Personality Evolution In Ramadan: Why And How?


 


  اللّٰہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہم سبھوں پر ایک عظیم الشان مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے اور قوی امید ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی توفیق سے ہمیں بھی اس عظیم ماہِ مبارک میں اپنی زندگی کے قیمتی لمحات گزارنے کا موقع دیا جائے گا۔لیکن کیا پتہ کہ اگلے سال ہم اس ماہِ مبارک کو  پائیں گے بھی یا نہیں اس لیے بہتر یہی ہے کہ ہم اس ماہِ تزکيہ و تربیت(The month of Purification and Training) میں اپنے پورے وجود میں انقلاب بپا کریں اور یہی ہماری دنیوی و اُخروی کامیابی کا زینہ ہے۔ہمیں یہ حقیقت جان لینی چاہیے کہ زندگی کی آبرو تعلق باللّٰہ ہے۔خدا سے تعلق نہ ہو تو زندگی بے وقعت اور بے رونق ہو جاتی ہے۔ایک مسلمان کو اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ مضبوط تعلق ہونا چاہیے اور اسے ہمیشہ یہ فکر ملحوظ رکھنی چاہیے کہ اللّٰہ تعالیٰ سے اس کا تعلق گھٹنے نہ پائے بلکہ روز بروز گہرا اور بڑھتا ہی چلا جانا چاہیے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ کی راہ میں مستقل مزاجی سے چلنے کے لیے اس کے ساتھ مضبوط تعلق کا ہونا ناگزیر ہے۔اس ماہِ مبارک میں اللّٰہ تعالیٰ سے تعلق مزید مضبوط کرنے کے لیے فرائض کے علاوہ نوافل کا بھی خوب اہتمام کرنا چاہیے کیونکہ جو تعلق باللّٰہ اسلام چاہتا ہے وہ کوئی آسان کام نہیں بلکہ دشوار گزار گھاٹی ہے،جسے سر کرنے کے لیے بڑی طاقت درکار ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس طاقت کو حاصل کرنے کے لیے فرائض کے ساتھ ساتھ نوافل کا بھی سہارا لینا پڑتا ہے۔لہٰذا تساہل سے بچتے ہوئے”صحیح وقت پر صحیح کام کیا جایے“The right thing at the right time کے اصول کے تحت آپ آج سے ہی اپنے پورے وجود میں انقلاب لانے کی کوشش کریں۔ذیل میں ہم چند تجاویز پیش کرتے ہیں تاکہ اس ماہِ مقدسہ میں ان پر عمل پیرا ہونے کے بعد آپ اپنے پورے وجود میں تبدیلی دیکھنے کے ساتھ ساتھ روحانی سکون سے بھی مستفید ہوں گے،جس کی آج پوری دنیا متلاشی ہے:

1۔گناہ تو ہر انسان سے ہوتا ہے،لیکن وہ لوگ اللّٰہ کو زیادہ پسند ہیں جو گناہ کر کے اس پر اڑتے نہیں بلکہ توبہ و استغفار کرتے ہیں اور اللہ کے سامنے اپنے گناہوں کے ساتھ گڑگڑاتے اور عاجزی کا اظہار کرتے ہیں۔لہٰذا توبہ و استغفار کے ذریعے اپنے روحانی وجود کو گناہوں کے داغ دھبوں سے صاف کریں تاکہ آپ پاکیزگی کی حالت میں اس مقدس مہینے میں داخل ہو سکیں۔

2۔اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع پیدا کریں تاکہ آپ کی عبادت درجہ احسان تک پہنچ سکے۔

3۔روزانہ کم از کم ایک پارہ کی تلاوت کریں اور کسی اچھے قاری کی زبان سے تلاوت بھی سنا کریں کیونکہ تلاوتِ قرآن ہی ہمارے دلوں کے زنگ کو دور کرنے کا مؤثر ترین ذریعہ ہے۔

4۔منتجب سورۃ میں سے چند آیات کی تفسير کا ضرور مطالعہ کریں اور قرآن کی روح تک پہنچنے کی کوشش کریں تاکہ آپ کو  وہ حکمت حاصل ہو سکے جسے علوم کی شاہِ کلید(key to knowledge) کہا جاتا ہے۔  

5۔روز مرہ کی زندگی میں ہمیں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ پوری تیاری کے بعد ہی کسی کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جاتا ہے لہٰذا اس ماہِ انقلاب سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لیے آپ آج سے ہی اچھی اچھی کتابوں کا مطالعہ شروع کریں۔ذیل میں چند ضروری اور اہم کتابیں تجویز کی جارہی ہیں تاکہ ان کا بغور مطالعہ کرنے سے آپ ایک طرف اس ماہِ مبارک سے بھرپور فائدہ اٹھا سکیں اور دوسری طرف آپ کے اندر سیکھنے کا دائرہ(learning capacity)مزید وسعت میں چلا جایے:

١۔کتاب الصوم(مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ)

٢۔اسلامی عبادات پر ایک تحقیقی نظر(مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ)

٣۔ارکانِ اربعہ(مولانا سید ابو الحسن علی میاں ندویؒ)

٤۔تزکیہ نفس(مولانا امین احسن اصلاحیؒ)

٥۔اسلامی عبادات تحقیقی مطالعہ(الطاف احمد اعظمی)

٦۔خطباتِ رمضان المبارک(ڈاکٹر اسرار احمدؒ)

٧۔رمضان المبارک سے استفادہ کی تدابیر(مولانا سید احمد عروج قادریؒ)

٨۔روزہ اور رمضان (مولانا سراج الدین ندوی)

٩۔رمضان المبارک(مولانا عبد الغفار حسن)

١٠۔روزہ اور رمضان(خرم مرادؒ)

١١۔رمضان کیسے گزاریں؟(خرم مرادؒ)

١٢۔رمضان المبارک اور انقلابِ زندگی(خرم مرادؒ)

١٣۔رمضان المبارک فضائل،فوائد و ثمرات(حافظ صلاح الدین یوسفؒ)

١٤۔رمضان تبدیلی اور انقلاب کا مہینہ(مولانا محمد فاروق خاں)

١٥۔رمضان المبارک عظیم کیوں؟(بنت الاسلام)

١٦۔روزہ اور ہماری زندگی(ڈاکٹر انیس احمد)

١٧۔احادیثِ رمضان و روزہ(عبید اللہ طاہر فلاحی مدنی)

١٨۔احکام رمضان اور عشر و زکاة(ڈاکٹر مفتی محمد سراج الدین قاسمی)

١٩۔رمضان کے روزے حکمتیں اور آداب(مولانا ذکی الرحمٰن غازی مدنی)

٢٠۔روزوں کے مسائل(محمد اقبال کیلانیؒ)

٢١۔دروسِ رمضان(ابو زید ضمیر)

٢٢۔رحمتوں کے سائے میں(ابو یحییٰ)

٢٣۔روزوں کی کتاب(حافظ عمران ایوب لاہوری)

٢٤۔رمضان گائیڈ(ابو الاعلی سید سبحانی)

٢٥۔لعلکم تتقون(خان یاسر)

٢٦۔روزہ اور مقاصد روزہ(ڈاکٹر عنایت اللہ وانی ندوی)

٢٧۔رمضان ماہِ غفران(عائض عبد اللہ القرنی)

٢٨۔رہنمائے رمضان کیا کریں؟اور کیسے بنیں؟(محی الدین غازی)

٢٩۔رمضان مبارک روح کی ترقی کا مہینہ(ڈاکٹر ام کلثوم)

٣٠۔رمضان المبارک اور ہمارے اسلاف(اُم عبدِ منیب)

6۔سحری کھانے سے پہلے نمازِ تہجد(نفل)پابندی سے پڑھا کریں اگرچہ دو رکعت ہی کیوں نہ ہوں اور اس میں دعا پورے آداب و شرائط کے ساتھ مانگا کریں کیونکہ یہ قبولیت کی گھڑی ہوتی ہے۔اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے کہ:

*”ہمارا پروردگار بلند برکت والا ہے ہر رات کو اس وقت آسمان دنیا پر آتا ہے جب رات کا آخری تہائی حصہ رہ جاتا ہے۔وہ کہتا ہے کوئی مجھ سے دعا کرنے والا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں،کوئی مجھ سے مانگنے والا ہے کہ میں اسے دوں،کوئی مجھ سے بخشش طلب کرنے والا ہے کہ میں اس کو بخش دوں۔“*(بخاری:1145)

7۔طلوعِ آفتاب کے پندرہ منٹ بعد نمازِ اشراق دو رکعت (نفل) پڑھ کر تھوڑی دیر کے لیے آرام کرنا بھی سودمند ثابت ہوگا۔حضرت انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ:

*”جس نے نماز فجر جماعت سے پڑھی پھر بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرتا رہا یہاں تک کہ سورج نکل گیا،پھر اس نے دو رکعتیں پڑھیں،تو اسے ایک حج اور ایک عمرے کا ثواب ملے گا۔وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ  نے فرمایا:پورا،پورا،پورا،یعنی حج و عمرے کا پورا ثواب۔“*(ترمذی:586)  

 آج اُمتِ محمدیہ علیٰ صاحبها الصلاة والسلام کے ائمہ اور اس کے مقتدی اس اجر عظیم اور اول النہار کی برکتوں سے کس قدر محروم ہیں،ذرا اس حدیث سے اندازہ لگائیے۔إلاما شاء اللہ اللهم اجعلنا منهم۔

بعد ازاں کام پر جایا جائے۔کام کو پوری لگن اور نشاط سے کیا جائے۔یہ ایک سنگین جُرم ہے کہ اپنے طرزِ عمل سے رمضان المبارک کے مہینے کو کسل مندی و بے کاری کا مہینہ ظاہر کیا جائے۔ہمیں چاہیے کہ اپنے عمل سے ظاہر کریں کہ یہ تبدیلی اور انقلاب کا مہینہ ہے،جس کا ثبوت ہمیں اسلاف کی زندگیوں میں ملتا ہے۔

8۔عصر نماز سے پہلے چار رکعات(سنتیں) پڑھنا نہ بُھولیں۔نبی اکرمﷺ کا ارشاد ہے کہ:”اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جس نے عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھیں۔“(ترمذی:430) 

9۔افطار کے وقت آپ دعاؤں میں مشغول رہیں کیونکہ یہ گھڑی بھی قبولیت کی ہوتی ہے۔آپﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ:

*”تین لوگوں کی دعائیں رد نہیں کی جاتیں:پہلا امام عادل ہے،دوسرا روزہ دار جب وہ افطار کرے اور تیسرا مظلوم جب کہ وہ بد دعا کرتا ہے،اللہ تعالیٰ(اس کی بد دعا کو)بادل کے اوپر اٹھا لیتا ہے،اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کہتا ہے:قسم ہے میری عزت کی میں ضرور تیری مدد کروں گا اگرچہ کچھ دیر ہی سہی۔“* (ترمذی:2526)

لہٰذا اس وقت اپنے لیے،اپنے والدین،اور اہلِ خانہ کے لیے اور ساری اُمتِ مسلمہ کے لیے دل کی عمیق گہرائیوں سے زیادہ سے زیادہ دعائیں کرنی چاہئیں۔

10۔سحری اور افطار میں آپ حلال رزق پر ہی اکتفا  کریں اور کھانا کم ہی تناول فرمائیں تاکہ آپ کے اندر سُستی اور کاہلی پیدا نہ ہو جائے جس کا اثر بالخصوص قیام اللیل پر پڑتا ہے۔ضرورت سے زیادہ حلال کھانا بھی روح کے لیے مضر ہوتا ہے۔اسی لیے روزہ کھانا کم کرنے کی تربیت کرتا ہے۔حلال کھانا ایک دوا کی طرح ہے جس کا کم کھانا مفید ہے اور زیادہ کھانا مضر۔حضرت مقدام بن معدیکربؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ  کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ:

*”کسی آدمی نے کوئی برتن اپنے پیٹ سے زیادہ بُرا نہیں بھرا،آدمی کے لیے چند لقمے ہی کافی ہیں جو اس کی پیٹھ کو سیدھا رکھیں اور اگر زیادہ ہی کھانا ضروری ہو تو پیٹ کا ایک تہائی حصہ اپنے کھانے کے لیے،ایک تہائی پانی پینے کے لیے اور ایک تہائی سانس لینے کے لیے باقی رکھے“۔*(ترمذی:2380)

 11۔جتنا ہو سکے ذِکرُ اللّٰہ کی کثرت کیا کریں کیونکہ ذِکرُ اللّٰہ سے ہی عبادات میں جان پڑتی ہے اور تعلق بااللّٰہ میں گہرائی اور گیرائی آتی ہے۔

12۔ضرورت مندوں کا بھی خاص خیال رکھیں کیونکہ یہ ہمدردی کا مہینہ ہے۔لہٰذا اس ماہِ مبارک میں اپنے حلال مال کو دل کھول کر خرچ کریں۔ہمارے حضور پُرنورﷺ رمضان میں سب سے زیادہ سخاوت کیا کرتے تھے۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ:

*”نبی کریمﷺ سخاوت اور خیر کے معاملہ میں سب سے زیادہ سخی تھے اور آپﷺ کی سخاوت اس وقت اور زیادہ بڑھ جاتی تھی جب جبرائیلؑ آپﷺ  سے رمضان میں ملتے،جبرائیلؑ نبی کریمﷺ  سے رمضان شریف کی ہر رات میں ملتے یہاں تک کہ رمضان گزر جاتا۔نبی کریمﷺ  جبرائیلؑ سے قرآن کا دور کرتے تھے،جب جبرائیلؑ آپﷺ  سے ملنے لگتے تو آپﷺ  چلتی ہوا سے بھی زیادہ بھلائی پہنچانے میں سخی ہو جایا کرتے تھے۔“*(بخاری:1902)

13۔تنہائی میں اپنے گناہوں پر نادم ہونے کے بعد دل کی  دیواروں کو اپنے آنسوؤں سے دھویا کریں تاکہ اندر کی روشنی پورے وجود میں سرایت کر جائے اور نورِ الٰہی آپ کے دل میں جگہ پا سکے۔

14۔موت کو ہر لمحہ اور ہر آن یاد رکھنا نہ بُھولیں کیونکہ یہ شیطان کے خلاف ایک بہت ہی کارگر ہتھیار ہے۔

15۔ماہِ رمضان صبر کا مہینہ ہے لہٰذا اس صفت کو اپنے وجود میں لانے کا سنہری موقع ہے اور یہی صفت ایک مسلمان کو سخت سے سخت حالات کے مقابلے میں بھی مضبوط چٹان کی طرح لا کھڑا کر دیتی ہے۔صبر وہ صفت ہے جو حق کی حمایت اور باطل کے استیصال کے لیے انتہائی ناگزیر ہے۔یعنی جس شخص کے اندر صبر و استقامت کی خوبی نہ ہو وہ حق کی حمایت اور باطل کے استیصال کے لیے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔

16۔انسان کے لیے وقت ہی زندگی ہے اور وقت کا ضیاع اصل میں زندگی کا حقیقی خُسران ہے۔بدقسمتی سے آج سوشل میڈیا پر بے تحاشا وقت ضائع کیا جا رہا ہے۔ماہِ رمضان میں مسلمانوں کو وقت ضائع نہ کرنے کی مشق کرائی جاتی ہے لہٰذا اس چیز کو مدِ نظر رکھتے ہویے آج سے ہی ٹائم منیجمنٹ کے لیے قدم اٹھانا شروع کریں اور سب سے پہلے آپ اپنے موبائل فون کو کنٹرول کریں وگرنہ یہ آپ کو کنٹرول کر کے ہی رکھ دے گا۔خدارا! اس ماہِ مقدسہ کو ضائع نہ کریں۔یہ رب العٰلمین سے جڑنے کا مہینہ ہے۔یہ اپنا احتساب کرنے کا مہینہ ہے۔کچھ عرصہ کے لیے فیس بک کے شور و غل اور ٹی وی پروگراموں کے ہنگامے سے نکل کر ذکر و فکر پر مبنی ذہنی اعتکاف کی تنہائی میں چلے جائیں۔قرآن مجید اور اپنے رب کے ساتھ فکری اعتکاف کر لیں۔إن شاء الله اس کے حیرت انگیز نتائج آپ دیکھیں گے۔وگرنہ بھوک،پیاس اور رت جگے کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔

17۔روزہ کی روح یعنی تقویٰ کو صیام و قیام اللیل کے ذریعہ حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کریں اگرچہ اس میں مختلف صعوبتوں کا سامنا ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔

18۔روزہ ہمیں ضبطِ نفس کی ٹریننگ دیتا ہے لہٰذا آپ اس ماہِ مبارک میں اپنے اندر حلم و بردباری کو پروان چڑھائیں،جسے حدیث میں مومن کا زیور بتایا گیا ہے اور اس صفت کو لے کر ہی آپ”راضی برضائے رب“والی زندگی گزار سکتے ہیں۔ 

19۔انسان نفسانی وجود کے ساتھ ساتھ ایک روحانی وجود بھی رکھتا ہے اور یہی روح انسان کی شخصیت کا جوہرِ اصلی ہے۔گویا انسانی وجود اصلاً ایک روحانی وجود ہے۔جیسا کہ کہا بھی گیا ہے کہ:you are a soul with a body rather than a body with a soul اور اس روح کا origin اللہ تعالٰی کی ذاتِ مبارکہ ہے۔بد قسمتی سے باقی گیارہ مہینوں میں اگرچہ یہ صرف اپنے origin پر نظر  رکھتا ہے کیونکہ ہمارے کرتوت کی وجہ سے یہ نفس کی زنجیروں میں ہی جکڑا رہتا ہے اس لیے آج اس ماہِ مبارک میں نفس کی زنجیروں کو کاٹ کر اس پر ایک کرم فرمائیں تاکہ یہ بھی آزاد ہوکر اپنے محبوب کی چوکھٹ پر جبینِ نیاز خم کر سکے اور اس ماہِ مبارک میں روزوں کے ذریعے اس کے اندر تقویٰ کی صفت کو پروان چڑھائیں اور حقیقت میں تقویٰ اس کے لیے بھوک کی حیثیت رکھتی ہے،اس بھوک کو مٹانے کے لیے لازماً روح اپنے پسندیدہ غذا کا متلاشی بنے گا اور اس کا یہ غذا ہمارے ہاں”القرآن“کی صورت میں موجود ہے جسے ہمیں اسے رات میں آہستہ آہستہ دینا چاہیے تاکہ یہ فربہ ہو کر نفس کو اپنے قابو میں لے کر اپنے سفر کو بآسانی طے کر سکے۔اسی چیز کو ہمارے ہاں”روحانیت“کے نام سے جانا جاتا تھا یعنی روح نے نفس پر فوقیت دن میں روزہ اور رات میں قیام اللیل کے ذریعے حاصل کی لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ اس پاکیزہ لفظ کی بھی دھجیاں اڑا دی گئی اور اسے راہِ اعتدال سے ہٹا کر اِفراط و تفریط کا شکار کیا گیا۔

اب یہ فیصلہ آپ پر ہے کہ جتنا آپ اس ماہِ مبارک میں اپنے اندر روزہ کے ذریعے تقویٰ کے حصول میں کامیاب ہو جائیں گے اتنا ہی آپ کا روح قرآن اخذ کر کے روحانیت میں کمال دکھا کر آپ کا نام دنیا و آخرت میں روشن کر دے گا۔

20۔ویسے تو لوگوں کے دلوں کی زمین باقی مہینوں کے بنسبت ماہِ رمضان میں نرم پڑی ہوتی ہے لہٰذا اس چیز سے فائدہ اٹھا کر ان کے دلوں میں ایمان کا بیج ڈال کر ہی آپ انکے دل جیت سکتے ہیں اور یہ بات پیشِ نظر رہے کہ پیاسی روحوں کے لیے اسلام آبِ حیات ہے لہٰذا اس ماہِ مبارک کو  غنیمت جان کر آپ ان کے سامنے اسلام کا صحیح اور جامع تصور پیش کریں تاکہ سعید روحیں خود بخود اس کی طرف لپکیں اور آپ بھی اُن بشارتوں کے مستحق ہوسکیں جن کا تذکره ہمیں قرآنِ مجید اور احادیث مبارکہ میں دیکھنے کو ملتا ہے۔

مذکورہ بالا تجاویز پر عمل کرکے ہی آپ اپنی شخصیت کا ارتقاء کر سکتے ہیں،بالفاظ دیگر ان پر عمل پیرا ہونے سے ہی آ پ کا دل ازسرِ نو زندہ ہو جائے گا اور یہی امتوں کے مرض کہن کا چارہ ہوتا ہے۔علامہ اقبالؒ نے بھی اپنے ایک شعر میں اس چیز کا تذکرہ ان الفاظ میں کر دیا ہے؎

*دل مردہ دل نہیں ہے اسے زندہ کر دوبارہ*
*کہ یہی  ہے امتوں کے مرض کہن کا چارہ*

Comments