Worldly Benefits And Fruits Of Piety


 تقویٰ قرآن کی وسیع المعنیٰ اصطلاحات میں سے ایک ہے۔تقویٰ کو محدود معنیٰ میں لینا ایک حماقت ہے،جسے کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ماضی میں جن لوگوں نے لفظِ تقویٰ کے ساتھ زیادتی کی وہ خود بھی دینِ حق سے کوسوں دور ہو گئے۔لفظِ تقویٰ کے ساتھ انصاف یہی ہے کہ اسے اپنا مقام دے دیا جائے۔قرآنِ پاک کے الفاظ حالات کے محتاج نہیں ہوتے ہیں بلکہ وہ مستقل اپنی ایک الگ شناخت رکھتے ہیں۔جو لفظ حضراتِ انبیاء کرامؑ کی ساری دعوت و تلقین کا محور و مرکز رہا ہو اسے مصنوعی معنی کا جامہ پہنانا جاہلوں ہی کا کام ہو سکتا ہے۔دورِ حاضر میں لفظِ تقویٰ کو اپنی اصل شکل میں پیش کرنا انتہائی دشوار معلوم ہوتا ہے لیکن داعیِ حق کا کام یہی ہے کہ وہ گُھپ اندھیروں میں حق کا چراغ جلاتا رہے۔تقویٰ ایک بیش بہا صفت ہے اور اس سے بڑھ کر یہ ساری مطلوبہ صفات کی جامع ہے۔تقویٰ سارے دین کی روح اور جڑ ہے۔تقویٰ ایک نور ہے،جو انسان کے سارے وجود کو منور کر دیتا ہے اور ساتھ میں انسان اس کی روشنی میں اپنا سفرِ حیات طے کرتا ہے۔تقویٰ ایک بیج کے مانند ہے،جس سے اسلام کا شجرِ طیب پھوٹتا اور برگ و بار لاتا ہے۔جب وہ پھیلتا ہے تو معاشرے کے ہر فرد کو سایہ،ٹھنڈک اور سکون ملتا ہے۔

   تقویٰ یہ ہے کہ انسان کی خواہشات اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تابع ہو جائیں اور وہ اپنی ساری زندگی کے اثاثے کو خدا کی راہ میں لگا کر بھی یہ خوف دامن گیر رکھے کہ حقِ نعمت ادا نہ ہوا۔تقویٰ یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی کا کوئی واضح مقصد رکھے۔تقویٰ یہ کہ انسان اس پُرکشش دنیا کے اندر رہ کر دنیا کے جملہ معاملات کے برے اثرات سے بچنے کا ہنر جانتا ہو۔تقویٰ یہ ہے کہ انسان اپنے رب کی خاطر دنیا کے کسی بھی مزے کو اللہ حافظ کہنے اور طلاقِ مغلظہ دینے کے لئے ہر دم تیار ہو۔تقویٰ یہ ہے کہ انسان رزمِ حق و باطل میں پہاڑ کی طرح جما رہے۔تقویٰ یہ ہے کہ انسان کو خدائے بزرگ و برتر کی صفتِ قہاری کے تصور سے ہی لرزہ طاری ہونے لگے۔تقویٰ یہ ہے کہ انسان زبان پر حرفِ شکایت لائے بغیر ہی اللہ کے فیصلوں پر راضی رہے۔تقویٰ یہ ہے کہ انسان کی پوری زندگی معصیت سے پاک ہو اور ہر قدم پر اطاعت کا مظاہرہ ہو۔تقویٰ یہ ہے کہ انسان کے دل و دماغ میں اللہ تعالیٰ کی ہستی کا یقین پیوست ہو چکا ہو۔تقویٰ یہ ہے کہ انسان کھلی آنکھوں کے ساتھ دینِ مبین کی روشنی میں صراطِ مستقیم پر گامزن رہے۔تقویٰ یہ ہے کہ انسان زندگی سے فرار کے بجائے کارزارِ حیات میں اللہ تعالیٰ کی مرضی پوری کرے۔تقویٰ یہ ہے کہ انسان ظاہر سے زیادہ اخلاص اور حسنِ عمل کو اہمیت دے۔تقویٰ یہ ہے کہ اللہ کے دین نے جس عمل کو جو اہمیت دی ہے اسے انسان اسی اہمیت کے ساتھ زندگی میں جگہ دے۔تقویٰ یہ ہے کہ انسان  دین کو اس کی کامل شکل میں قبول کرے۔تقویٰ یہ ہے کہ انسان کی زندگی کفر و شرک سے،فسق و فجور سے اور ظلم و زیادتی سے پاک ہو۔تقویٰ یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے خلاف انسان کوئی قدم نہ اٹھائے اور جو قدم دانستہ یا نادانستہ اٹھ گیا ہو اسے واپس لے۔تقویٰ یہ ہے کہ انسان سچے اور راست باز لوگوں کا ہر لمحہ اور ہر آن ساتھ دے۔تقویٰ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں اور باغیوں،اس کے دین دشمنوں اور منافقوں سے کنارہ کشی اختیار کرے۔تقویٰ یہ ہے کہ انسان کا سینہ حمیتِ جاہلیہ سے پاک ہو۔تقویٰ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دین اور شریعت کے مطابق جو کام انجام پائے اس میں انسان کھلے دل کے ساتھ تعاون کرے۔تقویٰ یہ ہے کہ انسان مسلمانوں کے شیرازہ کو مستحکم کرے،ان کے اختلافات کو بھائیوں کے اختلافات سمجھ کر حل کرے اور انھیں خونی رشتوں کی طرح مل جل کر رہنے کی تعلیم دے۔تقویٰ یہ ہے کہ انسان ہر خوف و خطر سے بے نیاز ہو کر حق کی تبلیغ کرے اور اللہ تعالیٰ کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچائے۔تقویٰ یہ ہے کہ انسان حق کی راہ میں جدوجہد اور جان لڑانے کے لیے آمادہ ہو۔تقویٰ یہ ہے کہ انسان کو آخرت کی کامیابی زندگی کا مطلوب بن جائے۔تقویٰ یہ ہے کہ مواقع حاصل ہونے کے باوجود انسان اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچا رہے۔تقویٰ یہ ہے کہ انسان نیکیوں کے ساتھ ساتھ تواضع اور خاکساری کا مظاہرہ کرے۔تقویٰ یہ ہے کہ انسان کی شخصیت میں ایک طرح کا نکھار پیدا ہو،زندگی میں طہارت اور پاکیزگی آجائے اور سیرت و کردار میں اس قدر جلا پیدا ہو کہ پورا ماحول جگمگانے لگے۔المختصر کہ جب دین ہماری پوری زندگی سے متعلق ہے تو تقویٰ بھی زندگی کے ہر شعبے میں نمایاں ہونا چاہیے۔

 جو لوگ تقویٰ کی صفت سے متصف ہوں انہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دنیا اور آخرت کی ساری بھلائیوں کی ضمانت دی ہے۔چونکہ تقویٰ اختیار کرنے کے نتیجے میں نازل ہونے والی برکات کا تعلق دنیا و آخرت دونوں سے ہے،لہٰذا آئندہ سطور میں پہلے ہم دنیا میں تقویٰ اختیار کرنے سے حاصل ہونے والے فوائد اور ثمرات کا تذکرہ کریں گے۔

*(1)۔معاملات میں آسانی*

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَمَنۡ يَّـتَّـقِ اللّٰهَ يَجۡعَلْ لَّهٗ مِنۡ اَمۡرِهٖ یُسْرًا۞(الطلاق:4)

*”جو شخص اللہ سے ڈرے اُس کے معاملہ میں وہ سہولت پیدا کر دیتا ہے۔“*

آیت کے آخر میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرے یعنی اس سے ڈرتا رہے تو اللہ تعالیٰ اس کے کام میں آسانی پیدا فرما دیتا ہے۔ قرآن کریم چونکہ کتابِ اصلاح ہے محض خشک قانون کی کتاب نہیں جسے بالجبر نافذ کیا جاتا ہے۔اس لیے اللہ تعالیٰ جب قانونی احکام کو بیان فرماتے ہیں تو ساتھ ہی ساتھ بشارتوں سے بھی نوازتے ہیں۔لیکن اس کے لیے تقویٰ کو لازمی شرط کے طور پر بار بار بیان کرتے ہیں۔ کیونکہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے احکام پر اللہ تعالیٰ سے ڈر کر اور اسی سے اجر و ثواب کی امید پر اور اسی کی خوشنودی کے حصول کے لیے عمل کرتا ہے تو اسے عمل میں دشواری پیش نہیں آتی اور اگر کوئی دشواری ہو بھی تو وہ اخلاص عمل کی وجہ سے سہل ہوجاتی ہے۔اور اس کے عمل کی برکت سے جب نصرت و تائید نازل ہوتی ہے تو اس سے تمام مشکلات آسان ہوجاتی ہیں۔ان احکام میں چونکہ پابندیاں بھی ہیں اور مصارف کا بار بھی،جو یقیناً طبیعتوں پر گراں ہوتا ہے۔اس لیے ایسی بشارتیں بھی دی جارہی ہیں جن سے حوصلے جوان ہوتے ہیں اور عمل کی خواہش امنگ کی صورت اختیار کر جاتی ہے۔(روح القرآن)

*(2)۔دشمنوں کی کارستانیوں سے نجات*

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَاِنۡ تَصۡبِرُوۡا وَتَتَّقُوۡا لَا يَضُرُّكُمۡ كَيۡدُهُمۡ شَيۡــئًا اِنَّ اللّٰهَ بِمَا يَعۡمَلُوۡنَ مُحِيۡطٌ۞(آل عمران:120)

*”اگر تم صبر اور تقوی سے کام لو تو ان کی چالیں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گی۔جو کچھ یہ کر رہے ہیں وہ سب اللہ کے (علم اور قدرت کے) احاطے میں ہے۔“*

مسلمانوں کی فتح و کامیابی اور تمام مشکلات میں آسانی کا راز صبر اور تقوی کی دو صفتوں میں مضمر ہے۔قرآن کریم نے مسلمانوں کو ہر قسم کے مصائب اور پریشانیوں سے محفوظ رہنے کے لئے صبر و تقویٰ کو صرف اسی آیت میں نہیں بلکہ دوسری آیات میں بھی ایک مٶثر علاج کی حیثیت سے بیان فرمایا،اسی رکوع کے بعد دوسرے رکوع میں ہے بلی ان تصبروا و تتقوا و یاتوکم من فورھم ھذا یمددکم ربکم بخمسۃ الاف من الملئکۃ مسومین۔(3:125)اس میں امداد غیبی کا وعدہ انہی دو شرطوں یعنی صبر و تقویٰ پر موقوف رکھا گیا ہے،سورة یوسف میں فرمایا انہ من یتق و یصبر۔(12:90)اس میں بھی فلاح و کامیابی صبر و تقویٰ کے ساتھ وابستہ بتلائی گئی ہے،اسی سورة کے ختم پر صبر کی تلقین ان الفاظ میں کی جا رہی ہے یایھا الذین امنوا اصبروا و صابروا ورابطوا واتقوا اللہ لعلکم تفلحون۔(3:200) اس میں بھی فلاح و کامیابی کو صبر و تقویٰ پر معلق کیا گیا ہے۔صبر و تقویٰ مختصر عنوان کے اندر انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر شعبہ عوامی اور فوجی نظم و نسق کا ایک کامیاب ضابطہ بڑی جامعیت کے ساتھ آگیا۔حضرت خاتم الانبیاءﷺ کا ارشاد گرامی ہے عن ابی ذر قال قال رسول اللہ ﷺ انی لاعلم ایۃ لواخذ الناس بھا لکفتھم ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا الایۃ۔(65:2) (رواہ احمد)”رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میں ایک ایسی آیت جانتا ہوں کہ اگر لوگ اس پر عمل اختیار کرلیں تو ان کے دین و دنیا کے لئے وہی کافی ہے وہ آیت یہ ہے ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا۔یعنی جو شخص اللہ سے ڈرے اللہ تعالیٰ اس کے لئے راستہ نکال دیتے ہیں“۔(معارف القرآن)

*(3)۔ایسی جگہ سے رزق کا ملنا جس کا انسان کو وہم و گمان بھی نہ ہو*

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

 وَمَنۡ يَّـتَّـقِ اللّٰهَ يَجۡعَلْ لَّهٗ مَخۡرَجًا۞وَّيَرۡزُقۡهُ مِنۡ حَيۡثُ لَا يَحۡتَسِبُ‌۞(الطلاق: 3۔2)

*”جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اُس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کر دے گا۔اور اُسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اُس کا گمان بھی نہ جاتا ہو۔“*

 اللہ کے تقویٰ کا مقام و مرتبہ واضح کرنے کا یہ بہت حسین اور دلکش انداز ہے اور اس اعتبار سے یہ قرآن مجید کا منفرد مقام ہے۔ یہاں پر ایک اہم نکتہ یہ سمجھ لیں کہ حقیقی تقویٰ دل کا تقویٰ ہے،جس کے بارے میں حضور ﷺ نے ایک مرتبہ اپنے دست مبارک سے اپنے سینہ مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:اَلتَّقْوٰی ھٰھُنَا،اَلتَّقْوٰی ھٰھُنَا،اَلتَّقْوٰی ھٰھُنَا کہ اصل تقویٰ یہاں دل کے اندر ہوتا ہے۔آپ ﷺ نے یہ بات تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔اس کا مطلب یہ ہے کہ تقویٰ کا براہ راست تعلق انسان کے دل کے ساتھ ہے۔اگر دل میں تقویٰ نہیں تو ّجبہ و دستار کا اہتمام اور متقیانہ وضع قطع کی حیثیت بہروپ سے زیادہ کچھ نہیں۔چناچہ اس آیت میں اہلِ تقویٰ کو بہت بڑی بشارت سنائی جا رہی ہے کہ اگر کسی بندہ مومن کا تقویٰ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں مقبول و منظور ہوا تو اس کے لیے مشکل سے مشکل صورت حال سے نکلنے کا کوئی نہ کوئی راستہ ضرور پیدا کر دیا جائے گا،جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے نکلے تو فرعون نے انہیں ساحل سمندر پر جا لیا۔اب آگے سمندر تھا اور پیچھے فرعون کا لشکر۔بظاہر بچ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا،مگر اللہ تعالیٰ نے سمندر کو پھاڑ کر ان کے لیے راستہ پیدا کردیا۔ 

 اسی طرح جب حضورﷺ غارِ ثور میں تشریف فرما تھے تو مشرکین مکہ میں سے کچھ لوگ آپﷺ کے کھوج میں غار کے دہانے پر پہنچ گئے تھے۔انہیں دیکھ کر حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ حضورﷺ!اگر ان لوگوں نے نیچے اپنے قدموں کی طرف بھی دیکھ لیا تو ہم انہیں نظر آجائیں گے۔حضورﷺ نے حضرت ابوبکر رض کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا:{لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا}(التوبۃ:40) کہ آپ فکر مت کریں،اللہ ہمارے ساتھ ہے!اس موقع پر بھی اللہ تعالیٰ نے ایسی صورت حال پیدا فرما دی کہ مشرکین آپ ﷺ کو نہ دیکھ سکے۔حضورﷺ کے سفر طائف کی مثال لیں تو بظاہر وہاں سے آپﷺ خالی ہاتھ واپس آئے تھے،لیکن اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کے لیے مدینہ سے کھڑکی کھول دی اور ایسے حالات پیدا فرما دیے کہ آپﷺ کے مدینہ تشریف لے جانے سے پہلے ہی وہاں انقلاب آگیا۔یہ مثالیں گواہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ مشکل سے مشکل حالات میں بھی اپنے متقی بندوں کے لیے ضرور”مخرج“پیدا فرماتا ہے۔چناچہ اقامت دین کی جدوجہد میں مصروف اہلِ ایمان کے لیے آیت زیرِ مطالعہ کے ان الفاظ میں یہ خوشخبری ہے کہ وہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے اپنی کوششیں پورے خلوص سے جاری رکھیں۔جب اللہ تعالیٰ کو ان کوششوں کی کامیابی منظور ہوگی تو حیرت انگیز طریقے سے منزل خود چل کر ان کے سامنے آجائے گی۔

آیت{ وَّیَرْزُقْـہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ }”اور اسے وہاں سے رزق دے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوگا۔“

 اس دنیا میں رہتے ہوئے انسان کا سب سے بڑا مسئلہ رزق یعنی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کا ہے۔اس لیے جب کوئی اللہ کا بندہ اپنے دل کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے فرمانِ الٰہی:{اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔}کو اپنا نصب العین بنانا چاہتا ہے تو اس کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ یہ اندیشہ بنتا ہے کہ ضروریاتِ زندگی کیسے پوری ہوں گی؟چناچہ اس حوالے سے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان اہلِ ایمان کے لیے بہت بڑی خوشخبری ہے کہ اے میرے بندو! تمہارا رازق تو میں ہوں اور تمہیں رزق دینے کے لیے میں وسائل و اسباب کا محتاج نہیں ہوں۔تم لوگ ایمان و یقین کے ساتھ مجھ پر اعتماد کرکے دیکھو،میں تمہیں وہاں سے رزق دوں گا جہاں سے تمہیں گمان بھی نہیں ہوگا۔(بیان القرآن)

*(4)۔غم و الم سے نجات کا ملنا*

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَمَنۡ يَّتَوَكَّلۡ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسۡبُهٗ ؕ۞(الطلاق:3)

*”اور جو کوئی اللہ پر توکل کرتا ہے تو اس کے لیے وہ کافی ہے۔“*

 جو شخص اللہ تعالیٰ پر توکل کر کے اپنے معاملات اس کے سپرد کر دیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی ضروریات و حاجات کو اپنے ذمہ لے لیتا ہے۔اسی بات کو کسی شاعر نے اس طرح بیان کیا ہے:؎

               *کار ساز ما بہ فکرِکارِ ما*
               *فکر ِما در کار ما آزار ما!*

کہ ہمارا کارساز تو اللہ ہے،اور وہ ہمارے کاموں کی فکر میں مصروف ہے،اس لیے ہم اپنے کاموں کی فکر کے جھنجھٹ میں کیوں پڑیں!ظاہر ہے اگر ہم خود اپنے کاموں کی فکر کریں گے تو غلطیاں بھی کریں گے،نقصان بھی اٹھائیں گے اور ٹھوکریں بھی کھائیں گے،تو کیوں نہ ہم اپنے کام اسے سونپ کر خود کو اس کے کام اقامت دین کی جدوجہد میں لگا دیں۔اللہ تو ایسا قدردان ہے کہ اگر اس کا کوئی بندہ اپنے مسلمان بھائی کی مدد کرتا ہے تو وہ بدلے میں اس کا مددگار بن جاتا ہے۔حضورﷺ کا فرمان ہے:مَنْ کَانَ فِیْ حَاجَۃِ اَخِیْہِ کَانَ اللّٰہُ فِیْ حَاجَتِہٖ کہ جو کوئی اپنے مسلمان بھائی کی کوئی ضرورت پوری کرنے میں اپنا وقت صرف کرتا ہے تو اللہ اس کی ضرورتیں پوری کرنے میں لگ جاتا ہے۔تو اگر اللہ کا کوئی بندہ اپنی ذاتی ترجیحات کو پسِ پشت ڈال کر خود کو براہ راست اللہ تعالیٰ کے کام میں لگا دے گا تو کیا اللہ اس کے معاملات کو خراب ہونے کے لیے چھوڑ دے گا؟ہرگز نہیں!ایسا تو دنیا میں ہم انسانوں کے ہاں بھی نہیں ہوتا،بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس انسان میں تھوڑی سی بھی شرافت اور مروت ہوتی ہے وہ دوسرے انسان کی وفاداری کا بدلہ ضرور چکاتا ہے۔چناچہ جب ایک انسان بھی دوسرے انسان کی وفاشعاری کا صلہ دینا ضروری سمجھتا ہے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ایک وفاشعار اور متوکل بندے کی کس کس انداز سے دست گیری فرمائے گا۔یاد رکھیں!توکل کا تعلق بندے کے ایمان سے ہے۔جس قدر گہرا اور پختہ کسی کا ایمان ہوگا،اسی قدر مضبوط اس کا توکل ہوگا۔آج ہمارے لیے اللہ تعالیٰ پر بھرپور توکل کرنا اس لیے مشکل ہے کہ ہمارا ایمان کمزور ہے۔تو آیئے!ہم اپنا ایمان مضبوط کر کے اللہ پر توکل کریں۔اپنے معاملات کی منصوبہ بندیوں کا درد سر مول لینے کے بجائے تفویض الامر الی اللّٰہ کی حکمت عملی اپنائیں۔اپنے معاملات اس کے سپرد کردیں اور اس کے کام کو اپناکام سمجھ کر اس کے لیے اپنا تن من دھن کھپا دیں!{ وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْٓ اِلَی اللّٰہِط اِنَّ اللّٰہَ بِصِیْرٌج بِالْعِبَادِ۔}(بیان القرآن)

*(5)۔برکات کا نزول*

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَلَوۡ اَنَّ اَهۡلَ الۡقُرٰٓى اٰمَنُوۡا وَاتَّقَوۡا لَـفَتَحۡنَا عَلَيۡهِمۡ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَالۡاَرۡضِ وَلٰـكِنۡ كَذَّبُوۡا فَاَخَذۡنٰهُمۡ بِمَا كَانُوۡا يَكۡسِبُوۡنَ‏ ۞(الاعراف96)

*”اور اگر یہ بستیوں والے ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر کھول دیتے آسمانوں اور زمین کی برکتیں لیکن انہوں نے جھٹلایا تو ہم نے ان کو پکڑ لیا ان کے کرتوتوں کی پاداش میں۔“*

برکت کی جمع برکات ہے جب اللہ تعالیٰ کسی چیز میں برکت پیدا فرماتا ہے تو وہ چیز تعداد اور مقدار میں تھوڑی ہونے کے باوجود آدمی کو کفایت کر جاتی ہے۔اور انسان اس پر مطمئن ہوتا ہے۔اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی کی عمر میں برکت ڈال دی جائے تو وہ تھوڑی مدت میں وہ کار ہائے نمایاں سر انجام دے پاتا ہے کہ لوگ اس سے مدت تک استفادہ کرتے ہیں۔خورد و نوش میں برکت ڈال دی جائے تو آدمی کے لیے پانی کے چند گھونٹ اور خوراک کے چند لقمے ہی کافی ہوتے ہیں۔لیکن جب برکت اٹھالی جائے تو پیٹ بھر کھانے کے باوجود طبیعت سیر نہیں ہوتی اور انواع و اقسام کے کھانے بھی اس کی قوت و توانائی میں اضافہ نہیں کرتے۔جب برکت اٹھ جاتی ہے تو بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ گھر میں سب کچھ ہونے کے باوجود نہ ہونے کا احساس ہوتا ہے۔اور ہر نعمت میسر ہونے کے باوجود انسان اس سے اس لیے استفادہ نہیں کرسکتا کہ وہ چیزیں استعمال کرنے سے اس کی صحت مزید بگڑنے کا اندیشہ ہوتا ہے گویا کہ کسی چیز سے برکت اٹھالی جائے تو انسان اسے محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔آج دنیا کی غالب اکثریت اسی حالت سے دو چار ہے۔کھیت سرسبز و شاداب،فیکٹریاں دن رات ٹھک ٹھک چل رہی ہیں،ذرائع مواصلات پہلے سے کہیں زیادہ اور ہر چیز کی فراوانی ہے لیکن انسان روحانی اور جسمانی اعتبار سے اپنے ہی آپ میں کھویا ہوا،مضطرب اور پریشان دکھائی دیتا ہے۔اس لیے سرور دوعالمﷺ کھانا کھانے کے بعد اور مختلف مواقعوں پر اللہ تعالیٰ سے برکت کی دعا فرمایا کرتے تھے۔(فہم القرآن)

*(6)۔اصلاحِ اعمال*

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَقُوۡلُوۡا قَوۡلًا سَدِيۡدًا۞يُّصۡلِحۡ لَـكُمۡ اَعۡمَالَـكُمۡ وَيَغۡفِرۡ لَـكُمۡ ذُنُوۡبَكُمۡؕ وَمَنۡ يُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ فَقَدۡ فَازَ فَوۡزًا عَظِيۡمًا۞(الاحزاب:71۔70)

*”اے ایمان لانے والو،اللہ سے ڈرو اور ٹھیک بات کیا کرو

اللہ تمہارے اعمال درست کر دے گا اور تمہارے قصوروں سے درگزر فرمائے گا جو شخص اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرے اُس نے بڑی کامیابی حاصل کی۔“*

 اللہ تبارک و تعالیٰ اہل ایمان کو حکم دیتا ہے کہ وہ کھلے چھپے،اپنے تمام احوال میں تقویٰ کا التزام کریں اور درست بات کہنے پر خاص طور پر زور دیا ہے(القول السدید) اس قول کو کہتے ہیں جو صحیح اور حق کے موافق یا اس کے قریب تر ہو،مثلاً قرأت قرآن،ذکر الٰہی،نیکی کا حکم دینا،برائی سے روکنا،علم کا سیکھنا پھر اس کی تعلیم دینا،علمی مسائل میں حق و صواب کے حصول کی حرص،ہر اس راستے پر گامزن ہونے کی کوشش کرنا جو حق تک پہنچتا ہو اور وہ وسیلہ اختیار کرنا جو حق کے حصول میں مددگار ہو۔لوگوں کے ساتھ بات چیت کرنے میں نرم اور لطیف کلام بھی قول سدید کے زمرے میں آتا ہے،کوئی ایسی بات کہنا جو خیر خواہی کو متضمن ہو،یا کسی درست تر امر کا مشورہ دینا یہ سب قول سدید میں داخل ہیں۔

پھر اللہ تعالیٰ نے ان امور کا ذکر فرمایا جو تقویٰ اور قول سدید پر مترتب ہوتے ہیں،لہٰذا فرمایا:(یصلح لکم اعمالکم)”اللہ تعالیٰ تمہارے کام سنوار دے گا۔“یعنی تقویٰ اعمال کی اصلاح کا سبب اور ان کی قبولیت کا ذریعہ ہے کیونکہ تقویٰ کے استعمال ہی سے اعمال اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبولیت کا شرف پاتے ہیں،جیسا کہ فرمایا:(انما یتقبل اللہ من المتقبین) (المائدہ:28/5)”اللہ تعالیٰ صرف متقین ہی کا عمل قبول فرماتا ہے۔“

 تقویٰ کے وجود سے انسان کو عمل صالح کی توفیق عطا ہوتی ہے،تقویٰ ہی کی بنا پر اللہ تعالیٰ اعمال کی اصلاح کرتا ہے اور ان کے ثواب کی مفاسد سے حفاظت کرتا ہے اور ثواب کو کئی گنا زیادہ کرتا ہے اسی طرح تقویٰ اور قول سدید میں خلل اور فساد اعمال،ان کی عدم قبولیت اور ان کے اثرات مترتب نہ ہونے کا سبب بنتا ہے۔(تفسیر السعدی)

*(7)۔حق و باطل میں تمیز*

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ تَتَّقُوا اللّٰهَ يَجۡعَلْ لَّـكُمۡ فُرۡقَانًا وَّيُكَفِّرۡ عَنۡكُمۡ سَيِّاٰتِكُمۡ وَيَغۡفِرۡ لَـكُمۡ‌ؕ وَ اللّٰهُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِيۡمِ۞(الانفال:29)

*”اے ایمان لانے والو،اگر تم خدا ترسی اختیار کرو گے تو اللہ تمہارے لیے کسوٹی بہم پہنچا دے گا اور تمہاری بُرائیوں کو تم سے دور کرے گا،اور تمہارے قصور معاف کرے گا۔اللہ بڑا فضل فرمانے والا ہے۔“*

کسوٹی اس چیز کو کہتے ہیں جو کھرے اور کھوٹے کے امتیاز کو نمایاں کرتی ہے۔یہی مفہوم”فرقان“کا بھی ہے اسی لیے ہم نے اس کا ترجمہ اس لفظ سے کیا ہے۔ارشاد الہٰی کا منشا یہ ہے کہ اگر تم دنیا میں اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرو تو تمہاری دلی خواہش یہ ہو کہ تم سے کوئی ایسی حرکت سر زد نہ ہونے پائے جو رضائے الہٰی کے خلاف ہو،تو اللہ تعالیٰ تمہارے اندر وہ قوت تمیز پیدا کردے گا جس سے قدم قدم پر تمہیں خود یہ معلوم ہوتا رہے گا کہ کونسا رویہ صحیح ہے اور کونسا غلط، کس رویہ میں خدا کی رضا ہے اور کس میں اس کی ناراضی۔زندگی کے ہر موڑ،ہر دورا ہے،ہر نشیب اور ہر فراز پر تمہاری اندرونی بصیرت تمہیں بتانے لگے گی کہ کدھر قدم اٹھانا چاہیے اور کدھر نہ اٹھانا چاہیے،کونسی راہ حق ہے اور خدا کی طرف جاتی ہے اور کونسی راہ باطل ہے اور شیطان سے ملاتی ہے۔(تفہیم القرآن)

*(8)۔گناہوں کے معاف ہونے کی بشارت اور خطاٶں کی پردہ پوشی*

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ تَتَّقُوا اللّٰهَ يَجۡعَلْ لَّـكُمۡ فُرۡقَانًا وَّيُكَفِّرۡ عَنۡكُمۡ سَيِّاٰتِكُمۡ وَيَغۡفِرۡ لَـكُمۡ‌ؕ وَ اللّٰهُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِيۡمِ۞(الانفال:29)

*”اے ایمان لانے والو،اگر تم خدا ترسی اختیار کرو گے تو اللہ تمہارے لیے کسوٹی بہم پہنچا دے گا اور تمہاری بُرائیوں کو تم سے دور کرے گا، اور تمہارے قصور معاف کرے گا۔اللہ بڑا فضل فرمانے والا ہے۔“*

 بندے کا اپنے رب سے تقویٰ اختیار کرنا سعادت کا عنوان اور فلاح کی علامت ہے۔اللہ تعالیٰ نے دنیا و آخرت کی بہت سی بھلائیوں کا دارومدار تقویٰ پر رکھا ہے۔پس اللہ تعالیٰ نے یہاں بیان فرمایا ہے کہ جو کوئی اس سے ڈرتا ہے اسے چار چیزیں عطا ہوتی ہیں اور ان میں سے ہر چیز دنیا و ما فیہا سے کہیں بہتر ہے۔

 (١) اللہ تعالیٰ صاحب تقویٰ مومن کو’فرقان‘عطا کرتا ہے۔فرقان سے مراد علم و ہدیات ہے جس کے ذریعے سے وہ ہدایت اور گمراہی،حق اور باطل،حلال اور حرام،خوش بخت اور بدبخت لوگوں کے درمیان امتیاز کرتا ہے۔

 (٢،٣) برائیوں کو مٹانا اور گناہوں کو بخش دینا۔اطلاق اور اجتماع کے وقت یہ دونوں امور ایک دوسرے میں داخل ہیں۔(السینات) برائیوں کے مٹانے کی تفسیر گناہ صغیرہ ہے اور(الذنوب)گناہوں و بخش دینے کی تفسیر کبیرہ گناہوں کو مٹا دینے سے کی جاتی ہے۔

(٤) وہ شخص جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اور اپنی خواہش نفس پر اللہ تعالیٰ کی رضا کو ترجیح دیتا ہے،سا کے لئے بہت بڑا اجر اور بےپایاں ثواب ہے۔(واللہ ذوالفضل العظیم)”اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل کا مالک ہے۔“(تفسیر السعدی)

*(9)۔اولاد کی حفاظت*

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَلۡيَخۡشَ الَّذِيۡنَ لَوۡ تَرَكُوۡا مِنۡ خَلۡفِهِمۡ ذُرِّيَّةً ضِعٰفًا خَافُوۡا عَلَيۡهِمۡ  ۖفَلۡيَتَّقُوا اللّٰهَ وَلۡيَقُوۡلُوا قَوۡلًا سَدِيۡدًا‏۞(النسآء:9)

*”لوگوں کو اس بات کا خیال کر کے ڈرنا چاہیے کہ اگر وہ خود اپنے پیچھے بے بس اولاد چھوڑتے تو مرتے وقت انہیں اپنے بچوں کے حق میں کیسے کچھ اندیشے لاحق ہوتے پس چاہیے کہ وہ خدا کا خوف کریں اور راستی کی بات کریں۔“*

 ارشاد اصل میں تو یتیم کے ولی اور وصی کے لئے ہے درجہ بدرجہ اوروں کو بھی اس کا خیال رہے مطلب یہ ہے کہ اپنے مرنے کے بعد جیسا ہر کوئی اس بات سے ڈرتا ہے کہ میری اولاد کے ساتھ سختی اور برائی سے معاملہ کیا جائے ایسا ہی تم کو بھی ساتھ وہ معاملہ کرو جو اپنے بعد اپنی اولاد کے ساتھ پسند کرتے ہو اور اللہ سے ڈرو اور یتیموں سے سیدھی اور اچھی بات کہو،یعنی جس سے ان کا دل نہ ٹوٹے اور ان کا نقصان نہ ہو بلکہ ان کی اصلاح ہو۔(تفسیر عثمانی)

*(10)۔دنیا میں افضل ترین انسان ہونے کی گارنٹی*

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقۡنٰكُمۡ مِّنۡ ذَكَرٍ وَّاُنۡثٰى وَجَعَلۡنٰكُمۡ شُعُوۡبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوۡا‌ ؕ اِنَّ اَكۡرَمَكُمۡ عِنۡدَ اللّٰهِ اَ تۡقٰٮكُمۡ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيۡمٌ خَبِيۡرٌ۞(الحجرات:13)

*”لوگو،ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزّت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔یقیناً اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔“*

موجودہ دور میں قوم،وطن،نسل،رنگ اور زبان یہ پانچ خدا یا معبود بنا لئے گئے ہیں۔انہی میں سے کسی کو بنیاد قرار دے کر پوری انسانیت کو کئی گروہوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔جو آپس میں ہر وقت متحارب اور ایک دوسرے سے لڑتے مرتے رہتے ہیں۔کسی کو قومیت پر ناز ہے کہ وہ مثلاً جرمن یا انگریز قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔کوئی سفید رنگ کی نسل ہونے پر فخر کرتا ہے۔کوئی سید اور فاروقی یا صدیقی ہونے پر ناز کرتا ہے۔گویا ان چیزوں کو تفاخر و تنافر کا ذریعہ بنادیا گیا ہے۔حالانکہ سب انسان ہی آدم و حوا کی اولاد ہیں۔یہ آیت ایسے معبودوں یا بالفاظ دیگر فتنہ و فساد اور لامتناہی جنگوں کی بنیاد کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتی ہے۔برتری کی بنیاد صرف تقویٰ ہے:۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے تو تمہارے قبیلے اور قومیں اس لئے بنائے تھے کہ تم ایک دوسرے سے الگ الگ پہنچانے جاسکو،مثلاً دو شخصوں کا نام زید ہے اور دونوں کے باپ کا نام بکر ہے۔تو الگ الگ قبیلہ یا برادری سے متعلق ہونے کی وجہ سے ان میں امتیاز ہوجائے،لیکن تم نے یہ کیا ظلم ڈھایا کہ ان چیزوں کو تفاخر و تنافر کا ذریعہ بنالیا۔کوئی نسل کی بنیاد پر شریف اور اعلیٰ درجہ کا انسان بن بیٹھا اور دوسروں کو حقیر،کمینہ اور ذلیل سمجھنے لگا تو کوئی قوم اور وطن یا رنگ اور زبان کی بنیاد پر بڑا بن بیٹھا ہے۔ان سب چیزوں کے بجائے اللہ تعالیٰ نے عزوشرف کا معیار تقویٰ قرار دیا۔یعنی جتنا کوئی شخص گناہوں سے بچنے والا اور اللہ سے ڈرنے والا ہوگا۔اتنا ہی وہ اللہ کے نزدیک معزز و محترم ہوگا۔اسی مضمون کو رسول اللہ نے اپنے خطبہ حجۃ الوداع میں،جو نہایت اہم دستوری دفعات پر مشتمل تھا،یوں بیان فرمایا کہ کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر،کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں۔فضیلت کی بنیاد صرف تقویٰ ہے۔کیونکہ تم سبھی آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا کئے گئے تھے۔(تیسیر القرآن)

Comments