Other Worlds Exist Beyond The Stars

 

     ایک بہترین اُستاد کافی عرق ریزی اور انتہائی ذوق و شوق کے ساتھ اپنے شاگردوں کی تربیت کرتا ہے۔وہ ایک درخت کی طرح انہیں اپنے سایہ تلے پناہ دیتا ہے تاکہ خود آزمائشوں کی تپش میں جل کر انہیں آرام و سکون بہم پہنچائیں۔ایک نیک اور صالح اُستاد کی تنخواہ اگرچہ حقیر ہی کیوں نہ ہو تب بھی ہم اس کا کسی بھی بڑے عہدے پر فائض شخصیت سے موازنہ نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ ایک قوم اساتذہ صاحبان سے ہی تعمیر ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ انہیں”معمارِ قوم“کے لقب سے ملقب کیا جاتا ہے۔ایک بامقصد زندگی گزارنے والا اُستاد اپنے شاگردوں کو زندگی کے ہر میدان میں آگے بڑھانے کے لیے خون پسینہ ایک کرتا ہے تاکہ مرنے کے بعد اپنے چھوڑے گئے ادھورے کام کو یہ پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔علم کے سفر میں جو شاگرد باغیرت،حساس،محنتی اور اللّٰہ تعالیٰ کی ذاتِ مبارکہ پر پورا بھروسہ رکھے ہوتے ہیں وہ زندگی کے نشیب و فراز میں کبھی مایوسی کا شکار نہیں ہوا کرتے بلکہ پوری ہمت،لگن،جذبے اور مستقل مزاجی کے ساتھ منزلِ مقصود کی طرف رواں دواں رہتے ہیں۔میں ذاتی طور پر چند سالوں سے ایک معروف اسکول میں بحثیت اسلامیات اُستاد کام کر رہا ہوں۔ان سالوں میں مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا اور آج ایک بات یہ بھی سیکھی کہ ایک اُستاد کے زیرِ تربیت چند طلباء ایسے بھی ہوتے ہیں جو ظاہری طور پر بڑا کارنامہ انجام دینے کا مظاہرہ نہیں کرتے ہیں لیکن ان کے وجود کے اندر ایک ایسا لاوا پک رہا ہوتا ہے جو مقررہ وقت پر باہر آکر پورے سماج کو ورطہ حیرت میں چلا دیتا ہے۔

ہمارے زیرِ تربیت بھی چند سالوں کے لیے ایک شاگرد بنامی”سلمان گلزار“تھے،جو وقت کا پابند،باصلاحیت،باادب،باحیا،محنتی،ماں باپ اور تمام اساتذہ صاحبان کا فرماں بردار تھے۔اسکول میں ہر ایک استاد انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔٢٠٢٠ء میں انہوں نے دسویں جماعت کے امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کر کے پورے اسکول کا نام روشن کیا۔نتائج کے فوراً بعد انہوں نے میڈیکل سائنس کی لائن پکڑی اور وہ دل میں یہی خواب پال رہے تھے کہ کب وہ قیمتی دن میری زندگی میں آئیں گے جب میں NEET امتحان میں کامیابی حاصل کروں گا۔بِنا کوچنگ کے انہوں نے محنتِ شاقہ اور فضلِ خداوندی سے چند دنوں پہلے اس کٹھن امتحان کو پاس کر کے اپنے پورے خاندان کے ساتھ ساتھ ہمارے اسکول کے تمام اساتذہ صاحبان کے دلوں میں بھی خوشی کی ایک لہر دوڑائی۔بدقسمتی سے COVID -19 میں ان کی پیاری اماں اس فانی دنیا سے رحلت کر گئی تھیں اور تب سے یہ بیچارہ اپنے شب و روز یتیمی کی حالت میں ہی کاٹ رہا تھا۔ان کی کامیابی کی خبر سنتے ہی ہر طرف ان کے گھر لوگ آنے لگے تاکہ ان کے گھر والوں کو مبارک بادی دیں اور ساتھ میں اس یتیم بچے کے سر پر ہاتھ رکھ کر اپنے بے چین دلوں میں اطمینان کی ٹھنڈک پا سکیں۔ہمارے اسکول کا پورا قافلہ بھی فوراً ان کے گھر پہنچا اور انہیں مبارک بادی دی۔ذاتی طور میں نے ان کے غمگین چہرے پر محسوس کیا کہ شاید وہ گھر میں اپنی پیاری اماں کی کمی محسوس کر رہا تھا۔کاش ان کی اماں جان زندہ ہوتی تو وہ انہیں بھی اپنی کامیابی کی خوشخبری سناتا اور ساتھ میں ہم بھی مل جُل کر ان کے مبارک ہاتھوں مٹھائی کھاتے لیکن کیا کریں کہ دنیا میں ایک بندہ مومن کو اللہ تعالیٰ کے فیصلوں پر راضی رہنے کے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں ہوتا اور ویسے تو ہمیں اس بات پر پختہ یقین ہونا چاہیئے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے فیصلے اپنے پیارے بندوں کے لیے بہتر ہی نہیں بلکہ بہترین ہوتے ہیں۔اس مادی دور میں ان جیسے طلباء کو حوصلہ اور ہمت دینے کی شدید ضرورت ہے۔ہم اُس معاشرے میں جی رہیں ہیں جہاں غریب طلباء وقت پر کونسلنگ اور مالی سپورٹ نہ ملنے کی وجہ سے اپنا شاندار کیرئر کھو بیٹھتے ہیں۔لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم معاشرے میں آگے آکر اپنے حقوق ادا کر کے رب کی خوشنودی کو پالیں وگرنہ رب کے دربار میں شدید پکڑ ہوگی۔والدین مربی کی حیثیت رکھتے ہیں،جنہیں چاہئیے کہ اپنے بچوں کو تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ تربیت سے بھی روشناس کریں۔یہ تب ہی ممکن ہے جب کہ وہ انہیں دنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم سے بھی آراستہ کریں،اس چیز کے لئے ان کا داخلہ ان اسکولوں میں کرانا ناگزیر ہے جن میں یہ دونوں تعلیم بیک وقت موجود ہوں۔جو مُسلم طلباء اس وقت امتحان میں کامیاب ہوئے انہیں اِترانے کے بجائے اللہ کا شُکر ادا کرنا چاہیے اور جو ناکام ہوئے ہیں ،انہیں اس آزمائش پر صبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے،یہی ان کے لیے نجات کی راہ ہے۔اس چیز کا اشارہ اللہ تعالیٰ ذیل کی آیاتِ مبارکہ میں بھی دیتے ہیں:

مَاۤ اَصَابَ مِنۡ مُّصِيۡبَةٍ فِى الۡاَرۡضِ وَلَا فِىۡۤ اَنۡفُسِكُمۡ اِلَّا فِىۡ كِتٰبٍ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ نَّبۡـرَاَهَا ؕ اِنَّ ذٰ لِكَ عَلَى اللّٰهِ يَسِيۡرٌۚ۞لِّـكَيۡلَا تَاۡسَوۡا عَلٰى مَا فَاتَكُمۡ وَلَا تَفۡرَحُوۡا بِمَاۤ اٰتٰٮكُمۡ‌ؕ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخۡتَالٍ فَخُوۡرِۙ‏۞(الحدید:23-22)

*”کوئی مصیبت ایسی نہیں ہے جو زمین میں یا تمہارے اپنے نفس پر نازل ہوتی ہو اور ہم نے اس کو پیدا کرنے سے پہلے ایک کتاب میں لکھ نہ رکھا ہو ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت آسان کام ہے۔(یہ سب کچھ اس لیے ہے) تاکہ جو کچھ بھی نقصان تمہیں ہو اس پر تم دل شکستہ نہ ہو اور جو کچھ اللہ تمہیں عطا فرمائے اس پر پھول نہ جاؤ اللہ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتے ہیں اور فخر جتاتے ہیں۔“*

جس شخص کا اس بات پر ایمان ہو کہ دنیا میں جو کچھ ہورہا ہے،وہ اسی تقدیر کے مطابق ہورہا ہے،جو لوح محفوظ میں پہلے سے لکھی ہوئی ہے،اسے کسی ناگوار واقعے پر اتنا صدمہ نہیں ہوتا جو اسے دائمی پریشانی اور حسرت میں مبتلا رکھے،بلکہ یہ چیز اس کی تسلی کا باعث ہوتی ہے کہ جو کچھ تقدیر میں لکھا تھا وہی ہوا،اور یہ کہ اس دنیا کی تکلیفیں آخرت کی نعمتوں کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں،اس طرح اگر کوئی خوشی کا واقعہ پیش آتا ہے تو انسان اس پر اترا کر تکبر میں مبتلا نہیں ہوتا،اس لئے کہ وہ جانتا ہے کہ یہ واقعہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق اور تقدیر کے مطابق ہے،اور اس پر انسان کو اترانے کے بجائے اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہیے۔(آسان قرآن)

انسان کو نہ اچھے حالات میں خدا کو بھول کر سرکش بننا چاہیے اور نہ برے حالات میں خدا سے مایوس ہونا چاہیے۔تقدیر کی بھلائی اور برائی سراسر اللہ وحدہٗ لاشریک کے اختیار میں ہے۔وہ چاہیے تو آدمی کے بہترین حالات کو بدترین حالات میں تبدیل کردے،اور چاہیے تو برے سے برے حالات سے اس کو بخیریت گزار کر  بہترین حالات پر پہنچا دے۔اس لیے بندۂ عاقل کو ہر حالت میں اُسی پر توکل کرنا چاہیے اور اُسی سے آس لگانی چاہیے۔(سیّد مودودیؒ)

ہمارے اس بیٹے کا کہنا ہے کہ میں نے موبائل فون کو مثبت طریقے پر استعمال کیا اور اس سے بھر پور استفادہ بھی کیا لہٰذا نتائج سامنے ہیں۔لیکن اس کے برعکس جب ہم اکثر مسلم طلباء کو دیکھتے ہیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔وہ وقت کو کاٹنے کے لیے موبائل فون کا سہارا لیتے ہیں جو کہ ایک بہت بڑی مصیبت ہے۔اکثر طلباء آج موبائل فون کے اس حد تک گرویدہ ہوچکے ہیں کہ وہ اسے اپنی جسم کے ایک عضوِ خاص سے بھی زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ انہیں حالات کا بھر پور جائزہ لینا چاہئیے اور اس کام کے لیے موبائل فون کا استعمال ناگزیر ہے۔لیکن رونا تو تب آتا ہے جب کہ موبائل فون پر خواہ مخواہ انہیں وقت کی بربادی کا عمل کرتے ہوئے دیکھنا پڑتا ہے۔مسلم طلباء کو اللہ اور اس کے رسولؐ قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کیونکہ ان کی زندگی کا اوڑھنا بچھونا”علم“ہوتا ہے اور علم ایک ایسا راستہ ہے جو کہ رب العٰلمین کی طرف جاتا ہے۔سیدھی سی بات ہے کہ جو بھی اس راستے کو پکڑے گا اپنے محبوبِ حقیقی کو بالاٰخر لازماً پالے گا۔ہمارے اسلاف اسی راستے کو اپنا کر خود بھی علم کے نور سے منور ہوگئے اور ساتھ میں پوری دنیا کو بھی اسی نور سے منور کر دیا۔لیکن اُن دنوں علماءِ حق وافر مقدار میں موجود تھے اور ایک کے چلے جانے کے بعد دوسرا اس کی جگہ لیتا تھا۔یہ سلسلہ آگے چلتا رہا اور ان کے پاس لوگ آکر علم کی پیاس بجھاتے گئے۔لیکن بدقسمتی سے جب امتِ مسلمہ دنیا کی رنگ رلیوں میں گم ہوگئی تو رفتہ رفتہ علم کو دو خانوں میں تقسیم کیا گیا یعنی دینی علم اور دنیوی علم۔یہ اسلاف کے بجائے دورِ نو کی ایجاد ہے،جس کی اسلام میں کوئی جگہ ہے ہی نہیں۔یہ اسی ایجاد کا نتیجہ ہے جو ہمارے سامنے روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ دار العلوم کے اکثر فارغین دنیا کو اپنے ساتھ چلانا ایک گناہِ عظیم سمجھتے ہیں اور اس کے برعکس مغربی تہذيب کے ذبیح خانوں سے سند یافتہ طلباء ہنسی خوشی دنیا کو اپنا نصب العین بنا بیٹھے ہیں۔اس خلا کو اسلام پاٹنا چاہتا ہے،جس کا واحد راستہ یہی ہے کہ مسلم طلباء کو حالات کے چیلنجز کا مقابلہ کر کے دینی و دنیوی علم کو بیک وقت حاصل کرکے اپنے اندر قائدانہ صلاحيتیں پیدا کرنی چاہیے۔ان صلاحیتوں کو اپنے اندر پیدا کرنے کے بعد ہی یہ اُمت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے سکتے ہیں،جس کی دورِ نو میں شدید ضرورت ہے۔لہٰذا مسلم طلباء کو چاہیے کہ مذکورہ دونوں علوم میں مہارت حاصل کر کے اُمت پر لگی ہوئی زنگ کو دور کیا جائے،اس کے اوپر مایوسی کے بادل کو تاراج کیا جائے،اس کی تاریکی کو روشنی میں تبدیل کیا جائے،اس کو صحیح سمت دے کر ایک کلیدی رول ادا کیا جائے،اس کی زنجیروں کو کاٹ کر اس کو پرواز میں مدد کیا جائے،اس پر کام کر کے از سرِ نو اسے زندگی دی جائے،اس کی خاطر اپنی کوشش اور توانائی کا آخری قطرہ تک نچوڑ دیا جائے۔یہی ان کی نجات اور رب کی خوشنودی کا راستہ ہے۔اے میرے شاہینو!سوچ میں پڑنے کے بجایے آپ اُٹھیے اور علم کا چراغ  ہاتھ میں لے کر پورے معاشرے کو منور کرنے کے کام میں لگ جائیے۔یہ خدا کا احسان ہوگا کہ وہ آپ کو انھیروں میں چراغ جلانے کی توفیق بخشے۔آپ کے لئے سب سے بڑی سعادت یہی ہوگی کہ آپ جراغ جلاتے جلاتے مر جائیں۔اگر منجملہ تمام انبیاء کرامؑ کا مقصد”اقامتِ دین“ تھا تو اس مشن کو چھوڑ کر آپ کن میدانوں میں اپنا Scope ڈھونڈتے ہو؟اس بیمار معاشرے میں ربانی بنیادوں پر انسانی شخصیت کی تعمیر کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔لہٰذا مسلم طلباء کے لیے انسان بننے اور بنانے میں کافی Scope ہے جسے کسی بھی صورت میں ترک نہیں کیا جا سکتا۔اب بھی بیدار ہونے کا موقع ہے۔مسلم طلباء کو نیند سے بیدار کرنے کے لیے علامہ اقبالؒ کے یہ اشعار کافی و شافی ہیں:

*ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں*

  *ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں*

 *تہی، زندگی سے نہیں یہ فضائیں*

  *یہاں سینکڑوں کارواں اور بھی ہیں*

  *قناعت نہ کر عالمِ رنگ و بُو پر*

  *چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں*

  *اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم*

  *مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں*

  *تو شاہیں ہے، پرواز ہے کام تیرا*

  *ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں*

  *اسی روز و شب میں اُلجھ کر نہ رہ جا*

  *کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں*

  *گئے دن کہ تنہا تھا مَیں انجمن میں*

  *یہاں اب مِرے رازداں اور بھی ہیں*

Comments