Assessment On A Believer



  یہ دنیا جس میں ہم اپنی زندگی کے قیمتی لمحات گزار رہیں ہیں آرام گاہ نہیں بلکہ امتحان گاہ ہے۔ایک بندہ مومن کو یہاں قدم قدم پہ مختلف صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا یہ دستور ہے کہ اس نے یہاں زندگی میں مختلف قسم کی آزمائشیں رکھیں تاکہ دنیا پر یہ واضح ہو جائے کہ واقعی طور پر جنت کا مستحق کون ہے۔سَچ مُچ میں یہ آزمائشیں ہی ہیں جو کھرے اور کھوٹے کو الگ الگ کر دیتی ہیں۔یہ آزمائشیں ہی ہیں جو جنت کے طالب کی اندرونی صلاحیتوں کو نکھار کر اسے اُونچی اُڑان کا درس دیتی ہیں۔یہ آزمائشیں ہی ہیں جو بندہ مومن کو مسِ خام سے کُندن بنانے میں ایک کلیدی رول ادا کرتی ہیں۔یہ آزمائشیں ہی ہیں جو بندہ مومن کے ایمان کو نئی توانائی بخش کر انہیں اپنے ربِ کریم کے قریب کر دیتی ہیں۔یہ آزمائشیں کبھی کبھار نہ تھمنے والے سلسلے کی صورت اختیار کر کے جانباز سپاہیوں کو اپنے شکنجے میں لے کر ایک نئے اور کٹھن دور کو جنم دیتی ہیں۔اس دور کو علماء کے ہاں”ابتلاء کا دور“کہا جاتا ہے۔ابتلاء کا دور کسی نصب العین کے دعویداروں کے انبار کو چھان پھٹک اور کچل کر مقصد کے شیدائیوں اور خواہشِ نفس کے پرستاروں کو الگ الگ کر دیتا ہے۔اس دور میں تحریک کے کارکنوں کو اپنا ربِ کریم آزما رہا ہوتا ہے تاکہ دنیا پر یہ عیاں ہو جائے کہ وہ اپنے نصب العین سے کتنی گہری نسبت اور اپنے مقصد سے کتنا پختہ عشق رکھتے ہیں۔ان کا مالک اس دور میں ان کی کھوٹ کو آزمائش کی بھٹی میں تپا کر نکال دینا چاہتا ہے تاکہ ان کے دامن سے ذاتی خواہشات اور دُنیا طلبی کے سارے دھبے دُھل جائیں اور قلب کی لوح پر خدائے واحد کی پرستش کے نقش کے سوا اور کوئی نقش باقی نہ رہے۔اس دور سے گزر کر تحریک ایک نئی توانائی لے کر آگے بڑھتی ہے اور منزل کی طرف رواں دواں رہتے ہوئے مخلص کارکنوں کے لبوں پہ یہ الفاظ ہوتے ہیں:

*کٹتے بھی چلو،بڑھتے بھی چلو،بازو بھی بہت ہیں سر بھی بہت* 

*چلتے بھی چلو کہ اب ڈیرے منزل ہی پہ ڈالے جائیں گے*(فیض احمد فیض)

ازل سے ہی اس دنیا کا دستور رہا ہے کہ یہاں کسی بھی انسان کو دائمی خوشی حاصل ہے نہ دائمی غم،بلکہ کبھی غم ہے تو کبھی خوشی،کبھی درد و الم ہے تو کبھی فرحت و مسرت،کبھی بیماری ہے تو کبھی صحت،کبھی تفکرات و الجھنیں ہیں تو کبھی بے فکر و انبساط،کبھی تنگی ہے تو کبھی آسودگی،کبھی سکون ہے تو کبھی بے چینی،کبھی سردی ہے تو کبھی گرمی،کبھی امن ہے تو کبھی بد امنی،کبھی تکلیف ہے تو کبھی راحت۔یہ سلسلہ ہر فردِ بشر کے ساتھ لگا ہوا ہے،کوئی متنفس اس سے خالی نہیں۔مگر بسا اوقات کسی پر دَرد و الم،مصائب و مشکلات اور پریشانیوں و الجھنوں کا سلسلہ دراز ہو جاتا ہے،تو وہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ ساری دنیا کی مصیبتیں اسی کیلئے مختص کردی گئی ہیں۔ہم میں سے بہت سے لوگ ہیں جو مصائب و مشکلات اور الجھنوں و پریشانیوں کے لامتناہی سلسلہ سے بہت بددل ہوجاتے ہیں کہ ان کی زندگی مصیبتوں اور آزمائشوں کی مجموعہ بن گئی ہے،ایک مصیبت سے چھٹکارہ نہیں ملتا کہ دوسری مصیبت حملہ آور ہو جاتی ہے،ایک پریشانی دور نہیں ہوتی کہ دوسری اس سے بڑی پریشانی گھیر لیتی ہے۔وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ان کی قسمت ہی ایسی بنائی گئی ہے کہ اس میں کبھی شاید ہنسی خوشی نہیں،شاذ و نادر ہی کبھی ان کے چہرے پر مُسکراہٹ تیرتی اور مسرت کے لمحات سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملتا ہے۔انہیں یہ دائمی احساس ستاتا رہتا ہے کہ یہ مصائب و آلام،یہ مشکلات و پریشانیاں اور یہ آزمائش و آفات و بلائیں شاید اللہ تعالیٰ کی جانب سے انہیں سزا دینے کیلئے ہیں۔انہیں یہ سزائیں ان کے گناہوں و مصیبتوں کے پاداش میں دیے جا رہے ہیں جس کا انہوں نے دانستہ یا نادانستہ ارتکاب کیا ہے یا زندگی کے کسی موڑ اور کسی لمحے میں انہوں نے اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والا عمل کیا ہے جس کی سزا انہیں ان مصیبتوں کی شکل میں بھگتنی پڑ رہی ہے۔اس احساس کی وجہ سے ان کی مصیبتوں میں اور بھی شدت پیدا ہو جاتی ہے اور ان کا درد اور بھی گہرا ہوتا جاتا ہے اور آہستہ آہستہ ان کا یہ احساس نفسیاتی بیماری و تکلیف میں تبدیل ہو جاتا ہے،جس کے بعد وہ صبر کا دامن چھوڑ بیٹھتے ہیں اور ان کے اندر سے اِن مشکلات سے نبرد آزما ہونے اور مزاحمت کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔

   اس میں شبہ نہیں کہ مومن ہونے کے ناطے غلطیوں و گناہوں پر ندامت اور اس کا احساس اچھی بات ہے بلکہ ہر مومن کو اپنی کوتاہیوں کو ٹٹولنا اور معصیتوں پر نظر رکھنی چاہئے اور اللہ سے اس کی معافی مانگنی چاہئے اور توبہ و استغفار کے ذریعہ اللہ سے عفو و درگزر کی درخواست کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت کا خواستگار ہونا چاہئے،مگر اس کے بعد اسی فکر میں پڑے رہنا اور مایوسی کا شکار ہونا درست نہیں بلکہ توبہ و معافی کے بعد اللہ تعالیٰ سے بہتر امید رکھنی چاہئے۔احساسِ ندامت ضمیر اور ایمان کی موجودگی کی علامت ہے اور ہر انسان کو چاہئے کہ وہ خود کو دھلا دھلایا ہوا نہ سمجھے،گناہوں سے پاک و صاف تصور نہ کرے بلکہ یہ سمجھے کہ’’کل بنی آدم خطاء و خیر الخطائین التوابون‘‘ہر اولاد آدم خطاکار ہے،مگر اس میں سب سے بہتر خطاکار وہ ہے جو توبہ کرنے والا ہو۔

توبہ کے بعد اللہ تعالیٰ سے اچھی امید رکھنی چاہئے مایوسی کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔

انسان کا یہ سمجھنا کہ اس کے مصائب و مشکلات،ابتلاء و آزمائش،بیماری و دکھ اور حوادث و آفات اللہ کی جانب سے سزا ہے اور ہر پریشانی اس کے گناہوں کی وجہ سے ہے،یہ درست نہیں بلکہ یہ پریشانیاں اکثر و بیشتر انسان کو مانجھنے اور اس کے درجات کو بلند کرنے کیلئے ہوتی ہیں۔اگر انسان کے ایمان میں سختی و پائیداری و مضبوطی ہوتی ہے تو اس کی آزمائش بھی زیادہ سخت ہوتی ہے اور اگر ایمان کمزور ہوتا ہے،اس میں سختی و مضبوطی اور توانائی نہیں ہوتی تو اس کی آزمائش بھی ہلکی ہوتی ہے۔حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے،وہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسولﷺ!لوگوں میں سب سے زیادہ اورسب سے سخت آزمائش کس کی ہوتی ہے؟تو آپﷺ نے فرمایا:

*”انبیاء کی،پھر صالحین کی،پھر جو اُن کے مثل اور ان سے مشابہت رکھنے والے ہوتے ہیں،انسان کی آزمائش اس کے ایمان کے بقدر کی جاتی ہے،اگر اس کے دین میں سختی و رسوخ ہوتا ہے تو اس کی آزمائش میں اضافہ کر دیا جاتا ہے اور اگر اس کے دین میں خفت ہوتی ہے تو اس کی آزمائش میں تخفیف کر دی جاتی ہے اور اس کی آزمائش ہلکی کر دی جاتی ہے اور بندے کی آزمائش کی جاتی رہتی ہے اور اسے طرح طرح کے مصائب و مشکلات میں مبتلا کیا جاتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ روئے زمین پر اس طرح چلتا پھرتا ہے کہ اس کے اندر کوئی خطا و معصیت باقی نہیں رہتی۔“*(مسند احمد)

حضرت انسؓ سے مرفوعاً روایت ہے:

*”اللہ جب کسی قوم کو چاہتا اور پسند کرتا ہے تو اسے آزمائش میں ڈالتا ہے،بندہ جب اس پر راضی رہتا ہے تو اللہ اس سے راضی و خوش ہو جاتا ہے اور بندہ اگر اس پر ناراض ہوتا اور خفگی کا اظہار کرتا ہے تو اللہ اس سے ناراض و خفا ہو جاتاہے۔“*(ترمذی)

اس حدیث سے اندازہ ہوتا ہے کہ محض بیماری،پریشانی،حزن و ملال اور رنج و الم،سزا و عتاب نہیں بلکہ سزا و عتاب اُس آزمائش پر صبر نہ کرنے میں ہے،یہاں تک کہ بندہ مومن اگر مصائب و آزمائش میں اس طرح گھرا ہوا ہو کہ یقین سے کہا جاسکتا ہو کہ یہ اس کے گناہ کی سزا ہے اور اسے بطور عتاب اس میں مبتلا کیا گیا ہے تب بھی اسے عذاب الٰہی سے تعبیر کرنا درست نہیں ہے۔ایک بندہ مومن اگر  یہ تصور کر لے کہ میرے ساتھ جو کچھ بھی ہو رہا ہے یہ اللہ کی طرف سے میرے ایمان کی آزمائش ہے تو اس سے اس کی تکلیف ہلکی ہو جائے گی،یہ اس وجہ سے کہ دنیا کی سزا آخرت کے عذاب اور وہاں کی سختی سے بہت ہلکی و آسان ہے۔یہاں کی سزا روح کو پاک کرنے اور بندے پر رحم و کرم کرنے کیلئے ہے تاکہ بندہ اس کے بعد گناہ سے پہلے جس طرح تھا اس سے زیادہ بہتر طریقے پر پاک و صاف ہو جائے،پہلے وہ اللہ سے جتنا قریب تھا اس سے زیادہ قریب ہو جائے،پہلے جتنا پرہیزگار تھا اس سے زیادہ متقی و پرہیزگار ہو جائے۔

حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

*”اللہ جب اپنے بندے کے ساتھ خیر کا معاملہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اسے دنیا ہی میں جلدی سزا دے دیتا ہے اور اگر اللہ اپنے بندے کے ساتھ خیر کرنا نہیں چاہتا تو اس کے گناہوں کے باوجود اس سے دست کش رہتا ہے (اس کی گرفت نہیں کرتا) پھر قیامت کے دن اس کا اسے بدلہ دیتا ہے۔“*(ترمذی)

یہاں ہر کوئی بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے۔حادثات سے دوچار ہوتا ہے اور ناگہانی صورتحال کا سامنا کرتا ہے،اس میں کمی اور زیادتی احتیاط کرنے یا نہ کرنے سے ہوتی ہے یا اسباب کو اختیار کرنے یا نہ کرنے سے ہوتی ہے،البتہ یہی چیزیں بندہ مومن کیلئے کفارۂ سیئات،گناہوں کو دھونے کا ذریعہ اور کبھی کبھار ترقیٔ درجات کا سبب بنتے ہیں۔مومن ان آزمائشوں کے اندر گناہوں کے خوف میں بھی مبتلا رہتا ہے اور اللہ سے اچھی امید بھی کرتا ہے۔انبیاء علیہم السلام بھی اسی طرح خوف و رجاء کے درمیان رہتے تھے۔رہا یہ سوال کہ ہم کس طرح فرق کر سکتے ہیں کہ کونسی بیماری اور  مصیبت آزمائش ہے اور کونسی سزا اور بلاء ہے؟تو اہلِ علم نے اس کے بارے میں ایک ضابطہ بیان کیا ہے کہ آزمائش کی گھڑی اور بیماری وغیرہ میں بندہ اگر صبر کرتا ہے،حوصلہ مند رہتا ہے اور اللہ کی تقدیر پر راضی رہتا ہے،جزع و فزع نہیں کرتا،واویلا نہیں مچاتا اور اللہ سے بدگمانی کا اظہار نہیں کرتا اور نہ ہی نامناسب کلمات اپنی زبان پر لاتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی کا طلبگار ہوتا ہے،مغفرت کی دعائیں کرتا ہے اور اللہ کی طرف جھکتا ہے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس کی یہ مصیبت اس کے درجات کو بلند کرنے اور اس کی خطاٶں کو معاف کرنے اوراس کے گناہوں کا کفارہ بنانے کے لئے ہیں اور اگر بندہ اس پر جزع و فزع کرنے لگتا ہے،چیخ و پکار شروع کر دیتا ہے،بددل و مایوس ہو جاتا ہے،اس پر اپنی ناراضگی کا اظہار کرتا ہے،زبان سے نازیبا کلمات نکالنے لگتا ہے اور واویلا مچاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر اعتراض کرنے لگتا ہے اور شر کے سامنے سرِ تسلیم خم کردیتا ہے،تو یہ محرومی وخسارے کی علامت اور سزا کی نشانی ہے۔

مولانا محمد یوسف اصلاحیؒ اپنی مشہور و معروف کتاب”آدابِ زندگی“میں ایک جگہ پہ لکھتے ہیں کہ:

مصائب کو صبر و سکون کے ساتھ برداشت کیجیے۔کبھی ہمت نہ ہارئیے اور رنج و غم کو کبھی حدِ اعتدال سے نہ بڑھنے دیجئے۔دُنیا کی زندگی میں کوئی بھی انسان رنج و غم،مصیبت و تکلیف،آفت و ناکامی اور نقصان سے بے خوف اور مامون نہیں رہ سکتا۔البتہ مومن اور کافر کے کردار میں یہ فرق ضرور ہوتا ہے کہ کافر رنج و غم کے ہجوم میں پریشان ہو کر ہوش و حواس کھو بیٹھتا ہے،مایوسی کا شکار ہو کر ہاتھ پیر چھوڑ دیتا ہے اور بعض اوقات غم کی تاب نہ لا کر خودکشی کر لیتا ہے اور مومن بڑے سے بڑے حادثے پر بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا اور صبر و ثبات کا پیکر بن کر چٹان کی طرح جما رہتا ہے۔وہ یوں سوچتا ہے کہ جو کچھ ہوا تقدیرِ الٰہی کے مطابق ہوا،خدا کا کوئی حُکم حِکمت و مصلحت سے خالی نہیں اور یہ سوچ کر کہ خدا جو کچھ کرتا ہے اپنے بندے کی بہتری کے لیے کرتا ہے،یقیناً اِس میں خیر کا پہلو ہوگا۔مومن کو ایسا روحانی سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے کہ غم کی چوٹ میں لذت آنے لگتی ہے اور تقدیر کا یہ عقیدہ ہر مشکل کو آسان بنا دیتا ہے۔خدا کا ارشاد ہے:

مَاۤ اَصَابَ مِنۡ مُّصِيۡبَةٍ فِى الۡاَرۡضِ وَلَا فِىۡۤ اَنۡفُسِكُمۡ اِلَّا فِىۡ كِتٰبٍ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ نَّبۡـرَاَهَا ؕ اِنَّ ذٰ لِكَ عَلَى اللّٰهِ يَسِيۡرٌۚ۞لِّـكَيۡلَا تَاۡسَوۡا عَلٰى مَا فَاتَكُمۡ وَلَا تَفۡرَحُوۡا بِمَاۤ اٰتٰٮكُمۡ‌ؕ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخۡتَالٍ فَخُوۡرِۙ‏۞  (الحدید:23-22)

*”کوئی مصیبت ایسی نہیں ہے جو زمین میں یا تمہارے اپنے نفس پر نازل ہوتی ہو اور ہم نے اس کو پیدا کرنے سے پہلے ایک کتاب میں لکھ نہ رکھا ہو ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت آسان کام ہے۔(یہ سب کچھ اس لیے ہے) تاکہ جو کچھ بھی نقصان تمہیں ہو اس پر تم دل شکستہ نہ ہو اور جو کچھ اللہ تمہیں عطا فرمائے اس پر پھول نہ جاؤ اللہ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتے ہیں اور فخر جتاتے ہیں۔“*

 پیش نظر آیتِ کریمہ میں یہ فرمایا جارہا ہے کہ ایک مومن جب دنیا،مال و دولت اور انفاق و جہاد کے بارے میں اسلامی تصورات کو قبول کر لیتا ہے تو اسے اس بات کا احساس ہونا چاہیے اور یہ خیال بھی اس کے دماغ کی زینت بن جانا چاہیے کہ حق و باطل کی کشمکش اور عام معمول کی زندگی میں بھی ایک مومن کو مشکلات پیش آتی ہیں اور جن مصائب سے انھیں واسطہ پڑتا ہے وہ مشکلات اور وہ مصائب اپنے آپ پیش آنے والے نہیں ہوتے۔بلکہ ہر بات کا فیصلہ پہلے سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوچکا ہے۔اور انسانی زندگی کے وجود میں آنے سے پہلے انھیں ایک کتاب یعنی لوحِ محفوظ میں لکھا جا چکا ہے۔ہمارے لیے اس بات کا جاننا فی الواقع مشکل ہے کہ جو چیز ابھی وجود میں نہیں آئی اس کا کسی کتاب میں لکھے جانے کا کیا معنی ہے۔لیکن اللہ تعالیٰ کے لیے ایسا کرنا نہایت آسان ہے کیونکہ لوحِ محفوظ علم الٰہی کی تعبیر ہے۔اور اللہ تعالیٰ کا علم زمانوں میں مقید نہیں۔وہ ماضی،حال اور مستقبل کی تمام حدود و قیود سے مبرا ہے۔وہ اس وقت بھی ان چیزوں سے واقف تھا جب وہ چیزیں کسی کے تصور میں بھی نہ آئی تھیں اور وہ تب بھی واقف ہوگا جب وہ خواب و خیال ہوچکی ہوں گی۔ لیکن اصحابِ ایمان کو اس حقیقت سے بہرہ ور کرنا اس لیے ضروری ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی راہ میں انھیں کوئی مصیبت پیش آئے اور یا وہ اسلامی زندگی گزارتے ہوئے کسی مشکل میں گرفتار ہوجائیں تو کبھی اس سے دل آزردہ نہ ہوں،کبھی شکست خوردہ نہ ہوں،کبھی اس سے ہمت نہ ہارنے پائیں۔کیونکہ انھیں اس بات کا اطمینان ہونا چاہیے کہ اس بات کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلے سے ہو چکا ہے۔اور اللہ تعالیٰ کو یہی منظور تھا کہ میرے ساتھ ایسا ہو۔تو پھر اگر مجھے ہر حال میں اس کی خوشنودی پیش نظر ہے تو میں اس سے دل گرفتگی کیوں محسوس کروں۔اور اسی طرح اگر اسے زندگی کے معمولات یا حق و باطل کی کشمکش میں کوئی کامیابی نصیب ہو یا کوئی بڑی منفعت ہاتھ آئے تو اسے کبھی اس پر اترانا اور فخر نہیں کرنا چاہیے۔کیونکہ جس طرح مصیبت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اسی طرح سے مسرت و شادمانی اور فلاح و کامیابی بھی تو اسی کی جانب سے ہے۔اللہ تعالیٰ کسی ایک میں مبتلا کرکے اصل میں مومن کا امتحان لیتا ہے جو اس کی تربیت کے لیے لازمی ہے۔ (روح القرآن)

      ہمیں مستقبل کے بارے میں سوچنا چاہئے کہ ہمیں مصائب و آلام اور ابتلاء و آزمائش کی گھڑی میں کس طرح رہنا چاہئے،اس آزمائش سے کس طرح نمٹنا اور سوچنا اور طرزِ عمل اختیار کرناچاہئے،اسے منفی انداز اختیار کرنے سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ منفی طرزِ عمل بندے کو اللہ سے دور کر دیتا ہے۔ایسا نہ ہو کہ بیماری یا آزمائش کی شدت میں ہماری زبان سے یہ نکل جائے کہ کیا میں ہی اس بیماری یا آزمائش کے لئے رہا تھا؟ اللہ نے میرے ساتھ یہ اچھا نہیں کیا یا اس طرح کی باتیں کرنا بندہ مومن کو زیب نہیں دیتی۔آزمائش میں بلاشبہ ہمارے لئے خیر ہی خیر ہوتا ہے بشرطیکہ ہم اسے خیر بنائیں اور اس کو خیر بنانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ہم اس پر صبر کریں،اللہ سے مدد طلب کریں،دعائیں کریں اور پہلے سے زیادہ اللہ کے سامنے روئيں،گڑگڑائیں اور عاجزی کا اظہار کریں۔

   غم و اندوہ،حزن و ملال،رنج و تکلیف ایک چیلنج ہے جس کا ہمیں سامنا ہوتا ہے۔ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ان چیلنجوں کا سامنا کریں،مایوسی و قنوطیت کا شکار نہ ہوں،وساوس اور منفی خیالات کو در آنے کا موقع نہ دیں بلکہ بڑے ہی ہمت اور حوصلے کے ساتھ ان حالات اور ناگفتہ بہ صورتحال کا مقابلہ کریں اور اللہ سے خیر کی امید رکھیں اور اللہ کو یاد کرتے رہیں۔خود اللہ تعالی نے فرمایا ہے:

اَلَا بِذِكۡرِ اللّٰهِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ۞(الرعد:28)

*”خبردار رہو! اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے۔“*

دل اور روح کے لیے تسکین کا سب سے بڑا ذریعہ اللہ کا ذکر ہے اس لیے کہ انسان کی روح اس کے دل کی مکین ہے اور روح کا تعلق براہ راست اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ ہے۔جیسا کہ سورة بنی اسرائیل کی آیت ٨٥ میں فرمایا گیا:وَیَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِط قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ”اور اے نبی! یہ لوگ آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ فرمائیں کہ روح میرے پروردگار کے امر میں سے ہے“۔لہٰذا جس طرح انسانی جسم کی حیات کا منبع source یہ زمین ہے اور جسم کی نشوونما اور تقویت کا سارا سامان زمین ہی سے مہیا ہوتا ہے اسی طرح انسانی روح کا منبع ذات باری تعالیٰ ہے اور اس کی نشوونما اور تقویت کے لیے غذا کا سامان بھی وہیں سے آتا ہے۔چناچہ روح امر اللہ ہے اور اس کی غذا ذکر اللہ اور کلام اللہ ہے۔اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَـطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ 

دنیوی مال و متاع اور سامان عیش و آسائش کی بہتات سے نفس اور جسم کی تسکین کا سامان تو ہوسکتا ہے یہ چیزیں دل کے سکون و اطمینان کا باعث نہیں بن سکتیں۔دل کو یہ دولت نصیب ہوگی تو اللہ کے ذکر سے ہوگی۔ (بیان القرآن)

  ہمیں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ اس دنیا میں کوئی بھی انسان ایسا نہیں جو کسی نہ کسی آزمائش میں مبتلا نہ ہو،ہر کوئی کسی نہ کسی آزمائش میں ضرور رہتا ہے گرچہ اس کی نوعیت الگ الگ ہوتی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَلَـنَبۡلُوَنَّكُمۡ حَتّٰى نَعۡلَمَ الۡمُجٰهِدِيۡنَ مِنۡكُمۡ وَالصّٰبِرِيۡنَ ۙ وَنَبۡلُوَا۟ اَخۡبَارَكُمۡ۞(محمد:31)

*”ہم ضرور تم لوگوں کو آزمائش میں ڈالیں گے تاکہ تمہارے حالات کی جانچ کریں اور دیکھ لیں کہ تم میں مجاہد اور ثابت قدم کون ہیں۔“*

جس بندے کے اندر مومنانہ روح کارفرما ہوتی،وہ اپنے خالق سے مربوط ہوتا ہے اور اپنے پروردگار سے تعلق رکھنے والا ہوتا ہے۔وہ خود کو حالات سے ہم آہنگ کرتا ہے اور حالات سے متاثر ہوکر نروس نہیں ہوتا،خواہ یہ حالات کتنے ہی کٹھن اور اندوہناک کیوں نہ ہوں۔جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے: 

مَاۤ اَصَابَ مِنۡ مُّصِيۡبَةٍ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰهِ‌ؕ وَمَنۡ يُّؤۡمِنۡۢ بِاللّٰهِ يَهۡدِ قَلۡبَهٗ‌ؕ وَاللّٰهُ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيۡمٌ۞ (التغابن:11)

*”کوئی مصیبت کبھی نہیں آتی مگر اللہ کے اِذن ہی سے آتی ہے۔جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہو اللہ اس کے دل کو ہدایت بخشتا ہے،اور اللہ کو ہر چیز کا علم ہے۔اورجو اللہ پر ایمان لائے اللہ اس کے دل کوہدایت دیتا ہے۔“*

مصائب کے ہجوم میں جو چیز انسان کو راہ راست پر قائم رکھتی ہے اور کسی سخت سے سخت حالت میں بھی اس کے قدم ڈگمگانے نہیں دیتی وہ صرف ایمان باللہ ہے۔جس کے دل میں ایمان نہ ہو وہ آفات کو یا تو اتفاقات کا نتیجہ سمجھتا ہے،یا دنیوی طاقتوں کو ان کے لانے اور روکنے میں مؤثر مانتا ہے،یا انہیں ایسی خیالی طاقتوں کا عمل سمجھتا ہے جنہیں انسانی اوہام نے نفع و ضرر پہنچانے پر قادر فرض کرلیا ہے،یا خدا کو فاعِل مختار مانتا تو ہے مگر صحیح ایمان کے ساتھ نہیں مانتا۔ان تمام مختلف صورتوں میں آدمی کم ظرف ہو کر رہ جاتا ہے۔ایک خاص حد تک تو وہ مصیبت سہہ لیتا ہے،لیکن اس کے بعد وہ گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔ہر آستانے پر جھک جاتا ہے۔ہر ذلت قبول کرلیتا ہے۔ہر کمینہ حرکت کرسکتا ہے۔ہر غلط کام کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔خدا کو گالیاں دینے سے بھی نہیں چوکتا۔حتیٰ کہ خود کشی تک کر گزرتا ہے۔اس کے بر عکس جو شخص یہ جانتا اور سچے دل سے مانتا ہو کہ سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے اور وہی اس کائنات کا مالک و فرمانروا ہے،اور اسی کے اذن سے مصیبت آتی اور اسی کے حکم سے ٹل سکتی ہے،اس کے دل کو اللہ صبر و تسلیم اور رَضا بَہ قضا کی توفیق دیتا ہے،اس کو عزم اور ہمت کے ساتھ ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کی طاقت بخشتا ہے،تاریک سے تاریک حالات میں بھی اس کے سامنے اللہ کے فضل کی امید کا چراغ روشن رہتا ہے،اور کوئی بڑی سے بڑی آفت بھی اس کو اتنا پست ہمت نہیں ہونے دیتی کہ وہ راہ راست سے ہٹ جائے،یا باطل کے آگے سر جھکا دے،یا اللہ کے سوا کسی اور کے در پر اپنے درد کا مداوا ڈھونڈنے لگے۔اس طرح ہر مصیبت نہیں رہتی بلکہ نتیجے کے اعتبار سے سراسر رحمت بن جاتی ہے،کیونکہ خواہ وہ اس کا شکار ہو کر رہ جائے یا اس سے بخیریت گزر جائے،دونوں صورتوں میں وہ اپنے رب کی ڈالی ہوئی آزمائش سے کامیاب ہو کر نکلتا ہے۔اسی چیز کو ایک متفق علیہ حدیث میں رسول اللہﷺ نے اس طرح بیان فرمایا ہے:عجباً للمؤمن،لا یقضی اللہ لہ قضاءً الا کان خیراً الہٰ،ان اصابتْہ ضَرّاء صبر،فکان خیراً لہٗ،وان اصابتہ سرّاء شکر،فکان خیراً الہ،ولیس ذالک لِاَ حدٍ الّا المؤمن۔”مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے۔اللہ اس کے حق میں جو فیصلہ بھی کرتا ہے وہ اس کے لیے اچھا ہی ہوتا ہے۔مصیبت پڑے تو صبر کرتا ہے،اور وہ اس کے لیے اچھا ہوتا ہے۔خوشحالی میسر آئے تو شکر کرتا ہے،اور وہ بھی اس کے لیے اچھا ہی ہوتا ہے۔یہ بات مومن کے سوا کسی کو نصیب نہیں ہوتی۔“(تفہیم القرآن)

   جب کسی مومن باللہ پر کوئی مصیبت آتی ہے،خواہ وہ بیماری ہو یا فقر و احتیاج یا کوئی اور مصیبت،تو اللہ اس کے دل کو ہدایت بخشتا ہے۔یہ ہدایت کیا ہے؟اس سوال کا جواب سورة البقرہ میں موجود ہے:

وَلَـنَبۡلُوَنَّكُمۡ بِشَىۡءٍ مِّنَ الۡخَـوۡفِ وَالۡجُـوۡعِ وَنَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَالۡاَنۡفُسِ وَالثَّمَرٰتِؕ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيۡنَۙ۞الَّذِيۡنَ اِذَآ اَصَابَتۡهُمۡ مُّصِيۡبَةٌ قَالُوۡٓا اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّـآ اِلَيۡهِ رٰجِعُوۡنَؕ۞اُولٰٓئِكَ عَلَيۡهِمۡ صَلَوٰتٌ مِّنۡ رَّبِّهِمۡ وَرَحۡمَةٌ‌ وَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡمُهۡتَدُوۡنَ۞(البقرہ:157-155)

*اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر،فاقہ کشی،جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں گے۔اِن حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے،تو کہیں کہ”ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے“۔انہیں خوش خبری دے دو ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی،اُس کی رحمت اُن پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رَو ہیں۔“*

   مولانا سید احمد عروج قادریؒ ان آیاتِ مبارکہ کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ:

سورۃ التغابن کی آیت 11 میں ہدایت بخشنے کی جو بات کہی گئی ہے اس کی تفصیل سورة البقرة کی مذکورہ بالا آیات سے سمجھی جا سکتی ہے۔ان آیتوں میں چند مصائب کا ذکر ہے۔صبر کرنے والوں کے قول اور عقیدے کا اظہار ہے۔صبر کرنے والوں کے اجر کا بیان ہے اور انہی لوگوں کو ہدایت یافتہ قرار دیا گیا ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ مصائب میں مومن کے قلب کو ہدایت دینے کا مفہوم یہ ہے کہ وہ جزع فزع کرتا ہے نہ شکوہ شکایت،بلکہ سراپا تسلیم بن کر یہ کہتا ہے کہ ہم اللہ کے مملوک و محکوم ہیں اور اپنے مالک ہی کی طرف پلٹ کر ہمیں جانا ہے۔یہ عقیدہ اس کے زخم پر تسکین کا پھایا رکھ دیتا ہے۔مومن باللہ،مصائب میں بھی اللہ اور رسول کی اطاعت پر قائم رہتا ہے اور صرف اللہ ہی پر توکل کرتا ہے۔اپنی بیماری اور فقر و احتیاج یا کسی بھی مصیبت کو دفع کرنے کے لیے کوئی ناجائز تدبیر اختیار نہیں کرتا اور نہ اس سلسلے میں کسی تدبیر پر بھروسہ کرتا ہے۔وہ صرف اللہ پر بھروسہ رکھتا ہے،کیوں کہ وہ یہ جانتا ہے:

وَاِنۡ يَّمۡسَسۡكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗۤ اِلَّا هُوَ ‌ۚ وَاِنۡ يُّرِدۡكَ بِخَيۡرٍ فَلَا رَآدَّ لِفَضۡلِهٖ‌ ؕ يُصِيۡبُ بِهٖ مَنۡ يَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِهٖ‌ ؕ وَهُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِيۡمُ۞(یونس:107)

*”اگر اللہ تجھے کسی مصیبت میں ڈالے تو خود اس کے سوا کوئی نہیں جو اس مصیبت کو ٹال دے،اور اگر وہ تیرے حق میں کسی بھلائی کا ارادہ کرے تو اس کے فضل کو پھیرنے والا بھی کوئی نہیں ہے وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اپنے فضل سے نوازتا ہے اور وہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔“*

تسکین و تسلی کی کتنی ٹھنڈک ہے ان حقیقتوں میں۔جس مومن کے دل و دماغ میں یہ رچ بس جاتی ہے،مصائب کی کوئی آندھی اسے اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتی۔اس کا اپنا عزم اور اللہ تعالیٰ کی تائید و توفیق اس کی آزمائشوں کی بھٹی سے کندن بنا کر نکالتی ہے اور اللہ اس کو اپنی عنایتوں اور رحمتوں سے ڈھانپ لیتا ہے۔(کتابِ الٰہی کا پیغام)

انسان سمجھتا ہے کہ اسے جو کچھ پہنچا ہے اللہ کی مشیت اور اس کے حکم سے ہی پہنچا ہے تو وہ صبر اور رَضا بَہ قضا کا مظاہرہ کرتا ہے۔حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سورة التغابن آیت نمبر11کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے کہ اللہ اس کے دل میں یقین راسخ کر دیتا ہے جس سے وہ جان لیتا ہے کہ اس کو پہنچنے والی تکلیف اس سے چوک نہیں سکتی اورجو اس سے چوک جانے والی ہے وہ اسے پہنچ نہیں سکتی۔(ابن کثیر)

  اسی یقین وایمان کے ساتھ ابتلا و آزمائش انسان کے لئے شفا اور عافیت ثابت ہوتی ہے،اس کا تقاضا ہے کہ ہم ان حالات میں صبر سے کام لیں،اللہ سے مدد طلب کریں اور اللہ ہی سے اسے دور کرنے کی درخواست کریں اور اس سے نجات کیلئے دربدر کی ٹھوکریں نہ کھائیں کیونکہ اللہ ہے وہ واحد ذات ہے جو مصائب و آزمائش میں ہماری پھنسی ہوئی کشتی کو کنارا لگا سکتا ہے۔آخر پہ میں یہاں مولانا محمد علی جوہرؒ کا دل کو پاش پاش کرنے والا ایک یادگار واقعہ لانا مناسب سمجھتا ہوں تاکہ ہم بھی مصائب کی آندھی میں ایک سچے مومن کی طرح رَضا بَہ قضا کا عملی مظاہرہ کر کے اپنے رب کی عنایتوں اور رحمتوں کے مستحق بن سکیں۔واقعہ اس طرح ہے:

قید کے دوران مولانا محمد علی جوہرؒ کی بیٹی آمنہ اس طور پر علیل ہوگئیں کہ زندگی کی امیدیں ٹوٹنے لگیں،مولانا کو برابر خبریں مل رہی تھیں،چاہتے تو پیرول پر رہائی کے لئے اپیل کرسکتے تھے،ممکن تھا کہ حکومت اپیل منظور کرلیتی لیکن غیرت نے گوارہ نہ کیا،صبر کا دامن تھامے رکھا اور عزیمیت و استقامت کی تاریخ میں ابدی جگہ پالی۔تسلیم و رضا کے اس پیکر نے قید کے دوران ہی آمنہ کی وفات کی جگر پاش خبر سن لی،جانے دل پر کیا گزری ہوگی۔مولانا نے بیٹی کی محبت پر تاریخ میں زندہ رہنے کو ترجیح دی۔منت سماجت سے انکار کیا۔بیٹی کی محبت نے جوش مارا تو جذبات اشعار میں ڈھل گئے؎

*میں ہوں مجبور پر الله تو مجبور نہیں*

*تجھ سے میں دور سہی وہ تو مگر دور نہیں*

*امتحاں سخت سہی پر دل مومن ہی وہ كيا*

*جو ہر ایک حال میں امید سے معمور نہیں*

*ہم کو تقدیر الٰہی سے نہ شکوہ نہ گِلہ*

*اہلِ تسلیم و رضا کا تو یہ دستور نہیں*

*تیری صحت ہمیں مطلوب ہے لیکن اس کو*

*نہیں منظور تو پھر ہم کو بھی منظور نہیں*

Comments