“Women and Islam”:An Analytical Study

  اللہ تعالی نے عورت کو معزز اور معظم بنایا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اسے یہ شرف بھی بخشا کہ وہ خیلفة الله فی الارض یعنی انسان کی نسل کو عام کرنے کا ذریعہ ہے۔مگر جاہل انسانوں نے اسے لھو و لعب کا ذریعہ بنایا،اس کی بدترین توہین کی اور اس پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے۔تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ہر عہد میں عورت بے شمار مصائب و مکروہات جھیلتی رہی اور اسے بار بار بے دردی سے اور مختلف طریقوں کو بروئے کار لاکر پستی کی اتھاہ اور تاریک گہرایوں میں پھینک دیا گیا جہاں سے اس کا ابھرنا بظاہر ناممکنات میں سے تھا۔لیکن جب اسلام کا ابرِ رحمت برسا تو عورت کی حیثیت چشمِ زدن میں ہی بدل گئی۔اسلام نے عورت کو وہ بلند مقام دیا جو کوئی بھی دوسرا مذہب نہیں دے سکا۔دنیا کے مختلف مذاہب اور قوانین کی تعلیمات کا مقابلہ اگر اسلام کے اس نئے منفرد و ممتاز کردار سے کیا جائے،جو اسلام نے عورت کے وقار و اعتبار کی بحالی،انسانی سماج میں اسے مناسب مقام دلانے،ظالم قوانین،غیر منصفانہ رسم و رواج اور مردوں کی خود پرستی،خود غرضی اور تکبر سے اسے نجات دلانے کے سلسلے میں انجام دیا ہے،تو معترضین کی آنکھیں کھل جائیں گی،اور ایک پڑھے لکھے اورحقیقت پسند انسان کو اس کے اعتراف اور احترام میں سر جھکا دینا پڑے گا۔بشرطیکہ وہ تعصب کی عینک اُتار کر ان حقائق کا بصدقِ دل مشاہدہ کریں۔اسلام میں مسلمان عورت کا مقام بلند اور کردار مؤثر ہے،اور اسے یہاں بےشمار حقوق سے بھی نوازا گیا ہے۔اسلام نے عورتوں کی تمدنی حالت پر بھی نہایت مفید اور گہرا اثر ڈالا ہے۔ انہیں ذلت کے بجائے عزت ورفعت سے سرفراز کیا اور ان کے لئے ان کے شایانِ شان ہر معروف میدان میں ترقی کے مواقع پیدا کیے۔عورتوں کے بارے میں اسلام کے احکام نہایت واضح ہیں،اس نے عورتوں کو ہر اس چیز سے بچانے کی کوشش کی ہے جو ان کی تکلیف کا باعث بنے اور ان کی پاکیزگی اور ان کے صالح کردار پر دھبہ لگائے۔محسنِ انسانیت جناب محمد الرسول اللہﷺ نے انسانی سماج پر یہ احسانِ عظیم فرمایا کہ عورتوں کو ظلم،بے حیائی،رسوائی اور تباہی کے گڑھے سے نکالا،انہیں تحفظ بخشا،ان کے حقوق اجاگر کیے ماں،بہن،بیوی اور بیٹی کی حیثیت سے ان کے فرائض سے آگاہ کیا اور انہیں شمع خانہ بناکر عزت و احترام کی سب سے اونچی مسند پر فائز کر دیا۔

   یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ عورت کی تخلیق مرد کے سکون واطمینان کا باعث ہے۔عورت انسانی تہذیب وتمدن کی گاڑی کا ایک اہم ترین پہیہ ہے۔اگر یہ صراطِ مستقیم پر سیدھی چلتی رہی تو وہ اس مادی دنیا کا اصل زیور ہے اور مرد کی زندگی میں نکھار پیدا کرنے والی بھی یہی عورت ہے۔اس کی بدولت مرد جہدِ مسلسل اور محنت کی دلدوز چکیوں میں پستا رہتا ہے۔اور اسی کی وجہ سے وہ دنیا کے ریگزاروں کو گلزاروں اور خارستانوں کو گلستانوں میں تبدیل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔اگر عورت بگڑ جائے تو یہ سارے گلستانوں کو خارستانوں میں تبدیل کر دیتی ہے اور مرد کو ہر آن اور ہر لحظہ برائی کے عمیق گڑھوں میں دھکیلتی رہتی ہے۔اسلام نے عورت کو ہر طرح کے ظلم و ستم،وحشت و بربریت،ناانصافی،بے حیائی و آوارگی اور فحاشی و عریانی سے نکال کر پاکیزہ ماحول و زندگی عطا کی ہے۔اور جتنے حقوق و مراتب اسلام نے اسے دیے ہیں دنیا کے کسی بھی معاشرے اور کسی بھی تہذیب و تمدن میں وہ حقوق عورت کو عطا نہیں کیے گئے۔اس لیے عورت کا اصل مرکز و محور اس کے گھر کی چار دیواری ہے۔جس کے اندر رہ کر گھر کے ایک چھوٹے سے یونٹ کی آبیاری کرنا اس کا فریضہ ہے۔

اسلام عورت کی تربیت پر خصوصی توجہ دیتا ہے کسی گھر کی عورت اگر نیک اور پرہیز گار ہے تو وہ گھر امن و آشتی کا گہوارہ ہے اور اگر عورت خدانخواستہ بدکار،فاسقہ اور فاجرہ ہے تو وہ گھر برائی کا اڈہ ہے۔اس لیے ہمیں اپنے گھر کی خواتین کو اسلامی تہذیب و تمدن،دینی معاشرت اور عقائد صحیحہ و اعمالِ صالحہ پر گامزن رکھنے کی بھر پور کوشش کرنی چاہیے۔

ماضیِ قریب میں عورت کی محکومی کے خلاف صدائے مجاہدانہ بلند کرنے والوں میں مولانا سید جلال الدین عمری صاحبؒ کا نام ایک امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔مولانا سید جلال الدین عمریؒ (ولادت:1935) عالمِ اسلام کے ایک جید عالمِ دین،بہترین خطیب،عظیم محقق،صاحبِ طرز مصنف اور اسلامی مفکر کی حیثیت سے معروف تھے۔آپؒ قرآن و سنت کا گہرا علم رکھتے تھے۔اور جدید علوم و فنون پر بھی آپ کی گہری نظر تھی،جس کا بین ثبوت آپؒ کی تحریریں اور بیانات ہیں۔مختلف موضوعات پر آپؒ کی تقریباً چار درجن بلند پایہ تصانیف منظرِ عام پر آچکی ہیں۔خواتین سے متعلق آپؒ کی علمی کاوشیں سند کا درجہ رکھتی ہیں۔عورت اسلامی معاشرے میں،مسلمان عورت کے حقوق اور ان پر اعتراضات کا جائزہ،عورت اور اسلام،مسلمان خواتین کی ذمہ داریاں اس کا بین ثبوت فراہم فراہم کرتی ہیں۔

زیر تبصرہ کتاب ’’عورت اور اسلام ‘‘مولانا سید جلال الدین عمری صاحبؒ کی ایک شاہکار تصنیف ہے،جس میں انہوں نے اسلام میں عورت کا مقام و مرتبہ بیان کرتے ہوئے عورتوں کے احکام و مسائل کو قرآن و حدیث اور سیرت کے مستند مآخذ کی روشنی میں احسن طریقے سے بیان کیا ہے۔یہ کتاب ایک علمی اسلوب پہ لکھی گئی اپنے موضوع پر منفرد اور ہر گھر میں رکھے جانے کے لائق کتاب ہے۔اردو زبان میں اعلیٰ معیار کے صفحات اور بہترین طباعت کے ساتھ اسے مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز،نئی دہلی نے صرف ٢٥ روپے کی قیمت پر شائع کیا ہے اور یہ کتاب ٨٠ صفحات پر مشتمل ہے۔اس کتاب کو مصنف نے اس طرح ترتیب دیا ہے کہ جس کی مثال یہ آپ ہی ہے۔ضعیف روایات سے احتراز کرتے ہوئے مصنف نے فقط مستند روایات سے استنباط کیا ہے،جس سے کتاب کی شان اور بڑھ گئی ہے۔کتاب میں واقعات زیادہ تر دورِ اول کے پیش کئے گیے ہیں۔کتاب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کی زبان انتہائی آسان،سلیس اور جامع ہے،یہی وجہ ہے کہ ایک عام اردو جاننے والا بھی اس سے مستفید ہو سکتا ہے۔کتاب کو پڑھتے ہی ہر ایک قاری یہ محسوس کرتا ہے کہ اس میں رقم کئے گئے الفاظ مصنف کے دل کی باتیں ہیں۔کتاب کی ایک اور خوبی یہ بھی ہے کہ مطالعہ کے دوران قاری کسی بھی قسم کی تھکان اور اکتاہٹ محسوس نہیں کرتا۔

کتاب کے مضامین کو آگے لینے سے پہلے مصنف نے اس کے لکھنے کی غرض و غایت دیباچہ میں بڑے ہی دلنشین انداز میں بیان کی ہے۔آج چہار جانب اسلام کو نشانہ بنایا جا رہا ہے،اس کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کی جاتی ہیں اور اس کے مضامین کے متعلق لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کئے جاتے ہیں۔موجودہ دور میں اسلام کے بارے میں ایک غلط فہمی یہ پیدا کی جاتی ہے کہ اسلام نے عورت کو مرد کے برابر حیثیت نہیں دی ہے۔مغرب عورت کو بازار کی زینت بنانا چاہتا ہے اور اسے مرد کے ساتھ شانہ بشانہ کام کرنے پر تُلا ہوا ہے لیکن اسلام کہتا ہے کہ عورت کا اصل دائرہ عمل اس کا گھر ہے۔آخر اس تصور کے تحت اسلام کا مقصد کیا ہے؟ اس سوال کا جواب دیباچہ میں دیتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں کہ:

”اسلام کا مقصد صرف یہ کہ عورت اصلاً گھر کی ملکہ اور منتظمہ ہے۔اسے باہر کی دنیا کو آباد کرنے کی فکر میں گھر کو اجاڑ نہیں دینا چاہیے۔خانگی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے بعد وہ اپنے حالات،ذوق اور رجحان کے لحاظ سے زندگی کے مختلف میدانوں میں دلچسپی لے سکتی ہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمان خواتین نے اپنے فطری دائرہ میں کام کرتے ہوئے بہت سے شعبوں میں فی الواقع دلچسپی لی اور حیرت انگیز کارنامے انجام دئے۔“(ص ٥۔٦)

اس کتاب کو مصنف نے تین ابواب میں تقسیم کیا ہے۔پہلے باب بعنوان ”عورت اور اسلام“ کے تحت مصنف نے بڑے ہی جامع انداز میں چند موضوعات کی تشریح کی ہے۔کہیں کہیں اسلامی قوانین کی حکمت بھی بتائی ہے۔اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس کے دائرے سے انسانی زندگی کا کوئی بھی گوشہ باہر نہیں ہے۔حضرت محمدﷺ کا اعلانِ رسالت انسانی تاریخ کا سب سے بڑا واقع تھا۔یہ اسی واقعہ کا مظہر تھا کہ معاشرے میں عورت کو صحیح مقام مل گیا اور اسے ذلت کے بجائے عزت کی نگاہوں سے دیکھا گیا۔اسلام سے پہلے اور بعد میں عورت کی تاریخ پر بات کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں کہ:

”اسلام سے پہلے عورت کی تاریخ مظلومی اور اورمحکومی کی تاریخ تھی۔اسے کم تر اور فروتر سمجھا جاتا تھا،اسے سارے فساد اور خرابی کی جڑ کہا جاتا اور سانپ اور بچھو سے جس طرح بچا جاتا ہے اس طرح اس سے بچنے کی تلقین کی جاتی تھی۔بازاروں میں جانوروں کی طرح اس کی خرید و فروخت ہوتی تھی۔اس کی کوئی مستقل حیثیت نہیں تھی بلکہ وہ مرد کے تابع تھی۔اس کا کوئی حق نہیں تھا۔وہ مرد کے رحم و کرم پر جیتی تھی۔اسلام نے اس کی محکومی کے خلاف اتنے زور سے آواز بلند کی کہ ساری دنیا اس سے گونج اٹھی اور آج کسی میں یہ ہمت نہیں ہے کہ اس کی پچھلی حیثیت کو صحیح اور برحق کہہ سکے۔“(ص ٧)

اسلام ہی وہ واحد دین ہے جس نے انسانوں کے درمیان جھوٹے اور مصنوعی امتیازات کی جڑ کاٹ ڈالی لہٰذا یہ مساوات مردوزن کا پہلا علمبردار ہے۔اسلام نے مرد و عورت کے دین و دنیا کی کامیابی ایمان اور عمل کے ساتھ وابستہ رکھی۔مصنف نے اس اصول کو سورۃ النحل آیت نمبر ٩٧ سے اخذ کر کے ایک بڑی حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے۔مذکورہ آیتِ مبارکہ کا حوالہ دے کر مصنف نے عورت کو ایمان کے ساتھ مسلسل صالح عمل کرنے کی ترغیب دی ہے۔

جاہلیت کے طور طریقے اسلام سے متصادم ہیں۔زندگی کے ہر میدان میں جاہلیت مردوزن کو ایک ہی گاڑی میں سیر کرانا چاہتے ہیں۔لیکن اسلام اس حکیم خدا کا دین ہے جس کے ہر ایک حکم کے پیچھے ایک بڑی حکمت پنہاں ہوتی ہے۔اسلام اس لیے عورت اور مرد کا دائرہ کار ایک دوسرے سے الگ کرتا ہے تاکہ دونوں کی عفت و عصمت کی حفاظت ہو سکے۔عفت و عصمت کے حوالے سے اسلام کا نقطہ نظر بیان کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں کہ:

”اسلام عفت و عصمت کے معاملے میں بڑا حساس واقع ہوا ہے۔اس نے عورت اور مرد کے آزادانہ میل جول اور اختلاط سے سختی سے منع کیا ہے،وہ اس بات کو غلط سمجھتا ہے کہ عورت اور مرد ایک ساتھ مل کر کام کریں اور خود کو ایسی آزمائش میں ڈال دیں کہ اس نے نکلنا ان کے لیے مشکل ہو جائے۔اس نے زنا اور بد کاری کے ارتکاب ہی سے نہیں بلکہ اس کے قریب جانے سے بھی منع کیا ہے۔فرمایا:

وَلَا تَقۡرَبُوا الزِّنٰٓى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً ؕ وَسَآءَ سَبِيۡلًا۔(بنی اسرائیل:٣٢)

”زنا کے قریب نہ پھٹکو،وہ بہت بُرا فعل اور بڑا ہی بُرا راستہ۔“ (ص ١٠)

اسلام کی نظر میں عورت اور مرد کے لیے دو الگ الگ میدانِ کار تجویز کرنے کی دوسری وجہ کے بارے میں مصنف لکھتے ہیں کہ:

”عورت کے اندر محبت،دلداری،ہمدردی و غم خواری،ایثار و قربانی،صبر و تحمل،حلم و بردباری اور خدمت کے جذبات مرد سے زیادہ ہیں،ان کی وجہ سے وہ اپنے ماحول کو مسرت اور خوشی،راحت اور سکون اور دلجوئی اور محبت سے بھر سکتی ہے۔“(ص ١١)

گھر کی بنیادی اہمیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اسلام عورت کو گھر کا ملکہ قرار دیتا ہے۔موجودہ دور میں عورت کو گھر سے باہر نکال کر اور اسے بازار کی زینت بنا کر اس کے ساتھ انتہائی درجہ کی ناانصافی کی گئی ہے۔اس کے برعکس اسلام عورت کی صلاحیتوں میں نکھار لانے کے لیے اسے گھر کو امن کا گہوارہ بنانے کی ترغیب دیتا ہے اور یہی طریقہ فطرت کے موافق اور قریب ہے۔مصنف لکھتے ہیں کہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ:

”عورت گھر کو راحت کدہ اور سکون کا مرکز بنا دے تاکہ یہاں پہنچ کر مرد اپنی ساری کلفتیں اور پریشانیاں بھول جائے۔اور تازہ دم ہو کر کشمکش حیات میں اپنا حصہ ادا کرے۔“(ص ١٢)

اسلام کے نزدیک گھر کی تعمیر جہاد سے کم اہم نہیں ہے۔گھر کی تعمیر کے بغیر معاشرے کی تعمیر ہو ہی نہیں سکتی۔گھر کی تعمیر میں سب سے زیادہ رول عورت ہی ادا کر سکتی ہے۔عورت اپنے شوہر کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کے بعد بچوں کی تربیت کرنے کی مکلف ٹھرائی گئی ہے۔بچہ کی صحیح نشوونما کے حوالے سے مصنف لکھتے ہیں کہ:

”بچہ کی صحیح نشوونما کے لیے صرف اتنی بات کافی نہیں ہے کہ اسے مناسب اور متوازن غذا ملتی رہے بلکہ اس کے لیے محبت،ہمدردی اور مامتا بھی ضروری ہے۔اگر اسے اپنے قریب ترین ماحول میں یہ جذبات نہ ملیں تو اس کی شخصیت مرجھا کر رہ جائے گی اور ابھرے گی تو بالکل غلط رخ پر ابھرے گی۔ان جذبات کا مخزن ماں ہی کا سینہ ہے۔کوئی بھی دوسرا شخص اس کا بدل نہیں بن سکتا۔جب ماں دن بھر گھر سے باہر رہے گی تو بچہ ان جذبات کے لیے تڑپتا رہے گا اور وہ اسے نہ مل سکیں گے۔“ (ص ١٣)

اسلام ایک عورت کے لیے خوشگوار ماحول پیدا کرتا ہے۔اسلام چاہتا ہے کہ عورت جس حیثیت میں بھی رہے عزت و احترام کے ساتھ رہے۔مصنف کے مطابق گھر میں عورت کی تین نمایاں حیثیتیں ہیں۔ماں،بیوی اور بیٹی۔اسلام نے ان تینوں حیثیتوں سے اسے بڑا اونچا مقام عطا کیا ہے۔اسلام کے حدود میں رہتے ہوئے کوئی اس سے اس کا مقام چھین نہیں سکتا۔(ص ١٥)

انسان پر اگرچہ ماں باپ دونوں ہی کے احسانات ہیں،لیکن باپ سے بڑھ کر ماں کا احسان زیادہ ہے۔آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ مصنف اس سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

”بچہ کی نگہداشت،پرورش،خدمت اور تعلیم و تربیت وغیرہ میں باپ کے ساتھ ماں بھی شریک ہوتی ہے لیکن حمل،وضع حمل اور رضاعت کی تکلیف تنہا ماں برداشت کرتی ہے۔نو ماہ تک حمل کا بوجھ اٹھانا،موت و حیات کی کشمکش سے گزر کر بچہ کو جنم دینا اور پھر اپنے خون کو دودھ بنا کر بچہ کو پلانا اور اس پورے عرصہ میں سخت احتیاط کی زندگی گزارنا آسان نہیں ہے۔اس صعوبت کے برداشت کرنے میں باپ اس کا شریک نہیں ہوتا۔اس لیے اس کا احسان بھی باپ سے زیادہ ہے۔“ (ص ١٦)

مصنف نے قرآنی آیات،احادیث صحیحہ اور علمائے کرام کے اقوال کے ذریعے مفصل اور مدلل تشریح کرتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ حسن سلوک کا زیادہ حق ماں ہی ہے۔

اسلام کے نزدیک عورت کا مستقل وجود ہے۔مصنف نے بیوی کی حیثیت کو اجاگر کرتے ہوئے مضبوط دلائل کا سہارا لیا ہے۔اسلام تجرد والی زندگی کو پسند نہیں کرتا ہے بلکہ وہ مرد اور عورت کو نکاح کے بندھن میں بندھتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہے۔بیوی اگر شوہر کو مسرور و مطمئن رکھنے کی کوشش کرے تو شوہر کو بھی چاہیے کہ نیک اور صالح بیوی کو بہترین متاعِ حیات سمجھے اور اس کے ساتھ حسنِ سلوک کرے۔خانگی زندگی کو تباہی و بربادی سے بچانے کے لیے زیادہ رول مرد ادا کر سکتا ہے۔مصنف کے مطابق اسلام اس حوالے سے مرد کو ترغیب دیتے ہوئے کہتا ہے کہ:

”مرد اپنی بیوی کے قانونی حقوق ہی ادا نہ ادا کرے بلکہ اس سے آگے بڑھ کو اس کے ساتھ اچھے سے اچھا سلوک کرے۔بیوی کے ساتھ حسنِ سلوک ہر حال میں مطلوب ہے۔بعض اوقات بیوی کی شکل و صورت،مزاج اور عادات آدمی کو ناپسند ہوتے ہیں۔اس کا اثر ان کے تعلقات پر بھی پڑتا ہے۔اس طرح کے مواقع پر آدمی کو بیوی کے اچھے پہلوٶں کو بھی دیکھنا چاہیے۔اس کی ایک بات ناپسندیدہ ہو تو دس باتیں قابلِ تعریف بھی ہو سکتی ہے۔اس لیے شرافت و اخلاق ہی کا نہیں حکمت و دانائی کا بھی تقاضا یہ ہے کہ آدمی گھر کے وسیع مفادات کو سامنے رکھے اور تعلقات کو خراب نہ کر لے۔بعض اوقات آدمی کو ایک چیز ناگوار ہوتی ہے لیکن اسی میں خیر کے پہلو بے شمار پہلو پوشیدہ ہوتے ہیں۔اس معاملے میں اسلام نے جس اعلیٰ اور مثالی رویہ کی تلقین کی ہے وہ دنیا میں شاید کسی اور جگہ نہیں ملے گی۔“(ص ٢١)

دورِ جاہلیت میں لڑکے کو فوکس کیا جا رہا تھا اور اہلِ عرب لڑکیوں کو ایک بوجھ اور موجبِ عار سمجھتے تھے۔جب ان کے ہاں کسی کی لڑکی تولد ہوتی تو وہ شرم کے مارے اپنا سر جھکا دیتا تھا۔ان کے ہاں ایسے مکروہ جذبات تھے کہ بغض قبائل لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے۔اصل میں یہ سب غلط نظریہ کا مظہر تھا۔وہ ظلمات میں پڑے ہوئے تھے اور اسلام نے انہیں گھپ انھیروں سے نکال کر روشنی میں لا کھڑا کر دیا۔لڑکیوں کے بارے میں اسلام نے جاہلیت کے جذبات کے بالکل برعکس جذبات پیدا کیے۔واقعی طور پر مصنف نے قرآنی آیات اور احادیث صحیحہ کو لا کر قارئین کے دلوں میں اپنی بات اتارنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔

تیسرے باب بعنوان ”مسلمان عورت علم و عمل کے میدان میں“ کے تحت مصنف نے مختلف میدانوں میں مسلمان خواتین کے حیرت انگیز خدمات پر تفصیل سے بحث کی ہے۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف قرآن و سنت پر گہری نظر رکھنے والے ایک بلند پایہ محقق تھے۔مصنف نے مذکورہ تیسرے باب کے تحت چند چھوٹے چھوٹے ابواب قائم کئے ہیں،جنہیں پڑھ کے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ماضی میں خواتین نے سچ مچ میں تاریخ پر اپنے گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔

مصنف نے پہلے نمبر پر”قبول اسلام میں سبقت“ کو لایا ہے۔خواتین حضرات نے زندگی کے ہر میدان میں استقامت کا مظاہرہ کیا بالخصوص اسلام کی دعوت کو قبول کرنے میں ہر طرح کے ستم جھیلے اور عشق کے میدان میں آگے ہی چلتے گئے۔اس حوالے سے مصنف لکھتے ہیں کہ:

”اسلامی تاریخ عورتوں اور مردوں نے مل کر بنائی ہے۔اگر اس سے عورتوں کا حصہ نکال دیا جائے تو وہ ادھوری اور ناقص رہ جائے گی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی دعوت دی تو مردوں کے ساتھ عورتوں نے بھی آگے بڑھ کر اسے قبول کیا۔اس کے لیے ہر طرح کی تکلیفیں اٹھائیں،گھر بار چھوڑا،عزیزوں اور رشتہ داروں سے کٹ گئیں،آزمائشوں کے طوفان میں پہاڑ کی طرح جمی رہیں،جان و مال کی قربانی دی اور مقبولیت کی دعا مانگتے اور آہ وزاری کرتے ہوئے آگے بڑھیں۔اللہ تعالیٰ نے ان کی دعائیں سنیں،مردوں کے ساتھ عورتوں کو بھی جنت کی خوشخبری دی اور دونوں کو اپنے الطاف و انعامات کا مستحق ٹھہرایا۔“(ص ٣١)

دوسرے نمبر پر مصنف نے”استقامت“کو لایا ہے۔استقامت کے شرعی معنی یہ ہیں کہ انسان جس دین کو برحق سمجھ رہا ہے،اس پرمرتے دم تک قائم ودائم رہے۔اس کے قیام کے لیے جدوجہد اور کوشش کرتا رہے اور اس راہ میں آنے والی دشواریوں کو برداشت کرتا رہے۔مکہ میں خواتین حضرات نے جب توحید کا اعلان کیا اور محمدﷺ پر ایمان لایا تو انہیں مختلق صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔انہیں اس طرح کی اذیتیں دی جاتی تھیں کہ جن کے تصور سے بھی روح کانپ جاتی ہے۔لیکن اس کے باوجود وہ زندگی کے آخری سانس تک صبر و استقامت کا عملی مظاہرہ کرتے رہے۔مصنف نے یہاں چند صحابیات کا تذکرہ کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ آسمان نے وہ خواتین بھی دیکھی ہیں کہ اسلام کے پاداش میں انہیں کتنے ستم جھیلنے پڑے لیکن ان کے پائے ثبات میں ذرہ برابر لغزش نہیں آئی۔

تیسرے نمبر پر مصنف نے”عبادت“ کو لایا ہے۔عبادت کے حوالے سے مصنف لکھتے ہیں کہ:

”عبادت دین کی جان ہے۔یہ خدا سے بندہ کے تعلق کا اظہار ہے۔عبادت کا اہتمام خدا سے تعلق کو مضبوط کرتا ہے۔عبادت میں غفلت اور کوتاہی اس تعلق کو کمزور سے کمزور تر چلی جاتی ہے۔اس غفلت پر قابو نہ پایا جائے تو یہ تعلق ٹوٹ بھی سکتا ہے۔دور اول کے مردوں کی طرح خواتین میں بھی عبادت کا بڑا ذوق تھا۔امہات المومنین اس میں بہت نمایاں تھیں۔“(ص ٣٥)

مصنف نے اس کے بعد تین امہات المومنین کی عبادت کا تذکرہ کر کے اپنی بات کو مزید تقویت پہنچائی ہے۔

چوتھے نمبر پر مصنف نے”نماز کا اہتمام“ عنوان کے تحت چند صحابیات کی شوقِ نماز کا تذکرہ کیا ہے،تاکہ اہتمامِ نماز کے حوالے سے بات واضح اور مبرہن ہو جائے۔مصنف خود لکھتے ہیں کہ:

”عبادات میں نماز کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔اس کے کچھ شرائط اور آداب ہیں۔ان کی رعایت کے بغیر نہ تو اس کا حق ادا ہو سکتا ہے اور نہ اس سے پورا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ان شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ اسے وقت پر ادا کیا جائے۔

حضرت انسؓ کی والدہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت فرمایا کہ عشا سے پہلے ہی مجھ پر نیند کا غلبہ ہو جاتا ہے(اس لیے نماز کے چھوٹ جانے کا ڈر رہتا ہے) آپؐ نے فرمایا ام انس! نماز جلدی پڑھ لیا کرو۔جب رات کی تاریکی ہر طرف چھا جائے تو عشا کا وقت ہو جاتا ہے اس وقت تم پڑھ لو۔تمہیں کوئی گناہ نہ ہوگا۔(الاستیعاب فی اسماء الاصحاب٣١٧/٤)

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ نماز کا کس قدر اہتمام کرتی تھیں۔انہیں اس بات کی فکر تھی کہ کہیں ان کی نماز قضا نہ ہونے پائے۔“(ص ٣٥۔٣٦)

پانچواں نبمر پر مصنف نے”نماز باجماعت میں شرکت“ کو لایا ہے۔اس عنوان کے تحت مصنف نے مضبوط روایات کا سہارا لیا ہے۔دورِ نو میں اس مسئلے نے گھمبیر صورت اختیار کر لی ہے۔لیکن مصنف نے اعتدال کی راہ اپناتے ہوئے اس انداز سے مستند روایات کا حوالہ دیا ہے کہ انسان ورطہ حیرت میں چلا جاتا ہے۔اس موضوع کے شروع میں ہی مصنف لکھتے ہیں کہ:

”عورتوں کے لیے مسجد میں باجماعت نماز پڑھنا ضروری نہیں ہے۔ان کے لیے زیادہ پسندیدہ یہی ہے کہ وہ گھروں میں نماز ادا کریں۔لیکن جماعت کے بڑے فوائد ہیں۔اگر حالات اجازت دیں اور کسی اخلاقی خرابی کا اندیشہ نہ ہو تو وہ مسجد پہنچ سکتی ہیں۔اسی وجہ سے شریعت نے ایک طرف تو ان کو گھر پر نماز پڑھنے کی ترغیب دی اور دوسری طرف مردوں سے کہا کہ عورتیں مسجد جانا چاہیں تو انہیں منع نہ کریں۔“(ص ٣٦)

چھٹے نمبر پر مصنف نے”ذکر و تسبیح“ کو لایا ہے۔اس باب میں مصنف نے چند مستند روایات کو لا کر صحابیات کا تذکرہ کر کے خواتین حضرات کو ذکر و تسبیح کرنے پر اُبھارا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باضابطہ طور پر عورتوں کو دعا اور ذکر و تسبیح کی تاکید فرمائی ہے اور یہی وجہ تھی کہ امہات المومنین اور دوسری خواتین اوراد و وظائف اور ذکر و تسبیح کا اہتمام کرتی تھیں۔مصنف اس باب کے آخر میں لکھتے ہیں کہ:

”انسان اللہ تعالیٰ کی جتنی بھی تسبیح و تحمید کرے کم ہے۔اس میں شب و روز لگا رہے تو بھی اس کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔“(ص ٤١)

ساتویں نمبر پر مصنف نے”کثرتِ عبادت“ کو لایا ہے۔اس باب میں مصنف نے چند غیر معروف و معروف صحابیات اور دورِ تابعین میں بالخصوص حضرت رابعہ بصریہ کی کثرتِ عبادت کا تذکرہ کر کے اس حوالے سے خواتین حضرات کی بہترین رہنمائی فرمائی ہے۔اس باب میں مصنف نے مختلف واقعات کا تذکره کیا ہے اور ان واقعات کو مکمل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ:

”اس مقالہ میں جو واقعات بیان کیے گیے ہیں ان میں کہیں افراط و تفریط نظر آئے تو وہ عجب نہیں ہوں گے۔ان کا ذکر اس پہلو سے کیا گیا ہے کہ دور اول کی خواتین عبادات کا کس قدر اہتمام کرتی تھیں اور اللہ سے ان کا تعلق کتنا مضبوط تھا۔“(ص ٤٣)

آٹھویں نمبر پر مصنف نے”روزہ کا شوق“ لایا ہے۔اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل کرنے کے لیے روزہ ایک مضبوط ترین وسیلہ ہے اور اسی عمل کے ذریعے انسان روحانیت کے معراج کو پہنچ چاہتا ہے۔روزہ ان اعمال میں سے ایک ہے جن کے اجر کی اللہ تعالیٰ نے کوئی حد بیان نہیں فرمائی ہے۔مصنف لکھتے ہیں کہ:

”روزہ دین کا ایک اساسی رکن ہے۔تقویٰ و طہارت اور خدا سے تعلق پیدا کرنے میں نماز کی طرح روزہ کی بھی بڑی اہمیت ہے۔اسی وجہ سے فرض روزوں کے علاوہ نفل روزوں کی بھی بڑی فضیلت بیان کی گئی اور اس کی ترغیب دی گئی ہے۔حدیث اور سیرت کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابیات نفل روزے بکثرت رکھا کرتی تھیں۔“(ص ٤٣)

اس کے بعد مصنف نے چند ام المومنین اور صحابیات کے روزوں کا تذکرہ کر کے مسلم خواتین کے سامنے ایک اسوہ چھوڑا ہے تاکہ جو اپنی منزلِ مقصود تک بآسانی پہنچنا چاہتے ہیں وہ یہی اسوہ اپنا کر اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں۔

نویں نمبر پر مصنف نے”خیرات و انفاق“ لایا ہے۔انفاق کی اہمیت بیان کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں کہ:

”قرآن و حدیث میں نماز کے بعد سب سے زیادہ اہمیت انفاق کو دی گئی ہے۔زکوٰة اسی کی ایک قانونی شکل ہے۔نماز کے ذریعہ انسان اس جذبہ کا اظہار کرتا ہے کہ اس کا دل و دماغ اور اعضاء و جوارح سب کچھ اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہیں اور انفاق اس بات کی علامت ہے کہ وہ مال کو اپنی ملکیت نہیں سمجھتا اور اسے ہر اس جگہ خرچ کرنے کے لیے تیار ہے جہاں خرچ کرنے کا اللہ نے حکم دیا ہے۔انفاق کا مطالبہ مردوں سے بھی ہے اور عورتوں سے بھی۔قرآن میں انفاق کرنے والے مردوں اور عورتوں سے اجر عظیم کا وعدہ کیا گیا ہے۔“(ص ٤٦)

انفاق کی اہمیت و افادیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مسلم خواتین نے بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لیا اور لومتہ لائم کی پرواہ کئے بغیر وہ جنت کے راستے پر رواں دواں رہ گئے۔انہوں نے مال کو بطورِ امانت سمجھ کر اسے خوب بانٹا اور کم یا زیادہ بس راہِ حق میں دیتے رہے۔عورتوں کے تعلقات زیادہ تر رشتہ داروں اور پڑوسیوں سے ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مسلم خواتین نے ان کے حقوق ادا کرنے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔مصنف نے باضابطہ طور پر دور اول کی مسلم خواتین کے انفاق کا تھوڑا سا تذکرہ کرکے ملت اسلامیہ کے خواتین کو یہی پیغام دیا ہے کہ انفاق نجات کی آسان ترین راہ ہے۔

دسویں نمبر پر مصنف نے”حج اور عمرہ“ کو لایا ہے۔حج کی اہمیت بیان کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں کہ:

”اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک حج بھی ہے۔حج مخصوص دنوں میں کعبتہ اللہ پہنچ کر مخصوص اعمال بجا لانے کا نام ہے۔عمرہ میں حج ہی سے ملتے جلتے اعمال ایام حج کے علاوہ دوسرے دنوں میں انجام دیے جاتے ہیں۔حج اور عمرہ کی بڑی فضیلت آئی ہے۔حدیث میں اسے عورتوں کا جہاد کہا گیا ہے۔“(ص ٥٢)

اس باب میں مصنف نے چند صحابیات کے حج و عمرہ کا تذکرہ کر کے یہ بات واضح کر دی ہے کہ واقعی طور پر یہ لوگ گفتار کے بجائے کردار کے غازی تھے۔ان کے جذبہ اور شوق کا عالم یہ تھا کہ اس فرض کو بجا لانے میں بیمار،حاملہ اور بچہ والیاں صحابیات نے بھی حجتہ الوداع کے دن شرکت کی۔اس اہم فریضہ کو وہ اپنی طرف سے بھی انجام دیا کرتی تھیں اور ضرورت کے وقت دوسروں کی طرف سے بھی یہ فریضہ انجام دیتی تھیں۔

گیارہویں نمر پر مصنف نے ”علم و فضل“ کو لایا ہے۔علم کی اہمیت لوگوں کو ذہن نشین کرانے کے لیے مصنف لکھتے ہیں کہ:

”اسلام نے علم دین کی بڑی فضیلت بیان کی،اس کے سیکھنے اور سکھانے کی زبردست ترغیب دی اور اس کی ہر طرح ہمت افزائی فرمائی۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بہت جلد علم دین کا ہر سو چرچا ہونے لگا اور بڑی علمی شخصیتیں ابھریں۔ان میں مرد بھی تھے اور عورتیں بھی تھیں۔“(ص ٥٦)

مصنف نے اس باب میں چند صحابیات کے علمی نمونے کا حوالہ دے کر دورِ نو کی کاہل اور بزدل خواتین کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔مصنف کے بقول صحابیات میں حضرت عائشہؓ کا علمی مقام سب سے اونچا تھا۔ان کی مرویات کی کل تعداد دو ہزار دو سو دس(٢٢١٠) ہے۔ان میں (١٧٤) احادیث متفق علیہ ہیں۔ام المومنین حضرت ام سلمہؓ کی مرویات کی تعداد تین سو ٹھتر(٣٧٨) ہے۔حضرت حفصہؓ نے (٦٠) حدیںثیں روایت کی ہیں۔ام المومنین ام حبیبہؓ نے پنسیٹھ(٦٥) حدیںثیں روایت کی ہیں۔حضرت اسماءؓ کی مرویات کی تعداد(٥٨) ہے۔(ص ٥٧۔٥٩)

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابیات کا اوڑھنا بچھونا تعلیم و تعلم تھا اور علمِ دین کی بدولت ہی وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ان کے علمی کارناموں کو پڑھ کے زندہ ضمیر انسان آج بھی انہیں یاد کرتے ہیں اور علم کے نور سے گھب اندھیروں کو دور کرنے میں کوشاں ہیں۔ 

مصنف نے دور تابعین اور اس کے بعد کی بعض خواتین کا تذکرہ کر کے لوگوں پر یہ آشکارا کیا ہے کہ یہی وہ روشن ستارے ہیں جو آج بھی قافلہ انسانیت کو منزل کا پتہ دیتے ہیں۔

بارہویں نمبر پر مصنف نے ”دعوت و تبلیغ“ کو لایا ہے۔مصنف نے دعوت و تبلیغ پر چند جامع سطور کو رقم کر کے دو چار واقعات کا سہارا لیا ہے تاکہ قارئین پر یہ واضح ہو جائے کہ کس طرح مسلمان خواتین نے مشکل ترین حالات میں بھی دعوت و تبلیغ جیسے فریضہ کو کو سرِ انجام دیا۔مسلمان خواتین نے دعوت و تبلیغ کو صرف زبان تک محدود نہ رکھا بلکہ وہ اس کا عملی مجسمہ بن چکے تھے۔اور اپنے قول و فعل کی مطابقت کی وجہ سے ہی وہ لوگوں کے دل جیتنے میں کامیاب ہوگئے۔مصنف اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ:

”تبلیغ صرف زبان ہی سے نہیں ہوتی بلکہ آدمی کا کردار اور اس کا مضبوط رویہ بھی تبلیغ کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔کسی مسلک پر انسان کی ثابت قدمی،اس کے لیے قربانی اور اسے غالب و سربلند دیکھنے کی تڑپ بعض اوقات وعظ و تبلیغ سے زیادہ کارگر ہوتی ہے اور بڑے بڑے لوگ اس سے متاثر ہو جا ہوتے ہیں۔مسلمان خواتین کی استقامت اور ثابت قدمی نے اسلام کے سخت ترین مخالفین کو اپنی جگہ سے ہلا دیا ہے اور وہ اسلام کے بارے میں سوچنے اور اسے قبول کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔“(ص ٦٩)

مسلمان خواتین نے جاں گسل محنت سے دعوت دین کا حق ادا کر دیا،خود بھی دین و دنیا کی کامیابی سے ہمکنار ہوگئے اور جنت کے متلاشی انسانوں کو بھی اس کے قافلے سے ملا ہی دیا۔مصنف ان کی تعریفیں کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

”مسلمان خواتین نے اسلام قبول کرنے میں اپنے شوہروں کی بھی پروا نہیں کی،پھر صبر و سکون اور حکمت کے ساتھ انہیں سمجھایا،دعوت دی،بڑے بڑے مخالفین کو اسلام پر آمادہ کیا۔ان کی معافی اور جاں بخشی کے لیے تگ و دو کی اور اس سلسلہ میں زحمتیں برداشت کیں۔اس طرح دعوت دین کا حق ادا کیا اور ان لوگوں کو دنیا اور آخرت کی کامیابی سے ہم کنار کیا جو اس سے بہت دور ہو چکے تھے۔“(ص ٧٣)

تیرہویں نمبر پر مصنف نے”معاشرتی تعلقات“ کو لایا ہے۔اس حوالے سے مصنف لکھتے ہیں کہ:

”دور اول کی خواتین معاشرہ سے غیر متعلق اور کٹی ہوئی نہیں رہتی تھیں بلکہ اس کے رنج و راحت اور خوشی اور غم میں شریک ہوتی تھیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو بڑی اہمیت دی کہ عورتوں کے تعلقات اپنے پڑوسیوں سے اچھے ہوں۔“(ص ٧٣)

مصنف کے بقول کہ اس دور کی خواتین ایک دوسرے کی مدد کرتیں،ان کے دکھ درد میں کام آتیں،محبت اور ہمدردی کا اظہار کرتیں اور ان کی جو خدمت ممکن ہوتی کرتیں۔مصنف نے اس بات کا ثبوت چند واقعات کی روشنی میں دیا ہے۔اس کے بعد مصنف چند اقول کو نقل کر کے لکھتے ہیں کہ:

”اس سے جہاں یہ ثابت ہوتا ہے کہ عورتوں کو سلام کیا جا سکتا ہے وہیں یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ عورتیں مردوں کی خاطر تواضع اور میزبانی بھی کر سکتی ہیں۔“(ص ٧٥)

آخر پر مصنف نے حضرت ام درداءؓ کے عمل کو سراہتے ہوئے لکھا ہے کہ:

”حضرت ام درداءؓ کے اس عمل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خواتین مردوں کی عیادت بھی کر سکتی ہیں اور وہ کسی خانگی الجھن میں ہوں تو اپنے گھر ان کے کھانے کا انتظام بھی کر سکتی ہیں۔“(ص ٧٦)

چودہویں نمبر پر مصنف نے ”سماجی خدمات“ کو لایا ہے۔اس موضوع کے تحت بات کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں کہ:

”اسلام نے عورتوں کو سماج کی خدمت کرنے اور اس کی فلاح و بہبود کے کاموں میں حصہ لینے سے منع نہیں کیا گیا۔وہ ان کاموں میں حصہ لے سکتی ہیں اور فی الواقع لیتی رہی ہیں۔“(ص ٧٦)

مصنف نے اس حوالے سے دو مثالیں پیش کی ہیں۔

پندرھویں نمبر پر مصنف نے بعنوان”سیاسی محاذ پر“عنوان کے تحت بات کی ہے۔اس دلکش موضوع کے شروعات میں مصنف لکھتے ہیں کہ:

”دور اول کی مسلمان خواتین اعلیٰ سیاسی مناصب پر تو ہمیں نظر نہیں آتیں،لیکن وہ سیاست سے تعلق بھی نہیں رہی ہیں۔انہوں نے اپنے دور کے سیاسی حالات پر نظر رکھی۔اسلامی ریاست کے تحفظ کے لیے جدوجہد کی اور قربانیاں دیں،خلفاء اور امراء کو نصیحتیں کیں،مشورے دیے اور حسب حال سیاسی خدمات انجام دیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے ساتھ خواتین بھی جنگوں میں شریک ہوتی تھیں اور مختلف پہلوٶں سے ان کی مدد کرتی تھیں۔“(ص ٧٧)

بعد میں اس حوالے سے مصنف نے دو مثالیں پیش کی ہیں۔مصنف نے مذکورہ موضوع کے تحت چند روایات کا حوالہ دے کر یہ بات واضح کی ہے کہ دین کی سربلندی اور مسلمانوں کی کامیابی سے چھوٹی بڑی ہر خاتون خوشی اور مسرت محسوس کرتی تھیں۔اتنا ہی نہیں بلکہ مسلمان خواتین نے اپنے وقت کے خلفاء کو نصیحتیں بھی کی ہیں۔حضرت عائشہؓ نے حضرت معاویہؓ کو جو اثر انداز نصیحت کی اس کو مصنف نے من و عن لا کر دلوں میں خوفِ خدا پیدا کرنے کی تحریک دی ہے۔مصنف نے اپنی کتاب کو ذیل کے سنہرے حروف سے پایہ تکمیل کو پہنچا دیا ہے:

”حقیقت یہ ہے کہ مسلمان خواتین دین و اخلاق،سیرت و کردار،علم و سیاست اور تہذیب و معاشرت ہر میدان میں نمایاں رہی ہیں۔انہوں نے مختلف پہلوٶں سے اسلام کی اتنی زبردست خدمت انجام دی ہے کہ تاریخ کا کوئی بھی طالبِ علم نہ تو ان کو نظر انداز کر سکتا ہے اور نہ کم کر کے کےدکھا سکتا ہے۔“(ص ٨٠)

آج مسلم خواتین کا سرسری طور پر دینی جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا معاملہ بھی مردوں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔وہ محدود تصور دین کی حامل،خاندانی رسم و رواج میں جکڑی اور دینی تعلیم سے محروم ہیں۔شادی کے بعد بھی اس صورت حال میں تبدیلی نہیں آتی ہے۔بہت سی غیر اسلامی روایات جو آبا و اجدا سے چلی آرہی ہیں وہ اصل دین و شریعت کی جگہ لے لیتی ہیں۔بدعات کا خرافات کا زور ہے۔بے پردگی اور جہالت عام ہے،ان کی ایک محدود تعداد ہی نماز،روزہ اور دیگر فرائض کی پابندی کرتی ہے،خواتین میں دعوت کے کام کا دور دور تک کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔ان گھمبیر حالات میں مسلم خواتین کو دین سے قریب لانے کی سخت ضرورت ہے،جس کے لیے مولانا صاحبؒ کی مذکورہ کتاب منارۂ نور کی حیثیت رکھتی ہے۔اللہ تعالیٰ مولانا صاحبؒ کی اس کاوش کو قبولیت کے شرف سے نوازے،جس نے کافی عرق ریزی سے اس شاہکار کتاب کو تصنیف کیا ہے۔اس کتاب کو مزید بہترین طباعت میں زیادہ سے زیادہ عام کرنے کی ضرورت ہے۔میری ذاتی رائے ہے کہ چہار جانب اگر یہ کتاب نوجون لڑکیوں کے نصاب میں شامل کر لی جائے تو یہ سونے پر سہاگہ کا کام دے گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مصنف کو جزائے خیر سے نوازے اور امتِ مسلمہ کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔آمین یا رب العٰلمین

Comments