Surood e Rafta __ An Introduction

    انسان اس کائنات کی عظیم الشان مخلوق ہے،جسے اللہ تعالی کی جانب سے گوناگوں صلاحیتیں بخشی گئی ہیں۔ازل سے ہی ایک سلیم الفطرت،صحیح الدّماغ اور حسّاس انسان اپنی مشقت بھری زندگی میں ایک ایسے راستے کا متلاشی رہا ہے جہاں اسے دلی سکون کے ساتھ ساتھ اپنی خداداد صلاحیتوں کو نِکھارنے کا موقع مل سکے۔چوں کہ یہ راستہ عموماً سخت رہا ہے لہذا جن لوگوں میں ربّانی صفات کا تخم موجود نہ ہو وہ چند منزلیں سر کر کے ہی اپنی”مجبوریوں“ اور”معذوریوں“کا حوالہ دے کر الگ ہو جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کے لئے بلندیوں کے راستے مسدود ہو جاتے ہیں۔اس کے برعکس جو لوگ شعوری طور پر قلبِ سلیم لے کر اور واپسی کی تمام کشتیوں کو جلا کر اس کی طرف آتے ہیں،ان کے لیے یہ راستہ ترقیوں کے تمام دروازے کھول دیتا ہے۔

یہ لوگ ہر زمانے کے گھپ اندھیروں میں روشن ستاروں کی طرح چمکتے رہتے ہیں تاکہ جویائے حق کو منزل کا پتہ دیں۔اس حوالے سے ہماری وادی کشمیر میں بھی نہ جانے کتنے اللہ کے نیک بندوں نے شاندار مثالیں رقم کی ہیں۔ان ہی قد آور ہستیوں میں ایک مایہ ناز ہستی محترم غلام محمد وانی صاحب کی ہے،جن کا تعلق ضلع بانڈی پورہ کے ارِن نامی گاؤں سے ہے۔آپ کی شخصیت علمی و تحریکی حلقوں میں محتاج تعارف نہیں ہے۔آپ نے تحریکی لٹریچر کے ذریعے ہی اپنی فکر میں وسعت لائی اور اس کے ساتھ ساتھ وادی کے دو معروف بزرگانِ دین مولانا سعد الدینؒ اور محمد نعیم عاصمیؒ سے بیعت کا شرف بھی حاصل کیا۔آپ بچپن سے ہی قرآن کے عاشق رہ چکے ہیں اور آپ نے دینِ حق کی اشاعت میں اپنے سیاہ بالوں کو سفید کرنے کا شرف بھی حاصل کیا ہے۔آج بھی ان کے نورانی چہرے پر نظر پڑ کر اسلاف کی یاد تازہ ہو جاتی ہے اور لاٹھی کا سہارا لے کر بھی اقامتِ دین کی باتیں کرنے سے انسان کو ان کے ہاں استقامت کا درس ملتا ہے۔میں بلا مبالغہ یہ بات کہتا ہوں کہ وانی صاحب کو جو بھی بندہ خدا ملے گا انہیں ایک ولی اللہ کی حیثیت سے ہی پائے گا۔تحریک میں موصوف کی تربیت کس طرح کی ہو چکی تھی اور ان کی انسان دوستی کیسی تھی؟ اس سوال کا جواب ذیل کے واقعے میں بین طور پر ملتا ہے:

”چار اپریل ١٩٧٩ء میں ہمارا ایک ہمسایہ ہمارے آنگن میں آکر ہمارے مکان کا بغور مشاہدہ کر رہا تھا۔میرے بڑے بھائی حسرت سے ان سے پوچھتے ہیں کہ تم کیا دیکھتے ہو؟ اس شخص نے لاگ لپٹ کے بغیر صاف لفظوں میں بتا دیا”تمہارے اس مکان کو نظر آتش کرنا ہے لیکن ہمارے رشتہ دار کا مکان نزدیک ہونے کی وجہ سے ان کا گھر بھی آگ کی لپیٹ میں آسکتا ہے اس لئے جائزہ لے رہا ہوں کہ تمہارے مکان کو کیسے مسمار کیا جائے“۔

زمانہ اپنی فطری رفتار جاری رکھتے ہوئے گزرتا گیا۔قریبا بائیس سال بیت گئے۔میں گھر پر تھا۔اس شخص کی بیٹی آگئی۔سلام کلام کے بعد بڑی مایوسی کے ساتھ گویا ہوئیں”مامہ لالہ میون بب ہا مود،تس کس دِیہ غسل بیہ پرس جنازہ“ یعنی مامہ لالہ میرا بابا مرگیا۔اس کا غسل دینے والا اور جنازہ پڑھنے والا کوئی نہیں ہے۔۔۔!

میں نے کہا”میں حاضر ہوں“ وہ پھولے نہ سمائی۔اور مجھے ساتھ لے گئی۔میں نے غسل دیا اور جنازہ پڑھایا۔کیونکہ میں نے تحریک اسلامی میں تربیت پائی تھی اپنے پیارے آقاﷺ‎ کی سیرتِ پاک کا سرمہ آنکھوں کو لگایا تھا۔میرے نفس کی کثافت کسی حد تک اس مقدس سیرت اور اسلاف کی تربیت سے دھل چکی تھی۔“(ص ١٠٥۔١٠٦)

انسان کے سینے میں نہ جانے کتنی دکھ بھری کہانیاں دفن ہوتی ہیں جنہیں وہ صفحہ قرطاس پر لانا چاہتا ہے تاکہ اپنے دل کا بوجھ کچھ ہلکا کر سکے۔وانی صاحب کے دل میں بھی تحریک کی ایک لمبی کہانی ہے جس کے لیے ایک ضخیم کتاب درکار ہے۔حال ہی میں ان کے ذاتی مشاہدات پر مشتمل ایک کتاب منظرِ عام پر آئی ہے جس کا نام”سرودِ رفتہ“ہے۔کتاب کا سرورق اتنا پرکشش اور دیدہ زیب ہے کہ انسان کا قلب و جگر موہ لیتا ہے اور کاغذ بھی معیاری قسم کا ہے،جسے قارئین حضرات بچشمِ سر خود محسوس کریں گے۔کتاب کو”اپنی بات“سے شروع کر کے وانی صاحب نے اس حسین گلدستہ کے حسن کو ثبات اور جمال کو عظمت بخشی ہے۔جناب شبیر احمد لون صاحب نے بالاختصار”حرفے چند“ لکھ کر اس کتاب کی زینت میں مزید اضافہ کیا ہے۔جناب عمر فاروق صاحب نے”میرے محسن میرے مربی“ لکھ کر ایک طرف کتاب لکھنے کی غرض و غایت بتائی ہے اور ساتھ ہی وانی صاحب سے اپنے گہرے قلبی تعلق کا واشگاف الفاظ میں اظہار کیا ہے۔

کتاب کا پہلا باب”مشاہدات“ پر مشتمل ہے جس میں ٤٥ موضوعات ہیں،جنہیں ایک بہترین ترتیب سے مرتب کیا گیا ہے تاکہ قاری کسی اکتاہٹ اور غنودگی کا شکار نہ ہو جائے۔ان کے عنوانات سحر انگیز ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ نام الہامی طور پر وانی صاحب کو بتائے گئے ہیں۔”خوفِ خدا اور غمِ انسان“ نامی موضوع پر اس باب کی بنیاد رکھی گئی ہے،دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ اس باب کی ہی نہیں بلکہ پوری شریعت کی بنیاد ہے لہذا اسے اپنے وجود کے اندر پیدا کرنے کے سوا کوئی چارا ہے ہی نہیں۔ان تمام موضوعات کو حالاتِ حاضرہ سے مربوط کیا گیا ہے تاکہ قارئین حضرات کو نامساعد حالات میں جینے کا سلیقہ سکھایا جائے۔قرآن و حدیث کی ریفرنسز دینے کے ساتھ ساتھ دانائے راز علامہ اقبالؒ کے اشعار نے کتاب کے موضوعات کو اور زیادہ پراثر بنا دیا ہے۔وانی صاحب سید مودودیؒ کے شیدائی ازل سے ہی رہ چکے ہیں۔موضوع ”قومی شعور“ کے تحت ان کا ایک واقعہ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

”علامہ سید مودودیؒ ایک بار کہیں تشریف لے جا رہے تھے۔چونکہ پاکستان کی سڑکیں عمدہ ہیں اس لیے ڈرائیور بہت تیز دوڑ رہا تھا۔اچانک علامہ نے رکنے کا اشارہ کیا۔ڈرائیور رک گیا۔تو کیا دیکھتا ہے کہ پانی کا نل کھلا ہے پانی ضائع ہو رہا ہے۔ڈرائیور کا بیان ہے مولانا اتنے معمولی کام کے لئے آپ رک گئے اور مجھے کام انجام دینے کے بجائے خود ہی نل بند کیا۔مولانا نے جواب میں فرمایا کہ یہ معمولی کام نہیں قوم کا پیسہ ضائع ہو رہا تھا۔“ 

عظیم عالمِ دین جناب مولانا غلام احمد احرارؒ کے متعلق ایک دلخراش واقعہ کو موضوع”خاصانِ خدا کی ادائیں“کے تحت لاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

”مجھے اپنے ایک شاگرد رشید نے بتایا،جو شوپیان ضلع سے تعلق رکھتے ہیں کہ ایک دن کا واقعہ ہے کہ رات کے گھپ اندھیرے میں ایک موٹر کار مولانا احرار صاحب کے محلے میں راستہ بھول جانے کے باعث جا رکی۔لوگ محو خواب تھے کہیں سے کوئی راستہ بتانے والا نہیں تھا۔اسی پریشانی کے عالم میں اس شبستان میں انہیں ایک نحیف آدمی نظر آیا وہ ان کی ہی جانب قدم بڑھا رہا تھا۔دونوں فریق شش و پنج میں پڑ گئے کہ رات کی اس تاریکی میں یہ نحیف بندہ کس غرض سے گھوم رہا ہے اور احرار مرحوم کے لئے اچھنبے کی بات کہ موٹر گاڑی ہمارے محلے میں!۔جیسا کہ عرض کیا گیا پرامن ماحول تھا۔مولانا ان کے قریب گئے سلام کلام کے تعارف ہوا۔یہاں دور افتادہ گاؤں میں در آنے کی وجہ؟ مولانا نے استفسار کیا۔”ہم کشمیر آئے تھے،پنجاب کے ہیں رات کو راستہ بھول گئے“مسافر بولے۔چلو کوئی بات نہیں گھر چلتے ہیں۔آرام سے سو جاؤ۔بھوک لگی ہوگی۔ہم امیر لوگ نہیں لیکن پیارے نبیﷺ‎ کی تعلیمات نے دل کی وسعت بخشی ہے۔

مسافر مہمان:”بزرگ یہ بتاؤ اتنی دیر آپ کہاں تھے اور اس تھیلے میں کیا ہے؟“ یہ مٹی ہے یہ میں گاؤں کے مختلف بیوت الخلا میں ڈال کے آتا ہوں تاکہ خدا کے بندوں کی خدمت ہو سکے۔مہمانوں نے پوچھا کہ”دن کی روشنی میں بھی یہ کام کیا جا سکتا ہے؟“۔نہیں یہ کسی آدمی کے علم میں نہیں آنا چاہئے یہ صرف اللہ میرے معبود اور میری ذات تک محدود رہنا چاہئے،احرار صاحب نے در جواب فرمایا۔“

مذکورہ بالا باب میں ان جیسے نہ جانے کتنے واقعات انہوں نے قلمبند کئے ہیں جنہیں پڑھ کے ایک قاری کے پاؤں تلے زمین کھسک جاتی ہے اور وہ اپنے ایمان پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔پرانے زمانے کی یادوں نے ہی مؤلف کو قلم اٹھانے پر مجبور کر دیا ہے تاکہ دورِ جدید میں حیران و پریشان انسان کو کتاب کی ورق گردانی کر کے باطنی اطمینان مل سکے۔

دوسرے باب میں مؤلف نے چھ مضامین کو ایک جگہ جمع کیا ہے اور اس باب کو ایک دلکش عنوان یعنی”نقوشِ تاباں“ دے کر ایک قاری کو مطالعہ کرنے کا شوق بڑھا دیا ہے۔ان مضامین کو”نقوشِ تاباں“کا عنوان دینے کی غرض و غایت کے متعلق مؤلف لکھتے ہیں کہ:

”میں نے جب آنکھ کھولی تو سماج آج کے مقابلے میں یکسر مختلف تھا۔مادی لحاظ سے ہمارا سماج آج یقینا بہت ترقی پا چکا ہے لیکن ہم اپنی پاکیزہ قدریں کھوچکے ہیں۔ہماری تہذیب،انسانیت،مروت،مودت،سادگی،ایثار و اخلاص کی آئینہ دار رہی ہے اور ہر طرح رہی ہے اور ہر طرح کی نفرت فرقہ واریت سے پاک بالکل پاک فقط انسانیت کی مضبوط جڑوں پر قائم تھی۔آپ میں سے جن بزرگوں کو وہ ناقابلِ فراموش ایام دیکھنے کا موقعہ نصیب ہوا ہو وہ میرے ساتھ بلا شک و ریب اتفاق کریں گے کہ آج کے جہنم نما سماج میں سانس لیتے ہوئے ان ایام کی یاد خون کے آنسوں بہانے پر مجبور کرتی ہے۔میں نے تصنع اور لیپاپوتی کے بغیر کچھ گوشے اس پاکیزہ بود و باش سے بھی اجاگر کئے ہیں اور انہیں”نقوشِ تابان“ کا عنوان دیا ہے۔“(ص ١٥)

تیسرے باب میں مؤلف نے سات مضامین جمع کئے ہیں اور انہیں ایک عنوان بنامِ”راہِ حق کی یادیں“کے تحت جمع کیا ہے۔مؤلف نے اعتراف کیا ہے کہ عہد شباب سے ہی آپ ایک منظم اور متحرک گروہ کے ساتھ منسلک ہوئے تھے،جس میں بالخصوص آپ کو مولانا سعد الدین صاحب تاربلیؒ نے متاثر کر دیا اور ان کی صحبت نے آپ کو بلند ترین نصب العین کی خاطر دوڑ دھوپ کرنے پر ابھارا اور پاکباز زندگی گزارنے کی تحریک دی۔ویسے تو ان دنوں میرِ کارواں ایسے ہوتے تھے جنہیں دیکھتے ہی انسان کو اللہ یاد آجاتا تھا۔انہیں تحریک اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہوتی تھی اور اگر وہ ارکان کے حوالے سے ایک معمولی قسم کی غفلت بھی پاتے تو آگ بگولہ ہو جاتے تھے۔فکرِ آخرت کے حوالے سے ارکان بھی ایسے حساس تھے کہ معمولی غفلت کے بارے میں جب انہیں احتساب کیا جاتا تھا تو وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر روتے تھے۔اس کا اندازہ ذیل کے واقعہ سے ملتا ہے:

”ایک روز ہم مقامی مسجد سے مغرب کی نماز ادا کر کے آئے۔میر کارواں سب کے بعد اجتماع گاہ میں داخل ہوئے۔کسی صاحب کا پروگرام شروع ہونے کا انتظار تھا۔مرحوم نے ڈائس انچارج سے اجازت لی اور کھڑے ہوگئے۔کلماتِ مسنونہ کے بعد عادت اور انداز سے ہٹ کر شرارت آمیز لہجے میں گویا ہوئے:”تم ارکان ہو یعنی جماعت کے ترجمان اور نمائندے۔تمہیں دیکھ کر اللہ بزرگ و برتر بھی اور اس کے بندے بھی”تحریک اسلامی“کے بارے میں فیصلہ کریں گے۔کیا تمہیں اپنے نصب العین کا اندازہ ہے؟یہ جس قدر مقدس ہے اسی قدر کٹھن اور صبر آزما۔“

یہ راہ وفا ہے راہ وفا پرپیچ بہت پرخار بہت
کم کوش سہل انگار یہاں منزل کا نہیں سودا کرتے(عامر عثمانی)

”اس نصب العین کو جب ہی پایا جا سکتا ہے جب اللہ قادر مطلق کے ساتھ تعلق گہرا ہو۔مجھے حیرت اور مایوسی ہوئی جب تم اوابین کے نفل ادا کئے بغیر مسجد سے نکل پڑے۔ارکان کے لئے نماز پنج گانہ کافی نہیں۔تمہیں نہیں معلوم کہ رسول صادقﷺ‎ سے فرمایا گیا اِنَّا سَنُلۡقِىۡ عَلَيۡكَ قَوۡلًا ثَقِيۡلًا‏۔“میں بچشم سر دیکھ رہا تھا زعماء حضرات جنہیں اس مرد قلندرؒ نے اپنی گوناگوں اوصاف سے نصب العین کا گرویدہ بنایا تھا زار زار آنسوں بہا رہے تھے لیکن ہم نونہال کچھ زیادہ نہ سمجھ پائے۔(ص ٢٢٢۔٢٢٣)

چوتھے باب میں مؤلف نے گیارہ پاکباز خواتین بالخصوص امہات المؤمنین کا مختصر طور پر تذکرہ کیا ہے تاکہ امتِ مسلمہ کی پیاری بیٹیوں میں مطالعہ کے بعد فکری و عملی بیداری پیدا ہو سکے۔یہ وہ مظلوم ترین شعبہ ہے جسے آج بالکل نظر انداز کیا گیا ہے لیکن مؤلف نے اسی چیز کو محسوس کرتے ہوئے بروقت صحابیات کی تابناک زندگیوں کو کتاب کی زینت بنا دیا ہے۔واقعاتی انداز میں دل کی دنیا تک بات پہنچانا مؤلف کا خاصا ہے،جسے ایک قاری ورق گردانی پر خود ہی محسوس کرے گا۔

مجموعی طور پر میں نے کتاب کو بہت ہی زیادہ مفید پایا بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ مجھے سطر سطر خوشبو مل گئی،لیکن کئی جگہوں پہ تصحیح کرنے کی ضرورت ہے،جس کا بیڑا آئندہ ایڈیشن میں ان کے شاگردِ خاص کو اٹھانا چاہیے کیونکہ موصوف اس وقت ضعفِ پیری میں اپنے ایام کاٹ رہے ہیں۔کتاب کی طباعت کے بعد مجھے بذاتِ خود کافی مسرت ہوئی کیونکہ میں نے بھی اپنی محنتِ شاقہ کا ایک حصہ اس کام میں لگا دیا تھا،جس کی قبولیت کے لیے میں اللہ کے دربار میں دعا گو ہوں تاکہ مجھ خطا کار کو بھی مغفرت کا بروانہ مل سکے۔میں ولر پبلشنگ ہاؤس کے پورے قافلے کی طرف سے محترم وانی صاحب کو اس علمی،فکری اور عملی کاوش پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور اللہ تعالی سے دعا گو ہوں کہ ان کی اس سعی جمیلہ کو شرفِ قبولیت سے نوازے،آمین!

___________________________________

نام کتاب:سرودِ رَفتہ

مصنف:غلام محمد وانی

صفحات:٢٧٨

قیمت: ٣٥٠ روپیے

ناشر:ولر پبلشنگ ہاؤس،کولگام،جموں و کشمیر

Comments