Nikah:Why Such A Complex Task In Current Scenario!

     شادی فارسی زبان کا لفظ ہے،یہ لفظ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے،اس کے لفظی معنی خوشی،مسرت اور انبساط کے ہیں۔شادی قانونِ فطرت،انبیاء کرام کی سنت،تسکین نفس کا حلال طریقہ،افزائش نسل کا ذریعہ،انسانی معاشرہ کی بنیاد،پیار و محبت،اُلفت و انست کی عمدہ مثال ہے۔خود کے پاؤں پر کھڑے ہونے،ذمہ داری کا بوجھ اُٹھانے اور نیا گھر آباد کرنے اور خاندان بڑھانے کی علامت ہے۔یہ ایک نئی زندگی کی شروعات ہے،اس لئے شادی بیاہ کے موقعہ پر عاقِد عاقِدہ،ماں باپ،بھائی بہن،عزیز و اقارب دوست و احباب کا خوش و خرم ہونا فطری بات ہے۔شادی ایک مذہبی فریضہ ہے جسے سماجی طور پر بڑے اہتمام کے ساتھ ادا کیا جاتا ہے۔حقیقت یہی ہے کہ یہ فریضہ اپنے اندر خوشیوں اور مسرتوں کا ناقابل خزانہ سموئے ہوئے ہے۔بیٹے،بیٹی،بھائی یا بہن کی شادی متعلقین کے لیے شادمانی اور خوشیوں کا پیغام بن کر آتی ہے۔مگر اس یادگار موقع کو بعض لوگوں نے دکھاوے،بے جا اسراف اور جھوٹی شان و شوکت کی نذر کردیا ہے۔شادی ایک سماجی ضرورت ہے اور ساتھ ہی ایک عبادت بھی۔اسلام نے شادی کی ترغیب دی ہے اور اس موقع پر خوشی منانے کی اجازت بھی دی ہے۔مگر شادی کے جو طور طریقے ہمارے معاشرہ میں رائج ہیں اور جن رسومات کی جی جان سے پاسداری کی جاتی ہے،ان میں اکثر تعلیمات اسلام سے متصادم ہیں۔اسلام رشتوں کے انتخابات میں دین داری کو معیار بنانے،مجمع عام میں نکاح کرنے اور نکاح کے وقت اسلامی احکام کی تلقین کرنے،مہر ادا کرنے اور ولیمہ کرنے کا حکم دیتا ہے۔اور ان سب میں سادگی اور کفایت شعاری کی خاص طور پر تاکید کرتا ہے۔پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ”ان اعظم النکاح برکۃ ایسرہ مؤنۃ“(مشکٰوة)(سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جو سب سے کم خرچ میں ہو)۔اسی معیار پر رسولِ اکرمﷺ کے متعدد نکاح ہوئے۔آپ کی چار بیٹیوں کی شادی ہوئی،تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اسی اسوہ پر قائم رہے۔اس زمانے کی کسی بھی شادی میں دھوم دھام،فضول خرچی،بے جا نمائش کی ایک نظیر بھی نہیں ملتی۔اسی اُسوہ کی تقلید پر آج بھی شرفاء کے یہاں سادگی ومؤنت کا خیال رکھا جاتا ہے۔مگر معاشرے میں عام افراد بالخصوص مالدار طبقہ رسوم کی پاسداری اور فضول خرچی میں روز بروز آگے بڑھ رہا ہے اور ان امور میں جن روایات کی پاس داری کا اسلام نے خاص طور سے حکم دیا ہے وہ نظر انداز ہو جاتی ہیں۔مثلاً رشتوں کے انتخاب میں دین داری کو معیار بنانا،ایجاب وقبول کے وقت بنیادی احکام کی یاد دہانی یعنی خطبۂ نکاح کا اہتمام اور مناسب مقدار میں مہر کی تعیین اور فوری ادائیگی کی تدابیر۔موجودہ زمانے میں ان باتوں کو معمولی سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے جب کہ رشتوں میں استحکام کی یہی اصل بنیاد ہیں۔

   آج جب ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیتے ہیں تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ وہ پسماندگی کی آخری سرحدوں کو چُھو رہا ہے۔آج ہمارے معاشرے میں رائج رسوماتِ بد نے غریب لوگوں کی کمر توڑ ڈالی ہے۔آخر یہ بے چارے جائیں گے کہاں؟کس کو سُنائیں گے اپنی روداد؟ان کی بیٹیاں ہاتھوں پر مہندی کے لیے ترس رہی ہیں۔ان کی شادیوں کی عمر ڈھل چکی ہے لیکن سماج میں موجودہ رسومات اور بے جا اِسراف کی وجہ سے وہ شادی نہیں کر پاتی ہیں۔شادیوں پر آج مغرور لوگ پانی کی طرح روپیہ بہاتے ہیں،انہیں نہ اپنی آخرت کی فکر اور نہ ہی مُسلم سماج جلنے کا غم۔یہ دنیا کی محبت میں اس طرح ڈوب چکے ہیں کہ انہیں معاشرے میں اپنا رعب جمانے کے سوا کوئی تمنا ہے ہی نہیں۔یہ محض دکھاوے کے مجنوں ہیں،ایمان کا دعویٰ تو بڑی بلند آہنگی سے کرتے ہیں،لیکن اپنے تذبذب کے سبب سے اللہ کی راہ میں نہ کوئی چوٹ کھانے کے لیے تیار ہیں اور نہ جان و مال کی قربانی کا کوئی حوصلہ رکھتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کی کوئی قدروقیمت نہیں ہے۔انسان اس وقت آگ بگولا ہو جاتا ہے جب انہی ناہنجاروں میں سے بعض لوگوں کو مختلف تنظیموں کے بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے۔یہ منظر دیکھ کر انسان کے پاٶں تلے زمین کھسک جاتی ہے۔جس معاشرے کی حالت اس حد تک پہنچ چکی ہو اس کو پستی میں گرنے سے دنیا کی کوئی بھی طاقت بچا نہیں سکتی۔

 جس اسلام کو ہم نے اپنے اعمالِ بد سے بد نام کیا ہے وہ ہر شعبہ زندگی میں سادگی،اعتدال اور میانہ روی کی تلقین کرتا ہے۔فضول خرچی،عیش و عشرت اور نمود و نمائش سے نہ صرف منع کرتا ہے بلکہ اس کی شدید مذمت بھی کرتا ہے۔فضول خرچی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے۔قرآن حکیم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

يَا بَنِي آدَمَ خُذُواْ زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّكُلُواْ وَاشْرَبُواْ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ۞(الاعراف:31)

*’’اے اولادِ آدم! تم ہر نماز کے وقت اپنا لباسِ زینت(پہن) لیا کرو اور کھاؤ اور پیو اور حد سے زیادہ خرچ نہ کرو کہ بیشک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا‘‘*

فضول خرچی کی نہ صرف مذمت کی گئی بلکہ سخت تنبہیہ کی گئی ہے اور ایسے کرنے والوں کو شیطان کے بھائی کہا گیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا۔إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُواْ إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا۞(بنی اسرائیل:27-26)

*’’اور قرابتداروں کو ان کا حق ادا کرو اور محتاجوں اور مسافروں کو بھی(دو) اور (اپنا مال) فضول خرچی سے مت اڑاؤ۔بیشک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں،اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے‘‘*

اسلام ہر شعبۂ زندگی کی طرح مال خرچ کرنے میں بھی اعتدال اور میانہ روی کا درس دیتا ہے،چنانچہ فرمایا گیا ہے:

وَلاَ تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَى عُنُقِكَ وَلاَ تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَّحْسُورًا۞(بنی اسرائیل:29)

*’’اور نہ اپنا ہاتھ اپنی گردن سے باندھا ہوا رکھو(کہ کسی کو کچھ نہ دو) اور نہ ہی اسے سارا کا سارا کھول دو(کہ سب کچھ ہی دے ڈالو) کہ پھر تمہیں خود ملامت زدہ (اور) تھکا ہارا بن کر بیٹھنا پڑے‘‘*

    ﷲ سبحانہ و تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کی تعریف میں فرماتے ہیں کہ:

وَالَّذِيۡنَ اِذَاۤ اَنۡفَقُوۡا لَمۡ يُسۡرِفُوۡا وَلَمۡ يَقۡتُرُوۡا وَكَانَ بَيۡنَ ذٰلِكَ قَوَامًا‏۞(الفرقان:67)

*”جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضُول خرچی کرتے ہیں نہ بُخل،بلکہ اُن کا خرچ دونوں انتہاٶں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے۔“*

مندرجہ بالا سطور کے مطابق شادی بیاہ کے موقعہ پر شرعی حدود میں اظہارِ خوشی کی اجازت ہے تاہم اظہارِ خوشی میں اسراف و فضول خرچی کرنا،زیب و زینت پر ہزاروں لاکھوں روپئے ضائع کرنا،بڑے بڑے شادی خانے لیکر ہزارہا افراد کو دعوت دینا اور متنوع و ہمہ اقسام کے کھانے بنانا اور اس پر فخر و مباہات کرنا،اس کو اپنی حیثیت اور وقار کا مسئلہ بنانا،لڑکی والوں کو زیربار کرنا،دوسروں کی شادی بیاہ سے تقابل کرنا،بے جا رسوم و رواج پر اوقات کو ضائع کرنا،شادی بیاہ کے موقعہ پر گانا بجانا،پیشہ ور خواتین کے ذریعہ رقص و سرور کی محفلیں سجانا،عورتوں مردوں کا باہم ملنا،نوجوان لڑکے لڑکیوں کا مذاق و دل لگی کرنا،آتش بازی اور پٹاخوں میں پیسوں کو برباد کرنا،غیرضروری لائٹنگ کرانا،خوشنمائی اور دکھاوے کے لئے مہنگے سے مہنگے اسٹیج بنانا،دلہن کے فوٹوز اٹھانا اور پھر انہیں سوشل میڈیا پر وائرل کرنا،جھوٹی شان میں قرض کے بوجھ کو اُٹھانا،قرضِ حسنہ نہ ملے تو سود پر قرض کو لینا،دو دن کی خوشی کیلئے سالہا سال قرض کی ادائیگی میں پریشان ہونا اور دوسروں کو پریشان کرنا۔کیا یہ سب ایک مسلمان کو زیب دیتا ہے؟کیا یہ اُمور ایک نئی زندگی کے شروعات میں خیر و برکت کا باعث بن سکتی ہیں؟دُلہا،دلہن اور ان کے ماں باپ،بھائی بہن سنجیدگی سے غور کریں کہ کیا یہ اعمال ﷲ تعالیٰ کو پسند ہیں؟کیا ایسی خوشی کے ذریعے ہمارے آقا محمد عربیﷺ خوش ہوں گے؟اپنی خوشی کی خاطر شرعی حدود کو توڑنا اور غیر اقوام کی نقالی کرنا کہاں کی عقلمندی ہے؟اپنی بیٹی کے گلے میں نہایت ہی قیمتی ہار ڈال کر غریب لڑکیوں کا گلا گھونٹنا کسی مردِ مجاہد کا کام نہیں ہو سکتا۔شادی پر بے جا اسراف کر کے غریب لوگوں کی راتوں کی نیندیں حرام کرنا ایک فاسق ہی کا کام ہو سکتا ہے۔ایک سنت کو زندہ کر کے ہزاروں فرائض کو اپنے پاٶں تلے روندنا کون سی حکمت عملی ہے؟شادیوں پر بے جا اسراف کر کے غریب لڑکیوں کو خود کشی کی طرف دھکیلنا ایک ایسا ظلم ہے جو تا قیامت چلاتا رہے گا۔شادی کے موقع پر اپنی دولت کی دھاک بٹھانا اور لوگوں کو اپنا گرویدہ بنانا ایک حقیقی مومن کا کام نہیں ہوسکتا۔معاشرے میں رسومات اور بدعات کو فروغ دے کر  اپنے بستر پر آرام سے پاٶں پھیلا کر سونا ایک بیوقوف ہی کا طرزِ عمل ہے۔اپنے وجود اور اپنے گھر کے اندر انقلاب بپا کرنے کے لیے پیش قدمی نہ کر کے پوری دنیا میں انقلاب لانے کی توقع رکھنا چھوٹا منہ بڑی بات بولنے کے مترادف ہے۔ہم میں اور غیر قوم میں فرق یہی ہونی چاہئیے کہ دوسری قومیں اپنی خوشی کے لئے دنیا کی تمام حدود کو پھلانگ دیتی ہیں لیکن ہم مسلمان ہیں لہٰذا ہم پر لازم ہے کہ ہر  معاملے میں ﷲ اور اس کے رسول کی رضا اور تعلیمات کو پیش نظر رکھیں۔

آج سے کئی سال پہلے حضرت مولانا ابو الحسن علی میاں ندویؒ نے ہفتہ وار’’ ندائے ملت ‘‘لکھنؤ کے ایک مضمون میں شادی بیاہ جیسی تقریبات کے موقع پر اسراف و فضول خرچی پرجو کچھ لکھا تھا وہ قابلِ غور و فکر ہے:

’’ایک اہم چیز جو عالم غیب میں بھی بڑا اثر رکھتی ہے اور ملی واجتماعی زندگی میں بھی اس کے اثرات بڑے وسیع اور دور رس ہیں وہ مسلمانوں کے اپنے ذاتی معاملات پر اور اپنی دلچسپی کے دائرہ میں اسراف و فضول خرچی،شہرت و عزت کے حصول یا رسم و رواج کی پابندی میں بے دریغ روپیہ صرف کرنا اور اپنے پڑوسیوں،عزیزوں اور ملت کے دوسرے افراد کے فقروفاقہ،اضطرار و اضطراب اور ان افسوس ناک حالات سے چشم پوشی اور بے حسی ہے،جس میں کم سے کم انقلاب کے بعد اس ملک میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ اس میں ذرا بھی شک و شبہ نہیں کہ یہ صورت حال اللہ تعالیٰ کی حکیم و عادل ذات اور ربوبیت و رحمت عامہ کی صفات کیلئے غضب اور سخت ناپسندیدگی کا باعث ہے کہ ایک ایسے ماحول و زمانہ میں جہاں ایک کثیر تعداد نانِ شبینہ کی محتاج ہو،جاں بہ لب مریض دوا اور برہنہ تن شریف مرد اور عورتیں ستر پوشی سے محروم ہوں،کہیں کسی بیوہ کے چولھے پر توا اور کہیں کسی غریب کے جھونپڑے میں دیا نہ ہو۔ایک،ایک دعوت،اور ایک،ایک تقریب میں لاکھوں اور سیکڑوں روپیہ بے دریغ خرچ کیا جائے۔‘‘

مولانا”مسرفانہ تقریبات“کی عنوان سے آگے کی سطروں میں یوں رقمطراز ہیں:

’’شریعت کی روح،دین کے مزاج اور انسانی و اخلاقی نقطۂ نظر سے کسی طرح اس کا جواز نہیں نکل سکتا کہ جب ہزاروں،لاکھوں افراد کی زندگی کی بنیادی ضرورتیں پوری نہ ہورہی ہوں۔لاکھوں آدمیوں کو قوت لایموت حاصل نہ ہو رہی ہو،اور وہ جسم و جان کا رشتہ بھی قائم نہ رکھ سکتے ہوں،ملت کے لاکھوں بچے فیس اور کتابوں اور ضروری مصارف کے نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم سے محروم ہوں،ہزاروں ادارے جو ملت کیلئے روح کا حکم رکھتے ہیں اور بیسیوں منصوبے جن کی تکمیل کے بغیر اس ملت کا وجود مشکوک اور ان کا مستقبل تاریک ہے،موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہوں،ہمارے اہل ثروت تجار اور ذی حیثیت لوگ اپنی اولاد کی شادیوں،خوشی کی تقریبوں اور رسومات کی تکمیل میں پانی کی طرح روپیہ بہائیں۔اس زمانے میں بہت تغیرات اور انقلابات اور علم و ترقی کے باوجود مسرفانہ و شاہانہ شادیوں اور تقریبوں کا رواج بند نہیں ہوا البتہ بعض جگہ انہوں نے جدید(ماڈرن) طرز اختیار کرلیا ہے اور سیاسی مصالح و مقاصد بھی کہیں کہیں ان سے وابستہ ہوگئے ہیں۔آج بھی ہمارے بہت سی برادریوں تجارت پیشہ حلقوں اور عمائد شہر میں تقریبات پر جو ایک انسانی ضرورت اور دینی فریضہ تھا دل کھول کر اور جان پر کھیل کر روپیہ خرچ کرنے کا رواج ہے،ان میں بہت سے حضرات اپنی دوسری عملی زندگی میں دیندار اور صاحب خیر بھی ہیں مگر انہوں نے اس شعبہ کو دین سے بالکل غیر متعلق سمجھ رکھا ہے۔قرآن میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :

اَرَأَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـھَہٗ ھَوَاہُ(الفرقان:43)

*”آپ نے اس شخص کی حالت بھی دیکھی جس نے اپنا خدا اپنی خواہش نفسانی کو بنا رکھا ہے۔“*

بَلْ قَالُوْآ اِنَّا وَجَدْنَا آ بَا نَا عَلٰی اُمَّۃٍ،بلکہ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ داداؤں کو ایک طریقہ پر پایا ہے

وَاِنَّا عَلٰٓی اَثَارِھِمْ مُھْتَدُوْنَ ط اور ہم بھی ان کے پیچھے پیچھے رستہ چل رہے ہیں۔(الزخرف:22)

حقیقتاً اس سلسلہ میں سخت قدم اٹھانے کی ضرورت ہے ان فرائض و تقریبات کا تخیل و مفہوم یکسر بدلنے کی ضرورت ہے،اس کے خلاف اعلان جنگ اور اعلان بغاوت کی ضرورت ہے،اس بات کو صاف طریقہ پر واضح کردینے کی ضرورت ہے کہ یہ مسرفانہ تقریبات افراد کیلئے غضب الٰہی کا موجب اور ملت کیلئے وبال و ادبار کا باعث ہیں۔اللہ تعالیٰ کی رحیم و حکیم ذات اور اس کی حکیمانہ شریعت ہرگز اس کی اجازت نہیں دے سکتی کہ اس جھوٹے نام ونمود اور اس عارضی رونق و زینت یا کام و دہن کی فانی لذت پر وہ دولت صرف کی جائے جو سیکڑوں ضرورت مندوں کے کام آسکتی تھی۔‘‘

  آج امیر لوگ اگر اپنی شادیوں میں اعتدال کا مظاہرہ کریں اور فضول رسم و رواج کو ختم کردیں تو کئی غریب اور مفلس بیٹیوں کے لیے  شادی کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔خصوصًا لڑکے والے جہیز کی پروا کیے بغیر لڑکی والوں کی حوصلہ افزائی کریں اور انہیں نامناسب شرائط کا پابند نہ کریں تو رسومات کا بڑھتا ہوا طوفان تھم سکتا ہے۔مالدار لوگ شادی پر خرچ کیے جانے والے پیسے اگر غریب اور بے سہارا بچیوں کی شادی پر خرچ کریں تو یہ عمل ان کے لیے آخرت میں نجات کا سبب بن سکتا ہے۔

عمومی طور پر ایسے مواقع پر سوچا جاتا ہے کہ”دنیا کیا کہے گی“؟ خاندان کے لوگ کیا کہیں گے؟کہیں ہمارا ناک نہ کٹ جائے۔کہیں کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ ہم بھاری بھر کم اخراجات کے متحمل نہیں تھے۔بیشتر خاندانوں کو یہ باتیں سوچ کر مجبوراً زیادہ سے زیادہ اخراجات کرنا پڑتے ہیں۔ضروری اخراجات کے ساتھ ساتھ غیر ضروری اخراجات کا بوجھ بھی اٹھانا پڑتا ہے۔صاحب استطاعت اور خوشحال گھرانے تو یہ سب با آسانی افورڈ کر لیتے ہیں۔مگر غیر ضروری تقریبات اور رسم و رواج کا بوجھ اٹھاتے غریب اور سفید پوش خاندانوں کی کمر دہری ہو جاتی ہے۔جہیز بھی ایک ایسا ہی معاملہ ہے۔کہنے کی حد تک ہم کہتے ہیں کہ جہیز ایک لعنت ہے۔مگر بخوشی یہ لعنت سمیٹتے بھی ہیں۔اکثر ہم اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں اور یہ باتیں سنتے بھی ہیں کہ جہیز نہ ہونے کی وجہ سے غریب آدمی کی بچیوں کے سر کے بالوں میں سفیدی آجاتی ہے۔اس بات پر ہم اظہار افسوس بھی کرتے ہیں۔مگر جب اپنے گھر میں شادی بیاہ کا وقت آتا ہے تو دل کھول کر خرچ کرتے ہیں۔اپنی استعداد کار سے کہیں بڑھ کر انتظامات کرتے ہیں۔اس وقت ہمیں بالکل خیال نہیں آتا کہ کچھ رقم بچا کر کسی غریب کی بیٹی کی شادی کیلئے امداد فراہم کی جا سکتی ہے۔کاش ہم یہ باتیں اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔

جب شریعت کا حکم اسراف و تبذیر سے بچنے کا اور نکاح کو آسان بنانے کا ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے ہاں نکاح کی تقریبات میں کھل کر فضول خرچیاں ہوتی ہیں اور احکام شریعت کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں،ایسے میں پیغمبر علیہ الصلاۃ والسلام کی خوشی اور رضا کیسے نصیب ہو سکتی ہے؟اور جس تقریب سے اللہ اور رسول راضی نہ ہوں،تو اگر اس سے پوری دنیا بھی خوش ہو جائے،اس تقریب میں برکت کبھی نہیں آسکتی،اس کے بر عکس جس تقریب سے اللہ اور اس کے پیغمبرؐ خوش ہوں تو وہی تقریب بابرکت اور باعث سکون و اطمینان ہوگی اگرچہ پوری دنیا ناراض ہو جائے۔لہٰذا اگر ہم واقعی طور پر اپنی نجات کے خواہشمند اور حق کے علمبردار ہیں تو ہمیں چاہئیے کہ میدان میں قدم رکھ کر دعوتِ حق کا عملی ثبوت پیش کریں،ورنہ اللہ کی پھٹکار سے ہمیں کوئی بھی چیز بچا نہیں سکتی۔آخر پہ اللہ سے یہی دعا ہے کہ وہ ہمیں ہمت،شجاعت،استقامت اور بہادری کے جوہر سے نوازیں تاکہ ہم بھی راہِ حق پر مستقل مزاجی سے چل کر بالآخر اپنی منزلِ مقصود کو پہنچ پائیں۔آمین یا رب العٰلمین

Comments