Who Is There To Offer Up Goodly Loan Unto Allah?

  اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا فرما کر باقی مخلوقات کے بالمقابل اسے ایک امتیازی شان بخشی۔یہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کے حُسنِ تخلیق کا شاہکار ہے۔دنیا میں انسان ہی وہ واحد مخلوق ہے جسے اللہ تعالیٰ کی جانب سے نیکی و بدی کا راستہ چُننے کا اختیار دیا گیا ہے۔اسی اختیار نے اسے اللہ کے ہاں جواب دہ بنا دیا۔اگر نیکی کی راہ اختیار کرے گا تو وہ اپنے رب کا شکر گزار بندہ بنے گا اور اس کا انعام پائے گا اور اگر بدی کی راہ اپنائے گا تو وہ ناشکرا بنے گا اور اس کی سزا بھگتے گا۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت و اطاعت کا مکلف بنا کر اس روئے زمین پر اسے اپنا خلیفہ مقرر کیا،تاکہ انسان اللہ تعالیٰ کی شریعت پر عمل کرے اور ایک منصفانہ سماج کی تشکیل کے لیے کوشاں رہے۔اس مقصد کے حصول کے لیے یقیناً جسمانی و مالی دونوں طرح کی قربانی درکار ہوتی ہے،جس کا اشارہ ذیل کی آیتِ مبارکہ میں واضح طور پر ملتا ہے:

لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰى تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ ؕ وَمَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ شَىۡءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِيۡمٌ۞(آل عمران:92)

*”تم نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ اپنی وہ چیزیں﴿خدا کی راہ میں﴾خرچ نہ کر دو جنہیں تم عزیز رکھتے ہو،اور جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ اس سے بے خبر نہ ہوگا۔“*

قرآنِ پاک میں ایک اور جگہ پہ اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان سے نہایت ہی تاکیدی انداز میں مخاطب ہوتے ہوئے یوں گویا ہیں:

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡفِقُوۡا مِمَّا رَزَقۡنٰكُمۡ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ يَّاۡتِىَ يَوۡمٌ لَّا بَيۡعٌ فِيۡهِ وَلَا خُلَّةٌ وَّلَا شَفَاعَةٌ ؕوَالۡكٰفِرُوۡنَ هُمُ الظّٰلِمُوۡنَ۞(البقرة:254)

*”اے لوگوں جو ایمان لائے ہو،جو کچھ مال متاع ہم نے تم کو بخشا ہے،اس میں سے خرچ کرو قبل اس کے کہ وہ دن آئے،جس میں نہ خرید و فروخت ہو گی،نہ دوستی کام آئے گی اور نہ سفارش چلے گی۔اور ظالم اصل میں وہی ہیں،جو کفر کی روش اختیار کرتے ہیں۔“*

دیکھئے اللہ تعالیٰ نے کتنے اچھے انداز میں اپنے بندوں کو مال خرچ کرنے پر اُبھارا ہے کہ اس نے جو مال انھیں عطا کیا ہے اسے نیک کاموں میں خرچ کرلیں تاکہ قیامت کے دن رُسوائی سے بچ سکیں۔

  اللہ تعالیٰ نے مال و دولت کو انسان کی ایسی دنیاوی ضرورت بنائی ہے کہ عموماً اس کے بغیر انسان کی زندگی دوبھر رہتی ہے۔مال و دولت کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو جائز کوششیں کرنے کا مکلف تو بنایا ہے مگر انسان کی جدوجہد اور دوڑ دھوپ کے باوجود اس کی عطا اللہ تعالیٰ نے اپنے اختیار میں رکھی ہے،چاہے تو وہ کسی کے رزق میں کشادگی کر دے اور چاہے تو کسی کے رزق میں تمام دنیاوی اسباب کے باوجود تنگی پیدا کر دے۔مال و دولت کے حصول کے لیے انسان کو خالقِ کائنات نے یوں ہی آزاد نہیں چھوڑ دیا کہ جیسے چاہو کماٶ،کھاٶ بلکہ اس کے اصول وضوابط بنائے تاکہ اس دنیاوی زندگی کا نظام بھی صحیح ڈھنگ سے چل سکے اور اس کے مطابق آخرت میں جزا و سزا کا فیصلہ ہوسکے۔انہی اصول و ضوابط کو شریعت کہا جاتا ہے جس میں انسان کو یہ رہنمائی بھی دی جاتی ہے کہ مال کس طرح کمایا جائے اور کہاں کہاں خرچ کیا جائے۔اپنے اور بال و بچوں کے اخراجات کے بعد شرائط پائے جانے پر مال ودولت میں زکوٰة کی ادائیگی فرض کی گئی ہے۔اسلام نے زکوٰة کے علاوہ بھی مختلف شکلوں سے محتاج لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی ترغیب دی ہے تاکہ جس معاشرہ میں ہم رہ رہے ہیں اس میں ایک دوسرے کے رنج و غم میں شریک ہو سکیں۔انہی شکلوں میں سے ایک شکل قرضِ حسن بھی ہے کہ ہم غریبوں اور محتاجوں کی مدد کریں،یتیموں اور بیواٶں کی کفالت کریں،مقروضین کے قرضوں کی ادائیگی کریں اور آپس میں ایک دوسرے کو ضرورت کے وقت قرض دیں،جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی ہمارے مال میں اضافہ کرے گا اور آخرت میں بھی اس کا اجر و ثواب دے گا۔

قرض کے لغوی معنی کاٹنے کے ہیں،یعنی اپنے مال میں سے کچھ مال کاٹ کر اللہ تعالیٰ کے راستے میں دیا جائے تو اللہ تعالیٰ اس کا کئی گنا بدلہ عطا فرمائے گا۔محتاج لوگوں کی مدد کرنے سے مال میں کمی واقع نہیں ہوتی ہے،بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے جو مال غریبوں،مسکینوں اور ضرورت مندوں کو دیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ اس میں کئی کئی گنا اضافہ فرماتا ہے،کبھی ظاہری طور پر،کبھی معنوی و روحانی طور پر اس میں برکت ڈال دیتا ہے اور آخرت میں تو یقیناً اس میں حیران کن اضافہ ہوگا۔

امام راغب اصفہانیؒ لکھتے ہیں کہ:

 ہر خوش کن اور پسندیدہ چیز کو حسن کہا جاتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں۔(1) وہ چیز جو عقل کے اعتبار سے مستحسن ہو۔(2) وہ جو خواہش نفسانی کی رو سے پسندیدہ ہو۔(3) صرف نگاہ میں بھی معلوم ہو۔الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں۔(مفردات القرآن) 

   قرآنِ کریم میں استعمال ہوئی اس اصطلاح(قرضِ حسن) سے اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا،غریبوں اور محتاجوں کی مدد کرنا،یتیموں اور بیواٶں کی کفالت کرنا،مقروضین کے قرضوں کی ادائیگی کرنا،دین کی نشر و اشاعت اور اس کے غلبہ و اقامت کی جدوجہد کے لیے خرچ کرنا،اللہ کے کلمے کو سربلند کرنے کے لیے ہمہ وقت کارکنوں پر خرچ کرنا،اللہ کے راستے میں سرفروشوں کو وقتاً فوقتاً سپورٹ کرنا،نیز اپنے بچوں پر خرچ کرنا مراد ہے،غرض یہ کہ انسانیت کے کام آنے والی تمام شکلیں اس میں داخل ہیں،جیسا کہ مفسرین نے اپنی تفسیروں میں تحریر فرمایا ہے۔اسی طرح قرضِ حسن میں یہ شکل بھی داخل ہے کہ کسی پریشان حال شخص کو اس نیت کے ساتھ قرض دیا جائے کہ اگر وہ اپنی پریشانیوں کی وجہ سے واپس نہ کرسکا تو اس سے مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔

 اللہ تعالیٰ نے محتاج بندوں کی ضرورتوں میں خرچ کرنے کو اپنی ذات کو قرض دینا قرار دیا حالانکہ اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے،وہ نہ صرف مال و دولت اور ساری ضرورتوں کا پیدا کرنے والا ہے،بلکہ وہ تو پوری کائنات کا خالق،مالک اور رازق ہے۔ہم سب اسی کے خزانے سے کھا پی رہے رہیں،تاکہ ہم بڑھ چڑھ کر انسانوں کے کام آئیں،یتیم بچوں اور بیوہ عورتوں کی کفالت کریں،غریب محتاجوں کے لیے روٹی،کپڑا اور مکان کے انتظام کے ساتھ ان کی دینی و عصری تعلیمی ضرورتوں کو پورا کرنے میں ایک دوسرے سے مسابقت کریں۔یہی وہ ہمت والی کام ہے جو ایک انسان کو اللہ تعالیٰ کے وفادار بندوں میں شامل کر دیتی ہے،جن کا آخری ٹھکانہ جنت ہوگا،جس میں وہ ہر طرح کی نعمتوں اور ہر قسم کی آرام و آسائش سے لطف اندوز ہونگے۔قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ اپنے ان خاص بندوں کی منظر کشی ان الفاظ میں کر رہا ہے:

اِنَّ الۡاَبۡرَارَ يَشۡرَبُوۡنَ مِنۡ كَاۡسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُوۡرًا‌ۚ‏۞عَيۡنًا يَّشۡرَبُ بِهَا عِبَادُ اللّٰهِ يُفَجِّرُوۡنَهَا تَفۡجِيۡرًا۞يُوۡفُوۡنَ بِالنَّذۡرِ وَيَخَافُوۡنَ يَوۡمًا كَانَ شَرُّهٗ مُسۡتَطِيۡرًا‏۞وَيُطۡعِمُوۡنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسۡكِيۡنًا وَّيَتِيۡمًا وَّاَسِيۡرًا۞اِنَّمَا نُطۡعِمُكُمۡ لِـوَجۡهِ اللّٰهِ لَا نُرِيۡدُ مِنۡكُمۡ جَزَآءً وَّلَا شُكُوۡرًا‏۞اِنَّا نَخَافُ مِنۡ رَّبِّنَا يَوۡمًا عَبُوۡسًا قَمۡطَرِيۡرًا‏۞فَوَقٰٮهُمُ اللّٰهُ شَرَّ ذٰلِكَ الۡيَوۡمِ وَ لَقّٰٮهُمۡ نَضۡرَةً وَّسُرُوۡرًا‌ۚ۞وَجَزٰٮهُمۡ بِمَا صَبَرُوۡا جَنَّةً وَّحَرِيۡرًا۞(الدھر:12-5)

*”نیک لوگ(جنت میں)شراب کے ایسے ساغر پئیں گے جن میں آب کافور کی آمیزش ہوگی،یہ ایک بہتا چشمہ ہوگا جس کے پانی کے ساتھ اللہ کے بندے شراب پئیں گے اور جہاں چاہیں گے بسہولت اس کی شاخیں لیں گے۔یہ وہ لوگ ہونگے جو(دنیا میں)نذر پوری کرتے ہیں،اور اُس دن سے ڈرتے ہیں جس کی آفت ہر طرف پھیلی ہوئی ہوگی اور اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں(اور اُن سے کہتے ہیں کہ)ہم تمہیں صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں،ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ۔ہمیں تو اپنے رب سے اُس دن کے عذاب کا خوف لاحق ہے جو سخت مصیبت کا انتہائی طویل دن ہوگا۔پس اللہ تعالیٰ انہیں اُس دن کے شر سے بچا لے گا اور انہیں تازگی اور سرور بخشے گا اور اُن کے صبر کے بدلے میں اُنہیں جنت اور ریشمی لباس عطا کریگا۔“*

 اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک کی چھ آیات میں بارہ مقامات پر قرض کا ذکر فرمایا ہے اور ہر آیت میں قرض کو حسن کے ساتھ بیان کیا ہے۔قرضِ حسن سے متعلق جو آیاتِ قرآنیہ ہیں وہ حسبِ ذیل ہیں: 

مَنۡ ذَا الَّذِىۡ يُقۡرِضُ اللّٰهَ قَرۡضًا حَسَنًا فَيُضٰعِفَهٗ لَهٗۤ اَضۡعَافًا کَثِيۡرَةً ‌ؕوَاللّٰهُ يَقۡبِضُ وَيَبۡصُۜطُ ۖ وَ اِلَيۡهِ تُرۡجَعُوۡنَ۔(البقرة:245)

*”تم میں کون ہے جو اللہ کو قرضِ حَسَن دے تاکہ اللہ اسے کئی گنا بڑھا چڑھا کر واپس کرے؟گھٹانا بھی اللہ کے اختیار میں ہے اور بڑھانا بھی،اور اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے۔“*

جس طرح حق کی سربلندی کے لیے جان کا نذرانہ پیش کرنا پڑتا ہے اسی طرح جہاد و قتال کی تیاری کے لیے انفاق بھی کرنا ضروری ہے۔مومن کا بھروسہ اگرچہ اللہ پر ہوتا ہے لیکن اسے اسلحہ جنگ کی بہرصورت ضرورت ہوتی ہے۔اللہ کی نصرت و تائید اپنی جگہ لیکن فوج کے مصارف کے لیے پیسے کی ضرورت تو ناگزیر ہے۔اس لیے یہاں قتال کے بعد انفاق کا ذکر فرمایا ہے۔لیکن اس کا ذکر ایسے دلنواز انداز میں کیا کہ اس سے جھوم اٹھنے کو جی چاہتا ہے۔یہ نہیں فرمایا کہ اللہ کے راستے میں خرچ کرو بلکہ فرمایا کہ جہاد و قتال کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے سرمایہ کی ضرورت ہے بتاٶ تم میں سے کون اللہ کو قرض دیتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے تم جو بھی اس راستے میں خرچ کرو گے اللہ تعالیٰ اس کی واپسی کی ضمانت دیتا ہے۔کیونکہ قرض ایسی رقم یا ایسی چیز کو کہتے ہیں کہ جس کی واپسی قرض لینے والے پر ضروری ہوتی ہے۔ایک مومن جب اللہ کے راستے میں انفاق کرتا ہے تو وہ حقیقت میں اللہ کو قرض دیتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ پابند ہے کہ وہ یہ قرض دوگنا چوگنا کر کے قرض دینے والے کو واپس کرے۔اللہ کی عنایات اپنے بندوں پر بے پایاں ہیں جن کا شمار ممکن نہیں۔کس قدر عجیب بات ہے کہ کسی شخص کے پاس بھی اگر کوئی مال و دولت ہے تو وہ اس کا اپنا نہیں بلکہ اللہ کا عطیہ ہے۔اس کی دین اور بخشش ہے۔اگر اللہ ہی کے راستے میں اسے خرچ کیا جائے تو وہ تو امانت کی ادائیگی کی ایک صورت ہے۔لیکن اس کا کرم ملاحظہ کیجئے کہ وہ اپنے دیے ہوئے مال کو اپنا نہیں بلکہ مال داروں کا ارشاد فرما رہا ہے۔اور پھر ان سے انھیں پر خرچ کیا جانے والا اپنے ذمے قرض ٹھہرا رہا ہے کہ تم اطمینان سے اللہ کے راستے میں خرچ کرو میں ذمہ داری قبول کرتا ہوں کہ تمہاری ایک ایک پائی اس طرح واپس ہوگی کہ اس میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہوگا۔حدیث میں اس کو مثال سے واضح فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ”جب کوئی بندہ میرے راستے میں میرے نام پر دیتا ہے تو میں اسے دائیں ہاتھ سے قبول کرتا ہوں اور پھر اسے اس طرح بڑھاتا ہوں جیسے تم اپنے گھوڑوں کے بچوں کو پالتے ہو۔اور وہ میرے ہاتھ میں بڑھتے بڑھتے اتنا عظیم ہوجاتا ہے کہ احد پہاڑ بھی اس کے مقابلے میں پست ہوجاتا ہے۔“مزید اس بات پر توجہ فرمایئے کہ یہاں قرض کو قرضِ حسن سے تعبیر کیا گیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ قرض دینے والا دل کی آمادگی اور خلوص نیت سے قرض دے۔وہ محض چھدہ نہ اتارے بلکہ وہ اللہ کے راستے میں خرچ کر کے خوشی محسوس کرے۔اور قرض بھی ایسے مال میں سے دے جو حلال اور طیب ہو۔اور اللہ کے راستے میں وہ چیز دے جو اسے انتہائی پسند ہو۔قرآن و سنت کی یہی وہ ترغیبات ہیں جس کے نتیجے میں صحابہ کرامؓ اپنا سب کچھ اللہ کے راستے میں لٹا دینے کے لیے تیار رہتے تھے۔ ایک صحابی ہیں جن کا نام ابو الدحداحؓ ہے۔جب یہ آیت نازل ہوئی تو وہ نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ سے پوچھا اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان ہوں کیا اللہ تعالیٰ ہم سے قرض مانگتے ہیں حالانکہ وہ قرض سے مستغنی ہیں۔آپ ﷺ نے فرمایا ہاں! اللہ تعالیٰ یہ چاہتے ہیں کہ اس کے ذریعے سے تم کو جنت میں داخل کردیں۔ابو الدحداحؓ نے یہ سن کر کہا اللہ کے رسول ہاتھ بڑھائیں آپﷺ نے اپنا ہاتھ بڑھایا۔ابوالدحداحؓ نے یہ کہنا شروع کیا میں کھجور کے دو باغوں کا مالک ہوں۔اس کے علاوہ میری ملک میں کچھ نہیں۔میں اپنے یہ دونوں باغ اللہ تعالیٰ کو قرض دیتا ہوں۔آپﷺ نے ان سے فرمایا ایک اللہ تعالیٰ کے راستے میں وقف کردو اور دوسرا اپنے اہل و عیال کی معاشی ضرورت کے لیے باقی رکھو۔ابو الدحداحؓ نے کہا آپﷺ گواہ رہیے ان دونوں میں سے بہترین باغ جس میں کھجور کے ٦٠٠ درخت ہیں اس کو میں اللہ کے راستے میں خرچ کرتا ہوں۔آپﷺ نے اس پر نہایت مسرور ہو کر فرمایا:کم من عذقٍ رداحٍ و دار فیاحٍ لاب الدحداح(کھجوروں سے لبریز بیشمار درخت اور کشادہ محلات کس قدر ابوالدحداح کے لیے تیار ہیں) ابو الدحداحؓ گھر تشریف لائے،آپؓ کا گھر چونکہ باغ کے اندر تھا اس لیے باغ کے کنارے کھڑے ہو کر آواز دی”یا اُم الدحداح! اے دحداح کی ماں! بچوں کو لے کر باہر آجاؤ میں یہ باغ اللہ کو قرض دے چکا ہوں۔“بیوی یہ سن کر نہایت خوش ہوئیں اور کہنے لگیں”اے دحداح کے ابا ! آپ نے بہت اچھا سودا کیا۔“(روح القرآن)

کیسا پختہ یقین اور ایمانِ کامل موجود تھا ہمارے صحابہ اکرامؓ کے دلوں میں کہ آیت کا مفہوم سنتے ہی اپنی قیمتی متاع اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے کے لیے فوراَ تیار ہوگئے۔اور صرف صحابیؓ ہی نہیں بلکہ ان کی بیوی بھی اس نیکی میں ان کے ساتھ بآسانی شریک ہوگئیں،نہ تو شکوہ کیا نہ ہی اس بات کی فکر کی کہ اب ہمارا کیا ہوگا؟

 وَاَقۡرَضۡتُمُ اللّٰهَ قَرۡضًا حَسَنًا لَّاُكَفِّرَنَّ عَنۡكُمۡ سَيِّاٰتِكُمۡ وَلَاُدۡخِلَـنَّكُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ‌ۚ۞(المائدہ:12)

*”اور اپنے خدا کو اچھا قرض دیتے رہے تو یقین رکھو کہ میں تمہاری بُرائیاں تم سے زائل کردوں گا اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔“*

یعنی خدا کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے رہے۔چونکہ اللہ تعالیٰ اس ایک ایک پائی کو،جو انسان اس کی راہ میں خرچ کرے،کئی گنا زیادہ انعام کے ساتھ واپس کرنے کا وعدہ فرماتا ہے،اس لیے قرآن میں جگہ جگہ راہِ خدا میں مال خرچ کرنے کو”قرض“سے تعبیر کیا گیا ہے۔ بشرطیکہ وہ”اچھا قرض“ہو،یعنی جائز ذرائع سے کمائی ہوئی دولت خرچ کی جائے،خدا کے قانون کے مطابق خرچ کی جائے اور خلوص و حُسنِ نیت کے ساتھ خرچ کی جائے۔(تفہیم القرآن)

مَنۡ ذَا الَّذِىۡ يُقۡرِضُ اللّٰهَ قَرۡضًا حَسَنًا فَيُضٰعِفَهٗ لَهٗ وَلَهٗۤ اَجۡرٌ كَرِيۡمٌ۔(الحدید:11)

*”کون ہے جو اللہ کو قرض دے؟اچھا قرض،تاکہ اللہ اسے کئی گُنا بڑھا کر واپس دے،اور اُس کے لیے بہترین اجر ہے۔“*

اب یہ نہایت واضح اور مٶثر الفاظ میں جہاد کے لیے مالی اعانت کی اپیل ہے کہ کون ہے جو اللہ کو قرضِ حسن دینے کے لیے اٹھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو بڑھائے اور اس کو باعزت اجر عطا فرمائے۔لفظ”قرض“سے اگرچہ عام انفاق بھی مراد ہوسکتا ہے لیکن یہاں سیاق وسباق سے واضح ہے کہ اس سے جہاد کے لیے مالی اعانت ہی مراد ہے۔

   انفاق فی سبیل اللہ کے لیے قرض کے لفظ میں جو اپیل ہے وہ محتاج وضاحت نہیں ہے۔اوپر واضح ہوچکا ہے کہ انسان کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی کی سپرد کردہ امانت ہے۔اب یہ کتنا بڑا فضل ہے اس ربِ کریم کا کہ وہ اپنا ہی عطا کیا ہوا مال اپنی راہ میں خرچ کرنے کی جب بندوں کو دعوت دیتا ہے تو اس کو اپنے ذمہ قرض ٹھہراتا ہے جس کی واپسی کا وہ گویا اسی طرح ذمہ دار ہے جس طرح ایک قرض دار اپنے مہاجن کی رقم کی واپسی کا ذمہ دار ہوتا ہے۔(نبضعفہ) یعنی اللہ تعالیٰ یہ قرض اس لیے نہیں مانگ رہا ہے کہ اس کے خزانے میں کوئی کمی ہے۔جب سب کچھ اسی کا پیدا کردہ اور اسی کا عطا کردہ ہے تو اس کے پاس کمی کا کیا سوال؟بلکہ وہ تو صرف اس لیے مانگ رہا ہے کہ لوگوں کے عطا کردہ مال کو وہ اپنے بنک میں جمع کر کے اس کو اچھی طرح بڑھائے تاکہ اس کا منافع ایک ابدی زندگی میں ایک کبھی نہ ختم ہونے والے سرمایہ کی صورت میں ان کے کام آئے۔اس اسلوبِ بیان میں سود خواروں پر جو تعریفیں ہے وہ اہلِ ذوق سے مخفی نہیں ہے۔مطلب یہ ہے کہ جو اپنا سرمایہ اس دنیا کے بنک میں جمع کرتا ہے تو یہ دنیا اور اس کا سرمایہ ہر چیز چند روزہ ہے البتہ جو اپنا مال اپنے رب کے پاس جمع کرتے ہیں ان کا منافع ابدی اور ہر اندیشہ سے محفوظ ہے۔(مضاعفۃ) کا ترجمہ عام طور پر لوگوں نے دگنا کرنا کیا ہے،لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔اس کے معنی بڑھانے کے ہیں۔یہ بڑھانا دگنا،چوگنا،دس گنا بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ ہوسکتا ہے۔اس کا تعلق دینے والے کے خلوص اور ان حالات سے ہے جن میں وہ مال دیا گیا ہے اور سب سے زیادہ اس رب کریم کے فضل سے ہے جس نے اپنے بندوں کے لیے ابدی منفعت کی راہ کھولی ہے۔

( قرضِ حسن کے شرائط):اس کے ساتھ یہاں صرف ایک شرط لگائی ہے کہ یہ قرض”قرضِ حسن“ہو۔قرآن میں اس کی وضاحت میں جو باتیں فرمائی گئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قرض،قرضِ حسن اس شکل میں بنتا ہے جب دل کی پوری فراخی اور بلندی حوصلگی کے ساتھ دیا جاتا ہے،دل کی تنگی کے ساتھ محض مادے باندھے یا دکھاوے کے لیے نہیں دیا جاتا،اچھے مال میں سے دیا جاتا ہے،محض چھدا اتارنے کی کوشش نہیں کی جاتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ محض اللہ کی خوشنودی کے لیے دیا جاتا ہے،کسی غرض دنیوی کے لیے نہ دیا جاتا ہے اور نہ دینے کے بعد اس کے دیے جانے پر احساس جتایا جاتا ہے یا کسی پہلو سے کوئی دل آزاری کی جاتی ہے۔(ولہ اجر کریم) یعنی اس کے دیے ہوئے مال میں جو بڑھوتری ہوگی وہ تو ہوگی ہی،علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ خاص اپنے فضل سے بھی اس کو نہایت با عزت اجر دے گا۔(تدبر قرآن)

اِنَّ الۡمُصَّدِّقِيۡنَ وَالۡمُصَّدِّقٰتِ وَاَقۡرَضُوا اللّٰهَ قَرۡضًا حَسَنًا يُّضٰعَفُ لَهُمۡ وَلَهُمۡ اَجۡرٌ كَرِيۡمٌ۞(الحدید:18)

*”مَردوں اور عورتوں میں سے جو لوگ صدقات دینے والے ہیں اور جنہوں نے اللہ کو قرضِ حَسَن دیا ہے،اُن کو یقیناً کئی گُنا بڑھا کر دیا جائے گا اور ان کے لیے بہترین اجر ہے۔“*

اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے مال خرچ کرنے کی دو مدیں ہیں۔یعنی ایک صدقہ اور دوسری انفاق فی سبیل اللہ یا اللہ کے لیے قرضِ حسنہ۔چناچہ وہ مال جو اللہ کی رضا کے لیے غرباء،مساکین،بیواٶوں،یتیموں،بیماروں،مسافروں،مقروضوں،محتاجوں اور ضرورت مند انسانوں کی مدد اور حاجت روائی کے لیے خرچ کیا جائے وہ صدقہ ہے۔اسی مفہوم میں سورة التوبہ کی آیت ٦٠ میں زکوٰۃ کو بھی” صدقہ“قرار دیا گیا ہے۔کیونکہ زکوٰۃ بنیادی طور پر غرباء و مساکین اور محتاجوں کے لیے ہے۔اس میں اللہ کے لیے فی سبیل اللہ صرف ایک مد رکھی گئی ہے۔اس حوالے سے دوسری اصطلاح”انفاق فی سبیل اللہ“یا اللہ کے لیے قرضِ حسنہ کی ہے۔واضح رہے کہ یہ باقاعدہ ایک اصطلاح کی بات ہو رہی ہے،ورنہ عرفِ عام میں تو صدقہ بھی فی سبیل اللہ ہی ہے،کیونکہ وہ بھی اللہ کے لیے اور اس کی رضاجوئی کے لیے ہی دیا جاتا ہے۔بہرحال ایک باقاعدہ اصطلاح کے اعتبار سے انفاق فی سبیل اللہ ایسا انفاق ہے جو اللہ کے دین کے لیے،دین کی نشرو اشاعت کے لیے اور اس کے غلبہ و اقامت کی جدوجہد کے لیے کیا جائے اور یہی وہ انفاق ہے جسے اللہ تعالیٰ اپنے ذمہ قرض قرار دیتا ہے۔

 اللہ کی مشیت سے مردہ زمین کے زندہ ہوجانے کے ذکرکے بعد یہاں صدقہ اور اللہ کے لیے قرضِ حسنہ کی ترغیب میں گویا دل کی مردہ زمین کو پھر سے ایمان کی فصل کے لائق بنانے کی ترکیب پنہاں ہے۔یعنی اگر تم نے دل کی مردہ زمین کو زندہ کرنا ہے تو اس میں انفاقِ مال کا ہل چلاٶ اور اس میں سے حُبِ دنیا کی جڑوں کو کھود کھود کر نکال باہر کرو۔یقین رکھو کہ جیسے جیسے تم اللہ کی رضا کے لیے مال خرچ کرتے جاٶ گے،ویسے ویسے تمہارے دل کی زمین میں ایمان کی فصل جڑیں پکڑتی چلی جائے گی۔دنیا کی محبت کو میں عام طور پر گاڑی کی بریک سے تشبیہہ دیا کرتا ہوں۔جس طرح گاڑی کو بریک لگی ہو تو وہ حرکت میں نہیں آسکتی،اسی طرح اگر دنیا کی محبت آپ کے دل میں پیوست ہوچکی ہے تو اس میں اللہ کے راستے پر گامزن ہونے کی امنگ پیدا نہیں ہوسکتی۔چناچہ دل کی گاڑی کو رضائے الٰہی کی شاہراہ پر رواں دواں کرنے کے لیے اس کی بریک سے پاٶں اٹھانا بہت ضروری ہے۔یعنی اس کے لیے مال کی محبت کو دل سے نکالنا ناگزیر ہے۔اور اس محبت کو دل سے نکالنے کی ترکیب یہی ہے کہ اپنے مال کو زیادہ سے زیادہ اللہ کے راستے میں خرچ کیا جائے۔(بیان القرآن)

اِنۡ تُقۡرِضُوا اللّٰهَ قَرۡضًا حَسَنًا يُّضٰعِفۡهُ لَـكُمۡ وَيَغۡفِرۡ لَـكُمۡ‌ؕ وَاللّٰهُ شَكُوۡرٌ حَلِيۡمٌۙ۞(التغابن:17)

*”اگر تم اللہ کو قرضِ حَسَن دو تو وہ تمہیں کئی گُنا بڑھا کر دے گا اور تمہارے قصوروں سے در گزر فرمائے گا،اللہ بڑا قدردان اور بردبار ہے۔“*

اللہ بہت ہی برکت والا اور عظیم ہے۔کتنا بڑا کریم ہے،کتنا بڑا ہے۔وہ بندے کو پیدا کرتا ہے،اسے رزق دیتا ہے،پھر اس سے قرضہ مانگتا ہے قرضِ حسن۔پھر صرف قرض ہی نہیں لوٹاتا بلکہ اسے کئی گنا کر کے لوٹاتا ہے۔پھر اللہ اپنے بندے کا شکریہ ادا کرتا ہے۔اور اس کے ساتھ نہایت ہی حلم سے معاملہ کرتا ہے۔اللہ اور اپنے غلام کا شکر،یا اللہ یہ تیرا ہی کام ہے! اور ایک عظیم انعام ہے!

 اللہ ہمیں اپنے صفات سے آگاہ کرتا ہے کہ ہم اپنے نقائص اور اپنی کمزوریوں پر کس طرح قابو پائیں اور ہم ہمیشہ اللہ کی طرف نظریں اٹھا کر دیکھیں اور ہم اللہ جل شانہ کی تقلید زمین پر کریں۔اپنی محدود طاقت کے مطابق۔اللہ نے فرمایا ہے کہ میں نے انسان کے اندر اپنی روح پھونکی ہے۔اس روح کا تقاضا یہی ہے کہ ہم اللہ کی صفات کی تقلید کریں۔اپنی طاقت کے مطابق کریں۔انسان کے سامنے یہ بلند آفاق ہر وقت کھلے ہیں کہ یہ جس قدر ان میں بلندیوں تک جاسکتا ہے،جاسکے۔ ان بلندیوں تک وہ درجہ بدرجہ بلند ہو۔یہاں تک کہ وہ اللہ تک جب پہنچے تو ایسی حالت میں ہو کہ اللہ اسے پسند کرے اور اس سے راضی ہو۔(فی ظلال القرآن)

 وَاَقۡرِضُوا اللّٰهَ قَرۡضًا حَسَنًا‌ ؕ وَمَا تُقَدِّمُوۡا لِاَنۡفُسِكُمۡ مِّنۡ خَيۡرٍ تَجِدُوۡهُ عِنۡدَ اللّٰهِ هُوَ خَيۡرًا وَّاَعۡظَمَ اَجۡرًا‌ ؕ وَاسۡتَغۡفِرُوا اللّٰهَ ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ۞(المزمل:20)

*”اور اللہ کو اچھا قرض دیتے رہو۔جو کچھ بھلائی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے اسے اللہ کے ہاں موجود پاٶ گے،وہی زیادہ بہتر ہے اور اس کا اجر بہت بڑا ہے۔اللہ سے مغفرت مانگتے رہو،بے شک اللہ بڑا غفور و رحیم ہے۔“*

وَاَقْرِضُوا اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کو اس عنوان سے تعبیر کیا ہے کہ گویا یہ خرچ کرنے والا اللہ کو قرض دے رہا ہے اس میں اس کے حال پر لطف و کرم کی طرف اشارہ بھی ہے اور اس کا بیان بھی کہ اللہ تعالیٰ غنی الاغنیاء ہے اس کو دیا ہوا قرض کبھی مارا نہیں جاسکتا ضرور وصول ہوگا اور چونکہ زکوٰة فرض کا حکم اس سے پہل آچکا ہے اس لئے اقرضوا اللہ میں جس خیرات اور فی سبیل اللہ خرچ کرنے کا ذکر ہے اس کو اکثر حضرات نے صدقات نافلہ اور تبرعات پر محمول کیا ہے جیسے اپنے اقابر و اعزاء کو کچھ دینا یا مہمان کی مہمانی پر خرچ کرنا یا علماء و صلحاء کی خدمت کرنا وغیرہ اور بعض حضرات نے اس کا مفہوم یہ قرار دیا ہے کہ زکوٰة کے علاوہ بھی بہت سے مالی واجبات انسان پر عائد ہوتے ہیں۔جیسے ماں باپ،بیوی،اولاد کا نفقہ واجبہ یا دوسری واجبات شرعیہ تو اتو الزکوة میں ادائے زکوة کا حکم دینے کے بعد دوسرے واجبات کا ذکر اقرضوا اللہ سے کردیا گیا۔

 وَمَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ مِّنْ خَيْرٍ آلایتہ،ماتقدموا لانفسکم کا مطلب یہ ہے کہ جو نیک کام اپنی زندگی میں کر گزرو وہ بہتر ہے اس سے کہ مرنے کے وقت وصیت کرو اس میں مالی عبادت صدقہ و خیرات بھی داخل ہے اور نماز روزہ وغیرہ بھی جو کسی کے ذمہ قضا ہو اپنے ہاتھ سے اپنے سامنے اللہ کی راہ میں خرچ کر کے اس سے سبکدوشی بہتر ہے بعد میں تو وارثوں کے اختیار میں بات رہتی ہے وہ کریں یا نہ کریں۔

حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرامؓ سے سوال کیا کہ تم میں ایسا کون ہے جو اپنے وارث کے مال سے بہ نسبت اپنے مال کے زیادہ محبت رکھتا ہو صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ ہم میں کوئی بھی ایسا نہیں جو اپنے وارث کے مال کی محبت خود اپنے مال سے زیادہ رکھے۔آپﷺ نے فرمایا سوچ سمجھ کر بات کرو۔صحابہؓ نے عرض کیا کہ ہمیں تو اس کے سوا کوئی دوسری صورت معلوم نہیں آپﷺ نے فرمایا(جب یہ بات ہے تو سمجھ لو کہ)تمہارا مال وہ ہے جو تم نے اپنے ہاتھ سے اللہ کی راہ میں خرچ کر دیا اور جو رہ گیا وہ تمہارا مال نہیں بلکہ تمہارے وارث کا مال ہے (ذکرہ ابن کثیر باسناد ابی یعلے الموصلی ثم قال و رواہ البخاری من حدیث حفص بن غیاث الخ)(معارف القرآن)

       اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لیے مال و دولت کی فراوانی ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ ہر مسلمان کو اپنا مال اچھے کاموں میں خرچ کرتے رہنا چاہیے۔اللہ تعالیٰ کو ہمارے مال و دولت کی کوئی ضرورت نہیں وہ تو ہمارے اخلاص اور نیت کو دیکھتا ہے کہ ہم کتنی خالص نیت کے ساتھ اس کے حکم پر عمل کر رہے ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے اس بات کا تقاضہ کیا ہے کہ وہ اپنی جان سے بھی زیادہ قیمتی چیز اس کی راہ میں صدقہ کر کے مجبور،یتیم،بے سہارا مسلمانوں کی مدد کریں،اس نیت کے ساتھ کہ اس کا اجر  ہمیں اللہ دینے والا ہے لیکن اپنے پروردگار کے اس تقاضے کو،اس اعلان کو ہم نام کے مسلمان ابھی تک سمجھ ہی نہیں پائے ہیں،سمجھتے بھی کیسے؟ابھی نہ تو ہماری مال و دولت سے رغبت کم ہوئی ہے،نہ ہی بینک بیلنس ہماری خواہشات کے مطابق پُر ہوئے ہیں اور نہ دنیا کی لذتوں سے ہم پوری طرح لُطف اٹھا سکے ہیں۔پھر اگر ایسے میں اپنے مال و دولت کا تھوڑا سا حصہ قرضِ حسن کے طور پر دے دیا جائے تو پتہ نہیں اس کی بھرپائی  کے لیے کتنے دن اپنی خواہشات کو دبانا پڑے۔

   آج امتِ مسلمہ کا ایک بڑا طبقہ انفاق فی سبیل اللہ کے فرض سے غافل ہے۔بعض حضرات ضرورت مندوں کی مدد کے لیے تیار تو رہتے ہیں لیکن ساتھ ہی انھیں اپنی نمائش بھی مقصود ہوتی ہے۔اگر کسی حاجت مند کی تھوڑی سی مالی مدد کر دی تو اس موقع پر تصاویر کھنچوانا اور اسے اخبارات کی زینت بنانا بھی یہ اپنا فرض سمجھتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کو ایسی نمائش کرنے والوں سے کوئی غرض نہیں۔وہ تو چاہتا ہے کہ اگر ہم دائیں ہاتھ سے کچھ دیں تو بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہوسکے۔یقیناً انسان کو خلوصِ دل سے معمولی سا صدقہ کرنے پر جو خوشی حاصل ہوسکتی ہے،وہ سب کو دکھا کر نہیں ہوسکتی۔

  آج ہم ایمان و عمل کے اعتبار سے کمزور ہیں اور اگر ہم﴿لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّی تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّوْنَ﴾کا مصداق بظاہر نہیں بن سکتے ہیں تو کم از کم﴿یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اَنْفِقُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا کَسَبْتُمْ﴾پر عمل کرکے اپنی روزی صرف حلال طریقہ سے حاصل کرنے پر اکتفاء کریں اور اسی حلال رزق میں سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے ضرورت مند لوگوں پر خرچ کریں۔

حاصل کلام یہ ہے کہ اس فانی دنیوی زندگی کا اصل مطلوب و مقصود اُخروی زندگی میں کامیابی حاصل کرنا ہے،جہاں ہمیں ہمیشہ ہمیشہ رہنا ہے،موت کو بھی وہاں موت آجائیگی اور جہاں کی کامیابی ہمیشہ کی کامیابی و کامرانی ہے۔لہٰذا ہمیں چاہئیے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے احکامات نبی اکرمﷺ کے طریقہ پر بجا لائیں۔صرف حلال رزق پر اکتفاء کریں،خواہ بظاہر کم ہی کیوں نہ ہو۔حتی الامکان مشتبہ چیزوں سے بچیں۔زکوٰة کے واجب ہونے کی صورت میں فوراً زکوٰة کی ادائیگی کریں۔اپنے اور اپنے بال بچوں کے اخراجات کے ساتھ وقتاً فوقتاً قرضِ حسن اور مختلف صدقات کے ذریعہ محتاج لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی بھرپور کوشش کریں۔اس بات کا ہمیشہ خیال رکھیں کہ کل قیامت کے دن ہمارے قدم ہمارے پروردگار کے سامنے سے ہٹ نہیں سکتے جب تک کہ ہم مال کے متعلق سوالات کا جواب نہ دے دیں کہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟

اللہ تعالیٰ سے یہی دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے دین کا صحیح فہم عطا فرمائے،ہمیں صراطِ مستقیم پر گامزن رہنے کی ہمت دے اور اس پر آنے والے مصائب و مشکلات کا سامنا کرنے کی توفیق عطا فرمائے،کیونکہ راستہ بدلنا آسان ہے لیکن راستے استقامت چاہتے ہیں۔ہمیں اس بات کی توفیق دے کہ ہم اِن کے بنک میں زیادہ سے زیادہ حلال اور پاک مال کو جمع کریں تاکہ کل ہم اِن کے دربار میں رُسوا ہونے سے بچ سکیں۔آمین یا رب العٰلمین۔

Comments

Post a Comment