Parents The Distinguished Blessings Of Almighty


  اللہ تعالیٰ کی عظیم مہربانی اور احسان کے بعد انسان جس کے سہارے پلتا،بڑھتا اور پروان چڑھتا ہے وہ والدین ہی ہوتے ہیں۔یہ ہمارے وجود کا ظاہری سبب ہیں،اس سے بڑھ کر مُخلص اور بے لوث محبت کرنے والی کوئی ذات نہیں اور اس کے بغیر انسانی معاشرے کی تشکیل اور تعمیر ممکن ہی نہیں۔یہ رشتے کی بنیاد ہیں،یہ بے لوث و بے غرض ایثار کا کامل نمونہ ہیں،اخلاص و محبت کے پیکر ہیں،اولاد کی ہر خواہش و خوشی پر اپنی راحت و خوشی قربان کر دینے والی عظیم ذات ہیں۔بلاشبہ والدین قدرت کی عظیم نعمت ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت و اطاعت اور شکرگزاری کا حکم دیا ہے،اس کے فوراً بعد’’بر الوالدین‘‘ والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے اور اس سلسلے میں بے نظیر احکام عطا فرمائے ہیں اور جہاں شرک سے منع کیا ہے اس کے بعد ہی’’حقوق الوالدین‘‘والدین کی نافرمانی سے منع کیا ہے،نیز والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیمات صرف اُمتِ مسلمہ ہی کو نہیں دی گئی بلکہ ہر نبی کی اُمت کو والدین سے حسنِ سلوک،ان کے ادب و احترام اور ادائیگی حقوق کی تلقین کی گئی ہے۔

   قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ بات نہایت واضح ہو جاتی ہے کہ والدین کی نافرمانی ایک سنگین گناہ ہے۔والدین کی ناراضگی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بنتی ہے۔لہٰذا ہمیں والدین کی اطاعت اور فرمانبرداری میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہئے۔خاص کر جب والدین یا دونوں میں سے کوئی بڑھاپے کو پہنچ جائے تو انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا حتیٰ کہ ان کو اُف تک نہیں کہنا چاہئے۔ادب و احترام،محبت و خلوص کے ساتھ ان کی خدمت کرنی چاہئے۔ان کا ادب و احترام کرنا چاہئے۔ان سے محبت کرنی چاہئے۔ان کی فرمانبرداری کرنی چاہئے۔ان کی خدمت کرنا،ان کو حتی الامکان آرام پہنچانا،ان کی ضروریات پوری کرنا،یہ سب ہماری ذمہ داریوں میں شامل ہے۔

آج کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں والدین کو بات بات پر ڈانٹتے،جھڑکتے اور بلند آواز سے بات کرنے میں شرم محسوس نہیں کرتے،جب کہ والدین اپنے بچوں کو پیدائش سے لے کر ان کی تعلیم و تربیت اور معاشرے میں نام روشن کرنے کے قابل بنانے تک اپنا خونِ جگر جلا دیتے ہیں۔ان کی ہر ایک قدم پر رہنمائی کرتے ہیں۔ان کیلئے اپنی زندگیوں کو وقف کر دیتے ہیں۔ان کی نیک دعائیں کامیابی کا زینہ ہیں،جس کی بدولت ہم ایک کامیاب انسان بن کر ملک و قوم کا نام روشن کر سکتے ہیں۔

 اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس دنیا میں بہت ساری نعمتوں سے نوازا لیکن ان نعمتوں میں ایک انمول نعمت ہمیں ماں باپ کی شکل میں عطا کی گئی۔اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں کہ نعمت کی قدر انسان کو نعمت اُٹھنے کے بعد ہی آتی ہے۔میں نے بذاتِ خود زندگی میں دو مواقع پر اپنے ماں باپ کی انتھک کوشش کو سر کی آنکھوں سے دیکھا،ایک جب کہ میں رب کی خاطر جیل کی سلاخوں کے پیچھے اپنے دن رات کاٹ رہا تھا اور دوسرا اِس وقت جب کہ آج گھر میں میری شادی کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ان مواقع کو ذہن میں لاتے ہوئے میرے دل کی عمیق گہرائیوں سے اُن کے لیے”رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا“ کی دعا نکلتی ہے۔یہ دعا اپنے اندر مضامین کا سمندر سموئے ہوئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہی الفاظ ہمارے لیے چُن لیے تاکہ بندے انہیں ہر دم زبان پر لاکر کسی نہ کسی حد تک ماں باپ کا حق ادا کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔یہ وہ تحفہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاں سجا کر ہمیں ماں باپ کی خاطر اپنے دربار میں واپس پیش کرنے کو کہا۔ہمارے اوپر لازم ہے کہ ہم اس دعا کو حرزِ جان بنائیں۔اپنے بچوں کی روزگار کی فکر ہر ایک ماں باپ کو بستروں پر بے چین کر دیتی ہے اور میرے ماں باپ بھی اپنے دلوں میں ایک خواب پالتے تھے وہ یہ کہ ہمارا بیٹا سرکاری ملازمت اختیار کر کے ہمیں آرام و آسائش پہنچائے گا لیکن بندے کے لیے آسمانوں پر جو فیصلے ہوتے ہیں انہیں دنیا کی کوئی بھی طاقت پھیر نہیں سکتی۔آج مہنگائی نے غریب لوگوں کی کمر توڑ ڈالی ہے اور یہی وجہ ہے کہ میں اُن کے تابناک چہروں پر پریشانی کے آثار دیکھ رہا ہوں۔یہ میرے لیے ناقابلِ برداشت ہے لیکن ذیل کی روایات مجھے غرببی کی زندگی گزارنے پر اُبھارتی ہیں اور ساتھ میں میرے زخم پر تسکین کا پھایا رکھ دیتی ہیں:

*”حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ  نے فرمایا:فقیر و محتاج مسلمان جنت میں مالداروں سے آدھا دن پہلے داخل ہوں گے اور یہ آدھا دن پانچ سو برس کے برابر ہے۔“*  (ترمذی:2354)

*”حضرت عمران بن حصینؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے بیان کیا کہ میں نے جنت میں جھانک کر دیکھا تو وہاں رہنے والے اکثر غریب لوگ تھے اور میں نے جہنم میں جھانک کر دیکھا(شب معراج میں)تو وہاں عورتیں تھیں۔“*(بخاری:6546)

گرچہ میرے والدین ابھی جوان ہیں لیکن جو عہد میں ذاتی طور پر کر رہا ہوں یہی عہد میں قوی اُمید سے باقی قارئین کرام کو کروا رہا ہوں تاکہ ہم سب وسیع و عریض جنت میں داخل ہو کر ابدی آرام و آسائش سے لطف اندوز ہو سکیں۔آئیے! ہم عہد کریں کہ:

*اپنے والدین کی عزت و خدمت کریں گے۔*

*ان کی دل جوئی،فرمانبرداری کریں گے۔*

*اپنی کسی حرکت سے ان کے دل دُکھانے اور جذبات کو مجروح کرنے کی کوشش نہیں کریں گے۔*

*ان کی وفات کے بعد بھی صدقہ کریں گے۔*

*اللہ سے ان کی مغفرت،رحمت و بخشش کی دعائیں مانگیں گے۔*

*ان کے عزیز و اقارب کے ساتھ صلہ رحمی اور حسن سلوک کریں گے۔*

*ان کے دوستوں کے ساتھ عزت و اکرام سے پیش آئیں گے،جس کا ہمارے نبیﷺ  نے ہمیں حکم دیا ہے۔*

آج اپنے رب کو گواہ بنا کر ایک عہد کریں کہ: 

*والدین کے ساتھ جو پہلے بے ادبی برتی گئی اس پر معافی مانگتے ہیں اور آئندہ کے لیے ان کی عزت کرنے کی توفیق مانگتے ہیں۔*

یاد رکھیں! آپ جیسا سلوک اپنے والدین کے ساتھ کریں گے،آپ کی اولاد بھی اسی طرح کا سلوک آپ کے ساتھ کرے گی اور یہ بھی ایک سچی حیقت ہے کہ نافرمان اولاد کو دنیا و آخرت میں عزت نہیں ملتی۔

Comments