Virtues of Fasting in the light of Hadiths.

   اللہ تعالی اور اسکے بندوں کے مابین ایک گہرا تعلق ہوتا ہے۔اس تعلق کو برقرار رکھنے اور اس میں مزید مضبوطی لانے کے لیے اللہ تعالی اپنے بندوں کو حکمت سے لبریز احکام سے نوازتے ہیں۔اللہ تعالی اپنے بندوں سے بہت زیادہ محبت کرنے والی ذات ہے اور یہ اسی شدتِ محبت کا نتیجہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کو ایسے احکام نہیں دیتا جو ان کی طاقت سے باہر ہوں۔اب یہ بندوں پر دارومدار ہوتا ہے کہ وہ کس حد تک اپنے دلوں کو محبتِ الہی سے آباد کریں۔جس بندے کا دل حبِ الہی کا آئینہ دار ہو اسے ربانی احکام کو سر انجام دینے کے ساتھ ساتھ زیادہ فکر اپنے پروردگار کی خوشنودی کی ہوتی ہے۔یہ حب الہی ہی ہے جو ایک بندے کو خدا کی راہ پہ چلنا آسان کر دیتا ہے۔

انسان کو اگرچہ کچھ احکام مشکل لگتے ہیں لیکن یہ سارا معاملہ اس کے ذوق و شوق پر منحصر ہوتا ہے۔اگر اس کے دل میں کچھ کرنے کا سچا جذبہ ہو اور اس کا وجود سخت کوشی کے صفت سے متصف ہو تو یہ اپنے منزل کی جانب بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔اللہ عز و جل نے اپنے بندوں کے لیے بہت سارے احکام دیے ہیں اور انہی احکام میں سے ایک حکم”روزہ“ ہے۔یہ ایک ایسا حکم ہے جو کہ بظاہر کٹھن لگتا ہے کیونکہ بھوک پیاس کو برداشت کرنا،نیند کی خواہش کو روکنا اور دوسری بہت سی خواہشات اور جذبات پر قدغن لگانا آسان کام نہیں ہے۔تاہم یہ سب مشکل کام ان لوگوں کے لیے آسان ہیں جو اپنے رب سے ملنے اور اسی کی طرف پلٹ کر جانے پر پختہ یقین رکھتے ہوں۔

روز مرہ کی زندگی میں جونہی ہمیں کسی چیز کی اہمیت کا علم ہوتا ہے تو ہم چشمِ زدن میں ہی اس چیز کے خریدار بنتے ہیں کیونکہ ہمارے دل و دماغ کی تختیوں پر اس کی اہمیت کے اثرات کندہ ہو جاتے ہیں۔اسلام بھی اپنے پیروکاروں کو جبری طور پر اپنے پیچھے نہیں چلاتا بلکہ اپنی ایک ایک چیز کی اہمیت و افادیت کو اس طریقے پر واضح کر دیتا ہے کہ انسان اسے فالو کرنے پر مجبور ہو ہی جاتا ہے۔اسلام نے روزوں کی اہمیت کو بہت ہی احسن طریقے پر اجاگر کیا ہے تاکہ انسان کو اس حکم پر عمل پیرا ہونے کے لیے ایک تحریک مل جائے۔روزوں کی اہمیت کو مبرہن کرتے ہوئے راقم نے ذیل میں چند مستند احادیث کو جمع کیا ہے تاکہ انہیں مطالعہ کر کے ہم بروقت اپنے دل و دماغ میں ان کی اہمیت کو جگہ دے کر شعوری طور پر روزہ رکھنے کے قابل ہو سکیں:

*روزہ دار کے لیے رسول اللہﷺ‎ نے جنت کا وعدہ فرمایا ہے*

(1)حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ:

”ایک دیہاتی نبی کریمﷺ  کی خدمت میں آیا اور عرض کی کہ آپ مجھے کوئی ایسا کام بتلائیے جس پر اگر میں ہمیشگی کروں تو جنت میں داخل ہوجاؤں۔آپﷺ  نے فرمایا کہ اللہ کی عبادت کر،اس کا کسی کو شریک نہ ٹھہرا،فرض نماز قائم کر،فرض زکوٰۃ دے اور رمضان کے روزے رکھ۔ دیہاتی نے کہا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے،ان عملوں پر میں کوئی زیادتی نہیں کروں گا۔جب وہ پیٹھ موڑ کر جانے لگا تو نبی کریمﷺ  نے فرمایا کہ اگر کوئی ایسے شخص کو دیکھنا چاہے جو جنت والوں میں سے ہو تو وہ اس شخص کو دیکھ لے۔“(بخاری:1397)

*روزہ داروں کے لیے جنت میں ایک خاص دروازہ بنایا گیا ہے*

(1)حضرت سہل بن سعد ساعدیؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ  نے فرمایا:

”جنت کا ایک دروازہ ہے جسے ریان کہتے ہیں قیامت کے دن اس دروازہ سے صرف روزہ دار ہی جنت میں داخل ہوں گے،ان کے سوا اور کوئی اس میں سے نہیں داخل ہوگا،پکارا جائے گا کہ روزہ دار کہاں ہے؟وہ کھڑے ہوجائیں گے ان کے سوا اس سے اور کوئی نہیں اندر جانے پائے گا اور جب یہ لوگ اندر چلے جائیں گے تو یہ دروازہ بند کردیا جائے گا پھر اس سے کوئی اندر نہ جاسکے گا۔“(بخاری:1896)

(2)حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ:

”رسول اللہﷺ نے  فرمایا جو اللہ کے راستے میں دو چیزیں خرچ کرے گا اسے فرشتے جنت کے دروازوں سے بلائیں گے کہ اے اللہ کے بندے! یہ دروازہ اچھا ہے پھر جو شخص نمازی ہوگا اسے نماز کے دروازہ سے بلایا جائے گا جو مجاہد ہوگا اسے جہاد کے دروازے سے بلایا جائے جو روزہ دار ہوگا اسے باب الريان سے بلایا جائے گا اور جو زکوٰۃ ادا کرنے والا ہوگا اسے زکوٰۃ کے دروازہ سے بلایا جائے گا۔اس پر ابوبکرؓ نے پوچھا میرے ماں باپ آپﷺ  پر فدا ہوں یا رسول اللہﷺ ! جو لوگ ان دروازوں(میں سے کسی ایک دروازہ) سے بلائے جائیں گے مجھے ان سے بحث نہیں،آپ یہ فرمائیں کہ کیا کوئی ایسا بھی ہوگا جسے ان سب دروازوں سے بلایا جائے گا؟آپﷺ  نے فرمایا کہ ہاں اور مجھے امید ہے کہ آپ بھی انہیں میں سے ہوں گے۔“(بخاری:1897)

*روزہ دار شہداء کے ساتھ ہوں گے*

(1)حضرت عمرو بن مرہ جہنیؓ سے روایت ہے کہ:

”ایک آدمی نبی کریمﷺ‎ کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا،اے اللہ کے رسول! اگر میں یہ شہادت دوں کہ اللہ تعالی کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں اور آپﷺ‎ اللہ کے رسول ہیں،میں پانچ نمازیں پڑھوں،زکوة ادا کروں،ماہ رمضان کے روزے رکھوں اور اس میں قیام بھی کروں،تو میں کن لوگوں میں سے ہوں گا؟آپﷺ‎ نے فرمایا:صدیقین اور شہداء میں سے۔“(صحیح الترغیب:1003)

*روزہ دار کے گذشتہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں*

(1) ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ  رسول اللہﷺ  نے فرمایا کہ:

”جو کوئی شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور حصول ثواب کی نیت سے عبادت میں کھڑا ہو اس کے تمام اگلے گناہ بخش دیئے جائیں گے اور جس نے رمضان کے روزے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رکھے اس کے اگلے تمام گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔“(بخاری:1901)

(2)حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ عمرؓ نے پوچھا فتنہ کے متعلق رسول اللہﷺ  کی حدیث کسی کو یاد ہے؟حذیفہؓ نے بیان کیا کہ میں نے سنا ہے،آپﷺ  نے فرمایا تھا کہ انسان کے لیے اس کے بال بچے،اس کا مال اور اس کے پڑوسی فتنہ(آزمائش و امتحان) ہیں جس کا کفارہ نماز روزہ اور صدقہ بن جاتا ہے۔(بخاری:1895)

(3)حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ‎ فرمایا کرتے تھے:

”پانچویں نمازیں،ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان دوسرے رمضان تک اپنے درمیان ہونے والے گناہوں کو مٹا دیتا ہے جبکہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے۔“(مسلم:233)

*رمضان میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے بند کر دیے جاتے ہیں*

(1)حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہرسول اللہﷺ  نے فرمایا:

”جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔“(بخاری:1898)

(2)حضرت ابوہریرہؓ کو کہتے سنا کہ رسول اللہﷺ  نے فرمایا:

”جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو آسمان کے تمام دروازے کھول دیئے جاتے ہیں،جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں سے جکڑ دیا جاتا ہے۔“(بخاری:1899)

*روزہ دار کے منہ کی بو کستوری سے زیادہ پاکیزہ ہے*

(1)حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ  نے فرمایا:

”اللہ پاک فرماتا ہے کہ انسان کا ہر نیک عمل خود اسی کے لیے ہے مگر روزہ کہ وہ خاص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور روزہ گناہوں کی ایک ڈھال ہے،اگر کوئی روزے سے ہو تو اسے فحش گوئی نہ کرنی چاہیے اور نہ شور مچائے،اگر کوئی شخص اس کو گالی دے یا لڑنا چاہیے تو اس کا جواب صرف یہ ہو کہ میں ایک روزہ دار آدمی ہوں،اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدﷺ‎ کی جان ہے! روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ بہتر ہے،روزہ دار کو دو خوشیاں حاصل ہوں گی(ایک تو جب) وہ افطار کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے اور(دوسرے) جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرے گا تو اپنے روزے کا ثواب پا کر خوش ہوگا۔“(بخاری:1904)

*روزہ دار کے ہر عمل کا اجر سات سو گناہ تک بڑھا دیا جاتا ہے*

(1)حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ  رسول اللہﷺ نے فرمایا:

”انسان کی ہر نیکی دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھا دی جاتی ہے،اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:سوائے روزے کے اس لیے کہ وہ میرے لیے خاص ہے،اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا،آدمی اپنی خواہش اور کھانا میرے لیے چھوڑ دیتا ہے،روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں:ایک افطار کے وقت اور دوسری اپنے رب سے ملنے کے وقت،اور روزے دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی بو سے بہتر ہے۔“(ابن ماجہ:1638)

*ماہ رمضان کی ہر رات اللہ تعالی لوگوں کو جہنم سے آزاد کرتے ہیں*

(1)حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

”جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیطان اور سرکش جن زنجیروں میں جکڑ دئیے جاتے ہیں،جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں،اور اس کا کوئی بھی دروازہ کھلا ہوا نہیں رہتا،جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں،اور اس کا کوئی بھی دروازہ بند نہیں رہتا،منادی پکارتا ہے:اے بھلائی کے چاہنے والے!بھلائی کے کام پہ آگے بڑھ،اور اے برائی کے چاہنے والے!اپنی برائی سے رک جا،کچھ لوگوں کو اللہ جہنم کی آگ سے آزاد کرتا ہے،اور یہ(رمضان کی)  ہر رات کو ہوتا ہے۔“(ابن ماجہ:1642)

*روزِ قیامت روزہ مومن بندے کی سفارش کرے گا*

(1)حضرت عبد اللہ بن عمروؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ‎ نے فرمایا:

”روزہ اور قرآن مومن بندے کی سفارش کریں گے۔روزہ کہے گا،اے میرے پروردگار!میں نے اس کو دن بھر کھانے پینے اور شہوت رانی سے روکے رکھا،اس لیے اس کے بارے میں میری سفارش قبول فرما۔اور قرآن کہے گا کہ رات کو میں نے اسے نیند سے روکے رکھا اس لیے اس کے بارے میں میری سفارش قبول فرما۔پھر دونوں کی سفارش قبول کر لی جائے گی۔“(صحیح الترغیب:984)

*روزہ خیر کا دروازہ ہے*

(1)حضرت معاذ بن جبلؓ کہتے ہیں کہ:

”میں ایک سفر میں نبی اکرمﷺ  کے ساتھ تھا،ایک دن صبح کے وقت میں آپﷺ  سے قریب ہوا،ہم سب چل رہے تھے،میں نے آپ سے عرض کیا:اللہ کے رسول! آپ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت میں لے جائے،اور جہنم سے دور رکھے؟ آپ نے فرمایا:تم نے ایک بہت بڑی بات پوچھی ہے۔اور بیشک یہ عمل اس شخص کے لیے آسان ہے جس کے لیے اللہ آسان کر دے۔تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کا کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ،نماز قائم کرو،زکاۃ دو،رمضان کے روزے رکھو،اور بیت اللہ کا حج کرو۔پھر آپ نے فرمایا:کیا میں تمہیں بھلائی کے دروازے(راستے) نہ بتاؤں؟روزہ ڈھال ہے،صدقہ گناہ کو ایسے بجھا دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھاتا ہے۔“(ترمذی:2616) 

*ہزار مہینوں سے بہتر رات”شب قدر“ ماہ رمضان میں ہی ہے*

(1)حضرت انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ  رمضان آیا تو رسول اکرمﷺ نے فرمایا:

”یہ مہینہ آگیا اور اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے،جو اس سے محروم رہا وہ ہر طرح کے خیر(بھلائی) سے محروم رہا،اور اس کی بھلائی سے محروم وہی رہے گا جو  (واقعی)محروم ہو۔“(ابن ماجہ:1644)

(2)حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ‎ نے فرمایا:

”تمہارے پاس رمضان کا برکت والا مہینہ آگیا ہے۔اللہ تعالی نے تم پر اس کے روزے فرض کیے ہیں۔اس ماہ میں دوزخ کے دروازے بند ہو جاتے ہیں اور سرکش شیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہے۔اللہ کے لیے اس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔جو شخص اس کی خیر و برکت سے محروم ہوا وہ ہر قسم کی خیر و برکت سے محروم ہوا۔“(صحیح الترغیب:999)

*نزول قرآن کا شرف ماہ رمضان کو ہی حاصل ہے*

(1)شَهۡرُ رَمَضَانَ الَّذِىۡٓ اُنۡزِلَ فِيۡهِ الۡقُرۡاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَيِّنٰتٍ مِّنَ الۡهُدٰى وَالۡفُرۡقَانِۚ فَمَنۡ شَهِدَ مِنۡكُمُ الشَّهۡرَ فَلۡيَـصُمۡهُ ؕ(البقرة:185)

”رمضان وہ مہینہ ہے،جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے،جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہے۔لہٰذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے،اُس پر لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے۔“ 

امام ابن کثیرؒ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ:

”اللہ تعالی سارے مہینوں میں سے روزوں کے مہینے کی مدح و تعریف فرما رہے ہیں کیونکہ اللہ تعالی نے ان تمام میں سے اسے قرآن عظیم نازل کرنے کے لیے پسند فرمایا ہے۔“(تفسیر ابن کثیر٤٣٩/١)

(2)اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰهُ فِىۡ لَيۡلَةٍ مُّبٰـرَكَةٍ‌ اِنَّا كُنَّا مُنۡذِرِيۡنَ(الدخان:3)

”کہ ہم نے اِسے ایک بڑی خیر و برکت والی رات میں نازل کیا ہے،کیونکہ ہم لوگوں کو متنبّہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔“

(3)اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰهُ فِىۡ لَيۡلَةِ الۡقَدۡرِ(القدر:1)

”ہم نے اِس (قرآن)کو شبِ قدر میں نازل کیا ہے۔“

(4)حضرت واثلہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ‎ نے فرمایا:

”صحف ابراہیم ماہ رمضان کی پہلی رات میں نازل کیے گیے۔تورات اس وقت نازل کی گئی جب رمضان کے چھ ایام گزر چکے تھے۔انجیل تب نازل کی گئی جب رمضان کے تیرہ ایام گزر چکے تھے۔زبور اس وقت نازل کی گئی جب رمضان کے اٹھارہ ایام گزر چکے تھے اور قرآن اس وقت نازل کیا گیا جب رمضان کے چوبیس ایام گزر چکے تھے۔“(صحیح الجامع الصغیر:1497)

*رمضان میں عمرہ کا ثواب حج کے برابر ہوتا ہے*

(1)حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے فرمایا کہ:

”جب رسول اللہﷺ حجۃ الوداع سے واپس ہوئے تو آپﷺ  نے ام سنان انصاریہ عورتؓ سے دریافت فرمایا کہ تو حج کرنے نہیں گئی؟انہوں نے عرض کی کہ فلاں کے باپ یعنی میرے خاوند کے پاس دو اونٹ پانی پلانے کے تھے ایک پر تو خود حج کو چلے گئے اور دوسرا ہماری زمین سیراب کرتا ہے۔آپﷺ  نے اس پر فرمایا کہ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے۔“(بخاری:1863)

*روزہ دار کی دعا قبول کی جاتی ہے*

(1)حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ  رسول اللہﷺ  نے فرمایا:

”تین لوگ ہیں جن کی دعا رد نہیں ہوتی:ایک روزہ دار،جب تک کہ روزہ نہ کھول لے،(دوسرے)امام عادل،(تیسرے)مظلوم،اس کی دعا اللہ بدلیوں سے اوپر تک پہنچاتا ہے،اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں،اور رب کہتا ہے:میری عزت(قدرت)کی قسم!میں تیری مدد کروں گا،بھلے کچھ مدت کے بعد ہی کیوں نہ ہو۔“(ترمذی:3598)

*افطاری کے وقت اللہ تعالی لوگوں کو جہنم سے آزاد کرتے ہیں*

(1)حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

”اللہ تعالیٰ ہر افطار کے وقت کچھ لوگوں کو جہنم سے آزاد کرتا ہے اور یہ(رمضان کی)ہر رات کو ہوتا ہے۔“(ابن ماجہ 1643)

*رمضان کے روزے درجات کی بلندی کا ذریعہ*

(1)حضرت طلحہ بن عبید اللہؓ سے روایت ہے کہ دور دراز کے دو شخص رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے،وہ دونوں ایک ساتھ اسلام لائے تھے،ان میں ایک دوسرے کی نسبت بہت ہی محنتی تھا،تو محنتی نے جہاد کیا اور شہید ہوگیا،پھر دوسرا شخص اس کے ایک سال بعد تک زندہ رہا،اس کے بعد وہ بھی مرگیا،طلحہؓ کہتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں جنت کے دروازے پر کھڑا ہوں،اتنے میں وہ دونوں شخص نظر آئے اور جنت کے اندر سے ایک شخص نکلا،اور اس شخص کو اندر جانے کی اجازت دی جس کا انتقال آخر میں ہوا تھا،پھر دوسری بار نکلا،اور اس کو اجازت دی جو شہید کر دیا گیا تھا،اس کے بعد اس شخص نے میرے پاس آ کر کہا:تم واپس چلے جاؤ،ابھی تمہارا وقت نہیں آیا،صبح اٹھ کر طلحہؓ لوگوں سے خواب بیان کرنے لگے تو لوگوں نے بڑی حیرت ظاہر کی،پھر خبر رسول اللہﷺ کو پہنچی،اور لوگوں نے یہ سارا قصہ اور واقعہ آپ سے بیان کیا تو آپﷺ نے فرمایا:تمہیں کس بات پر تعجب ہے؟انہوں نے کہا:اللہ کے رسول! پہلا شخص نہایت عبادت گزار تھا،پھر وہ شہید بھی کر دیا گیا،اور یہ دوسرا اس سے پہلے جنت میں داخل کیا گیا! آپ ﷺ نے فرمایا:کیا یہ اس کے بعد ایک سال مزید زندہ نہیں رہا؟،لوگوں نے عرض کیا:کیوں نہیں،ضرور زندہ رہا،آپ ﷺ نے فرمایا:ایک سال میں تو اس نے رمضان کا مہینہ پایا،روزے رکھے،اور نماز بھی پڑھی اور اتنے سجدے کئے،کیا یہ حقیقت نہیں ہے؟لوگوں نے عرض کیا:یہ تو ہے،آپﷺ نے فرمایا:تو اسی وجہ سے ان دونوں(کے درجوں)میں زمین و آسمان کے فاصلہ سے بھی زیادہ دوری ہے۔(ابن ماجہ:3925)

Comments

Post a Comment