دو چیزیں انسان کو کامل بنانے کے لیے کافی ہیں“مولانا صاحبؒ نے طلبہ کے سالانہ افتتاحی جلسہ میں بتاریخ ٢٨ جنوری ١٩٦٧ کو دار العلوم کی وسیع و خوبصورت مسجد میں کی تھی۔اس تقریر میں انہوں نے طلباء کو اپنی صلاحیتوں میں نکھار لانے کی پُرزور دعوت دیتے ہوئے کہا کہ:
”میرے عزیزو! میں خانہ خدا میں منبر مسجد کے پاس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ ہیرا تمہارے پاس موجود ہے،اور تم میں سے ہر شخص اس کا مالک ہے،وہ ہیرا تمہاری زندگی کی صلاحیت ہے،پڑھنے کی صلاحیت،فرمانبرداری کی صلاحیت،اور بہتر بننے کی صلاحیت ہے یہ وہ صلاحیتیں ہیں،جن پر ملائکہ کو رشک آتا ہے۔ان صلاحیتوں سے تم اس مقام پر پہونچو گے جس کے بارے میں ارشاد ہے کہ”مالا عین رات ولا اذن سمعت ولا خطر علی قلب بشر“ ان صلاحیتوں سے تم ولی بن سکتے ہو،خدا کے محبوب ہو سکتے ہو،اور جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے؎
نگاہِ مرد مومن سے بدل جاتی ہے تقدیریں(ص ٥٧)

اپنی تقریر کو آگے لیتے ہوئے ایک جگہ پہ وہ محنت و کاوش پر زور دیتے ہوئے اپنے طلباء سے یوں مخاطب ہیں کہ:
”تاریخ و تذکرہ میرا موضوع ہے،اور میں اپنے مطالعہ اور تجربہ پر اعتماد کر کے کہتا ہوں کہ کوئی مدرسہ اور کوئی کتب خانہ کسی انسان کو نہیں بناتا،انسان خود اپنی قوت بازو سے اپنی محنت اور کاوش سے بنتا ہے،اگر آپ بزرگی کے شعبہ میں دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ وہی برگزیدہ بندے تھے،جن کے سرپرست ولی نہیں تھے،ان کے لیے ماحول ناسازگار تھا،لیکن وہ اپنی محنت سے اپنی تڑپ اور پیاس سے ولی کامل بن گئے،ہزاروں مثالیں ہیں کہ آذر کے گھر سے ابراہیم پیدا ہوئے،حجتہ الاسلام امام غزالیؒ کے والد کے متعلق کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ ولی تھے،لیکن اپنی طلب اور تڑپ کے بل بوتے پر وہ حجتہ الاسلام بن گئے۔“(ص ٦٠)

مولانا صاحبؒ کے پانچویں تقریر کا عنوان تھا”پاکیزہ ذوق،علم و مطالعہ کی کنجی ہے“۔اس تقریر میں آپؒ نے طلباء کو اپنے اندر علمی ذوق پیدا کرنے کی پُرزور دعوت دی تاکہ وہ دعوت کے میدان میں آگے ہی بڑھتے چلے جائیں۔انہیں نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
”آپ بھی اہل علم کی مجلسوں اور محفلوں میں شریک ہوں،کیوں کہ علم و فن کا ذوق جب ہی بنتا ہے،جب اہلِ علم کی مجلسوں سے ربط قائم رکھا جائے،اس کے بعد انسان بہت تھوڑے مواد سے کام لے سکتا ہے،لیکن ایسا ملکہ جب ہی پیدا ہوگا جبکہ مختلف مجالس اور محافل میں شرکت کی جائے،یہ سب باتیں وہی سمجھ سکتا ہے،جو علامہ شبلی اور سید سلیمان ندوی کی محفلوں میں شریک ہوا ہو۔۔۔“(ص ٦٨)

مولانا صاحبؒ کے چھٹویں تقریر کا عنوان تھا”زمانہ کا دامن پھیلتا اور سمٹتا رہتا ہے“جو کہ جمعیتہ الاصلاح کے افتتاحی جلسہ میں پیش کی گئی۔آپؒ اس بات کے متمنی تھے کہ میرے طلباء انقلابی ذہن کو برقرار رکھتے ہوئے مدرسہ سے فارغ ہو جائیں،تاکہ یہ بدلتے زمانے میں اپنی کام کو احسن طریقے پر جاری و ساری رکھ سکیں۔آپؒ نے اپنی تقریر میں ایک جگہ طلباء سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ:
”اس زمانے میں ضرورت ہے کردار کی،قلب کی درد مندی اور اندرونی سوز کی،ایک ایسی حرارت کی جو اندر اندر جلا رہی ہو،اعصاب کو پگھلا رہی ہو،اور پھر یہ لاوا پھوٹ کر کوہ آتش فشاں کی طرح بڑھ رہا ہو،اور اس کی تپش اور سوزش سیکڑوں اور ہزاروں دلوں کو گرما رہی ہو۔“(ص ٨٢)
اس تقریر میں آپؒ نے اپنے طلباء کو تجدیدی کام کرنے کی خاطر ابھارا اور کہا کہ:
”اس وقت کا سب سے بڑا تجدیدی کارنامہ اور میں سمجھتا ہوں کہ دار العلوم ندوۃ العلماء کا سب سے بڑا مقصد گویا اس کا وجہ جواز،اس کی افادیت کا سب سے بڑا ثبوت اور اس کے اسلاف کی کوششوں کا سب سے بڑا پھل نیز ان کی محنتوں کا اور ان کی قربانیوں کا سب سے بڑا مطالبہ یہ ہے کہ ندوۃ کے فضلاء اسلامی ممالک میں یا غیر اسلامی ممالک میں جہاں بھی ہوں،اس کا ایسا جواب دینے کی کوشش کریں جو لوگوں کو مطمئن کر سکے،اور مغربی فلسفہ کا وہ اثر کم کر سکے جو اس وقت پورے عالم اسلام پر اپنا سایہ ڈال چکا ہے،آج ان ملکوں میں اسلام کی اور مسلمانوں کی قسمت کا فیصلہ کیا جا رہا ہے،اور تمام اسلامی ملک کم و بیش اس مسئلہ سے دوچار ہیں۔“(ص ٨٤)


ساتویں تقریر کا موضوع”طالبانِ علوم نبوّت کا مقام اور ان کی ذمہ داریاں“ تھا۔دراصل یہ ایک مضمون تھا جو مارچ ١٩٥٤ء میں دار العلوم دیوبند میں طلبہ کے ایک جلسہ میں پڑھا گیا تھا اور بعد میں رسالہ کی شکل میں شائع ہوا۔اس تقریر میں مولانا صاحبؒ نے طلباء کے سامنے مدرسہ کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ:
”مدرسہ سب سے بڑی کارگاہ ہے،جہاں آدم گری اور مردم سازی کا کام ہوتا ہے،جہاں دین کے داعی اور اسلام کے سپاہی تیار ہوتے ہیں،مدرسہ عالم اسلام کا بجلی گھر(پاور ہاؤس)ہے،جہاں سے اسلامی آبادی بلکہ انسانی آبادی میں بجلی تقسیم ہوتی ہے،مدرسہ وہ کارخانہ ہے،جہاں قلب و نگاہ اور ذہن و دماغ ڈھلتے ہیں،مدرسہ وہ مقام ہے،جہاں سے پوری کائنات کا احتساب ہوتا ہے،اور پوری انسانی زندگی کی نگرانی کی جاتی ہے،جہاں کا فرمان پورے عالم پر نافذ ہے،عالم کا فرمان اس پر نافذ نہیں،مدرسہ کا تعلق کسی تقویم،کسی تمدن،کسی عہد،کسی کلچر،زبان و ادب سے نہیں کہ اس کی قدامت کا شبہ اور اس کے زوال کا خطرہ ہو،اس کا تعلق براہ راست نبوتِ محمدی سے ہے،جو عالمگیر بھی ہے،اور زندہ جاوید بھی،اس کا تعلق اس انسانیت سے ہے جو ہر دم جواں ہے،اس زندگی سے ہے جو ہمہ وقت رواں اور دواں ہے،مدرسہ درحقیقت قدیم و جدید کی بحثوں سے بالاتر ہے،وہ تو ایسی جگہ ہے،جہاں نبوتِ محمدی کی ابدیت اور زندگی کا نمو اور حرکت دونوں پائے جاتے ہیں۔“(ص ٩٠)

اس تقریر میں آپؒ نے طلباء کو اپنی باطنی دنیا آباد کرنے کو کہا اور اس بات پر زور دیا کہ آپ کے اندر وہ تمام اوصاف و خصوصیات ہونے چاہئیں جن کی شریعت کی طرح حفاظت کی گئی اور جو نسل در نسل منتقل ہوتے رہے اور جن کے بغیر کارِ نبوت کو چلایا نہیں جا سکتا۔فرماتے ہیں کہ:
”نبوت محمدی سے صرف علوم و احکام لینا اور کیفیات و اوصاف کو ترک کر دینا ناقص وراثت ہے،اور نامکمل نیابت۔دنیا میں جن لوگوں نے نبوت کی نیابت کی اور اسلام کی امانت ہم تک پہنچائی،وہ صرف ایک حصہ کے امین نہ تھے،وہ دونوں حالتوں سے مالامال تھے،اب بھی اسلام کی دعوت،اور اسلامی انقلاب صرف پہلے حصہ سے برپا نہیں کیا جا سکتا،آپ کو جن اسلاف کی طرف نسبت کا شرف حاصل ہے،وہ بھی ان دونوں خصوصیتوں کے جامع تھے،آپ اگر حقیقی نیابت کے منصبِ بلند پر سرفراز ہونا چاہتے ہیں،تو آپ کو اس جامعیت کی کوشش کرنی پڑے گی،اس کے بغیر علم و فن کی صناعی کاغذی پھول ہیں،جن میں نہ خوشبو نہ تازگی،آج دنیا کے بازار میں کاغذی اور ولایتی پھولوں کی کمی نہیں،ہم اور آپ اس میں کوئی قابلِ ذکر اضافہ نہیں کر سکتے،یہاں تو نبوت کے باغ کے شاداب پھول چاہئیں،جو مشامِ جاں کو معطر کر دیں،اور جن کے سامنے دنیا کے پھول شرما جائیں۔فوقع الحق و بطل ما کانوا یعملون۔“(ص ٩٥)

آپؒ نے اپنے طلباء کو مایوسی اور پسپائی کے اُس دور میں ہمت دیتے ہوئے کہا کہ آپ بہت ہی قیمتی ہیرے ہوں جنہیں متنوع صلاحیتوں سے نوازا گیا ہے،اس لیے آپ اپنے وجود کو حقارت کی نگاہوں سے نہ دیکھیں بلکہ آپ میں خودشناسی اور خودداری ہونی چاہیے۔مزید فرماتے ہیں کہ:
”آپ کے پاس جو دولت ہے،اس سے دنیا کا دامن خالی ہے،آپ کے سینہ میں علومِ نبوت ہیں،اور وہ حقائق ہیں جو دنیا سے گم ہو چکے ہیں،اور جن کے گم ہونے سے آج عالم میں اندھیرا ہے،اضطراب و انتشار ہے،شر و فساد ہے،آپ اپنے ان سادہ کپڑوں،ان حقیر جسموں اور اس خالی جیب و دامن پر نظر نہ کریں،آپ دیکھیں کہ آپ کا سینہ کن دولتوں سے معمور اور آپ کے اندر کیسا بدرِ کامل مستور ہے۔“(ص ٩٩۔٩٨)

آپؒ نے طلباء سے کہا کہ اپنے منتخپ شدہ راستہ کو کبھی معاشی حوصلہ مندیوں کا راستہ نہیں سمجھنا اور کہا کہ:
”آپ کا راستہ بلاشبہ ایثار و قناعت،جدوجہد،جفاکشی،اور بلند ہمتی کا ہے،آپ نے جو راستہ انتخاب کیا ہے،یا مرضیِ الٰہی نے آپ کے لیے پسند کیا ہے،وہ معاشی حوصلہ مندیوں اور دنیاوی سربلندیوں کا راستہ نہیں،اس راستے پر تو”قَدۡ كُنۡتَ فِيۡنَا مَرۡجُوًّا قَبۡلَ هٰذَآ‌“ کا طعنہ سننا ہی پڑے گا،اس راستے پر تو”وَلَا تَمُدَّنَّ عَيۡنَيۡكَ اِلٰى مَا مَتَّعۡنَا بِهٖۤ اَزۡوَاجًا مِّنۡهُمۡ زَهۡرَةَ الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا لِنَفۡتِنَهُمۡ فِيۡهِ‌ ؕ وَرِزۡقُ رَبِّكَ خَيۡرٌ وَّاَبۡقٰی“ کا سبق پڑھنا ہی پڑے گا،لیکن اس کا انعام کیا ہے،وہ بھی سن لیجیے”وَجَعَلۡنَا مِنۡهُمۡ اَئِمَّةً يَّهۡدُوۡنَ بِاَمۡرِنَا لَمَّا صَبَرُوۡا‌ ؕ وَ كَانُوۡا بِاٰيٰتِنَا يُوۡقِنُوۡنَ“۔(ص ١٠٣)

اس تقریر میں آپؒ نے اپنے طلباء کو نئے دور کے نئے فتنوں سے آغا کرتے ہوئے کہا کہ:
”اب نئے دور نئے فتنے لا رہا ہے،جاہلیت نئے روپ میں عام ہو رہی ہے،پہلے اگر بدعات کا معاملہ تھا تو اب کھلی کھلی وثنیت اور اصنامِ قدیمہ کا دَور دَورہ ہے،پہلے اگر ہمہ اوست کا نعرہ تھا تو اب وحدت ادیان کا فتنہ،احیاپرستی کی دعوت،قوم پرستی،قومیت عربیہ اور کمیونزم کا دین جدید ہے۔۔۔یہ حالات ہمارے احساسِ مذہبی،ہماری حمیتِ دینی اور ہمارے عقیدہ توحید کو چیلنج کرتے ہیں،اب دیکھنا یہ ہے کہ جنھوں نے بدعات و رسوم مروجہ کو کبھی گوارا نہیں کیا،وہ ان مشرکانہ رسوم و مظاہر کو کس طرح گوارا کرتے ہیں،اور ان کا رویہ اس بارہ میں کیا ہوتا ہے،ہم اپنے اسلاف کے دینی تصلب اور دینی شجاعت کے معترف ہیں،اور خدا اور خلق کے سامنے اس کی گواہی دینے کے لیے تیار ہیں کہ انھوں نے باطل کے سامنے گردن نہیں جھکائی،اور ہتھیار نہیں ڈالے،دیکھنے کی بات ہے کہ ہمارے بعد کی نسلیں ہمارے متعلق کیا رائے قائم کرتی ہیں،اور ہم تاریخ میں کیسے نقوش چھوڑ کر جاتے ہیں۔“(ص ١٢١)

مولانا صاحبؒ کے آٹھویں تقریر کا موضوع”عَصرِ جدید کا چیلنج اور اس کا جواب“ تھا۔یہ تقریر آپؒ نے ١٢ اگست ١٩٧٢ء کو دارلعلوم دیوبند کے دار الحدیث کے وسیع ہال میں طلبہ کے سامنے کی تھی۔اس تقریر میں آپؒ اپنے طلبہ کو دار العلوم دیوبند کے قیام کا اصل محرک بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
”جس امتیاز پر آپ کے مدرسہ کی بنیاد پڑی،اور جو اس کا حقیقی سنگ بنیاد ہے،(وہ سنگ بنیاد نہیں جو اہل ثروت اور اہل وجاہت سے رکھوایا جاتا ہے،اور جس کے لئے بڑے بڑے جلسے،اور تقریبیں منعقد کی جاتی ہیں)وہ دین کی حمیت،اور اسلام کی حفاظت کا جذبہ تھا،یہ ہے اس دار العلوم کا سب سے بڑا طرہ امتیاز۔“(ص ١٢٧)

آپؒ نے اس تقریر میں کہا کہ بانی دار العلوم دیوبند حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی صاحبؒ کا اصل امتیاز اور ان کی تمام کوششوں کا ماحصل اور مطمح نظر صرف یہ تھا کہ:
”ملک کے مسلمان جب تک زندہ رہیں،ان کا رشتہ ملت ابراہیمی،اور شریعت محمدی سے استوار رہے،وہ اسی دین و آئین کے پابند ہوں جو خاتم النبیین محمد رسول اللہﷺ کے ذریعہ سے ان کو ملتا ہے،اور جب وہ دنیا سے رخصت ہوں تو وہ اسی دین کے وفادار اور حلقہ بگوش ہوں،یہ گویا اسی وصیت اور عہد نامہ کی تعمیل تھی،جس کا قرآن شریف میں تذکرہ ہے۔
وَوَصّٰى بِهَآ اِبۡرٰهٖمُ بَنِيۡهِ وَ يَعۡقُوۡبُؕ يٰبَنِىَّ اِنَّ اللّٰهَ اصۡطَفٰى لَـكُمُ الدِّيۡنَ فَلَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَاَنۡـتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَؕ(البقرۃ:132)
”اسی طریقے پر چلنے کی ہدایت اس نے اپنی اولاد کو کی تھی اور اسی کی وصیت یعقوب ؑ اپنی اولاد کو کر گیا۔اس نے کہا تھا کہ ”میرے بچو،اللہ نے تمھارے لیے یہی دین پسند کیا ہے۔لہٰذا مرتے دم تک تم مسلم ہی رہنا۔“

آپؒ اپنی تقریر کو آگے لیتے ہوئے ایک جگہ پہ دیوبند کے طلبہ کو اپنی ذمہ داری کا احساس دلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
آپ اس مدرسہ میں تعلیم پا رہے ہیں،اس مدرسہ کا آپ سے مطالبہ ہے کہ آپ اس نئے چیلنج کو قبول کریں،یہاں اگر کوئی آئے تو یہاں اس کو کوئی ہل چل نظر نہیں آئے گا،لیکن اس کی تہہ میں طوفان سوئے ہوئے ہیں،اب بھی اگر کوئی موج ایسی اٹھ سکتی ہے،جو الحاد اور بے دینی کے مرکزوں کو متزلزل کر سکتی ہے،تو اسی بحر الکاہل سے؎
اسی دریا سے اٹھتی ہے وہ موج تند جولاں بھی
نہنگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہہ و بالا
                                                  (ص١٤٣)

آپؒ اس تقریر میں ایک جگہ پہ طلبہ کو اپنے اندر قائدانہ صلاحیت پیدا کرنے کی پُرزور دعوت دیتے ہوئے یوں گویا ہیں کہ:
”آپ یہاں سے مدرس بن کر نکلیں،مبارک،آپ علمی متون کے شارح ہوں،مبارک،آپ واعظ و خطیب ہوں،مبارک،آپ کتابوں کے مصنف ہوں،مبارک،میں بھی اس کا گنہگار ہوں،لیکن اس وقت زمانہ کو اس سے زیادہ کسی اور چیز کی ضرورت ہے،اس وقت زمانہ کو ان مردان کار کی ضرورت ہے،جو اس نئے دور کو ایک نئی فکری قیادت،ایک نیا دینی اعتماد،ایک نئی روحانی و اخلاقی قوت عطا کر سکیں،اگر ایسا نہ ہوا تو ہندوستانی مسلمانوں کے لیے بڑا خطرہ ہے،اور اس ملک کے لیے بھی،آج زمین ہمارے پاؤں تلے سے نکلتی جا رہی ہے،اور بالکل وہی صورت حال ہے،جس کی قرآن مجید نے اپنے معجزانہ الفاظ میں تصویر کھینچی ہے۔
اَوَلَمۡ يَرَوۡا اَنَّا نَاۡتِى الۡاَرۡضَ نَـنۡقُصُهَا مِنۡ اَطۡرَافِهَا ؕ‌(الرعد:41)
”کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہم اِس سرزمین پر چلے آرہے ہیں اور اس کا دائرہ ہر طرف سے تنگ کرتے چلے آرہے ہیں؟“

ضَاقَتۡ عَلَيۡهِمُ الۡاَرۡضُ بِمَا رَحُبَتۡ وَضَاقَتۡ عَلَيۡهِمۡ اَنۡفُسُهُمۡ(التوبہ:118)
”زمین اپنی ساری وسعت کے باوجود اُن پر تنگ ہوگئی اور اُن کی اپنی جانیں بھی اُن پر بار ہونے لگیں۔“
آج ہم جس زمین پر کھڑے ہوئے ہیں،اور جس پر دینی و علمی مرکزوں کے قلعے تعمیر کر رہے ہیں،وہ کوئی پتھر کی چٹان یا مسطح میدان نہیں ہے،وہ ریت کا ایک تودہ ہے،جس کے ذروں کو ہواؤں کے طوفان اڑا رہے ہیں،اور جو برابر ہمارے نیچے سے کھسک رہی ہے،یہ وہی زمین ہےجس کو قرآن مجید نے”کثیبا مھیلا“ کہا ہے۔“(ص ١٤٩۔١٤٨)

مولانا صاحب کے نویں تقریر کا موضوع تھا”زمانہ جس زبان کو سمجھتا ہے وہ نفع اور زندگی کے استحقاق کی زبان ہے“۔یہ اہم تقریر آپؒ نے ٢٧ محرم الحرام ٩٣ھ مطابق ٢ مارچ ٧٣ء دار الحدیث جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر میں کی تھی۔اس تقریر میں آپؒ نے طلبہ کو بہت ہی قیمتی نصیحتوں سے نوازا،جو کہ آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔تقریر کے دوران ایک جگہ پہ ان سے یوں گویا ہیں کہ:
”آپ یہ ثابت کیجیے کہ آپ ایک ایسے مورچے اور زندگی کے ایک ایسے محاذ پر کھڑے ہوئے ہیں،کہ اگر آپ آپنے وہ محاذ چھوڑ دیا تو اس کو سنبھالنے والا کوئی نہیں،آپ ثابت کریں کہ آپ اخلاق کے محاذ پر کھڑے ہیں،آپ روحانیت کے محاذ پر کھڑے ہیں،خدمت خلق کے محاذ پر کھڑے ہیں،علمی بلندی کے محاذ پر کھڑے ہیں،علمی تحقیق کے محاذ پر کھڑے ہیں،آپ نے اگر اپنی جگہ چھوڑ دی یا آپ کو اپنے محاذ سے ہٹا دیا گیا،تو زندگی میں اتنا بڑا خلا پیدا ہوگا،جس کو نہ یونیورسٹیاں پُر کر سکیں گی،نہ کوئی اکیڈمی پُر کر سکے گی،اور نہ کوئی اور کوشش پُر کر سکے گی،یہ ہے،خدا کا بنایا ہوا وہ ابدی قانون جس کو قرآن مجید کی اس آیت میں بیان کیا گیا ہے کہ:
فَاَمَّا الزَّبَدُ فَيَذۡهَبُ جُفَآءً‌‌ ۚ وَاَمَّا مَا يَنۡفَعُ النَّاسَ فَيَمۡكُثُ فِى الۡاَرۡضِ‌ؕ كَذٰلِكَ يَضۡرِبُ اللّٰهُ الۡاَمۡثَالَؕ(الرعد:17)
”جو جھاگ ہے وہ اُڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے۔اس طرح اللہ مثالوں سے اپنی بات سمجھاتا ہے۔“(ص ١٦٢)

تقریر کو آگے لیتے ہوئے آپؒ نے ایک جگہ پہ طلبہ کو اپنے اندر دینی صلاحیت پیدا کرنے کی مؤدبانہ گزارش کرتے ہوئے کہا کہ:
”اپنے اندر دینی صلاحیت پیدا کیجیے،آپ کے اندر علمائے ربانی کے کچھ اوصاف ہوں،آپ کے اندر اس سیرت کی جھلک ہو جو ان بزرگوں میں تھی،حضرت مولانا محمد علی صاحب،ان کے معاصرین اور ان کے ساتھیوں میں تھی،کچھ استغناء ہو،کچھ توکل ہو،کچھ اللہ تبارک و تعالیٰ سے تعلق ہو،کچھ آپ کو عبادت میں ذوق آئے،عوام کی سطح سے آپ کی سطح بلند ہو،اب یہ دو چیزیں ہوئیں،فن میں کمال،اور تعلق مع اللہ،یعنی جو علمائے ربانی کا شعار تھا کہ ان کے دیکھنے سے خدا یاد آتا تھا،ان کے پاس بیٹھنے سے آخرت کی یاد تازہ ہوتی تھی،اور دل میں گداز اور ایک قسم کی حرارت پیدا ہوتی تھی،خدا کی محبت جوش مارتی تھی،کسی درجہ میں وہ بات پیدا ہو،یہ تو آپ کو داخلی طور پر کرنا ہے۔“(ص ١٧١)

مولانا صاحبؒ کے دسویں تقریر کا عنوان تھا”مدرسہ کیا ہے؟“۔یہ تقریر ٢٢شوال١٣٩٦ھ کو جامعہ ہدایت جے پور کے سنگِ بنیاد کے موقع پر کی گئی تھی۔آپؒ مدرسوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور چاہتے تھے کہ جگہ جگہ یہ آدم گری کے کارخانے قائم ہوں تاکہ انسانیت کی چارہ سازی کی جائے۔مدرسہ کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
”۔۔۔میں مدرسہ کو نائبین رسول و خلافت الٰہی کا فرض انجام دینے والے اور انسانیت کو اپنا تحفظ و بقا کا راستہ دکھانے والے افراد پیدا کرنے والوں کا ایک مرکز سمجھتا ہوں،میں مدرسہ کو آدم گری اور مردم سازی کا ایک کارخانہ سمجھتا ہوں جس طرح فیکٹریاں ہوتی ہیں،مختلف قسم کئی کوئی گن فیکٹری ہوتی ہے،کوئی شوگر فیکٹری ہوتی ہے کوئی کسی اور قسم کی مشین ڈھالتی ہے،ہیوی الیکٹرک کے سامان پیدا کرنے کے بہت سے کارخانے ہیں،ہم ان کی بہت قدر کرتے ہیں،ہم ان کی ملک میں ضرورت تسلیم کرتے ہیں،ہم ان کی تحقیر نہیں کرتے،لیکن چیزوں کے مختلف درجے ہوتے ہیں،مدرسہ اس طرح کے پڑھے لکھے آدمی پیدا کرنے کا مرکز نہیں،مدرسہ ایسے لوگوں کے پیدا کرنے کا مرکز ہے،جن کا ابھی آپ کے سامنے ذکر کیا گیا ہے۔۔۔“(ص ١٩٠)

ہر ایک چیز کے قیام کا کوئی نہ کوئی مقصد اور کام ہوتا ہے۔مدرسہ کے کام کے متعلق آپؒ تقریر میں ایک جگہ پہ فرماتے ہیں کہ:
”مدرسہ کا کام یہ ہے کہ وہ ایسے باضمیر با عقیدہ ،ایسے باایمان،ایسے باحوصلہ ایسے باہمت فضلاء پیدا کرے کہ جو اس ضمیر فروشی،اصول فروشی اور اخلاق فروشی کے دور میں روشنی کے مینار کی طرح قائم رہیں کہ وہ کہیں نہیں جاتا اپنی جگہ پر کھڑا ہے،راستہ بتاتا ہے،جیسے قبلہ نما کہ آپ کہیں ہوں وہ آپ کو قبلہ بتا دے گا،ہندوشتان میں بتائے گا،دوسرے ملک میں بتائے گا،پہاڑ پر رکھیں تو بتائے گا پل پر رکھیں تو بتائے گا،یہ عالم کا کام ہے کہ ہر زمانہ میں ہر جگہ قبلہ نما رہے۔“(ص ١٩٩)

موجودہ دور میں جب کہ اسلام کو چہار جانب سے نشانہ بنایا جا رہا ہے،اس کتاب سے لوگوں کو روشناس کرانے کی اشد ضرورت ہے۔مولانا صاحبؒ نے کافی عرق ریزی اور خونِ جگر دے کر ان بیانات کو طلبہ کے سامنے پیش کیا ہے۔میری ذاتی رائے ہے کہ افادۂ عام کے لیے اس کتاب کو کم قیمت میں چھپا کر منظرِ عام پر لایا جائے،تاکہ تشنگانِ علم اور داعیانِ امت اسے پڑھ کے اپنی روح کو جِلا بخش سکیں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس کتاب کو قبولیت بخشے،اس کا فائدہ عام کرے اور مولانا صاحبؒ کو جزائے خیر سے نوازے،آمین یا رب العالمین۔

Comments