Every Destination Of The Right Path Requires Sacrifice.


    دینِ اسلام از آدم تا ایں دم قربانی کا تقاضا کرتا آیا ہے۔یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور تا صبحِ قیامت جاری رہے گا۔دنیا میں ہر ایک زندہ ذات قربانی کا فریضہ انجام دے رہی ہے اور قربانی کی بدولت ہی یہ دنیا قائم و دائم ہے۔مسلمانوں نے جس دینِ مبین کو اپنایا ہے وہ انہیں اللّٰہ تعالیٰ کی راہ میں ہر طرح کی قربانی دینے پر اُبھارتا ہے تاکہ اللّٰہ کا یہ پسندیدہ دین کہیں مذہب کی شکل اختیار نہ کرے۔قربانی عبادت کی ایک مخصوص صورت ہے۔ایک داعیِ دین کو اللہ راضی کرنے کے لیے مرغوب و محبوب چیزوں کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ایسی ہر قربانی اس کے دل میں اللہ تعالی سے محبت بڑھانے کا سبب بنتی ہے اور قُربِ الہی کا احساس عطا کرتی ہے۔ایمان کے درجات مسلسل قربانی سے ہی طے ہوتے ہیں۔اسلام جہاں مسلمانوں سے اطاعت کا مطالبہ کرتا ہے وہیں یہ قربانی کا بھی طالب ہے اور اسے بے مثال قربانیاں دے کر ہی زمین پر نافذ کیا جا سکتا ہے۔اسلام کسی خاص وقت یا کسی خاص معاملہ میں قربانی کا طالب نہیں ہے،بلکہ ہر حال اور ہر معاملے میں قربانی کا مطالبہ کرتا ہے۔بندہ مومن کے لیے بڑی سے بڑی قربانی صراطِ مستقیم کا ایک ایسا مرحلہ ہوتا ہے جس سے گزرے بغیر اس کے دل کو تسکین ہی نہیں ملتی ہے۔یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ کوئی بھی بڑا مقصد اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک انسان اپنا سب کچھ اس کی خاطر قربان نہ کر دے۔اللہ کی خوشنودی اور اس کی رضامندی کے حصول میں ہر طرح کی تکلیفیں اٹھانی پڑتی ہیں۔اس کے حکم اور اس کے اشاروں پر اپنی ساری متاعِ حیات اور جانِ عزیز کو ہمہ وقت اس کی راہ میں نچھاور کرنے کے لیے تیار رہنا ہی حقیقی بندگی کی دلیل ہے۔یہی سب سے بڑی،دیرپا اور سچی خوشی ہے۔اس سے بڑھ کر دوسری خوشی ہو ہی نہیں سکتی۔قافلۂ حق کے کارکنوں کو اگر ساری دنیا کے وسائل بھی میسر آجائیں وہ بہرحال فنا ہونے والے ہیں،لیکن ان کی قربانیوں اور ان کے اعمال کے بدلے میں جو کچھ میسر آنے والا ہے وہ فانی نہیں،باقی اور ابدی ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

مَا عِنۡدَكُمۡ يَنۡفَدُ‌ وَمَا عِنۡدَ اللّٰهِ بَاقٍؕ وَلَنَجۡزِيَنَّ الَّذِيۡنَ صَبَرُوۡۤا اَجۡرَهُمۡ بِاَحۡسَنِ مَا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ‏۞(النحل:96)

*”جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ خرچ ہو جانے والا ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہی باقی رہنے والا ہے،اور ہم ضرور صبر سے کام لینے والوں کو اُن کے اجر اُن کے بہترین اعمال کے مطابق دیں گے۔“*

اللّٰہ کی راہ پھولوں کی سیج کے بجائے کانٹوں بھرا راستہ ہے جہاں ان کانٹوں کے لیے اپنے تلووں کو پیش کر دینا ہی حقیقت میں اصل مُراد کو پالینا ہے۔اپنی حقیقی منزل کو پالینے کے لیے جنت کے مسافر کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں مصائب برداشت کرتے ہوئے اس کی راہ میں آگے ہی بڑھتا جائے اور اپنے حقیقی نصب العین کی راہ میں پیہم جدوجہد کرتا رہے۔یہ وہ راستہ ہے جہاں زبان پر حرفِ شکایت لائے بغیر مصائب و مشکلات کو انگیخت کرنا پڑتا ہے۔یہاں تو رغبت،طلب،تڑپ بلکہ جنون دیکھا جاتا ہے اور جس کے پاس جنون ہی ہے وہی کاروانِ حق کی تھیلی کا سب سے کھرا سکہ ہے۔یہاں خود کو فنا کرنا پڑتا ہے تاکہ دوسرے زندگی پاسکیں۔یہاں دینِ اسلام کی سربلندی کے لیے اپنے آپ کو گھلانا پڑتا ہے،اس کے لیے اپنی آسائش و راحت،وقت،مال اور دولت کو الغرض ہر اس چیز کو قربان کرنا پڑتا ہے جس کے ہم عارضی طور پر مالک بن بیٹھے ہیں۔یہاں اپنی ان تمام مصروفیات اور مشاغل سے دست کش ہونا پڑتا ہے جو عظیم مقصد کی راہ میں رکاوٹ بنیں۔یہاں میرِ کارواں کو حوصلہ انتہائی بلند رکھنے کے ساتھ ساتھ جلد بازی کیے بغیر صبر و ثبات کی روش اختیار کرنی پڑتی ہے۔یہاں باِذن اللہ ابتلاء کے انتہائی کٹھن دور کو لایا جاتا ہے تاکہ مقصد کے شیدائیوں اور خواہشِ نفس کے پرستاروں کو الگ الگ کر دیا جائے۔ارشادِ ربانی ہے:

اَحَسِبَ النَّاسُ اَنۡ يُّتۡرَكُوۡۤا اَنۡ يَّقُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا وَهُمۡ لَا يُفۡتَنُوۡنَ۞وَلَقَدۡ فَتَنَّا الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡ‌ فَلَيَـعۡلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ صَدَقُوۡا وَلَيَعۡلَمَنَّ الۡكٰذِبِيۡنَ۞(العنکبوت:3-2)

*”کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ”ہم ایمان لائے“اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟حالاں کہ ہم اُن سب لوگوں کی آزمائش کر چکے ہیں جو اِن سے پہلے گزرے ہیں اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے کہ سچّے کون ہیں اور جھوٹے کون۔“*

اسی حقیقت کو دلنشین پیرائے میں سمجھانے کے لیے ڈاکٹر سید اسعد گیلانیؒ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ:

*”یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی اقامتِ دین جیسے بلند ترین مقصد کو لے کر اُٹھے لیکن اس کے ظرف کو دیکھا نہ جائے کہ وہ کس حد عشقِ الٰہی سے معمور ہے۔لگن کی کتنی مقدار اسے حاصل ہے،اپنی خواہشاتِ نفس کی کتنی قربانی وہ دے سکتا ہے۔چنانچہ اگر ہم تاریخ کے ان تمام ادوار پر سرسری نظر ڈالیں جن میں راہِ حق میں جدوجہد کرنے والوں کے کارنامے ہمیں قدرے صاف نظر آتے ہیں تو ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ جس کسی نے بھی دعوائے عشق کیا اس کے سامنے دارورسن کا مسئلہ بھی کھڑا کر دیا گیا۔اس امتحان میں کامیابی حاصل کیے بغیر کسی کو اس راہ میں قدم بڑھانے کا پروانہ راہ جاری نہ ہو سکا اور واقعہ یہ ہے کہ اس راہ میں خدا کے بندوں نے جو جو کٹھن امتحان پاس کیے وہ تاریخ و عزیمت کے درخشاں باب ہیں جنہیں انسانیت قیامت کے روز فخر کے ساتھ داور محشر کے روبرو پیش کر سکتی ہے۔“*(حکمتِ تبلیغ،ص۔٩٣)

آزمائشوں کی بھٹی میں تپ کر اور قربانی کی دشوار گزار گھاٹیوں کو پار کر کے عزم بالجزم کے ساتھ آگے بڑھ کر صحیح اور حقیقی معنوں میں ایک بندہ اپنے پروردگار کا”مسلم“بنتا ہے،جس کی منفرد اور بہترین مثال ہمیں حضرت ابراہیمؑ کی جدوجہد اور بیش بہا قربانیوں سے ملتی ہے۔عراق کے شہر اُر میں ایک بُت گر اور بُت پرست کے گھرانے میں جنم لینے والے اللہ رب العزت کے اس عظیم بندے کی حیات طیبہ کا ورق ورق روشن اور تابناک ہے۔انھوں نے اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کی بے چوں و چرا تعمیل کی۔اس کا ہر فرمان بجا لائے اور اپنی تمام خواہشوں کو رضائے الٰہی کا پابند بنا دیا تھا۔قرآنِ پاک نے اس چیز کو”اسلام“سے تعبیر کیا ہے:

اِذۡ قَالَ لَهٗ رَبُّهٗۤ اَسۡلِمۡ‌ۙ قَالَ اَسۡلَمۡتُ لِرَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَ۞(البقرہ:131)

*”اس کا حال یہ تھا کہ جب اس کے رب نے اس سے کہا،”مسلم ہوجا“ تو اس نے فوراً کہا”میں مالک کائنات کا”مسلم“ہو گیا۔“*

حضرت ابراہیمؑ کی پوری زندگی قربانی سے تعبیر تھی۔آپؑ کی زندگی ابتداء سے لیکر انتہا تک سراسر امتحان،ابتلاء اور آزمائش تھی۔تاہم صبر و استقلال کے اس پیکر نے اپنے پائے ثبات میں ڈگمگاہٹ نہ آنے دی اور یک رو ہو کر رب العزت کی الفت و محبت میں تمام کٹھن اور مشکل مراحل بڑی آسانی سے طے کئے۔جو داعی حق دعوت کے منہج سے واقف ہو وہ سب سے پہلے اپنے گھر میں ہی اسلام کا چراغ جلاتا ہے تاکہ کفر و شرک کے گھٹاٹوپ اندھیرے میں اس کا پورا گھر توحید کا مرکز و محور بنے۔دینِ اسلام کے چشمہ صافی سے آپؑ نے سب سے پہلے اپنے پیارے باپ آزر کو چند گھونٹ پلانے چاہے لیکن کفر و شرک کی اندھیری میں ڈوبے ہوئے اس باپ نے آپؑ کی دعوت کو نہ صرف مسترد کر دیا بلکہ انہیں سنگسار کرنے کی دھمکی دی اور اپنے گھر سے نکال بھی دیا۔حکمران وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس مردِ حُر نے استدلال کی قوت سے اسے لاجواب کر دیا لیکن واپسی میں انہوں نے اس مردِ قلندر پر قہر و ستم کے ایسے پہاڑ توڑ ڈالے کہ پتھروں کا سینہ بھی شق ہو کے رہ جاتا ہے۔وہ اس کوہِ استقامت کے عزم و ارادہ کے سامنے ناکام ہوا تو زچ ہو کر سپرد آتش کرنے کا”ڈکٹیٹرانہ“فرمان جاری کر دیا۔لیکن آپؑ ایک انچ بھی اپنے موقف سے نہ ہٹے بلکہ انہوں نے اللہ کی ذات پر غیر متزلزل یقین کا بین ثبوت پیش کیا۔یہ یقین کی قوت ہی کے کرشمے ہیں کہ بڑی سے بڑی قربانی کے وقت بھی ان کے پائے استقامت میں کبھی تزلزل نہ آیا۔آج ملتِ ابراہیمؑ کے ایک ایک فرد کو اپنے وجود کے اندر اسی یقین کو پیدا کرنے کی شدید ضرورت ہے۔علامہ اقبالؒ نے بھی بڑے ہی دردمندانہ انداز میں ذیل کے اشعار میں ہمیں اسی چیز کو پیدا کرنے کی پُرزور دعوت دی ہے؎

        *یقیں،مثلِ خلیل آتش نشینی*
        *یقیں،اللہ مستی،خود گُزینی*
        *سُن،اے تہذیبِ حاضر کے گرفتار*
        *غلامی سے بَتر ہے بے یقینی*

 اللہ تعالیٰ نے آگ کے الاؤ میں اپنے پیارے خلیلؑ کی مدد اس طرح کی کہ دھکتا ہوا الاؤ گلستان ثابت ہوا اور آپؑ بصحیح و سلامت وہاں سے نکل کر اپنے مشن کی آبیاری کے لئے تازہ دم ہوگئے۔آج ہمارے چہار جانب باطل کی یلغار ہے اور جگہ جگہ آگ کا الاؤ موجود ہے۔اللہ تعالیٰ زندہ و جاوید ہے وہ آج بھی آگ کے الاؤ کو گلستان میں بدل دینے کی قوت،طاقت اور قدرت رکھتا ہے بس شرط یہ ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کی صفات اور عزم و استقلال آج بھی کہیں موجزن ہو۔بقولِ اقبالؒ؎

     *آج بھی ہو جو براہیمؑ کا ایماں پیدا*
     *آگ کر سکتی ہے اندازِ گُلستاں پیدا*

آگ میں ڈالے جانے کی آزمائش سے سرخرو ہو جانے کے بعد حضرت ابراہیمؑ نے”اِنِّىۡ ذَاهِبٌ اِلٰى رَبِّىۡ سَيَهۡدِيۡنِ‏“ کا نعرہ حق لگا کر وطن والوں کو الوداع کہنا ہی گوارا کیا۔پھر آزمائش کا ایک ایسا شدید تر مرحلہ بھی آیا کہ تصور سے ہی چٹانوں کے دل بھی دہل کے رہ جاتے ہیں۔انہوں نے مولا کریم سے مشن کو کامیاب بنانے کے لیے مناجات کی تھی لیکن دعا کو اجابت بڑھاپے میں حضرت اسماعیلؑ کی صورت میں مل گئی۔جب یہ چلنے پھرنے کے قابل ہوئے اور اس نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو پھر”محبت“کو جانچنے کا نرالا امتحان دیکھنے کو ملا،بذریعے خواب حکم ملا کہ اسے میری راہ میں قربان کر دو۔حضرت ابراہیمؑ نفسِ مطمئنہ سے سرشار تھے لہٰذا انہوں نے خواب کو عملی جامہ پہنانے میں دیر نہ لگائی اور فوراً اپنے جگر گوشے کے پاس پہنچے تاکہ دنیا پر یہ بات آشکارا ہو جائے کہ حضرت اسماعیلؒ واقعی طور پر”حلیم“صفت سے متصف ہیں اور عزیز بیٹے نے بھی”نکتہ اعراض“اٹھایے بغیر بلا کسی ہچکچاہٹ کے اپنے پیارے باپ کو جواب دیا کہ:

يٰۤاَبَتِ افۡعَلۡ مَا تُؤۡمَرُ‌ سَتَجِدُنِىۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِيۡنَ۞(الصافات:102)

*’’ابا جان،جو کچھ آپ کو حکم دیا جا رہا ہے اسے کر ڈالیے،آپ اِنْشاءَ اللہ مجھے صابروں میں سے پائیں گے۔“*

علامہ اقبالؒ نے اسی کو فیضانِ نظر قرار دیتے ہوئے اظہارِ تحسین کیا ہے؎

*یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی*

*سِکھائے کس نے اسمٰعیلؑ کو آدابِ فرزندی*

حضرت ابراہیمؑ کا یہ آخری امتحان تھا جسے اللہ تعالیٰ نے”بلاء عظیم“یعنی کھلی آزمائش قرار دیا،ایک ایسا امتحان کہ جس کے تصور سے ہی انسان کے رونگٹھے کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن آپؑ نے دکھا دیا کہ ان کا دل اللہ کی محبت سے لبریز ہے۔ان نفوسِ قدسیہ میں سے ایک نے اپنے جذبات کی قربانی اور دوسرے نے اپنی نقدِ جان کا نذرانہ بارگہ صمدیت میں پیش فرمایا تھا۔اللہ کو ان کی یہ ادا اس قدر پسند آئی کہ قیامت تک کے لیے اسے رضائے الٰہی کا ذریعہ قرار دیا گیا۔چشمِ فلک نے پہلی بار ایسا منظر دیکھا ہوگا۔انتہائی کٹھن،صبر آزما اور ہوش ربا کام کا آغاز ہوا تو حکم ملا ابراہیمؑ بس کرو کیونکہ:

قَدۡ صَدَّقۡتَ الرُّءۡيَا اِنَّا كَذٰلِكَ نَجۡزِى الۡمُحۡسِنِيۡنَ۞(الصافات:105)

*”تو نے خواب سچ کر دکھایا۔ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔“*

اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کو مختلف قسم کی آزمائشوں میں ڈال کر جب ہر لمحہ اور ہر آن اسے اپنا وفادار بندہ پایا تو بالاٰخر انہیں رہتی دنیا تک کے لیے امام بنا دیا۔قرآن کہتا ہے:

وَاِذِ ابۡتَلٰٓى اِبۡرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَمَّهُنَّ ‌ؕ قَالَ اِنِّىۡ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا۔(البقرہ:124)

*”یاد کرو کہ جب ابرہیمؑ کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا اور وہ اُن سب میں پورا اتر گیا،تو اس نے کہا:”میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں“۔*

حضرت ابراہیمؑ نے دینِ اسلام میں ہر قسم کی قربانی دے کر ہی خلعت کا مقام حاصل کیا۔اس کے برعکس آج ہم نام نہاد مسلمان نہ جانے کتنی تعداد میں جانوروں کو قربان کرتے ہیں اور ان کے جذبہ قربانی کا ذکر کرتے ہوئے نہیں تھکتے ہیں لیکن ان کی مبارک زندگی سے سبق لینے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج ہمارا معاشرہ گوناگوں برائیوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ہر طرف ظلم و ستم کی اندھیری رات اپنی تاریکی اور سیاہی کی چادر بچھائی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ہم اسلام کی تعلیمات سے کوسوں دور ہو چکے ہیں۔اللہ کے دین کی سراسر خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔برائیوں اور منکرات کی بڑے پیمانے پر ترویج و اشاعت ہو رہی ہے۔یہ سب کچھ ہمارے سامنے ہو رہا ہے اور ہم ہیں کہ چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ہم نہی عن المنکر کے فریضے کو چھوڑ کر اپنا نام تماشہ بین گروپ میں شمار کرنے کے خواہاں ہیں۔اللہ کے احکامات کی کھلم کھلا پامالی ہو رہی ہے اور ہمیں اس کی چنداں فکر ہی نہیں ہے۔دین و دنیا کی سعادت کے لیے ہمیں اس روش کو یکسر بدلنا ہوگا۔اسلام کی دعوت قربانی چاہتی ہے اور قربانی سے ہی دین غالب ہوگا،جو کہ ملتِ ابراہیمؑ کے ایک ایک فرد کا مقصدِ وحید ہونا چاہیئے۔آج دورِ براہیمی ہی کی طرح دین قربانی کا طالب ہے،اس حوالے سے ماضی قریب کے ایک جید عالمِ دین مولانا سید جلال الدین عمری صاحبؒ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ:

*”آج اللہ کا دین بے حد مظلوم ہے۔وہ آپ کی نصرت چاہتا ہے۔وہ آپ کی عمدہ صلاحیتیں چاہتا ہے۔وہ آپ کا بہترین وقت اور مال چاہتا ہے۔وہ آپ کی نیند،آپ کی راحت اور آپ کا سکون چاہتا ہے۔وہ دن بڑا مبارک دن ہوگا جب کہ ہم دین کے اس مطالبہ کو پورا کرنے کا فیصلہ کریں گے۔وقت تیزی سے گزر رہا ہے اور موت ہر اس شخص کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔نہیں معلوم کل جو سورج طلوع ہونے والا ہے وہ ہم میں سے کس کو کہنے اور کس کو سننے کے لیے باقی رکھے۔خوش نصیب ہے وہ جو اپنے آج کو کل کے انتظار میں ضائع نہ کرے اور اس سے پہلے کہ موت اس سے فیصلہ کا حق چھین لے،دین کی حمایت و نصرت کے لیے کھڑا ہو جائے۔“*(اسلام کی دعوت،ص ٢٨١)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں دینِ اسلام کی راہ میں تن،من،دھن قربان کرنے کی توفیق دے،ہمارے اوپر صبر کا فیضان انڈیل دے،تادمِ واپسی ہمیں استقامت کے زیور سے نوازئے اور بالاٰخر ہمارا خاتمہ اسلام ہی پر کر دے آمین یا رب العٰلمین۔

Comments