Tragedy Of Contemporary World


   اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور دینِ حق ہے جو بذاتِ خود روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔حق بجائے خود حق ہے اور حق اس کا پابند نہیں ہوتا کہ لوگ اسے قبول کریں یا نہ کریں بلکہ لوگوں کی دینی و دنیوی کامرانی اسی بات میں مضمر ہوتی ہے کہ وہ حق کو دل و جان سے مانیں اور اسے دنیا کے کونے کونے تک پُہنچانے میں حتی المقدور کوشش کریں۔جن لوگوں نے اس چیز کا بیڑا اُٹھایا ہو کہ حق کو پورے جُوش و خروش کے ساتھ دنیا میں قائم کریں اور اس راہ میں آنے والی ہر مصیبت کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کریں انہیں”اہلِ حق“ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔اہلِ حق دنیا کے سامنے حق کی اصلی اور مکمل تصویر رکھتے وقت صبر و حکمت سے لبریز ہوتے ہیں۔یہ لوگ حق کو پیش کرتے وقت ہر امتحاں سے مُسکرا کر گزر جانا اپنے اوپر ایک اہم فریضہ سمجھتے ہیں۔وفا کی راہ میں چل کر انہیں زخم کھا کر عُمر بھر پھر صبر کرنا پڑتا ہے۔دنیا و عقبیٰ میں سُرخرو ہونے کے لیے انہیں اپنے رب کے لیے جینا مرنا ہوتا ہے۔اس عزیمت کی راہ میں انہیں خوشبو کے مانند ہواٶں میں بکھرنا اور ہریالیوں پہ مثلِ شبنم نکھرنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں ہوتا۔یہی وجہ ہے کہ ان صفات سے متصف ہو کر کامیابی ان کے قدم چومتی ہے۔دنیا سے نکلتے وقت یہ لوگ اپنے پیچھے ایسے کارنامے چھوڑتے ہیں جنہیں پڑھ کر ایک انسان کے ایمان میں ایک نئی توانائی پیدا ہو جاتی ہے،جو پورے وجود میں سرایت کر کے ایک نئے انسان کا وجود بخشتی ہے۔ان کا شمار ان خُوش قسمت لوگوں میں ہوتا ہے جنہیں رب العٰلمین نے اپنے حق کی ترویج و اشاعت کے لیے چُن لیا تھا۔ان کی کامیابی کا بین ثبوت یہی ہوتا ہے کہ یہ لوگ زندگی کے آخری سانس تک حق پر قائم رہتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ان پر خدا کا یہ احسان ہوتا ہے کہ اس نے انہیں گُھپ اندھیروں میں چراغ جلانے کی توفیق بخشی۔یہ لوگ اس احسان کا شکر اپنے ہاں یہ سمجھتے ہیں کہ ان  گُھپ اندھیروں میں چراغ جلاتے رہیں اور بالاٰخر یہی کام کرتے کرتے یہ لوگ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملتے ہیں۔مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ:

*”حق کے کےمتعلق یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ وہ بجائے خود”حق“ ہے۔وہ ایسی مستقل اقدار کا نام ہے جو سراسر صحیح اور صادق ہے۔اگر تمام دنیا اس سے منحرف ہو جائے تب بھی وہ حق ہی ہے۔کیونکہ اس کا حق ہونا اس شرط سے مشروط نہیں کہ دنیا اس کو مان لے۔دنیا کا ماننا یا نہ ماننا سرے سے حق و باطل کے فیصلے کا معیار ہی نہیں ہے۔اگر دنیا حق کو نہیں مانتی تو حق ناکام نہیں ہے،بلکہ ناکام وہ دنیا ہے جس نے اسے نہ مانا اور باطل کو قبول کر لیا۔مصائب حق پر نہیں بلکہ اہلِ حق پر آتے ہیں،لیکن جو لوگ سوچ سمجھ کر کامل قلبی اطمینان کے ساتھ یہ فیصلہ کر چکے ہوں کہ انہیں بہرحال حق ہی پر قائم رہنا اور اسی کا بول بالا کرنے کے لیے اپنا سارا سرمایہ حیات لگا دینا ہے،وہ مصائب میں تو مبتلا ضرور ہو سکتے ہیں،لیکن ناکام کبھی نہیں ہو سکتے۔“*

   تاریخ نے وہ زمانہ بھی درج کیا ہے کہ جس میں حق کی ترویج و اشاعت میں لوگ اپنا وقت،اپنا مال،اپنے جسم و جان کی قوتیں اور اپنے دل و دماغ کی صلاحیتیں کھپا دینے کے لیے ہر لمحہ اور ہر آن تیار رہتے تھے۔حتیٰ کہ اگر سر دھڑ کی بازی لگا دینے کی ضرورت پیش آجاتی تو وہ اس سے بھی منہ نہ موڑتے تھے،وہ اعلائے کلمۃ اللہ کے کام کو اپنا مقصدِ زندگی سمجھتے تھے۔وہ دنیا کے دوسرے کام تو جینے کے لیے کرتے تھے،مگر خود جینا اُن کا اسی مقصدِ وحید کے لیے تھا۔اس مقصد میں وہ مخلص تھے اور اسی کی لگن ان کے دل کو لگی ہوئی تھی۔اس کے حصول کی کوشش کا وہ پختہ عزم رکھتے تھے۔وہ رزم گاہِ حیات میں شمشیرِ بے نیام ہوتے تھے اور شبستان محبت میں کوئی دوسرا ان سے زیادہ نرم نہیں ہوتا تھا۔علامہ اقبالؒ کے بقول؎

*ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم*

*رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن*

*جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم*

*دریاٶں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان*

 آج ہم جب چوطرفہ نظر دوڑاتے ہیں تو حق کا ساتھ دینے والے لوگ کمیاب نظر آتے ہیں اور ناحق کو بڑے ہی شد و مد کے ساتھ سپورٹ کیا جا رہا ہے،اس پریشان کُن حالت کو دیکھ کر ایک باغیرت مومن اندر ہی اندر کھوکھلا ہو کر بالآخر موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے۔ایمان کو تباہ و برباد کرنے والے فتنوں میں مبتلا ہونے کے بجائے یہ موت کو ترجیح دیتا ہے،ویسے تو موت اپنے عاشقِ حقیقی سے ملنے کا نام ہے،جس میں دلی ناراضگی کی کوئی گنجائش ہے ہی نہیں۔یہ دنیا منزل کے بجائے گزرگاہ ہے اور ایک متقی انسان یہاں پھونک پھونک کر قدم ڈالتا ہے تاکہ اس کا دامن کہیں کسی کانٹے میں اُلجھ نہ جائے اور بالاٰخر اس فانی دنیا سے نکلتے ہوئے یہ لوگوں کو خون کے آنسو رُلاتا ہے۔لیکن مُردہ پرست قوم کو اس مردِ مسلمان کی قدر مرنے کے بعد ہی آتی ہے۔زندہ ہوتے ہوئے اسے اللہ کے بغیر کون تھا جسے یہ اپنی روداد سناتا تاکہ اپنے زخموں پر تسکین کا پھایا رکھ دیتا۔یہ قلبی یقین سے سرشار ہوتا ہے اور دنیا میں بڑی سے بڑی پریشانی دیکھ کر صدقِ دل سے”انا للہ وانا الیہ راجعون“پڑھتا اور کہتا ہے:”اے بندہ حق،یہ بس اس دنیا تک ہے،موت کی دہلیز پار کرنے سے پہلے پہلے“اور مُسکرا دیتا ہے۔شاید ایسے ہی بندوں کے بارے میں اللہ جل شانہ جنت کو بار بار سجاتے ہوئے کہتا ہے:”عنقریب میرے یہ نیک بندے دنیاوی کھکیڑ اور جھنجھٹ سے نکل کر یہاں آجائیں گے۔“(مسند احمد:۲/۲۹۲) 

   اسلام ایک آفاقی اور عالمگیر دین ہے جس نے ہمیں فرش سے اٹھا کر عرش پہ بٹھا دیا۔ہماری حیثیت ہی کیا تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعے ہمیں عزت دے دی اور اسلام کو چھوڑ کر ہم جتنے عزت والے بننا چاہیں گے اللہ تعالیٰ اتنا ہی ذلیل کر کے رکھ دے گا۔ہم ہی وہ بندے ہیں جو اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اپنا شمار مسلمانوں کی جماعت میں کرتے ہیں،لیکن دن رات اپنے کرتوت سے اسلامی نظام کو ڈھانے اور کافرانہ نظام کو تقویت پہنچانے میں پیش پیش ہیں۔یہ ظاہر و باطن اور قول و فعل میں تضاد اللہ تعالیٰ کو نہایت ہی مبغوض کر دیتے ہیں۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لِمَ تَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ۞كَبُرَ مَقۡتًا عِنۡدَ اللّٰهِ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ۞(الصف:3-2)

*”اے لوگو جو ایمان لائے ہو،تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں۔“*

{یٰٓــاَیـُّـھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۔}”اے مسلمانو ! تم کیوں کہتے ہو وہ جو کرتے نہیں ہو؟“اس آیت میں زجر و توبیخ اور جھنجھوڑنے کا وہی انداز پایا جاتا ہے جو اس سے قبل ہم سورة الحدید میں بھی دیکھ چکے ہیں۔بلکہ یہ اسلوب زیر مطالعہ مدنی سورتوں میں جگہ جگہ پایا جاتا ہے۔قبل ازیں سورة الحدید کے تمہیدی کلمات میں اس اسلوب کی وجہ بھی بیان کی گئی ہے کہ ان سورتوں کے زمانہ نزول ٥ ہجری کے بعد تک پرانے مسلمانوں کی نسبت نومسلموں کی تعداد زیادہ ہوچکی تھی۔ایمان کی گہرائی اور جذبہ ایثار و قربانی کے حوالے سے نووارد مسلمانوں کی کیفیت چونکہ”السابقون الاولون“اور ابتدائی دور کے اہل ایمان کی سی نہیں تھی،اس لیے مسلمانوں کے ایمان و عمل کے اجتماعی معیار کے اوسط میں قدرے کمی واقع ہوئی تھی اور اسی وجہ سے انہیں اس انداز میں جھنجھوڑا جا رہا ہے۔لیکن قرآن مجید چونکہ ہر زمانے کے لوگوں سے مخاطب ہے،اس لیے اس آیت کو پڑھتے ہوئے یوں سمجھیں کہ آج یہ ہم سے سوال کر رہی ہے کہ اے ایمان کے دعوے دارو! تم کیسے مسلمان ہو؟تمہارے قول و فعل میں اتنا تضاد کیوں ہے؟تم اللہ پر ایمان کا اقرار بھی کرتے ہو اور دن رات اس کے احکام کو پاٶں تلے روندتے بھی رہتے ہو! تم رسول اللہﷺ کی ذات سے عشق و محبت کے دعوے بھی کرتے ہو لیکن جب عمل کے میدان میں آتے ہو تو آپﷺ کی سنتوں کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیتے ہو! ذرا تصور کیجیے! آج اگر اللہ کا کلام نازل ہو تو ہمارے ایمان،ہمارے کردار اور ہمارے عمل پر کیا کیا تبصرہ کرے! اور اگر آج حضورﷺ خود تشریف لاکر اپنی امت کی حالت دیکھ لیں تو کیسا محسوس کریں!“(بیان القرآن)

    سچ مُچ میں ہماری وجہ سے آج اسلام بدنام ہوتا جا رہا ہے،نہ ہمارے قلب میں سوز ہے اور نہ ہی روح میں احساس ہے۔پیغامِ محمدﷺ کا ہمیں کچھ بھی پاس نہیں ہے۔دنیا کی حقیر مفادوں کی خاطر ہم اسلامی قوانین کو اپنے پاٶں تلے روند ڈالتے ہیں۔آج نبی اکرمﷺ کے اُمتی دنیا پر فریفتہ ہوکر عیش پرست بن چکے ہیں،جبکہ نبی اکرمﷺ فقیرانہ زندگی بسر کرنے کو ترجیح دے کر اُمت کی شان بھی فقیری میں ہی دیکھا کرتے تھے۔کہاں گئے وہ اُمتی جو سیرتِ سرور عالمﷺ میں اپنے آپ کو رنگتے تھے،دنیا کو ناراض کر کے اپنے پیارے حبیبﷺ کو راضی کر گئے۔ذرا سوچئے تو سہی کہ آخر قیامت کے دن ہم جھوٹے دعوے دار نبی اکرمﷺ کے سامنے کس منہ سے جائیں گے؟یہ احساس ہمارے لیے سب سے زیادہ پریشان کُن ہے۔عیش پرستی کے جال میں پھنسے ہوئے مسلمانوں کو ذیل کی روایات باہر نکالنے کے لیے کافی ہیں:

*”مسروق کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے ہمارے لیے کھانا طلب کیا اور کہا کہ میں کسی کھانے سے سیر نہیں ہوتی ہوں کہ رونا چاہتی ہوں پھر رونے لگتی ہوں۔میں نے سوال کیا:ایسا کیوں؟عائشہ ؓ نے کہا:میں اس حالت کو یاد کرتی ہوں جس پر رسول اللہﷺ کا انتقال ہوا،اللہ کی قسم! آپ روٹی اور گوشت سے ایک دن میں دو بار کبھی سیر نہیں ہوئے۔“*(ترمذی:2356)

*”نعمان بن بشیر ؓ کہتے ہیں کہ  تم لوگ جو چاہتے ہو کھاتے پیتے ہو حالانکہ میں نے نبی اکرم  ﷺ  کو اس حال میں دیکھا کہ ردی کھجوریں بھی اس مقدار میں آپ کو میسر نہ تھیں جن سے آپ اپنا پیٹ بھرتے۔*(ترمذی:2372)  

*”حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ  ایک چٹائی پر سو گئے،نیند سے بیدار ہوئے تو آپ کے پہلو پر چٹائی کا نشان پڑگیا تھا،صحابہ نے عرض کیا:اللہ کے رسول! ہم آپ کے لیے ایک بچھونا بنادیں تو بہتر ہوگا،آپﷺ  نے فرمایا:مجھے دنیا سے کیا مطلب ہے،میری اور دنیا کی مثال ایسی ہے جیسے ایک سوار ہو جو ایک درخت کے نیچے سایہ حاصل کرنے کے لیے بیٹھے،پھر وہاں سے کوچ کر جائے اور درخت کو اسی جگہ چھوڑ دے۔“*(ترمذی:2377)   

*”حضرت عائشہؓ نے بیان کیا کہ محمدﷺ  کے گھر والوں کو مدینہ آنے کے بعد کبھی تین دن تک برابر گیہوں کی روٹی کھانے کے لیے نہیں ملی،یہاں تک کی نبی کریم  ﷺ  کی روح قبض ہوگئی۔“*(بخاری:6454)

*”ام المؤمنین حضرت عائشہؓ نے بیان کیا  انہوں نے عروہ سے کہا،بیٹے! ہم دو مہینوں میں تین چاند دیکھ لیتے ہیں اور رسول اللہﷺ(کی بیویوں) کے گھروں میں چولھا نہیں جلتا تھا۔میں نے پوچھا پھر آپ لوگ زندہ کس چیز پر رہتی تھیں؟بتلایا کہ صرف دو کالی چیزوں پر،کھجور اور پانی۔ہاں،نبی کریمﷺ  کے کچھ انصاری پڑوسی تھے جن کے یہاں دو دہیل اونٹنیاں تھیں وہ اپنے گھروں سے نبی کریمﷺ  کے لیے دودھ بھیج دیتے اور آپ ہمیں وہی دودھ پلا دیتے تھے۔“*(بخاری:6459)

ہمارے اوپر کُفر کا سائبان ہے اور ہم اس کے نیچے ہنسی خوشی اپنے دن رات کاٹتے ہیں،یہ ایک واضح تضاد ہے۔کافرانہ نظام کے تحت ہنسی خوشی زندگی گزارنا کسی مردِ مجاہد کا کام نہیں ہو سکتا۔دورِ حاضر میں مسلمان دنیا پر فریفتہ ہو کر تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔رب کو چھوڑ کر انہیں کون ذلت و رُسوائی کی کھائی میں گرنے سے بچا سکتا ہے؟ آج کے نام نہاد مسلمانوں کی حالتِ زار پر تبصرہ کرتے ہوئے پروفیسر عبد الحمید صدیقیؒ لکھتے ہیں کہ:

 دَورِ حاضر کی سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ دنیا میں ایمان کے دعوے دار تو موجود ہیں مگر انسانی معاشرہ ایمان کے ثمرات سے یکسر محروم ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ایمان ایک قلبی کیفیت کا نام ہے جسے دیکھا نہیں جا سکتا۔لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ یہ”قلبی کیفیت“ مٹی کے نیچے دبے ہوئے بیج کی طرح نیک اعمال کی صورت میں بار آور ہوتی ہے اور اگر ایمان کے بیج سے خیر اور بھلائی کی کونپلیں نہیں پھوٹتیں اور یہ کونپلیں پاکیزہ معاشرہ کی صورت میں تناور درخت بن کر دُکھی انسانیت کو آرام اور سکون سے ہمکنار نہیں کرتیں تو پھر ایمان کا یہ بیج وہ بیج نہیں ہو سکتا جو نبی اکرمﷺ اور اُن کے جلیل القدر صحابہؓ نے انسانوں کے دل و دماغ میں بویا تھا۔ایمان کے سایے کفر کا جھاڑ جھنکار کس طرح موجود رہ سکتا ہے؟اسی طرح کفر کی اکاس بیل کے نیچے ایمان کا درخت کس اصول کی بنا پر برگ و بار لا سکتا ہے؟یہ عہدِ حاضر کے المیوں میں سے ایک المیہ ہے کہ مسلم معاشرے کے اندر ایمان اور کفر ایک دوسرے کے ہمرکاب نظر آتے ہیں۔ممکن ہے بعض فریب خوردہ مسلمان اس صورت حال سے مطمئن ہوں کہ ایمان اور کفر کی اس یکجائی سے انہیں دنیوی لذات اور اُخروی فوائد سے بھرپور فائدہ اٹھانے کا نسخہ ہاتھ لگ گیا ہے،لیکن جو لوگ ایمان،اُس کے مزاج اور اس کے مقتضیات کا کچھ بھی علم رکھتے ہیں وہ اس حقیقت کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایمان اور کفر کی یہ آمیزش دنیا و آخرت دونوں کی بربادی ہے۔وہ ایمان جو کفر کے ساتھ مفاہمت کرنے پر آمادہ ہو اس کا حال اس نمک کا سا ہے جو اپنی نمکینی کھو چکا ہو،اس لئے لوگ جلد ہی اُسے ایک بیکار بلکہ مضر شے سمجھ کر بوسیدہ افکار کے کوڑا کرکٹ میں پھینک دیتے ہیں۔اسی طرح وہ کفر جو ایمان کو گوارا کرنے لگے اس کی قوت مسلوب ہو جاتی ہے اور اس کے ماننے والے کسی مخصوص نظریے کے علمبردار کی حیثیت سے دنیا میں سربلند نہیں ہو سکتے بلکہ ہر اُبھرتی ہوئی طاقت کے سامنے سجدہ ریز ہو کر اپنے دنیوی مفادات کے تحفظ کے لیے مختلف چالیں چلتے رہتے ہیں۔ان کی ایمان کے ساتھ یہ سازگاری انہیں اخلاقی اعتبار سے کوئی فائدہ نہیں پہنچاتی اور نہ کفر کے ساتھ استواری انہیں کسی نظریہ کا خادم بناتی ہے۔انہیں ہمیشہ ایک ہی بات کی فکر دامن گیر رہتی ہے کہ ان کے مفادات پر کوئی زد نہ پڑنے پائے۔ایسے لوگ اس دھرتی پر ناروا بوجھ ہوتے ہیں اور جب اس کرہ ارضی پر ان کی کثرت ہو جاتی ہے تو پھر اسلام اور کفر کی آویزش اور حق و باطل کی کشمکش کی جگہ مفادات کی چھینا چھپٹی شروع ہو جاتی ہے اور مختلف گروہ ایک دوسرے کے خلاف بڑے مکروہ اور ذلیل ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں اور انسانیت عز و شرف کی قبا خود اپنے ہاتھوں سے تار تار کر دیتی ہے۔(انسانیت کی موجودہ مشکلات اور سیرتِ رسولؐ)

مولانا الطاف حسین حالیؒ نے بھی جس درد مندی کے ساتھ مسلمانوں کی حالتِ زار کی نقشہ کشی کی ہے وہ اُنہی کا خاصہ ہے۔آپ نے مسدس میں پوری مسلم دنیا اور مسلم معاشرے کے تناظر میں پوری جزئیات نگاری کے ساتھ اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کیا ہے اور جن کے اظہار میں ان کا تعلقِ خاطر اس حد تک شاملِ تخلیق ہے کہ ان میں ان کے خون جگر کی تپش اور خون کے آنسو کی رنگت ہر بند میں نظر آتی ہے۔اس ضمن میں ان کی شدتِ احساس کا اندازہ ذیل کے اشعار سے لگایا جا سکتا ہے؎

       *پستی کا کوئی حد سےگزرنا دیکھے*
       *اسلام کا گر کر نہ ابھرنا دیکھے*
       *مانے نہ کبھی کہ مد ہے ہر جزر کے بعد*
       *دریا کا ہمارے جو اترنا دیکھے*

 پوری دنیا میں مسلمان جس ذلت،مسکنت اور رسوائی کی زندگی گزار رہیں ہیں،اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ وہ اسلام سے بہت دور بھاگ چُکے ہیں۔دورِ نو میں مسلمانوں کی فلاح و کامرانی کے لیے ایک ہی راہ ہے اور وہ یہ کہ انہیں دینِ اسلام کے قریب آنا ہوگا۔اس آفاقی دین کو اپنا اُوڑھنا بچھونا بنانا ہوگا،اس کی اقامت کو اپنا نصب العین بناکر اسی کے لیے جینا مرنا ہوگا وگرنہ مستقبل میں عذاب کے کوڑے اسی طرح برسیں گے جس طرح آج ان کا ہم بچشمِ سر مشاہدہ کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے خاص بندوں میں شامل فرما کر زندگی کے آخری سانس تک اپنے دینِ حق کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین یا رب العٰلمین۔

Comments