رسائل من القرآن۔۔۔ایک تعارف

مشہور و معروف فلسطینی کاتب جناب ادہم شرقاوی صاحب علمی و دینی حلقوں میں اپنی ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔قلمی جہاد کا بیڑہ اٹھا کر انہوں نے قلیل عرصہ میں تیس سے زائد کتابیں منظرِ عام پر لائیں اور حالیہ دنوں ان کی مشہور زمانہ کتاب”رسائل من القرآن“ کو تحریکی دنیا میں بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔اس دیدہ زیب کتاب کے مطالعہ کا شرف راقم کو بھی حاصل ہوا،جو کہ کئی دنوں سے مسلسل جاری تھا اور الحمد للّٰہ راقم نے آج اس کا مطالعہ احسن طریقے پر پایہ تکمیل کو پہنچا دیا۔بذریعہ ابو الاعلیٰ سید سبحانی صاحب یہ کتاب سلیس اُردو زُبان کے قالب میں ڈالی گئی ہے۔فکری آبیاری و شخصیت سازی کے اِس عظیم الشّان کاوش پر ہم مصنف و مترجم دونوں کو مبارک بادی دیتے ہیں۔میں بلا مبالغہ کہتا ہوں کہ دورانِ مطالعہ میری رُوح وجد میں آگئی،میری آنکھوں سے کئی بار آنسو نکل گئے،میرے جذبات میں طوفان برپا ہوا،میری عقل و فکر کی تسخیر ہوئی اور میں نے اپنے قلب و جگر تک اُترتی ہوئی غیبی طاقت کو بخوبی محسوس کیا۔

یہ کتاب واقعی طور پر فطرتِ سلیمہ کی پُکار ہے اور یہ ایک قاری کو اپنے رب سے باتیں کرنا سکھاتی ہے۔یہ کتاب ایک قاری کو اللّٰہ کے راستے میں اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کے بعد بھی صبر و استقامت کا پہاڑ بننے کا سلیقہ سکھاتی ہے۔یہ کتاب ہر ایک قاری کو رُوحِ قُرآن سے آشنا کرتی ہے تاکہ اس کی زندگی کی تمام اُلجھنیں دُور ہو جائیں۔اِس کتاب میں سادگی بھی ہے اور گداز بھی،ایک ایک لفظ نگینے کی طرح جڑا ہوا ہے۔قُرآن فہمی کو سہل بنانے کی طرف اس طرح خاص توجہ دی گئی ہے کہ ایک قاری قرآنِ پاک میں غوطہ زنی کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔اہلِ درد کو یہ کتاب دِل کی دُنیا بدل کر رکھ دیتی ہے۔اس کتاب کو بغور مطالعہ کرنے کے بعد ایک قاری کو چہار جانب مایوسی کے ماحول میں روشنی کا سماں نظر آتا ہے کیونکہ مصنف کا سینہ کشادہ اور امید کے نور سے منور ہے،جس کی گواہی کتاب کی ایک ایک سطر دیتی ہے۔

یہ کتاب قاری کے سامنے ایک حقیقی مومن کی تصویر آویزاں کر دیتی ہے۔یہ کتاب جگہ جگہ ”ایمان بالقدر“ کے حوالے سے ایسی دلنشیں سطریں پیش کرتی ہے کہ ایک قاری سکون کے ساتھ زندگی بسر کرنے پہ مجبور ہو جاتا ہے۔یہ کتاب ایک قاری کو بار بار رب کی بارگاہ میں حاضری دینے کا ہُنر سکھاتی ہے۔یہ کتاب دلوں کو روشنی اور تازگی فراہم کرتی ہے۔یہ کتاب ایک قاری کو اللّٰہ کے لیے جینا اور اللّٰہ کے لیے ہی مرنا سکھاتی ہے۔یہ کتاب ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑتی اور زخمی روحوں کا مداوا کرتی ہے۔یہ کتاب ایک قاری کو تنہائی میں اللّٰہ کے سامنے اپنی ناسپاسیوں کو یاد کر کے ندامت کے آنسوؤں سے دامن تر کرنے پہ مجبور کر دیتی ہے اور پھر یہی گرم گرم آنسو اسے ایک نئے قسم کے انسان میں تبدیل کر دیتے ہیں۔

یہ کتاب ایک قاری کو خوف و حزن سے بے پروا ہو کر زندگی گزارنا سکھاتی ہے۔یہ کتاب ایک قاری کے ذہن میں یہ بات بٹھا دیتی ہے کہ قرآن علم کے بجائے ہدایت کی کتاب ہے،لہٰذا قرآن کو چھوڑ کر ہدایت تلاش کرنا ناممکنات میں سے ہے۔یہ کتاب”رجوع الی القرآن“کی پُرزور دعوت دیتی ہے۔یہ کتاب ایک قاری کو قرآنِ پاک سے والہانہ تعلق استوار کرنے کی تحریک دیتی ہے اور یہ بات واشگاف الفاظ میں بیان کرتی ہے کہ قرآن ہی وہ واحد کتاب ہے جو زندگی کے گُر سکھاتا ہے۔
یہ کتاب ایک قاری کو اس بات سے باور کرتی ہے کہ قرآن راہِ حق کے مسافر کو قدم قدم پر رہنمائی کرتی ہے اور کبھی کبھار اگر برے جذبات منہ زور ہونے لگتے ہیں تو قرآن اسے لگام دیتا ہے اور اگر اس کے پاؤں ڈگمگانے لگتے ہیں تو قرآن اسے سہارا دیتا ہے۔

پُرسکون ماحول میں اس کتاب کا ایک ایک حرف آنکھوں کی ٹھنڈک اور دِلوں کا نُور بن جاتا ہے۔اس کتاب کو مطالعہ کے بعد قاری تھکتا ہی نہیں بلکہ جوں جوں یہ آگے بڑھتا ہے اسے پڑھنے کا اشتیاق بیش از بیش بڑھ جاتا ہے،یہی ایک منفرد خصوصیت اسے باقی کتابوں سے ممیز کر دیتی ہے۔یہ کتاب اسباب سے زیادہ مسبب الاسباب کو اپنا وجود حوالہ کرنے کی دعوت دیتی ہے۔اس کتاب کا ایک ایک ورق روشن و تابناک ہے اور اس کی سطر سطر میں خوشبو اور عظیم پیغام پنہاں ہے۔دل کو چھونے والی چند سطور کو یہاں حوالہ ناظرین کیا جاتا ہے تاکہ ایک طرف کتاب کی اہمیت واضح ہو جائے اور دوسری طرف بے چین روحوں کو سکون و اطمینان نصیب ہو جائے:
*یہ قرآن پاک کا اعجاز تھا،کہ اس نے صحابہ کرامؓ کو مس خام سے کندن بنا دیا تھا،اور ان کی رگوں میں محبت الٰہی کی بجلیاں دوڑا دی تھیں۔فلسطینی مجاہدین کی طاقت و عزیمت کا راز بھی یہی قرآن پاک ہے۔*(ص 6) 

*توحید کا مسئلہ اس کائنات کا سب سے بڑا مسئلہ ہے بلکہ اس کائنات کا تنہا مسئلہ ہے اسی کے لیے انسانوں کی تخلیق ہوئی رسولوں کو بھیجا گیا کتابیں نازل ہوئیں میزان قائم ہوں گے نامہ اعمال تقسیم کیا جائے گا اور جنت و جہنم کا فیصلہ سنایا جائے گا!*(ص 8)

*ہم اسباب اختیار کرتے ہیں کیونکہ وہ بھی تقدیر کا حصہ ہوتے ہیں لیکن ہم اسباب پر یقین نہیں رکھتے بلکہ اسباب کو پیدا کرنے والی ذات پر یقین رکھتے ہیں!*(ص 10)

*اگر لوگ تمہارے فضل و کمال کے معترف نہیں تو مایوس نہ ہو تمہارے لیے کیا یہ کافی نہیں ہے کہ،اللہ جانتا ہے کہ تم کون ہو!*(ص 12)

*اللہ رب العزت نے خود کو غفور اسی لیے کہا ہے،کیوں کہ وہ چاہتا ہے کہ بندے بار بار اس کی بارگاہ میں حاضری دیں!*(ص 13)

*اللہ کے سوا کسی کو بھی بقا اور دوام حاصل نہیں!اور موت کہانی کا اختتام ہرگز نہیں،بلکہ اس کے بالکل برعکس یہ تو فقط کہانی کا آغاز ہے!اور موت سے اچھا واعظ اور نصیحت کرنے والا کون ہوگا!*(ص 20)

*اللہ رب العزت کے تمام فیصلوں میں خیر ہی خیر ہوتا  ہے،اگرچہ کوئی فیصلہ تمہارے اوپر کتنا ہی گراں گزرے!*(ص 17)

*جلدی کرو،کیونکہ ایک گھنٹے کی بھی تاخیر تمہیں جنت سے محروم کر سکتی ہے!*(ص 19)

*یہ دنیا کھیتی کی جگہ ہے،کٹائی کی جگہ نہیں ہے۔یہ دنیا امتحان کی جگہ ہے،جزا و سزا کی جگہ نہیں ہے۔اللہ بندوں کا امتحان اس طرح بھی لیتا ہے کہ ان پر مصیبتیں نازل کر دیتا ہے۔*( ص 21)

*جس کا دل اسباب میں لٹکا رہتا ہے،اللہ اسے اسباب کے حوالے کر دیتا ہے! اور جس کا دل اللہ سے وابستہ رہتا ہے،اللہ اس کے لیے اسباب کو مسخر کر دیتا ہے!*(ص 23)

*جس طرح انسانی جسم بیمار پڑتے ہیں،اسی طرح انسانی قلوب بھی بیمار پڑتے ہیں،جسمانی امراض کا علاج دلوں کے امراض سے بہت آسان ہوتا ہے! دلوں کو لاحق ہونے والا سب سے خطرناک مرض کبر و غرور کا مرض ہے۔*( ص 24)

*یہ نہیں ہونا چاہیے کہ محبوب افراد کی برائیاں بھی ہمیں اچھائیاں معلوم ہونے لگیں اور یہ بھی نہیں ہونا چاہیے کہ ناپسندیدہ افراد کی اچھائیاں بھی برائیاں قرار پا جائیں۔عدل کا راستہ اختیار کرو،اور چیزوں کو ان کے درست اور مناسب مقام پر رکھو!*(ص 27)

*جنت کی سب سے عظیم اور سب سے شاندار نعمت رویت باری تعالیٰ ہوگی!*(ص 28)

*ایک سچے مومن کا یہی حال ہوتا ہے،اس کے اوپر یہ تصور ہی شدید گراں گزرتا ہے کہ اس کے اور اللہ کے درمیان موجود اطاعت و بندگی کے دروازے بند ہو جائیں!*(ص 29)

*کچھ قلوب ایسے ہوتے ہیں جن کے سلسلہ میں اللہ کو بالکل بھی گوارا نہیں کہ ان میں اس کے علاوہ کسی اور کا بھی حصہ ہو۔*(ص 31)

*شریف لوگوں کو جب منایا جاتا ہے تو وہ مان جاتے ہیں پھر اللہ کیوں نہ راضی ہوگا،وہ تو ارحم الراحمین ہے؟!*(ص 33)

*ہمیشہ حسن ظن رکھنا چاہیے،اور زبان سے ہمیشہ کلمہ خیر ہی نکالنا چاہیے کیونکہ بسا اوقات انسان کو اپنی زبان کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے!*(ص 34)

*یہ چغل خوری،اجتماعیت میں پھوٹ ڈالنے والی اور تعلقات کو خراب کر دینے والی بیماری ہے۔لیکن افسوس کہ ہمارے درمیان چغل خور کتنے بڑھ گئے ہیں!*(ص 36)

*اگر تم اپنے پیچھے صدقہ جاریہ چھوڑ کر نہیں جا رہے ہو تو کم از کم اپنے پیچھے کوئی جاری رہنے والی برائی بھی نہ چھوڑ کر جاؤ!*(ص 41)

*اپنے آپ کو لوگوں کے حوالے نہ کر دو،کہ تمہارا کوئی راز لوگوں سے پوشیدہ نہ رہ جائے۔اپنے بہت سے رازوں کی حفاظت کی ذمہ داری تمہیں خود اٹھانی ہے!*(ص 43)

*جو اللہ رب العزت پر کامل یقین رکھتا ہے،اللہ رب العزت اس کے لیے معجزات کو مسخر فرما دیتا ہے!*(ص 44)

*دنیا کمانے میں کچھ بھی حرج نہیں ہے لیکن دنیا کمانے کے چکر میں آخرت فراموش نہیں ہونی چاہیے!*(ص 46)

*بہت ہی خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ جو ہر طرح کے حالات میں اللہ کے ساتھ ہوتے ہیں*(ص 48)

*یہ بالکل بھی اہم نہیں کہ آپ کہاں رہتے ہیں،اہم یہ ہے کہ آپ کیسے رہتے ہیں؟ ابتدائی حالات بھی بہت زیادہ اہم نہیں دیکھنے کی بات یہ ہے کہ انجام کیا ہوتا ہے!*(ص 49)

*شریف اور باوقار انسان ہمیشہ شریف اور باوقار ہوتا ہے،چاہے وہ کہیں پر بھی ہو!*(ص 50)

*اس دین کا غلبہ یا تو تمہارے ذریعہ ہوگا،یا تمہارے بغیر ہوگا! تم،صرف اور صرف تم نقصان میں رہو گے،اگر ایمان کا یہ قافلہ تم کو چھوڑ کر آگے نکل گیا!*(ص 53)

*ہم پر جو بھی مصیبت آتی ہے اس میں کوئی نہ کوئی خیر کا پہلو ضرور ہوتا ہے،جس کا اندازہ ہمیں بعد میں ہوتا ہے*(ص 55)

*نیک اور شریف لوگ ہمیشہ دوسرے انسانوں کی حاجت روائی میں لگے رہتے ہیں! تصور کرو،اللہ رب العزت اپنے بندوں کے لیے کیسے کیسے اور کیا کیا کرتا ہوگا؟!*(ص 56)

*ہوشیار رہو،کہ شیطان تمہیں تمہارے گناہوں پر اتنا شرمندہ نہ کر دے کہ اپنے رب کا سامنا ہی نہ کر سکو!*(ص 57)

*اپنے پیشے اور اپنے منصب اور اپنی جاب کو لے کر کبھی الجھن کا شکار نہ ہونا جب تک تمہارے پیٹ میں حلال روٹی جا رہی ہے،خوش رہو،جیتے رہو!*(ص 59)

*صحابہ کرامؓ مشکل وقت میں ایک دوسرے کو تلقین اور نصیحت کیا کرتے تھے:*
*یہ دن گزر جائیں گے،اور ہمارا اصل ٹھکانہ تو جنت ہے!*(ص 60)

*حیات طیبہ یہ ہے کہ ہمیشہ اللہ کے فیصلوں پر راضی رہو کیونکہ اللہ کے فیصلوں پر ناراض ہونا،انسان کو تنگی میں ڈال دیتا ہے،تھکا دیتا ہے،پریشانی اور مشقت کا شکار بنا دیتا ہے!*(ص 61)

*ہم اپنی کوشش کے لیے جواب دہ ہیں،نتیجے کے لیے نہیں! طریقہ کار کے سلسلہ میں جواب دہ ہیں،منزل تک پہنچنے کے لیے نہیں!*(ص 64)

*یہ دنیا چند روزہ ہے،سمجھ دار افراد کی نظر میں یہی اس کی حقیقت ہے! یہ کسی کی دوست نہیں،آخر میں یہ سب کو چھوڑ کر چلی جاتی ہے،سمجھدار شخص وہی ہے جو اس کے چھوڑنے سے پہلے خود ہی اسے چھوڑ دے۔*(ص 68)

*بھلی بات درست راستے کی رہنمائی کرتی ہے،روح کا تزکیہ کرتی ہے اور خیالات کی اصلاح کرتی ہے!*(ص 70)

*اللہ کو جو پسند ہے وہ اس کی بارگاہ میں پیش کرو وہ تمہیں وہ سب کچھ عطا کرے گا جو تم چاہتے ہو!*(ص 75)

*ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے وقت سے پہلے اس کو حاصل کرنے کی کوشش نہ کرو!*(ص 76)

*اگر تمہارے اندر اخلاص نہیں،تو پھر اپنے آپ کو تھکاؤ نہیں!*(ص 77)

*مصیبتیں ہمیشہ سزا نہیں ہوتی ہیں بہت سی مصیبتیں ٹریننگ کا حصہ ہوتی ہیں،اصلاحِ احوال کے لیے ہوتی ہیں!*(ص 81)

*اس بات کا یقین رکھو کہ:ہم ایک دن جنت کے کسی درخت کے نیچے بیٹھے ہوں گے اور دنیا کی ان معمولی چیزوں پر ہنس رہے ہوں گے!*(ص 84)

*صحیح بات یہ ہے کہ:جنت کا راستہ کانٹوں سے بھرا ہوتا ہے جبکہ جہنم کا راستہ بالکل ہموار ہوتا ہے!*(ص 85)

*جب بھی تمہارا سینہ تنگی کا شکار ہو،اور دل پریشان رہنے لگے،تو اپنی عبادتوں کا جائزہ لو!*(ص 88)

*شریف لوگ جانتے ہیں کہ معاملات کو جیتنے سے زیادہ اہم افراد کا دل جیتنا ہوتا ہے۔*(ص 89)

*کبھی کبھی اللہ رب العزت اس لیے بھی آزمائش میں ڈالتا ہے تاکہ تمہارے اندر کوئی ایسی اصلاح کرے جو اس آزمائش کے بغیر ممکن ہی نہیں تھی!*(ص 91)

*تنگی کے حالات میں کشادگی کا انتظار کرنا بہترین عبادت ہے! آس پاس کا پورا ماحول یہ اشارہ دے رہا ہے کہ کوئی حل ممکن نہیں،لیکن تم اس بات پر یقین رکھتے ہو کہ فیصلہ تو اللہ کے ہاتھ میں ہے!*(ص 95)

*گنہ گاروں کی گریہ وزاری اللہ کے نزدیک اطاعت شعاروں کی دعاؤں سے زیادہ محبوب ہے۔*(ص 100)

*نیک کاموں کو اسی طرح اپنی عادت بنا لو،جس طرح تم سانس لیتے ہو۔*(ص 101)

*باوقار لوگوں کا شیوہ ہوتا ہے،وہ ماضی کی باتوں کو نہیں یاد رکھتے!*(ص 102)

*اللہ چھوٹی آزمائش کے ذریعہ بڑی آزمائش سے بچا لیتا ہے!*(ص 115)

*یہ دین اس وقت تک رہے گا،جب تک یہ صبح و شام رہیں گے!*(116)

*تمہاری کتاب زندگی کا ایک تلخ اور مشکل باب ممکن ہے کہ زندگی کے کچھ روشن ابواب کی تمہید ہو اس لیے ہمیشہ اللہ سے اچھی امید رکھو!*(ص 119)

*ہمیشہ سے فرعونوں کا یہی وطیرہ رہا ہے،ان کو اپنے لشکروں کی تعداد دھوکے میں ڈالے رکھتی ہے!*(ص 125)

*شاید تمہاری زندگی کے اصل خوب صورت ایام ابھی نہیں آئے ہیں کچھ محنت اور جدوجہد کر لو اور اللہ کے ساتھ حسن ظن قائم رکھو تم دیکھ لو گے کہ آنے والے دن کتنے خوب صورت ہوں گے!*(ص 126)

*محبوب کی جدائی انسان کا یہ حال کر دیتی ہے کہ گویا وہ سوئی کے باریک سوراخ سے سانس لے رہا ہے!*(ص 131)

*اپنے دوستوں کو ساتھ لے کر جنت کا سفر طے کرو،اطاعت شعار دوستوں کی حوصلہ افزائی کرو،معصیت میں مبتلا دوستوں کو اللہ کی طرف لاؤ،چاہے ان کی گردن دبوچ کر لانا پڑے!*(ص 133)

*بھاگنا ہمیشہ بزدلی کا کام نہیں ہوتا اللہ کی طرف بھاگنا تو بہت بہادری کا کام ہوتا ہے!*(ص 134)

*جب اللہ نے تمہیں اپنے دین کی خدمت کے لیے منتخب کر لیا تو سمجھ لو،کہ اس نے تمہارے دل کو دیکھ لیا ہے،اور اسے پسند فرمایا ہے۔*(ص 135)

*اس سے سخت سزا کیا ہوگی کہ انسان کا دل قبرستان بن جائے*(ص 137)

*جس کو اللہ کے قرب کی لذت مل گئی وہ اللہ سے دوری کا سوچ کر ہی کانپ جاتا ہے!*(ص 139)

*کبھی کبھی مصیبت اتنی بڑی ہوتی ہے کہ تمام دنیا والے بھی کماحقہ تعزیت نہیں کر سکتے!*(ص 146)

*کبھی کبھی ہماری قدر و قیمت ہمارے ایکشن نہ لینے میں پوشیدہ ہوتی ہے!*(ص 153)

*تمہیں کوئی ایسا عظیم انسان نہیں ملے گا جس کے پیچھے اس کے گھر کی خواتین کا ہاتھ نہ ہو!*(ص 157) 

*ہم سب اس دنیا میں مہمان ہیں لہٰذا ہمیشہ ایک دوسرے کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کرو!*(ص 158)

*اس بات کا بھروسا اور یقین رکھو کہ دعا تمام بگڑے معاملات کو درست کر دیتی ہے!*(ص 163)

*قرآن کا پہلا لفظ”اقرا“ یعنی پڑھو تھا،یہ نہیں تھا کہ روزہ رکھو اور نماز پڑھو کیونکہ عبادات سے پہلے علم اور عقیدہ ضروری ہے!*(ص 170)

*دنیا والوں کو اپنا کام کرنے دو،تم اس میں وہی فصل لگاؤ،جس کو کاٹتے ہوئے کل تمہیں خوشی محسوس ہو!*(ص 173)

*باطل ایک معرکہ سر کرتا ہے اور حق پوری جنگ جیت جاتا ہے!*(ص 175)

*ہر وہ تاریکی جو دل کے باہر ہے،اس کا معاملہ بہت آسان ہے!*(ص 177)

*اگرچہ ہم جنت سے نکلے ہوئے لوگ ہیں،تاہم دنیا کے اس اسٹیشن پر ہمارے سامنے دو طرح کی ٹرینیں ہیں،ایک ٹرین جنت کی طرف جانے والی ہے اور دوسری ٹرین جہنم کی طرف لے جانے والی ہے! اب ہمارے اوپر ہے کہ کس ٹرین پر سوار ہوتے ہیں!*(ص 188)

*یقیناً ہر چیز بہت باریکی سے لکھی ہوئی ہے،لہٰذا سکون اور اطمینان سے رہو!*(ص 191)

*لوگوں کی خوشی ایک ایسی منزل ہے جہاں تک پہنچنا کسی صورت ممکن نہیں*(ص 193)

*بڑے بڑے ڈکٹیٹروں اور ظالم حکمرانوں سے پوچھ لو،ان کی زندگی کا سب سے بڑا حاصل کیا رہا،وہ سب ایک زبان ہو کر کہیں گے:دنیا کے پیچھے نہ بھاگو!*(ص 197)

*ایمان کے بغیر علم الحاد کے راستے پر ڈال دیتا ہے! اور علم کے بغیر ایمان خرافات کا مجموعہ بن کر رہ جاتا ہے!*(ص 199)

*مال و دولت زندگی کی گاڑی کا محض ایک پہیہ ہے،یہ پوری زندگی نہیں ہے!*(ص 205)

*ہمیشہ یہ بات یاد رکھو:تمہارے پاس بہت کچھ ایسا ہے جو خریدا نہیں جا سکتا!*(ص 212)

*نیک صحبت کی وجہ سے ایک کتے کا ذکر قرآن مجید میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگیا!*(ص 213)

*”معروف“ ایک ایسا وسیع لفظ ہے جس کے اندر تمام اچھی چیزیں شامل ہو جاتی ہیں!*(ص 215)

*ہمیں اپنے نامہ اعمال میں وہی کچھ لکھنا چاہیے جسے کل رب کے حضور پڑھتے ہوئے ہمیں خوشی محسوس ہو!*(227)

*اہم یہ نہیں کہ تم کہاں رہتے ہو،اہم یہ ہے کہ تم کیسے رہتے ہو؟!*(ص 232)

*جس طرح تلوار کی مار تکلیف دہ ہوتی ہے اسی طرح سخت الفاظ کی مار بھی تکلیف دہ ہوتی ہے*(ص 236)

*صریح کفر جھوٹے ایمان سے بہتر ہوتا ہے،گرچہ دونوں ہی میں شر ہی شر ہے!*(ص 238)

*علماء کا احترام لازم ہے،لیکن گمراہی کے معاملات میں ان کی اتباع کرنے سے،کوئی اُن گناہوں کے بوجھ سے نہیں بچ سکے گا!*(ص 247)

*اس دین کا معاملہ بھی خوب ہے،جب اس کے لیے انسانوں کے دل سخت ہو جاتے ہیں تو اللہ پہاڑوں کے دل ان کے لیے نرم کر دیتا ہے!*(ص 248)

*ظلم کا مذہب ایک ہی ہوتا ہے،چاہے ظالم کی شناخت کچھ بھی ہو!*(ص 254)

*ہر زمانے میں ایسے لوگ ہوتے ہیں،ان کے گناہ جتنے بھی بڑے ہوں ان کی اپنی نگاہ میں وہ گناہ معاف ہوتے ہیں،اور تمہارا گناہ ان کی نگاہ میں ناقابل معافی ہوتا ہے چاہے وہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو،لہٰذا اپنی قدر آپ پہچانو،دوسروں سے زیادہ امیدیں نہ رکھو!*(ص 258)

*ہمیشہ بھلائی یہ سوچ کر کرو کہ تم بھلائی کرنے کے اہل ہو،تمہیں اللہ نے اس کا موقع عنایت فرمایا ہے،یہ سوچ کر بھلائی کبھی نہ کرو کہ لوگ اس کے مستحق ہیں!*(ص 268)

*لوگوں سے یہ توقع نہ رکھو کہ وہ فرشتے بن جائیں گے اولو العزم نبی بھی غصہ ہوتا ہے اور تختیاں ڈال دیتا ہے کیونکہ وہ بہرحال ایک انسان ہی ہوتا ہے!*(ص 272)

*اُمی میں لکھنے پڑھنے کی نفی ہے،جبکہ جہل میں علم کی نفی ہوتی ہے!*(ص 274)

*قرآن مجید مطالعہ اور غور و فکر کرنے والوں کی توجہ کا مرکز ہے،وہ اس کی آیات پر غور و فکر کرتے ہیں،اور اس کے الفاظ پر تدبر و تفکر کرتے ہیں*(ص 276)

*دل رحمٰن کی انگلیوں کے درمیان ہوتے ہیں،وہ جیسے چاہتا ہے ان کو پلٹتا رہتا ہے،اللہ نے اس دین کے لیے ایسے ایسے لوگوں کو مسخر کیا،جن کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ ہدایت یافتہ ہوں گے!*(ص 281)

*یہ دین ان لوگوں کے لیے ہے جو اپنے عہد کو سچ کر دکھائیں! اور یقیناً انسان عہد کی پاسداری سے ہی فائق قرار پاتا ہے*(ص 282)

*قرآن مجید پورا ہی بلاغت کے اعلی معیار پر ہے!*(ص 285)

Comments