Importance Of Teacher In Islam


دنیا میں بے شمار مخلوقات کو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرما کر انہیں اپنی اپنی کام پہ لگا دیا لیکن اُس نے انسان کی تخلیق کو”احسن تقویم“ارشاد فرمایا اور مصوری کا یہ عظیم شاہکار دنیائے رنگ و بو میں خالق کائنات کی نیابت کا حقدار بھی ٹھہرا۔اشرف المخلوقات،مسجود الملائکہ اور خلیفة اللہ فی الارض جیسی صفات سے متصف انسان نے یہ ساری عظمتیں،رفعتیں اور بلندیاں صرف اور صرف علم کی وجہ سے حاصل کی ہیں،ورنہ عبادت و ریاضت،اطاعت شعاری اور وفاداری و فرمانبرداری میں فرشتے کمال رکھتے تھے،ان کی شان امتثال میں اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں یوں گویا ہیں:

لَا يَعۡصُوۡنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمۡ وَيَفۡعَلُوۡنَ مَا يُؤۡمَرُوۡنَ۞(التحریم:8)

*”جو کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم انہیں دیا جاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں۔“*
   علم ہی کی بدولت انسان نے باقی مخلوقات پر سبقت حاصل کی اور یہی وہ الہامی چیز تھی جس نے کائنات میں انسان کو اشرف و اعلیٰ اور ممتاز ٹھہرایا۔جب فرشتوں کو پتہ چلا کہ انسان میں خیر و شر بیک وقت موجود ہیں اور اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اختیار بھی دیا گیا ہے تو انہوں نے یہ گمان لگایا کہ یہ انسان دنیا میں فتنہ و فساد اور خونریزی کر کے ہی دم لے گا،لیکن جب اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کو علم کی بیش بہا دولت سے نوازا تو فرشتے اپنے گریبان میں جھانک کر بالآخر سر جُھکا کر یہ کہنے پہ مجبور ہوگئے کہ: 

سُبۡحٰنَكَ لَا عِلۡمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمۡتَنَا ؕ اِنَّكَ اَنۡتَ الۡعَلِيۡمُ الۡحَكِيۡمُ۞(البقرہ:32)

*”نقص سے پاک تو آپ ہی کی ذات ہے،ہم تو بس اتنا ہی علم رکھتے ہیں،جتنا آپ نے ہم کو دے دیا ہے۔حقیقت میں سب کچھ جاننے والا اور سمجھنے والا آپ کے سوا کوئی نہیں۔“*

      یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ حصولِ علم اگرچہ درس و مشاہدہ سمیت کئی خارجی ذائع سے ہی ممکن ہوتا ہے لیکن ان میں مرکزی حیثیت استاد اور معلم کی ہے۔معلم کے بغیر صحت مند معاشرہ کی تشکیل ناممکن ہے،معلم ہی وہ اہم شخصیت ہے جو تعلیم وتربیت کا محور،منبہ و مرکز ہوتا ہے۔ترقی یافتہ قوموں اور مہذب معاشروں میں استاد کو ایک خاص مقام و مرتبہ اور نمایاں حیثیت حاصل ہوتی ہے کیونکہ مہذب،توانا،پُرامن اور باشعور معاشرے کا قیام استاد ہی مرہونِ منت ہے۔

اسلام ایک آفاقی دین ہے جس نے دنیا کو علم کی دولت سے روشناس کیا،استاد کو عظمت اور طالب علم کو اعلیٰ و ارفع مقام عطا کیا۔بنی کریمﷺ نے اپنے مقام و مرتبہ کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:

إِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمً۔(ابن ماجہ:229)

*”میں تو صرف معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔“*  

   اللہ تعالی نے”ویعلمھم الکتاب والحکمۃ“کہہ کر نبیﷺ کی شان بحیثیت معلم بیان کرکے استاد کے مقام و مرتبہ میں چار چاند لگا دیا ہے۔آپؐ کی یہ بنیادی ڈیوٹی کہ آپؐ اپنی امت کو کتاب و حکمت سکھائیں،اللہ تعالیٰ نے چار آیات(دو سورۃ بقرہ میں ایک سورۃ آل عمران میں اور ایک سورۃ جمعہ میں) میں رسول اللہﷺ کی یہ صفت بیان فرمائی ہے۔

معلّم کے کردار کی عظمت و اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس عالم رنگ و بو میں معلّم اوّل خود رب کائنات ہیں،چنانچہ قرآنِ پاک میں ارشاد ہے:

وَعَلَّمَ اٰدَمَ الۡاَسۡمَآءَ كُلَّهَا۞(البقرہ:31)

*”اس کے بعد اللہ نے آدمؑ کو ساری چیزوں کے نام سکھائے۔“*

اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کے ساتھ ساتھ تعلیم کا بھی انتظام فرمایا۔قرآنِ پاک میں آیا ہے:

اَلرَّحۡمٰنُۙ۞عَلَّمَ الۡقُرۡاٰنَؕ۞خَلَقَ الۡاِنۡسَانَۙ۞عَلَّمَهُ الۡبَيَانَ۞(الرحمٰن:4-1)

*”رحمٰن نے اِس قرآن کی تعلیم دی ہے،اُسی نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا۔“*

اتنا ہی نہیں بلکہ اُس مہربان و کریم رب نے انسانیت کی فلاح و بہبودی کے لیے ذریعہ تعلیم قلم کو بنایا۔خود اپنے کلامِ پاک میں ارشاد فرمایا کہ:

اِقۡرَاۡ وَرَبُّكَ الۡاَكۡرَمُۙ۞الَّذِىۡ عَلَّمَ بِالۡقَلَمِۙ۞عَلَّمَ الۡاِنۡسَانَ مَا لَمۡ يَعۡلَمۡؕ۞(العلق:5-3)

*”پڑھو،اور تمہارا رب بڑا کریم ہے،جس نے قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا۔انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا۔“*

  معلّم کائنات نے انسانیت کی راہنمائی اور تعلیم کے لیے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرامؑ کو معلّم و مربّی بنا کر بھیجا۔انہوں نے اپنے وجود کو شمع کی طرح پگھلا کر پورے معاشرے کو علم کے نور سے منور کر دیا اور روشن قندیلیں بن کر قافلہ انسانیت کو راہِ راست دکھائی۔انہوں نے اپنے زمانے میں اگرچہ کمیاب ہی لیکن ایسے جانباز شاگرد تیار کیے جو نبی کے چلے جانے کے بعد علم کے جانشین بن کر اسی کام کو اپنا اوڑھنا بچھونا بناتے تھے۔ازل سے ہی معلم کو قدر کی نگاہوں سے دیکھا گیا اور بالآخر نبی محترمؐ نے اسی پیشے کو اختیار کر کے دنیا پر واضح کر دیا کہ معاشرے میں ایک معلم کا مقام کتنا اونچا ہوتا ہے۔ایک موقع پر خاتم الانبیاء ﷺ نے معلّم کو انسانوں میں بہترین شخصیت قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

*”عثمان بن عفان ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ  نے فرمایا کہ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن مجید پڑھے اور پڑھائے۔“*(بخاری:5027)

 معلّم کے لیے نبی کریمﷺ کی بشارت حضرت ابو ہریرہؓ نے ان الفاظ میں روایت کی ہے:

*”ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ  میں نے رسول اللہﷺ  کو فرماتے ہوئے سنا:بیشک دنیا ملعون ہے اور جو کچھ دنیا میں ہے وہ بھی ملعون ہے،سوائے اللہ کی یاد اور اس چیز کے جس کو اللہ پسند کرتا ہے،یا عالم(علم والے)  اور متعلم(علم سیکھنے والے) کے۔“*(ترمذی:2322)

   استاد ہونا ایک بہت بڑی نعمت اور عظیم سعادت ہے۔معلّم کو اللہ اور اس کی مخلوقات کی محبوبیت نصیب ہوتی ہے،نبی اکرمﷺنے استاد کی محبوبیت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:

*”کثیر بن قیس کہتے ہیں کہ  میں ابوالدرداء ؓ کے پاس دمشق کی مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ آپ کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا:اے ابوالدرداء! میں رسول اللہ ﷺ کے شہر مدینہ سے ایک حدیث کے لیے آیا ہوں، مجھے یہ خبر ملی ہے کہ آپ نبی اکرم ﷺ سے وہ حدیث روایت کرتے ہیں؟! ابوالدرداء ؓ نے پوچھا: آپ کی آمد کا سبب تجارت تو نہیں؟ اس آدمی نے کہا:نہیں،کہا:کوئی اور مقصد تو نہیں؟ اس آدمی نے کہا:نہیں،ابوالدرداء ؓ نے کہا:میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:جو شخص علم دین کی تلاش میں کوئی راستہ چلے اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کردیتا ہے،اور فرشتے طالب علم سے خوش ہو کر اس کے لیے اپنے بازو بچھا دیتے ہیں،آسمان و زمین کی ساری مخلوق یہاں تک کہ مچھلیاں بھی پانی میں طالب علم کے لیے مغفرت کی دعا کرتی ہیں،اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہی ہے جیسے چاند کی فضیلت سارے ستاروں پر،بیشک علماء ہی انبیاء کے وارث ہیں،اور انبیاء نے کسی کو دینار و درہم کا وارث نہیں بنایا بلکہ انہوں نے علم کا وارث بنایا ہے،لہٰذا جس نے اس علم کو حاصل کیا، اس نے(علم نبوی اور وراثت نبوی سے)پورا پورا حصہ لیا۔“*(ابن ماجہ:223) 

استادافراد کی تربیت کرکے ایک مہذب معاشرہ تشکیل دیتا ہے گویا بادشاہ لوگوں پر حکومت کرتے ہیں جب کہ بادشاہوں پر معلّمین کی حکومت ہوتی ہے۔پیغمبر اسلام ﷺکا ارشاد مبارک منصب تدریس کی اہمیت کو مزید واضح کردیتا ہے کہ:

*”جریر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جس نے کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا اور اس پر لوگوں نے عمل کیا تو اسے اس کے(عمل)کا اجر و ثواب ملے گا،اور اس پر جو لوگ عمل کریں ان کے اجر کے برابر بھی اسے اجر ملتا رہے گا،اس سے ان عمل کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی نہ ہوگی،اور جس نے کوئی برا طریقہ ایجاد کیا اس پر اور لوگوں نے عمل کیا تو اس کے اوپر اس کا گناہ ہوگا،اور اس پر عمل کرنے والوں کا گناہ بھی اسی پر ہوگا،اور ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔“*(ابن ماجہ:203)

 اسلام نے استادکو روحانی باپ قرار دے کر ایک قابل قدرہستی،محترم ومعظم شخصیت،مربی و مزکّی کی حیثیت عطا کی۔اسلامی تعلیمات کی روشنی میں معلّم کو سب سے بہترین انسان قرار دیا گیا ہے،استاد کے ادب کو تحصیل علم کے لیے بنیاد اور اساس کہا گیا ہے۔عربی مقولہ ہے الادب شجر والعلم ثمر ثم فکیف یجدون الثمر بدون الشجر۔”ادب درخت ہے اور علم پھل ہے پھر بغیر درخت کے کیسے حاصل ہو سکتا ہے“۔واقعی طور پر ایک باحیا،با اخلاق،حکمت سے لبریز اور وسیع قلب و نظر رکھنے والا استاد اپنے شاگرد کے لیے ویسی ہی حیثیت رکھتا ہے جیسی باپ اپنے بیٹے کے لیے رکھتا ہے بلکہ حضرت یحییٰؒ بن معاذ تو فرماتے ہیں کہ:

 *”علماء امت کے لوگوں کے لیے ان کی ماٶں اور باپوں سے بھی زیادہ رحم کرنے والے ہیں۔دریافت کیا گیا وہ کیسے؟فرمایا:کیوں کہ ماں باپ تو دنیا کی آگ سے بچاتے ہیں اور  علماء انھیں آخرت کی آگ سے بچاتے ہیں“*

*”امام غزالیؒ کے بقول استاد کا حق والدین کے حق سے بھی بڑا ہے۔والدین تو موجودہ وجود اور فانی زندگی کا ذریعہ ہوتے ہیں جب کہ استاد ہمیشہ رہنے والی زندگی کی بھلائی کا ذریعہ بنتا ہے۔اگر استاد نہ ہو تو والدین سے اولاد کو جو کچھ حاصل ہوا ہے وہ بھی ہمیشہ ہمیشہ کی تباہی و بربادی کی بھینٹ چڑھ جائے کیونکہ آخرت کی زندگی کے لیے وہ استاد ہی مفید ہوتا ہےجو آخرت کے علوم سکھاتا ہے یا آخرت کے مقصد سے دنیاوی علوم سکھاتا ہے۔“*

*”حضرت حسن بصریؒ کہتے ہیں:اگر علماء یعنی استاد نہ ہوتے تو لوگ جانور ہو جاتے کیوں کہ استاد ہی تعلیم کے ذریعے انھیں حیوانیت کے دائرہ سے نکال کر انسانیت کی سطح تک پہنچاتے ہیں“*

*”حضرت جابرؓ بن عبد اللہ کی روایت ہے کہ غزوہ احد میں رسول اللہﷺ دو دو شہیدوں کو ایک قبر میں رکھواتے تھے اور یہ دریافت فرما لیتے تھے کہ ان دونوں میں قرآن کا علم کس کے پاس زیادہ تھا؟جب کسی کی طرف اشارہ کیا جاتا تو اسی کو پہلے قبر میں اتارنے کی ہدایت فرماتے تھے۔اس میں علم قرآن کی عزت کا اشارہ ہے۔“*(بخاری)

حضرت ابو موسیٰؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

*”یہ اللہ تعالیٰ کی تعظیم میں سے ہے کہ بوڑھے مسلمان،غلو و غفلت نہ کرنے والے عالمِ قرآن اور انصاف پرور حکمراں کی عزت کی جائے“*(ابوداٶد)

حضرت عبادہؓ بن صامت کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

*”وہ میری امت سے نہیں جس نے ہمارے بڑے کی عزت نہیں کی،ہمارے چھوٹے پر شفقت نہیں کی اور ہمارے علم(کے حق) کو نہیں پہچانا۔“*(احمد)

قارئین کرام! اب ہم آپکے سامنے ملتِ اسلامیہ کی قد آور شخصیات کا ذکر کئے دیتے ہیں جنہوں نے اپنے اساتذہ کے ادب و احترام کی درخشندہ مثالیں چھوڑے ہیں،جو ہمارے لئے مشعلِ راہ ہیں:

*امام شعبیؒ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت زیدؓ بن ثابت نے ایک جنازے پر نماز پڑھی،پھر آپکی سواری کے لئے خچر لایا گیا تو حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے آگے بڑھ کر رکاب تھام لی تو اس پر زیدؓ بن ثابت نے کہا اے ابن عم رسول اللہ! آپ ہٹ جائیں اس پر ابن عباسؓ نے جواب دیا کہ علمائے دین اکابر کے ساتھ ہم لوگ ایسا ہی کرتے ہیں۔*

*امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ امام مالکؒ کی مجلس درس بڑی باوقار کی ہوا کرتی تھی۔تمام طلبہ ادب سے بیٹھتے،حتی کہ ہم لوگ اپنی کتابوں کا ورق بھی آہستہ الٹتے تاکہ کھڑکھڑاہٹ کی آواز بلند نہ ہو۔*

*امام زہریؒ کہتے ہیں:میں حضرت عروہؒ کے پاس جاتا تھا تو دروازے پر بیٹھ کر(انتظار) کرتا رہتا تھا۔اگر میں گھر کے اندر داخل ہونا چاہتا تو ایسا کر سکتا تھا لیکن ایسا محض ان کی عزت و توقیر کے لیے کرتا تھا۔*

*حضرت حسن بن علیؒ نے اپنے فرزند سے فرمایا:بیٹے:اگر تم علماء کے پاس بیٹھو تو خود بولنے سے زیادہ سننے کی کوشش کرو اور خاموشی ہی کی طرح اچھی طرح سننا بھی سیکھو اور کسی کی بات درمیان سے نہ کاٹو،چاہے وہ لمبی ہی کیوں نہ ہو۔*

*حضرت شعبہؒ فرماتے تھے:میں نے جس سے ایک حدیث بھی سنی ہے میں اس کا غلام ہوں۔*

 *ہارون رشید کے دربار میں جب کوئی عالم دین تشریف لاتے تو ہارون رشید اس کے استقبال کے لئے کھڑے ہوجاتے۔اس پر انکے درباریوں نے ان سے کہا اے بادشاہ سلامت! اس طرح سلطنت کا رعب جاتا رہتا ہے تو ہارون رشید نے جو جواب دیا یقیناً وہ آبِ زر سے لکھنے کے لائق ہے۔آپ نے کہا اگر علماء دین کی تعظیم سے رعب سلطنت جاتا ہے جائے۔*

*خیر القرون میں معلّمین کو اتنی زیادہ اہمیت حاصل تھی کہ خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروقؓ معلّمین کو درس وتدریس کے ساتھ ساتھ اعلیٰ انتظامی امور اور عہدوں پر فائز کرتے تھے۔*

*حضرت علی المرتضیؓ کا قول ہے کہ جس نے مجھے ایک حرف بھی پڑھا دیا میں اس کا غلام ہوں خواہ وہ مجھے آزاد کر دے یا بیچ دے۔*

*حضرت مغیرہؓ کہتے ہیں کہ ہم استاد سے اتنا ڈرتے اور ان کا اتنا ادب کرتے تھے جیسا کہ لوگ بادشاہ سے ڈرا کرتے ہیں۔*

*حضرت یحییٰ بن معین ؒ بہت بڑے محدث تھے امام بخاریؒ ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ محدثین کا جتنا احترام وہ کرتے تھے اتنا کرتے ہوئے میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔*

*امام ابو یوسفؒ کہتے ہیں کہ میں نے بزرگوں سے سنا ہے کہ جو استاد کی قدر نہیں کرتا وہ کامیاب نہیں ہوتا۔*

حضرت عبداللہ بن عباسؓ اساتذہ کے سامنے تواضع اور انکساری کا اظہار کرتے تھے،علم حدیث کے لیے ان کے گھروں کی دہلیز پر بیٹھ جاتے اور استاد کے نکلنے کا انتظار کرتے رہتے،ہوا سے چہرے پر گرد اور مٹی پڑتی رہتی تھی،جب وہ حضرات اپنے کام سے باہر نکلتے تو آپ کو منتظر اور طالب علم پاتے اورآپ استاذ کے سامنے یوں گویا ہوتے کہ میں علم کا طالب ہوں،میرا دل نہ چاہا کہ آپ میری وجہ سے اپنی ضروریات سے فارغ ہونے سے پہلے آئیں۔یہی ادب تھا جس کی وجہ سے حضرت عبداللہ بن عباسؓ کوامام المفسرین،حبر الامت اور بحر العلم کا لقب عطا ہوا۔حضرت عبد اللہ بن عمرؓ،حضرت عبداللہ بن مسعودؓ،حضرت ابوہریرہؓ،حضرت ابی بن کعبؓ اورحضرت مصعب بن عمیرؓ جیسے سینکڑوں صحابہ کرام نے معلّم کائنات کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا،تربیت اور تزکیہ کی چکی میں پسے۔آپ ﷺ کی مجلس میں ادب کا یہ عالم ہوتا تھا کہ صحابہ کرامؓ چہرہ انورﷺ کی طرف سیدھا نہیں دیکھتے تھے،بیٹھنے کا انداز ایسا مؤدبانہ ہوتا تھا کہ پرندے آ کر صحابہؓ کے سروں پر بیٹھ جاتے تھے۔

*امام ابو حنیفہؒ اپنے استاد کا اتنا ادب کرتے تھے کہ کبھی استاد کے گھر کی طرف پاؤں کرکے نہیں سوئے۔*

*امام احمد بن حنبلؒ ایک مرتبہ کسی وجہ سے یہ ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے گفتگو کے دوران میں ان کے استاد ابراہیم بن طعمان کا ذکر آیا ان کا نام سنتے ہی فوراً سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا یہ نازیبا بات ہوگی کہ بڑوں کا نام لیا جائے اور ہم ٹیک لگا کر بیٹھے رہے۔*

*قاضی امام فخر الدین ارسابندیؒ،اللہ نے ان کو علماء میں بڑا مقام عطا فرمایا تھا،بادشاہ ان کی بہت عزت کرتا تھا،بادشاہ ان سے کہا کرتا تھا کہ میں نے یہ عزت و مرتبہ اپنے استاد کی دعا اور خدمت سے حاصل کیا ہے،میں نے تیس سال قاضی امام ابو یزید دبوسیؒ کی خدمت اور ان کے لیے کھانا پکایا ہے اور اس کھانے میں سے کبھی نہیں کھایا تھا۔*

*علماء ہند میں حضرت شیخ الہند محمود حسنؒ علم و فضل،تقوٰی و طہارت،جہد و عمل،تواضع و انکساری میں منفرد مقام کے حاصل تھا،حضرت حسین احمد مدنیؒ کو دیکھا گیا کہ باوجود اتنے بڑے منصب پر فائز ہونے کے اپنے استاد شیخ الہندؒ کے گھر کا پانی اپنے سر پر اٹھا کر لے جاتے تھے۔*

*خلیفہ ہارون رشید نے امام اصمعیؒ کے پاس اپنا بیٹا تحصیل علم و ادب کے لیے بھیجا،ایک دن خلیفہ نے دیکھا کہ امام اصمعیؒ وضو کر رہے ہیں اور اس کا بیٹا استاد کے پاؤں پر پانی ڈال رہا ہے۔خلیفہ نے امام صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنا بیٹا اس لیے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ آپ اس کو علم و ادب سکھائیں،آپ اسے یوں کیوں نہیں کہتے کہ یہ ایک ہاتھ سے آپ کے پاؤں پرپانی ڈالے اوردوسرے ہاتھ سے اس پاؤں کودھوئے۔*

کتب سیرت اقبال میں لکھا ہے کہ علامہ اقبالؒ کو جب شمس العلماء کا لقب دیا جا رہا تھا تو علامہ اقبالؒ نے وہ لقب لینے سے انکار کر دیا۔جب ان سے پوچھا گیا کہ میرے استاد میر حسن کو بھی شمس العلما کا لقب دیا جائے اوروہ مجھ سے پہلے اس کے حق دار ہیں۔اس ضمن میں علامہ اقبالؒ پر واضح کیا گیا کہ میرحسن نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جو انہیں دوسروں سے ممتاز کرتا ہو۔اس پر علامہ اقبالؒ نے کہا تو پھر مجھے شمس العلما کا خطاب کیوں دیا جا رہا ہے۔جس پر جواب دیا گیا کہ آپ اپنی شاعری کے حوالے سے نمایاں مقام رکھتے ہیں۔جس پر آپ حقدار ہیں کہ آپکی تعلیمات کا اعتراف کیا جائے آپ نے جو تصنیف کیا ہے وہ انوکھا ہے۔میر حسن کی کوئی بھی ایسی تصنیف نہیں ہے،جس پر ان کو اس لقب سے نوازا جائے۔ تو اس پر علامہ اقبالؒ نے کہا مولوی میر حسن کی سب سے بڑی تصنیف میں خود ہوں،میں آج جو کچھ بھی ہوں ان کی تعلیمات کی وجہ سے ہوں۔اس بنا پر ان کا حق بنتا ہے کہ انہیں شمس العلماء کا لقب دیا جائے۔آخر کار علامہ اقبالؒ کے اصرار پر ان کے استاد محترم کو اس لقب سے نواز دیا گیا اور خود علامہ نے اپنی ذات کے لئے اس لقب کو قبول نہ کیا۔

انگریزوں اور غیرمسلموں کی بعض کتب میں استاد کی عظمت اور عزت کو اجاگر کرنے کے لئے ہمارے شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کا واقعہ آج بھی غیر ممالک میں مثال اور سبق کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

لیکن افسوس کہ آج ہم استاد کی عظمت کو بھول چکے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہم ذلت و پستی کے شکار ہوگئے ہیں۔سوسائٹی میں جب تک استاد کو اپنا مقام نہ مل جائے تب تک یہ اندھیروں میں ہی بھٹکتی رہے گی۔

استاد دراصل صرف قوم کا معمار ہی نہیں بلکہ محافظ بھی ہوتا ہے کیونکہ آئندہ آنے والی نسلوں کو سنوارنا اور ان کو ملک و ملت کی خدمت کے قابل بنانا ان ہی کے سپرد ہے،سب محنتوں میں اعلٰی درجے کی محنت اور کارگزاریوں میں سب سے بیش قیمت کارگزاری معلّموں کی ہے،معلّم کا فرض سب سے زیادہ مشکل اور اہم ہے کیونکہ تمام قسم کی اخلاقی،تمدنی اور مذہبی نیکیوں کی کلید اس کے ہاتھ میں ہے اور ہر قسم کی ترقی کا سر چشمہ اس کی محنت ہے۔

معلّم کی یہ عظمت،مقام و مرتبہ اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ صفات حسنہ اور اخلاق حمیدہ کا جامع،صبر واخلاص کا پیکر،علم و تحقیق کے خمیر میں گوندا ہوا ہو۔استاد کا مطمع نظر رضا خداوندی، انسانیت کی تربیت اور نونہالان قوم کو علم ومعرفت سے روشناس کرانے کا جذبہ ہونا چاہیے۔معلّم کے قول و عمل میں یکسانیت،صداقت،شجاعت،قوتِ برداشت،معاملہ فہمی،تحمل مزاجی اور استقامت جیسے اوصاف نمایاں ہونے چاہیے کیونکہ شاگرد استاد کا عکس ہوا کرتے ہیں۔بزرگوں کا قول ہے کہ اساتذہ نیک تو طلبہ بھی نیک،اساتذہ خود اپنے بڑوں کے قدردان تو طلبہ خود ان اساتذہ کے قدر دان ہوں گے۔الغرض اساتذہ کرام شریعت اور سنت کے پابند،اپنے منصب کے قدر دان،طلبہ پر مشفق اور اپنے مقصد میں جنونی حالت سے سرشار ہوں تو ان کے ہاتھوں تربیت پانے والی نسلیں بھی ان ہی صفات حمیدہ کی حامل ہوں گی۔گلشن محمدیﷺ جس کی آبیاری کے لیے پیغمبر اسلامﷺ اور ان کے جانثار صحابہ کرامؓ نے اپنی ساری توانائیاں و صلاحیتیں خرچ کر ڈالیں تھیں،وہ ملت جس کی شان و شوکت اور عروج اپنوں کی غفلت اور غیروں کی عیاری کی وجہ سے ماندہ پڑا ہوا ہے۔معلّم کا جذبہ یہ ہونا چاہیے کہ میرے ذریعے امت کے ایسے نونہال تیار ہو جائیں جو امت محمدیہ ﷺکی نشاۃ ثانیہ کا فریضہ سرانجام دے سکیں،وہ ایسے تناور درخت کی مانند ہوں جو سب کو چھاؤں اور پھل دیں،جوتحقیق و جستجو کے میدانوں کے شاہسوار اور علم کے شناور ہوں،جو دنیا کو امن و سلامتی کا درس اور محبت کا پیغام دینے والے ہوں۔ایک معلّم کی یہ آرزو ہونی چاہیے کہ میری ساری زندگی کی محنت اور جگر سوزی اس لیے ہے کہ قیامت کے دن میرا حشر معلّمین،امت کے معماروں،نگرانوں،قائدین اور رہبروں کے ساتھ ہو۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قبول فرما کر اپنے دینِ حق کو پھیلانے اور اسے قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم بھی ابدی راحت و کامیابی کے مستحق بن سکیں آمین یا رب العٰلمین۔

Comments