یادِ ماضی عذاب ہے یا رب۔۔۔

*نوٹ:یہ چَشم کُشا تحریر اس لیے لکھی گیی تاکہ ہر ایک قاری کو بغور مطالعہ کے بعد قرآنِ پاک سے والہانہ تعلق پیدا ہو جائے۔*

 جب بھی ماضی کی یادیں اور جمعیت کی وہ ساری سرگرمیاں میری آنکھوں کے سامنے آجاتی ہیں تو میرے دل پر عجیب و غریب قسم کی ایک چوٹ لگ جاتی ہے۔آج میری آنکھیں نم ہیں اور یہ جو کچھ دیکھتی ہیں وہ میرے لبوں پر نہیں آسکتا۔ماضی قریب میں ہم کس قسم کے انسان تھے؟یہ بس اپنے ہمسفر اور ہمفکر ہی بخوبی جانتے ہیں۔اب زمانہ نے انتہائی سُرعت کے ساتھ کروٹ لی اور حالات کی پیدا کردہ طُغیانی لہر نے ہم سبھوں کو بکھر کر مختلف جہت میں سمندر کے کنارے لگا دیا،جس کی وجہ سے ہم ایک دوسرے سے جدا ہوگئے،یہی وہ غم ہے جس نے ہمیں مجموعی طور پر بے چین کر رکھا ہے۔اب مزید غم اس بات کا ہے کہ ہمیں اپنے رفقاء،ارکان اور امراء کی صحبت سے بھی محروم کر دیا گیا،یہ ایک ایسا نقصان ہے جس کی تلافی ناممکنات میں سے ہے۔ہم اپنے ارد گرد کے ماحول میں”کونوا انصار اللّٰہ“ کی صدا لگانے والے تھے تاکہ زیادہ سے زیادہ شاہین صفت نوجوان اس قافلے میں شمولیت اختیار کر کے اپنا نام حق کی گواہی دینے والوں میں لکھ لیں۔جونہی نئے نئے رفقاء اس کاروان میں داخلہ لیتے تو حق کو پہچاننے کے سبب ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے اور یہ سب اپنے اس طرزِ عمل سے ذیل کی آیت کا عملی ثبوت فراہم کرتے تھے:
وَاِذَا سَمِعُوۡا مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَى الرَّسُوۡلِ تَرٰٓى اَعۡيُنَهُمۡ تَفِيۡضُ مِنَ الدَّمۡعِ مِمَّا عَرَفُوۡا مِنَ الۡحَـقِّ‌ۚ يَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاكۡتُبۡنَا مَعَ الشّٰهِدِيۡنَ‏(المائدۃ:83)
*”اور جب انھوں نے سنا اس چیز کو جو رسول کی طرف اتاری گئی ہے تو تم دیکھ رہے ہو کہ حق کو پہچان لینے کے سبب سے ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں۔وہ پکار اٹھتے ہیں کہ اے ہمارے رب!ہم ایمان لائے،تو ہمیں اس کی گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔“*

ہمارا نصب العین اقامتِ دین تھا،جو کہ ہماری نگاہوں سے کبھی بھی اوجھل نہ ہوتا تھا اور سیرتِ مطہرہ کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد یہی نصب العین ہم نے اپنے محبوبِ برحقﷺ کا بھی پایا تھا،جس کا بیّن ثبوت قرآنِ پاک ان الفاظ میں پیش کر رہا ہے:
هُوَ الَّذِىۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَهٗ بِالۡهُدٰى وَدِيۡنِ الۡحَـقِّ لِيُظۡهِرَهٗ عَلَى الدِّيۡنِ كُلِّهٖ‌ؕ وَكَفٰى بِاللّٰهِ شَهِيۡدًا(الفتح:28)
*”وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے سارے دینوں پر غالب کرے،اور اللہ کی گواہی کافی ہے۔“*

پہلے پہل جب ہم نے اپنے معاشرے پر نظر دوڑائی تو وہاں چہار جانب فتنوں کا سیلاب دیکھا اور لوگ دنیا کی فکر میں بُری طرح مبتلا دیکھے۔ایک سوال بار بار ہمارے قلب و ذہن کے افق پر اُبھرتا تھا کہ اس خدا بیزار معاشرے میں آخر ہم کن کے ساتھ رہیں گے؟ اللّٰہ کی کتاب واقعی طور پر بھرپور رہنمائی کرنے والی کتاب ہے کہ جس نے ذیل کی آیت کا حوالہ دے کر ہمیں اس قافلہ کا پتہ دے دیا:
وَاصۡبِرۡ نَـفۡسَكَ مَعَ الَّذِيۡنَ يَدۡعُوۡنَ رَبَّهُمۡ بِالۡغَدٰوةِ وَالۡعَشِىِّ يُرِيۡدُوۡنَ وَجۡهَهٗ‌ وَلَا تَعۡدُ عَيۡنٰكَ عَنۡهُمۡ‌ ۚ تُرِيۡدُ زِيۡنَةَ الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا‌ ۚ وَ لَا تُطِعۡ مَنۡ اَغۡفَلۡنَا قَلۡبَهٗ عَنۡ ذِكۡرِنَا وَاتَّبَعَ هَوٰٮهُ وَكَانَ اَمۡرُهٗ فُرُطًا۔(الکھف:28)
*”اور اپنے دل کو اُن لوگوں کی معیّت پر مطمئن کرو جو اپنے ربّ کی رضا کے طلب گار بن کر صبح و شام اُسے پکارتے ہیں،اور اُن سے ہر گز نگاہ نہ پھیرو۔کیا تم دنیا کی زینت پسند کرتے ہو؟ کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جس نے اپنی خواہشِ نفس کی پیروی اختیار کر لی ہے اور جس کا طریقِ کار افراط و تفریط پر مبنی ہے۔“*

تقویٰ کی پونجی کو ساتھ رکھ کے ذیل کی آیت نے ہمیں اس صادق کاروان کے ساتھ جڑے رہنے کی پُرزور تاکید کی تاکہ ہماری شخصیات اجتماعیت کے ماحول میں رہ کر ارتقاء کی بلند ترین منازل طے کر سکیں:
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَكُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِيۡنَ۔(التوبۃ:119)
*”اے ایمان والوں اللہ سے ڈرتے رہو اور سچے لوگوں کے ساتھ رہو۔“*

ہم لوگوں کو کسی مکتبہ فکر اور مسلک سے بالاتر ہو کر محض اللہ کی طرف دعوت دیتے تھے اور یہ نظریہ ہم نے ذیل کی آیت سے اخذ کیا تھا:
وَمَنۡ اَحۡسَنُ قَوۡلًا مِّمَّنۡ دَعَاۤ اِلَى اللّٰهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِىۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِيۡنَ۔(فصلت:33)
*”اور اُس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہو گی جس نے اللہ کی طرف بُلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔“*

ہم نے اس قافلہ حق میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد ہی شعوری طور پر اللہ سے اپنے جان و مال کا سودا کیا تھا کیونکہ جب قرآنِ پاک میں ہماری نظر ذیل کی آیت پر پڑ گئی تو دونوں جہان میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ہم نے اللّٰہ تعالیٰ سے یہ سودا کر ہی لیا:
اِنَّ اللّٰهَ اشۡتَرٰى مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اَنۡفُسَهُمۡ وَاَمۡوَالَهُمۡ بِاَنَّ لَهُمُ الۡجَــنَّةَ‌ ؕ يُقَاتِلُوۡنَ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ فَيَقۡتُلُوۡنَ وَ يُقۡتَلُوۡنَ‌وَعۡدًا عَلَيۡهِ حَقًّا فِى التَّوۡرٰٮةِ وَالۡاِنۡجِيۡلِ وَالۡقُرۡاٰنِ‌ ؕ وَمَنۡ اَوۡفٰى بِعَهۡدِهٖ مِنَ اللّٰهِ فَاسۡتَـبۡشِرُوۡا بِبَيۡعِكُمُ الَّذِىۡ بَايَعۡتُمۡ بِهٖ‌ ؕ وَذٰ لِكَ هُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُ۔(التوبة:111)
*”حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے اُن کے نفس اور اُن کے مال جنّت کے بدلے خرید لیے ہیں۔وہ اللہ کی راہ میں لڑتے اور مارتے اور مرتے ہیں۔اُن سے﴿جنّت کا وعدہ﴾اللہ کے ذمّے ایک پختہ وعدہ ہے تورات اور انجیل اور قرآن میں۔اور کون ہے جو اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کا پورا کرنے والا ہو؟پس خوشیاں مناؤ اپنے اُس سودے پر جو تم نے خدا سے چُکا لیا ہے،یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔“*

ہم اپنی تمام نعمتوں کو رب کی رضا اور اسلام کی سربلندی کے لیے وقف کر دیتے تھے اور اس ہمت والے کام کی تحریک ہمیں ذیل کی آیت نے دے دی:
مَا عِنۡدَكُمۡ يَنۡفَدُ‌ وَمَا عِنۡدَ اللّٰهِ بَاقٍؕ وَلَـنَجۡزِيَنَّ الَّذِيۡنَ صَبَرُوۡۤا اَجۡرَهُمۡ بِاَحۡسَنِ مَا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ‏۔(النحل:96)
*”جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ خرچ ہو جانے والا ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہی باقی رہنے والا ہے، اور ہم ضرور صبر سے کام لینے والوں کو اُن کے اجر اُن کے بہترین اعمال کے مطابق دیں گے۔“*

ہمارا یہ ہمیشہ معمول تھا کہ سونے سے پہلے ہم اپنے نفس کو دن بھر کی کمائی کا حساب لیتے تھے اور ذیل کی آیت نے ہمیں اس عمل کو پابندی کے ساتھ کرنے پر مجبور کر دیا تھا:
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا اتَّقُوا اللّٰهَ وَلۡتَـنۡظُرۡ نَـفۡسٌ مَّا قَدَّمَتۡ لِغَدٍ‌ ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ۔(الحشر:18)
*”اے لوگو جو ایمان لائے ہو،اللہ سے ڈرو،اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اُس نے کل کے لیے کیا سامان کیا ہے۔اللہ سے ڈرتے رہو،اللہ یقیناً تمہارے اُن سب اعمال سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔“*

ہمارے اوپر یہ اللہ کا فضل تھا کہ ہم پہلے سے ہی اللہ کو بہت چاہتے تھے کیونکہ ہم اس بات کو بخوبی جانتے تھے کہ کسی کو چاہے بغیر عشق کے مراحل طے نہیں ہو پاتے۔اگرچہ مخالفین اسلام کے مقابلہ میں ہم پتھر کی چٹان کے مانند تھے لیکن حلقۂ یاراں میں ہم ریشم کی طرح نرم تھے۔اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے اعلائے کلمۃ الحق کا فرض انجام دیتے ہوئے،جو کچھ ہمارے بس میں ہوتا تھا،وہ ہم کر گزرتے تھے۔جو حق تھا اسے حق کہنے اور جو باطل تھا اسے باطل کہنے میں ہمیں کوئی باک نہ ہوتی تھی۔ذیل کی آیت کے مطالعہ نے ہمیں ان صفات سے متصف کر ہی دیا:
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مَنۡ يَّرۡتَدَّ مِنۡكُمۡ عَنۡ دِيۡـنِهٖ فَسَوۡفَ يَاۡتِى اللّٰهُ بِقَوۡمٍ يُّحِبُّهُمۡ وَيُحِبُّوۡنَهٗۤ ۙ اَذِلَّةٍ عَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اَعِزَّةٍ عَلَى الۡكٰفِرِيۡنَ يُجَاهِدُوۡنَ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَلَا يَخَافُوۡنَ لَوۡمَةَ لَاۤئِمٍ‌ ؕ ذٰ لِكَ فَضۡلُ اللّٰهِ يُؤۡتِيۡهِ مَنۡ يَّشَآءُ‌ ؕ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيۡمٌ۔(المائدہ:54)
*”اے لوگو جو ایمان لائے ہو،اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے﴿تو پھر جائے﴾اللہ اور بہت سے لوگ ایسے پیدا کردے گا جو اللہ کو محبُوب ہوں گے اور اللہ اُن کو محبُوب ہوگا،جو مومنوں پر نرم اور کفّار پر سخت ہوں گے،جو اللہ کی راہ میں جدوجہد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے۔یہ اللہ کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔اللہ وسیع ذرائع کا مالک ہے اور سب کچھ جانتا ہے۔“*

معاشرے میں ہماری پہچان یہی تھی کہ ہم انصاف کے علمبردار بنے تھے۔ہم اس بات پر کمر بستہ تھے کہ ظلم مٹے اور اس کی جگہ عدل و انصاف قائم ہو۔اس ربانی کام میں ہمارے مدِ نظر نہ کوئی ذاتی مفاد تھا اور نہ ہی خدا کے سوا کسی کی خوشنودی۔ذیل کی آیت نے ہمیں اس کام کے لیے کھڑا کیا کہ ہم انصاف کی روش پر چلنے پر اکتفا نہ کریں بلکہ انصاف کے علمبردار بنیں:
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا كُوۡنُوۡا قَوَّامِيۡنَ بِالۡقِسۡطِ شُهَدَآءَ لِلّٰهِ وَلَوۡ عَلٰٓى اَنۡفُسِكُمۡ اَوِ الۡوَالِدَيۡنِ وَالۡاَقۡرَبِيۡنَ‌ ؕ اِنۡ يَّكُنۡ غَنِيًّا اَوۡ فَقِيۡرًا فَاللّٰهُ اَوۡلٰى بِهِمَا‌ فَلَا تَتَّبِعُوا الۡهَوٰٓى اَنۡ تَعۡدِلُوۡا ‌ۚ وَاِنۡ تَلۡوٗۤا اَوۡ تُعۡرِضُوۡا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِيۡرًا‏۔(النساء:135)
*”اے لوگو جو ایمان لائے ہو،انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔فریقِ معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب،اللہ تم سے زیادہ ان کا خیر خواہ ہے۔لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔اور اگر تم نے لگی پٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔“*

دعوتِ دین کی خاطر ہم جہاں بھی جاتے وہاں لوگوں کے دل ہماری طرف کھینچے چلے جاتے تھے اور وہ ہمارے آگے اپنی پلکیں بچھاتے تھے،یہی وجہ ہے کہ ہمیں ہر جگہ بے حد عزت و احترام سے نوازا جاتا تھا۔ہم بار بار اس حیران کن معاملے پر سوچ و بچار کرتے تھے کہ آخر یہ کیا ماجرا ہے؟ اگرچہ ہم دنیوی اعتبار سے بہت پیچھے ہیں پھر بھی لوگ ہماری میزبانی کرنے کے لیے کیوں ترستے ہیں؟ ذیل کی آیت نے ان سوالوں کا تشفی بخش جواب ہمارے سامنے رکھ دیا:
اِنَّ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَيَجۡعَلُ لَهُمُ الرَّحۡمٰنُ وُدًّا۔(مریم:96)
*”یقیناً جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور عملِ صالح کر رہے ہیں عنقریب رحمٰن اُن کے لیے دلوں میں محبت پیدا کر دے گا۔“*

دعوتِ دین کی راہ میں ہمیں کبھی کبھی مخالفتوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا تھا لیکن ہم ہمیشہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے تھے لیکن اپنے نفس میں جب ہی ہم کسی شیطانی تحریک کا اثر اور کسی برے خیال کی کھٹک محسوس کرتے تو ہم فوراً چوکنے ہو جاتے اور پھر ہمیں صاف نظر آتا تھا کہ صحیح طریقہ کار کیا ہے اور حق پرستی کا تقاضا کیا ہے۔حق کے راستے پر چلتے ہوئے ہم ذیل کی آیت کو ذہن میں رکھ کر شیطان کے قریب بھی نہ پھٹکتے تھے:
اِنَّ الَّذِيۡنَ اتَّقَوۡا اِذَا مَسَّهُمۡ طٰۤئِفٌ مِّنَ الشَّيۡطٰنِ تَذَكَّرُوۡا فَاِذَا هُمۡ مُّبۡصِرُوۡنَ‌ۚ۔(الاعراف:201)
*”حقیقت میں جو لو گ متقی ہیں اُن کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ کبھی شیطان کے اثر سے کوئی برا خیال اگر انہیں چھو بھی جاتا ہے تو وہ فوراً چوکنے ہو جاتے ہیں اور پھر انہیں صاف نظر آنے لگتا ہے کہ ان کے لیے صحیح طریق کار کیا ہے۔“*

اللہ کی فرمانبرداری میں جو کچھ بھی نیکیاں ہم کرتے تھے،جو کچھ بھی خدمات انجام دیتے تھے،جو کچھ بھی قربانیاں کرتے تھے،ان پر ہم پھولتے نہیں تھے،غرور میں مبتلا نہیں ہوتے تھے،بلکہ اپنے مقدور بھر سب کچھ کر کے بھی ڈرتے رہتے تھے کہ خدا جانے یہ قبول ہو یا نہ ہو،ہمارے گناہوں کے مقابلے میں وزنی ثابت ہو یا نہ ہو،ہمارے رب کے ہاں ہماری مغفرت کے لیے کافی ہو یا نہ ہو۔ذیل کی آیت نے ہمیں اللہ اور اسکے رسولﷺ کی طاعت کرنے کے باوجود بھی ڈرتے رہنے کا خوگر بنا دیا تھا:
وَالَّذِيۡنَ يُؤۡتُوۡنَ مَاۤ اٰتَوْا وَّ قُلُوۡبُهُمۡ وَجِلَةٌ اَنَّهُمۡ اِلٰى رَبِّهِمۡ رٰجِعُوۡنَ۔(المؤمنون:60)
*”اور جن کا حال یہ ہے  کہ دیتے ہیں جو کچھ  بھی دیتے ہیں اور دل اُن کے اِس خیال سے کانپتے رہتے ہیں کہ ہمیں اپنے ربّ کی طرف پلٹنا ہے۔“*

جب کبھی دنیا کی محبت ہمارے پاؤں کی زنجیر بننے اور اس کی چمق دمق ہمیں اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کرتی تھی تو پلک جھپکتے ہی ہم اللہ کی پیدا کردہ وسیع و عریض جنت کو یاد کرتے تھے اور ذیل کی آیت کو ذہن میں گھما کر ہم اس آزمائش سے بآسانی سرخرو نکل جاتے تھے:
مَثَلُ الۡجَـنَّةِ الَّتِىۡ وُعِدَ الۡمُتَّقُوۡنَ‌ؕ فِيۡهَاۤ اَنۡهٰرٌ مِّنۡ مَّآءٍ غَيۡرِ اٰسِنٍ‌ ۚ وَاَنۡهٰرٌ مِّنۡ لَّبَنٍ لَّمۡ يَتَغَيَّرۡ طَعۡمُهٗ ‌ۚ وَاَنۡهٰرٌ مِّنۡ خَمۡرٍ لَّذَّةٍ لِّلشّٰرِبِيۡنَ ۚ وَاَنۡهٰرٌ مِّنۡ عَسَلٍ مُّصَفًّى‌ ؕ وَلَهُمۡ فِيۡهَا مِنۡ كُلِّ الثَّمَرٰتِ وَمَغۡفِرَةٌ مِّنۡ رَّبِّهِمۡ‌ؕ كَمَنۡ هُوَ خَالِدٌ فِى النَّارِ وَسُقُوۡا مَآءً حَمِيۡمًا فَقَطَّعَ اَمۡعَآءَهُمۡ۔(محمد:15)
*”پرہیز گاروں کے لیے جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کی شان تو یہ ہے کہ اس میں نہریں بہ رہی ہوں گی  نِتھرے  ہوئے پانی کی،نہریں بہ رہی ہوں گی ایسے دودھ کی جس کے مزے میں ذرا فرق نہ آیا ہوگا،نہریں بہہ رہی ہوں گی ایسی شراب کی جو پینے  والوں کے لیے لذیز ہوگی،نہریں بہ رہی ہوں گی صاف شفاف شہد کی۔اس میں ان کے لیے ہر طرح کے پھل ہوں گے اور ان کے رب کی طرف سے بخشش۔(کیا وہ شخص جس کے حصہ میں یہ جنت آنے والی ہے)ان لوگوں کی طرح ہو سکتا ہے جو جہنم میں ہمیشہ رہیں گے اور جنہیں ایسا گرم پانی پلایا جائے گا  جو ان کی  آنتیں تک  کاٹ دے گا؟“*

ایمان لاکر ہم نے ایک مضبوط ہستی کا دامن لے لیا تھا جس کا سہارا مشکل سے مشکل حالات میں بھی ٹوٹنے والا نہیں ہوتا ہے۔ذیل کی آیت کو ذہن میں رکھ کر ہمیں اپنے رب سے ملاقات کی امید مشکل حالات میں بھی نفسانی ترغیب کے برعکس نیک کام پر کاربند رکھتی تھی:
فَمَنۡ كَانَ يَرۡجُوۡالِقَآءَ رَبِّهٖ فَلۡيَـعۡمَلۡ عَمَلًا صَالِحًـاوَّلَايُشۡرِكۡ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًا۔(الکھف:110)
*”پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور بندگی میں اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرے۔“*

تنگی حالات اور شدائد و مشکلات میں”ان مع العسر یسرا“کا ارشاد ہمارے لیے کشایش و فراخی کی نوید بن جاتی تھی۔جب ہمیں معاملات کی پیچیدگی اور حالات کی تاریکیوں میں کچھ سجھائی نہ دے رہا ہوتا تھا تو ذیل کی آیت کی خوشخبری ہمارے لیے روشنی کی قندیل بن جاتی تھی:
اَللّٰهُ وَلِىُّ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا يُخۡرِجُهُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوۡرِ‌ؕ (البقرۃ:257)
*”جو لوگ ایمان لاتے ہیں،ان کا حامی و مدد گار اللہ ہے اور وہ ان کو تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے۔“*

فسق و فجور کے ماحول میں جب ہم گِھر جاتے تھے اور جب ہم محسوس کرتے تھے کہ معاش و رزق حلال کے دروازوں پر ہر طرف شیطان کے حواری قابض ہیں تو ذیل کی آیت کے الفاظ ہمارے لیے پیغام مسرت بن جاتے تھے:
وَمَنۡ يَّـتَّـقِ اللّٰهَ يَجۡعَلْ لَّهٗ مَخۡرَجًا۔وَّيَرۡزُقۡهُ مِنۡ حَيۡثُ لَا يَحۡتَسِبُ‌ ؕ(الطلاق:3-2)
*”جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اُس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کر دے گا اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اُس کا گمان بھی نہ جاتا ہو۔“*

جب ہم دین کی راہ میں جدوجہد کو کٹھن سمجھ کر گھبرانے لگتے تھے تو ذیل کی آیت کا اعلان ہماری راہیں ہموار کرنے کی نوید بن جاتا تھا:
وَالَّذِيۡنَ جَاهَدُوۡا فِيۡنَا لَنَهۡدِيَنَّهُمۡ سُبُلَنَا ‌ؕ وَاِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الۡمُحۡسِنِيۡنَ۔(العنکبوت:69)
*”جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے،اور یقیناً اللہ نیکو کاروں ہی کے ساتھ ہے۔“*

جب راہِ حق کے مصائب و شداید ہمیں خوف زدہ کرتے تھے تو”لا تخافوا ولا تحزنوا“ کی خوشخبری ہمارے دلوں کی ڈھارس بن جاتی تھی اور جب اقامتِ دین کی جدوجہد میں اپنوں کی بے وفائیاں اور غیروں کی سازشوں کی کامیابیاں ہمیں بد دل اور کم ہمت کرنے لگتے تھے تو ذیل کی آیت کی بشارت ہمارے زخمی دلوں پر مرہم کا پھایا ثابت ہوتی تھی:
وَلَا تَهِنُوۡا وَ لَا تَحۡزَنُوۡا وَاَنۡتُمُ الۡاَعۡلَوۡنَ اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ‏۔(آل عمران:139)
*”دل شکستہ نہ ہو،غم نہ کرو،تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔“*

مخالفِ حق کی ریشہ دوانیوں میں ذیل کی آیت کا یقین افروز خطاب ہمیں ایمان و استقامت میں اضافہ کر دیتا تھا:
يُرِيۡدُوۡنَ  لِيُطْفِئُوا نُوۡرَ اللّٰهِ بِاَ فۡوَاهِهِمْ وَاللّٰهُ مُتِمُّ نُوۡرِهٖ وَلَوۡ كَرِهَ الۡكٰفِرُوۡنَ۔(الصف:8)
*”یہ لوگ اپنے مُنہ کی پُھونکوں سے اللہ کے نُور کو بجھانا چاہتے ہیں،اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نُور کو پُورا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔“*

غیر اسلامی حکومت کے خاتمے اور خلافت علیٰ منہاج النبوہ کے قیام کے لیے ذیل کی آیت کی یقین دہانی اس جدوجہد کے لیے ہمیں نئے سرے سے سرگرم عمل کر دیتی تھی:
وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡكُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَـيَسۡتَخۡلِفَـنَّهُمۡ فِى الۡاَرۡضِ كَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡۖ۔(النور:55)
*”اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے اُن لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اُسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح اُن سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے۔“*

ہم نے اپنی زندگی اللہ کے لیے وقف کی تھی۔ہماری زندگی میں کوئی تقسیم نہیں تھی بلکہ ہماری ساری سرگرمیاں اللہ کے لیے تھیں اور ہم اسی کے لیے جینا اور  اسی کی راہ میں مرنا چاہتے تھے۔یہ نظریہ ہمیں ذیل کی آیت سے ملا تھا:
قُلۡ اِنَّ صَلَاتِىۡ وَنُسُكِىۡ وَ مَحۡيَاىَ وَمَمَاتِىۡ لِلّٰهِ رَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَۙ۔(آل عمران:162)
*”کہو،میری نماز،میرے تمام مراسِم عبودیت،میرا جینا اور میرا مرنا،سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔“*

اسلامی لٹریچر کا وسیع مطالعہ کرنے کے بعد ہمارے قلب و ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ جنت کا راستہ ہموار نہیں ہے بلکہ اس میں بہت سے نشیب و فراز اور ہر قدم پر اتار چڑھاؤ ہیں،اس راستے پر زندگی کی آخری سانس تک استقامت کا مظاہرہ کرنا ہے،یہاں بہت سارے مراحل ہیں جنہیں سر کئے بغیر منزل پر پہنچنا ناممکن ہے،جو شخص ان سب مرحلوں سے اپنا ایمان و اسلام بچاتا ہوا منزل پر پہنچا اور اسی حال میں اپنی جان،جان آفرین کے سپرد کر دی،درحقیقت اسی نے بڑی کامیابی حاصل کی۔ذیل کی آیت نے ہی ہمیں اسلام کے راستے پر پھونک پھونک کر قدم ڈالنے کی ترغیب دی تھی:
 يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَلَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَاَنۡـتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ۔(آل عمران:102)
*”اے لوگوں جو ایمان لائے ہو،اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔“*

جمعیت سچ مچ میں ہماری ماں تھی اور اب ہم یتیمی حالت میں ہی اپنے دن رات کاٹ رہے ہیں۔ان نامساعد حالات میں ہمیں بس ایک امید باقی ہے کہ ان شاء اللّٰہ حالات جلد ہی سازگار ہوں گے اور آنے والی دنیا میں بھی ہم ایک ساتھ ہوں گے،یہی اُمید ہمارے گہرے زخموں پر تسکین کا پھایا رکھ سکتا ہے۔حالات سازگار ہونے کے لیے ہم اصحابِ کہف کی طرح اللہ تعالیٰ سے یوں دعا گو ہیں کہ:
رَبَّنَاۤ اٰتِنَا مِنۡ لَّدُنۡكَ رَحۡمَةً وَّهَيِّئۡ لَـنَا مِنۡ اَمۡرِنَا رَشَدًا(الکھف:10)
*”اے پروردگار،ہم کو اپنی رحمت خاص سے نواز اور ہمارا معاملہ درست کر دے۔“*

Comments