Performing Good Deeds : Why To Delay? (Part 5)

 
   انسان اور رب کے درمیان ایک ایسا تعلق ہے،جو کہ دنیا میں سب سے زیادہ گہرا اور مضبوط تعلق تصور کیا جاتا ہے۔دنیا کی اصلاح کا دارومدار بھی اسی تعلق کی مضبوطی پر منحصر ہے کیونکہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جب تک انسان اور رب کا معاملہ درست نہ ہوگا،انسان اور دنیا کا معاملہ درست ہونے کی امید رکھنا ایک کارِ عبث ہے۔دنیا کے بگاڑ کا سبب صرف یہ ہے کہ انسان اس بات سے غافل ہو جاتا ہے کہ اللہ میرا رب ہے اور میں اس کا بندہ ہوں۔یہ اسی غفلت کا نتیجہ ہے کہ ظلم کا دروازہ کھل جاتا ہے اور حقوق و فرائض کی تباہی شروع ہو جاتی ہے اور انسان بڑھتے بڑھتے گمراہی کے تمام منزلوں سے گزر جاتا ہے۔انسان کی اصلاح کا راستہ یہی ہے کہ اللہ سے اس کی برگشتگی کو ختم کرکے از سرِ نو اللہ سے اس کا تعلق جوڑ دیا جائے۔اس تعلق کی مضبوطی سے ہی یہ واقعی انسان بن کر اپنا رُخ اپنے حقیقی منزل کی طرف پھیر کر محوِ سفر ہو جائے گا۔یہ انسان کی سب سے بڑی سعادت ہے کہ اسے رب العٰلمین کی طرف سے توفیق مل کر حقیقی منزل کی طرف کوچ کرنے کا موقع مل جائے۔کامیاب انسان وہی ہے جو کہ حالات کے نشیب و فراز سے بے پرواہ ہوکر ہر حال میں اپنا سفرِ حیات جاری و ساری رکھتا ہو۔جس انسان کو اللہ تعالٰی کی ذات اور اس کے فیصلوں پر غیر متزلزل یقین ہو اسے راہِ اعتدال سے کوئی بھی چیز ہٹا نہیں پاتی۔وہ  انسان جو موت اور اس کے بعد والے مراحل کی خاطر تیاری کرے اسے دنیا بیوقوف تو کہہ سکتی ہے لیکن نبی اکرمﷺ کی نگاہوں میں یہی عقلمند انسان ہے۔ایک حدیثِ پاک میں آیا ہے:

*عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کے ساتھ تھا کہ آپ کے پاس ایک انصاری شخص آیا،اس نے آپ کو سلام کیا،پھر کہنے لگا:اللہ کے رسول! مومنوں میں سے کون سب سے بہتر ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا  جو ان میں سب سے اچھے اخلاق والا ہے،اس نے کہا:ان میں سب سے عقلمند کون ہے؟آپﷺ نے فرمایا:جو ان میں موت کو سب سے زیادہ یاد کرے،اور موت کے بعد کی زندگی کے لیے سب سے اچھی تیاری کرے،وہی عقلمند ہے۔*   (ابن ماجہ:4259)

      روز مرہ کی زندگی میں یہ چیز دیکھنے میں آئی ہے کہ انسان دنیا کی رنگ رلیوں میں گُم ہو کر نیک اعمال کو مٶخر کرکے ہی رکھ دیتا ہے۔یہ شیطان کا سب سے بڑا دھوکہ ہوتا ہے کہ وہ انسان کو نیک اعمال کرنے کے لئے مستقبل کی پُلاننگ دیتا ہے۔انسان کو کیا خبر کہ کب موت کی آخری ہچکی اس کا کام تمام کرکے رکھ دے گی۔عقلمند انسان وہی ہے جو دنیا کی اس قلیل مدت میں ہی آخرت کی منازل کے لئے تیاری کرے اور جتنا وقت اسے مل رہا ہو اس کو غنیمت جان کر اپنے لئے توشہ آخرت جمع کرے۔نیک اعمال میں جلدی کرنا ایک اچھے کام کے ساتھ ساتھ ایک اچھا ہُنر بھی ہے جو کہ دنیا میں حساس لوگ ہی اپنایا کرتے ہیں۔دنیا کے دھندوں میں پھنسنے کے بجائے دنیا کی اس قلیل مدت میں نیک اعمال سرِ انجام دینے سے ہی ایک باشعور اور زندہ ضمیر انسان کی پہچان ہوتی ہے۔انسان کبھی کبھار ٹال مٹول کا فارمولا اپنا کر آنے والے زمانے پر دینی کام کو چھوڑ بیٹھتا ہے اور تجربہ سے یہ مشاہدہ بھی ہوا ہے کہ پھر وقت پر حالات اسے اس کام کی اجازت ہی نہیں دیتے۔اکثر و بیشتر انسان حالات سازگار ہونے کے چکر میں پڑ کر عظیم کاموں کو گنواتا ہے اور حالات دن بدن خراب ہونے کی وجہ سے انسان کو پھر پچتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔نبی اکرمﷺ ہمارے اوپر کتنے شفیق و رفیق تھے کہ جس نے ہمیں پہلے ہی مستقبل کے حوالے سے خبردار کیا تاکہ چہیتا اُمتی کہیں کسی دھوکے میں نہ پڑ جائے۔انہوں نے اپنے فرمودات سے ایسے انمٹ نقوش چھوڑے کہ گمراہ ہونے کا خطرہ ہی انسان کے ذہن سے نکل جاتا ہے۔ان کے ارشادات میں ایسی روشنی ہے کہ راہِ حق پر بھٹکنے کا امکان ہی نہیں لگتا۔ان کی تعلیمات میں ایسی چاشنی ہے کہ انسان عمل کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ان کے عادات میں ایسی کشش اور جاذبیت ہے کہ دلوں کو موہ لیے بغیر نہیں چھوڑتے۔ان کے سمجھانے کا ایسا دلکش انداز ہے کہ قاری بار بار پڑھ کے بھی تھکاوٹ محسوس نہیں کرتا۔واہ! کیا انداز ہے خبردار کرنے کا،ذرا ملاحظہ کیجیے: 

      حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

*”اعمال(صالحہ) بجا لانے میں جلدی کرو کیونکہ اندھیری رات کی مانند فتنے نازل ہونے والے ہیں۔آدمی صبح کو مومن ہوگا تو شام کو کافر ہو جائے گا۔وہ دنیا کے کچھ سامان کی خاطر اپنا دین بیچ ڈالے گا۔“*(مسلم:118)

    قربان ہو جائیں نبی اکرمﷺ کی ذاتِ اقدس پر کہ کیسا دلکش اندازِ بیان تھا انہیں،مختصر الفاظ میں مضامین کا ایک سمندر سمیٹا گیا ہے۔انسان پڑھ کے ہی ایک خوف سا محسوس کرتا ہے اور ماضی پر شرمندہ ہوکر مستقبل میں کچھ کرنے کی پُلاننک میں چلا جاتا ہے۔اسلام میں جلد بازی اگرچہ ایک بُرا فعل تصور کیا جاتا ہے لیکن دینی کام میں جلد بازی کامیابی کی نوید مانی جاتی ہے۔نبی اکرمﷺ نے بھی مستقبل کے حوالے سے باخبر کرکے مذکورہ بالا روایت میں ہمیں اعمالِ صالحہ میں جلدی کرنے کی ترغیب دے دی ہے تاکہ کہیں موقعہ ہاتھ سے نہ چھوٹ جائے۔ان الفاظ میں جھانک کر انسان محسوس کرتا ہے کہ حضورﷺ بذاتِ خود اِس پُرفتن دور سے خوف کھاتے تھے جو کہ محمدﷺ کے اُمتی کا ایمان تک  سلب کر ڈالے گا اور اِس دور میں دین کو قائم کرنا تو دور کی بات اسے اپنا وجود دینِ اسلام پر قائم رکھنے میں بھی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔دیکھئے کس طرح زمانے کی تصویر کھینچی گئی ہے کہ ایک سلیم الفطرت اور صحیح الدماغ انسان محوِ حیرت میں چلا جاتا ہے،سوچتا ہے کہاں جاٶں؟کسے دل کی بات کہوں؟کسے رب کی طرف بُلاٶں؟کس طرف دیکھوں؟کس کو کاروانِ حق میں شامل کروں؟کس پر بھروسہ کروں؟کسے یہ تصور دوں کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے؟کسے اسلام کے نام پر بیعت کراکے اسے رستگاری کی سرٹیفکیٹ دوں؟کسے دنیا میں ہی آخرت کا نظاره کراٶں؟کسے جنت کا سودا کراکے دنیا کے قید خانے سے اسے خلاصی دلاٶں؟کسے مایوسی کے دلدل میں اُمیدوں کا چراغ دوں؟کسے اسلام کی لیول سے اٹھا کر احسان کی لیول تک پہنچاٶں؟کسے من چاہے زندگی کو خیرباد کہہ کر رب چاہے زندگی پر مطمئن کروں؟کسے سُستی کے بھنور سے نکال کر جدوجہد کا پروانہ دوں؟کسے  علم الیقین سے پار کراکے حق الیقین تک لے چلوں؟کسے دنیا کی حقیقت سمجھا کر آخرت کا عاشق بناٶں؟کسے عیش پرستی سے نیچے لاکر قناعت والی زندگی پر راضی کروں؟کسے حزب الشیطٰن کو چُھڑا کر حزب اللہ کا کارکن بناٶں؟کسے نفسِ امارہ کا بندہ بنانے کے بجائے نفس مطمئنہ پر فائز کروں؟کسے حرام رزق کے بجائے کانٹوں کا غذا کھانے پر مطمئن کروں؟کسے باطل سے سمجھوتے کئے بغیر سر کی بازی دینے پر تیار کروں؟کسے تنہائی میں ندامت کے آنسو بہانے کے لیے دعوت دوں؟کسے ہر تمنا دل سے رخصت کرنے کے لیے ترغیب دوں؟کسے حق کی ترویج و اشاعت کی خاطر اپنی کوشش اور توانائی کا آخری قطرہ تک نچوڑ دینے پر راضی کروں؟کسے اس قسم کا آدمی بناٶں کہ اپنی رگوں کا خون بھی اللہ کی راہ کی گرد کو تر کر سکے اور اس کا سینہ بھی اس راہ میں چلنے کے جرم میں زخموں سے خونچکاں ہو؟کسے اپنی روح آزاد کرنے کی دعوت دوں تاکہ وہ اور بلندیوں پر جائے؟کسے آواز دوں کہ غلامی کی زنجیروں کو کاٹنے کے لئے اپنے ہاتھ لہولہان کر ڈالنے کے لئے تیار ہو جاٶ؟کسے کہوں کہ اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھاٶ کہ قربانیوں کے لہو سے یہ ڈوبے ہوئے ہیں؟کسے ناقابلِ شکست چٹانوں کی جڑوں کو کھودنے کے لئے دعوت دوں؟کسے اس بات کی ترغیب دوں کہ اپنا کلہاڑا چلا کر اس دنیا کے تمام سانپوں کے سر کاٹ کر انہیں صفحہ ہستی سے مٹا کر ہی دم لو؟کسے اپنے راستے پر پختہ یقین کے ساتھ چلنے کی دعوت دوں؟کسے اپنے راستے سے پُر اعتماد کروں کہ وہ اُس اللہ کی طرف جاتا ہے جو بلندیوں اور روشنیوں کا رب ہے؟کس کے ذہن میں اس بات کو بٹھاٶں کہ اے بھائی آگے بڑھو اور پیچھے مُڑکے نا دیکھو کیونکہ تمہارا راستہ قربانیوں کے لہو سے سجا ہوا ہے؟کسے اس چیز کو اپنانے کی دعوت دوں کہ اپنی نظر ادھر ادھر مت بھٹکاٶ اور مدد کے لئے آسمانوں کے سوا کہیں بھی مت دیکھو کیونکہ تم ٹوٹے پروں والا پرندہ نہیں ہو؟کسے آواز دوں کہ فتح کے راستے پر قدم بڑھاؤ اگر آپ اس راستے پر مر بھی جاٶ گے تو اپنے پیاروں سے ملو گے،رب نے آپ کے لیے جنت میں باغ تیار کر رکھے ہیں جس کے پرندے آپ کے ارد گرد چہچہائیں گے اور آپ ہمیشگی والے گھر میں خوش رہیں گے؟بالاٰخر جب انسان ہر طرف مایوسی کا بادل دیکھتا ہے تو ان خوابوں کو دل میں پالتے ہوئے بھی وہ سوچتا ہے آخر میں کیا کروں؟میرے لئے نجات کی راہ کونسی ہے؟

   اس نازک سی حالت میں بندہ مومن کو مذکورہ بالا حدیث میں بہترین رہنمائی فرمائی گئی ہے۔حدیث کے پہلے الفاظ پر نظر پڑتے ہی یہ محسوس ہوتا ہے کہ مستقبل میں کچھ ہونے والا ہے،عقلمندی کا تقاضا یہی ہے کہ جلد ہی کچھ کیا جائے ورنہ پھر انسان کو حالات گھٹنے ٹیک دینے پر مجبور کر دیں گے۔اس حدیثِ پاک میں نیک اعمال میں جلدی کرنے کی ترغیب دی گئی ہے کیونکہ عنقریب اندھیری رات کے مانند فتنے نازل ہونے والے ہیں۔اندھیری رات کو دیکھ کر یہ کہاں کی عقلمندی ہے کہ انسان یہ سوچے کہ میں اس رات کے درمیانی یا آخری حصہ میں کام کروں گا حالانکہ تجربہ بتاتا ہے کہ رات کی اندھیری جتنی بڑھے گی اتنا ہی اس میں کام کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔احمق آدمی ہی اندھیرا چھٹ جانے کی تلاش میں ہوگا،یہ روشنی کے انتظار میں پڑکر عظیم موقعہ ہاتھ سے گنواتا ہے۔اگر آدمی کام کو مٶخر کرکے اسے مستقبل میں ڈالے گا تو یہ اپنے آپ کو ان عظیم فتنوں کے حوالے کرتا ہے جو کہ انسان کا ایمان تک چھین لیں گے۔حضورﷺ کی ہدایت کو فالو کرکے بہتری اسی میں ہے کہ انسان وقت کو غنیمت جان کر زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرنے میں جلدی لگ جائے۔حدیث کے حوالے سے جو کام ہم آج کر سکتے ہیں اسے آئیندہ اندھیری رات کے مانند فتنوں میں کرنے کی پُلاننک کرنا ایک ایسا خواب ہے جو زندگی بھر شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔آنے والے زمانے کے انتظار میں رہ کر ہم اپنے آپ کو دھوکے کی کھائی میں چلاتے ہیں جہاں سے نکلنا مشکل ہی نہیں بلکہ محال ہے۔انسان کو چاہئیے کہ ان فتنوں کے نازل ہونے سے پہلے ہی نیک اعمال کرے جو کہ ہمارے گھروں میں بارش کے قطروں کی طرح گریں گے،جن کا تذکرہ ذیل کی حدیثِ پاک میں اس طرح آیا ہے:

اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے کہ:

    *نبی کریم  ﷺ  مدینہ کے ٹیلوں میں سے ایک ٹیلے پر چڑھے پھر فرمایا کہ میں جو کچھ دیکھتا ہوں تم بھی دیکھتے ہو؟لوگوں نے کہا کہ نہیں۔نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ میں فتنوں کو دیکھتا ہوں کہ وہ بارش کے قطروں کی طرح تمہارے گھروں میں داخل ہو رہے ہیں۔*(بخاری:7060)

    ان فتنوں کے متعلق ایک اور روایت میں نشاندہی اس طرح کی گئی ہے:

حضرت ابوہریرہ ؓ کا بیان ہے کہ  نبی کریمﷺ  نے فرمایا:

*زمانہ قریب ہوتا جائے گا اور عمل کم ہوتا جائے گا اور لالچ دلوں میں ڈال دیا جائے گا اور فتنے ظاہر ہونے لگیں گے اور هرج کی کثرت ہوجائے گی۔لوگوں نے سوال کیا: یا رسول اللہ! یہ هرج کیا چیز ہے؟ نبی کریمﷺ  نے فرمایا کہ قتل! قتل!*(بخاری:7061)

     فتنوں کی شدت ایسی ہوگی کہ انسان ان کے باعث موت کی تمنا کرے گا۔حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 *قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ ایک شخص دوسرے کی قبر کے پاس سے گزرے گا اور کہے گا،کاش!میں اسی کی جگہ ہوتا۔*   (بخاری:7115)

   امام ابن عبد البرؒ کا بیان ہے کہ اس حدیث میں زمانے کی اُس تبدیلی کی خبر دی گئی ہے کہ جس میں لوگ انتہائی سختی،پریشانی اور آزمائش کا شکار ہو جائیں گے اور یقیناً ہم اس زمانے کو دیکھ چکے ہیں۔

   امام زرقانیؒ فرماتے ہیں کہ یہ تمنا اس وقت کی جائے گی جب فتنے ظاہر ہوں گے اور باطل و معاصی کے غلبہ کی وجہ سے لوگوں کو دین کے ضیاع کا خدشہ ہوگا۔

   مذکورہ بالا حدیث میں کہا گیا کہ آدمی صبح کو مومن ہوگا تو شام کو کافر ہوجائے گا یعنی ایسے فتنے آنے والے ہیں جو انسان کے ایمان کو سلب کر لیں گے۔انسان صبح گھر سے ایمان کی حالت میں نکلے گا لیکن دن میں فتنے کا شکار ہوکر شام کو گھر کافر واپس لوٹے گا۔آج جب ہم اپنے معاشرے پر چوطرفہ نظر دوڑاتے ہیں تو کوئی جگہ ایسی نہیں دِکھتی جہاں ایک آدمی کو فتنے کا شکار ہونے کا خطرہ نہ ہو۔ہر ایک جگہ پہ آدمی کے ایمان سلب کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں۔جو شخص صبح نماز اور تلاوت کی ادائیگی کے بعد اپنے دفتر میں داخل ہوا اور وہاں غیر عورتوں سے شانہ بشانہ کام کرکے گھر واپس لوٹ گیا،پھر وہ کس منہ سے یہ بات نکالتا ہے کہ شام کو میں ایمان کی حالت میں گھر آگیا۔مخلوط تعلیمی اداروں میں کام کرنے والے قوم کے معماروں کو کیوں اس حدیثِ پاک سے جھٹکا نہیں لگتا؟شاہین بچوں کی خودی کو تعلیم کے تیزاب میں ڈال کر ہم ان کے کیرئر کا خواب تو دیکھ سکتے ہیں لیکن ان کے ایمان کا خواب دیکھنا ایک دھوکہ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔شادی کے تقریبات میں دیں ہاتھ سے دے کر مرد اور خواتین کے میل جول کا تماشائی بن کر اور پھر گوشت کے ٹھیلے کو ہاتھ میں پکڑ کر دعاؤں کی رٹ لگانا کسی مردِ مجاہد کا کام نہیں ہو سکتا۔آج کی یہ تقریبات خوشی کے بجائے غم کی عکاسی کرتی ہے،جہاں سے واپس آکر ایک زندہ ضمیر انسان اپنے ایمان پر نظر ثانی کر کے خون کے آنسو روتا ہے۔ ذرا دیکھئے تو سہی کہ خواتین بھی دن و رات فکرِ معاش میں پڑکر کس طرح ڈیوٹی کے دوران اپنے ایمان کا سودا کر بیٹھتی ہیں۔رزق کے بارے میں متفکر رہ کر بالآخر ایک ظالم حکومت کا کل پرزہ بننا اور اس کی حشمت و طاقت میں اضافے کا موجب بنے رہنا کسی ایمان دار آدمی کا کام نہیں ہو سکتا۔روزی تو ہر جاندار کو ملتی ہے لیکن کرگس کی روزی اور شاہین کی روزی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ہمارے اسلاف نے اپنی جان پر کھیل کر ظالم کا ساتھ دینے سے اجتناب کیا لہٰذا ایک مومن کو ظالم کی اعانت سے کامل اجتناب کرنا چاہئیے۔آج دنیا کے کس بازار سے واپس آکر ہم شام کو گھر میں مطمئن رہیں گے کہ ایمان سَچ مُچ میں صحیح سلامت ہے؟مختلف جگہوں سے گھر واپسی پر ایمان کے بغیر اگرچہ ہم نے ساری دنیا کو اپنے ساتھ لایا ہو تب بھی یہ خسارے کی تجارت ہے کیونکہ مومن کے لئے سب سے قیمتی سرمایہ”ایمان“ ہوتا ہے،جو کہ اس کے دل میں جگہ لے کر آناً فاناً اسے آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیتا ہے۔

   مذکورہ بالا حدیث کے آخر پر حضورﷺ فرمارہے ہیں کہ آدمی دنیا کے کچھ سامان کی خاطر اپنا دین بیچ ڈالے گا۔اصل میں یہ انسان کے زاویہ نگاہ اور فکر پر دارومدار ہوتا ہے کہ وہ معاملات میں دین کو ترجیح دے گا یا دنیا کو۔آج مادیت کا اس حد اثر ہو چکا ہے کہ سب سے پہلے انسان کو اس بات کی فکر ہی نہیں ہوتی کہ میں مال حلال ذرائع سے حاصل کررہا ہوں یا حرام ذرائع سے۔آدمی کے مومن ہونے کی پہچان کسی آزمائش پر ہی ہوتی ہے،اسے کبھی کبھار اپنے دفتر میں مال کمانے کا ایسا موقع سامنے آتا ہے،جس کے ساتھ شرط یہ ہوتی ہے کہ دین چھوڑو گے تو تمہیں دنیا مل جائے گی۔اب اسے اس وقت دل میں یہ کشمکش پیدا ہوگی کہ اپنے دین کو چھوڑ کر یہ مال حاصل کرلوں یا اس مال پر لات مار کر دین اختیار کرلوں۔یہ آدمی چونکہ ٹلانے کا عادی ہو چکا ہے لہٰذا یہ سوچتا ہے کہ دین کے بارے میں بازپُرس معلوم نہیں کب ہوگی؟کب مریں گے؟کب حشر ہوگا؟کب ہمارا حساب و کتاب ہوگا؟یہ تو بعد کی چیزیں ہیں،ابھی فوری معاملہ تو یہ ہے کہ اس نقد مال کو میں حاصل کرلوں،یہیں پہنچ کر یہ دنیا کے کچھ فائدے کی خاطر اپنا دین بیچتا نظر آرہا ہے،جو کہ ایک ایسا خساره ہے جس کی تلافی ممکن نہیں ہے۔

  مذکورہ بالا حدیث کے آخری الفاظ کو ہم رشوت تک ہی محدود نہیں کر سکتے ہیں بلکہ یہ فعلِ بد انسان زندگی کے کسی بھی شعبے میں بھی کر سکتا ہے۔جو انسان بھی اس فعل کا مرتکب ہوگا اسے اس کا خمیازہ اسی دنیا میں بھگتنا پڑے گا۔اب بھی بیدار ہونے کا موقعہ ہے،خوابِ غفلت سے جتنی دیر ہم اٹھیں گے اتنا ہی پھر نقصان اٹھانا پڑے گا۔لہٰذا اس فانی دنیا کے ایک ایک سیکنڈ کو غنیمت جان کر باقی رہنے والی دنیا کی خاطر انتھک اور مسلسل جدوجہد کرتے رہنے میں ہی ہماری نجات مضمر ہے۔اللہ تعالٰی ہمیں فتنوں سے بچا کر راہِ اعتدال پر قائم و دائم رکھے اور ہماری موت کا سامنا بھی اسی راستے پر کرائے۔ہمیں چاہئیے کہ اللہ رب العزت سے ان الفاظ میں فریاد کریں تاکہ اُس کی توفیق سے ہی ہم عین وقت بُری موت سے بچ کر اچھی موت کو گلے لگا سکیں:

 ‏‏ اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ التَّرَدِّي وَالْهَدْمِ وَالْغَرَقِ وَالْحَرِيقِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ يَتَخَبَّطَنِي الشَّيْطَانُ عِنْدَ الْمَوْتِ،وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أَمُوتَ فِي سَبِيلِكَ مُدْبِرًا،وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أَمُوتَ لَدِيغًا۔

 *”اے اللہ!میں اونچائی سے گر پڑنے،دیوار کے نیچے دب جانے،ڈوب جانے،اور جل جانے سے تیری پناہ مانگتا ہوں،اور اس بات سے تیری پناہ چاہتا ہوں کہ موت کے وقت شیطان مجھے بہکا دے،اور اس بات سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ میں تیرے راستہ یعنی جہاد میں پیٹھ دکھا کر بھاگتے ہوئے مروں،اور اس بات سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں کہ(کسی موذی کے)ڈس لینے کی وجہ سے مروں۔“*(نسائی:5533)

Comments