Performing Good Deeds:Why To Delay?(Part 6)

دنیا میں بہت ساری پُکاریں انسان کے کانوں سے ٹکراتی ہیں لیکن ان سب پکاروں میں مؤثر ترین اور دور رس پکار”اللہ کی پکار“ ہے۔قرآنِ پاک میں اس پکار کو ہم کہیں”یا ایھا الناس“ کی شکل میں تو کہیں”یا ایھا الذین اٰمنو“ کی شکل میں اور کہیں”یا ایھا الانسان“ کی شکل میں پاتے ہیں۔انسان میں اگر سماعت کا جوہر اور دلِ بیدار موجود ہو تو اس پکار پر لبیک کہنے میں اسے دیر نہیں لگتی۔اللہ کو پہچاننے اور اس کی طرف رجوع کرنے کی پکار ابتداء سے ہی رسولوں کی مبارک زبانوں سے ان کی زندگیوں کی آخری سانسوں تک جاری تھی۔صحابہ کرامؓ قلبِ منیر،عقلِ سلیم اور روشن دماغ کے حامل لوگ تھے جیسے ہی انھوں نے ایک پکارنے والے کو سنا کہ جو ایمان کے لیے پکار رہا ہے اور ترغیب دے رہا ہے کہ لوگو اپنے رب کو مانو،اس پر ایمان لاؤ اور اس کی تصدیق کرو۔چناچہ وہ عقلمند لوگ اپنی عقل رسا کے باعث اور اللہ کی توفیق سے دیر کئے بغیر ہی اس پکارنے والے کی پکار کی طرف بڑھے اور ایمان کی دولت سے مالا مال ہوئے۔انہیں ایسا لگتا تھا جیسا کہ یہ پکار ہمارے ہی اندر سے اٹھ رہی ہے۔چناچہ انہوں نے اس سچائی کو قبول کیا اور نامساعد حالات کے باوجود نہایت جرأت سے اس کا اعلان بھی کیا کہ:

رَبَّنَآ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّکُمْ فَاٰمَنَّا۔(آل عمران:193)

*”اے ہمارے رب ! ہم نے سنا ایک پکارنے والے کو ایمان کی دعوت دیتے ہوئے کہ ایمان لاؤ اپنے رب پر تو ہم ایمان لے آئے۔“*

حضرتِ محمدﷺ‎ کے دورِ سعید میں صحابہ کرامؓ نے آپﷺ‎ کی ایک ایک پکار پر دل کی پوری رضا مندی کے ساتھ لبیک کہا۔وہ ہر مشکل مرحلے میں سینہ سپر رہے اور انہوں نے صراطِ مستقیم پر ایمان بالغیب اور رسول اللہﷺ‎ کی محبت کے ایسے انمٹ نقوش چھوڑے جن سے قیامت کی صبح تک ہر ایک قافلۂ حق راہِ ہدایت پائے گا۔ایمان کے عملی تقاضوں کو بروئے کار لانے کے لیے انہوں نے کوئی پس و پیش نہیں کیا بلکہ موقعہ کی تلاش میں ہر دم سرگرداں رہے۔ایمان سے لے کر شہادت تک وہ روشنی کے مینار تھے۔ان کی زندگی کا ایک ایک پل نبیﷺ‎ کی اتباع سے لبریز تھا۔وہ حبِ رسولﷺ‎ کے عملی نمونے تھے اور انہوں نے اپنے معیارِ زندگی کا بت پاش پاش کیا تھا۔انہوں نے ناز و نعمت کے ماحول کو چھوڑ کر عشق کی وادیِ پرخار میں قدم رکھا تھا اور پھر زندگی بھر پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔ان کا خاص وصف آخرت کو دنیا پر ترجیح دینا تھا اور وہ فقر و فاقہ میں بھی ایثار و قربانی کی مثالیں رقم کر گئے۔وہ ایسے مخلص وفادار بندے تھے کہ جنھوں نے زندگی کا ہر دکھ اسلام کی سربلندی کے لیے برداشت کیا اور اپنی ہر خواہش اللہ تعالی کے حکم اور اس کی رضا پر قربان کر دی۔ان کے متعلق مولانا سید ابو الاعلی مودودیؒ رقمطراز ہیں کہ:

*”یہ وہ صاف دماغ اور سلجھے ہوئے ذہن کے لوگ تھے جنہوں نے شرک و جاہلیت کے اس تاریک ماحول میں پرورش پانے کے باوجود قرآن مجید کی تعلیمات سن کر اپنے دینِ آبائی کا غلط اور دینِ اسلام کا برحق ہونا تسلیم کر لیا اور کوئی تعصب انہیں ایمان لانے سے نہ روک سکا۔ان کو معلوم تھا کہ اپنے خاندان،اپنے قبیلے اور اپنے شہر کے عام لوگوں کی رائے کے خلاف اسلام قبول کرنے اور محمدﷺ‎ کی پیروی اختیار کرنے کے کیا معنی ہیں۔ایمان لانے والوں پر جو عذاب توڑے جا رہے تھے وہ سب ان کی آنکھوں کے سامنے تھے۔مگر وہ اِس دل گردے کے لوگ تھے کہ کوئی خوف انہیں باطل کو رد اور حق کو قبول کرنے سے نہ روک سکا۔انہوں نے ہر طرح کے ظلم صرف اس لیے سہے کہ جس چیز کو وہ باطل سمجھ چکے تھے اس کی پیروی کرنا انہیں کسی حال میں گوارا نہ تھا،اور جس چیز کا حق ہونا انہیں معلوم ہو چکا تھا اسے چھوڑنے کے لیے وہ تیار نہ تھے۔انہیں بری طرح مارا پیٹا گیا۔انہیں الٹا لٹایا گیا۔انہیں بھوک پیاس کی مار دی گئی۔انہیں باندھ کر قید تنہائی میں ڈال دیا گیا۔ان کو آگ کے انگاروں پر لٹایا گیا۔ان کے بڑے بڑے باعزت لوگوں کو برسرِ عام ذلیل کیا گیا۔مگر یہ سب کچھ انہوں نے محض حق کی خاطر برداشت کر لیا اور ان میں سے کسی ایک مرد یا عورت کو بھی ایمان سے کفر کی طرف نہ پھیرا جا سکا۔انہوں نے اپنا ایمان بچانے کے لیے دو دفعہ حبش کی طرف اور آخر میں مدینے کی طرف ہجرت کی۔گھربار،مال،اسباب،عزیز رشتہ دار،سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر خدا کی راہ میں نکل کھڑے ہوئے۔ان میں سے بکثرت ایسے تھے جو تن کے کپڑوں کے سوا کچھ نہ لے جا سکے۔ان کے اس طرزِ عمل نے ثابت کر دیا کہ اسلامی تحریک کو وہ انتہائی مخلص و جاں نثار فدائی مل گئے ہیں،جو اگرچہ مٹھی بھر ہیں،مگر ایسے بہادر ہیں کہ اپنے دین کے لیے ہر قربانی دے سکتے ہیں،ہر مصیبت جھیل سکتے ہیں،ہر تکلیف و اذیت برداشت کر سکتے ہیں،اور ہر بڑی سے بڑی طاقت سے ٹکرا سکتے ہیں۔اِن خوبیوں کے ساتھ کے ساتھ ایسا عظیم انقلاب قرآن کی تعلیم اور محمدﷺ‎ کی تربیت سے ان کی زندگی میں رونما ہوگیا کہ اپنی راست بازی و دیانت،اپنی پرہیزگاری و طہارت،اپنی خدا ترسی و خدا پرستی،اپنی عفت و پاک دامنی،اپنی شرافت و شائستگی،اور اپنی مضبوط اور قابلِ اعتماد سیرت کے اعتبار سے صرف عرب ہی میں نہیں،دنیا بھر میں ان کا جواب نہ پایا جاتا تھا،جس طرح رسول اللہﷺ‎ اس معاشرے میں ایک منارہ نور کی طرح نمایاں تھے،اسی طرح آپﷺ‎ کے ساتھیوں کی زندگی کا اخلاقی انقلاب بھی اِسی قدر ظاہر و باہر تھا کہ دیکھنے والی آنکھ کفار کی اخلاقی حالت اور ان کی اخلاقی حالت کا فرق علانیہ دیکھ سکتی تھی۔تعصب اور عناد کی بنا پر مخالفین زبان سے اس کا انکار کر سکتے تھے،مگر ان کے دل جانتے تھے کہ قدیم جاہلیت کیا سیرت و کردار پیدا کرتی تھی،اور یہ نیا دین کس سیرت و کردار کے انسان پیدا کر رہا ہے۔“*(سیرت سرورِ عالمﷺ‎،جلد دوم،ص٦١٥۔٦١٦)

 مولانا سید ابو الحسن علی میاں ندویؒ ان روشن ستاروں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:

*”آپﷺ‎ کے تیار کئے ہوئے افراد میں سے ایک ایک نبوت کا شاہکار ہے اور نوع انسانی کے شرف و افتخار کا باعث۔انسانیت کے مرقع میں،بلکہ اس پوری کائنات میں پیغمبروں کو چھوڑ کر اس سے زیادہ حسین و جمیل،اس سے زیادہ دلکش و دل آویز تصویر نہیں ملتی جو ان کی زندگی میں نظر آتی ہے۔ان کا پختہ یقین،ان کا گہرا علم،ان کا سچا دل،ان کی بے تکلف زندگی،ان کی بے نفسی و خداترسی،ان کی پاکبازی و پاکیزگی،ان کی شفقت و رافت اور ان کی شجاعت و جلاوت،ان کا ذوقِ عبادت اور ان کا شوقِ شہادت،ان کی شہسواری اور ان کی شب زندہ داری،ان کی سیم و زر سے بے پرواہی اور ان کی دنیا سے بے رغبتی،ان کا عدل اور ان کا حسنِ انتظام دنیا کی تاریخ میں اپنی نظیر نہیں رکھتا۔“*(نبوت کا اصل کارنامہ،ص 7)

نبی اکرمﷺ‎ کی پکاروں پر بلا جھجک سر تسلیم خم کرنا ان کا طرہ امتیاز تھا۔ان کی عظیم الشان تاریخ میں سے چند مثالیں پیشِ خدمت ہیں:

*(1)اسلام قبول کرنے میں حضرت ابوبکرؓ کی سبقت*

سیدنا ابو بکر صدیقؓ اسلام قبول کرنے والے دوسرے شخص تھے۔آپ سے پہلے حضور نبی کریم کی زوجہ امُّ المومنین خدیجہ بنت خویلد نے اسلام قبول کیا تھا۔علی المرتضیؓ سے کسی نے پوچھا کہ مہاجرین و انصار نے سیدنا ابو بکر کی بیعت میں سبقت کیوں کی جبکہ آپ کو ان پر فوقیت حاصل تھی۔علی المرتضیٰ نے جواب دیا کہ سیدنا ابو بکر کو چار باتوں میں فوقیت حاصل تھی۔میں ان کا ہمسر نہیں تھا،اسلام کا اعلان کرنے میں،ہجرت میں پہل کرنے میں،غار میں حضور نبی کریم کے ساتھ ہونے اور علانیہ نماز پڑھنے میں وہ مجھ سے آگے تھے۔انہوں نے اس وقت اسلام کا اظہار کیا جب میں اسے چھپا رہا تھا۔قریش مجھ کو حقیر سمجھتے تھے جبکہ وہ ابو بکر کو پورا پورا وزن دیتے تھے۔اللہ کی قسم ! اگر سیدنا ابو بکر کی یہ خصوصیات نہیں ہوتیں تو اسلام اس طرح نہ پھیلتا اور طالوت کے ساتھیوں نے نہر سے پانی پی کر جس کردار کا اظہار کیا تھا اسی طرح کے کردار کا اظہار لوگ یہاں بھی کرتے۔دیکھتے نہیں کہ جہاں اللہ تعالیٰ نے دوسرے لوگوں کو ڈانتا وہاں سیدنا ابو بکر کی تعریف بھی کی۔

امام جلال الدین سیوطیؒ بیان کرتے ہیں کہ امام اعظم امام ابو حنیفہؒ کی رائے ہے اور اس کی تائید ترمذی شریف کی حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ مردوں میں سب سے پہلے اسلام ابو بکر صدیق نے قبول کیا،عورتوں میں سب سے پہلے اسلام ام المومنین خدیجہ نے قبول کیا جبکہ بچوں میں سب سے پہلے اسلام سیدنا علی امرتضیٰ نے قبول کیا۔سب سے پہلے جن ہستیوں نے قبولِ اسلام کی دعوت پر لبیک کہا وہ تھیں ---- ابو بکر صدیقؓ،خدیجۃ الکبرٰیؓ،علی المرتضٰیؓ اور زید بن حارثہؓ۔خدیجہؓ نبی کریم کی اہلیہ تھیں،علیؓ نبی کریم کے نابالغ چچا زاد بھائی تھے اور آپ کے زیر کفالت تھے۔زید بن حارثہ پہلے حضور نبی کریم کے غلام تھے پھر آپ نے ان کو آزاد کر دیا لیکن انہوں نے آپ کا خادم بن آپ کے پاس ہی رہنے کو ترجیح دی۔چنانچہ حضور نبی کریم نے ان کو اپنا بیٹا بنا لیا تھا۔اس لحاظ سے تینوں حضور نبی کریم کے گھر کے افراد تھے۔ابو بکر صدیق گھر سے باہر کے آدمی تھے تاہم انہوں نے عامۃ الناس میں سب سے پہلے قبول اسلام کا شرف کیا،اس لیے اول المسلمین کہلائے۔(سیرۃ خلیفۃ الرسول سیدنا ابو بکر صدیق از طالب ہاشمی ص 45-44)

رسول اللہﷺ‎ فرماتے ہیں کہ”میں نے جس کو بھی اسلام کی دعوت دی اسے اسے پس و پسش اور تردد ہوا،سوائے ابوبکر بن قحافہ کے۔میں نے جب ان سے اسلام کا ذکر کیا تو انہوں نے اسے قبول کرنے میں نہ تاخیر کی اور نہ کسی تردد کا اظہار کیا۔“(ابن ہشام،السیرة النبویة:٢٨٨/١)

*(2) حکمِ رسولﷺ ‎پر حضرت حنظلہؓ کی بے تابی*

حضرت حنظلہؓ نے غزوہ کے لیے روانگی سے قبل اپنی اہلیہ سے مباشرت کی تھی کہ اچانک روانگی کا اعلان ہو گیا۔رسول اللہﷺ کے ارشاد کی تعمیل اورشوقِ جہاد کی سر شادی میں انہیں غسل کا خیال تک نہ رہا۔جب آپ شہادت سے سرفراز ہو چکے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسولِ اکرم کو اطلاع دی گئی کہ حنظلہ کو فرشتوں نے غسل دے دیا ہے۔عروہ کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ نے ان کی زوجہ سے دریافت کیا کہ غزوہ کے لیے آتے وقت حنظلہ کس حالت میں تھے تو انہوں نے بتلایا کہ وہ جنبی تھے۔حنظلہ جلدی سے ہتھیار سے لیس ہوکر اسی حالت میں تیزی کے ساتھ میدانِ جنگ کی طرف بڑھے اور نبی اکرمﷺ کو دیکھا کہ جنگ کی صف بندی فرما رہے ہیں،جب گھمسان کی جنگ شروع ہوئی تو آپ کا ابوسفیان سے سامنا ہو گیا،آپ نے اس کے گھوڑے کی پچھلی ٹانگ کے گھٹنے پرزوردار وار کیا جس سے ابوسفیان نیچے آگرا اور چیخنے چلانے لگا،اے قریش کی جماعت ! میں ابوسفیان ہوں!میری مدد کو دوڑو،دیکھو ! حنظلہ بن ابی عامر مجھے قتل کر دے گا۔ہرایک کو اپنی فکر تھی،کسی نے بھی اس کی آواز پرکان نہ دھرا،البتہ اسود بن شعوب یاشداد بن اسود اس کی مدد کے لیے دوڑا اور پیچھے سے آپ پر نیزہ سے وار کیا،اسی وقت شہید ہوگئے۔ (الاستیعاب:1/423)

*(3) نبی اکرمﷺ‎ کی پکار پر ابو الدحداح کا یادگار فیصلہ*

مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَه وَلَه اَجْرٌ کَرِیْمٌ۔ (الحدید:11)

*”کون ہے جو اللہ کو قرض دے،اچھا قرض،تاکہ وہ اس کو اس کے لیے بڑھائے اور اس کے لیے بہترین اجر ہے۔“*

حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ کی روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی اور آنحضرتﷺ کی زبانِ مبارک سے لوگوں نے اس کو سنا تو حضرت ابوالدحداح انصاری نے عرض کیا،یارسول اللہ! کیا اللہ تعالیٰ ہم سے قرض چاہتا ہے؟حضورﷺ نے جواب دیا،ہاں،اے ابوالدحداح۔انھوں نے کہا ذرا اپنا ہاتھ مجھے دکھائیے۔آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ ان کی طرف بڑھا دیا۔انھوں نے آپ ﷺ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا:میں نے اپنے رب کو اپنا باغ قرض دے دیا۔حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ اس باغ میں کھجور کے چھ سو درخت تھے۔اسی میں ان کا گھر تھا اور وہیں ان کے بال بچے رہتے تھے۔رسول اللہ ﷺ سے یہ بات کر کے وہ سیدھے گھر پہنچے اور بیوی کو پکار کر کہا:دحداح کی ماں نکل آؤ،میں نے یہ باغ اپنے رب کو قرض دے دیا ہے۔وہ بولی تم نے نفع کا سودا کیا،دحداح کے باپ۔اور اسی وقت اپنا سامان اور اپنے بچے لے کر باغ سے نکل گئیں۔  (روح القرآن)

*(4)جنت کا سچا طلب گار*

حضرت جابر بن عبداللہ انصاریؓ سے مروی ہے کہ ایک صحابی نے نبی کریمﷺ سے غزوہ احد کے موقع پر پوچھا: یا رسول اللہ! اگر میں قتل کردیا گیا تو میں کہاں جاؤں گا؟ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ جنت میں۔انہوں نے کھجور پھینک دی جو ان کے ہاتھ میں تھی اور لڑنے لگے یہاں تک کہ شہید ہوگئے۔(بخاری:4046)

Comments