“O my falcon! Don't be scared of the opposing wind.”



ایک وقت تھا جب کہ میں شاہینوں کے جھنڈ میں تھا اور بامقصد و پُرسکون زندگی گزار رہا تھا،حالات کے نشیب و فراز کو برداشت کرتے ہوئے ایک سایے کی طرح میں ان کے ساتھ ساتھ تھا،دن رات ہمیں ایک ہی فکر لاحق تھی کہ کس طرح ہم اپنے محبوبِ برحق کو راضی کر جائیں،ہمارا جھپٹنا،پلٹنا،پلٹ کر جھپٹنا بس لہو گرم رکھنے کا اک بہانا تھا۔آشیانہ بنانا ہمارے مقصد سے کوسوں دور تھا اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے اس خاکدان سے کنارہ کر لیا تھا جہاں رزق صرف آب و دانہ کا نام ہے۔ہمارا یہ عزمِ مصمم تھا کہ غلامی کی زنجیروں میں پھنسی ہوئی بیچاری قوم کو ہم ایک ایسی زندہ قوم میں تبدیل کر دیں گے،جس کے لیے زندگی کی سختیاں سامانِ سفر کی حیثیت رکھتی ہوں،جو کم سے کم کھانے پینے کو اپنے لیے کافی سمجھتی ہو۔ان کو حقیقی لذت مہمات کے سر انجام دینے میں ملتی ہو،وہ اللہ کی رضا کے لیے بڑے سے بڑے خطرے سے کھیلنا بھی اپنے لیے محبوب مشغلہ سمجھتی ہو۔وہ جانتی ہو کہ مجھے اللہ نے کھانے پینے کے لیے نہیں بلکہ اپنی بندگی اور اس زمین کو اس کی نافرمانی سے پاک کرنے کے لیے اٹھایا ہے،اس لیے مجھے اس حقیقی مقصد کو لے کر آگے بڑھنا ہے۔لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ غیروں کی سرکشی اور اپنوں کی مداہنت نے پورے قافلے کو غیر مٶثر کر دیا۔آج بھی دل اس صدمے سے خون خون ہو رہا ہے لیکن جس قافلہ حق نے اپنی منزل،اپنا مقصد،اپنا مطلوب اللہ سبحان و تعالیٰ کو قرار دیا ہو وہ پست ہمت نہیں ہوا کرتا بلکہ مستقل مزاجی کے ساتھ،لگن اور یکسوئی کے ساتھ حق پر قائم و دائم رہتا ہے۔

 ہمارے سامنے وسیع اہداف اور وسیع منزلیں تھیں۔ہمیں ایک سپاہی کی طرح اپنی ہمت کے گھوڑے پر بھروسہ تھا۔ہماری امیدیں قلیل اور ہمارے مقاصد جلیل تھے۔ہم ہر وقت مقاصد کی فکر کے لیے فکر مند اور مقاصد کے حصول کے لیے سرگرم رہا کرتے تھے۔ہمیں منجملہ اس بات پر یقینِ محکم تھا کہ دنیا پر فریفتہ ہوئے لوگ درویش صفت انسانوں کو نہ کبھی سمجھ پائیں گے اور نہ ہی ربانی کام میں انہیں سپورٹ کریں گے۔کام کرنے میں ایسا جذبہ اور خلوص تھا کہ ہر روز یہ محسوس ہوتا تھا کہ ہم اپنی منزلِ مقصود کی سرحدوں کو چُھو رہیں ہیں۔اسلام کی بالادستی کی خاطر جدوجہد میں جو مزہ تھا اور روح جس کیفیت سے سرشار تھی،اسے بیان کرنے سے ہمارے زبان عاجز ہے۔اللہ تعالیٰ کی عنایت کی ہوئی ہر ایک نعمت میں ایسی برکت تھی کہ عقل ورطۂ حیرت میں چلی جاتی تھی۔آج ہم ان چیزوں کے دلی خواہشمند ہیں اور روح میں ان کی پیاس دن بدن مزید بڑھتی چلی جاتی ہے لیکن پورا قافلہ مایوسی کے گُھپ اندھیروں میں پڑا ہوا ہے۔ایک دوسرے کا ہاتھ تھامتے ہوئے ہم سب حالات سازگار ہونے کے منتظر ہیں تاکہ ہم ایک مقصد کی خاطر زندہ رہیں اور مزید خدمت سر انجام دے کر رب العٰلمین کی خوشنودی کے مستحق بن سکیں۔مایوسی کے گھٹاٹوپ اندھیرے میں رہنے کے بجائے شاہینوں سے میری یہی التماس ہے کہ اپنی صلاحیتوں کو صحیح سمت دیں تاکہ تائیدِ خداوندی اور آپ کی مسلسل کاوشوں سے جمود کا شکار ہوا یہ قافلہ چند قدم اور آگے جائے۔نبض شناس بن کر حالات کا جائزہ لیں اور جو کام آپ کے ذریعے سے ہو سکتا ہے،اس میں دیر مت کیجئے وگرنہ مستقبل میں گھٹنے ٹیک دینے پڑیں گے۔دریا کی طرح خود اپنا راستہ بنائیے،منزل پر نظر رکھ کر تھکنے کا نام لیے بغیر تازہ دم رہیے۔اسلام کے غلبے کا عزم کرنے والے شاہینو اپنے آپ کو اتنا بلند کر لو کہ تمہاری نظریں صرف تمہارے مقصد و مشن پر ہوں نہ کہ ہر چھوٹی بڑی رکاوٹ سے الجھ کر اپنی صلاحیتیں اور وقت برباد کرتے رہ جاؤ اور ان فتوؤں،تنقیدی باتوں اور ان بلاوجہ کے اعتراضات سے گھبرایا نہ کرو۔آپ نے پہاڑ سے اترتے ہوئے پانی کو دیکھا ہوگا کہ جب وہ پہاڑ سے نالوں کے ذریعے نیچے اتر رہا ہوتا ہے تو اس کے رستے میں بڑے بڑے پتھر اور بڑی بڑی دو ہیکل چٹانیں آجاتی ہیں اس کا رستہ روکنے کے لئے کھڑی ہوتی ہیں مگر وہ پانی ان سے نہیں الجھتا کیونکہ اس کی منزل اس چٹان اور پتھر کو پاش پاش کرنا نہیں ہوتا بلکہ اس کی منزل تو ہزاروں کلومیٹر دور ہوتی ہے لہٰذا پانی ان چٹانوں اور پتھروں سے پہلو بچاتے ہوئے دائیں اور بائیں سے ہو کر پھر سے آگے کی جانب سفر شروع کر دیتا ہے۔کچھ ہی وقت کے بعد وہی چٹان،وہی بھاری پتھر اپنی جگہ سے کھسک کر کہیں اور جا گرتا ہے یا ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے۔اس قافلے کی زندگی بھی اسی پانی کی طرح ہونی چاہیے کہ جب کوئی بھی لایعنی اور بلامقصد چیز اس کا راستہ روکے،اس سے الجھنے کی کوشش کرے تو وہ دائیں یا بائیں سے ہوکر گزر جائے کیونکہ اس کا مقصدِ وحید دنیا بھر میں اسلام کا غلبہ ہے۔اس قافلے کو چاہیے کہ دنیا کی رنگینیوں میں کھو کر نہ بیٹھے بلکہ عروج و ارتقاء کے مراحل سے گزر کر مزید اُونچی اڑان کی ہمت کرے۔اسی چیز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علامہ اقبالؒ یوں گویا ہیں؎

*پرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مسلماں کی*
*ستارے جس کی گردِ راہ ہوں،وہ کارواں تو ہے*

اس بات پر ہمیں شرحِ صدر ہونا چاہیے کہ نہ راستہ طویل ہے اور نہ ہی منزل ناممکن بس منزل کے حصول کی تڑپ اور چلتے رہنے کا بلند حوصلہ رکھنا ہے۔یہ بات ذہن میں مستحضر رکھیں کہ دنیا کا مستقبل اسلام ہے لہٰذا اللہ کے ہاں کیوں نہ آپ کا نام”انصار اللہ“کے گروہ میں شمار ہو۔وقت کا تقاضا ہے کہ ان ہی حالات میں حکمت سے کام لے کر کچھ کر کے دکھائیں۔دورِ نو میں اینٹوں اور پتھروں کی عمارتیں تعمیر کرنے کے بجائے انسانوں کی تعمیر کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ایمان کے ساتھ آزمائش ہمیشہ لگی رہتی ہے اور استقامت آزمائش کے وقت زیادہ مطلوب ہوتی ہے۔تاریخ کے اوراق الٹتے ہی یہ بات صاف عیاں ہو جاتی ہے کہ اہلِ ایمان کی آزمائش دوسروں کے بالمقابل زیادہ ہوتی ہے۔جس قافلہ حق نے میدان میں آکر اسلام کا بیڑا اٹھانے کی ٹھان لی ہو اس پر آزمائشوں کا طوفان آنا سنت اللہ ہے،لیکن جن کارکنوں کے ارادے پختے ہوں اور جن کی نظر خدا پر ہو وہ تلاطم خیز موجوں سے کبھی گھبرایا نہیں کرتے۔سچے اور پکے مومن ناموافق اور نامساعد حالات میں ایمان سے دستبردار نہیں ہوتے بلکہ اس کو مضبوطی سے تھام لیتے ہیں۔بدقسمتی سے ہمارا حال یہ ہے کہ جب دین کی راہ میں ہمیں مشکلات آتی ہیں تو ہم بلبلا اٹھتے ہیں،ہمت اور حوصلہ سے ایمان پر ثابت قدم رہنے کے بجائے کمزوری دکھانے لگتے ہیں،یہ چیزیں عزیمت کی راہ سے متصادم نظر آتے ہیں۔موجودہ حالات میں استقامت کا مظاہرہ کرنا وقت کا ایک اہم ترین تقاضا ہے کیونکہ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جب اہلِ ایمان نے استقامت اور عزیمت کا مظاہرہ کیا پھر چشمِ زدن میں ہی اللہ تعالیٰ کی مدد آگئی۔اگر ایمان قوی ہو،نیت پاک ہو اور منزل کا شعور ہو تو پھر اللہ کی طرف سے غیبی امداد کا آنا یقینی ہو جاتا ہے۔ہم ایک چیدہ گروہ سے ہیں لہٰذا ہمارے دل و دماغ کی تختیوں پر سید صادق حسین کاظمی صاحبؒ کے ان اشعار کے الفاظ کندہ ہونے چاہییں؎

*تو سمجھتا ہے حوادث ہیں ستانے کے لیے*

*یہ ہوا کرتے ہیں ظاہر آزمانے کے لیے*

*تُندِئ بادِ مُخالِف سے نہ گھبرا اے عقاب*

*یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے*

*کامیابی کی ہُوا کرتی ہے ناکامی دلیل*

*رنج آتے ہیں تجھے راحت دلانے کے لیے*

*نیم جاں ہے کس لیے حالِ خلافت دیکھ کر*

*ڈھونڈ لے کوئی دوا اس کے بچانے کے لیے*

*چین سے رہنے نہ دے ان کو نہ خود آرام کر*

*مستعد ہیں جو خلافت کو مٹانے کے لیے*

*استقامت سے اٹھا وہ نالۂ آہ و فغاں*

*جو کہ کافی ہو درِ لندن ہلانے کے لیے*

*آتشِ نمرود گر بھٹکی ہے کچھ پروا نہیں*

*وقت ہے شانِ براہیمی دکھانے کے لیے*

*مانگنا کیسا؟کہ تو خود مالک و مختار ہے*

*ہاتھہ پھیلاتا ہے کیوں اپنے خزانے کے لیے*

*دست و پا رکھتے ہیں تو بیکار کیوں بیٹھے رہیں*

*ہم اٹھیں گے اپنی قسمت خود بنانے کے لیے*

Comments