Pious People In The Light Of Quran


ایک مسلمان کی پوری زندگی کا دارومدار تقویٰ پر ہے۔تقویٰ کے بغیر اسلامی نظامِ زندگی کے متعلق سوچا بھی نہیں جاسکتا۔تقویٰ کا مرکز دل ہے اور دل کی دنیا جب تقویٰ کے نور سے منور ہوتی ہے تو پوری زندگی پر اس کے خاص اثرات مرتب ہونے لگتے ہیں۔دل ہی میں تقویٰ کی تخم ریزی ہوتی ہے اور پھر ظاہر میں وہ برگ و بار لاتا ہے۔تقویٰ ہی کی بدولت انسان کی شخصیت میں ایک قسم کا نکھار آتا ہے اور اس کے اندر نئی شخصیت اُبھرتی ہے۔تقویٰ کو اگر ایک بیج سے تشبیہ دی جائے تو بے جا نہ ہوگا،جس کے وجود کے اندر انسانی زندگی کا پورا شجر بالقوة موجود ہے۔اس درخت کی جڑیں زمین کو تھامتی ہیں اور ٹہنیاں آسمان کی بلندیوں کو چُھوتی ہیں۔یہ پھل دار درخت ہے جسے انسانی معاشرہ میں دور سے ہی پہچانا جاتا ہے۔اس بلند و بالا درخت کے پھل کو ہم قرآنِ پاک میں”متقیوں کی صفات“کی صورت میں جگہ جگہ پاتے ہیں،جن کے بغیر تقویٰ کا تصور مشکل ہی سے کیا جا سکتا ہے۔یہی وہ صفات ہیں جو ایک مومن اور کافر کو باہم ایک دوسرے سے ممیز کر دیتے ہیں اور انہی خصوصیات کی بنا پر ایک صالح معاشرے کو تشکیل دیا جا سکتا ہے۔قرآنِ کریم کی مختلف آیتوں میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے متقیوں کی انہی صفات کو ذکر فرمایا ہے،ہم اپنی جستجو کے مطابق کچھ آیتیں یہاں ذکر کرتے ہیں:

*1۔سورہ بقرہ میں متقیوں کے حسبِ ذیل اوصاف مذکور ہیں:*

الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَ يُـقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ۞وَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ ۚ وَبِالْاٰخِرَةِ ھُمْ يُوْقِنُوْنَ۞(البقرہ:4-3)

*”جو غیب پر ایمان لاتے ہیں،نماز قائم کرتے ہیں،جو رزق ہم نے اُن کو دیا ہے،اُس میں سے خرچ کرتے ہیں۔جو کتاب تم پر نازل کی گئی ہے(یعنی قرآن) اور جو کتابیں تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں ان سب پر ایمان لاتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔“*

اَمُوْر غَیْبۃ سے مراد وہ چیزیں ہیں جنکا ادراک عقل و حواس سے ممکن نہیں۔جیسے ذات باری تعالیٰ،وحی،جنت دوزخ،ملائکہ،عذاب قبر اور حشر وغیرہ۔اس سے معلوم ہوا کہ اللہ اور رسولﷺ کی بتلائی ہوئی ماورائے عقل و احساس باتوں پر یقین رکھناجزو ایمان ہے اور ان کا انکار کفر و ضلالت ہے۔اقامت صلٰوۃ سے مراد پابندی سے اور سنت نبوی کے مطابق نماز کا اہتمام کرنا،ورنہ نماز تو منافقین بھی پڑھتے تھے۔

 اِنْفَاقْ کا لفظ عام ہے جو صدقات واجبہ اور نافلہ دونوں کو شامل ہے۔اہل ایمان حسب اطاعت دونوں میں کوتاہی نہیں کرتے بلکہ ماں باپ اور اہل و عیال پر صحیح طریقے سے خرچ کرنا بھی اس میں داخل ہے اور باعث اجر وثواب ہے۔

  پچھلی کتابوں پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ کتابیں انبیاءؑ پر نازل ہوئیں وہ سب سچی ہیں وہ اب اپنی اصل شکل میں دنیا میں نہیں پائی جاتیں نیز ان پر عمل بھی نہیں کیا جاسکتا۔اب عمل صرف قرآن اور اس کی تشریح نبوی۔حدیث۔پر ہی کیا جائے گا۔اس سے بھی معلوم ہوا کہ وحی و رسالت کا سلسلہ آنحضرتﷺ پر ختم کردیا گیا ہے،ورنہ اس پر بھی ایمان کا ذکر اللہ تعالیٰ ضرور فرماتا۔(احسن البیان)

*2۔سورہ بقرہ میں ہی متقیوں کے حسبِ ذیل اوصاف مذکور ہیں:*

لَيۡسَ الۡبِرَّ اَنۡ تُوَلُّوۡا وُجُوۡهَكُمۡ قِبَلَ الۡمَشۡرِقِ وَ الۡمَغۡرِبِ وَلٰـكِنَّ الۡبِرَّ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَالۡمَلٰٓئِکَةِ وَالۡكِتٰبِ وَالنَّبِيّٖنَ‌ۚ وَاٰتَى الۡمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِى الۡقُرۡبٰى وَالۡيَتٰمٰى وَالۡمَسٰكِيۡنَ وَابۡنَ السَّبِيۡلِۙ وَالسَّآئِلِيۡنَ وَفِى الرِّقَابِ‌ۚ وَاَقَامَ الصَّلٰوةَ وَاٰتَى الزَّکٰوةَ وَالۡمُوۡفُوۡنَ بِعَهۡدِهِمۡ اِذَا عٰهَدُوۡا وَالصّٰبِرِيۡنَ فِى الۡبَاۡسَآءِ وَالضَّرَّآءِ وَحِيۡنَ الۡبَاۡسِؕ اُولٰٓئِكَ الَّذِيۡنَ صَدَقُوۡا ؕوَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡمُتَّقُوۡنَ۞(البقرہ:177)

*”نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کر لیے یا مغرب کی طرف،بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یومِ آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر،مسکینوں اور مسا فروں پر،مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے،نماز قائم کرے اور زکوٰة دے۔اور نیک وہ لوگ ہیں کہ جب عہد کریں تو اسے وفا کریں،اور تنگدستی و مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں۔یہ ہیں راستباز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں۔“*

 سو متقی و پرہیزگار وہ لوگ ہوتے ہیں جو یہ اور یہ عظیم الشان صفات اپنے اندر رکھتے ہیں۔پس محض ظواہر اور شکلیات پر الجھنے اور جھگڑنے کی بجائے،تم لوگ یہ پاکیزہ و صاف اور عمدہ خصال اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرو،تاکہ تم لوگ سچوں اور پرہیزگاروں میں شامل ہو سکو۔اور اس طرح تم دارین کی سعادت و سرخروئی سے بہرہ ور ہو سکو۔سو تقوی و پرہیزگاری کوئی دکھلاوے اور ظاہرداری کی چیز نہیں،بلکہ یہ ایمان و یقین کے نور اور باطن کی اس کیفیت کا نام ہے جس سے مومن صادق کا باطن منور و معمور ہوتا ہے۔اور جس کے آثار وثمرات اس کے ظاہر پر اس طرح نمودار ہوتے ہیں کہ وہ ایک امتیازی شان کا اور پاکیزہ انسان بن جاتا ہے۔اللہ نصیب فرمائے۔آمین۔ اور یہاں پر حصر کے ساتھ فرمایا گیا کہ یہی ہیں متقین اور پرہیزگار لوگ۔سو اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ جو ان صفات سے عاری اور محروم ہوگا وہ متقی اور پرہیزگار نہیں ہوسکتا خواہ وہ اپنے آپ کو کیا ہی سمجھتا ہو۔کیونکہ تقویٰ محض ظواہر و مظاہر کا نام نہیں۔(تفسیر مدنی)

*3۔سورہ آل عمران میں متقیوں کے حسبِ ذیل اوصاف مذکور ہیں:*

الَّذِيۡنَ يُنۡفِقُوۡنَ فِى السَّرَّآءِ وَالضَّرَّآءِ وَالۡكٰظِمِيۡنَ الۡغَيۡظَ وَالۡعَافِيۡنَ عَنِ النَّاسِ‌ؕ وَاللّٰهُ يُحِبُّ الۡمُحۡسِنِيۡنَ‌ۚ۞وَالَّذِيۡنَ اِذَا فَعَلُوۡا فَاحِشَةً اَوۡ ظَلَمُوۡۤا اَنۡفُسَهُمۡ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسۡتَغۡفَرُوۡا لِذُنُوۡبِهِمۡ وَمَنۡ يَّغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ اِلَّا اللّٰهُ ۖ وَلَمۡ يُصِرُّوۡا عَلٰى مَا فَعَلُوۡا وَهُمۡ يَعۡلَمُوۡنَ۞(آل عمران:135-134)

*”جو ہر حال میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں خواہ بد حال ہوں یا خوش حال،جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کر دیتے ہیں ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں اور جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام ان سے سرزد ہو جاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کر کے وہ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو معاً اللہ انہیں یاد آجاتا ہے اور اس سے وہ اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں کیونکہ اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کرسکتا ہو اور وہ دیدہ و دانستہ اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے۔“*

آرنلڈ وغیرہ فرنگی فاضلوں نے کہا ہے کہ عرب جیسی تندخو،جنگجو،جدل پیشہ قوم کے سامنے حلم وضبط،صلح آشتی کے ایسے معیار پیش کرنا،اور پھر اس تعلیم کو کامیاب بنانا بجائے خود ایک اعجاز ہے۔”ینفقون“۔یعنی راہ حق میں،دین کی خدمات میں خرچ کرتے رہتے ہیں،مطلق خرچ کرتے رہنا،چاہے کیسے ہی بیہودہ مقاصد کے لیے ہو،ظاہر ہے کہ شریعت میں ہرگز پسندیدہ نہیں،”فی السرآء والضرآء“۔یعنی ہر حال اور ہر صورت میں دین اور امت کی مالی ضرورتوں سے متعلق خرچ کرتے ہیں،یہ نہیں کہ خوش حال ہوئے تو مسرفانہ عیش پرستیوں میں پڑکر نیک کاموں سے ہاتھ ہی روک لیا یا تنگدست ہوئے تو ناشکری میں آکر اپنی بساط بھر بھی خرچ کرنے سے رک گئے”الکظمین الغیظ“۔کظم کہتے ہیں غصہ کے ضبط کرجانے کو،تو یہ لوگ وہ ہوئے جو غصہ سے مغلوب نہیں ہوجاتے،بلکہ اس سے مقابلہ کرکے اسے زیر کرلیتے ہیں،اور اپنے اوپر قابو رکھتے ہیں،بعض اہلِ تحقیق نے یہ خوب لکھا ہے کہ یہاں فاقدمن الغیظ ارشاد نہیں ہوا ہے یعنی مدح اس کی نہیں آئی ہے کہ غصہ سرے سے آتا ہی نہیں ہو،بلکہ اس کی آئی ہے کہ اسے قابو میں رکھا جائے،اور عقل جذبات کے اوپر حاکم رہے،غصہ پیدا ہوتا ہے حرارت طبعی یا حمیت سے،اسے سرے سے فنا کردینا ہرگز اسلام کو مقصود نہیں،مقصود اسے صرف حدود کے اندر رکھنا ہے،غصہ مطلق صورت میں ہرگز ممنوع نہیں،نہ شرعاً معصیت نہ عقلاً مضر،بلکہ اگر حدود کے اندر ہے اور محل مناسب پر پیدا ہو تو عیب نہیں ہنر ہے،غصہ کے ضبط کر جانے کی فضیلتیں حدیثِ نبوی میں بہ کثرت وارد ہوئی ہیں،مثال کے لیے صرف ایک حدیث ملاحظہ ہو،من کظم غضبا وھو یقدر علی انفاذہ ملأاللہ قلبہ امنا و ایمانا۔(قدرت نفاذ کے باوجود جو شخص اپنے غصہ کو روک لے جائے اللہ اس کا قلب امن و ایمان سے لبریز کردے گا)۔”العافین عن الناس“۔یعنی لوگوں کے قصوروں اور خطاؤں کو معاف بھی کردیتے ہیں،یہی نہیں کہ باوجود قدرت و استطاعت عطا وار سے انتقام نہیں لیتے،بلکہ اسے معاف بھی کردیتے ہیں،یہ درجہ کاظمین الغیظ سے بلند تر ہے،وہ اگر محض ایک سلبی کیفیت تھی،تو یہ ایک ایجابی مرتبہ ہے۔”المحسنین“محسنین کا درجہ کاظمین و عافین دونون سے بلند تر ہے۔یعنی عفو سے بھی آگے بڑھ کر یہ اور حسن سلوک سے پیش آتے ہیں،اخلاقی تعلیم کے موقع پر قرآن نے اکثر تدریج کو پیش نظر رکھا ہے،اور اس کی بہترین مثال یہ آیت ہے،تینوں مقامات فضیلت کے ہیں لیکن یہ تیسرا مقام فاضل ترین ہے۔محدث بیہقی نے سیدنا حضرت علی بن حسینؓ سے متعلق روایت نقل کی ہے کہ آپ کو ایک جاریہ وضو کرا رہی تھی کہ لوٹا اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر آپ پر گرا۔غصہ آنا امرِ طبعی تھا۔جاریہ نے فوراً الفاظ قرآنی”الکظمین الغیظ“اپنی زبان سے ادا کئے۔آپ کا غصہ دور ہوگیا،پھر جاریہ نے”العافین عن الناس“پڑھا،آپ نے فرمایا”میں نے معاف کردیا“۔اب جاریہ کی زبان پر”واللہ یحب المحسنین“آیا آپ نے فرمایا ”جا میں نے تجھے آزاد کردیا“۔(روح) رسول اسلامﷺ کی زندگی تو خیر من وعن،قرآن کے سانچہ میں ڈھلی ہوئی تھی ہی۔رسول ﷺ سے متعلق قرب و قرابت رکھنے والے بھی کس درجہ نفوس قدسیہ کے مالک بن چکے تھے۔(تفسیر ماجدی)

(قاعدہ شرعی کے مطابق)”فعلوا فاحشۃ“۔فاحشۃ کا اطلاق ہر گناہ کے لیے عام ہے،یہاں مراد وہ برائی ہے جو کسی دوسرے کے ساتھ کی جائے یعنی کسی حق عبد کی ادائی میں کوتاہی ہو جائے،”او ظلموا انفسھم“یعنی حقوق اللہ کا اتلاف اگر ان سے ہو جائے۔”ذکروا اللہ“کا اشارہ اس طرف ہے کہ نافرمانیاں ان سے پورے قصد و تعمد کے بعد خباثت نفس کی بنا پر سرزد نہیں ہوا کرتیں،بلکہ احکام الٰہی کا ذہول ان کے ذہن سے وقتی طور پر ہو جاتا ہے۔آیت سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ گاہ گاہ لغزشوں کا صادر ہوتے رہنا،قرب وتعلق مع اللہ کے منافی نہیں۔اصل اور مقدم شے ہر غلطی اور کوتاہی کی تلافی اور تدارک کی فکر اور اس کی مناسب تدبیر ہے۔”فاستغفروا“استغفار صحیح و معتبر وہی ہے جو محض زبان سے نہیں دل کی حسرت و ندامت کے ساتھ اور اس عزم کے ساتھ ہو کہ اب وہ گناہ دوبارہ نہیں ہونے پائے گا ورنہ اگر ہاتھ میں تسبیح چل رہی ہے اور دل بدستور گناہوں سے لذت لے رہا ہے تو اکابر نے کہا ہے کہ یہ استغفار خود قابل استغفار ہے اور عجب نہیں کہ ایسے استغفار کا شمار استہزاء میں ہوجائے۔

”ومن یغفر الذنوب الا اللہ“یہ تنبیہ ہے اس پر کہ گناہوں کی معافی صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے،کسی نبی،ولی،فرشتہ وغیرہ کے ہاتھ میں نہیں اور اس میں خصوصیت کے ساتھ رد ہے اس مسیحی عقیدہ کا کہ گناہوں کی معافی مسیح بلکہ ان کے نائبوں کے اختیار میں ہے۔ملاحظہ ہو انجیل:”جس طرح باپ نے مجھے بھیجا ہے،میں تمہیں بھیجتا ہوں اور یہ کہہ کر ان پر پھونکا اور ان سے کہا کہ روح القدس کو لو،جن کے گناہ تم بخشو،ان کے بخشے گئے ہیں اور جن کے گناہ تم بخشو،ان کے بخشے گئے ہیں،اور جن کے گناہ تم قائم رکھو،ان کے قائم رکھے گئے ہیں“۔(تفسیر ماجدی)

*4۔سورہ نازعات میں متقیوں کے حسبِ ذیل اوصاف مذکور ہیں:*

وَاَمَّا مَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَ نَهَى النَّفۡسَ عَنِ الۡهَوٰىۙ۞فَاِنَّ الۡجَـنَّةَ هِىَ الۡمَاۡوٰىؕ۞(النازعات:41-40)

*”اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا تھا اور نفس کو بری خواہشات سے باز رکھا تھا،جنت اس کا ٹھکانا ہوگی۔“*

 جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتا ہے،وہ کبھی بھی کسی معصیت کا ارتکاب نہیں کرتا۔اگر کبھی بشری کمزوری سے اس سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو یہ خوف اسے ندامت اور استغفار پر مجبور کر دیتا ہے اور وہ توبہ کرتا ہے اور اس طرح وہ اطاعت کے دائرے میں دوبارہ داخل ہوجاتا ہے۔

 نفس کو خواہشات سے باز رکھنے کے معنی یہ ہیں کہ انسان دائرہ اطاعت سے باہر نہ نکلے،کیونکہ خواہشات نفسانیہ ہی انسانوں کو نافرمانی،طغیانی اور سرکشی پر آمادہ کرتی ہیں۔آزمائش اور شرطکا راستہ ہی خواہشات نفسانیہ ہیں۔شیطان انسان پر اسی راستہ سے حملہ آور ہوتا ہے۔جہالت کا علاج بہت آسان ہے۔لیکن جانتے بوجھتے خواہشات نفسانیہ کی پیروی کرنا بہت بڑی مصیبت اور آزمائش ہوتی ہے۔اور اس کا مقابلہ کرنے کے لئے بڑی جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے۔خواہشات نفسانیہ کے دباﺅ کا مقابلہ صرف خشیتِ الٰہیہ سے کیا جاسکتا ہے۔اللہ کے ڈر کے سوا کوئی ہتھیار اس دشمن کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ایک ہی آیت میں ان کو جمع کیا ہے اور بات کون کر رہا ہے؟وہ ذات جس نے نفس انسانی کو پیدا کیا ہے۔بیماری بھی وہی بتاتا ہے اور علاج بھی۔انسانی نفس کے نشیب و فراز سے اس کا خالق ہی باخبر ہے۔اس ذات کو معلوم ہے کہ اس مخلوق میں کس جگہ کمزوریاں ہیں اور ان کا علاج کیا ہے؟ان خفیہ کمزوریوں کا تعاقب کس طرح کیا جاسکتا ہے اور اس کے کیا طریقے ہیں۔

 اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس بات کا مکلف نہیں بنایا کہ اس کے نفس کے اندر خواہش ہی نہ ہو،بلکہ اللہ نے یہ حکم دیا ہے کہ نفس کو روکے،اس کو لگام دے،اور خواہشات کو ذرا دبا کر رکھے۔اور اس معاملے میں خدا خوفی سے استعانت حاصل کر کے کہ ایک دن اس نے رب جلیل کے سامنے کھڑا ہونا ہے۔اور اگر وہ نفس کی خواہشات پر کنٹرول کرے گا تو اس کا عوضانہ اسے جنت ملے گی اور یہ اس کا ٹھکانہ ہوگی۔(فی ظلال القرآن)

*5۔سورہ اللیل میں متقی کا یہ وصف مذکور ہے:*

الَّذِىۡ يُؤۡتِىۡ مَالَهٗ يَتَزَكّٰى‌ۚ۞وَمَا لِاَحَدٍ عِنۡدَهٗ مِنۡ نِّعۡمَةٍ تُجۡزٰٓىۙ۞اِلَّا ابۡتِغَآءَ وَجۡهِ رَبِّهِ الۡاَعۡلٰى‌ۚ۞وَلَسَوۡفَ يَرۡضٰى۞(اللیل:21-18)

*”جو پاکیزہ ہونے کی خاطر اپنا مال دیتا ہے۔اُس پر کسی کا کوئی احسان نہیں ہے جس کا بدلہ اُسے دینا ہو۔وہ تو صرف اپنے رب برتر کی رضا جوئی کے لیے یہ کام کرتا ہے اور ضرور وہ (اُس سے) خوش ہوگا۔“* 

 یہ سابقہ آیت کی وضاحت ہے کہ یہ اقلیمِ تقویٰ کا تاجدار اپنا مال اس لیے خرچ نہیں کررہا کہ وہ کسی کا احسان اتارنے کی فکر میں ہے یا وہ کسی کے حُسنِ سلوک کا معاوضہ دینا چاہتا ہے بلکہ اس کا یہ ایثار اور سخاوت ہر طرح کی آلائشوں سے پاک، ہر طرح کی کمزوریوں سے بالا ہے۔ اس کے پیش نظر صرف ایک ہی مقصد ہے کہ وہ اپنے بزرگ و برتر رب کی خوشنودی کو حاصل کرسکے۔

 شانِ نزول کے مطابق اس آیت کا مصداق حضرت صدیق اکبر ؓ ہیں۔آیت کے الفاظ تو عام ہیں۔جو شخص بھی ایمان کے ساتھ رضائے خداوندی کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرتا ہے اس کے لیے یہی بشارت ہے۔اور آنحضرت ﷺ کے اصحاب سب انھیں صفات سے متصف تھے۔لیکن شان نزول سے معلوم ہوتا ہے کہ اس لفظِ اتقیٰ سے حضرت صدیق اکبر ؓ مراد ہیں۔ابن ابی حاتم نے حضرت عروہ سے روایت کیا ہے کہ سات مسلمان ایسے تھے جو مکہ کے بعض کفار کے غلام تھے۔جب وہ مسلمان ہوگئے تو ان کو طرح طرح کی اذیتیں دی جانے لگیں۔حضرت صدیق اکبر ؓ نے اپنا بڑا مال خرچ کر کے ان کو کفار سے خرید کر آزاد کردیا۔حضرت ابن عباس ؓ سے یہ قول مروی ہے کہ جب حضرت بلال نے اسلام قبول کرلیا تو ان کے مالک امیہ بن خلف نے ان کو طرح طرح سے ستانا شروع کردیا۔ایک روز وہ آپ کو اذیت دے رہا تھا،آپ بار بار غش کھا رہے تھے،لیکن آپ کی زبان سے احد احد کی آواز آرہی تھی۔اس اثناء میں رحمت عالمﷺ کا گزر ہوا۔فرمایا اَحَدٌ یُنْجِیْکَ”جس احد کا تم نام لے رہے ہو،وہی تمہیں اس ظلم سے نجات دے گا۔“آنحضرت ﷺ نے صدیق اکبر ؓ سے بلال کی یہ کیفیت بیان کی۔رازدانِ نبوت آنحضرت ﷺ کے اشارے کو سمجھ گئے۔اسی وقت گھر آئے نصف سیر سونا لے کر امیہ بن خلف کے پاس پہنچے اور پوچھا کیا تو بلال کو بیچنا چاہتا ہے۔اس کے اقرار کرنے پر آپ نے منہ مانگی قیمت دے کر حضرت بلال ؓ کو خریدا اور آزاد کردیا۔اس وقت یہ آیتیں نازل ہوئیں۔آپ کے والد ابو قحافہ کو جب علم ہوا کہ ان کا بیٹا ابوبکر کمزور اور نحیف غلاموں اور باندیوں کو خرید کر آزاد کررہا ہے،تو انھوں نے کہا میرے بیٹے تم ضعیف اور کمزور لوگوں کو آزاد کرتے ہو،اگر تم طاقتور اور بہادر غلاموں کو خرید کر آزاد کرتے تو وہ کسی مشکل کے وقت تمہارے کام آتے۔آپ نے فرمایا :

 ای ابت انما ارید ماعنداللہ (ابنِ کثیر)

*”ابا جان میرا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی رضا ہے۔“*(روح القرآن)

*6۔سورہ زمر میں متقیوں کے دو وصف بیان ہوئے ہیں:*

وَالَّذِىۡ جَآءَ بِالصِّدۡقِ وَصَدَّقَ بِهٖۤ‌ اُولٰٓئِكَ هُمُ الۡمُتَّقُوۡنَ۞(الزمر:33)

*”اور جو شخص سچائی لے کر آیا اور جنہوں نے اُس کو سچ مانا،وہی عذاب سے بچنے والے ہیں۔“*

مطلب یہ ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کی عدالت میں جو مقدمہ ہونا ہے اس میں سزا پانے والے کون ہوں گے،یہ بات تم آج ہی سن لو۔سزا لازماً انہی ظالموں کو ملنی ہے جنہوں نے یہ جھوٹے عقیدے گھڑے کہ اللہ کے ساتھ اس کی ذات،صفات،اختیارات اور حقوق میں کچھ دوسری ہستیاں بھی شریک ہیں،اور اس سے بھی زیادہ بڑھ کر ان کا ظلم یہ ہے کہ جب ان کے سامنے سچائی پیش کی گئی تو انہوں نے اسے مان کر نہ دیا بلکہ الٹا اسی کو جھوٹا قرار دیا جس نے سچائی پیش کی۔رہا وہ شخص جو سچائی لایا اور وہ لوگ جنہوں نے اس کی تصدیق کی،تو ظاہر ہے کہ اللہ کی عدالت سے ان کے سزا پانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔(تفہیم القرآن)

*7۔سورہ الذاریات میں متقیوں کے درج ذیل اوصاف مذکور ہیں:*

اٰخِذِيۡنَ مَاۤ اٰتٰٮهُمۡ رَبُّهُمۡ‌ؕ اِنَّهُمۡ كَانُوۡا قَبۡلَ ذٰلِكَ مُحۡسِنِيۡنَؕ‏۞كَانُوۡا قَلِيۡلًا مِّنَ الَّيۡلِ مَا يَهۡجَعُوۡنَ۞وَبِالۡاَسۡحَارِ هُمۡ يَسۡتَغۡفِرُوۡنَ۞وَفِىۡۤ اَمۡوَالِهِمۡ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالۡمَحۡرُوۡمِ۞(الذاریات:19-15)

*”جو کچھ اُن کا رب انہیں دے گا اسے خوشی خوشی لے رہے ہوں گے وہ اُس دن کے آنے سے پہلے نیکو کار تھے۔راتوں کو کم ہی سوتے تھے۔پھر وہی رات کے پچھلے پہروں میں معافی مانگتے تھے اور اُن کے مالوں میں حق تھا سائل اور محروم کے لیے۔“*

اگرچہ اصل الفاظ ہیں اٰخِذِیْنَ مَآ اٰتٰہُمْ رَبُّھُمْ،اور ان کا لفظی ترجمہ صرف یہ ہے کہ”لے رہے ہوں گے جو کچھ ان کے رب نے ان کو دیا ہوگا“،لیکن موقع و محل کی مناسبت سے اس جگہ”لینے“کا مطلب محض”لینا“نہیں بلکہ خوشی خوشی لینا ہے،جیسے کچھ لوگوں کو ایک سخی داتا مٹھیاں بھر بھر کر انعام دے رہا ہو اور وہ لپک لپک اسے لے رہے ہوں۔جب کسی شخص کو اس کی پسند کی چیز دی جائے تو اس لینے میں آپ سے آپ بخوشی قبول کرنے کا مفہوم پیدا ہوجاتا ہے۔قرآن مجید میں ایک جگہ فرمایا گیا ہے کہ اَلَمْ یَعْلَموٓا اَنَّ اللہَ ھُوَ یَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عِبَادِہٖ وَ یَأخُذُ الصَّدَقَاتِ۔(التوبہ۔ 104)۔” کیا تم نہیں جانتے کہ وہ اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں سے توبہ قبول کرتا ہے اور صدقات لیتا ہے۔“اس جگہ صدقات لینے سے مراد محض ان کو وصول کرنا نہیں بلکہ پسندیدگی کے ساتھ ان کو قبول کرنا ہے۔مفسرین کے ایک گروہ نے اس آیت کا مطلب یہ لیا ہے کہ کم ہی ایسا ہوتا تھا کہ وہ رات بھر سو کر گزار دیں اور اس کا کچھ نہ کچھ حصہ،کم یا زیادہ،ابتدائے شب میں یا وسط شب میں یا آخر شب میں،جاگ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت میں صرف نہ کریں۔یہ تفسیر تھوڑے تھوڑے لفظی اختلافات کے ساتھ حضرات ابن عباس،انس بن مالک،محمد الباقر،مطرف بن عبداللہ،ابوالعالیہ،مجاہد،قتادہ،ربیع بن انس وغیرہم سے منقول ہے۔دوسرے گروہ نے اس کے معنی یہ بیان کیے ہیں کہ وہ اپنی راتوں کا زیادہ حصہ اللہ جل شانہ کی عبادت میں گزارتے تھے اور کم سوتے تھے۔یہ قول حضرات حسن بصری،احنف بن قیس،اور ابن شہاب زہری کا ہے،اور بعد کے مفسرین و مترجمین نے اسی کو ترجیح دی ہے،کیونکہ آیت کے الفاظ اور موقع و محل کے لحاظ سے یہی تفسیر زیادہ مناسبت رکھتی نظر آتی ہے۔اسی لیے ہم نے ترجمے میں یہی معنی اختیار کیے ہیں۔

یعنی وہ ان لوگوں میں سے نہ تھے جو اپنی راتیں فسق و فجور اور فواحش میں گزارتے رہے اور پھر بھی کسی استغفار کا خیال تک انہیں نہ آیا۔اس کے برعکس ان کا حال یہ تھا کہ رات کا اچھا خاصا حصہ عبادت الٰہی میں صرف کر دیتے تھے اور پھر بھی پچھلے پہروں میں اپنے رب کے حضور معافی مانگتے تھے کہ آپ کی بندگی کا جو حق ہم پر تھا،اس کے ادا کرنے میں ہم سے تقصیر ہوئی۔ھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ کے الفاظ میں ایک اشارہ اس بات کی طرف بھی نکلتا ہے کہ یہ پرستش انہی کو زیبا تھی۔وہی اس شان عبودیت کے اہل تھے کہ اپنے رب کی بندگی میں جان بھی لڑائیں اور پھر اس پر پھولنے اور اپنی نیکی پر فخر کرنے کے بجائے گڑ گڑا کر اپنی کوتاہیوں کی معافی بھی مانگیں۔یہ ان بےشرم گناہ گاروں کا رویہ نہ ہوسکتا تھا جو گناہ بھی کرتے تھے اور اوپر سے اکڑتے بھی تھے۔(تفہیم القرآن)

*8۔سورہ اعراف میں متقیوں کی یہ صفت بیان ہوئی ہے:*

اِنَّ الَّذِيۡنَ اتَّقَوۡا اِذَا مَسَّهُمۡ طٰۤئِفٌ مِّنَ الشَّيۡطٰنِ تَذَكَّرُوۡا فَاِذَا هُمۡ مُّبۡصِرُوۡنَ‌ۚ۞(الاعراف:201)

*”حقیقت میں جو لو گ متقی ہیں اُن کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ کبھی شیطان کے اثر سے کوئی برا خیال اگر انہیں چھو بھی جاتا ہے تو وہ فوراً چوکنے ہو جاتے ہیں اور پھر انہیں صاف نظر آنے لگتا ہے کہ ان کے لیے صحیح طریق کار کیا ہے۔“*

اس ارشاد کا ایک عمومی محمل بھی ہے اور وہ یہ کہ اہل تقویٰ کا طریقہ بالعموم اپنی زندگی میں غیر متقی لوگوں سے مختلف ہوتا ہے۔جو لوگ حقیقت میں خدا سے ڈرنے والے ہیں اور دل سے چاہتے ہیں کہ برائی سے بچیں ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ برے خیال کا ایک ذرا سا غبار بھی اگر ان کے دال کو چھو جاتا ہے تو انہیں ویسی ہی کھٹک محسوس ہونے لگتی ہے جیسی کھٹک انگلی میں پھانس چبھ جانے یا آنکھ میں کسی ذرے کے گر جانے سے محسوس ہوتی ہے۔چونکہ وہ برے خیالات،بری خواہشات اور بری نیتوں کے خوگر نہیں ہوتے اس وجہ سے یہ چیزیں ان کے لیے اسی طرح خلاف مزاج ہوتی ہے۔چونکہ وہ برے خیالات،بری خواہشات اور بری نیتوں کے خوگر نہیں ہوتے اس وجہ سے یہ چیزیں ان کے لیے اسی طرح خلاف مزاج ہوتی ہیں جس طرح انگلی کے لیے پھانس یا آنکھ کے لیے ذرہ یا ایک نفیس طبع اور صفائی پسند آدمی کے لیے کپڑوں پر سیاہی کا ایک داغ یا گندگی کی ایک چھینٹ۔پھر جب یہ کھٹک انہیں محسوس ہوجاتی ہے تو ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور ان کا ضمیر بیدار ہو کر اس غبار شر کو اپنے اوپر سے جھاڑ دینے میں لگ جاتا ہے۔بخلاف اس کے جو لوگ نہ خدا سے ڈرتے ہیں،نہ بدی سے بچنا چاہتے ہیں،اور جن کی شیطان سے لاگ لگی ہوئی ہے،ان کے نفس میں برے خیالات،برے ارادے،برے مقاصد پکتے رہتے ہیں اور وہ ان گندی چیزوں سے کوئی اُپراہٹ اپنے اندر محسوس نہیں کرتے،بالکل اسی طرح جیسے کسی دیگچی میں سور کا گوشت پک رہا ہو اور وہ بیخبر ہو کہ اس کے اندر کیا پک رہا ہے،یا جیسے کسی بھنگی کا جسم اور اس کے کپڑے غلاظت میں لتھڑے ہوئے ہوں اور اسے کچھ احساس نہ ہو کہ وہ کن چیزوں میں آلودہ ہے۔(تفہیم القرآن)

Comments