Abundant Forgiveness



”اسْتِغْفَارُ“(باب استفعال)”اِستَغفَرَ یَستَغفِرُ“ کا مصدر ہے۔اس کا اصل مادہ(غ ف ر) ہے جو کہ عام طور پر ستر(یعنی ڈھانپنے) پر دلالت کرتا ہے۔امام راغب اصفہانیؒ لکھتے ہیں کہ:

الغفر کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے”اغفر ثوبک فی ولوعاء“ اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو۔”اصبغ ثوبک فانہ اغفر لوسخ“کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے۔اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچا لیا گیا۔قرآن میں ہے:غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں۔اور استغفار کے معنی قول اور عمل سے مغفرت طلب کرنے کے ہیں۔(مفردات القرآن)

انسان میں شر کی طاقتیں دو ہیں،ایک انسانی نفس،یہ اندرونی اور دوسرا شیطان،یہ بیرونی طاقت ہے،یہ دونوں طاقتیں انسان کو گناہوں کی طرف لے جاتی ہیں۔اس لیے اس دنیا میں رہتے ہوئے ہر انسان سے کچھ نہ کچھ غلطیاں اور گناہ صادر ہوجاتے ہیں،کیوں کہ انسان خطا کا پُتلا ہے۔سوائے انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والتسلیمات کے کہ وہ معصوم ہوتے ہیں،ان سے کوئی گناہ صادر نہیں ہوتا،نبوت سے پہلے بھی اور نبوت کے بعد بھی۔انبیاءؑ کی جماعت معصوم ہوتی ہے،یہ معزز گھرانے کے افراد ہوتے ہیں،اور اللہ تعالیٰ ان کا بطورِ خاص انتخاب فرماتا ہے،یہ ہمارا متفقہ عقیدہ ہے،اس میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش ہے ہی نہیں۔انبیاءؑ کی تخلیق ہی ایسی ہے کہ وہ ان دونوں شر کی طاقتوں سے محفوظ ہوتے ہیں،انہیں جو نفس عطا کیا جاتا ہے وہ نفسِ مطمئنہ ہوتا ہے،جس میں طبعی طور پر ہر گناہ اور معصیت سے نفرت ہوتی ہے اور خالص عبادت اور رضا اس نفس میں مجتمع ہوتی ہے،اور شیطان کے تسلط اور غلبہ سے وہ محفوظ ہوتے ہیں۔اس لیے ان کا ہر قول اور فعل نفسانی خواہش اور شیطانی تسلط سے پاک ہوتا ہے۔حتیٰ کہ حالتِ نوم میں بھی ان کا دل بیدار رہتا ہے۔

جب انسان خطا کا پُتلا ہے تو ان خطاؤں کے ازالے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہئیے؟اس سوال کا تسلی بخش جواب ہمیں قرآنِ پاک یوں دیتا ہے کہ ہمیں کثرتِ اِستغفار کا اہتمام کرنا چاہئیے۔گناہ روحانی وجود کے لیے زہر کے مانند ہے اور گناہوں کا تریاق استغفار ہے یعنی ہم گناہوں کے اثر کو کثرتِ اِستغفار کے ذریعے ہی ختم کر سکتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں سے کتنا پیار ہے کہ گناہ کرنے کے باوجود بھی انہیں اپنے در پہ بُلاتے ہیں تاکہ مغفرت کا پروانہ دے کر انہیں وسیع و عریض جنت کے اہل بنا دیں کیونکہ جنت ایک پاک جگہ ہے جس میں پاک لوگ ہی داخل ہو سکتے ہیں۔ذرا دیکھئے تو سہی کہ قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ کتنے شفقت بھرے انداز میں اپنے پیارے بندوں کو استغفار کرنے کی دعوت دیتے ہیں:

 وَاسۡتَغۡفِرُوا اللّٰهَ ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ۞  (المزمل:20)

*”اللہ سے مغفرت مانگتے رہو،بے شک اللہ بڑا غفور و رحیم ہے۔“*

استغفار پیغمبروں کا شیوہ اور ان کی عظیم سنت ہے۔اس کام کو ان اولوالعزم انسانوں نے نہایت ہی مضبوطی سے پکڑا کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی قربت کا ایک بہترین اور کامیاب ذریعہ ہے۔جس کام کو تمام پیغمبر عظامؑ نے اپنی پوری زندگی میں اپنایا ہو اس کام کی اہمیت دوبالا ہو جاتی ہے۔زمین پر قدم رکھتے ہی سب سے پہلے حضرت آدم و حوا علیہم السلام نے پوری انسانیت کے نام یہی پیغام رکھا کہ بار بار اللہ کے حضور آکر اپنے گناہوں کے داغ دھبوں کو دُھلنا چاہئیے کیونکہ اسی عمل کے ذریعے انسانیت کو رب کی رضا اور فلاح و بہبودی کا راستہ مل سکتا ہے۔یہاں پہ میں چند برگزیدہ پیغمبروں کے استغفار کا تذکرہ کروں گا تاکہ ہمارے دلوں میں بھی اس عظیم کام کے لیے ایک نیا جذبہ اور ولولہ پیدا ہو جائے۔

حضرت آدم و حوا علیہم السلام کا استغفار:

قَالَا رَبَّنَا ظَلَمۡنَاۤ اَنۡفُسَنَا وَاِنۡ لَّمۡ تَغۡفِرۡ لَـنَا وَتَرۡحَمۡنَا لَـنَكُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِيۡنَ۞(الاعراف:23)

*”دونوں بول اُٹھے”اے ربّ! ہم نے اپنے اوپر ستم کیا،اب اگر تُو نے ہم سے درگزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو یقیناً ہم تباہ ہو جائیں گے۔“*

حضرت نوح علیہ السلام کا استغفار:

رَبِّ اغۡفِرۡلِىۡ وَلِـوَالِدَىَّ وَلِمَنۡ دَخَلَ بَيۡتِىَ مُؤۡمِنًا وَّلِلۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَالۡمُؤۡمِنٰتِؕ وَلَا تَزِدِ الظّٰلِمِيۡنَ اِلَّا تَبَارًا۞(نوح:28)

*”میرے رب،مجھے اور میرے والدین کو اور ہر اس شخص کو جو میرے گھر میں مومن کی حیثیت سے داخل ہوا ہے،اور سب مومن مردوں اور عورتوں کو معاف فرما دے،اور ظالموں کے لیے ہلاکت کے سوا کسی چیز میں اضافہ نہ کر۔“*

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا استغفار :

وَالَّذِىۡۤ اَطۡمَعُ اَنۡ يَّغۡفِرَلِىۡ خَطِٓیْـئَـتِىۡ يَوۡمَ الدِّيۡنِ۞(الشعراء:82)

*”اور جس سے میں اُمید رکھتا ہوں کہ روزِ جزا میں وہ میری خطا معاف فرما دے گا۔“*

حضرت موسیٰ علیہ السلام کا استغفار:

قَالَ رَبِّ اِنِّىۡ ظَلَمۡتُ نَفۡسِىۡ فَاغۡفِرۡ لِىۡ فَغَفَرَ لَهٗ‌ؕ اِنَّهٗ هُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِيۡمُ‏۞(القصص:16)

*”پھر وہ کہنے لگا”اے میرے ربّ،میں نے اپنے نفس پر ظلم کر ڈالا،میری مغفرت فرما دے۔“چنانچہ اللہ نے اُس کی مغفرت فرما دی،وہ غفورٌ رحیم ہے۔“*

حضرت داٶد علیہ السلام کا استغفار:

وَظَنَّ دَاوٗدُ اَنَّمَا فَتَنّٰهُ فَاسۡتَغۡفَرَ رَبَّهٗ وَخَرَّ رَاكِعًا وَّاَنَابَ۞(ص:24)

*”(یہ بات کہتے کہتے)داٶدؑ سمجھ گیا کہ یہ تو ہم نے دراصل اُس کی آزمائش کی ہے،چنانچہ اس نے اپنے ربّ سے معافی مانگی اور سجدے میں گِر گیا اور رُجوع کر لیا۔“*

حضرت سلیمان علیہ السلام کا استغفار:

قَالَ رَبِّ اغۡفِرۡ لِىۡ وَهَبۡ لِىۡ مُلۡكًا لَّا يَنۡۢبَغِىۡ لِاَحَدٍ مِّنۡۢ بَعۡدِىۡ‌ۚ اِنَّكَ اَنۡتَ الۡوَهَّابُ۞(ص:35)

*”اور کہا کہ”اے میرے ربّ،مجھے معاف کر دے اور مجھے وہ بادشاہی دے جو میرے بعد کسی کے لیے سزاوار نہ ہو،بے شک تُو ہی اصل داتا ہے۔“*

حضرت یونس علیہ السلام کا استغفار:

وَ ذَا النُّوۡنِ اِذْ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنۡ لَّنۡ نَّـقۡدِرَ عَلَيۡهِ فَنَادٰى فِى الظُّلُمٰتِ اَنۡ لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنۡتَ سُبۡحٰنَكَ ‌ۖ  اِنِّىۡ كُنۡتُ مِنَ الظّٰلِمِيۡنَ‌۞(یونس:87)

*”اور مچھلی والے کو بھی ہم نے نوازا۔یاد کرو جبکہ وہ بگڑ کر چلا گیا تھا اور سمجھا تھا کہ ہم اس پر گرفت نہ کریں گے۔آخر کو اُس نے تاریکیوں میں سے پکارا”  نہیں ہے کوئی خدا مگر تُو،پاک ہے تیری ذات،بے شک میں نے قُصور کیا۔“*

حضرت یعقوب علیہ السلام کا استغفار:

قَالُوۡا يٰۤاَبَانَا اسۡتَغۡفِرۡ لَنَا ذُنُوۡبَنَاۤ اِنَّا كُنَّا خٰـطِـئِيۡنَ۞قَالَ سَوۡفَ اَسۡتَغۡفِرُ لَـكُمۡ رَبِّىۡؕ اِنَّهٗ هُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِيۡمُ۞(یوسف:98-97)

*”سب بول اٹھے”ابا جان،آپ ہمارے گناہوں کی بخشش کے لیے دعا کریں،واقعی ہم خطا کار تھے اُس نے کہا ”میں اپنے رب سے تمہارے لیے معافی کی درخواست کروں گا،وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔“*

استغفار کی خاطر پیغمبروں نے نہ صرف اپنے وجود کو اللہ کے حضور پیش کیا بلکہ اپنی قوم کو بھی اسی چیز کی طرف دعوت دی۔

حضرت ہود علیہ السلام نے دعوت دی:

وَيٰقَوۡمِ اسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّكُمۡ ثُمَّ تُوۡبُوۡۤا اِلَيۡهِ يُرۡسِلِ السَّمَآءَ عَلَيۡكُمۡ مِّدۡرَارًا وَّيَزِدۡكُمۡ قُوَّةً اِلٰى قُوَّتِكُمۡ وَلَا تَتَوَلَّوۡا مُجۡرِمِيۡنَ۞(ھود:52)

*”اور اے میری قوم کے لوگو،اپنے ربّ سے معافی چاہو، پھر اس کی طرف پلٹو،وہ تم پر آسمان کے دہانے کھول دے گا اور تمہاری موجودہ قوت پر مزید قوت کا اضافہ کرے گا۔مجرموں کی طرح منہ نہ پھیرو۔“*

حضرت صالح علیہ السلام نے دعوت دی:

وَاِلٰى ثَمُوۡدَ اَخَاهُمۡ صٰلِحًا‌ۘ قَالَ يٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰهَ مَا لَـكُمۡ مِّنۡ اِلٰهٍ غَيۡرُهٗ‌ ؕ هُوَ اَنۡشَاَكُمۡ مِّنَ الۡاَرۡضِ وَاسۡتَعۡمَرَكُمۡ فِيۡهَا فَاسۡتَغۡفِرُوۡهُ ثُمَّ تُوۡبُوۡۤا اِلَيۡهِ‌ ؕ اِنَّ رَبِّىۡ قَرِيۡبٌ مُّجِيۡبٌ۞(ھود:61)

*”اور ثمود کی طرف ہم نے اُن کے بھائی صالحؑ کو بھیجا۔اُس نے کہا”اے میری قوم کے لوگو،اللہ کی بندگی کرو،اُس کے سوا تمہارا کوئی خُدا نہیں ہے۔وہی ہے جس نے تم کو زمین سے پیدا کیا اور یہاں تم کو بسایا ہے۔لہٰذا تم اُس سے معافی چاہو اور اُس کی طرف پلٹ آٶ،یقیناً میرا ربّ قریب ہے اور وہ دعاؤں کا جواب دینے والا ہے۔“*

حضرت شعیب علیہ السلام نے دعوت دی:

وَاسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّكُمۡ ثُمَّ تُوۡبُوۡۤا اِلَيۡهِ‌ؕ اِنَّ رَبِّىۡ رَحِيۡمٌ وَّدُوۡدٌ‏۞(ھود:90)

*”دیکھو! اپنے ربّ سے معافی مانگو اور اس کی طرف پلٹ آٶ،بے شک میرا ربّ رحیم ہے اور اپنی مخلوق سے محبت رکھتا ہے۔“*

اللہ تعالیٰ نے اس عظیم کام کو بجا لانے کے لیے اپنے پیارے حبیب محمدِ مصطفیٰﷺ کو بھی حکم دیا کہ:

وَّاسۡتَغۡفِرِ اللّٰهَ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوۡرًا رَّحِيۡمًا‌۞(النساء:106)

*”اور اللہ سے در گزر کی درخواست کرو، وہ بڑا درگزر فرمانے والا اور رحیم ہے۔“*

”یعنی اس منافق کے حق میں آپﷺ کی طبیعت میں جو نرمی پیدا ہوگئی تھی اس پر اللہ سے استغفار کیجئے،مغفرت طلب کیجیے۔“(بیان القرآن)

فَاعۡلَمۡ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَاسۡتَغۡفِرۡ لِذَنۡۢبِكَ وَلِلۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ‌ ؕ وَاللّٰهُ يَعۡلَمُ مُتَقَلَّبَكُمۡ وَمَثۡوٰٮكُمۡ۞(محمد:19)

*”پس اے نبیؐ،خوب جان لو کہ اللہ کےسوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے،اور معافی مانگو اپنے قصور کے لیے بھی اور مومن مردوں اور عورتوں کے لیے بھی۔اللہ تمہاری سرگرمیوں کو بھی جانتا ہے اور تمہارے ٹھکانے سے بھی واقف ہے۔“*

”اسلام نے جو اخلاق انسان کو سکھائے ہیں،ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بندہ اپنے رب کی بندگی و عبادت بجا لانے میں،اور اسے دین کی خاطر جان لڑانے میں،خواہ اپنی ہی کوشش کرتا رہا ہو،اس کو کبھی اس زعم میں مبتلا نہ ہونا چاہیے کہ جو کچھ مجھے کرنا چاہیے تھا وہ میں نے کردیا ہے،بلکہ اسے ہمیشہ یہی سمجھتے رہنا چاہیے کہ میرے مالک کا مجھ پر جو حق تھا وہ میں ادا نہیں کرسکا ہوں،اور ہر وقت اپنے قصور کا اعتراف کر کے اللہ سے یہی دعا کرتے رہنا چاہیے کہ تیری خدمت میں جو کچھ بھی کوتاہی مجھ سے ہوئی ہے اس سے درگزر فرما۔یہی اصل روح ہے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی کہ”اے نبیﷺ  اپنے قصور کی معافی مانگو“۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ معاذ اللہ،نبیﷺ  نے فی الواقع جان بوجھ کر کوئی قصور کیا تھا۔بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ تمام بندگان خدا سے بڑھ کر جو بندہ اپنے رب کی بندگی بجا لانے والا تھا،اس کا منصب بھی یہ نہ تھا کہ اپنے کارنامے کے فخر کا کوئی شائبہ تک اس کے دل میں راہ پائے،بلکہ اس کا مقام بھی یہ تھا کہ اپنے ساری عظیم القدر خدمات کے باوجود اپنے رب کے حضور اعتراف قصور ہی کرتا رہے۔اسی کیفیت کا اثر تھا جس کے تحت رسول اللہﷺ ہمیشہ بکثرت استغفار فرماتے رہتے تھے۔ابوداؤد،نسائی اور مسند احمد کی روایت میں حضورﷺ کا یہ ارشاد منقول ہوا ہے کہ”میں ہر روز سو بار اللہ سے استغفار کرتا ہوں“۔ (تفہیم القرآن)

فَسَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّكَ وَاسۡتَغۡفِرۡهُ‌ ؔؕ اِنَّهٗ كَانَ تَوَّابًا۞(النصر:3)

*”تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح کرو،اور اُس سے مغفرت کی دُعا مانگو،بے شک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔“*

”یعنی اپنے رب سے دعا مانگو کہ جو خدمت اس نے تمہارے سپرد کی تھی اس کو انجام دینے میں تم سے جو بھول چوک یا کوتاہی بھی ہوئی ہو اس سے چشم پوشی اور درگزر فرمائے۔یہ ہے وہ ادب جو اسلام میں بندے کو سکھایا گیا ہے۔کسی انسان سے اللہ کے دین کی خواہ کیسی ہی بڑی سے بڑی خدمت انجام پائی ہو،اس کی راہ میں خواہ کتنی ہی قربانیاں اس نے دی ہوں اور اس کی عبادت و بندگی بجا لانے میں خواہ کتنی ہی جانفشانیاں اس نے کی ہوں،اس کے دل میں کبھی یہ خیال تک نہ آنا چاہیے کہ میرے اوپر میرے رب کا جو حق تھا وہ میں نے پورا کا پورا ادا کردیا ہے،بلکہ اسے ہمیشہ یہی سمجھنا چاہیے کہ جو کچھ مجھے کرنا چاہیے تھا وہ میں نہیں کرسکا،اور اسے اللہ سے یہی دعا مانگنی چاہیے کہ اس کا حق ادا کرنے میں جو کوتاہی بھی مجھ سے ہوئی ہو اس سے درگزر فرما کر میری حقیر سی خدمت قبول فرمالے۔یہ ادب جب رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کو سکھایا گیا جن سے بڑھ کر خدا کی راہ میں سعی و جہد کرنے والے کسی انسان کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا،تو دوسرے کسی کا یہ مقام کہاں ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے عمل کو کوئی بڑا عمل سمجھے اور اس غرے میں مبتلا ہو کہ اللہ کا جو حق اس پر تھا وہ اس نے ادا کردیا ہے۔اللہ کا حق اس سے بہت بالا و برتر ہے کہ کوئی مخلوق اسے ادا کرسکے۔اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان مسلمان کو ہمیشہ کے لیے یہ سبق دیتا ہے کہ اپنی کسی عبادت و ریاضت اور کسی خدمتِ دین کو بڑی چیز نہ سمجھیں،بلکہ اپنی جان راہ خدا میں کھپا دینے کے بعد بھی یہی سمجھتے رہیں کہ ”حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا “۔اسی طرح جب کبھی انہیں کوئی فتح نصیب ہو،اسے اپنے کسی کمال کا نہیں بلکہ اللہ کے فضل ہی کا نتیجہ سمجھیں اور اس پر فخر و غرور میں مبتلا ہونے کے بجائے اپنے رب کے سامنے عاجزی کے ساتھ سر جھکا کر حمد و تسبیح اور توبہ و استغفار کریں۔(تفہیم القرآن)

نبی اکرم ﷺ کے اللہ نے اگلے اور پچھلے سارے گناہ معاف کر دئے تھے لیکن آپﷺ اللہ کے انعام و احسان کے شکریہ میں کثرت سے استغفار کرتے تھے،جیسا کہ حدیث میں ہے کہ آپﷺ دن اور رات میں ستر سے زائد مرتبہ استغفار کرتے تھے:

*”حضرت ابوہریرہؓ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا،نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم میں دن میں ستر مرتبہ سے زیادہ اللہ سے استغفار اور اس سے توبہ کرتا ہوں۔“*(بخاری:6307)

بلکہ آپﷺ ایک مجلس میں سو سو مرتبہ استغفار کرتے تھے:

*”حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ ہم ایک مجلس میں رسول اللہﷺ  کے سو بار:رَبِّ اغْفِرْ لِي وَتُبْ عَلَيَّ إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ۔اے میرے رب! مجھے بخش دے،میری توبہ قبول کر،تو ہی توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے،کہنے کو شمار کرتے تھے۔“*  (ابوداٶد:1516)

مرض الموت میں وفات سے پہلے آپﷺ نے اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی:

*”حضرت عباد بن عبداللہ بن زبیر کو حضرت عائشہؓ نے خبر دی کہ آپ نے نبی کریمﷺ سے سنا،وفات سے کچھ پہلے نبی کریمﷺ پشت سے ان کا سہارا لیے ہوئے تھے۔آپ نے کان لگا کر سنا کہ نبی کریمﷺ  دعا کر رہے ہیں اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي،وَارْحَمْنِي،وَأَلْحِقْنِي بِالرَّفِيقِ۔اے اللہ!میری مغفرت فرما،مجھ پر رحم کر اور میرے رفیقوں سے مجھے ملا۔“*(بخاری:4440)

اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں استغفار کے لیے جلدی کرنے کا حکم دیا اور  اسے متقیوں اور صالحین کی صفت قرار دے دیا:

وَسَارِعُوۡۤا اِلٰى مَغۡفِرَةٍ مِّنۡ رَّبِّكُمۡ وَجَنَّةٍ عَرۡضُهَا السَّمٰوٰتُ وَالۡاَرۡضُۙ اُعِدَّتۡ لِلۡمُتَّقِيۡنَۙ۞الَّذِيۡنَ يُنۡفِقُوۡنَ فِى السَّرَّآءِ وَالضَّرَّآءِ وَالۡكٰظِمِيۡنَ الۡغَيۡظَ وَالۡعَافِيۡنَ عَنِ النَّاسِ‌ؕ وَاللّٰهُ يُحِبُّ الۡمُحۡسِنِيۡنَ‌ۚ۞وَالَّذِيۡنَ اِذَا فَعَلُوۡا فَاحِشَةً اَوۡ ظَلَمُوۡۤا اَنۡفُسَهُمۡ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسۡتَغۡفَرُوۡا لِذُنُوۡبِهِمۡ وَمَنۡ يَّغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ اِلَّا اللّٰهُ ۖ وَلَمۡ يُصِرُّوۡا عَلٰى مَا فَعَلُوۡا وَهُمۡ يَعۡلَمُوۡنَ۞ (آل عمران:135-133)

*”دوڑ کر چلو اُ س راہ پر جو تمہارے رب کی بخشش اور اُس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے،اور وہ اُن خدا ترس لوگوں کے لیے مہیا کی گئی۔جو ہر حال میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں خواہ بد حال ہوں یا خوش حال، جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کر دیتے ہیں ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں۔اور جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام ان سے سرزد ہو جاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کر کے وہ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو معاً اللہ انہیں یاد آجاتا ہے اور اس سے وہ اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں کیونکہ اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کرسکتا ہو او ر وہ دیدہ و دانستہ اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے۔“*

اَلصّٰــبِرِيۡنَ وَالصّٰدِقِــيۡنَ وَالۡقٰنِتِــيۡنَ وَالۡمُنۡفِقِيۡنَ وَالۡمُسۡتَغۡفِرِيۡنَ بِالۡاَسۡحَارِ۞(آل عمران:17)

*”یہ لوگ صبر کرنے والے ہیں،راستباز ہیں،فرمانبردار اور فیاض ہیں اور رات کی آخری گھڑیوں میں اللہ سے مغفرت کی دعائیں مانگا کرتے ہیں۔“*

استغفار کا عمل اللہ تعالیٰ کو بے حد محبوب ہے۔ایک حدیث مبارکہ میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

’’جب بندہ اللہ تعالیٰ سے توبہ کرتا ہے تو اس کی توبہ سے رب کریم اس سے زیادہ راضی(اور خوش) ہوتے ہیں،جتنا تم میں سے کوئی(اس وقت ہوتا ہے جب وہ) اپنی سواری پر جنگل و بیاباں میں جارہا ہو،اچانک وہ سواری اس سے گم ہوجائے،اس حال میں کہ اس پر اس کا کھانا پینا(بھی)رکھا ہو،وہ اس(کی واپسی)سے مایوس ہوجائے اور ایک درخت کے سائے میں آکر لیٹ جائے،ابھی وہ اس حال میں ہو کہ دفعتاً دیکھے وہ سواری اس کے پاس کھڑی ہے،بس وہ اس کی لگام تھام لے،پھر مسرت و شادمانی کے عالم میں یہ کہہ بیٹھے: ’’اے اللہ! آپ میرے بندے اور میں آپ کا رب۔‘‘(یعنی خوشی کے باعث غلط جملہ کہہ دے۔)“(مسلم:7129)                          استغفار ایک ایسا عمل ہے جس پر وعدہ خداوندی ہے کہ امت عذاب سے محفوظ رہے گی،آج ہم جو طرح طرح کے عذابات کا شکار ہیں،اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے سچے دل سے معافی اور استغفار نہیں کرتے،کیونکہ اگر ہم گناہوں کے بعد سچے دل سے استغفار کرتے رہتے تو ہم اس طرح کے پریشان کن حالات سے ہرگز دوچار نہ ہوتے،کیونکہ قرآن پاک میں ارشادِ خداوندی ہے:

وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمۡ وَاَنۡتَ فِيۡهِمۡ‌ؕ وَمَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمۡ وَهُمۡ يَسۡتَغۡفِرُوۡنَ۞(الانفال:33)

*”اُس وقت تو اللہ ان پر عذاب نازل کرنے والا نہ تھا جبکہ تُو ان کے درمیان موجود تھا۔اور نہ اللہ کا یہ قاعدہ ہے کہ لوگ استغفار کر رہے ہوں اور وہ اُن کو عذاب دیدے۔“*

حضرت علیؓ کا ارشاد ہے کہ:ارض کائنات میں دو امان دیئے گئے،زمین کے دو امان میں سے ایک تو اٹھالیا گیا اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی ہے اور دوسرا باقی رہ گیا اور وہ استغفار ہے،اس کو مضبوطی سے پکڑلو۔        (روح کی بیماریوں کا علاج،ص:۳۱)

کثرتِ اِستغفار سے جہاں گناہوں کی معافی ہوتی ہے،وہاں دنیا کے مسائل بھی حل ہوتے ہیں۔ایک حدیث مبارکہ میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

*”حضرت عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ  نے فرمایا:جو کوئی استغفار کا التزام کرلے تو اللہ اس کے لیے ہر تنگی سے نکلنے اور ہر رنج سے نجات پانے کی راہ ہموار کر دے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا،جس کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتا۔“* (ابوداٶد:1518)

حضرت حسن بصریؒ سے کسی نے قحط سالی کی شکایت کی۔

تو فرمایا:استغفار کرو،

دوسرے نے تنگدستی کی شکایت کی،

تو فرمایا:استغفار کرو،

تیسرے آدمی نے اولاد نہ ہونے کی شکایت کی،

تو فرمایا:استغفار کرو،

چوتھے نے شکایت کی کہ پیداوارِ زمین میں کمی ہو رہی ہے،

تو فرمایا:استغفار کرو،

پوچھا گیا:”آپ نے ہر شکایت کا ایک ہی علاج تجویز کیوں فرمایا؟“

تو انہوں یہ آیت تلاوت فرمائی:

فَقُلۡتُ اسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّكُمۡؕ اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًا۞يُّرۡسِلِ السَّمَآءَ عَلَيۡكُمۡ مِّدۡرَارًا۞وَّيُمۡدِدۡكُمۡ بِاَمۡوَالٍ وَّبَنِيۡنَ وَيَجۡعَلۡ لَّـكُمۡ جَنّٰتٍ وَّيَجۡعَلۡ لَّـكُمۡ اَنۡهٰرًا۞(نوح:12-10)

*”میں نے کہا اپنے رب سے معافی مانگو،بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے،وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا،تمہیں مال اور اولاد سے نوازے گا،تمہارے لیے باغ پیدا کرے گا اور تمہارے لیے نہریں جاری کر دے گا۔“* (تفسیر قرطبی)

آج ہم گناہوں کے سمندر میں غرق ہیں۔قدم قدم پر رب کریم کی نافرمانیاں کر رہے ہیں۔ہماری صبح،ہماری شام،ہماری رات معصیتوں سے آلودہ ہیں۔نفس و شیطان کے چنگل میں پھنس کر ہم اپنے رحیم و مہربان پروردگار کی بغاوت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔دنیا کی محبت نے ہمیں آخرت سے غافل کررکھا ہے۔اس فانی،عارضی اور ختم ہو جانے والی زندگی کو ہم نے اپنا مطمحِ نظر بنایا ہوا ہے۔خوفِ خدا، فکرِ آخرت اور بارگاہِ الٰہی میں حاضری کا احساس معدوم ہوتا جارہا ہے۔نتیجہ سامنے ہے۔کثرتِ ذنوب نے ہم پر آفات و بلیات اور مصائب وآلام کے وہ پہاڑ توڑے کہ الامان والحفیظ!

حالاں کہ کتاب و سنت ہمیں اس بات سے آگاہ کرتے ہیں کہ انبیائے کرام صلوات اللہ علیہم اجمعین کے علاوہ کوئی فردِ بشر معصوم نہیں۔ہر انسان سے خطا،لغزش اور غلطی کاصدور ہوسکتا ہے،لیکن بہترین خطار کار وہ ہے جو اپنے کیے پر نادم و شرم سار ہو،جسے اس حقیقت کا احساس ہو کہ میرا بد عمل محفوظ کر لیا گیا ہے اور میرا رب مجھ سے اس بارے میں یقیناً پوچھے گا۔یہی وجہ ہے صاحبانِ ایمان کو بار بار گناہوں کے’’تریاق‘‘ کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ایسا نہ ہو کہ بندہ گناہ کا ارتکاب کرنے کے بعد مایوس و پریشان ہو جائے،بلکہ کتابِ مبین میں خطا کاروں کے واسطے صاف صاف اعلان کردیا گیا ہے:’’اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔“

آج لوگ دشواریوں کو ختم کرنے اور تکفرات سے نجات پانے اور رزق حاصل کرنے کے لئے کیا کیا جتن کرتے ہیں،لیکن استغفار میں نہیں لگتے جوکہ بہت آسان نسخہ ہے،جس پر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا وعدہ ہے کہ استغفار میں لگنے والا بندہ مذکورہ فوائد حاصل کرے گا۔استغفار کرنے پر جن انعامات کا ذکر ہوا،وہی انعامات متقین کے لئے بھی وارد ہوئے ہیں،رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان جایئے کہ آپ کی رحمت نے یہ گوارا نہ کیا کہ میری امت کے خطا کار بندے محروم رہ جائیں،پس مستغفرین و تائبین(توبہ و استغفار کرنے والوں)کے لئے بھی ان ہی انعامات کا وعدہ فرمایا جو متقین کو عطا ہوں گے۔لہٰذا ہمیں چاہئیے کہ دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کرنے اور ہر قسم کے غم و فکر،رنج و الم اور آفات و مصائب سے محفوظ رہنے کے لیے اپنی زندگی میں کثرت سے استغفار کریں،کثرتِ اِستغفار کو زندگی کا معمول بنالیں،اسی میں ہماری دنیوی و اُخروی کامیابی کا راز مضمر ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو کثرت سے استغفار کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العٰمین۔

Comments