مُصلِحین __ ناقدریِ زمانہ اور کارِ اصل



   یہ قانونِ قدرت ہے کہ یہاں کسی بھی چیز کو مستقل طور پر دوام حاصل نہیں ہے بلکہ ہر عروج کے ساتھ زوال کا مرحلہ لازم ہے۔جبھی تو ہم دیکھتے ہیں کہ کبھی یہاں شہنشاہِ ملک گداگری پر مجبور ہو جاتا ہے،ترقی یافتہ ممالک مالی خسران کا شکار ہو جاتے ہیں،ایک غالب گروہ کو زوال کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ایک پاکباز تحریک میں ایک متحرک کارکن بھی وقت کے ساتھ ساتھ اپنے وجود کے اندر جمود کے آثار محسوس کرتا ہے وغیرہ۔اب یہ ایک انسان پر منحصر ہے کہ وہ اپنی زندگی کے مختلف میدانوں میں ترقی کے لیے محنت کرے یا حالتِ زوال کی طرف پیش قدمی کرے۔جو افراد یا گروہ بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے”منتظرِ فردا بیٹھیں“وہ کوئی عظیم الشان تاریخ رقم نہیں کر سکتے بلکہ غفلت میں پڑے رہنے سے وہ اپنی منزل سے اور دور چلے جائیں گے-

نصیحت اور تنقید برائے اصلاح وہ دو طاقتور ہتھیار ہیں جو افراد اور اقوام  کے رُخ کو صحیح سمت دے کر انہیں دورِ زوال سے باہر نکالنے میں ایک کلیدی رول ادا کر سکتے ہیں۔دعوتِ دین کی راہ میں جو صالح بندہ بھی ان مذکورہ ہتھیاروں کا سہارا لیتا ہے اسے شریعت کی اصطلاح میں”مُصلِح“ کہتے ہیں۔اس نیلے آسمان کے نیچے اور خاکی زمین کے اوپر یہ کام سب سے پہلے انبیاء علیہم السلام کے مبارک ہاتھوں پایہ تکمیل کو پہنچا،پھر یہ سلسلہ آگے چلتا رہا اور یہ کام تا ہنوز جاری ہے۔لیکن اس بات پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے کہ دشمنانِ دین نے ازل سے ہی اس پورے قافلے کی سنہری باتوں کو وزن نہ دیا بلکہ الٹا انہیں ملامت کرنے میں ہی پیش پیش رہے۔زوال یافتہ نفسیات کی بنا پر ایسے ناہنجار لوگوں نے اپنے خلاف مذکورہ بالا مفید ہتھیاروں کو پسند نہیں کیا بلکہ وہ اپنی ہی دنیا میں مگن رہے۔یہ اسی نفسیات کا اظہار تھا کہ جب بھی اللہ کا کوئی نیک بندہ اُن کے درمیان کھڑا ہو کر ان کی کمزوریوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی کر کے انہیں متنبہ کرتا تو یہ اس کے جانی دشمن بن جاتے اور جھوٹے الزامات کے ساتھ ساتھ ان پر تہمتیں لگا کر انہیں کو بدنام کرتے تاکہ یہ ظاہر ہو جائے کہ خرابی لوگوں کے اندر نہیں بلکہ خود مُصلِح کے اندر ہے۔تاریخ میں سب سے پہلے جس مغضوب گروہ نے اس فعلِ بد کو سر انجام دیا وہ یہودیوں کا گروہ تھا،جنہوں نے اپنے دورِ زوال میں حضرت موسیٰؑ کے خلاف بہت سارے قصے گھڑے تھے جو اب بھی کتابوں میں موجود ہیں۔قرآنِ پاک نے اگرچہ اس چیز کا تذکرہ واشگاف الفاظ میں کیا ہے لیکن ذیل کی آیت کا خطاب دراصل امتِ محمدیﷺ کی طرف ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَكُوۡنُوۡا كَالَّذِيۡنَ اٰذَوۡا مُوۡسٰى فَبَـرَّاَهُ اللّٰهُ مِمَّا قَالُوۡا ؕ وَكَانَ عِنۡدَ اللّٰهِ وَجِيۡهًا(الأحزاب:33)
*”اے لوگو جو ایمان لائے ہو،ان لوگوں کی طرح نہ بن جاؤ جنہوں نے موسیٰؑ کو اذیتیں دی تھیں،پھر اللہ نے ان کی بنائی ہوئی باتوں سے اس کی برأت فرمائی اور وہ اللہ کے نزدیک با عزت تھا۔“*
مولانا اسحاق مدنی اس آیتِ مبارکہ کے ذیل میں لکھتے ہیں:
ایمان والوں کو آداب پیغمبر کے بارے میں خاص ہدایت:سو اس سے ایمان والوں کو اپنے پیغمبر کی ایذا رسانی سے پرہیز و اجتناب کی تنبیہ و تذکیر فرمائی گئی ہے۔سو ارشاد فرمایا گیا اور اہل ایمان کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ”ایمان والو،کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہیں ہوجانا جنہوں نے حضرت موسیٰ کو ایذا پہنچائی تھی“۔کہ تم بھی اپنے پیغمبر کو اسی طرح ستانے لگو جس طرح کہ حضرت موسیٰ کی امت نے ان کو ستایا۔اور اس طرح تم بھی انہی کی طرح اپنی تباہی کا سامان کرلو۔والعیاذ باللہ۔روایات میں وارد ہے کہ ایک مرتبہ آنحضرتﷺ مال غنیمت تقسیم فرما رہے تھے تو ایک شخص نے اعتراض کیا کہ یہ تقسیم صحیح نہیں۔اس میں عدل وانصاف سے کام نہیں لیا گیا۔تو اس پر آپﷺ نے فرمایا”رَحِمَ اللّٰہُ مُوْسٰی لَقَدْ اُوْذِیَ اَکْثَرَ مِنْ ہٰذَا فَصَبَر“۔”اللہ کی رحمتیں ہوں حضرت موسیٰ پر کہ ان کو اس سے بھی زیادہ ستایا گیا مگر انہوں نے صبر ہی سے کام لیا“۔سو یہاں سے یہ درس بھی ملتا ہے کہ جب اللہ کی ایسی پاکیزہ اور مقدس ہستیاں بھی لوگوں کے طعن و تشنیع اور اعتراضات سے نہیں بچ سکیں تو پھر اور کون ہے جو اس سے بچ سکے؟پس اس کی کوشش اور فکر کرنے کی ضرورت نہیں کہ سب لوگ مجھے اچھا کہیں کہ ایسا نہ کبھی ہوا نہ ہو سکتا ہے۔بلکہ کوشش اس امر کی ہو کہ میرا اپنا راستہ صحیح اور میرا اپنا عمل درست ہو۔اور یہ کہ میرا معاملہ میرے خالق ومالک سے ہمیشہ درست رہے۔ اس کے بعد کوئی اچھا کہے یا برا اس کی پروا نہیں ہونی چاہیئے۔وباللہ التوفیق 
قوم موسیٰ کی بدبختی کے ایک نمونے کا ذکر:سو قوم موسیٰ کی طرف سے حضرت موسیٰ کی ایذا رسانی اور اللہ کی طرف سے ان کی براءت کے انتظام کا ذکر فرمایا گیا ہے۔سو ارشاد فرمایا گیا کہ”اللہ نے بری فرما دیا انکو لوگوں کی سب باتوں سے“۔حضرت موسیٰ کو ان کی قوم کی طرف سے طرح طرح سے ستایا گیا۔”ساحر“،”مجنون“اور”کذاب“وغیرہ کے ان عمومی مطاعن کے علاوہ جن سے سب ہی انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام کو واسطہ پڑا۔آپ پر ایک فاحشہ عورت کے ذریعے بھرے مجمع میں تہمت لگوائی گئی۔آپ ؑ پر اپنے بھائی حضرت ہارون کو قتل کرنے تک کا الزام لگایا گیا۔اور اس ناشکری اور بے انصاف قوم کو جب بھی کوئی آزمائش پیش آئی تو انہوں نے حضرت موسیٰ ہی کو مطعون کیا اور ہر بات کا الزام آپ ؑ ہی پر رکھا۔چناچہ مصر سے نکل کر جب یہ لوگ سمندر کے کنارے پہنچے اور پیچھے سے فرعون بھی اپنے لشکروں سمیت ان کے تعاقب میں وہاں پہنچ گیا تو یہ چیخ پڑے کہ موسیٰ نے ہمیں کہاں مروا دیا۔اور سب کو اکٹھا کر کے اس طرح موت کے منہ میں دھکیل دیا۔پھر جب فرعون اپنے لشکر سمیت ان کے سامنے غرقاب ہوا تو حضرت موسیٰ کے ہاتھ پر اتنے بڑے معجزے کے ظاہر ہونے کے باوجود اپنی اس بدتمیزی پر کسی افسوس اور معذرت کرنے کی بجائے سمندر سے پار ہو کر صحرائے سینا میں پہنچنے پر انہوں نے کہا کہ موسیٰ کیا مصر میں ہمارے دفن کے لئے قبروں کی جگہ نہیں تھی جو تم نے ہمیں یہاں لا کر اس لق و دق صحرا میں اس طرح مروا دیا؟پھر حضرت موسیٰ کی دعا و درخواست پر ان کے لیے قدرت کی طرف سے بادلوں کے سایوں اور پانی کے لئے بارہ چشموں کے پھوٹ نکلنے جیسے کھلے معجزات کو دیکھ لینے کے باوجود جب حضرت موسیٰ تورات لینے کوہ طور پر گئے تو انہوں نے کہا کہ یہ شخص ہمیں اس صحرا میں چھوڑ کر پتہ نہیں کہاں گم ہوگیا۔تو انہوں نے اپنے زیورات کا سامری سے ایک بچھڑا بنوایا اور اس کو خدا مان کر اس کی پوجا شروع کردی۔پھر جب ان کو من و سلویٰ جیسی قدرتی نعمتوں سے نوازا گیا تو انہوں نے کہا کہ ایک ہی طرح کا کھانا کھاتے کھاتے ہم لوگ تنگ آگئے ہیں۔اور اس سے ہمارے جسم سوکھ گئے ہیں۔ہمیں وہی مصر والی ساگ،سبزی،کھیرے،ککڑی اور دال روٹی جیسی چیزیں چاہئیں۔پھر جب حضرت موسیٰ نے ان سے کہا کہ تم جہاد کے لئے نکلو تاکہ عمالقہ سے اپنی سرزمین کو آزاد کرا سکو تو انہوں نے صاف طور پر کہہ دیا کہ ہم ایسا نہیں کرسکتے کہ وہ بڑے سخت اور طاقتور لوگ ہیں۔اس لئے ہم تو وہاں نہیں جاسکتے بلکہ یہیں بیٹھے رہیں گے۔تم خود اور تمہارا رب جا کر ان کے ساتھ لڑو وغیرہ وغیرہ۔اس کے علاوہ انہوں نے حضرت موسیٰ پر جسمانی عیبوں کی تہمت لگا کر آپکو بدنام کیا۔جیسا کہ صحیح روایات میں وارد ہے۔مگر اللہ پاک نے اس قسم کے تمام مواقع پر خرق عادت کے طور پر آپ ؑ کی براءت کا انتظام فرمایا اور حضرت موسیٰ کو ہر موقع پر سرخرو کرنے کا انتظام فرمایا۔قرآن پاک نے چونکہ ان مواقع میں سے کسی کی تعیین و تصریح نہیں فرمائی اس لئے”اَبْہِمُوْا مَا اَبْہَمَہُ الْقُرْآنُ“کے اصول کے مطابق ہمیں اس کی تعیین و تخصیص پر زور لگانے کی ضرورت نہیں۔بلکہ اس کو اپنے ظاہر اور عموم ہی پر رکھا جائے۔اور اس طرح یہ سب ہی صورتیں اس ایذا رسانی میں داخل ہیں”ولم یعین لنا الکتاب الکریم ما قالوا فی موسیٰ فمن الخیر أن لا نعینہ حتٰی لا یکون ذاک رجما بالغیب“(المراغی،القرطبی،الکبیر،المحاسن للقاسمی وغیرہ)۔
 وجاہت موسوی کا ذکر و بیان:سو اس سے حضرت موسیٰ کی اللہ تعالیٰ کے یہاں وجاہت کا ذکر فرمایا گیا ہے۔سو ارشاد فرمایا گیا”اور موسیٰ اللہ تعالیٰ کے یہاں بڑے ہی وجیہ اور آبرو مند تھے“۔اور نہ صرف یہ کہ آپ ؑ نبی و رسول تھے اور بس۔بلکہ اولوا العزم رسول تھے۔اور جو دعا آپ اللہ سے مانگتے تھے وہ پوری ہوتی تھی۔ (ابن کثیر وغیرہ) اور یہ آپ کی بیمثال وجاہت ہی تھی کہ آپ ؑ نے کہ تن تنہا اپنے عصا یعنی عصائے موسوی کے سہارے فرعون جیسے بڑے کافر کو للکارا۔ڈنکے کی چوٹ اس کے سامنے کلمہ حق بلند کیا اور بالآخر وہ اپنے لاؤ لشکر سمیت غرق قلزم ہوا۔اور اللہ تعالیٰ کے یہاں آپ ؑ کی وجاہت کا ایک اور پہلو یہ تھا کہ آپ ؑ کی دعا و درخواست سے حضرت ہارون ؑ کو منصب نبوت سے سرفرازی نصیب ہوئی۔جس کی دوسری کوئی مثال نہیں ملتی۔نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد۔سو اللہ پاک نے حضرت موسیٰ کو معاندین و منکرین کی ہر تہمت سے بری فرمایا اور اس طور پر کہ ہر تہمت کے مقابلے میں آپ ؑ کی صداقت و سچائی اور نیک نیتی و راست بازی پہلے سے بھی زیادہ نکھر کر سامنے آئی۔آپ ؑ کی صداقت و حقانیت مزید آشکارا ہوئی اور آپ ؑ اللہ تعالیٰ کے یہاں بڑے باوقار،آبرو مند اور سرخرو ٹھہرے۔اور آپ ؑ کی وجاہت دنیا میں بھی چمکی اور آخرت میں بھی روشن ہوگئی۔سو اس میں بالواسطہ طور پر حضورﷺ کیلئے بڑی بشارت اور خوشخبری ہے۔اور آپ ؑ کے توسط سے آپکی امت کے ہر داعی حق کیلئے یہ بشارت بھی ہے اور درس بھی کہ جتنا کسی کا معاملہ اپنے خالق ومالک کے ساتھ صحیح اور مستحکم و مضبوط ہوگا اتنا ہی وہ کامیاب اور سرخرو ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت اس کی پشت پر رہے گی۔                                         (تفسیر مدنی)

دورِ حاضر کے بگڑے ہوئے معاشرے میں جو بندہ بھی صالح بننے کے ساتھ ساتھ مُصلِح بننے کی کوشش کرتا ہے اسے بھی لوگوں کے طعن و تشنیع اور اعتراضات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔بدقسمتی سے ان زہریلی تیروں کو دیکھتے ہی یہ مایوسی کا شکار ہو کر راہِ وفا میں پھر عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتا ہے،لیکن یہ وہ طریقہ ہے جو ہمارے اسلاف کی زندگیوں سے میل نہیں کھاتا ہے بلکہ یہ بزدلوں اور نامردوں کا راستہ ہے۔بہادر شیروں کا راستہ یہی ہے کہ راہِ حق میں جو چیز بھی حائل ہو اسے دل کی آمادگی کے ساتھ برداشت کر کے اپنی منزل کی جانب بڑھتے ہی چلا جائے۔لوگوں کے طنز و استہزاء کو راہِ وفا کی سنت سمجھنے میں ہی ایک مومن کے لیے عافیت ہے۔جو داعیِ دین بھی لوگوں کی ان احمقانہ باتوں کو وزن دے کر انہیں اپنے ذہن پر سوار کر دیتا ہے وہ اپنی قیمتی زندگی میں زیادہ دیر تک جادۂ مستقیم پر چل ہی نہیں سکتا۔ایک باہمت اور حوصلہ مند مومن کے ایمان کا تقاضا یہی ہے کہ صبر و سکون کے ساتھ دین کا کام کرتا رہے اور لوگوں کا سارا معاملہ اللہ پر چھوڑ دے کیونکہ اس کا جینا اور مرنا اسی ذاتِ برحق کے لیے ہے اور وہی اس کے دشمنوں سے نمٹنے کے لیے کافی ہے۔اس حوالے سے مولانا صدر الدین اصلاحیؒ لکھتے ہیں:
”یہ ایک حقیقت ہے کہ اگرچہ دل آزاری سے انسان متاثر ہوتا ہے،مگر وہ دل آزاری جو”اپنوں“اور واقف کاروں کی طرف سے ہوتی ہے،دلوں کو خون کر دیتی ہے اور ان کے ہاتھوں سے پھینک مارا ہوا ایک پھول بھی سینے میں جو گھاؤ ڈال دیتا ہے وہ غیروں اور ناواقفوں کا پتھر بھی نہیں ڈال سکتا۔۔۔ان تمام دل خراشیوں کے جواب میں،جو خواہ کسی غیر اور ناواقف کی طرف سے پہنچائی جارہی ہوں یا کسی”اپنے“ اور واقف کی طرف سے،اہلِ ایمان کو جو رویہ اختیار کرنے کا حکم ہوا وہ حسب توقع یہی تھا کہ مخالفوں کے اس وار کو بھی خالی دے دو اور صبر و سکون سے اپنا فرض منصبی پورا کرتے رہو۔یہ نہ دیکھو کہ کون کیا کر رہا ہے۔یہی عزیمتِ ایمانی کا تقاضا ہے۔لَـتُبۡلَوُنَّ فِىۡۤ اَمۡوَالِكُمۡ وَاَنۡفُسِكُمۡ وَلَـتَسۡمَعُنَّ مِنَ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡكِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِكُمۡ وَمِنَ الَّذِيۡنَ اَشۡرَكُوۡۤا اَذًى كَثِيۡـرًا‌ؕ وَاِنۡ تَصۡبِرُوۡا وَتَتَّقُوۡا فَاِنَّ ذٰلِكَ مِنۡ عَزۡمِ الۡاُمُوۡرِ(آل عمران:186)
*”مسلمانو! تمہیں مال و جان دونوں کی آزمائشیں پیش آکر رہیں گی،اور تم اہل کتاب اور مشرکین سے بہت سی تکلیف دِہ باتیں سنو گے۔اگر ان سب حالات میں تم صبر اور خدا ترسی کی روش پر قائم رہو تو یہ بڑے حوصلہ کا کام ہے۔“*(اساس دین کی تعمیر،ص ٣١٨)

 خدا بیزار معاشرے میں جو بھی”مُصلِح“حق کی اقامت کا بیڑا اٹھائے گا اسے لازمی طور پر یہ بات ذہن میں تازہ کرنی ہوگی کہ میں ربانی کام کر رہا ہوں اور میرے کام میں قدم قدم پر رکاوٹیں آئیں گے،لہٰذا مجھے صبر کا بھرپور مظاہرہ کرنا ہوگا تب ہی میں جنت کے راستے پر مستقل مزاجی سے چل سکتا ہوں۔اسے یہ بات بھی اپنے ذہن و قلب پر نقش کرنی ہوگی کہ حق کا راستہ کانٹوں سے بھرا پڑا ہے،جہاں اسے پھولوں کے بجائے کبھی کبھی کانٹوں کا سامنا بھی کرنا پڑے گا اور اس کے لیے ناگزیر ہے کہ کانٹوں سے الجھے بغیر ہی اپنی منزل کی جانب پیش قدمی کرے تاکہ یہ بالآخر وہاں سکون و اطمینان کی سانس لے سکے۔ایک بگڑی ہوئی سوسائٹی میں جو مُصلِح بھی اصلاح و تعمیر کے کام کرنے کا خواہاں ہوگا اسے مفکرِ اسلام مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ اپنی قیمتی مشوروں سے نوازتے ہیں،جو اس کے ذہن سے کسی بھی وقت اوجھل نہ ہونے چاہئیں۔لکھتے ہیں:
”جس شخص کو اصلاح و تعمیر کا کام کرنا ہو اور خصوصیت کے ساتھ جب کہ یہ خدمت اسے مدتوں کی بگڑی سوسائٹی میں انجام دینی ہو،اُسے لامحالہ بڑی گندی اور گھناؤنی قسم کی مخالفتوں سے سابقہ پیش آکر رہتا ہے۔اگر وہ اتنی طاقت نہیں رکھتا کہ گالیاں کھا کر ہنس دے،طعنے سُن کر ٹال دے،الزام اور بہتان اور جھوٹے پروپیگنڈے کو یکسر نظر انداز کر کے پورے سکون و جمعیتِ خاطر کے ساتھ اپنا کام کرتا رہے تو بہتر یہی ہے کہ وہ اس راہ میں قدم ہی نہ رکھے۔اس لیے کہ یہ کانٹوں بھری راہ ہے۔اس کا ہر کانٹا یہ عزم کیے بیٹھا ہے کہ آدمی اور جس طرف بھی چلا جائے مگر اس سمت میں اُسے ایک اِنچ بھی نہ بڑھنے دیا جائے گا۔اس حالت میں جو شخص ہر کانٹے سے الجھنے لگے وہ کیا پیش قدمی کرے گا۔یہاں تو ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جن کے دامن سے اگر کوئی کانٹا اُلجھ جائے تو وہ دامن کا وہ حصّہ پھاڑ کر اس کے حوالے کر دیں۔ایک لمحہ کے لیے بھی اپنی راہ کھوٹی نہ کریں۔یہ صبر صرف مخالفوں ہی کے مقابلے میں درکار نہیں ہے بلکہ بسا اوقات اس راہ کے راہ رو کو خود اپنے ساتھیوں سے بھی تلخ و ناگوار باتوں سے سابقہ پیش آجاتا ہے اور ان کے معاملہ میں اگر وہ حلم و تحمّل سے کام نہ لے تو پورے قافلے کی راہ مار سکتا ہے۔“(اسلامی تزکیہ نفس،ص ٣٠)

Comments