The examplary relationship of the Prophet Muhammad(SAW) with Allah.


  اللّٰہ تعالی اس پوری کائنات کا خالق و مالک ہے۔اس کائنات کی بے شمار مخلوقات میں چھوٹے چھوٹے ذروں سے لے کر بڑے بڑے سیارے شامل ہیں۔اور دلچسپ بات یہ ہے کہ کائنات کے یہ سارے اجزاء باہم مربوط ہیں۔انسان جیسی شاہکار مخلوق بھی اسی ربط و تعلق کی مرہونِ منت ہے،جس کے بغیر اس کا جینا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔دنیا میں جتنے تعلقات کا بھی ہم بالواسطہ یا بلا واسطہ مشاہدہ کرتے ہیں ان میں سب سے پائیدار تعلق ایک بندے اور خدا کے مابین ہے۔اس تعلق کو ہم تعلق باللّٰہ کے نام سے موسوم کرتے ہیں اور یہ تعلق سب سہاروں سے مضبوط سہارا ہے،جس کی گواہی قرآنِ پاک ان الفاظ میں پیش کرتا ہے:

وَمَنۡ يُّسۡلِمۡ وَجۡهَهٗۤ اِلَى اللّٰهِ وَهُوَ مُحۡسِنٌ فَقَدِ اسۡتَمۡسَكَ بِالۡعُرۡوَةِ الۡوُثۡقٰى‌ؕ وَاِلَى اللّٰهِ عَاقِبَةُ الۡاُمُوۡرِ۞(لقمان:22)

*”جو شخص اپنے آپ کو اللہ کے حوالہ کر دے اور عملاً وہ نیک ہو،اس نے فی الواقع ایک بھروسے کے قابل سہارا تھام لیا،اور سارے معاملات کا آخری فیصلہ اللہ ہی کے ہاتھ ہے۔“*

اسی کتابِ مقدس میں دوسری جگہ ارشادِ ربانی ہے:

فَمَنۡ يَّكۡفُرۡ بِالطَّاغُوۡتِ وَيُؤۡمِنۡۢ بِاللّٰهِ فَقَدِ اسۡتَمۡسَكَ بِالۡعُرۡوَةِ الۡوُثۡقٰى لَا انْفِصَامَ لَهَا‌‌ ؕ وَاللّٰهُ سَمِيۡعٌ عَلِيۡمٌ۞(البقرة:256)

*”جس نے طاغوت کا انکار کیا اور اللہ پر ایمان لے آیا اس نے مضبوط رسی پکڑ لی جو ٹوٹنے والی نہیں اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔“*

کبھی نہ کبھی ایک انسان کے ذہن میں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ آخر تعلق باللّٰہ کس چیز کا نام ہے؟ بد قسمتی سے عام لوگوں کی کم علمی اور  علمائے سوء کے ذریعے اس پاک اور منزہ تعلق یعنی”تعلق باللّٰہ“ کے اصلی مفہوم کو بھی اعتدال کی راہ سے ہٹا کر اِفراط و تفریط کا شکار کیا گیا،جس کی وجہ سے لوگوں کی اکثریت آج اس کے صحیح مفہوم سے ناآشنا ہیں۔اللہ کی بے شمار رحمتیں ہوں مولانا سید ابو الاعلی مودودیؒ پر کہ جنہوں نے شریعت کی اصطلاحات کے معانی و مفاہیم کو ان الفاظ میں بیان کیا جو ان کے شایانِ شان تھا۔وہ اپنی ایک مشہور و معروف کتاب”تحریک اور کارکن“میں تعلق باللّٰہ کی مختصر اور جامع تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

”تعلق باللّٰہ سے مراد،جیسا کہ قرآن مجید میں بتایا گیا ہے کہ آدمی کا جینا اور مرنا اور اس کی عبادتیں اور قربانیاں سب کی سب اللہ کے لیے ہوں۔

إِنَّ صَلاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ

اور وہ پوری طرح یکسو ہو کر،اپنے دل کو بالکل اللہ کے لیے خالص کر کے اس کی بندگی کرے۔

وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ

نبیﷺ‎ نے مختلف مواقع پر اپنے ارشادات میں اس تعلق کی ایسی تشریح فرما دی ہے کہ اس کے مفہوم و مدعا میں کوئی ابہام باقی نہیں رہتا۔حضورﷺ‎ کے بیانات کا تتبع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تعلق باللّٰہ کے معنی ہیں خشیة اللہ فی السر و العلانیة”کھلے اور چھپے ہر کام میں اللہ کا خوف محسوس کرنا۔“اور یہ کہ ان تکون بما فی یدی اللہ اوثق بما فی یدیک۔”اپنے ذرائع وسائل کی بہ نسبت تیرا بھروسہ اللہ کی قدرت پر زیادہ ہو،اور یہ کہ من التمس رضی اللہ بسخط الناس۔”آدمی اللہ کو راضی کرنے کے لیے لوگوں کو ناراض کر لے۔“ اور اس کے بالکل برعکس بات یہ ہے کہ آدمی لوگوں کو راضی کرنے کے لیے اللہ کی ناراضگی مول لے۔من التمس رضی الناس بسخط اللہ۔پھر جب یہ تعلق بڑھتے بڑھتے اس حد کو پہنچ جایے کہ آدمی کی محبت اور دشمنی اور اس کا دینا اور روکنا جو کچھ بھی ہو اللہ کے لیے اور اللہ ہی کی خاطر ہو،اور نفسانی رغبت و نفرت کی لاگ اس کے ساتھ نہ لگی رہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ اس نے تعلق باللّٰہ کی تکمیل کر لی ہے۔(ص ١٤٨۔١٤٩)

تعلق باللّٰہ رسول اللہﷺ‎ کا اسوہ مبارکہ ہے اور کائنات میں سب سے زیادہ اللہ تعالی کے ساتھ آپﷺ‎ نے تعلق قائم کیا۔اللہ تعالی کے ساتھ آپﷺ‎ کا یہ تعلق مثالی تھا،جس کے حوالے سے عالمِ اسلام کے ایک جید عالمِ دین مولانا سید جلال الدین عمریؒ صاحب لکھتے ہیں کہ:

”اللہ تعالی سے آپ کا بہت ہی گہرا تعلق تھا۔یہ آپ کے رسول ہونے کی ایک دلیل ہے۔کیوں کہ جو شخص اللہ کا رسول ہوگا لازماً اللہ سے اس کا رشتہ مضبوط ہوگا۔انسان کے حقیقی اوصاف کبھی چھپائے نہیں چھپتے اور غیر حقیقی اوصاف کبھی اتنے نمایاں نہیں ہوتے کہ دوسرے انہیں دیکھنے اور محسوس کرنے لگیں۔اللہ سے آپ کا تعلق اس قدر نمایاں تھا کہ جو بھی شخص آپ سے قریب ہوتا وہ اسے پوری شدت سے محسوس کرنے لگتا۔حقیقت یہ ہے کہ جو جذبات انسان کے اندر سے ابلتے ہیں وہ اس کی پوری سیرت پر چھا جاتے ہیں اور جن جذبات کے لیے انسان کے اندر کوئی تحریک نہیں ہوتی وہ بہ تکلف ابھرتے ہیں اور بہ آسانی دب بھی جاتے ہیں۔محمدﷺ‎ کے لیے اللہ تعالی کی یاد کوئی مصنوعی چیز نہیں تھی،بلکہ وہ آپ کے باطن میں اتری ہوئی تھی،آپ کی روح اس احساس سے سرشار تھی کہ اللہ آپ کا حاکم اور معبود ہے۔آپ کا سر نیاز اسی کے سامنے جھکتا،آپ اسی کو موت و حیات اور تکلیف و راحت کا مالک سمجھتے،اسی سے دعائیں مانگتے اور الحاح و زاری کرتے،آسائش میں اسی کے شکر گزار ہوتے اور مصیبت میں اسی سے مدد طلب کرتے۔کیا اللہ تعالی کی ذات سے اس مثالی تعلق کو کوئی معقول انسان فریب کہہ سکتا ہے؟اگر دنیا کو فریب دینے کے لیے آپ نے اللہ سے تعلق کا دعوی کیا تھا تو ناممکن تھا کہ اس طرح قدم قدم پر اس کا مظاہرہ ہوتا۔یہ انسان کی فطرت کے خلاف ہے کہ کسی جھوٹے تعلق کی اتنی زبردست حکومت اس پر قائم ہو جائے کہ زندگی کا کوئی گوشہ اس سے آزاد نہ رہنے پائے۔آپ نے اپنے رنج و راحت،خوف و اطمینان،مرض و صحت،غرض ہر حال میں اللہ تعالی کی ذات سے جس مضبوط تعلق کا اظہار کیا ہے وہ آپ کی صداقت کا کھلا ثبوت ہے۔(اوراقِ سیرت ص ٦٧۔٦٨)

احادیثِ مبارکہ میں بھی جگہ جگہ اس کی شہادت ملتی ہے،یہاں بطورِ دلیل چند کا تذکرہ کیا جا رہا ہے تاکہ ہمیں بھی اللہ تعالی سے تعلق مضبوط کرنے کا اشتیاق پیدا ہو سکے:

*١۔اللہ تعالی کی شکر گزاری*

حضرت مغیرہ بن شعبہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ  نماز میں رات بھر کھڑے رہے یہاں تک کہ آپ کے دونوں پاؤں سوج گئے۔آپﷺ  سے عرض کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے تو آپ کی اگلی پچھلی تمام خطائیں معاف کردی ہیں۔نبی کریمﷺ  نے فرمایا کہ کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں؟(بخاری:4836)

*٢۔خشیت الہی سے گریہ زاری*

حضرت عبد اللہ بن شخیرؓ کہتے ہیں کہ  میں نے رسول اللہﷺ  کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا،آپ کے سینے سے رونے کی وجہ سے چکی کی آواز کے مانند آواز آتی تھی۔(ابوداؤد:904)

*٣۔اللہ تعالی کی معیت کا کامل یقین*

حضرت براء بن عازبؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا صدیق اکبرؓ نے میرے والد حضرت عازبؓ سے تیرہ درہم کے عوض ایک زین خریدی اور میرے والد سے فرمایا کہ اپنے بیٹے براء سے کہہ دیجئے کہ وہ اسے اٹھا کر میرے گھر تک پہنچادے،انہوں نے کہا کہ پہلے آپ وہ واقعہ سنائیے جب نبیﷺ نے مکہ مکرمہ سے ہجرت کی اور آپ بھی ان کے ہمراہ تھے۔حضرت صدیق اکبرؓ نے فرمایا کہ شب ہجرت ہم لوگ رات کی تاریکی میں نکلے اور سارا دن اور ساری رات تیزی سے سفر کرتے رہے،یہاں تک کہ ظہر کا وقت ہوگیا،میں نے نظر دوڑا کر دیکھا کہ کہیں کوئی سایہ نظر آتا ہے یا نہیں؟مجھے اچانک ایک چٹان نظر آئی،میں اسی کی طرف لپکا تو وہاں کچھ سایہ موجود تھا،میں نے وہ جگہ برابر کی اور نبیﷺ کے بیٹھنے کے لئے اپنی پوستین بچھادی اور نبیﷺ سے آکر عرض کیا یا رسول اللہ! کچھ دیر آرام فرما لیجئے،چناچہ نبیﷺ لیٹ گئے۔ادھر میں یہ جائزہ لینے کے لئے نکلا کہ کہیں کوئی جاسوس تو نہیں دکھائی دے رہا؟ اچانک مجھے بکریوں کا ایک چرواہا مل گیا،میں نے اس سے پوچھا بیٹا! تم کس کے ہو؟ اس نے قریش کے ایک آدمی کا نام لیا جسے میں جانتا تھا،میں نے اس سے فرمائش کی کہ کیا تمہاری بکریوں میں دودھ ہے؟اس نے اثبات میں جواب دیا،میں نے اس سے دودھ دوہ کر دینے کی فرمائش کی تو اس نے اس کا بھی مثبت جواب دیا اور میرے کہنے پر اس نے ایک بکری کو قابو میں کر لیا۔پھر میں نے اس سے بکری کے تھن پر سے غبار صاف کرنے کو کہا جو اس نے کردیا،پھر میں نے اس سے اپنے ہاتھ جھاڑنے کو کہا تاکہ وہ گردوغبار دور ہوجائے چناچہ اس نے اپنے ہاتھ بھی جھاڑ لئے،اس وقت میرے پاس ایک برتن تھا،جس کے منہ پر چھوٹا سا کپڑا لپیٹا ہوا تھا،اس برتن میں اس نے تھوڑا سا دودھ دوہا اور میں نے اس پر پانی چھڑک دیا تاکہ برتن نیچے سے ٹھنڈا ہوجائے۔اس کے بعد میں نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا،جب میں وہاں پہنچا تو نبیﷺ بیدار ہوچکے تھے،میں نے نبیﷺ سے وہ دودھ نوش فرمانے کی درخواست کی،جسے نبیﷺ نے قبول کرلیا اور اتنا دودھ پیا کہ میں مطمئن اور خوش ہوگیا،اس کے بعد نبیﷺ سے پوچھا کہ کیا اب روانگی کا وقت آگیا ہے اور اب ہمیں چلنا چاہئے؟نبیﷺ کے ایماء پر ہم وہاں سے روانہ ہوگئے،پوری قوم ہماری تلاش میں تھی،لیکن سراقہ بن مالک بن جعشم کے علاوہ جو اپنے گھوڑے پر سوار تھا ہمیں کوئی نہ پاسکا،سراقہ کو دیکھ کر میں نے نبیﷺ سے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ جاسوس ہم تک پہنچ گیا ہے،اب کیا ہوگا؟ نبیﷺ نے فرمایا آپ غمگین اور دل برداشتہ نہ ہوں،اللہ ہمارے ساتھ ہے،ادھر وہ ہمارے اور قریب ہوگیا اور ہمارے اور اس کے درمیان ایک یا دو تین نیزوں کے بقدر فاصلہ رہ گیا،میں نے پھر عرض کیا کہ یا رسول اللہ!یہ تو ہمارے قریب پہنچ گیا ہے اور یہ کہہ کر میں رو پڑا۔نبیﷺ نے مجھ سے رونے کی وجہ پوچھی تو میں نے عرض کیا بخدا! میں اپنے لئے نہیں رو رہا،میں تو آپ ﷺ کے لئے رو رہا ہوں کہ اگر آپﷺ کو پکڑ لیا گیا تو یہ نجانے کیا سلوک کریں گے؟ اس پر نبیﷺ نے سراقہ کے لئے بد دعاء فرمائی کہ اے اللہ! تو جس طرح چاہے،اس سے ہماری کفایت اور حفاظت فرما۔اس وقت اس کے گھوڑے کے پاؤں پیٹ تک زمین میں دھنس گئے،حالانکہ وہ زمین انتہائی سپات اور سخت تھی اور سراقہ اس سے نیچے گر پڑا اور کہنے لگا کہ اے محمد ﷺ! میں جانتاہوں کہ یہ آپ کا کوئی عمل ہے،آپ اللہ سے دعا کر دیجئے کہ وہ مجھے اس مصیبت سے نجات دے دے،میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ آپ کی تلاش میں اپنے پیچے آنے والے تمام لوگوں پر آپ کو مخفی رکھوں گا اور کسی کو آپ کی خبر نہ ہونے دوں گا،نیز یہ میرا ترکش ہے،اس میں سے ایک تیر بطور نشانی کے آپ لے لیجئے،فلاں فلاں مقام پر آپ کا گذر میرے اونٹوں اور بکریوں پر ہوگا،آپ کو ان میں سے جس چیز کی جتنی ضرورت ہو،آپ لے لیجئے گا۔نبیﷺ نے فرمایا مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں،پھر آپﷺ نے دعا کی اور اسے رہائی مل گئی،اس کے بعد وہ اپنے ساتھیوں کے پاس واپس لوٹ گیا اور ہم دونوں اپنی راہ پر ہو لئے یہاں تک کہ ہم لوگ مدینہ منورہ پہنچ گئے۔(مسند احمد:3)

*٤۔مصائب و مشکلات میں صبر کا اظہار اور تعلق باللہ*

انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ  رسول اللہﷺ نے فرمایا:اللہ کی راہ میں مجھے ایسی تکلیفیں دی گئیں کہ اتنی کسی کو نہ دی گئیں ہوں گی،اور میں اللہ کی راہ میں اس قدر ڈرایا گیا کہ اتنا کوئی نہیں ڈرایا گیا ہوگا،اور مجھ پہ مسلسل تین ایام ایسے گزرے ہیں کہ میرے اور بلال کے لیے کوئی چیز کھانے کی نہ تھی جسے کوئی ذی روح کھاتا سوائے اس کے جو بلال کی بغل میں چھپا ہوا تھا۔(ابن ماجہ:151)

*٥۔رضائے الہی کی تلاش*

حضرت علی بن ابی طالب ؓ کہتے ہیں کہ  رسول اللہﷺ  وتر کے آخر میں یہ دعا پڑھتے تھے:اَللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سُخْطِكَ،وَبِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ،وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ۔اے اللہ! میں تیری ناراضگی سے تیری رضا کی،تیری سزا سے تیری معافی کی اور تجھ سے تیری پناہ چاہتا ہوں،میں تیری تعریف شمار نہیں کرسکتا،تو اسی طرح ہے جیسے تو نے خود اپنی تعریف کی ہے۔(ابوداؤد:1427)

*٦۔اللہ کی ذات پر غیر متزلزل یقین*

حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے مروی ہے کہ  وہ رسول اللہﷺ  کے ساتھ نجد کے اطراف میں ایک غزوہ میں شریک تھے۔جب رسول اللہﷺ  جہاد سے واپس ہوئے تو آپ کے ساتھ یہ بھی واپس ہوئے۔راستے میں قیلولہ کا وقت ایک ایسی وادی میں ہوا جس میں ببول کے درخت بکثرت تھے۔رسول اللہﷺ  نے اس وادی میں پڑاؤ کیا اور صحابہ پوری وادی میں(درخت کے سائے کے لیے)  پھیل گئے۔آپﷺ  نے بھی ایک ببول کے نیچے قیام فرمایا اور اپنی تلوار درخت پر لٹکا دی۔ہم سب سو گئے تھے کہ رسول اللہﷺ  کے پکارنے کی آواز سنائی دی،دیکھا گیا تو ایک بدوی آپﷺ  کے پاس تھا۔رسول اللہﷺ  نے فرمایا کہ اس نے غفلت میں میری ہی تلوار مجھ پر کھینچ لی تھی اور میں سویا ہوا تھا،جب بیدار ہوا تو ننگی تلوار اس کے ہاتھ میں تھی۔اس نے کہا مجھ سے تمہیں کون بچائے گا؟ میں نے کہا کہ اللہ! تین مرتبہ(میں نے اسی طرح کہا اور تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گرگئی)رسول اللہﷺ  نے اعرابی کو کوئی سزا نہیں دی بلکہ آپﷺ  بیٹھ گئے(پھر وہ خود متاثر ہو کر اسلام لایا)۔(بخاری:2910)

*٧۔عبودیت کا اعلی مقام اور تعلق باللہ*

سیدنا علیؓ سے مروی ہے کہ”بدر کے دن مقداد کے علاوہ ہمارے ساتھ کوئی بھی گھڑ سوار نہیں تھا۔ہم سے ہر شخص گہری نیند سویا۔سوائے اللہ کے نبیﷺ‎ کے،جو ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر ساری رات اللہ کی عبادت کرتے اور روتے رہے۔“(صحیح ابن خزیمہ:899)

*٨۔پریشانی کے وقت نبی اکرمﷺ‎ کا معمول*

حضرت حذیفہ ؓ کہتے ہیں کہ  نبی اکرمﷺ  کو جب کوئی معاملہ پیش آتا تو آپ نماز پڑھتے۔(ابوداؤد:1319)

*٩۔حیاتِ طیبہ کے آخری لمحات میں اللہ تعالی سے تعلق*

حضرت عائشہ ؓ نے خبر دی کہ  آپ نے نبی کریمﷺ  سے سنا، وفات سے کچھ پہلے نبی کریم  ﷺ  پشت سے ان کا سہارا لیے ہوئے تھے۔آپ نے کان لگا کر سنا کہ نبی کریمﷺ  دعا کر رہے ہیں اَللَّهُمَّ اغْفِرْلِي،وَارْحَمْنِي،‏‏‏‏‏‏وَأَلْحِقْنِي بِالرَّفِيقِ۔”اے اللہ! میری مغفرت فرما،مجھ پر رحم کر اور میرے رفیقوں سے مجھے ملا۔“(بخاری:4440)

مذکورہ بالا روایات کو ذہن میں رکھ کر ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے کہ کہیں ہمارا دعوائے ایمان جھوٹا تو نہیں ہے؟ اگر ہم اپنے وجود کو امتِ محمدیﷺ‎ کی فہرست میں شمار کرتے ہیں اور محبتِ رسولﷺ‎ کا دم بھرتے ہیں تو اس کے لیے ناگزیر ہے کہ ہم رسول اللہﷺ‎ کا اسوہ پکڑ کر دن بہ دن تعلق باللہ میں مزید مضبوطی لائیں،یہی ایک راستہ ہماری دنیوی اور اخروی فلاح کا ضامن بن سکتا ہے۔اس حوالے سے ایک مردِ درویش جناب سید منور حسن صاحبؒ امت کا درد رکھنے والے اور اس کی بہتری کے لیے کوشاں افراد کو انتہائی قیمتی نصیحتوں سے نوازتے ہیں،فرماتے ہیں:

”اگر ہم نے حضور نبی کریمﷺ‎ کی قائم مقامی کرنی ہے،اور ان کے مشن کو لے کر آگے چلنا ہے تو یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک اسوۂ حسنہ کا کامل اتباع نہ کیا جائے۔جب تک حالتِ قیام سے،قرآنِ پاک کے ساتھ شغف سے،فی الواقع ایک مستحضر علم سے،اور وسعتِ علم کے نتیجے میں اپنے آپ کو بنایا نہ جائے،کوئی بڑا کام تو دُور کی بات ہے،اس ذمہ داری کا ہلکا سا بوجھ بھی نہیں اُٹھایا جاسکتا۔ہم میں سے ہر ایک کو اپنے طور طریقوں اور رویوں میں،اپنے شب و روز کے معمولات اور اپنے مشاغل و مصروفیات میں تبدیلی لانی چاہیے،اور اس بات کو دیکھنا چاہیے کہ جو ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے اس کے بوجھ کو ہلکا کرنے اور فی الحقیقت اس کو نبھانے کے لیے کیا کچھ کیا جاسکتا ہے۔فرداً فرداً کوئی کسی کو نہیں بتا سکتا لیکن ہرشخص اپنے بارے میں خود جانتا ہے،اسی کے مطابق اس کو اپنے لیے لائحہ عمل مرتب کرنا چاہیے۔آپ چاہیں تو اس کا دوسرا نام تعلق باللہ رکھ دیں،یعنی ہر بندے کا اپنے رب کے ساتھ جو تعلق اور استواری ہے،مسلسل اس میں منہمک رہنا ضروری ہے،لیکن بدرجۂ اولیٰ کہ ع جن کے رتبے ہیں سوا،ان کی سوا مشکل ہے۔

گویا جو لوگ ان راہوں پر چلے ہیں اور لوگوں پر ذمہ دار قرار پائے ہیں ان کا فرض ہے کہ رب کے ساتھ اپنے تعلق کو مستحکم اور مضبوط کریں۔جس کا کام کر رہے ہیں اسی کے ساتھ رابطہ اگر ٹوٹا رہے گا،جس کی دعوت لے کر اُٹھے ہیں اسی کے ساتھ تعلق اگر ضعف اور کمزوری کا شکار ہوگا،تو سوچیے کہ کہاں سے طاقت ملے گی،اور کہاں سے نصرت و تائید آئے گی۔نصرت و تائید کی بات بسا اوقات لفظوں میں سمجھ نہیں آتی۔یہ جو انسان کی طبیعت میں انشراحِ صدر پیدا ہوتا ہے،قدموں کے اندر جماؤ اور حوصلہ پیدا ہوتا ہے،انسان نامساعد حالات میں صبر کی چٹان نظر آتا ہے،اور حالات کی خرابی کے باوجود تحمل کا کوہِ گراں نظر آتا ہے،اسی کو نصرت اور تائید کہتے ہیں۔اسی کے نتیجے میں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے کمزور بندوں اور اپنے راستے پر چلنے والوں کی کس کس طریقے سے مدد کرتا ہے۔کیسے وہ ان کی آنکھیں بن جاتا ہے جن سے وہ دیکھتے ہیں،کیسے وہ ان کے پیر بن جاتا ہے جن سے وہ چلتے ہیں،اور کیسے وہ ان کے ہاتھ بن جاتا ہے جن سے وہ پکڑتے ہیں۔“

Comments