“The Message of Islam”: An Analytical Study

  اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت کے اندر نیکی اور بدی کے پہچاننے کی قابلیت اور نیکی کو اختیار کرنے اور بدی سے بچنے کی خواہش ودیعت کر رکھی ہے۔تمام انبیاء کرامؑ نے دعوت کے ذریعے پیغامِ الٰہی کو لوگوں تک پہنچایا اور ان کو شیاطین سے بچنے اور رحمٰن کے راستے پر چلنے کی دعوت دی۔دعوتِ دین اور احکامِ شرعیہ کی تعلیم دینا شیوۂ پیغمبری ہے۔تمام انبیاء و رسل کی بنیادی ذمہ داری تبلیغِ دین اور دعوت و ابلاغ ہی رہی ہے۔دعوت الی اللہ میں انبیاء کو قائدانہ حیثیت حاصل ہے۔ان کی جدوجہد کو زیر بحث لائے بغیر دعوت کا کوئی تذکرہ مکمل نہیں ہوتا۔امتِ مسلمہ کو دیگر امم پہ فوقیت بھی اسی فریضۂ دعوت کی وجہ سے ہے۔اور دعوتِ دین ایک اہم دینی فریضہ ہے،جو بندگانِ خدا کی اصلاح،استحکام دین اور دوام شریعت کا مؤثر ذریعہ ہے۔لہٰذا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ اسے شریعت کا جتنا علم ہو،شرعی احکام سے جتنی واقفیت ہو اور دین کے جس قدر احکام سے آگاہی ہو وہ دوسروں تک بے کم و کاست اور جوں کا توں پہنچائے۔علماء و فضلا اور واعظین و مبلغین پر مزید ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ فریضہ دعوت کو دینی و شرعی ذمہ داری سمجھیں اور دعوتِ دین کے کام کو مزید عمدہ طریقے سے سر انجام دیں۔دین کا پیغامِ حق ہر فرد تک پہنچانے کے لیے ضروری ہے کہ دعوت کے کام کو متحرک کیا جائے،دعوت الی اللہ بنیادی طور پر ایک عملی پروگرام ہے جو تعلیم و تعلم اور تربیت و اصلاح کی عملی کشمکش پر مشتمل ہے۔ماضیِ قریب  میں دعوتِ دین کے حوالے سے امتِ مسلمہ کسی حد تک سوئی ہوئی تھی اور اسے بیدار کرنے والوں میں مولانا سید جلال الدین عمری صاحبؒ کا نام بھی ایک امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔

مولانا سید جلال الدین عمری صاحبؒ(ولادت:1935) عالمِ اسلام کے ایک جید عالم دین،بہترین خطیب،عظیم محقق،صاحبِ طرز مصنف اور اسلامی مفکر کی حیثیت سے معروف تھے۔آپ ان چیدہ افراد میں سے ایک تھے جنہوں نے ساری کشتیاں جلا کر ہی تحریکِ اسلامی میں داخلہ لیا اور پھر زندگی کی آخری سانس تک علم کے نور سے ملتِ اسلامیہ کے افراد کے قلوب و اذہان کو منور کرتے رہے۔ان کی تحریروں نے تحریکی نوجوانوں کے اندر ایک ہمہ گیر انقلاب بپا کیا اور انہیں ہمہ وقت کارکن بنا کے ہی رکھ دیا۔مولانا عمری صاحبؒ کی مختلف موضوعات پر تقریباً چار درجن تصانیف منظرِ عام پر آچکی ہیں۔اسلام کا معاشرتی نظام ان کی دلچسپی کا خاص موضوع رہا ہے۔

مولانا عمری صاحبؒ کے چہرے پر نظر پڑتے ہی یہ محسوس ہوتا تھا کہ وہ دنیا کے حریص ہونے کے بجائے آخرت کے عاشق ہیں۔اپنی شعلہ بیانی سے وہ اکثر آخرت کی تیاری کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرتے تھے۔اپنے دروس میں اکثر کہا کرتے تھے کہ اُمتِ مسلمہ سوئی ہوئی ہے اسے جاگ کر اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہئیے۔امت کے شیرازہ کو بکھرنے والے علماء سوء کو وہ اپنی تقاریر میں جنجھوڑتے تھے۔آپؒ نے اپنی پوری زندگی دین قائم کرنے کی جدوجہد میں گزاری اور تادمِ واپسیں لوگوں کو اپنی ایمانی حرارت سے فیضیاب کرتے رہے۔ان کی سادگی سے طبیعت بہت متاثر ہوتی تھی۔آپؒ غیر متزلزل یقین،پہاڑ جیسی استقامت،دریا جیسی روانی،زمین جیسا حِلم،سمندر جیسی گہرائی،آسمان جیسی بلندی اور شاہین جیسی پرواز رکھتے تھے۔آپؒ نے اللہ کے دین کی نصرت کو اپنی زندگی کا مشن بنا دیا تھا۔آپ جماعتِ اسلامی ہند کے وجود میں دھڑکتے ہوئے دل کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔آپؒ کی روح قربِ الٰہی کی تمنا سے سرشار تھی اور یہی وجہ ہے کہ باطل کی طرف سے بڑی سے بڑی دھمکی کو بھی آپؒ خاطر میں نہیں لائے اور اسی تمنا نے راہِ حق میں ان کے لیے ہر مصیبت کو آسان کر دیا تھا۔وقت کے فرعون کو ایمان و یقین سے سرشار اس مردِ قلندر نے ببانگِ دہل کہا کہ:”تو جو چاہے کر گزر،ہم تو اپنے رب کی طرف پلٹنے والے ہیں“ اِنَّاۤ اِلٰى رَبِّنَا مُنۡقَلِبُوۡنَ‌ۚ(اعراف:١٢٥)۔واقعتاً ملتِ اسلامیہ ایک عظیم رہنما سے محروم ہوگئی۔اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمایے۔آمین یا رب العٰلمین

آج مولانا جلال الدین عمری صاحبؒ کی ایک شاہکار تصنیف”اسلام کی دعوت“ پر میں تبصرہ کرنے جا رہا ہوں۔اس کتاب میں دعوت سے متعلق جن موضوعات پر بحث کی گئی ہے وہ راہِ دعوت میں کام کرنے والوں کے لیے بڑے اہم ہیں۔اس کتاب میں ہر ایک مضمون قاری کے دل کو چُھوتا ہے اور ان کی راہ کے نقوش روشن کرتا ہے۔اصل میں یہ کتاب مولانا صاحبؒ نے ١٩٦٨ء میں تحریر کی تھی لیکن ان کی مصروفیات کی وجہ سے اس کام میں خاصی لمبی مدت لگ گئی۔پھر تائیدِ خداوندی سے یہ کتاب بہترین شکل میں عوام الناس کے سامنے ١٠ جون ٢٠١٢ء کو لائی گئی۔اس بار کتاب زبان و بیان کے پہلو سے مزید بہتر اور شستہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے اس کتاب نے کافی شہرت پائی،پاکستان سے بھی اس کی اشاعت عمل میں آئی اور بعض حلقوں کے نصاب میں بھی یہ شامل کی گئی۔ہندی،تلگو اور کنٹر زبان میں اس کا ترجمہ شائع ہو چکا ہے۔انگریزی کے معروف ادیب اور مصنف کی بعض دیگر کتابوں کے مترجم پروفیسر عثمان محمد اقبال کے قلم سے اس کا انگریزی ترجمہ Inviting to Islam کے عنوان سے مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز،نئی دہلی نے شائع کیا۔اردو زبان میں بھی اعلیٰ معیار کے صفحات اور بہترین طباعت کے ساتھ اسے مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز،نئی دہلی نے ہی صرف ٢٢٥ روپے کی قیمت پر شائع کیا اور یہ کتاب ٣٤٤ صفحات پر مشتمل ہے۔اس کتاب کو مصنف نے اس طرح ترتیب دیا ہے کہ جس کی مثال یہ آپ ہی ہے۔مصنف نے کتاب میں ضعیف روایتوں سے احتراز کرتے ہوئے فقط مستند روایات کا حوالہ دیا ہے،جس سے کتاب کی شان اور بڑھ گئی ہے۔ایک ممیز کرنے والی بات یہ ہے کہ مصنف نے کتاب میں کسی بھی جگہ جذبات سے کام نہیں لیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے دل سے نکلنے والے الفاظ سے گذر کر سنگ دل انسان بھی خون کے آنسو روتا ہے۔ایک اہم خصوصیت جس کا تذکرہ کرنا از بس ضروری ہے کہ کتاب کی زبان انتہائی آسان،سلیس اور جامع ہے۔مصنف نے کتاب کو عام پیرائے میں اس طرح پیش کیا ہے کہ معمولی اردو جاننے والا بھی اس کو آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے۔لفظوں کے چناٶ میں اکثر لکھنے والے سامعین کی صلاحیتوں کو صرفِ نظر کرتے ہوئے قارئین کو مشکل میں ڈال دیتے ہیں،لیکن”اسلام کی دعوت“ کے مصنف نے اس کمی کو اس درجہ رفع کیا ہے کہ ایک عام اردو جاننے والا بھی اس سے مستفید ہو سکتا ہے۔کتاب کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ مصنف نے مضامین کو اس انداز سے ترتیب دیا ہے کہ مطالعہ کے دوران قاری کسی بھی قسم کی تھکان اور اکتاہٹ محسوس نہیں کرتا۔

اس کتاب کا ظاہر و باطن بہایت ہی روشن ہے اور ہر ایک قاری یہ کتاب مطالعہ کرنے کے بعد یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ واقعی طور پر مولانا صاحبؒ نے دریا کو کوزے میں بند کیا ہے۔کتاب مکمل کرنے کے بعد قاری کے دل میں ایک عجیب سی ٹھنڈک پیدا ہوتی ہے،یہ مصنف کے قول و فعل میں مطابقت کا بین ثبوت ہے۔بلا مبالغہ میں یہ بات کہتا ہوں کہ یہ کتاب ہر ایک قاری کے اندر ایک نیا جذبہ،جوش اور ولولہ پیدا کر کے اسے”کونو انصار اللہ“ کی صدا لگانے پر مجبور کر ہی دیتی ہے اور دعوتِ دین کی راہ میں اسے چٹان کی طرح جمنے کا حوصلہ دیتی ہے۔اس کتاب کا ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ یہ ایک قاری کو دلنشین انداز میں سمجھاتی ہے کہ ناموافق اور نامساعد حالات میں اللہ تعالیٰ کی دعوت کو کس طرح پیش کیا جائے اور تنِ تنہا وقت کی قوتوں سے ٹکراتے ہوئے زندگی کس طرح گزاری جائے؟ آج ہمارے دل مختلف قسم کی خواہشوں اور آرزوؤں سے لبریز ہیں،ہمارے دماغ پر مختلف مصلحتوں کا پہرہ ہے اور ہمارا ہر قدم کئی قسم کے اندیشوں سے گراں بار ہے۔ہم اللہ کے دین اور اس کے قرآن سے کیا فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟ انہی احساسات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ایک قاری جب یہ کتاب پڑھتا ہے تو وہ بے چینی کی کیفیت میں چلا جاتا ہے۔یہ کتاب پڑھ کر ایک قاری نہ ہوا کے رخ پر اڑتا ہے اور نہ ہی پانی کے بہاٶ کے سہارے بہتا ہے بلکہ”لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِيَ دِيْنِ“(الکافرون:6) اس کا مزاج بن جاتا ہے۔قرآن کریم اور حدیثِ پاک میں انسانی دل کو زمین سے تشبیہ دی گئی ہے اور میں عقیدت کے غلو کے بجائے پورے وثوق کے ساتھ کہتا ہوں کہ یہ کتاب انسانی دل کے لیے بارش کی حیثیت رکھتی ہے اور ایک قاری اسے پڑھ کر صالح و مصلح کی عملی تصویر بننے میں بہت حد تک کامیاب ہو جاتا ہے۔ایک قاری جب تک اپنے اختیار کردہ خیالات کے خول سے باہر نہیں نکلے گا تب تک اسے اس کتاب سے فائدہ اٹھانا مشکل سے مشکل تر ہوگا۔لہٰذا قارئین کرام کے لیے ناگزیر ہے کہ ذہنی تحفظات،علمی آلودگیوں اور قلبی وابستگیوں کو چھوڑ کر اس کتاب کا پورے ذوق و شوق کے ساتھ مطالعہ کریں۔

مصنف نے کتاب کو آگے لینے میں سب سے پہلے سوئی ہوئی امت کے نبض پر ہاتھ رکھ کر اس کی حالتِ زار بیان کرتے ہوئے کتاب کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ:

”جس دور سے ہم گزر رہے ہیں یہ غالباً اس امت کے بدترین زوال کا دور ہے۔اس میں امت عملی ہی نہیں نظریاتی زوال سے بھی دوچار ہے۔اس کے اندر ایسے افراد پائے جاتے ہیں،بلکہ تیزی سے ابھر رہے ہیں جن کو ان اصول و کلیات ہی کے بارے میں شکوک و شبہات ہیں،جن پر اسلام کی بنیاد ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس امت کو جس کارِ عظیم پر مامور کیا تھا وہ اس کی عظمت و بلندی کو سمجھنے سے بھی قاصر ہیں۔دینِ اسلام کی طرف دعوت دینا اور اسے قائم و غالب کرنے کے لیے تگ و دو کرنا ان کے نزدیک ایک مجنونہ عمل ہے۔ان کے پروگرام میں دنیا کی ہر چیز شامل ہو سکتی ہے اور وہ اس پر عمل بھی کر سکتے ہیں،لیکن دین کی دعوت اور اس کی سربلندی کی جدوجہد کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔باطل کو چھیڑنا اور اس کے خلاف صف آرا ہونا ان کے اصول کے خلاف ہے۔وہ ان مسائل پر تنقید کرنا نہیں چاہتے جو کفر کو محبوب ہیں۔وہ ہر اس اقدام سے باز رہنے ہی میں عافیت سمجھتے ہیں،جس سے اقتدارِ وقت کے ماتھے پر شکن پڑے۔ان کے ذہن خیر کے اس تصور ہی سے خالی ہیں،جسے اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں پھیلانے اور عام کرنے کا حکم دیا ہے۔“(ص ٢١)

اس کتاب میں چار مباحث شامل ہیں۔پہلی بحث میں مصنف نے کارِ رسالت کی دلنشین تشریح کی ہے۔اس بحث میں سب سے پہلے  مصنف نے جس موضوع کو چھیڑا ہے وہ”رسولوں کا کام اور اس کی نوعیت“ ہے۔

انسانیت پر سب سے بڑا احسان رسولوں کا ہوتا ہے اور یہ رسول ہی ہوتے ہیں جو جان جوکھوں میں ڈال کر انسانوں کو ان کے رب کا پیغام پہنچاتے ہیں،اور انہیں اس حقیقت سے آگاہ کرتے ہیں کہ وہ سب کے سب اللہ کے بندے اور اس کے غلام ہیں اور انہیں اپنے معاملات میں اس کی بندگی کرنی چاہیے۔اس موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں کہ:

”اللہ تعالیٰ کے رسولوں کی مثال اس دنیا میں بہتے ہوئے چشمے کی ہے،جس سے ہزاروں اور لاکھوں انسان سیراب ہوتے ہیں۔انسانیت کی کھیتی جب بھی سرسبز و شاداب ہوئی ہے،ان ہی سے ہوئی ہے۔وہ نہ پیدا ہوتے تو انسانیت جل کر راکھ ہو جاتی۔دنیا ان کو کچھ دیتی نہیں بلکہ ان سے پاتی ہے۔آپ مادی لحاظ سے دیکھیں تو ان کا وجود اپنی ذات سے زیادہ دوسروں کے لیے ہوتا ہے۔وہ کسی سے کچھ وصول کرنے نہیں آتے بلکہ سب کو مالا مال کرنے آتے ہیں۔اور کمال یہ ہے کہ اس جدوجہد میں وہ اپنا سب کچھ لٹا کر راحت اور سکون محسوس کرتے ہیں۔ان کو اطمینان ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو جو توانائی اور جو قوت و صلاحیت دی تھی وہ رائیگاں نہیں کی گئی بلکہ صحیح جگہ میں صَرف ہوئی ہے۔اپنی سعی و جہد کے بارے میں یہ اطمینان اللہ کے رسولوں اور ان کی اتباع کرنے والوں کے سوا اس دنیا میں کسی بھی شخص کو نصیب نہیں ہوتا۔یہ وہ حقیقی انعام ہے جو انہیں اپنی خدمات کے صلے میں یہاں ملتا ہے۔“(ص ٢٩-٣٠)

انسان کو بہت سارے مسائل نے آگھیرا ہے اور تہذیبِ حاضر کی چمک دمک نے اس کی نظر کو خِیرہ کر دیا ہے۔دنیا آج بھی انہی مسائل کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں جو بنیادی مسئلہ کی شاخیں ہیں۔اب قدرتی طور پر ذہنوں میں ایک سوال اٹھتا ہے کہ آخر انسان کا بنیادی مسئلہ ہےکیا؟ اس سوال کا تشفی بخش جواب مصنف اس طرح دیتے ہیں کہ:

”انسان کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے آغاز اور انجام سے باخبر رہے اور اپنے اس خدا کو نہ بھولے،جس نے اسے پیدا کیا اور جس کی طرف اسے پلٹ کر جانا ہے۔“(ص ٣١)

رسولوں کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی خصوصیات عطا کی ہوتی ہیں اور یہ خصوصیات ان کو اس قابل بناتی ہیں کہ وہ اس کارِ عظیم کو اس طرح انجام دیں کہ کسی بھی پہلو سے اس میں کوئی نقص نہ رہ جائے۔کتاب میں مصنف نے ان کی چھ خصوصیات بیان کی ہیں۔ان خصوصیات کی بنا پر ہی رسول حجت تمام کرتے ہیں اور اپنے مقصد میں کامیاب ہوتے ہیں،چاہے اس زمین پر وہ تنِ تنہا تگ و دو کرتے ہوئے اللہ کے حضور پہنچ جائیں اور کوئی ایک متنفس بھی ان کا ساتھ نہ دیں۔بات کو تقویت دینے کے لیے مصنف نے ایک حدیثِ پاک کو دلیل کے طور پر لایا ہے،جس میں محمدِ عربیﷺ فرماتے ہیں کہ”پیغمبروں کی تاریخ میں ایک پیغمبر ایسے بھی گزرے ہیں،جن کی قوم کے صرف ایک فرد نے ان کی تصدیق کی تھی۔“(صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب فی قول النبیؐ انا اول الناس یشفع فی الجنة۔۔۔الخ)

اللہ سے قریب ہونے کا بہت خاص راستہ یہ ہے کہ آدمی اللہ کے انصار میں شامل ہو جائے۔اللہ کے پیغام کا علمبردار بن جائے۔اللہ نے انسانوں تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے نبیوں اور رسولوں کا انتخاب کیا اور انہیں اپنا مقرب بنایا۔انہیں ہر لمحہ اور ہر آن اللہ کی خاص نصرت و حمایت حاصل ہوتی ہے۔جاہل اور ظالم قوم کے بالمقابل اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت فرماتا ہے،انہیں مادی غلبہ بھی دیتا ہے اور مخالفین سے انہیں نجات دلاتا ہے۔اس حوالے سے مصنف نے قرآنِ پاک کی تین آیتوں(المٶمن:٥١،یونس:١٠٣،ابراہیم١٣،ا٤) کو بطور دلیل لایا ہے۔

”کارِ رسالت کی تشریح“ والی پہلی بحث کو مصنف”رسولوں کے کام کی نوعیت“ جیسے مختصر اور جامع موضوع پر اختتام کرتے ہیں۔اور اس موضوع میں ایک جگہ پہ لکھتے ہیں کہ:

”اللہ تعالیٰ کا رسول چاہے مبلغ ہو،چاہے قاضی اور حاکم  ہو،چاہے معلمِ اخلاق اور معمارِ تہذیب ہو،چاہے سپہ سالار اور قائد ہو،ہر حال میں داعی الی اللہ ہوتا ہے۔اس کی دعوت ہزار قالب اختیار کر لے،ہر قالب کی روح دعوتی ہوتی ہے۔اگر اس کی پُکار کا ایک انسان بھی جواب نہ دے اور وہ قتل کر دیا جائے تو بھی وہ دعوت ہی کا کام کرتے ہوئے دنیا سے جاتا ہے اور اس وقت بھی وہ دعوت ہی کا کام انجام دیتا ہے جب کہ وہ قاضی بن کر انسانوں کے درمیان اللہ کی مرضی کے مطابق فیصلے کرتا ہے۔کوئی بھی دعوت اگر کسی مرحلہ میں دعوت نہ رہے تو سمجھئے کہ اس نے اپنی اصل حیثیت کھو دی۔“(ص ٤١)

”کارِ رسالت کی تشریح“ ہی کے ذیل میں آخری رسول حضرت محمدﷺ کے ذریعے جو عظیم کارنامہ انجام پایا اس کی تفصیل مصنف نے”محمدﷺ کا عظیم کارنامہ دعوت“ کے عنوان تحت بیان کی ہے۔مذکورہ موضوع کے تحت مصنف نے”اعلانِ رسالت“ سے بات شروع کی ہے۔مصنف محمدﷺ کے زبردست کارنامہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ:

”محمدﷺ نے اپنی رسالت کا اعلان کیا اور دنیا کے دیکھتے دیکھتے وہ زبردست کارنامہ انجام دیا کہ تاریخ میں نہ تو اس سے پہلے اس کی کوئی مثال تھی اور نہ اس کے بعد کوئی مثال مل سکی۔اگر آپ اسے دنیا کا سب سے بڑا انقلابی کارنامہ کہیں تو غلط نہ ہوگا۔“(ص ٤٣)

محمدﷺ کے ساتھ جو گروہ دین قائم کرنے کے لیے اٹھا وہ کوئی عام گروہ نہیں تھا بلکہ اس کے سامنے ایک عظیم مقصد تھا۔مصنف اس ربانی گروہ کی تعریفیں کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

”یہ اللہ کے وفاداروں کا گروہ تھا،مومن و مسلم انسانوں کا گروہ تھا۔یہ آخرت پسندوں اور اللہ کے چاہنے والوں کا گروہ تھا جو دنیا کو اس کی عبادت و اطاعت کی دعوت دینے اُٹھا تھا،اس کے سامنے سوائے اس کے اور کوئی مسئلہ نہیں تھا کہ اللہ کے بندوں تک اللہ کا دین پہنچ جائے۔“(ص ٤٧)

آج کے مادی دور میں رسولِ کریمؐ کی دعوت کا ساتھ کون دے سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب نہایت ہی دلنشین پیرائے میں مصنف اس طرح دیتے ہیں کہ:

”حقیقت یہ ہے کہ آج بھی رسولِ کریمؐ کی دعوت کا ساتھ وہی شخص دے سکتا ہے جسے زندگی سے زیادہ راہ حق میں موت پیاری ہو،جسے بیوی بچوں سے زیادہ اللہ سے اور اس کے دین سے محبت ہو،جو حق کی خاطر رشتوں پر چُھری چلا سکتا ہو اور اپنے چلتے ہوئے کاروبار کو نقصان پہنچا سکتا ہو،اور جو اپنے چین اور سکون کو قربان کرنے کے لیے تیار ہو۔ورنہ جس شخص کو جان اور اولاد عزیز ہو،جو دنیاوی تعلقات میں گرفتار ہو،جو سلامتی کا طالب اور سکون کا جویا ہو اور جسے اپنے کاروبار اور مال و دولت سے محبت ہو،وہ کبھی اُس دعوت کے تقاضے پورے کر ہی نہیں سکتا،جو محمدﷺ کی دعوت تھی اور جس کے لیے آپؐ نے اپنی پوری زندگی اور اپنا پورا اثاثہ لٹا دیا تھا۔“(ص ٦٨-٦٩)

حق کو غالب کرنے کے لیے محمدﷺ اور ان کے جانباز ساتھیوں نے آزمائشوں کے بالمقابل صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا۔منظم طریقے پر ہجرت اور جہاد و قتال میں جاں گسل محنت کر کے بالاٰخر حق کو مختصر وقت میں غالب کر ہی دیا۔اس ہمہ گیر انقلاب اور انقلابی کارکنوں کے متعلق مصنف لکھتے ہیں کہ:

”دعوتِ حق کا یہ  کام تئیس(٢٣) برس کی مدت میں اللہ کے رسولؐ اور آپؐ کے اصحابِ کرامؓ کے ہاتھوں انجام پایا اور جب بھی یہ کام انجام پاسکتا ہے تو ایسے ہی اللہ کے فرماں برداروں اور صالح انسانوں کے ذریعے انجام پاسکتا ہے۔جب یہ کام ختم ہو چکا تو اللہ کی طرف سے تکمیلِ دین اور اتمامِ نعمت کا اعلان ہوگیا اور کفر پر دینِ حق کے بارے میں آخری طور سے مایوسی چھا گئی۔“(ص ٥٥)

دوسری بحث جو کہ براہِ راست اسلام کی دعوت سے متعلق ہے۔اس میں پہلے اس کام کی صحیح حیثیت واضح کی گئی ہے۔اللہ تعالیٰ کے رسول دنیا میں”شہادت علی الناس“ کا فرض انجام دیتے تھے۔اسی شہادت پر قوموں کا فیصلہ ہو جاتا ہے۔اس حوالے سے مصنف نے تین آیات(القصص:٧٥،الروم:٤٧،النساء:٤١-٤٢) اور حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی ایک روایت کو لا کر اپنی بات کو مکمل کیا ہے۔اس موضوع کو مستقل مضمون کی صورت میں دیکھنے کے لیے مصنف نے اپنی مشہور و معروف کتاب”تجلیاتِ قرآن“ کا مطالعہ کرنے کی ترغیب دی ہے۔یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ رسول اللہؐ نے تبلیغِ دین کا حق ادا کر دیا اور دعوتی ذمہ داری کے کام کو امتِ مسلمہ کی طرف سونپا گیا۔اس عظمت والے کام کو انجام دیتے وقت امتِ مسلمہ کو عظیم قربانی دینی ناگزیر ہے۔امتِ مسلمہ کے ایک ایک فرد سے مخاطب ہوتے ہوئے مصنف یوں گویا ہیں کہ:

”اسی کارِ عظیم کو آج آپ انجام دینا چاہتے ہیں۔اس میں آپ کا وہ سب کچھ لٹ جائے جو آپ کے پاس ہے تو لٹ جانے دیجیے،آپ کی متاعِ حیات اسی میں لگ جائے تو لگ جانے دیجیے۔یہ خسارے کا سودا نہیں ہے۔یہ وہ تجارت ہے،جس پر کل آپ فخر کریں گے اور آپ کی سرخ روئی اور کامیابی پر بہت سے وہ لوگ بھی رشک کریں گے جو آج آپ کو نادان سمجھتے ہیں اور جن کے نزدیک موجودہ حالات میں دعوتِ دین کے لیے کوئی وجہِ جواز نہیں ہے۔“(ص ٦٨)

دعوت کا میدان وسیع ہے لہٰذا اسے محدود سمجھنا حماقت ہے۔جو شخص دل کی آمادگی اور پوری سنجیدگی سے اسے انجام دینا چاہے اس کے لیے ہر طرف کام ہے،ہر طبقے میں کام ہے اور ہر وقت کا کام ہے۔موجودہ دور میں اسلام کے خادموں کو دعوت کا جو وسیع اور ہمہ جہت عمل انجام دینا ہے اسے مصنف نے حسبِ ذیل تین بڑے عنوانوں میں تقسیم کیا ہے:

١۔دعوت و تبلیغ  ٢-اصلاح و تربیت ٣-اسلام کا غلبہ و نفاذ   (ص ٦٩)

دعوت کی کامیابی کے لیے ایک داعی کے لیے اتباع انتہائی ضروری ہے۔اللہ کے نزدیک یہ بات سخت ناپسندیدہ ہے کہ آدمی دوسروں کے درمیان تو اس کے دین کی تبلیغ کرے اور خود اس کی زندگی دین کے اثرات سے خالی ہو۔یہ ظاہر و باطن اور قول و فعل میں تضاد اللہ تعالیٰ کو نہایت ہی مبغوض کر دیتے ہیں۔قرآن مجید نے اس بُرے طرزِ عمل پر دو جگہوں(الصف:٢،٣۔البقرہ:٤٤) پر گرفت فرمائی ہے۔مصنف دین کے داعیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے یوں گویا ہیں: 

”حقیقت یہ ہے کہ جو شخص اسلام کو دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ اس کے حق ہونے کی شہادت دے۔اگر اس کی زندگی سے اس کی صداقت کی آواز بلند نہ ہو تو محض اس کی تبلیغ سے کسی دوسرے شخص کی زندگی بدل نہیں سکتی۔اللہ تعالیٰ کے دین کی قدر و قیمت جس نے گھٹائی ہے وہ یہی بے عمل دعوت ہے،لیکن سوچئے ہم میں سے کتنے ہیں،جن کے لیے اسلام محض ایک موضوعِ سخن ہے اور کتنے ہیں جن کی زندگیوں میں وہ فی الواقع اترا ہوا ہے۔اسلام کا نام لینے والے اس کو بہت رسوا کر چکے۔کم از کم اس کے داعیوں کو اس سے لازماً بچنا چاہیے۔“(ص ٨٨-٨٩)

دعوت ایک اصلاحی کوشش ہے،جس میں ترتیب کا ہونا ناگزیر ہے۔کیونکہ ترتیب کا نہ ہونا ایک عیب ہے جو کسی بھی کام کو بگاڑ دیتا ہے۔بالخصوص دعوت و اصلاح  کی کوشش کو اس عیب سے پاک ہونا چاہیے۔مصنف نے مباحثِ دعوت کے تحت ایک موضوع بعنوان”دعوت و اصلاح کی ترتیب“ باندھا ہے،جس میں نہایت ہی احسن طریقے پر ترتیب کا لحاظ رکھتے ہوئے دعوت و اصلاح کے کام کو قدرے سہل بنا دیا ہے۔دعوت و اصلاح کے حوالے سے ایک داعی کے لیے مصنف نے جو ترتیب دی ہے وہ حسبِ ذیل ہے:

١-بیوی بچوں کی اصلاح  ٢۔خاندان کی اصلاح  ٣۔بستی اور شہر کی اصلاح  ٤۔شہر کے قرب و جوار کی اصلاح   ٥۔سارے عالم کی اصلاح (ص ٩١۔١٠٠)

شریعت نے جہاں ایک کام کا حکم دیا ہے وہیں اس کے اصول و آداب بھی بتا دئے ہیں تاکہ کام احسن طریقے سے پایہ تکمیل کو پہنچ جائے۔دعوت کے حوالے سے  قرآن و حدیث میں چند اصول و آداب بتائے گئے تاکہ اسلام کی دعوت کا حق ادا ہو سکے۔اس حوالے سے مصنف نے”دعوت کے اصول و آداب“ عنوان کے تحت ایک داعی کو چند گزارشیں کی ہیں تاکہ اس کی دعوت تیر بہ ہدف ثابت ہو سکے۔مصنف نے سب سے پہلے اس سوال کو لیا ہے کہ دنیا کے سامنے اسلام کو کس طرح پیش کیا جائے؟ اس سلسلہ میں مصنف کہتے ہیں کہ ہمیں مندرجہ ذیل بعض بنیادی باتوں کو سامنے رکھنا ہوگا:

١۔دعوت عام ہو ٢۔دعوت پوری زندگی کی اصلاح کے لیے ہو  ٣۔اصول کو اہمیت دی جائے  ٤۔روحِ دین پیدا کرنے کی کوشش کی جائے (ص١٠٣۔١٠٨)

ایک داعی کا فہم و کردار بلند ہونا چاہیے۔اسے ان تمام صفات سے متصف ہونا ہے جو دعوتِ دین کے لیے ناگزیر ہیں۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک داعی بغیر ہدف کے تیر چلائے اور اپنی قوت کو ضائع کر دے،یہ ایسا نقصان ہے جس کا مدتوں تلافی ہونا محال ہے۔ایک داعی کو اپنی دعوت کا گہرا فہم حاصل ہو اور اپنے مخاطب کے ساتھ اس کا رویہ نرالا ہی ہونا چاہیے تب جا کے داعی کو کامیابی قدم چومے گی۔ایک داعی میں کیا ہونا اور کیا نہ ہونا چاہیے؟ اس سوال پر روشنی ڈالتے ہوئے مصنف نے ذیل کی چیزوں کا تذکرہ کیا ہے تاکہ ایک داعی ان چیزوں کو اپنا کر اپنی دعوت میں چار چاند لگا سکے:

١۔دعوت کا واضح تصور رکھے  ٢۔صاف اور مٶثر انداز میں دعوت دے  ٣۔حلال ذرائع اختیار کرے  ٤۔مزاجِ دین کی رعایت کرے  ٥۔لوگوں کی آمادگی کا خیال رکھے  ٦۔کسی کو کافر اور گم راہ کہنے سے احتراز کرے  ٧۔غرور اور تحکم سے بچے  ٨۔با اخلاق رہے  ٩۔جلد بازی نہ کرے(ص ١١٣۔١١٩)

داعی ہمیشہ کامیاب رہتا ہے۔وہ کبھی ناکام نہیں ہوتا۔ایک داعی نے اگر دین کی طرف دعوت دینے میں کوتاہی نہیں کی اور اپنی حد تک اس کو واضح کر دیا تو اپنے فرض سے بالکل سبک دوش ہوگیا۔مصنف”داعی کامیاب ہے“عنوان کے تحت ایک جگہ پہ لکھتے ہیں کہ:

”داعی کی کامیابی یہ ہے کہ وہ دعوت کے لیے اپنا سب کچھ لگا دے۔داعی کی سب سے بڑی تمنا یہ ہوگی کہ حق غالب اور باطل مغلوب ہو،اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق تمام معاملات کے فیصلے ہوں اور دنیا کی جھوٹی عدالتیں ختم ہوں،وہ اس وقت چین سے نہیں بیٹھے گا جب تک کہ اللہ کا دین تمام دینوں پر غالب نہ آجائے اور ہر طرف اسی کی حکومت نہ ہونے لگے۔داعی اگر اس کوشش میں اپنے آپ کو فنا کر دے تو اس کی کامیابی میں کوئی شبہ نہیں ہے،خواہ اس کی کوشش کے نتیجے میں دعوت غالب ہو یا نہ ہو۔“(ص ١٢٩۔١٣٠)

اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی سامنے دینِ حق کو واضح کرنے کے لیے پیغمبر عظامؑ اور کتابیں بھیجیں،لیکن اس کے باوجود یہ واقعہ ہے کہ کبھی تمام انسانوں نے اسے قبول نہیں کیا۔ہر دور میں بے شمار انسان اس کا انکار کرنے والے پائے گئے اور آج بھی اس کے منکرین اکثریت میں ہیں۔آخر انکارِ دین کے حوالے سے نمایاں اسباب کیا ہیں؟ اس اہم سوال کا جواب دیتے ہوئے مصنف نے”انکارِ دین کے اسباب“ عنوان کے تحت چند نمایاں اسباب کا تذکرہ کیا ہے،جن کی فہرست حسبِ ذیل ہے:

١۔غلط افکار کا غلبہ  ٢۔غلط عمل سے محبت  ٣۔اکثریت کی اتباع  ٤۔گم راہ لیڈروں کی غلامی  ٥۔ماضی کی پرستش  ٦۔دنیا کی محبت  ٧۔اسبابِ دنیا کی کثرت  ٩۔اقتدار اور حکومت  ١٠۔نفس پرستی  ١١۔استکبار   ١٢۔دنیا میں ترمیم کا مطالبہ  (ص ١٣٣۔١٥٠)

دینِ اسلام ایک عظیم نعمت ہے،جس بندے کو یہ نعمت مل جائے وہ اللہ کے مقربین میں شامل ہوتا ہے۔اس نعمت کو ملنے اور نہ ملنے پر ہی کامیابی اور ناکامی کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔اتنا بڑا واقعہ انسان کی زندگی میں بخت و اتفاق سے پیش نہیں آتا،بلکہ یہ اس کا اپنا ارادہ اور فیصلہ ہے جو اس کو اللہ کے دین سے قریب یا دور کرتا ہے۔ایک سوال ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سی خصوصیات ہیں جن کی بنا پر ایک انسان کو یہ بیش بہا دولت ہاتھ آتی ہے؟ اس سوال کا جواب مصنف نے ”وہ لوگ جن کو اللہ تعالیٰ کا دین ملتا ہے“ عنوان کے تحت قرآن مجید کی روشنی میں دیا ہے اور ذیل کی خصوصیات کو لاکر ایک انسان کو ترغیب دی ہے کہ یہی وہ چیزیں ہیں جو آپ کو اس نعمت کے قابل بنا سکتی ہیں:

١۔صحیح الفطرت انسان  ٢۔جو غور و فکر کرتے ہیں  ٣۔عبرت حاصل کرنے والے  ٤۔دین کے طالب  ٥۔جن میں ہمت ہوتی ہے  (ص١٥١۔١٦٢)

دنیا کے کونے کونے تک اسلام کی دعوت پہنچانا ایک کامیاب داعی کا نصب العین ہوتا ہے۔رضائے الٰہی کے لیے وہ اس کام میں اپنی ساری زندگی اور اپنا قیمتی اثاثہ لٹاتا ہے۔اتنے بڑے کام کے لیے جو بھی انسان میدان میں آئے اس کے اندر وہ اعلیٰ اوصاف ضرور ہونے چاہئیں جو اسلام اس کے اندر دیکھنا چاہتا ہے۔اسلام کو اپنے ماننے والوں سے جو صفات مطلوب ہیں،مصنف نے اگرچہ ان سب کا احاطہ نہیں کیا ہے بلکہ کارِ دعوت کے لیے ان میں سے بعض صفات کی اہمیت بیان کی ہے۔ان صفات کو پڑھ کر بہرحال یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام ذہن و فکر کی کس طرح تربیت کرتا ہے اور اس کی خدمت کے لیے کن اوصاف کی ضرورت ہے۔تیسری بحث میں مصنف نے”دعوت کے لیے ضروری اوصاف“ عنوان کے تحت پہلے نمبر پر”ایمان باللہ“ کو لایا ہے۔ایمان کس چیز کا نام ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں کہ:

”ایمان اللہ تعالیٰ کی غلامی کا نام ہے اور اللہ تعالیٰ کی غلامی ایک اونچا منصب ہے جو ہر کسی کو آسانی سے حاصل نہیں ہوتا۔اللہ تعالیٰ اپنی غلامی کے لیے اس شخص کو قبول کرتا ہے جو دل و جان سے اس کے لیے وقف ہونا چاہتا ہو۔“(ص ١٦٨)

ایمان ہم سے کیا چاہتا ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں کہ:

”ایمان آپ سے سچی وفاداری چاہتا ہے۔ایمان آپ سے مسلسل قربانی چاہتا ہے،ایمان آپ سے پُرعزم جدوجہد چاہتا ہے۔ایمان آپ سے پُرخلوص محبت چاہتا ہے۔ایمان چاہتا ہے کہ آپ پوری طرح اللہ تعالیٰ کے لیے وقف ہو جائیں اور اس کی رضا کے لیے اپنے آپ کو بیچ دیں۔جو شخص اس طرح بک جانے کے لیے تیار نہیں ہے اس کا ایمان وہ ایمان نہیں،جس کے نتیجے میں اللہ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور اس کے انعامات کی بارش ہوتی ہے۔“(ص ١٨٩)

دوسرے نمبر پر مصنف نے”ایمان بالآخرة“ کو لایا ہے۔اسلام کی دعوت آخرت سے غافل انسانوں کا کام نہیں ہے بلکہ اس کے لیے ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو دنیا پر آخرت کو ترجیح دیں۔مصنف اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ:

”دعوت کی راہ میں مصائب ہی سے آزمایا نہیں جاتا بلکہ راحتوں سے بھی آزمایا جاتا ہے۔دعوت کو ختم کرنے کے لیے یہاں قید خانوں کے دروازے ہی نہیں کھلتے بلکہ تخت و تاج بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ظلم و تشدد کے باوجود دعوت اگر پھیلتی جائے تو اس کے آگے دولت کے بندھ باندھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔یہ امتحان بڑا سخت ہوتا ہے۔جو لوگ لوہے کی زنجیروں کو توڑ پھینکتے ہیں وہ سونے کی زنجیر میں بہ خوشی قید ہو جاتے ہیں۔اس امتحان میں وہی شخص کامیاب ہو سکتا ہے جو یہاں کی بڑی سے بڑی مسرت کو ہیچ سمجھے،جو آخرت کی نعمتوں کو پانے کی خوشی میں یہاں کی راحتوں کو بھول جائے،جس کے لیے وہاں کے عذاب کا تصور یہاں کی ہر تکلیف کو آسان کر دے،جو آخرت کی کامیابی ہی کو حقیقی کامیابی اور آخرت کی ناکامی ہی کو اصل ناکامی سمجھے۔“(ص ٢٢٠)

تیسرے نمبر پر مصنف نے”قرآن مجید_اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب“ کو لایا ہے۔اس باب میں مصنف نے قرآن کا تعارف دینے کے بعد زیادہ زور”اہلِ ایمان سے قرآن کے مطالبات“ پر دیا ہے۔یہ مطالبات قرآن پر ایمان کے عین تقاضے ہیں۔ان کی ترتیب مصنف نے اس طرح دی ہے:

١۔قرآن کو مضبوطی سے پکڑیں رہیں  ٢۔قرآن کی تلاوت  ٣۔قرآن سے راہ نمائی  ٤۔قرآن کی اتباع  ٥۔قرآن پر عمل  ٦۔قرآن کی طرف دعوت

”قرآن کی طرف دعوت“کے ذیل میں مصنف ایک جگہ پہ رقمطراز ہیں کہ:

”اس دنیا میں کامیاب ترین انسان وہ ہے جو قرآن کی اتباع کرے اور دوسروں کو اس کی اتباع کی دعوت دے،کیوں کہ قرآن کی اتباع اللہ تعالیٰ کی اتباع اور قرآن کی طرف دعوت اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت ہے۔اس دنیا میں یہی ایک کامیاب طریقہ زندگی ہے اور یہی وہ سب سے بہتر دعوت ہے جو کسی انسان کے کان میں پڑ سکتی ہے۔“(ص ٢٣٩)

چوتھے نمبر پر مصنف نے”نماز اور دعوتِ دین“ کو لایا ہے۔دعوت کے ساتھ نماز کا اس قدر گہرا ربط ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا ہے۔مصنف اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ:

”جو لوگ دعوتِ دین کا فرض انجام دے رہے ہیں انہیں سب سے زیادہ نماز کا پابند ہونا چاہیے۔وہ اس سے کسی حال میں غفلت نہیں برت سکتے۔دین میں جو عمل سب سے مقدم ہے اسے ہر حال میں مقدم ہی رہنا چاہیے۔اسے مٶخر کرکے یا اسے چھوڑ کر دعوتِ دین کا حق ادا کرنا ممکن نہیں ہے۔“(ص ٢٤٤)

پانچویں نمبر پر مصنف نے”انفاق فی سبیل اللہ“ کو لایا ہے۔اسلام ہمیں مال جمع کرنے کے بجائے انفاق فی سبیل اللہ پر اُبھارتا ہے۔کمالِ ایمان کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ انسان کا مال اللہ کی مرضی کے مطابق خرچ ہونے لگے۔وہ وہیں صَرف ہو جہاں صَرف کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔جہاں صَرف کرنے سے منع کر دیا گیا وہاں ہرگز صرف نہ ہو۔اللہ کے دین کو اس وقت انفاق کی شدید ضرورت ہے لہٰذا من حیث الجماعت مسلمانوں پر لازم ہے کہ اسلام کی دعوت کو عام کرنے کے لیے بڑھ چڑھ کر انفاق کریں۔اسی چیز کی ترغیب دیتے ہوئے مصنف ایک جگہ پہ لکھتے ہیں کہ:

”اللہ کا دین اس وقت بڑے نازک دور سے گزر رہا ہے۔انسانوں پر اس کی گرفت ڈھیلی پڑ چکی ہے۔باطل تحریکیں اور فاسد نظریات ہر طرف پھیل رہے ہیں۔خدا بے زاری اور آخرت فراموشی سارے عالم پر چھائی ہوئی ہے اور اللہ کے دین کو اس کے ماننے والوں تک نے اپنی زندگیوں سے بے دخل کر رکھا ہے۔اس حالت میں کسی کا اپنے پیسے سے دین کو تقویت پہنچانا بڑی ہی قدر و قیمت رکھتا ہے۔عام حالات میں بھی اگر کوئی شخص اللہ کے دین کے لیے کچھ خرچ کرتا ہے تو اس کا بڑا اجر ہے،لیکن اس سے کہیں زیادہ اجر و ثواب کا وہ اس وقت مستحق ہوگا جب کہ دین بے حد مظلوم ہو اور حمایت و نصرت کے لیے اسے آواز دے رہا ہو۔“(ص ٢٧٣)

 چھٹے نمبر پر مصنف نے”قربانی“ کو لایا ہے۔قربانی عبادت کی ایک مخصوص صورت ہے۔ایک داعی کو اللہ راضی کرنے کے لیے مرغوب و محبوب چیزوں کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ایسی ہر قربانی اسے اللہ سے محبت بڑھاتی ہے اور اللہ سے قریب ہونے کا احساس عطا کرتی ہے۔ایمان کے درجات مسلسل قربانی ہی سے طے ہوتے ہیں۔اسلام کسی خاص وقت یا کسی خاص معاملہ میں قربانی کا طالب نہیں ہے،بلکہ ہر حال میں اور ہر معاملے میں قربانی کا مطالبہ کرتا ہے۔دعوتِ دین جیسے کارِ عظیم کو اپنے انجام تک  پہچانے کے لیے ہر اس چیز کو قربان کرنا ہوگا جس کے ہم مالک ہیں۔آج دین قربانی کا طالب ہے۔اس حوالے سے مصنف لکھتے ہیں کہ:

”آج اللہ کا دین بے حد مظلوم ہے۔وہ آپ کی نصرت چاہتا ہے۔وہ آپ کی عمدہ صلاحیتیں چاہتا ہے۔وہ آپ کا بہترین وقت اور مال چاہتا ہے۔وہ آپ کی نیند،آپ کی راحت اور آپ کا سکون چاہتا ہے۔وہ دن بڑا مبارک دن ہوگا جب کہ ہم دین کے اس مطالبہ کو پورا کرنے کا فیصلہ کریں گے۔وقت تیزی سے گزر رہا ہے اور موت ہر اس شخص کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔نہیں معلوم کل جو سورج طلوع ہونے والا ہے وہ ہم میں سے کس کو کہنے اور کس کو سننے کے لیے باقی رکھے۔خوش نصیب ہے وہ جو اپنے آج کو کل کے انتظار میں ضائع نہ کرے اور اس سے پہلے کہ موت اس سے فیصلہ کا حق چھین لے،دین کی حمایت و نصرت کے لیے کھڑا ہو جائے۔“(ص ٢٨١)

ساتویں نمبر پر مصنف نے”اخلاص_روحِ دین“ کو لایا ہے۔اخلاص روحِ دین کے ساتھ ساتھ عقیدہ و عمل دونوں میں لازم ہے۔اللہ تعالیٰ کی رضا سب سے بڑی چیز ہے اور یہی وجہ ہے کہ مصنف اخلاص پر زور دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

”اللہ تعالیٰ بے حد غیور ہے،وہ شرک کو برداشت نہیں کرتا۔وہ ہر عمل میں اخلاص چاہتا ہے۔جس عمل کے پیچھے صرف اس کی رضا ہی نہیں دوسروں کی خوش نودی بھی مطلوب ہو وہ اس کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوتا۔اس سے ہو سکتا ہے دوسرے خوش ہو جائیں لیکن اللہ تعالیٰ کی رضا نہیں حاصل ہو سکتی۔“(ص ٢٩٨)

آٹھویں نمبر پر مصنف نے”استقامت“ کو لایا ہے۔عام فہم الفاظ میں استقامت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی وحدانیت پر انسان ڈٹ جائے،فرائض و واجبات کی ادائیگی کرے اور حرام کاموں سے بچ کر رہے۔استقامت کی راہ بڑی کٹھن راہ ہے۔دعوتِ دین استقامت کی طالب ہے۔اللہ تعالیٰ کی راہ میں استقامت وقتی طور پر مطلوب نہیں ہے بلکہ اس کو زندگی کی آخری سانس تک باقی رکھنا پڑتا ہے۔استقامت اور دعوتِ دین لازم و ملزوم ہیں۔اس حوالے سے مصنف لکھتے ہیں کہ :

”حقیقت یہ کہ دعوت دین بہت ہی صبر آزما کام ہے۔یہ بڑی دشوار گزار گھاٹی ہے جسے ہر شخص آسانی سے پار نہیں کر سکتا۔اس پر وہی شخص چل سکتا ہے جو قدموں کے زخمی ہونے اور دست و بازو کے شل ہونے کی شکایت نہ کرے،جو راہ کی ٹھوکروں سے گھبرا کر اپنی راہ نہ کھوٹی کرے،بلکہ ہر ٹھوکر پر اپنے اندر نئی توانائی محسوس کرے،جو مخالفت کے طوفان میں پیچھے نہ ہٹے،بلکہ پہاڑ کی طرح اپنی جگہ جما رہے،دشمن کو دیکھ کر جس کا ایمان متزلزل نہ ہو،بلکہ ہر آزمائش کو اپنی کامیابی کا ذریعہ سمجھے۔“(ص ٣٠٧)

 چوتھی اور آخری بحث میں”دعوت اور تنظیم“ عنوان پر مصنف نے مفصل روشنی ڈالی ہے۔اسلام کی دعوت کے لیے تنظیم ناگزیر ہے۔تنظیم کے بغیر دعوت کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔ہر ایک دعوت اپنا غلبہ چاہتی ہے۔اور کسی دعوت کے غلبے کے لیے کیا ضروری ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں کہ:

”کسی دعوت کے غلبے کے لیے ضروری ہے کہ جس وقت جو کام کرنا اس کے لیے ضروری ہو اسے وہ انجام دے سکے،جو تدبیر سوچے اس کو اختیار کرنا اس کے لیے ممکن ہو،جو ذرائع و وسائل اس کو حاصل ہوں ان کا بہترین استعمال جانتی ہو،اس کے پاس اتنی طاقت ہو کہ علم و ادب،تہذيب و اخلاق اور حکومت و سیاست کا رُخ موڑ سکے۔اتنی بڑی اور وسیع طاقت آج تک کسی ایک فرد کو نہ حاصل ہوئی ہے اور نہ آئندہ اس کی توقع کی جا سکتی ہے۔اس لیے کہ کسی بھی شخص کے اندر ہر کام کی صلاحیت اور طاقت نہیں ہوتی،وہ زیادہ سے زیادہ دو ایک ہی کام کر سکتا ہے اور جو کام بھی کر سکتا ہے وہ اتنے بڑے پیمانے پر نہیں کر سکتا کہ وہ ہر پہلو سے مکمل ہو اور تمام ضرورتیں پوری ہو جائیں۔لیکن ایک اچھی تنظیم کے لیے یہ سب کچھ ممکن ہے۔“(ص ٣١٥)

تنظیم کا قیمتی اثاثہ صالح افراد ہوتے ہیں۔ان صالح افراد کو تنظیم میں منظم کرنا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔مصنف لکھتے ہیں کہ:

”افراد کو دو چیزیں منظم کرتی ہیں۔ایک ہے مقصد اور اس سے تعلق اور دوسری چیز ہے قیادت اور اس کی اتباع۔“(ص ٣٢٣)

ماضی میں دعوت کے لیے امت اور اس کے ایک ایک فرد نے وہ سب کچھ کیا جو کوئی بھی انسانی گروہ کر سکتا ہے۔لیکن بدقسمتی سے ایک وقت وہ بھی آیا کہ امت کی تنظیم ٹوٹ گئی۔امت کو اپنی سابقہ حالت کی طرف لوٹا کر کر از سرِ نو اسلام کی دعوت میں اسے لگانا وقت کی اہم ضروت ہے۔مصنف کی نظر میں اب جن لوگوں کو اس چیز کا احساس ہے ان کے کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ:

”پہلے وہ خود ہر طرف سے کھنچ کر منظم ہوں جس کے لیے ان کے اسلاف محمدﷺ کے زیرِ قیادت منظم ہوئے تھے،پھر امت کے دیگر افراد اور گروہوں کو اسی مقصد کے لیے مجتمع کرنے کی کوشش کریں۔اگر یہ امت صحیح معنی میں متحد ہو جائے اور اس کا یہ اتحاد اسلام کے لیے ہو تو کچھ بعید نہیں کہ دنیا میں پھر وہی انقلاب آئے،جس کا نمونہ وہ چودہ سو سال پہلے ایک مرتبہ دیکھ چکی ہے۔وما ذالک علی اللہ بعزیز۔“(ص ٣٢٨)

آخر پر مصنف”تنظیم کیسے مستحکم ہوتی ہے؟“ عنوان کے تحت قیمتی نصیحتوں کا گلدستہ پیش کر کے اپنی لاجواب کتاب پایہ تکمیل کو پہنچاتے ہیں۔یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ تنظیم کا حقیقی سرمایہ اس سے وابستہ افراد ہوتے ہیں۔تنظیم کو باقی رکھنا،اسے مضبوط بنانا اور اسے ترقی دینا انہی لوگوں کا کام ہوتا ہے۔مصنف ایک جگہ پہ لکھتے ہیں کہ:

”ہر وہ شخص جو کسی تنظیم سے تعلق رکھتا ہو اس کے استحکام کا ذریعہ نہیں بن جاتا بلکہ ان ہی افراد سے تنظیم کو طاقت حاصل ہوتی ہے جن میں کچھ خصوصیات ہوں۔مصنف نے جن خصوصیات کو دلنشین  انداز میں بیان کیا ہے ان کی فہرست حسبِ ذیل ہے:

١-اجتماعیت کا احساس  ٢-اطاعتِ امر  ٣-حسنِ ظن  ٤۔نصح و خیر خواہی  ٥۔نظریات کے ساتھ خیرخواہی  ٦۔مامورین کے ساتھ خیر خواہی  ٧۔عام افراد کے درمیان خیر خواہی  (ص ٣٢٩۔٣٤٤)

موجودہ دور میں جب کہ اسلام کو چہار جانب سے نشانہ بنایا جا رہا ہے،اس کتاب سے لوگوں کو روشناس کرانے کی اشد ضرورت ہے۔مصنف نے کافی عرق ریزی اور خونِ جگر دے کر اس کتاب کو تصنیف کیا ہے۔میری ذاتی رائے ہے کہ افادۂ عام کے لیے اس کتاب کی چار بحثوں کو اگر چار پُرکشش رسالوں میں تقسیم کیا جائے تو بہتر رہے گا،تاکہ تشنگانِ علم اور داعیانِ امت کم سے کم قیمت پر خرید کر انہیں پڑھ کے اپنی روح کو جِلا بخش سکیں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس کتاب کو قبولیت بخشے،اس کا فائدہ عام کرے اور مصنف کو جزائے خیر سے نوازے۔آمین یا رب العالمین

اس کتاب کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد میں بذاتِ خود اس نتیجے پر پہنچ گیا کہ آج مسلمانوں کے لیے لازم ہے کہ وہ دین کو محض نماز روزہ تک محدود نہ سمجھیں،بلکہ دعوتِ دین کو خیرِ امت کا حصہ ہونے کی حیثیت سے اپنا فرضِ منصبی سمجھتے ہوئے فرداً فرداً اور بحثیت امت اس کی ادائیگی کے لیے تن،من اور دھن لگاکر سرگرم عمل ہوجائیں۔ورنہ اگر ہم اب بھی فریضہ دعوتِ دین سے غفلت برتیں گے اور عملاً اس کو ترک کر دیں گے تو ناکامی اور ابدی خسران ہمارا مقدر ہوگا۔العیاذ باللہ

Comments