*دو چار سے دنیا واقف ہے گمنام نہ جانے کتنے ہیں*


✍️ ندیم احمد میر


تحریکِ آزادی ہند کا جب میں نے غائر سے مطالعہ کیا تو میں نے وہاں عظیم ہستیوں کی عظیم قربانیوں کو پایا۔ان عظیم ہستیوں نے جہدِ مسلسل کے ساتھ ساتھ اس”انمول تحفے“ کے لئے اپنا سب کچھ تج کر دیا تھا اور یہی وجہ تھی کہ کامیابی نے اُن کے قدموں کو چوما۔مجھے ذاتی طور پر اس بات پر کامل یقین آیا کہ انسان بغیر جدوجہد کے کوئی میدان سر نہیں کر سکتا ہے۔ان عظیم سپوتوں نے اپنی انتھک کوشش سے تاریخ کا دھارا ہی تبدیل کر دیا اور یہ بات مسلم ہے کہ انسان مسلسل جدوجہد کے ذریعے سے ہی دریاؤں کا رخ موڑنے،پہاڑوں کو چیر لگانے اور آسمانوں کی بلندیوں کو چھونے میں کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔اسی چیز کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان عظیم انسانوں نے خُوش کُن خوابیں دیکھنے کے بجائے اس چمن میں آزادی کا بہار لانے کے لئے اپنا خونِ جگر جلایا تھا۔

  تحریکِ آزادی ہند کے فریڑم فائٹرس کی حالاتِ زندگی پڑھ کر انسان محوِ حیرت میں چلا جاتا ہے۔ان کی عظیم قربانیوں کو دیکھ کر ہر کوئی انہیں دل میں جگہ دے کر ان کے حق میں دعا گو ہوتا ہے۔مطالعہ کے دوران جب میں تحریکِ آزادی ہند کی قد آور ہستیوں کی حالاتِ زندگی اور قربانیاں پڑھتا چلا گیا تو میں نے وہاں کچھ عظیم خواتین کو بھی پایا،جنہوں نے آزادی کے حصول میں نمایاں رول ادا کیا تھا۔مجھے دل میں یہ آرزو پیدا ہوئی کہ کیوں نہ میں انہی پر کام کر کے ان کے کارناموں سے عوام کو متعارف کراؤں۔لیکن جن خواتین(فریڑم فائٹرس) کا تذکرہ لوگوں کی زبانوں پر ملتا ہے اور جن کے کاموں کی دھوم دھام ہوتی ہے،ان کو چھوڑ کر میں نے چند انجان فریڑم فائٹرس پر کام کرنے کا عزمِ مصمم کیا اور بالاٰخر میں لکھنے میں کامیاب ہوگیا۔ان پُرعزم اور جذبہ سے سرشار خواتین کے نام ”بی اماں“،”متانگینی ہزارہ“،”لکشمی سہگل“،”بھیکاجی کاما“ اور”کانا کلاتا باروا“ہیں۔اول سے لے کر آخر تک میں نے”دو چار سے دنیا واقف ہے گمنام نہ جانے کتنے ہیں“ ٹائٹل کے تحت ہی بات کو مکمل کر ڈالی۔

پھلا پھُولا رہے یا رب! چمن میری اُمیدوں کا 

جگر کا خون دے دے کر یہ بُوٹے مَیں نے پالے ہیں(اقبالؒ)

   


 انسان کو آزاد پیدا کیا گیا ہے لہٰذا اس کو آزادی سے جینے کا پیدائشی حق ہے۔اس بات کی بہترین ترجمانی جے جے روسو نے ان الفاظ میں کی ہے:"Man is born free but everywhere we are in chains."تاریخ شاہد ہے کہ پہلے سے ہی ایک طاقتور انسان نے اپنے سے کمزور انسان پر اپنی طاقت کا تسلط جما کر اسے اپنی ”غلامی“کے شکنجے میں کس لیا اور یہی طریقہ طاقتور قوموں نے بھی اپنا لیا۔اگرچہ دنیا میں انسان مختلق قسم کی زنجیروں سے جکڑا رہتا ہے لیکن ان میں سب سے خطرناک زنجیر غلامی ہی کی ہوتی ہے،جو واقعی طور پر انسان اور قوموں کی ترقی کی راہ مسدود کر بیٹھتی ہے۔ایک طاقتور قوم اپنے سے کمتر قوم کو غلام بنا کر اس کی پرواز کو ختم کر کے اس کی شناخت ہی مٹا دیتا ہے اور پھر غلام قوم میں غلاموں کی حیثیت گھاس کے ایک تنکے کے مثل رہ جاتی ہے جبکہ آزاد بندے کا مقام اور مرتبہ یہ ہے کہ اُس کی ضرب سے بڑے پہاڑ سے آبِ جو جاری ہو جاتی ہے۔غلامی کا جال پھیلانے کے لیے طاقتور قوم ظلم،جبر اور بربریت کا بھی سہارا لیتا ہے۔غلام قوموں اور افراد کا نہ کوئی منزل ہوتا ہے اور نہ ہی مستقبل کیونکہ ان کی ذہن سازی کر کے اور مراعات کا لالچ دے کر ان کا راستہ ہی تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ایک غلام قوم میں غلامی کی وجہ سے مختلف قسم کی بیماریاں اور بُرائیاں خود بخود پنپتی ہیں اور عین وقت تدبیریں اور شمشیریں بھی ناکام ہوجاتی ہیں۔غلاموں کی نظر اور بصیرت کو ناقابلِ اعتماد قرار دیا جاتا ہے۔غلامی کی زندگی کو دل سے قبول کر کے قوموں کا ضمیر بھی مر جاتا ہے۔مظلوم قوم کے لوگوں کو وقت کا قابض قوم بتدریج اس بات کا خوگر بنا دیتا ہے کہ وہ کسی مقدس سے مقدس چیز کو بیچ دینے میں تامل نہ کریں اور اجرت پر ہر ذلیل سے ذلیل خدمت انجام دینے کے لئے تیار ہو جائے۔غلامی ایک ایسی لعنت ہے جس کی وجہ سے افراد میں غلامی،خوشآمد،ایک دوسرے کی کاٹ،ایک دوسرے کی جاسوسی،فاتح کی نقالی،اپنی تہذیب کی تحقیر،فاتح تہذیب کی تعظیم اور ایسے ہی دوسرے کمینہ اوصاف پیدا ہوتے ہیں۔تحریکِ آزادی ہند میں وقت کے لیڈروں نے سب سے پہلے قوم کو لفظ ”غلامی“ سے آشنا کر کے ان کے اندر فکری تبدیلی لائی تاکہ قوم وقت پر منہ نہ موڑے۔انہوں نے اپنے خطابات کے ذریعے اور قلم چلا کر سب سے پہلے ملک میں فکری انقلاب برپا کیا اور قوم کو فولاد بنا کر وقت کی طاقتور اور ظالم حکومت کے خلاف برسرپیکار کر دیا۔تحریکِ آزادی ہند کی روح کو سمجنے کے لئے گہرائی کا مطالعہ درکار ہے اور جو بھی اس کام میں کامیابی حاصل کر لیتا ہے وہ پہلے لفظ”غلامی“ کو سمجھنے کی دعوت دیتا ہے۔راقم نے بھی اسی منہج کو اختیار کر کے سطور ذیل میں پہلے”غلامی کی تعریف“ سے شروعات کر دی۔لہٰذا ملاحظہ کیجیے:


*غلامی کی تعریف*

   غلامی کی متعدد تعریفات کی گئی ہیں۔جن میں سے چند یہ ہیں:

 ایک شخص کو دوسرے کی ملکیت میں مال و جائیداد کی طرح دے دیا جائے۔ (انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا)  

   ایک شخص کی دوسرے پر قبضے کی ایسی حالت کہ جس میں قابض کو وہ تمام اختیارات حاصل ہو جائیں جو اسے اپنے مال و جائیداد پر حاصل ہوتے ہیں۔ (غلامی سے متعلق کنونشن 1927،سیکشن 1،http://www.unh)

     مجموعی طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ غلامی ایسی حالت کا نام ہے جس میں کوئی انسان دوسرے کے تابع ہو کر اس طرح سے زندگی بسر کرے کہ اس کے تمام فیصلوں کا اختیار اس کے آقا کے پاس ہو۔یہی حال ملکوں کا ہوتا ہے کہ ایک طاقتور ملک دوسرے کمزور ملک پر اپنا تسلط جما کر اُس کو اپنے من مانی کے مطابق چلا کر اس کے تاروپود بکھیر کر اس کو فنا کے گھاٹ اُتار دیتا ہے۔


*غلامی کا آغاز*

 غلامی کے آغاز سے متعلق دو نظریات پیش کئے گئے ہیں۔ ایک نظریہ تو یہ ہے کہ غلامی کا آغاز لالچ، نفرت، حقارت اور دوسروں پر غلبہ پانے کے جذبات سے ہوا۔ انہی بنیادوں پر قومیں ایک دوسرے پر حملہ کر کے ان کے افراد کو غلام بناتی رہیں۔

    دوسرا نظریہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ اس کا آغاز رحم کے جذبے سے ہوا تھا۔ جب جنگوں میں دشمن کے بہت سے سپاہی قیدی بنائے گئے تو یہ سوال پیدا ہوا کہ ان کا کیا کیا جائے؟ ایک نقطہ نظر تو سامنے یہ آیا کہ انہیں تہہ تیغ کر دیا جائے۔ اس کے جواب میں دوسرا نقطہ نظر یہ پیش ہوا کہ انہیں قتل نہ کیا جائے بلکہ غلام بنا لیا جائے۔ تیسری صورت انہیں آزاد کر دینے کی تھی لیکن اس میں سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ وہ کہیں دوبارہ تیاری کر کے حملہ آور نہ ہو جائیں، اس وجہ سے غلامی کو ترجیح دی گئی۔

  ممکن ہے کہ دونوں نظریات ہی درست ہوں۔ کسی ایک قوم نے لالچ، نفرت اور غلبے کی بنیاد پر غلامی کا آغاز کیا ہو اور دوسری قوم نے رحم دلی کے جذبے کے تحت غلامی کا آغاز کیا ہو۔ بہرحال یہ طے ہے کہ غلامی کو جب ایک مرتبہ قابل قبول سمجھ لیا گیا تو اس کے بعد اس کی ایسی ایسی خوفناک شکلیں وجود میں آئیں جن کے تذکرے سے انسانیت کی روح کانپ اٹھتی ہے۔


*غلامی کی اقسام*

   غلامی کی بنیادی طور پر دو اقسام ہیں:ایک جسمانی و قانونی غلامی اور دوسری ذہنی غلامی۔ جب ایک انسان یا ملک مختلف ذرائع سے دوسرے کے جسم پر کنٹرول حاصل کر کے اسے اپنا قیدی بنا لے تو یہ جسمانی غلامی کہلاتی ہے۔اس کے برعکس جب کوئی شخص یا ملک نفسیاتی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے اپنا ذہنی غلام بنا لے تو اسے نفسیاتی غلامی کہا جاتا ہے۔

     غلامی خواہ کسی بھی قسم کی ہو، غلامی ہی ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں ایک انسان دوسرے انسان کا یا ایک ملک دوسرے ملک کا محتاج ہو جایا کرتا ہے۔ 

     غلامی کے درجوں میں فرق ہوتا ہے۔ جسمانی غلامی بسا اوقات مکمل غلامی ہوتی ہے جس میں ایک شخص یا ایک ملک دوسرے کا مکمل غلام ہوتا ہے۔ آقا کو اپنے غلام پر ہر قسم کے حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ وہ چاہے تو اپنے غلام کو قتل کر سکتا ہے، چاہے تو اس کے جسم کا کوئی حصہ کاٹ سکتا ہے اور چاہے تو اس کا جنسی استحصال کر سکتا ہے۔ بعض اوقات یہ غلامی صرف چند پہلوؤں سے غلامی ہوتی ہے۔ اس کی ایک شکل جاگیردارانہ دور کی مزارعت ہے جس میں جاگیردار کو اپنے مزارعوں پر بہت سے حقوق حاصل ہوا کرتے ہیں۔

          بالکل اسی طرح نفسیاتی غلامی کے بھی مختلف درجے ہیں۔ کبھی تو ایک شخص دوسرے سے ایک حد تک ہی متاثر ہوتا ہے اور بعض معاملات میں اپنے نفسیاتی آقا کی پیروی کرتا ہے اور کبھی وہ اس کا مکمل غلام بن کر اس کے اشارہ ابرو پر اپنی جان بھی قربان کر دیا کرتا ہے۔


*تحریک کا مفہوم* 

تحریک سے مراد کچھ نظریات،عقائد اور اصولوں کو انسانی زندگی کے فکری اور عملی میدانوں میں قائم کرنے کی پیہم کوشش اور مسلسل انتھک جدوجہد جو ان اصولوں کے حامل انسان باہم ملکر شعوری اور رضاکارانہ طور پر کریں ایسے انسان کوئی ایک منظم مجموعہ ہوں یا ایسے متعدد مجموعات ۔ ایک طبقہ ہوں یا مختلف طبقوں کے لوگ۔ ایک علاقے یا خطے سے ہوں یا مختلف خطوں میں بستے ہوں۔ کوئی ایک لقب رکھتے ہوں یا متعدد القاب آپس میں چاہے متعارف نہ ہوں متآلف ضرور ہوں اور مختلف نسبتو ں کے باوجود باہم متعاون ہوں اس ”جماعت“ یا ”تحریک“ کے افراد اور گروہ اپنا نہیں بلکہ اپنے نظریات او ر عقائد کا تعارف کرائیں۔ لوگوں کو’ اپنی‘ طرف نہیں بلکہ اپنے اصولوں کی دعوت دیں اور اپنے نام کی بجائے اپنے عقائد اور اصول پیش کریں۔


*تحریک جنم کیوں لیتی ہے*

حرکت زندگی اور”جمود“ موت کا نام ہے۔انسانی جسم میں زندگی کا اختتام حرکت کے رک جانے پر ہی ہوتا ہے۔حرکت ہے تو زندگی کی تمام امیدیں باقی ہیں۔اعضاء کی صحت مندی بھی حرکت سے ہی مشروط ہے۔حرکت کے مفقود ہونے پر انسانی جسم کسی کام کا نہیں رہتا بلکہ وہ محتاج تدفین ہو جاتا ہے،تاکہ معاشرہ اس کے مضرات سے محفوظ رہ جائے۔یہی حال انسانی معاشرے کا ہے،جب تک اس میں حرکت موجود ہو تو وہ ترقی کی طرف گامزن رہتا ہے اور جب اس میں جمود طاری ہو جاتا ہے تو اس کی تنزلی کی شروعات ہو جاتی ہے۔معاشرے کی رفعت و شان اور تنزلی و جمود کو ختم کرنے کے لئے تحریک جنم لیتی ہے جو معاشرے کی”رپئیرنگ“ کا کاکام انجام دیتی ہے۔


*آزادی کا معنی*

فارسی سے اردو میں مستعمل اسم صفت آزاد کے ساتھ فارسی قاعدہ کے مطابق ی بطور لاحقۂ کیفیت لگانے سے آزادی بنا۔ سب سے پہلے 1794ء میں اثر کے ہاں مستعمل ملتا ہے۔آزادی (Independence) ایک قوم، ملک یا ریاست کی ایک حالت ہے جس میں اس کے باشندے اور آبادی یا اس کے کچھ حصے، خود حکومت کا استعمال اور زیادہ تر علاقے پر عام طور پر ”خود مختاری“ہو۔ 


*آزادی کا اصل اور بنیادی مقصد*


دنیا کا ہر انسان آزادی کا متمنی ہوتا ہے۔اس لئے کہ یہ انسان کی فطرت کی آواز ہے اور فطرت کی آواز کو زبردستی سے دبایا اور مٹایا نہیں جا سکتا ہے۔انسان دنیا کے جس خطے اور زمین کے ٹکڑے میں سکونت پزیر ہو وہاں آزادی کی جدوجہد اور آزادی کے حصول کے لئے انفرادی اور اجتماعی کوششوں کا مقصد اُس زمین کے درخت،پہاڑ،دریا،چشمے،نہریں،باغ،سبزہ زار،ریگستان،صحت افزا مقامات اور وہاں کے چرندوں اور پرندوں کی آزادی نہیں ہوتا ہے،کیونکہ یہ سب قدرتی طور آزاد ہوتے ہیں ہمیشہ سے اور ہمیشہ کے لئے آزاد رہنے والے ہوتے ہیں۔آزادی تاریخ کے ہر دور میں انسانوں کے لئے مطلوب ہوتی ہے اور انسان ہی آزادی کے لئے جدوجہد کرتے ہیں۔انسان ہی غلامی کی بندشوں اور زنجیروں سے جکڑے ہوتے ہیں۔وہی غلامی کے عذاب سے تڑپتے اور آتش زیرپا ہوتے ہیں۔وہی آزادی حاصل کرنے کے لئے مصائب اور آلام کا شکار بنائے جاتے ہیں۔

             یہ آزادی اتنی قیمتی اور انمول ہوتی ہے کہ غلام قوم یہ سب کچھ جھیلتی اور خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرتی ہے مگر غلامی پر قناعت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتی ہے۔جبر و استبداد کے ساتھ ساتھ قابض قوتیں غلام قوم کو”مراعات“کے عوض خریدنا چاہتی ہیں۔یہ حربہ غلام قوم کے لئے جو حصولِ آزادی کی جدوجہد میں بہت قربانیاں دے چکی ہوتی ہے،بہت ہی نازک اور صبر آزما ہوتا ہے۔اس لئے کہ یہ ہتھیار ہمیشہ غاصب اور جابر قوتوں کے لئے تاریخ کے ہر دور میں کامیاب حربہ ثابت ہوا ہے۔کیونکہ اس حربے سے غلام قوم کے جذبہ آزادی کو وقتی طور پر ہی سہی دبایا جاتا ہے۔اُن کو اپنی آزادی کی منزل سے دُور لے جانے کے لئے یہ ساحرانہ اور سامرانہ غلام قوم کے شعور اور جزبے کو ماؤف اور بے حس بنا دیتا ہے۔ہندوستان کے لوگوں کو اُس وقت انہی”مرعات“ کا سبز باغ انگریزوں نے دکھایا لیکن اس باغیرت قوم نے ان سب کو ٹھکرا کر اپنے ہاتھوں خود اپنی تاریخ رقم کر ڈالی۔ہندوستان کے لوگوں کو اپنے لیڈروں نے غلامی کے متعلق پہلے ہی خبردار کیا تھا کہ غلامی عزت کے بجایے ذلت کا نام ہے،جو کہ ایک باضمیر انسان کبھی گوارہ نہیں کرتا ہے۔انہیں اس بات سے بخوبی طور پر باور کرایا گیا تھا کہ طویل غلامی کے اثرات سے غلام قوم میں مکروفن خواجگی سمجھنے کی صلاحیت مفقود ہو جاتی ہے۔اسی چیز کو مدِ نظر رکھتے ہوئے علامہ اقبالؒ نے غلامی کو بدترین موت سے تعبیر کیا تھا؎

*موت ہے اک سخت تر جس کا غلامی ہے نام* 

*مکروفنِ  خواجگی  کاش  سمجھتا  غلام!*(ارمغان حجاز)


         غلامی کے زہر کا تریاق آزادی ہوتی ہے۔لہٰذا اس چیز کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہندوستان کا ہر فرد آزادی کی تمنا اپنے دل میں پال رہا تھا۔غیر قوموں اور بیرونی طاقتوں کی غلامی سے نجات پانے والی قومیں آزاد ہو جانے کے بعد اپنی تہذیب،تمدن،مذہب اور اسلاف کی روایات کے مطابق ایک نظام تشکیل دیتی ہیں۔ان کی آزادی کا اصل اور بنیادی ہدف اور مقصد یہی ہوتا ہے۔متحدہ ہندوستان پر انگریزوں کا تسلط تھا اس کے خلاف ہندوستان کے باشندوں نے انتھک جدوجہد کی اور بالاٰخر آزادی کا آفتاب طلوع ہوا اور غلامی کا بادل چُھٹ گیا۔



*تحریک آزادی ہند اور ہندوستانی خواتین*

         تحریک آزادی ہند (Indian independence movement) خیالات اورسرگرمیوں پر مبنی ایسی تحریک تھی جو پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی (1757ء - 1858ء) اور بعد میں برطانوی راج (1858ء - 1947ء) سے آزادی کی جدوجہد میں سرگرم تھی۔ 

        آزادی ایک بہت ہی خوبصورت جذبے کا نام ہے۔ اُس خوبصورت جذبے کا نام ہے جو انسان کو جان سے زیادہ پیارا ہے۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ ملے خشک روٹی جو آزاد  رہ کر، تو ہے غلامی کے حلوے سے بڑھ کر۔ دنیا کی ہر زندہ قوم نے آزادی کو ایک نعمت قرار دیا ہے۔ ہمارا ملک ہندوستان بھی انگریزوں کی غلامی کی زنجیرمیں جکڑا رہا۔ غلامی کی اس زنجیر کو توڑنے کے لئے اس ملک کے مرد و خواتین نے ایک ساتھ اپنی قربانیاں پیش کیں۔ ہمارا ملک جو جنت نظیر ہے، اس جنت کے حصول کے لئے ہمارے بزرگوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔

 جھانسی کی رانی لکشمی بائی آج بھی ہندوستانی عوام کے دلوں میں بہادری، دلیری اور شجاعت کا استعارہ بن کے زندہ ہے۔ 1857کی پہلی جنگ آزادی میں بہادر شاہ ظفر کے ساتھ ان کی بیگم زینت محل پر بھی انگریزوں کا عتاب نازل ہوا۔ بہادر شاہ ظفر کے ساتھ انھیں بھی جلاوطن کیا گیا۔ جولائی 1886میں رنگون میں ہی ان کا انتقال ہوا اور اپنے شوہر بہادر شاہ ظفر کے مزار کے برابر میں دفن ہوئیں۔ رانی لکشمی بائی اور بیگم زینت محل کی طرح ہی اودھ کے نواب واجد علی شاہ کی بیگم حضرت محل بھی 1857کی پہلی جنگ آزادی میں ایک ناقابل فراموش کردار ہیں۔ جب اَوَدھ کے نواب واجد علی شاہ کو جلا وطن کرکے انگریزوں نے کلکتہ بھیج دیا تو لکھنؤ میں بیگم حضرت محل نے فوج کی کمان سنبھال لی۔ اُڑا دیوی اور راجہ جئے لعل سنگھ کی مدد سے بیگم حضرت محل نے انگریزوں سے اودھ کو آزاد کرا لیا۔ وہ جس بہادری اور شجاعت سے میدان جنگ میں اپنی فوج کی سربراہی کر رہی تھیں وہ اس زمانے میں ناقابل یقین واقعہ تھا۔ انگریزوں کی سازش اور اپنوں کی ریشہ دوانیوں کے سبب بیگم حضرت محل کو بعد میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 

ہم جب کبھی ہندوستان کی جنگ آزادی کی بات کرتے ہیں تو 1857سے 1947تک کی 90سالہ تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں۔ کچھ مورخین نے جنگ آزادی کی تاریخ 1757کی پلاسی کی جنگ سے شروع کی ہے۔ جب بنگال کے مرشد آباد میں ہگلی ندی کے کنارے پلاسی کے میدان میں لارڈ کلائیو نے سراج الدولہ کو شکست دی تھی۔انگریزوں نے ہندوستانی قوم پر ظلم و ستم کی انتہا کر دی۔ ظلم کی انتہاؤں سے 1857کا انقلاب رونما ہوا۔ اسی لئے زیادہ تر مورخین جنگ آزادی کی تاریخ 1857سے شروع کرتے ہیں۔ 

1857کی پہلی جنگ آزادی سے 15اگست 1947تک کی تاریخ جد وجہد اور قربانیوں سے عبارت ہے۔ قابل فخر اور قابل اطمنان بات یہ ہے کہ تاریخ کی اس کتاب میں کوئی باب خواتین کی قربانیوں سے خالی نہیں ہے۔ ایک اور بات ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہندوستان کو آزاد کرانے کے لئے جنگیں بھی لڑی گئیں اور تحریکیں بھی چلتی رہیں۔ 90برسوں کے اس طویل عرصے میں کئی اہم موڑ آئے۔ اس میں جلیاں والا باغ بھی ہے اور کاکوری کا مشہور واقعہ بھی۔ اس میں ڈانڈی مارچ، عدم تعاون کی تحریک، چوری چورا حادثہ، سائمن کمیشن کا بائکاٹ اور انگریزوں بھارت چھوڑو تحریک جیسے کئی اہم موڑ ہیں۔ لیکن ہر موڑ پہ خواتین ضرور نظر آتی ہیں۔ کہیں تو خواتین خود گھوڑے پر سوار ہو کر میدان جنگ میں لڑتی ہیں اور کہیں تحریک کو سمت و رفتار عطا کرنے میں اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا استعمال کرتی ہیں۔ کچھ خواتین قلم کی طاقت کا سہارا لیتی ہیں۔ 

1915میں گاندھی جی ساؤتھ افریقہ سے ہندوستان واپس آئے اور تحریک آزادی کی لَو کو تیز کرنے کی کوشش کی۔ اس کوشش کے نتیجے میں ہوم رُول کی باتیں ہوئیں اور 1920میں  عدم تعاون کی تحریک شروع ہوئی۔ اس زمانے میں نہ صرف مہاتما گاندھی کی شریک زندگی کستوربہ نے ان کا ساتھ دیا بلکہ سرلا دیوی، موتھو لکشمی، سوشیلا نائر، راجکماری امرت کور،سچیتا کرپلانی اور ارونا آصف علی جیسی خواتین نے ہر قدم پہ گاندھی جی کا ساتھ دیا۔ اور عدم تعاون کی تحریک کو گاؤں گاؤں تک پہنچانے کے لئے خواتین کی منڈلی تیا ر کی۔ 1930میں ڈانڈی مارچ اور نمک ستیاگرہ کے بعد انگریزوں نے زیادہ تر سیاسی رہنماؤں کو قید کر لیا۔ لیکن نہ صرف شہروں میں بلکہ قصبات اور گاؤں میں بھی خواتین نے مورچہ سنبھال لیا۔      

     تحریک آزادی کے تمام اہم مراحل پہ جب ممتاز ہندوستانی رہنماؤں کو جیل میں ڈال دیا گیا تو خواتین نے آگے بڑھ کر مورچہ سنبھالا۔ ایسی خواتین کی فہرست کافی طویل ہے جنھوں نے مادر وطن کی آزادی کے لئے اپنے جان مال کی قربانی دی۔ جنگ آزادی میں ہمارے ملک کی ہزاروں خواتین نے بڑی بہادری اور دلیری سے حصہ لیا۔مقام افسوس ہے کہ جھانسی کی رانی لکشمی بائی، بیگم حضرت محل، سروجنی نائڈو، کستوربہ، وجئے لکشمی پنڈت، ارونا آصف علی اور سچیتا کرپلانی جیسی کچھ خواتین کا نام ہی ہمارے سامنے آتا ہے۔ لیکن ان خواتین کی قربانیاں سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل تھیں۔ تاریخ جنگ آزادی کے ہر صفحے پر خواتین کے کارنامے رقم ہیں۔ کچھ ناموں پہ دھول کی ایک پرت جم گئی ہے۔سطور ذیل میں ہم ان میں سے چند متحرک خواتین کا تذکرہ کریں گے:


1⃣  *’’بی اماں“جنہوں نے تحریکِ آزادی ہند کو اپنا خونِ جگر دیا تھا*


           یہ بات آج سے ٹھیک سو سال پہلے بیسویں صدی کی دوسری و تیسری دہائی کی ہے جب سارے ہندوستان میں ”بی اماں“ کا طوطی بولتا تھا۔ وہ اپنے زمانہ کی سب سے زیادہ مشہور ومحترم اور ہر دلعزیز شخصیت تھیں۔ خلافت تحریک کے دور میں وہ قومی یکجہتی اور قومی بیداری کی علامت بن گئی تھیں۔ گاندھی جی انہیں ماں کا درجہ دیتے تھے اور ان کا بے حد احترام کرتے تھے۔ گاندھی جی بی امّاں پر بہت بھروسہ کرتے تھے۔ ایک مرتبہ جیل جاتے ہوئے انھوں نے بی امّاں کو اپنا قائم مقام بنایا تھا۔ ان کی غیر حاضری میں تمام احکامات بی امّاں سے حاصل کیے جاتے تھے۔ گاندھی جی نے خاص طور سے یہ ہدایت دے رکھی تھی کہ بی امّاں کو کبھی گرفتار نہ ہونے دیا جائے۔


”بی اماں“ ہماری قومی تحریک کا ایک سنہرا باب تھیں۔ علی برادران انھیں ”بی اماں“ کہتے تھے اور جب وہ عوام کے درمیان آئیں تو انہیں براہ راست ’بی اماں‘ کہہ کر مخاطب کیا پھر عوام نے بھی انہیں اسی نام سے پکارنا شروع کیا۔ اس طرح وہ پوری دنیا کے لیے ’بی اماں‘ بن گئیں۔ وہ بہت بلند ہمت، روشن خیال، دوراندیش اور محب وطن خاتون تھیں، جہاں بھی جاتیں ایک جم غفیر ان کے ساتھ ہو جاتا۔ وہ جس جلسہ میں تقریر کرتیں اس میں انسانوں کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگتا۔


20 نومبر 1924 کو گاندھی جی ینگ انڈیا میں لکھتے ہیں۔ بی اماں کی عوامی جلسوں میں ان کی بلند آواز کو کون نہیں جانتا؟ بڑھاپے کے باوجود ان کی آواز میں جوانوں جیسی طاقت تھی۔


رامپور کی رہنے والی بی اماں کے شوہر عبدالعلی تین چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑ کر عین جوانی میں دنیا سے رخصت ہو گئے تھے لیکن بہادر بی اماں نے بڑے صبر و ضبط سے زندگی کی سختیوں کا مقابلہ کیا۔ ایسے ناگہانی حالات میں بھی بی اماں نے بلند حوصلے کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے بیٹوں کو دینی و دنیاوی علوم سے آراستہ کیا اور ساتھ ہی ہندوستان کی آزادی کے لیے نہ صرف اپنے بچوں کو آگے بڑھاتی رہیں بلکہ خود بھی خواتین کے درمیان تحریک آزادی کی مہم میں بڑھ چڑھ کا حصہ لیتی رہیں۔ کئی بار پولیس کے ذریعہ ان پر آنسو گیس اور لاٹھی چارج بھی کیا گیا لیکن اس سے بی اماں کے عزم پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ انہوں نے بچوں کی تعلیم کے لیے اپنی تمام جائیداد فروخت کر دی۔ جب سب سے چھوٹے بیٹے محمد علی اعلیٰ تعلیم کے لیے آکسفورڈ گئے تو بی اماں نے اپنے زیورات بیچ کر روپیہ فراہم کیا۔


بی اماں کا اصل نام عبادی بانو بیگم تھا۔ ان کی تاریخ پیدائش میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بیٹے محمد علی جوہر نے21 نومبر 1924 کے کامریڈ میں لکھا کہ ’بی اماں‘ کی صحیح تاریخ پیدائش معلوم نہیں۔ البتہ مرحومہ کہا کرتی تھیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ غدر کے زمانے میں میری عمر پانچ چھ سال کی تھی۔ اس بنیاد پر ان کا سال پیدائش 1852 اور ان کی عمر میں نے 72 سال لکھی ہے۔


بی امّاں کی سیاسی زندگی کا آغاز اُس وقت ہوا جب علی برادران کو قانون تحفظ ہند کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ مولانا نے اپنے اخبار ’لندن ٹائمز‘ کے ایک اشتعال انگیز مضمون کا جواب دیا تھا۔ انھیں چھندواڑہ میں پہلے نظر بند رکھا گیا پھر بیتول جیل میں قید کیا گیا۔ بی امّاں نے اُس وقت فخر سے کہا تھا، ” یہ عزت (قید) اُن لوگوں کے لیے ہے جن کو خدا اپنے مذہب اور اپنے ملک کی خاطر تکلیفیں برداشت کرنے کی طاقت دیتا ہے“


تحریک خلافت اور تحریک عدم تعاون میں خواتین بھی کسی سے پیچھے نہیں تھیں۔ بلکہ جب محمد علی جوہر اور شوکت علی جیل گئے تو بی اماں نے ان کی جگہ خود لے لی۔ آج سے ٹھیک سو سال قبل ’بی اماں‘ یعنی عبادی بانو بیگم پورے ہندوستان کا دورہ کر رہی تھیں۔ ہر شہر، ہر گاؤں اور ہر محلے تک عدم تعاون اور خلافت کا پرچم لے کر جا رہی تھیں، گلی سے لے کر نکڑ تک انگریز حکومت کے ذریعے لائے گئے کالے قانون ’رولٹ ایکٹ‘ کی مخالفت کر رہی تھیں۔ پورے ملک میں عدم تعاون کی حکمت عملی کی تشہیر کر رہی تھیں۔ پنجاب پر ہوئے ظلم کی داستان سنا رہی تھیں۔ ان کی تقریر سن کر عورتیں تلک فنڈ اور خلافت کمیٹی کے لیے اپنے گہنے و زیورات دیا کرتی تھیں۔ اس طرح کئی لاکھ روپے کا چندہ اس زمانے میں جمع کیا۔ ان کے جذبے سے برطانوی حکومت گھبرا گئی، ان کے جذبے کو توڑنے کے لیے ان کے دونوں بیٹوں کو جیل میں ڈال دیا۔ تو یہ اٹھ کھڑی ہوئیں اور للکار کر کہنے لگیں ”دودھ ہرگز نہ بخشوں گی تم کو، میں دلاور نہ سمجھوں گی تم کو، جان بیٹا خلافت پہ دے دو“۔۔۔

یہی نہیں، انھوں نے اس دوران جیل میں قید اپنے بیٹوں کے نام پیغام بھی بھیجا۔ اس پیغام میں انہوں نے کہا تھا کہ "میرے بیٹو! بہادر بنو اور لڑائی کو ترک مت کرو، معافی بھی مت مانگو۔”

دراصل بی اماں چاہتی تھیں کہ ہندوستان کو آزادی تو ملے ہی، مسلمانوں کو بھی ان کا مناسب حق دیا جائے۔ یہی سبب ہے کہ انھوں نے اپنے بیٹوں کو ملک کی آزادی اور حقوق مسلم کی خاطر اپنی زندگیاں قربان کرنے کی نصیحت دے رکھی تھی۔ وہ اول ہندوستانی خاتون ہیں جن کی صدارت میں آل انڈیا خواتین کانگریس ہندوستان کی آزادی پر بحث کرنے کے لیے طلب کی گئی۔ یہ کانگریس 30 دسمبر 1921 کو احمد آباد، گجرات میں منعقد ہوئی تھی جس میں سروجنی نائیڈو، کستوبار گاندھی، انوسیا بائی، بیگم حسرت موہانی، امجدی بیگم، بیگم مختار احمد انصاری، بیگم سیف الدین کچلو وغیرہ موجود تھیں۔


2⃣ *تحریک آزادی ہند کے لئے”متانگینی ہزارہ“کی یادگار  قربانی*


حب الوطنی کے جذبے اور اپنے وطن سے محبت کے جذبے میں مبتلا تمام افراد منظرعام پر نہیں آتے یا عوام کی توجہ حاصل نہیں کرتے۔ اس کے برعکس ، بہت سے لوگ اپنے پیارے ملک کو بہترین استعمال کرتے ہوئے ایک کم پروفائل برقرار رکھنے کا انتخاب کرتے ہیں۔انہی میں ایک غریب کسان عورت،متانگینی ہزارہ نے اپنے اپنے شائستہ انداز میں جدوجہد آزادی میں حصہ لیا تھا۔ اگرچہ وہ روشنی سے باہر رہی ، پھر بھی اس کی شرکت انمول رہی۔ اس کا نام ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں شامل ہے۔


شائستہ آغاز

19 اکتوبر 1870 کو ، متنگینی میتھی مغربی بنگال کے مدینہ پور ضلع میں تاملک تھانے کے تحت واقع ہوگلا گاؤں میں پیدا ہوئی تھیں۔ اپنے کنبے کی غربت کی وجہ سے ، وہ ابتدائی تعلیم بھی حاصل نہیں کرسکی۔ اس کے نتیجے میں،وہ ساری زندگی غیر منقول رہی۔ اس کی سخت پریشانیوں نے اسے مجبور کیا کہ وہ ایک متمول بیوہ ٹریلوچان ہزارہ کی بچی دلہن بنیں ، جو اپنے 60 سال کی عمر میں ایک بیٹے کے ساتھ تھا۔ اس کی شادی شدہ زندگی نڈر اسکرپٹ اور غیر یقینی تھی۔


ایک اور باب

بیوہ اور بے اولاد ، 18 تک ، وہ اپنے والدین کے گاؤں واپس چلی گئیں ، حالانکہ اس نے اپنے لئے الگ اسٹیبلشمنٹ برقرار رکھنے کا انتخاب کیا تھا۔ اگلے چند سالوں میں ، اس نے اپنے وقت کا زیادہ تر حصہ اپنے آس پاس کے لوگوں کی مدد کرنے میں صرف کیا۔ اس وقت اسے کم ہی معلوم تھا کہ اس کا مستقبل کیسی ہوگی۔


سیاسی آغاز

 1905 میں ، وہ ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں سرگرمی سے دلچسپی لینے لگی اور اس کا الہامی ذریعہ مہاتما گاندھی بن گیا تھا۔ میدنا پور میں آزادی جدوجہد کی ایک قابل ذکر خصوصیت خواتین کی شرکت تھی اور ان میں متانگینی بھی ایک تھی۔تاہم  اس کی زندگی کا اہم موڑ چند سال بعد آیا۔ 26 جنوری 1932 کو (تحریک آزادی کے دوران یوم آزادی کے نام سے منسوب) علاقے کے مرد حضرات نے ایک جلوس میں مارچ کیا تاکہ ملک میں موجودہ سیاسی صورتحال کے بارے میں شعور اجاگر کیا جاسکے۔ جب اس کی جھونپڑی کے قریب سے گزر رہا تھا ، وہ باہر آکر ان میں شامل ہوگئی۔ 62 سال کی میتگینی نے انگریزوں کے چنگل سے ہندوستان کی آزادی کے لئے لڑنے کا عزم کیا۔ اور اس کام کے لئے انھیں پیچھے مڑ کر دیکھنا گوارا نہ ہوا۔


سول نافرمانی کی تحریک

کچھ مہینوں کے بعد اس نے مہاتما گاندھی کی سول نافرمانی کی تحریک ، خاص طور پر نمک ستیہ گرہ میں بھرپور حصہ لیا۔ اس نے اپنے مرحوم شوہر کے گاؤں ایلنان میں نمک کی تیاری میں حصہ لیا۔ جس کے بعد ، انہیں برطانوی نمک قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔حکام نے اس کمزور عورت کو لمبے فاصلے پر چلنے پر مجبور کرکے سزا دی۔ بعد میں انہوں نے چوکیدری ٹیکس کے خاتمے کے لئے تحریک میں حصہ لیا۔ عدالت کی عمارت کی طرف مارچ کے دوران ، تمام مشتعل افراد کو سزا دینے کے گورنر کے سخت فیصلے کے خلاف احتجاج کرنے کے لئے ، متنگینی کو دوبارہ گرفتار کرلیا گیا اور اسے بہارم پور جیل میں چھ ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔رہائی کے بعد ، وہ انڈین نیشنل کانگریس کی لوکل یونٹ کی ایک سرگرم رکن بن گئیں۔ اس نے نظر کی ناکامی اور بڑھاپے کی عمر کے باوجود اپنے ہی چرخے پر کھادی (موٹے موٹے سوتی کپڑے) گھمانے کا سہارا لیا۔ چیچک کی وبا پھیلنے کے بعد ، اس نے بیمار مردوں اور عورتوں کو انتھک پالا۔

1933 میں ، انہوں نے سیرام پور (مغربی بنگال) میں سب ڈویژنل کانگریس کانفرنس میں شرکت کی اور جب پولیس نے مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا تو وہ زخمی ہوگئی۔ بعدازاں 1933 میں جب بنگال کے گورنر سر جان اینڈرسن عوامی اجتماع سے خطاب کے لئے تاملک تشریف لائے تو ماتانگینی بڑی تدبیر سے سلامتی سے بچنے اور اس منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئیں جہاں انہوں نے سیاہ پرچم لہرایا تھا۔ اسے اپنی بہادری کے الزام میں چھ ماہ کی سخت قید کی سزا سنائی گئی۔


سپریم قربانی

پھر اس کی زندگی کا ایک اہم مرحلہ آیا۔ یہ 1942 کی بات ہے۔ اسی سال اگست میں ، ہندوستان چھوڑو موومنٹ کے بینر کے تحت ، کانگریس کے مقامی کارکنوں نے ضلع مدینہ پور میں واقع مختلف پولیس اسٹیشنوں اور سرکاری دفاتر کا محاصرہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ 73 سالہ ماتانگینی  نے اولین فرصت میں پہل کی۔29 ستمبر کو انہوں نے تاملک پولیس اسٹیشن پر قبضہ کرنے کے لئے چھ ہزار حامیوں ، جن میں زیادہ تر خواتین تھیں ، کی رہنمائی کی۔ جب جلوس قصبے کے مضافات میں پہنچا تو ولی عہد پولیس نے انہیں تعزیرات ہند کی دفعہ 144 کا حوالہ دیتے ہوئے انہیں منقطع کرنے کا حکم دیا۔ جب پولیس کی جانب سے ہجوم پر گولی نہ چلنے کی اپیل کرتے ہوئے متانگنی آگے بڑھی تو وہ گولی کا نشانہ بن گئی۔حیرت سے وہ ترنگا اونچی پکڑ کر آگے بڑھی اور اپنے ساتھیوں سے بھی درخواست کی کہ وہ اس کی پیروی کرے۔ گولیوں سے چھلنی ہونے کے باوجود وہ آگے بڑھ گئی ، مسلسل وندے ماترم کا نعرہ لگاتے رہے۔ بعد میں انہیں اس کا لنگڑا ، بے جان جسم ملا ، جو خون کے تالاب میں پڑا تھا لیکن ابھی تک ترنگا اونچا رکھا ہوا تھا۔ یہاں تک کہ موت کے وقت ، بہادر دل نے یہ یقینی بنادیا تھا کہ جھنڈا - آزادی کی روح کی علامت ہے - غیر منقول رہا!


تاریخ متانگینی کو یاد رکھے گی

 میدانِ کولکتہ کے قلب میں بہادر روح کا ایک مجسمہ کھڑا ہے۔ اسی طرح کی ایک مجسمہ اس کے آبائی علاقے تملوک میں اس جگہ کی نشان دہی کرتی ہے ، جہاں اس نے آخری سانس لی۔ 2002 میں ، ہندوستان چھوڑو موومنٹ کے ساٹھ سال کی یادگاری کے ایک حصے کے طور پر ، ڈاک ٹکٹوں کا ایک سلسلہ محکمہ ڈاک کے ذریعہ جاری کیا گیا تھا۔ ان میں ایک پانچ روپیہ ڈاک ٹکٹ تھا جس میں میتگینی ہزارہ کی فیملیس تھی۔ آخری لیکن کم از کم نہیں ، جنوبی کولکتہ کی ایک بڑی سڑک ہزارہ روڈ کا نام بہادر آزادی پسند جنگجو کی یاد میں رکھا گیا ہے۔



3⃣ *تحریکِ آزادی ہند کے لئے”لکشمی سہگل“ کی بے مثالی قربانی*


لکشمی سہگل یا کپتان لکشمی آزاد ہند فوج کی سرگرم کارکن اور مجاہد آزادی تھیں۔ وہ آزاد ہند سرکار میں وزیرِ امورِ خواتین بھی تھیں۔

ڈاکٹر لکشمی سہگل کی پیدائش 1914ء کو مدراس میں ہوئی۔ اُن کا والد ڈاکٹر سوامی ناتھن مدراس عدالتِ عالیہ کا مشہور وکیل تھا۔ اور اُن کی والدہ اَمّو کُوٹی (امّو سوامی ناتھن) کیرالا کے پالگھاٹ کی واطن تھی۔

انھوں نے کم عمری ہی میں ولایتی مصنوعات کا مقاطعہ اور شراب کے تجارتی مراکز کا محاصرہ وغیرہ میں حصّہ لیا۔ غریبوں خصوصاً خواتین کی خدمات کے لیے علمِ طب کی تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ کیا۔ اُنھوں نے 1938ء میں مدراس میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کی ڈگری تفویض کی۔ بعد میں علمِ معالجۂ خواتین اور طب تولید کی تعلیم حاصل کی۔ 1941ء میں سنگاپور گئیں۔ وہاں غریبوں کے لیے کلینک کا آغاز کیا۔ وہاں غریب بھارتی مزدوروں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ 1942ء میں جاپان نے برطانیہ کو مغلوب کیا تو اُنھوں نے جنگ کے زخمیوں کا علاج کیا۔

1943ء میں سبھاش چندر بوس کی سنگاپور آمد سے وہ آزاد ہند فوج کی کارکن ہوئی۔ سبھاش چندر بوس نے سنگاپور میں جہادِ آزادیٔ ہند کے لیے ایک خواتین دستہ کی تشکیل کا ارادہ کیا۔ لکشمی سہگل نے کلینک کو چھوڑ کر زنانہ دستی کی تشکیل میں سرگرم رہی۔ اس کے بعد سے وہ کپتان لکشمی کے نام سے مشہور ہوئی۔ بیک وقت وہ میدانِ کارزار اور زخمیوں کے علاج میں سرگرم رہی۔ 4 مارچ 1947ء میں برطانوی افواج نے ان کو گرفتار کر کے بھارت لایا گیا۔ برطانوی افواج نے انھیں بری کر دیا۔ اس کے بعد وہ آزاد ہند فوج کے مقید کارکنوں کی رہائی کے لیے کوشاں رہی۔ انھوں نے بھارت گیر دورہ کر کے آزاد ہند فوج کے لیے کام کیا۔

انھوں نے مارچ 1947ء میں آزاد ہند فوج کے سرگرم کارکن کرنل پریم کمار سہگل سے شادی کی۔ اس کے بعد اُنھوں نے کانپور میں سکونت اختیار کی۔ اُن کی بیٹی سبھاشنی علی اشمالی سیاست دان ہے۔ فلم صنعتکار شاد علی اُن کا نواسہ ہے۔ مشور رقاصہ مرنالنی سارابھائی اُن کی بہن ہے۔

19 جولائی 2012ء میں عارضۂ قلب کے سبب اسپتال میں داخل کیا گیا۔ 23 جولائی 2012ء میں کانپور کے اسپتال میں بوقتِ صبح 11:20 کو لکشمی سہگل کا انتقال ہوا۔

4⃣ *تحریکِ آزادی ہند میں ”بھیکاجی کاما“کا امتیازی رول*


بھیکاجی کاما (انگریزی: Bhikaiji Cama) کی پیدائش بمبئی میں ہوئی تھی، جسے اب ممبئی کہا جاتا ہے۔ ان کا تعلق ایک متمول پارسی گھرانے سے تھا۔ ان کے والد سراب فرام جی پٹیل اور والدہ جیج بائی پٹیل شہرت یافتہ وکلاء اور تجارت پیشہ شخصیات تھے۔ یہ لوگ پارسی طبقے میں بھی بااثر تھے۔ بھیکاجی کاما کا طرۂ امتیاز یہ ہے کہ 1907ء میں جرمنی میں اس وقت کے عارضی طور پر آزاد ہندوستان کے پرچم کو بلند کیا تھا۔ اس طرح بیرونی زمین میں ملک کا جھنڈا لہرانے والی وہ ملک کی اولین شخصیت تھیں۔ اس نقشے میں ہرے، پیلے اور لال رنگ تھے۔ ہرے رنگ میں آٹھ کنول کے پھول تھے۔ پیلے رنگ کے ساتھ سنسکرت میں لفظ وندے ماترم تھا۔ جب کہ لال رنگ میں ہلال اور چمکتا سورچ شامل تھا۔ اس طرح کا ترنگا یہ اس وقت آزاد ہند کی علامت اور مجوزہ جھنڈا تھا، جو جدید آزاد بھارت کے چھنڈے سے کافی مختلف ہے۔

بھیکاجی کاما کے طویل عرصے تک پارسی انڈیا سوسائٹی کے ارکان کی طرح ملک سے باہر رہیں۔ وہ 1914ء سے یورپ میں رہیں۔ جرمنی میں 1907ء میں انہوں نے پہلی بار اس وقت کا آزاد ہندوستان کا سمجھنے جانے پرچم بلند کیا۔ وہ مسلسل ملک کی آزادی کی سرگرمیوں سے جڑی رہیں۔ 1935ء میں فالج سے متاثر ہوئیں اور برطانوی حکومت سے خصوصی اجازت سے ملک لوٹیں، جہاں ممبئی میں وہ وفات پا گئیں۔ انہوں نے اپنا پیش تر اثاثہ خیرات کر دیا یا یتیم خانے کو دیا۔


5⃣ *”کاناکلاتا باروا“:تحریک آزادی کی ایک ننھی شہید*


کاناکلاتا باروا (22 دسمبر 1924 - 20 ستمبر 1942)  جسے بِربالا اور شہید بھی کہا جاتا ہے۔ ایک ہندوستانی آزادی کارکن اور اے آئی ایس ایف رہنما تھی  جسے برطانوی پولیس نے گولی مار کر ہلاک کیا تھا،جب وہ قومی جلوس کی قیادت کررہی تھی، 1942 کی ہندوستان چھوڑو موومنٹ کے دوران پرچم لہراتے وقت۔

باروا آسام کے غیر منقسم ڈارنگ ضلع کے بورنگابری گاؤں میں کرشنا کانت اور کارنیشوری بڑوا کی بیٹی کے طور پر پیدا ہوئی تھی۔ اس کے دادا گھانا کانتا بروا درنگ میں مشہور شکاری تھے۔ اس کے آباؤ اجداد پہلے ڈولکاشاریہ باروا تھے لیکن بعد میں انہوں نے بارولا کا لقب برقرار رکھتے ہوئے ڈولکھاریہ ٹائٹل ترک کردیا۔ اس کی والدہ کا انتقال اس وقت ہوا جب وہ صرف پانچ سال کی تھیں اور اس کے والد،جنہوں نے دوبارہ شادی کی تھی،تیرہ سال کی عمر میں فوت ہوگئے۔ وہ تیسویں کلاس تک اسکول گئی لیکن اس کے بعد اس نے اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی دیکھ بھال کرنے کے لئے پڑھائی کو خیرباد کہہ دیا۔

بھارت چھوڑو مومنٹ کے دوران ، باروا آسام کے گوہ پور سب ڈویژن سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے گروپوں پر مشتمل ڈیتھ اسکواڈ،مرتیو باہنی میں شامل ہوئی۔ 20 ستمبر 1942 کو بہینی نے فیصلہ کیا کہ وہ مقامی پولیس اسٹیشن پر قومی پرچم لہرائیں گے۔ ایسا کرنے کے لئے باروا کے ذریعہ غیر مسلح دیہاتیوں کے ایک جلوس کی قیادت کی گئی۔ پولیس تھانہ انچارج ریبتی مہان سوم کے ماتحت پولیس نے جلوس کو انتباہ کیا کہ اگر وہ اپنے منصوبے پر عمل پیرا ہوتے ہیں تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ جب پولیس نے جلوس پر فائرنگ کی تو پولیس سے بے خبر جلوس آگے بڑھتا رہا۔ باروہ کو گولی مار دی گئی اور وہ جھنڈا جس کے ساتھ وہ لے کر گئی تھی اس کو مکونڈا کاکوٹی نے اٹھایا، جسے بھی گولی مار دی گئی۔ باروا اور کاکوٹی دونوں پولیس کی کارروائی میں مارے گئے۔ شہادت کا جام پیتے وقت باروا کی عمر خالی 17 سال کی تھی۔اس نے اپنی موت کے ذريعے سے قوم کو حیات بخشی اور یہ کام سچ مچ میں شہداء ہی کر کے دکھاتے ہیں۔اس نے اپنے گرم گرم لہو سے آزادی کا دیپ روشن کردیا اور اپنا نام ان جانباز سرفروشوں میں شامل کیا کہ جنہوں نے اپنی عظیم جانفشانیوں سے قوموں کی کایا پلٹ ڈالی تھی۔ اس کی موت سے پہلے اس کی بے باک تقریر،بہت سے لوگوں کے لیے تحریک کا ذریعہ بنی ہوئی ہے۔ 

1997 میں شروع ہونے والے ہندوستانی کوسٹ گارڈ کی فاسٹ پٹرول ویسل آئی سی جی ایس کانک لتا بڑوا کا نام بروا کے نام پر ہی رکھا گیا ہے۔2011 میں گوری پور میں اس کی زندگی کے سائز کے مجسمے کی نقاب کشائی کی گئی۔

      کچھ ہماری بے حسی اور کچھ وقت کی ستم ظریفی ہے کہ ان خو اتین کے ناموں کو بھلا دیا گیا جنھوں نے اپنی پوری زندگی مادر وطن کی خدمت میں لگا دی تھی۔ انہیں بہت سی تکلیفوں اور آزمائشوں دوچار ہونا پڑا۔ان میں بہت سوں نے شہادت کا جام نوش فرما کر ہند کی آزادی کا دیپ روشن کردیا اور غلامی کی زنجیروں کو کاٹ ڈال کر پورے ملک کو آزاد کر دیا۔انہوں نے ہندو مسلم سکھ عیسائی کے اتحاد کا ساتھ وطن کی محبت میں دیا۔غلامی سے نفرت اور جانوں کے پرواہ کے بغیر جہدِ مسلسل کا علم ہاتھ میں لے کر اپنے سے کئی گنا بڑے طاقتور سے نبردآزما ہوکر بالاٰخر انہیں گھٹنے ٹیک دینے پر مجبور کر دیا۔انھوں نے رہتی دنیا تک لوگوں کے لئے انمٹ نقوش چھوڑے۔ان کی یاد میں ”یومِ آزادی“پر ہر کوئی خون کے آنسو روتا ہے اور انہیں دعائیں دیتا ہے۔لہٰذا مادر وطن پہ اپنی زندگی نثار کرنے والی خواتین کو یاد کرنا ہمارا فرض ہے۔ضرورت اس بات کہ ہے کہ ہم ان تمام خواتین کی قربانیوں کو یاد کریں اور نئی نسل کو ان کی بے مثال قربانیوں سے آگاہ کراتے رہیں۔ہندوستان وہ خوش قسمت ماں ہے جس کے ہزاروں فرزند مادر وطن پر مر مٹے لیکن

*وہ لوگ جنہوں نے خوں دے کر اس دیش کو زینت بخشی ہے*

*دو چار سے دنیا واقف ہے گمنام نہ جانے کتنے ہیں*



                               کتابیات

[انگریزی]


1-Indians Struggle for Independence by Bipan Chandra

2-India Wins Freedom by Abul Kalam Azad

3-Freedom at Midnight by Dominique Lapierre and Larry Collins

4-Midnights Children by Salman Rushdie

5-ANANDAMATH by Bankim Chandra Chatterjee

6-Godan by Premchand

7-India After Gandhi by Ramachandra Guha

8-Freedom movement in Midnapore by Sachindra Kumar Maity

[اردو]

١۔تاریخ تحریک آزادی ہند از تارا چند

٢۔تذکرہ ماہ و سال از مالک رام 

٣۔آزادی ہند از مولانا ابو الکلام آزاد 

٤۔ہندوستان کی تحریک آزادی اور اردو شاعری از گوپی چند نارنگ

٥۔تاریخ ہندوستان از مولوی محمد ذکاء اللہ دہلوی

٦۔اقبال اور تحریک آزادی ہند از سید یعقوب شمیم 

٧۔ارمغان حجاز،زبور عجم از علامہ اقبالؒ

Comments