The Ultimate Fruits Of Piety In Here-After


یہ دنیا عارضی ہے اور اس میں کسی بھی چیز کو دوام حاصل نہیں ہے۔دوام اگر ہے تو ان آثار کو جو دوسروں کے لیے عبرت کا ذریعہ ثابت ہوتے ہیں۔تقویٰ ہی وہ واحد صفت ہے جو انسان کو بلندی کا مقام عطا کرتی ہے۔تقویٰ دنیا میں عزت و سربلندی اور آخرت میں نجات و فلاح کی راہ دکھاتا ہے۔یہ دو جہاں کی کامیابی کا ضامن ہے۔اس سے ترقی کی نئی راہیں کھلتی ہیں اور رفعت و بلندی نصیب ہوتی ہے۔تقویٰ کے فوائد و ثمرات بس اسی عارضی دنیا تک محدود نہیں ہیں بلکہ آخرت میں بھی اس کے بے شمار نتائج رونما ہونے والے ہیں۔لہٰذا کیوں نہ ہم اس بیش بہا صفت کو اپنے وجود کے اندر پروان چڑھا کر دونوں جہاں کی سعادت حاصل کریں۔آخرت میں تقویٰ کی وجہ سے ملنے والے انعاماتِ الٰہیہ کی فہرست ویسے تو بہت طویل ہے لیکن اختصار کے پیش نظر یہاں ہم چند ہی کے تذکرے پر اکتفاء کریں گے۔

*(1)۔گناہوں کا دُھلنا اور اجر و ثواب کا بڑھنا*

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَمَنۡ يَّـتَّـقِ اللّٰهَ يُكَفِّرۡ عَنۡهُ سَيِّاٰتِهٖ وَيُعۡظِمۡ لَهٗۤ اَجۡرًا‏۞(الطلاق:5)

*”اور جو اللہ کا تقویٰ اختیار کرے گا وہ اس کی برائیوں کو اس سے دور فرما دے گا اور اسے بہت بڑا اجرو ثواب عطا کرے گا۔“*

 سو ارشاد فرمایا گیا کہ جو کوئی تقوی و پرہیزگاری اختیار کرے گا اللہ تعالیٰ اس سے اس کی برائیوں کو مٹا دے گا اور اس کو بہت بڑے اجر سے نوازے گا سو وہ تم کو ایسے بڑے عظیم الشان اجر سے نوازے گا کہ انسان کا ظن و گمان بھی اس تک رسائی حاصل نہیں کرسکتا اور اس کا احاطہ و ادراک اس کے بس میں نہیں اللہ نصیب فرمائے۔آمین۔سو اس سے تقوی و پرہیزگاری کے بعض اہم نتائج وثمرات سے آگہی بخشی گئی ہے کہ اللہ ایسے خوش نصیبوں کی غلطیوں کوتاہیوں کو مٹا دے گا کہ نیکیاں برائیوں کو صاف کردیتی ہیں جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا۔ان الحسنات یذھبن السیات۔(ھود:114) نیز وہ ان کو عظیم الشان اجر سے نوازے گا پس تقویٰ ہی کو ہمیشہ اپنائے رکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ سعادت دارین سے سرفرازی کا ذریعہ اور وسیلہ ہے۔(تفسیر مدنی)

*(2)۔اللّٰہ کے محبوب بندے بننے کے لیے سرنہاں*

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

بَلٰى مَنۡ اَوۡفٰى بِعَهۡدِهٖ وَاتَّقٰى فَاِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الۡمُتَّقِيۡنَ۞(آل عمران:76)

*”جو بھی اپنے عہد کو پورا کرے گا اور برائی سے بچ کر رہے گا وہ اللہ کا محبوب بنے گا،کیونکہ پرہیز گار لوگ اللہ کو پسند ہیں۔“*

یہ آیت یہود کی مذکورہ بالا باتوں پر استدراک کی حیثیت رکھتی ہے۔کہنا یہ ہے کہ یہود کی یہ غلط فہمی کہ انھیں اللہ کے یہاں کوئی خاص مرتبہ و مقام حاصل ہے،اس کی وجہ سے وہ دوسروں سے ہر طرح کی بدمعاملگی اور بد عہدی کرنے کا حق رکھتے ہیں اور دوسری قوموں کے مقابلے میں انھیں ہر طرح کی چھٹی دی گئی ہے کہ جو چاہیں سو کریں اللہ تعالیٰ ان سے کوئی مواخذہ نہیں کرے گا،یہ بالکل ایک بےسروپا بات ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے یہاں مقام و مرتبہ جھوٹے دعو وں سے نہیں ملتا بلکہ اس نے ہر امت کو ایک شریعت دے کر اس کی پابندی کا عہد لے رکھا ہے۔جو بھی اس عہد کی پاسداری کرتا ہوا اس کے احکام کی پیروی کرے گا اور ہر کام کرنے سے پہلے اللہ کے سامنے جوابدہی سے ڈرے گا اور اللہ کی ناراضگی سے لرزاں و ترساں رہے گا حقیقت میں وہ شخص اس قابل ہے کہ اسے اللہ کے یہاں کوئی مقام و مرتبہ ملے کیونکہ شریعت کی پابندی اور اللہ سے ڈر کر پاکیزہ زندگی گزارنا تقویٰ ہے اور ایسے ہی لوگ متقی کہلاتے ہیں اور اللہ کا قانون یہ ہے کہ وہ ہمیشہ متقین سے محبت کرتا ہے،جھوٹے دعویداروں سے نہیں۔(روح القرآن)

*(3)۔قبولیت اعمال کا دارومدار تقویٰ پر*

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَاتۡلُ عَلَيۡهِمۡ نَبَاَ ابۡنَىۡ اٰدَمَ بِالۡحَـقِّ‌ۘ اِذۡ قَرَّبَا قُرۡبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنۡ اَحَدِهِمَا وَلَمۡ يُتَقَبَّلۡ مِنَ الۡاٰخَرِؕ قَالَ لَاَقۡتُلَـنَّكَ‌ؕ قَالَ اِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الۡمُتَّقِيۡنَ۞(المائدہ:2)

*”اور ذرا انہیں آدم کے دو بیٹوں کا قصّہ بھی بے کم و کاست سُنادو۔جب اُن دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول کی گئی اور دوسرے کی نہ کی گئی۔اُس نے کہا”میں تجھے مار ڈالوں گا“۔اس نے جواب دیا”اللہ تو متقیوں ہی کی نذریں قبول کرتا ہے۔“*

 یہاں ہابیل و قابیل کی باہمی گفتگو میں ایک ایسا جملہ آگیا جو ایک اہم اصول کی حیثیت رکھتا ہے،کہ اعمال و عبادات کی قبولیت تقویٰ اور خوف خدا پر موقوف ہے،جس میں تقویٰ نہیں اس کا عمل مقبول نہیں،اسی وجہ سے علمائے سلف نے فرمایا ہے کہ یہ آیت عبادت گزاروں اور عمل کرنے والوں کے لئے بڑا تازیانہ ہے،یہی وجہ تھی کہ حضرت عامر بن عبداللہ اپنی وفات کے وقت رو رہے تھے،لوگوں نے عرض کیا کہ آپ تو عمر بھر اعمال صالحہ اور عبادات میں مشغول رہے، پھر رونے کی کیا وجہ ہے؟فرمایا تم یہ کہتے ہو،اور میرے کانوں میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد گونج رہا ہے اِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ،مجھے کچھ معلوم نہیں کہ میری کوئی عبادت قبول بھی ہوگی یا نہیں۔ 

 حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا کہ اگر مجھے یہ یقین ہوجائے کہ میرا کوئی عمل اللہ تعالیٰ نے قبول فرما لیا تو یہ وہ نعمت ہے کہ ساری زمین سونا بن کر اپنے قبضہ میں آجائے تو بھی اس کے مقابلہ میں کچھ نہ سمجھوں۔

 اسی طرح حضرت ابو الدرداءؓ نے فرمایا کہ اگر یہ بات یقینی طور پر طے ہوجائے کہ میری ایک نماز اللہ تعالیٰ کے نزدیک قبول ہوگئی تو میرے لئے وہ ساری دنیا اور اس کی نعمتوں سے زیادہ ہے۔

 حضرت عمر بن عبد العزیز رحمة اللہ علیہ نے ایک شخص کو خط میں یہ نصائح لکھیں کہ:

 ”میں تجھے تقویٰ کی تاکید کرتا ہوں جس کے بغیر کوئی عمل قبول نہیں ہوتا،اور اہل تقویٰ کے سوا کسی پر رحم نہیں کیا جاتا،اور اس کے بغیر کسی چیز پر ثواب نہیں ملتا،اس بات کا وعظ کہنے والے تو بہت ہیں مگر عمل کرنے والے بہت کم ہیں“۔

اور حضرت علی مرتضیٰؓ نے فرمایا کہ تقویٰ کے ساتھ کوئی چھوٹا سا عمل بھی چھوٹا نہیں ہے،اور جو عمل مقبول ہو جائے اسے چھوٹا کیسے کہا جاسکتا ہے۔(ابن کثیر)(معارف القرآن)

قرآن میں دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے:

لَنۡ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُـوۡمُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلٰـكِنۡ يَّنَالُهُ التَّقۡوٰى مِنۡكُمۡ‌ؕ۞(الحج:37)

*”نہ اُن کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون،مگر اُسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔“*

جاہلیت کے زمانے میں اہل عرب جس طرح بتوں کی قربانی کا گوشت بتوں پر لے جا کر چڑھاتے تھے،اسی طرح اللہ کے نام کی قربانی کا گوشت کعبہ کے سامنے لا کر رکھتے اور خون اس کی دیواروں پر لتھیڑتے تھے۔ان کے نزدیک یہ قربانی گویا اس لیے کی جاتی تھی کہ اللہ کے حضور اس کا خون اور گوشت پیش کیا جائے۔اس جہالت کا پردہ چاک کرتے ہوئے فرمایا کہ اصل چیز جو اللہ کے حضور پیش ہوتی ہے وہ جانور کا خون اور گوشت نہیں،بلکہ تمہارا تقویٰ ہے۔اگر تم شکر نعمت کے جذبے کی بنا پر خالص نیت کے ساتھ صرف اللہ کے لیے قربانی کرو گے تو اس جذبے اور نیت اور خلوص کا نذرانہ اس کے حضور پہنچ جائے گا،ورنہ خون اور گوشت یہیں دھرا رہ جائے گا۔یہ بات ہے جو حدیث میں نبی ﷺ سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا ان اللہ لا ینظر الیٰ سورکم ولا الیٰ الوانکم ولکن ینظر الیٰ قلوبکم و اعمالکم،”اللہ تمہاری صورتیں اور تمہارے رنگ نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دل اور اعمال دیکھتا ہے۔“(تفہیم القرآن)

*(4)۔انجام کی بھلائی متقین ہی کے لیے ہے* 

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

تِلۡكَ الدَّارُ الۡاٰخِرَةُ نَجۡعَلُهَا لِلَّذِيۡنَ لَا يُرِيۡدُوۡنَ عُلُوًّا فِى الۡاَرۡضِ وَلَا فَسَادًا‌ ؕ وَالۡعَاقِبَةُ لِلۡمُتَّقِيۡنَ۞(القصص:83)

*”وہ آخرت کا گھر تو ہم اُن لوگوں کے لیے مخصُوص کر دیں گے جو زمین میں اپنی بڑائی نہیں چاہتے اور نہ فساد کرنا چاہتے ہیں۔اور انجام کی بھلائی متقین ہی کے لیے ہے۔“*

یعنی قارون کی دولت کو نادانوں نے کہا کہ اس کی بڑی قسمت ہے،بڑی قسمت یہ نہیں،آخرت کا ملنا بڑی قسمت ہے۔سو وہ ان کے لیے ہے جو اللہ کے ملک میں شرارت کرنا اور بگاڑ ڈالنا نہیں چاہتے اور اس فکر میں نہیں رہتے کہ اپنی ذات کو سب سے اونچا رکھیں۔بلکہ تواضع و انکسار اور پرہیزگاری کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ان کی کوشش بجائے اپنی ذات کو اونچا رکھنے کی یہ ہوتی ہے کہ اپنے دین کو اونچا رکھیں،حق کا بول بالا کریں اور اپنی قوم مسلم کو ابھارنے اور سر بلند کرنے میں پوری ہمت صرف کر ڈالیں۔وہ دنیا کے حریص نہیں ہوتے۔آخرت کے عاشق ہوتے ہیں۔دنیا خود ان کے قدم لیتی ہے۔اب سوچ لو کہ دنیا کا مطلوب کیا دنیا کے طالب سے اچھا نہیں ہے؟صحابہؓ کو دیکھ لو!وہ سب سے زیادہ ترک الدنیا تھے مگر متروک الدنیا نہ تھے۔بہرحال مومن کا مقصد اصلی آخرت ہے۔دنیا کا جو حصہ اس مقصد کا ذریعہ بنے وہ ہی مبارک ہے ورنہ ہیچ۔(تفسیر عثمانی)

قرآن میں دوسری جگہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

قَالَ مُوۡسٰى لِقَوۡمِهِ اسۡتَعِيۡنُوۡا بِاللّٰهِ وَاصۡبِرُوۡا‌ ۚ اِنَّ الۡاَرۡضَ لِلّٰهِ ۙ يُوۡرِثُهَا مَنۡ يَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِهٖ‌ ؕ وَالۡعَاقِبَةُ لِلۡمُتَّقِيۡنَ‏۞(الاعراف:128)

*”موسیٰؑ نے اپنی قوم سے کہا”اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو،زمین اللہ کی ہے،اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے،اور آخری کامیابی انہی کے لیے جو اس سے ڈرتے ہوئے کام کریں۔“*

خواہ بیچ میں کیسے ہی احوال و ظروف سے گزرنا پڑے اور کیسی ہی مشکلات و صعوبات سدِّراہ بنیں۔انجام بہرحال پرہیزگاروں ہی کے لئے ہے۔پس تقویٰ و پرہیزگاری کا دامن کبھی ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے۔فَاِیَّاکَ نَسْأَلُ اللّٰہُمَّ التَّوْفِیْقَ وَ السَّدَادَ لِمَا تُحِبُّ وَتَرْضٰی مِنَ الْقَوْلِ وَ الْعَمَلِ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ۔سو معاملہ اس طرح نہیں جس طرح فرعون نے سمجھ رکھا تھا کہ ہم سب پر غالب ہیں۔جو چاہیں کریں۔بلکہ معاملہ اللہ وحدہ لاشریک ہی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے۔وہ جسکو چاہے زمین کا وارث بنائے۔سبحانہ و تعالیٰ۔وہ ظالموں کو جو ڈھیل دیتا ہے وہ بہرحال ایک ڈھیل ہوتی ہے جس نے بہرحال اپنے وقت مقرر پر ختم ہو کر رہنا ہوتا ہے اور اس کے بعد ظالم بہرحال اپنے ہولناک انجام کو پہنچ کر رہتے ہیں جیسا کہ فرعون اور فرعونیوں کے ساتھ ہوا۔والعیاذ باللہ العظیم(تفسیر مدنی)

*(5)۔جہنم سے نجات*

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَاِنۡ مِّنْکُمْ اِلَّا وَارِدُهَا ‌ؕ كَانَ عَلٰى رَبِّكَ حَتۡمًا مَّقۡضِيًّا‌۞ثُمَّ نُـنَجِّى الَّذِيۡنَ اتَّقَوْا وَّنَذَرُ الظّٰلِمِيۡنَ فِيۡهَا جِثِيًّا۞(مریم:72-71)

*”تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو جہنم پر وارد نہ ہو،یہ تو ایک طے شدہ بات ہے جسے پُورا کرنا تیرے رب کا ذمہ ہے۔پھر ہم اُن لوگوں کو بچا لیں گے جو(دنیا میں)متقی تھے اور ظالموں کو اُسی میں گرا ہُوا چھوڑ دیں گے۔“*

اس سے مراد پل صراط ہے جو دوزخ ہی پر بنا ہوا ہے،اور اس پل پر سے ہر شخص کو گذرنا ہوگا،چاہے وہ مسلمان ہو یا کافر،نیک ہو یا بد عمل،پھر جیسے اگلی آیت میں آ رہا ہے۔نیک لوگ تو اس پل سے اس طرح گذر جائیں گے کہ انہیں دوزخ کی ذرا سی بھی تکلیف نہیں ہوگی۔اور کافر اور بد عمل لوگوں کو دوزخ میں گرا دیا جائے گا۔پھر جن کے دلوں میں ایمان ہوگا۔انہیں تو اپنے اعمال کی سزا بھگتنے کے بعد دوزخ سے نکال لیا جائے گا اور جن کے دلوں میں رائی برابر بھی ایمان نہیں ہوگا۔وہ دوزخ میں پڑے رہیں گے۔والعیاذ باللہ تعالیٰ۔اور نیک لوگوں کو دوزخ سے گذارنے کی حکمت یہ بھی ہے کہ جہنم کا ہولناک نظارہ دیکھنے کے بعد جنت کی قدر و قیمت یقینا زیادہ ہوگی۔(آسان قرآن)

*(6)۔عرشِ الٰہی کا سایہ*

ارشادِ نبویﷺ ہے کہ:

سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللَّهُ فِي ظِلِّهِ يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ،الْإِمَامُ الْعَادِلُ،وَشَابٌّ نَشَأَ فِي عِبَادَةِ رَبِّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ فِي الْمَسَاجِدِ،وَرَجُلَانِ تَحَابَّا فِي اللَّهِ اجْتَمَعَا عَلَيْهِ وَتَفَرَّقَا عَلَيْهِ،وَرَجُلٌ طَلَبَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ،فَقَالَ:‏‏‏‏إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ،وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ أَخْفَى حَتَّى لَا تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا تُنْفِقُ يَمِينُهُ،وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللَّهَ خَالِيًا فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ۔  (بخاری:660)

*”سات طرح کے آدمی ہوں گے جن کو اللہ اس دن اپنے سایہ میں جگہ دے گا۔جس دن اس کے سایہ کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہوگا۔اول انصاف کرنے والا بادشاہ،دوسرے وہ نوجوان جو اپنے رب کی عبادت میں جوانی کی امنگ سے مصروف رہا،تیسرا ایسا شخص جس کا دل ہر وقت مسجد میں لگا رہتا ہے،چوتھے دو ایسے شخص جو اللہ کے لیے باہم محبت رکھتے ہیں اور ان کے ملنے اور جدا ہونے کی بنیاد یہی للهى(اللہ کے لیے محبت)محبتے ہے،پانچواں وہ شخص جسے کسیے باعزت اور حسین عورت نے(برے ارادہ سے)بلایا لیکن اس نے کہہ دیا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں،چھٹا وہ شخص جس نے صدقہ کیا،مگر اتنے پوشیدہ طور پر کہ بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہیں ہوئی کہ داہنے ہاتھ نے کیا خرچ کیا۔ساتواں وہ شخص جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا اور (بےساختہ)آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔“*

*(7)۔جنت میں دوست،احباب اور رشتہ داروں سے خوشگوار تعلقات*

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

اَلۡاَخِلَّاۤءُ يَوۡمَئِذٍۢ بَعۡضُهُمۡ لِبَعۡضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الۡمُتَّقِيۡنَ۞(الزخرف:67)

*”وہ دن جب آئے گا تو متّقین کو چھوڑ کر باقی سب دوست ایک دُوسرے کے دشمن ہو جائیں گے۔“*

دوسرے الفاظ میں صرف وہ دوستیاں باقی رہ جائیں گی جو دنیا میں نیکی اور خدا ترسی پر قائم ہیں۔دوسرے تمام دوستیاں دشمنی میں تبدیل ہوجائیں گی،اور آج گمراہی،ظلم و ستم اور معصیت میں جو لوگ ایک دوسرے کے یار و مددگار بنے ہوئے ہیں،کل قیامت کے روز وہی ایک دوسرے پر الزام ڈالنے اور اپنی جان چھڑانے کی کوشش کر رہے ہوں گے۔یہ مضمون قرآن مجید میں بار بار جگہ جگہ بیان کیا گیا ہے تاکہ ہر شخص اسی دنیا میں اچھی طرح سوچ لے کہ کن لوگوں کا ساتھ دینا اس کے لیے مفید ہے اور کن کا ساتھ تباہ کن۔(تفہیم القرآن)

*(8)۔جنت میں داخلہ*

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

تِلۡكَ الۡجَـنَّةُ الَّتِىۡ نُوۡرِثُ مِنۡ عِبَادِنَا مَنۡ كَانَ تَقِيًّا‏۞(مریم:63)

*”یہ ہے وہ جنت جس کا ہم وارث بنائیں گے اپنے بندوں میں سے ان کو جو متقی ہوں گے۔“*

 یہ تعریض ہے ان لوگوں پر جو اللہ تعالیٰ کے رسول پر ایمان لانے کی بجائے اس خوش فہمی میں زندگی گزار رہے تھے کہ جس طرح ہمیں دنیا میں دولت و ثروت میسر ہے اور ہم اپنی دولت کے زور سے جو چاہتے ہیں حاصل کرلیتے ہیں۔اس طرح سے ہماری دنیا ہی ہماری جنت ہے۔تو قیامت کے دن بھی اسی طرح ہمیں اللہ تعالیٰ جنت عطا فرمائیں گے۔

 اور کچھ لوگ اس امت میں بھی ہیں جو قرآن و سنت کو اپنے پاس رکھتے ہوئے بھی نجات کے لیے انھوں نے کچھ خودساختہ راہیں نکال رکھی ہیں۔بنی ہاشم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ چونکہ ہمیں نبی کریمﷺ سے ایک خاندانی نسبت حاصل ہے،اس لیے شریعت کی پابندیوں سے ہم آزاد ہیں۔ہمارا سَیّد ہونا ہماری نجات کے لیے کافی ہے اور ایسے لوگ تو بڑی تعداد میں ہیں جو فرائض اور حقوق کو ایک طرف رکھ کر چند رسوم کی پابندی کو نجات کے لیے کافی سمجھتے ہیں۔پروردگار نے اس آیت میں ارشاد فرمایا ہے کہ ہم اپنی جنت کا وارث ان لوگوں کو بنائیں گے جو متقی اور پرہیزگار ہوں گے۔جن کے عقیدہ و عمل میں کوئی خرابی نہیں ہوگی،وہ ہرحال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہوں گے۔(روح القرآن)

*(9)۔جنت میں شاندار استقبال*

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَسِيۡقَ الَّذِيۡنَ اتَّقَوۡا رَبَّهُمۡ اِلَى الۡجَـنَّةِ زُمَرًا‌ؕ حَتّٰٓى اِذَا جَآءُوۡهَا وَفُتِحَتۡ اَبۡوَابُهَا وَقَالَ لَهُمۡ خَزَنَتُهَا سَلٰمٌ عَلَيۡكُمۡ طِبۡتُمۡ فَادۡخُلُوۡهَا خٰلِدِيۡنَ۞(الزمر:73)

*”اور جو لوگ اپنے رب کی نافرمانی سے پرہیز کرتے تھے انہیں گروہ در گروہ جنت کی طرف لے جایا جائے گا یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچیں گے،اور اس کے دروازے پہلے ہی کھولے جا چکے ہوں گے،تو اُس کے منتظمین ان سے کہیں گے کہ”سلام ہو تم پر،بہت اچھے رہے،داخل ہو جاؤ اس میں ہمیشہ کے لیے۔“*

 سِیْقَ…سَوق سے فعل ماضی مجہول ہے۔یہ اچھے اور برے دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔سازگار ہَوائیں ابرِ رحمت کو باغوں کی طرف لے جاتی ہیں اس کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔اور قیدیوں اور مجرموں کو سپاہی ء اور مارتے ہوئے جیل کی طرف لے جاتے ہیں تو اس کے لیے بھی یہی لفظ استعمال ہوتا ہے۔ فرق صرف محل استعمال سے پیدا ہوتا ہے لفظ کے استعمال سے نہیں۔اس لیے پہلی آیت میں یہی لفظ اہل جہنم کو ہانک کرلے جانے کے لیے استعمال ہوا ہے۔اور یہاں یہ لفظ اہل جنت کو جلوس کی شکل میں فرشتوں کے جھرمٹ میں تہنیت کے شور میں نہایت عزت کے ساتھ لے جانے کے لیے استعمال ہوا ہے۔

 یہاں ایک بہت اہم بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ وہ کافر جو بالآخر انجام کے طور پر جہنم میں داخل کیے گئے،یہ وہ لوگ تھے جن کا اصل مرض تکبر اور غرور تھا۔اسی وجہ سے وہ حق کی بات کو قبول کرنے سے قاصر رہے کیونکہ حق جس واسطے سے ان تک پہنچ رہا تھا ان کے نزدیک نہایت کمزور واسطہ تھا،وہ صرف طاقت اور قوت کی زبان سے واقف تھے۔شرافت، سنجیدگی،للٰہیت جو بےکس اور بےبس زبانوں سے نکلے اس کا سننا ان کے تکبر کے لیے مشکل تھا۔نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ ان کا تکبر ایمان کے راستے میں حائل ہوگیا اور وہ کفر کی وادیوں میں کھو کر جہنم کا ایندھن بن گئے۔لیکن جو لوگ جنت میں پہنچے یہ وہ صاحب ایمان تھے جن کے اندر تقویٰ موجود تھا۔خشیتِ الٰہی جن کا زیور۔جب بھی انھوں نے اللہ تعالیٰ کے رسولوں کی بات سنی تو فوراً اس کی قبولیت کے لیے لپکے۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے ایمان و عمل میں ایسی پاکیزگی پیدا ہوئی اور ایسی ترقی ہوئی کہ آخر وہ جنت میں پہنچ گئے۔

 یہ لوگ چونکہ نہایت اعزاز کے ساتھ جنت میں لے جائے جائیں گے اور ایک جمِ غفیر ان کا استقبال کرے گا تو ان کے اعزاز میں پہلے سے جنت کے دروازے کھول دیئے جائیں گے۔کیونکہ مہمان کے پہنچنے پر مہمان خانے کا دروازہ کھلنا یہ عزت کی علامت نہیں۔البتہ پہلے سے دروازوں کا کھلنا اور دروازوں پر استقبال کرنے والوں کا کھڑا ہونا یہ مہمان کی عزت افزائی کی علامتیں ہیں۔اس لیے فرمایا گیا کہ ان کے پہنچنے سے پہلے دروازے کھل چکے ہوں گے اور جنت کے نگہبان اور داروغے جیسے ہی ان کے استقبال سے فارغ ہوں گے تو انھیں سلامتی اور شادمانی کی دعائیں دیں گے اور ساتھ ہی یہ مژدہ سنائیں گے کہ یہ جنت صرف آپ کی مہمانی کے لیے ہی نہیں بلکہ آپ کی سکونت کے لیے ہے جس میں آپ ہمیشہ رہیں گے۔اس سے نکلنے کا کبھی کوئی اندیشہ نہیں ہوگا۔(روح القرآن)

*(10)۔جنت کی مہمان نوازی*

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

يَوۡمَ نَحۡشُرُ الۡمُتَّقِيۡنَ اِلَى الرَّحۡمٰنِ وَفۡدًا‌۞(مریم :85)

*”(ذرا تصور کریں اس دن کا) جس دن اہل تقویٰ کو ہم جمع کر کے لائیں گے رحمن کی طرف وفود کی صورت میں۔“*

وفد کی صورت میں جانے سے یہ مفہوم واضح ہوتا ہے کہ ان کو عزت واحترام کے ساتھ لے جایا جائے گا فرمایا وہ لوگ جنہوں نے ہمارے رسول کی آواز پر لبیک کہا اور ہر وہ کام اور ہر وہ بات ترک کردی جس کے ترک کرنے کا ان کو حکم ملا اور ہر کام کے لئے وہ ہر حال میں تیار رہے جس کے کرنے کے ہم نے ان کو حکم دیا تو اب وہ وقت قریب آگیا ہے کہ ہم ان کی بھی ضیافت کریں اور ان کو شاباش دیں اور ان سب کو معزز طریقہ سے اپنے ہاں جمع کرنے کی دعوت دیں اور ان کی پذیرائی کریں کیونکہ انہوں نے جو کیا ہماری رضا حاصل کرنے کے لئے کیا۔(عروۃ الوثقیٰ)

*(11)۔جنت کا اعلیٰ درجات پر فائز ہونا*

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

اِنَّ الۡمُتَّقِيۡنَ فِىۡ جَنّٰتٍ وَّنَهَرٍۙ۞فِىۡ مَقۡعَدِ صِدۡقٍ عِنۡدَ مَلِيۡكٍ مُّقۡتَدِرٍ۞(مریم:55-54)

*”نافرمانی سے پرہیز کرنے والے یقیناً باغوں اور نہروں میں ہوں گے۔سچی عزت کی جگہ،بڑے ذی اقتدار بادشاہ کے قریب۔“*

 اس سے پہلے مجرمین اور ان کے انجام کا ذکر فرمایا گیا ہے،اب متقین کا ذکر کیا جارہا ہے۔متقین سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کے حضور پیشی اور جزاء و سزا سے برابر ڈرتے رہے۔انھوں نے ہر عمل کرنے سے پہلے کتاب و سنت کو دیکھا اور اس کے مطابق عمل کو شکل دی۔ اور پھر ہمیشہ عمل کے محرکات اور اپنے احساسات کو زیادہ سے زیادہ پاکیزہ بنانے کی کوشش کرتے رہے۔ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ باغات عنایت فرمائے گا جن میں نہریں رواں دواں ہوں گی۔ ہر جنتی کے لیے کئی کئی باغات ہوں گے۔اور وہ ان میں اپنی چاہت کے مطابق محظوظ ہوگا۔

 اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کا اصل اعزاز یہ ہوگا کہ انھیں اللہ تعالیٰ کا قرب نصیب ہوگا اور وہ ایسا شہنشاہ ہے جس کی قدرت کی کوئی انتہا نہیں۔ملیک میں ملک سے بڑھ کر زور ہے اور مقتدر کی صفت اس زور میں مزید اضافہ کررہی ہے۔اس میں ایک بہت بڑی غلط فہمی کو دور کیا گیا ہے بہت سے ایسے لوگ ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ انسان کی عزت و وجاہت کی اصل منزل یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے واصل ہوجائے۔اور یا وہ اللہ تعالیٰ میں ضم ہوجائے۔لیکن یہاں یہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہوجانے کا تصور ایک ایسی بےہودگی ہے جس کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا۔البتہ ایک انسان کا بلند سے بلند مقام اگر کوئی ہے تو وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنے قرب کی عزت عطا فرمائے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ایک محیط بےکراں ہے اور انسان اس کے سامنے ذرا سی آب جُو ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ صحیح یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر ایک بے پایاں سمندر ہے تو انسان ایک قطرہ ہے۔اس کی عزت یہ نہیں کہ وہ سمندر میں غرق ہوجائے۔کیونکہ سمندر سے مل جانے میں اس کی فنائیت مضمر ہے۔اس کی عزت اس میں ہے کہ وہ قطرہ رہ کر اپنے اندر سمندر کے خواص پیدا کرے۔اور یہی وہ چیز ہے جس کو قرب الٰہی کہتے ہیں۔اور اسی کو آنحضرت ﷺ نے اس طرح ارشاد فرمایا تخلقوا باخلاق اللہ”اپنے اندر اللہ کے اخلاق پیدا کرو۔“اور آخرت میں بھی انتہائی قرب کے حوالے سے فرمایا کہ وہاں اللہ تعالیٰ کے نیک بندے عرش الٰہی کے سایہ تلے ہوں گے۔(روح القرآن)

Comments