Devotion with Prophet:Prerequisites



  لغوی معنیٰ میں”محبت“ یا”حب“ بغض کا نقیض ہے،جس کا مطلب ہوتاہے لازم پکڑنا اور ثابت قدم رہنا۔محبت کے لئے بسا اوقات جب خالص محبت ہو تو”ود“اور”مودۃ“کا استعمال بھی ہوتا ہے۔اللہ تعالی نے قرآنِ مجید میں مختلف صیغوں کے ساتھ کئی جگہوں پہ اس کا استعمال کیا ہے۔اسی سے لفظ”ودود“بنا ہے جو اللہ تعالیٰ کے اسمآء حسنیٰ میں سے ہے،جس کا مطلب ہوتاہے”بہت محبت کرنے والا“کیونکہ وہ انبیآء و صالحین اور اپنے نیک بندوں سے بے انتہا محبت کرتا ہے۔اسی طرح حدیث میں بہت زیادہ محبت کرنے والی عورت سے شادی کرنے کے سلسلے میں آتا ہے”تزوّجوا الودود“یعنی خوب محبت کرنے والی عورت سے شادی کرو۔(ابوداٶد:2050)

 اصطلاحی معنیٰ میں امام راغب اصفہانیؒ نے اس کی تعریف یوں کی ہے کہ:

*”نفس جس چیز کے اندر اچھائی محسوس کرے اسے محبت کہتے ہیں۔“*

  محبت ایک فطری جذبہ ہے جو کسی بھی انسان کے دل میں پیدا ہوتا ہے،بلکہ انسان کی زندگی بھی مکمل طریقے سے ابتداء تا انتہا اس کے ساتھ ہی گزرتی ہے۔صحیح محبت کے لئے توفیقِ الٰہی اصل ہے،بلکہ اللہ تعالیٰ نے جب روحوں کو پیدا کیا اسی وقت انہیں ایک دوسرے سے محبت کا خوگر بنایا،جیسا کہ ایک روایت میں حضرت عائشہؓ فرماتی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا:الأرْوَاحُ جُنُودٌ مُجَنَّدَةٌ فَما تَعَارَفَ مِنهَا ائْتَلَفَ،وَمَا تَنَاكَرَ مِنهَا اخْتَلَفَ یعنی روحوں کے جھنڈ کے جھنڈ ہیں،پھر جنہوں نے ان میں سے ایک دوسرے کی پہچان کی تھی وہ دنیا میں بھی ایک دوسرے سے الفت ومحبت کرتی ہیں اور جو وہاں الگ تھیں یہاں بھی الگ رہتی ہیں۔(مسلم:6709)

اسلامی شریعت نے دیگر امور کے ساتھ ساتھ اس سے متعلق بھی بہترین رہنمائی کی ہے اور اس کے کچھ اصول و قواعد اور ضوابط بیان کئے ہیں۔خود اللہ کے رسولﷺ  کی محبت کے سلسلے میں ڈھیر ساری روایتیں منقول ہیں کہ آپ کس طرح اپنی ازواجِ مطہرات،اولاد،اہلِ بیت،صحابہ کرامؓ خصوصاً اصحابِ بدر اور بیعت رضوان میں شریک ہونے والوں سے محبت کرتے تھے،اسی طرح دین کے شعائر خاص طور سے نماز سے آپﷺ کو کتنی محبت تھی،نیز آپﷺ خوشبو سے بھی محبت کرتے تھے۔

 ایک انسان کے دل میں مختلف چیزوں کی محبت ہوتی ہے۔کچھ محبتیں فطری اور طبعی ہوتی ہیں جیسے والدین،بیوی،اولاد،عزیز و اقارب،وطن،مال و دولت کی محبت اور کچھ محبتیں وہ ہیں جو شریعت میں عین مطلوب ہیں جیسے اللہ سے محبت،رسول اللہﷺ سے محبت اور اہلِ ایمان سے محبت۔ایمان کا تقاضا ہے کہ ایک انسان کے دل میں سب سے پہلے ہر چیز سے بڑھ کر اللہ کی محبت ہونی چاہئیے کیونکہ یہ محبت کی اساس اور بنیاد ہے اورتمام محبتیں اسی کی تابع ہیں۔فرمانِ الٰہی ہے:

وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ۞(البقرہ:165)

*”اور جو لوگ واقعتاً صاحبِ ایمان ہوتے ہیں ان کی شدید ترین محبت اللہ کے ساتھ ہوتی ہے۔“*

 محبتِ الٰہی کے بعد سب سے زیادہ محبت نبی اکرمﷺ کی ہونی چاہئیے کیونکہ اسی ذاتِ اقدسﷺ نے ہمیں اپنے خالقِ حقیقی کا تعارف دیا،ہمیں زندگی کی حقیقت سمجھائی،ہمارے لیے شدید تکالیف اُٹھائے،کئی بار جسمِ اطہر  بھی لہولہان ہوگیا،فاقوں کی نوبت آئی تو انہیں سہہ لیا،سوکھی ہوئی روٹیوں پر گزارا کیا،اللہ کے حضور سجدوں میں ہماری نجات کی خاطر موتی کے قطروں جیسے نہایت ہی قیمتی آنسو بہائے،راتوں کی نیدیں اپنے اوپر حرام کر ڈالی،انہیں ہر دم یہی فکر دامن گیر رہتی تھی کہ چہیتا اُمتی کہیں جہنم کی آگ کا لقمہ نہ بن جائے۔جاں کنی کے عالم میں بھی اس کا اظہار کیا،امت کو اکیلے چھوڑنے کا غم تھا اور بالآخر اسی غم میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔آخر ہمارے لیے اتنا کچھ کرنے کے باوجود بھی اگر ہم اس ذاتِ اقدسﷺ کو اپنے دل میں جگہ نہ دیں اور ان پر اپنا سب کچھ نثار نہ کر دیں تو ہمیں اس دھرتی پہ زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ کے بعد نبی اکرمﷺ سے محبت کرنا ایمان کا لازمی تقاضا ہے اور یہ محبتِ الٰہی کا جزوِلاینفک ہے،اس کے بغیر انسان مومن ہو ہی نہیں سکتا۔یہ محبت انسان کو اپنے نفس سے بھی بڑھ کر ہونا چاہئیے۔جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

اَلنَّبِىُّ اَوۡلٰى بِالۡمُؤۡمِنِيۡنَ مِنۡ اَنۡفُسِهِمۡ‌۞(الاحزاب:6)

*”بلاشبہ نبی تو اہلِ ایمان کے لیے اُن کی اپنی ذات پر مقّدم ہے۔“*

یعنی نبیﷺ کا مسلمانوں سے جو تعلق ہے وہ تو تمام دوسرے انسانی تعلقات سے ایک بالا تر نوعیت رکھتا ہے۔کوئی رشتہ اس رشتے سے اور کوئی تعلق اس تعلق سے جو نبی اور اہل ایمان کے درمیان ہے،ذرہ برابر بھی کوئی نسبت نہیں رکھتا۔نبیﷺ مسلمانوں کے لیے ان کے ماں باپ سے بھی بڑھ کر شفیق و رحیم اور ان کی اپنی ذات سے بڑھ کر خیر خواہ ہیں۔ان کے ماں باپ اور ان کے بیوی بچے ان کو نقصان پہنچا سکتے ہیں،ان کے ساتھ خود غرضی برت سکتے ہیں،ان کو گمراہ کرسکتے ہیں،ان سے غلطیوں کا ارتکاب کرا سکتے ہیں،ان کو جہنم میں دھکیل سکتے ہیں،مگر نبیﷺ ان کے حق میں صرف وہی بات کرنے والے ہیں جس میں ان کی حقیقی فلاح ہو۔وہ خود اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی مار سکتے ہیں،حماقتیں کر کے اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کرسکتے ہیں،لیکن نبیﷺ ان کے لیے وہی کچھ تجویز کریں گے جو فی الواقعی ان کے حق میں نافع ہو۔اور جب معاملہ یہ ہے تو نبیﷺ کا بھی مسلمانوں پر یہ حق ہے کہ وہ آپ کو اپنے ماں باپ اور اولاد اور اپنی جان سے بڑھ کر عزیز رکھیں،دنیا کی ہر چیز سے زیادہ آپﷺ سے محبت رکھیں،اپنی رائے پر آپ کی رائے کو اور اپنے فیصلے پر آپ کے فیصلے کو مقدم رکھیں،اور آپﷺ کے ہر حکم کے آگے سر تسلیم خم کردیں۔ 

اسی مضمون کو نبیﷺ نے اس حدیث میں ارشاد فرمایا ہے جسے بخاری و مسلم وغیرہ نے تھوڑے سے لفظی اختلاف کے ساتھ روایت کیا ہے کہ لا یؤمن احدُکم حتیٰ اکون احبَّ الیہ من والدہ و ولدہ والنّاس اجمعین۔”تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کو اس کے باپ اور اولاد سے اور تمام انسانوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہوں۔“(تفہیم القرآن)

ایک روایت میں سیدنا عبد اللہ بن ہشامؓ نے بیان کیا کہ  ہم نبی کریمﷺ  کے ساتھ تھے اور آپ عمر بن خطابؓ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔عمرؓ نے عرض کیا:یا رسول اللہ! آپ مجھے ہر چیز سے زیادہ عزیز ہیں،سوا میری اپنی جان کے۔نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ نہیں،اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے(ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا)جب تک میں تمہیں تمہاری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز نہ ہوجاؤں۔عمرؓ نے عرض کیا:پھر واللہ! اب آپ مجھے میری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔نبی کریم  ﷺ  نے فرمایا کہ ہاں،عمر! اب تیرا ایمان پورا ہوا۔  (بخاری:6632)

  مذکورہ وضاحت سے یہ بات مترشح ہوئی کہ نبی اکرمﷺ کی محبت ہمارے اوپر عائد کردہ فرائض میں سے ایک اہم فرض اور محبتِ الٰہی کے سوا ہر چیز کی محبت پر مقدم ہے۔اگر دل میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی محبت سے زیادہ کسی اور چیز کی محبت غالب ہے تو انسان”شرک فی المحبت“ میں مبتلا ہے۔یہ ایک بھیانک اور گھناونی قسم کی حرکت ہے جو غضبِ الٰہی کو دعوت دیتی ہے اور انسان عذابِ الٰہی کے لپیٹ میں آکر اپنے ہاتھوں خود اپنا نقصان کر بیٹھتا ہے۔یہاں بطورِ دلیل دو آیاتِ مبارکہ پیش کی جارہی ہیں۔ایک جگہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَمِنَ النَّاسِ مَنۡ يَّتَّخِذُ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ اَنۡدَادًا يُّحِبُّوۡنَهُمۡ كَحُبِّ اللّٰهِؕ۞(البقرہ:165)

*”اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو اللہ کو چھوڑ کر کچھ اور چیزوں کو اس کا ہمسر اور مدِمقابل بنا دیتے ہیں وہ ان سے ایسی محبت کرنے لگتے ہیں جیسی اللہ سے کرنی چاہیے“*

دوسری جگہ فرمایا گیا ہے:

قُلۡ اِنۡ كَانَ اٰبَآؤُكُمۡ وَاَبۡنَآؤُكُمۡ وَاِخۡوَانُكُمۡ وَاَزۡوَاجُكُمۡ وَعَشِيۡرَتُكُمۡ وَ اَمۡوَالُ ۨاقۡتَرَفۡتُمُوۡهَا وَتِجَارَةٌ تَخۡشَوۡنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرۡضَوۡنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَيۡكُمۡ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ وَ جِهَادٍ فِىۡ سَبِيۡلِهٖ فَتَرَ بَّصُوۡا حَتّٰى يَاۡتِىَ اللّٰهُ بِاَمۡرِهٖ‌ ؕ وَاللّٰهُ لَا يَهۡدِى الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِيۡنَ ۞(التوبہ:24)

*”(اے نبیﷺ! ان سے) کہہ دیجیے کہ اگر تمہارے باپ  تمہارے بیٹے  تمہارے بھائی  تمہاری بیویاں(اور بیویوں کے لیے شوہر)تمہارے رشتہ دار اور وہ مال جو تم نے بہت محنت سے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس کے مندے کا تمہیں خطرہ رہتا ہے اور وہ مکانات جو تمہیں بہت پسند ہیں( اگر یہ سب چیزیں) تمہیں محبوب تر ہیں اللہ  اس کے رسول اور اس کے رستے میں جہاد سے  تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ سنا دے اور اللہ ایسے فاسقوں کو راہ یاب نہیں کرتا۔“*

یہاں آٹھ چیزیں گنوا دی گئی ہیں کہ اگر ان آٹھ چیزوں کی محبتوں میں سے کسی ایک یا سب محبتوں کا جذبہ اللہ،اس کے رسول اور اس کے رستے میں جہاد کی محبتوں کے جذبے کے مقابلے میں زیادہ ہے تو پھر اللہ کے فیصلے کا انتظار کرو۔یہ بہت سخت اور رونگٹے کھڑے کردینے والا لہجہ اور انداز ہے۔ہم میں سے ہر شخص کو چاہیے کہ اپنے باطن میں ایک ترازو نصب کرے۔اس کے ایک پلڑے میں یہ آٹھ محبتیں ڈالے اور دوسرے میں اللہ،اس کے رسولﷺ اور جہاد کی تین محبتیں ڈالے اور پھر اپنا جائزہ لے کہ میں کہاں کھڑا ہوں!چونکہ انسان خود اپنے نفس سے خوب واقف ہے بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہٖ بَصِیْرَۃٌ(القیامہ)اس لیے اسے اپنے باطن کی صحیح صورت حال معلوم ہوجائے گی۔بہر حال اس سلسلے میں ہر مسلمان کو معلوم ہونا چاہیے کہ اگر تو اس کی ساری خواہشیں،محبتیں اور حقوق بیوی،اولاد،نفس وغیرہ کے حقوق ان تین محبتوں کے تابع ہیں تو اس کے معاملات ایمان درست ہیں،لیکن اگر مذکورہ آٹھ چیزوں میں سے کسی ایک بھی چیز کی محبت کا گراف اوپر چلا گیا تو بس یوں سمجھیں کہ وہاں توحید ختم ہے اور شرک شروع! اسی فلسفہ کو علامہ اقبالؒ نے اپنے اس شعر میں اس طرح پیش کیا ہے:

*یہ مال و دولت دنیا،یہ رشتہ و پیوند* 

*بتان وہم و گماں،لَا اِلٰہَ الاَّ اللّٰہ!*

آیت زیر نظر میں جو آٹھ چیزیں گنوائی گئی ہیں ان میں پہلی پانچ رشتہ و پیوند کے زمرے میں آتی ہیں جب کہ آخری تین مال و دولت دنیا کی مختلف شکلیں ہیں۔علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ ان چیزوں کی اصل میں کوئی حقیقت نہیں ہے،یہ ہمارے وہم اور توہم کے بنائے ہوئے بت ہیں۔جب تک لَا اِلَہ الاَّ اللّٰہ کی شمشیر سے ان بتوں کو توڑا نہیں جائے گا،بندۂ مومن کے نہاں خانۂ دل میں توحید کا علم بلند نہیں ہوگا۔

                                       (بیان القرآن)

    امام زمحشریؒ فرماتے ہیں:

[و ھذہ آیة شدیدة لا تری اشد منھا]

*”یہ انتہائی سخت آیت ہے،تُو اس سے زیادہ سخت آیت اور کوئی نہ دیکھے گا“*(الکشاف)

   نبی اکرم ﷺ سے سب سے زیادہ محبت صحابہ کرامؓ کو تھی،جیسا کہ سیدنا انسؓ فرماتے ہیں:

*”صحابہ کرامؓ کے نزدیک رسول اللہﷺ سے زیادہ کوئی محبوب نہ تھا۔“*(ترمذی:2754)

صلح حدیبیہ کے موقع پر جب عروہ بن مسعودؓ مکہ والوں کی طرف سے سفیر بن کر آنحضورﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا تھا تو واپس جاکر اپنا چشم دید واقعہ بیان کیا جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے۔عروہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹ کر گیا اور کہنے لگا کہ:

*”بھائیو! میں تو بادشاہوں کے پاس بھی پہنچ چکا ہوں۔خدا کی قسم! اس نے کسی بادشاہ کو ایسا نہیں دیکھا کہ لوگ اس کی ایسی تعظیم کرتے ہوں جیسے محمدﷺ کی تعظیم ان کے اصحاب کرتے ہیں۔خدا کی قسم! اگر وہ تھوکتے ہیں توان کا تھوک کسی نہ کسی صحابی کے ہاتھ پر گرتا ہے اور وہ اپنے منہ اور جسم پر تبرکاً اس کو مل لیتا ہے۔وہ جب کوئی حکم دیتے ہیں تو سب لپک کر ان کے حکم کو بجا لاتے ہیں،وضو کرتے ہیں تو اس کا پانی ان کے لئے باعث برکت ٹھہرتا ہے اور اس کو لینے کے لئے چھینا جھپٹی کرتے ہیں۔وہ بولتے ہیں تو ان کے ساتھیوں کی آوازیں پست ہوجاتی ہیں۔وہ ان کی طرف گھور گھور کر،آنکھ بھر کر نہیں دیکھتے۔“*(بخاری:2732)

     مشرکین مکہ جب سیدنا زید بن دثنہؓ کو قتل کرنے لگے تو ابو سفیان ان سے کہنے لگا:اے زید! میں تجھے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں،کیا تو یہ پسند کرتا ہے کہ محمدﷺ تیری جگہ ہمارے پاس ہوتے اور ہم ان کی گردن مار دیتے اور تو اپنے گھر والوں میں ہوتا۔زیدؓ کہنے لگے:

*”اللہ کی قسم میں تو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ آپﷺ ابھی جہاں موجود ہیں وہاں آپﷺ کو کوئی کانٹا چبھے جس سے آپ کو تکلیف ہو اور میں اپنے گھر والوں میں بیٹھا رہوں۔“*

ابو سفیان یہ جواب سن کر بے ساختہ بول اٹھا:

*”میں نے لوگوں میں سے کسی ایک کو بھی کسی دوسرے سے ایسی محبت کرتے نہیں دیکھا جیسی محبت محمدﷺ کے ساتھی ان سے کرتے ہیں۔“*(تاریخ الطبری:216/2)

صحابہ کرامؓ نے نبی اکرم ﷺ کے لیے قربانی اور جاں نثاری کے بے مثال نمونے چھوڑے ہیں۔وہ اپنے آپ کو خطرے میں ڈال لیتے اور موت تک برداشت کر لیتے لیکن آپﷺ کو تکلیف پہنچنا گوارا نہ کرتے تھے۔وہ پروانوں کی طرح نبی اکرمﷺ کے ارد گرد گھومتے تھے اور سایہ کی طرح آپﷺ کے ساتھ ساتھ چلتے تھے۔وہ ایسا بے جان ایمان نہ رکھتے تھے جو کفر کے ہر مطالبے کے سامنے سرنگوں ہونے پر تیار ہو بلکہ ایسے قوی اور توانا ایمان سے لیس تھے جس سے کفر کو ہر میدان میں عبرت ناک شکست اٹھانی پڑی۔نبی اکرمﷺ سے انہیں مثالی تعلق تھا،جس کا بین ثبوت وہ جنگ کے میدانوں میں دیا کرتے تھے۔دل کو پارہ پارہ کرنے والا ایک واقعہ کو دلیل کے طور پر  یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔واقعہ اس طرح ہے:

*”اُحد کی جنگ میں جو صحابہؓ شہید ہوئے انہیں میں حضرت سعدؓ بن ربیع بھی تھے۔نبیﷺ نے حضرت زیدؓ کو ان کی تلاش میں بھیجا اور فرمایا”سعدؓ“ سے ملاقات ہو تو ان سے میرا سلام کہنا اور کہنا رسول اللہﷺ نے تمہارا حال پوچھا ہے۔حضرت زید بن ثابتؓ،شہیدوں میں چکر لگانے لگے کہ سعدؓ بن ربیع سے ملاقات ہو جائے۔دیکھا کہ زمین پر پڑے ہوئے ہیں،جسم میں تیر و تلوار اور نیزے کے ستر گھاٶ ہیں اور جاں کنی کا عالم ہے۔حضرت زیدؓ نے ان سے کہا:سعدؓ! رسول اللہﷺ نے تم کو سلام کہا ہے اور یہ دریافت فرمایا ہے کہ تمہارا کیا حال ہے؟*

*سعدؓ نے لڑ کھڑاتی ہوئی آواز میں جواب دیا۔حضورﷺسے میرا سلام کہنا اور کہنا،یا رسول اللہﷺ! جنت کی خوشبو پارہا ہوں۔اور میری قوم انصار سے کہنا”سعد کا تمہارے لیے یہ پیغام ہے کہ جب تک میری ایک آنکھ بھی حرکت کر رہی ہے،اگر نبیﷺ کو کچھ ہوا تو خدا کے یہاں تمہارا کوئی عذر قبول نہ ہوگا۔“ یہ فرمایا اور روح پرواز کر گئی۔“* 

                                     (روشن ستارے،ص١٣١)

 محبتِ رسولﷺ کا عملی ثبوت دے کر صحابہ کرامؓ نے سارے جھوٹے خداٶں کی خدائی کا انکار کر کے خدائے واحد کی بندگی اختیار کی،عیش و آرام والی زندگی کو ترک کر دیا،اپنے گھر بار چھوڑ دئے،اپنی خودی کو نہ بیچ ڈالا بلکہ غریبی میں نام پیدا کیا،عزیز و اقارب کے بندھنوں کو کاٹ ڈالا،وطن کے تمام بُت اپنے ہاتھوں سے توڑ کر حق و صداقت،خداترسی اور شرافت کی بنیاد پر نوع بشری کی ازسرِنو شیرازہ بندی کی،اپنے دن رات کو اسی کام کے لیے وقف کیا کہ کس طرح ایمان کے بیج کو انسانوں کے دل و دماغ میں بویا جائے،اپنے معاشرے کو ہر برائی سے پاک اور منزہ کر دیا اور یہی وجہ تھی کہ وہاں ایک انسان ذہنی آسودگی،قلبی سکون اور معاشرتی تحفظ کے ساتھ زندگی بسر کر رہا تھا،ایسا مسلم معاشرہ تیار کیا جو خدا کی بادشاہت کا ہر لحاظ سے ایک مکمل نمونہ پیش کر رہا تھا،اپنی خواہشاتِ نفس کو خودی کی چُھری سے ذبح کر دیا،اللہ کے کلمہ کو بلند کرنے کے لیے ساری دنیا سے لڑائی مول لی،اپنی زندگی کی ساری مادی متاع حق کے لئے لٹا دی،لومتہ لائم کی پرواہ کئے بغیر راہِ حق پر ڈٹے رہے،رات کے راہب اور دن کے شہسوار بن گئے،حق و باطل کی جَنگاہ میں اپنی ہر چیز جھونک دی،جس تناسب سے تلخیاں بڑھتی گئیں اُسی نسبت سے وہ نشہ ایمان میں زیادہ سرشار ہو کر خدا اور رسولﷺ کی راہ میں زیادہ فدائیت اور جاں نثاری کا مظاہرہ کرتے گئے،گفتار کے غازی بننے کے بجائے کردار کے غازی بنتے گئے،اپنی ایمانی حرارت کو جگہ جگہ پہنچا دیا،اپنے نصب العین کو ایک لمحہ کے لئے بھی ذہن سے اوجھل نہ ہونے دیا،حرام غذا کھانے کے بجائے بھوکا رہنا پسند کیا،کفر سے سمجھوتا کئے بغیر موت کو ترجیح دی کیونکہ وہ اس حقیقت کو اچھی طرح جانتے تھے کہ ایمان اور کفر کی آمیزش دنیا و آخرت دونوں کی تباہی ہے اور وہ کفر جو ایمان کو گوارا کرنے لگے اس کی قوت مسلوب ہو جاتی ہے اور اس کے ماننے والے کسی مخصوص نظریے کے علمبردار کی حیثیت سے دنیا میں سربلند نہیں ہو سکتے بلکہ ہر اُبھرتی ہوئی طاقت کے سامنے سجدہ ریز ہو کر اپنی دنیوی مفادات کے تحفظ کے لیے مختلف چالیں چلتے رہتے ہیں،انسانیت کی عزت و شرف کی قبا کو تار تار کرنے کے بجائے اسے بامِ عروج تک پہنچا دیا،دین کی خاطر اپنی تمام مفادات کو قربان کر دیا نہ کہ مفادات کے تحفظ کے لیے دین کی دھجیاں اڑا دی،دنیا سے فسق و فجور پھیلانے کے بجائے انہیں مٹا کر ہی دم لیا،معروف کو فروغ دے کر منکرات کی جڑ کاٹ ڈالی،اللہ کے سچے دین کو سارے ادیان پر غالب کر دیا اور پوری دنیا پر اس کی عملداری قائم کی،دنیا کو گزرگاہ سمجھتے ہوئے آنے والی دنیا کو آباد کیا،صداقت کے پیکر،ہدایت یافتہ اور نیکی کے علمبردار بن گئے،شہادت کی موت مرنا اپنے ہاں سب سے بڑی تمنا رکھ لی،رب کی رضا کی خاطر دنیا کو ناراض کر دیا،غیر اللہ سے اپنا تعلق توڑ کر صرف اللہ تعالیٰ سے اپنا رشتہ عبودیت استوار کیا،ہر دوسرے رہنما کو چھوڑ کر نبی اکرمﷺ کے دامنِ رحمت سے اپنے آپ کو وابستہ کیا،اپنے آپ کو ان ساری وابستگیوں سے الگ کر دیا جو اس کے دین کی راہ میں حائل تھے،اپنے اندر ایسا ایمان پیدا کیا جو باطل کے لئے چنگاری کی حیثیت رکھتا تھا،اپنے ایمان کو باطل کی ہر آمیزش سے پاک کر کے اسے فطری تابندگی بخشی،اس نئے ایمان نے انہیں نئے حوصلے اور تازہ ولولے دئے،انہیں نئے عزائم سے لیس کر کے نئی تدابیر اور نئے انداز کے ساتھ میدانِ عمل میں اتارا،ایمان کے نئے علمبردار بن کر گلہ بانی کو خیرباد کہہ کر جہانبانی کے فن میں پوری دنیا پر سبقت لے لی،ہر اس چیز کو جلا کر خاکستر کر دیا جو ایمان کی راہ میں رکاوٹ بن گیا تھا،مایوسی کی چٹانوں سے ٹکرا کر اپنی زندگی کے خاتمہ کا تہیہ کرنے کے بجائے غیر متزلزل یقین سے حق کی راہ میں آگے ہی بڑھتے گئے،اپنے کردار سے معروف کو نمایاں اور منکر کو دبا دیا،زندگی کے آخری سانس تک قولی اور عملی شہادت کا فریضہ انجام دیتے رہے،اپنے لیے نبی اکرم ﷺ کی محبت کو مشعلِ راہ اور ان کی پیروی کو عزیمت و استقامت کا معیار بنا دیا،اپنی زندگی میں ایسے انقلاب انگیز کارنامے سرِ انجام دے دئے جن کی حیثیت زیب داستان کی نہیں بلکہ روشن چراغوں کی سی ہے،جن کی مدد سے انسانیت کے گم راہ قافلے راہ یاب ہو کر منزلِ مقصود تک پہنچتے ہیں۔اگرچہ یہ تاریک خیال اور علم و ہنر سے بے بہرہ”صحرا نشین“ تھے لیکن تائیدِ خداوندی اور اپنی محنتِ شاقہ سے پوری انسانیت کے رہنما بن کر دنیا کے افق پر بڑی سرعت کے ساتھ اُبھر آئے۔واقعی طور پر انہوں نے محبتِ رسولﷺ کا عملی اظہار کر کے ہمارے سامنے درخشاں مثالیں قائم کی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ایک داعی حق کے لیے ان کی زندگیوں کا مطالعہ کرنا اور ان کی زندگیوں کو اپنے لیے مشعلِ راہ بنانا بے حد ضروری ہے۔

آج اگر کسی مسلمان سے يہ سوال کیا جائے کہ تم سب سے زیادہ کس سے محبت کرتے ہو؟تو یقیناً امتِ مسلمہ کے ہر فرد کی زبان پر بلا تردد یہ الفاظ ہوں گے کہ اللہ اور اسکے رسولﷺ سے،لیکن کیا واقعی ہم اپنے دعویٰ محبت میں سچے ہیں؟کیا ہماری زندگی حقیقی معنوں اللہ کی محبت اور محبتِ رسولﷺ کا مظہر ہے؟کیا اللہ کے اس فرمان کو ہم نے صحیح طریقہ سے سمجھا ہے؟

قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ۔(آل عمران: 31)

*”کہہ دیجئے! اگر تم اللہ تعالی سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو،خود اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دےگا،اور اللہ تعالی بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔“*

چنانچہ اللہ اور اسکے رسولﷺ سے محبت اسی وقت ثابت ہوگی جبکہ اسکے تقاضے کی تکمیل ہو یعنی اتباعِ رسولﷺ کا عملی جامہ پہن لیا جائے۔اللہ نے نبی اکرمﷺ کی اطاعت کو عین اپنی اطاعت قرار دیا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ(النساء:80)

*”جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے دراصل خدا کی اطاعت کی۔“*

 نیز فرمان نبویﷺ ہے:

مَنْ أَطَاعَنِي فَقَدْ أَطَاعَ اللّٰهَ،وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ عَصَى اللّٰهَ۔

*”جس نے میری اطاعت کی،اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی،اس نے اللہ کی نافرمانی کی“۔*(بخاری:2957)

معلوم ہوا کہ محبتِ رسول صرف زبانی جمع خرچ کا نام نہیں،بلکہ اس کے لیے اطاعتِ رسول ضروری ہے،دوسری چیز یہ کہ زندگی کے تمام ہی امور میں اُسوہ رسول کو اپنایا جائے،اسی طرح اللہ کے رسول کی سنت کی اتباع اور اس سے سچی محبت کی جائے،سنت پر عمل کرکے اس کو زندہ کرنے کی کوشش کی جائے۔محبتِ رسولﷺ کا ایک اہم تقاضا یہ بھی ہے کہ نبی اکرمﷺ کے مشن کو آگے بڑھایا جائے اور اس کی خاطر ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے ہمہ وقت مستعد اور چاق و چوبند رہا جائے۔افسوس آج محبتِ رسولﷺ کا دعویٰ کرنے والوں کو اس نبوی مشن کی کوئی پرواہ ہے ہی نہیں،ان کی تمام تر توجہ اپنی دنیوی زندگی پر مرکوز ہے۔وہ اپنی قوتیں،صلاحیتیں اور توانائیاں بس دنیا کمانے میں صرف کر رہے ہیں اور اس نبوی مشن کی تکمیل کے لیے کوئی بھی قربانی دینے کو تیار نہیں ہیں۔دورِ حاضر کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ نبی اکرمﷺ کی محبت کے گیت گانے والوں اور ان کی یاد میں محفلیں منعقد کرنے والوں نے جگہ جگہ اپنے مفادات کے صنم کدے آباد کر رکھے ہیں۔اُن کا ایمان اب راکھ کا بے جان تودہ بن کر رہ گیا ہے اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ مسلمان ایمان کے اس تودے کے سائے میں بڑی بے تکلفی کے ساتھ کفر و الحاد کو بڑھنے اور پھلنے پھولنے کے مواقع فراہم کر رہے ہیں اور کافرانہ نظام ہائے حیات کے اندر جب بھی توسیع کا جنون پیدا ہوتا ہے تو وہ بغیر کسی مزاحمت کے ایمان کے اس تودے کو ہٹا کر اپنا تسلط قائم کر لیتے ہیں اور مسلمان اس پسپائی کو ہنسی خوشی گوارا کرتے چلے جاتے ہیں۔ایک مصنوعی محبتِ رسولﷺ کا دم بھرنے والے مسلمان سے علامہ اقبالؒ اپنے الفاظ میں یوں گویا ہیں؎

*کون ہے تارکِ آئینِ رسُولِ مختارؐ؟*

*مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار؟*

*کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعارِ اغیار؟*

*ہوگئی کس کی نِگہ طرزِ سلَف سے بیزار؟*

*قلب میں سوز نہیں،رُوح میں احساس نہیں*

*کچھ بھی پیغامِ محمّدؐ کا تمھیں پاس نہیں*

 ایک حقیقی مسلمان جب یہ سوچتا ہے کہ نبی اکرمﷺ اُمتِ مسلمہ پر جو ذمہ داریاں عائد کر کے دنیا سے رخصت ہوئے تھے ان ذمہ داریوں کی بجاآوری میں اُمت سے کس قسم کی افسوسناک کوتاہی ہوئی ہے،تو اس کی آنکھوں میں جھلکنے والے خوشی کے آنسو اشک ہائے ندامت کی صورت اختیار کر لیتے ہیں اور وہ خیالات کے ہجوم میں کھو کر سوچنے لگتا ہے کہ حشر کے دن اپنے خالق و مالک کے دربار میں یہ اُمت کن کن کوتاہیوں بلکہ کس قسم کے سنگین گناہوں کے ساتھ پیش ہوگی اور وہاں اس حالت میں اس کے آقا و مولا محمد رسول اللہﷺ بھی دیکھ رہے ہوں گے اور حضورﷺ  اپنی امت کے یہ المناک منظر دیکھ کر کس قدر رنجیدہ خاطر ہو رہے ہوں گے؟ آج اغیار ہمارے مزموم افعال اور زندگی کے بارے میں ہمارے غلط رویوں کو دیکھ کر اللہ کے دین سے نفرت کرنے لگے ہیں۔ذرا سوچئے تو سہی کہ آخر قیامت کے دن ہم نبی اکرمﷺ کے سامنے کس منہ سے جائیں گے؟ یہ احساس ہمارے لیے سب سے زیادہ پریشان کُن ہے۔کہیں ہمارا شمار ان بدبختوں میں تو نہیں ہوگا جن کا تذکرہ ذیل کی روایت میں آیا ہے:

*”حضرت سہل بن سعد ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا میں اپنے حوض کوثر پر تم سے پہلے موجود رہوں گا۔جو شخص بھی میری طرف سے گزرے گا وہ اس کا پانی پئے گا اور جو اس کا پانی پئے گا وہ پھر کبھی پیاسا نہیں ہوگا اور وہاں کچھ ایسے لوگ بھی آئیں گے جنہیں میں پہچانوں گا اور وہ مجھے پہچانیں گے لیکن پھر انہیں میرے سامنے سے ہٹا دیا جائے گا۔ابوحازم نے بیان کیا کہ یہ حدیث مجھ سے نعمان بن ابی عیاش نے سنی اور کہا کہ  میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے ابو سعید خدریؓ سے یہ حدیث اسی طرح سنی تھی اور وہ اس حدیث میں کچھ زیادتی کے ساتھ بیان کرتے تھے۔(یعنی یہ کہ نبی کریمﷺ  فرمائیں گے کہ)میں کہوں گا کہ یہ تو مجھ میں سے ہیں) نبی کریمﷺ  سے کہا جائے گا کہ آپ کو نہیں معلوم کہ انہوں نے آپ کے بعد دین میں کیا کیا نئی چیزیں ایجاد کرلی تھیں۔اس پر میں کہوں گا کہ دور ہو وہ شخص جس نے میرے بعد دین میں تبدیلی کرلی تھی۔“*(بخاری:6583)   

     لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی طرف دیکھیں،اپنے گریبان میں جھانکیں،اپنی ذات پر خود گرفت کریں اور اپنی ذات کو لاکر اپنے ضمیر کے سامنے کھڑا کریں کیونکہ اپنی ذات کو ضمیر کے ترازو میں تولنا دعوتِ حق کا آغاز ہے۔اگر ہم واقعی طور پر نبی اکرمﷺ سے سچی محبت رکھتے ہیں تو اس کے لیے ہمیں اتباع اور فرمانبرداری کا عملی مظاہرہ کرنا ہوگا وگرنہ ہماری محبت کا دعویٰ جھوٹ،کھوکھلا اور ڈھونگ کہلایا جائے گا۔بقولِ محمود بن حسن وراق؎

           *لو کان حبک صادقا لأطعته*
           *إن المحب لمن یحب مطیع*

”اگر تمہاری محبت سچی ہوتی تو تم اسکی اطاعت کرتے کیونکہ محبت کرنے والا اپنے محبوب کا مطیع و فرمانبردار ہوتا ہے۔“

  اللہ تعالی سے یہی دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی مرضیات پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے،اپنے رسولﷺ کی سچی محبت ہمارے دلوں میں جاگزیں فرمائے اور زندگی کے آخری سانس تک ان کے مشن کی آبیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العٰلمین۔

Comments