علامہ یوسف القرضاویؒ صاحب(ولادت:1926) ملتِ اسلامیہ کے اُفق پر چمکنے والا سورج تھا۔وہ عالمِ اسلام کی ہر دلعزیز اور نیک نام شخصیت تھے،جس کا ہر ایک مکتبہ فکر عزت و احترام کرتا تھا۔وہ اسلامی تحریکوں کے فکری روحِ رواں اور بے باک قائد تھے۔انہیں فقیہ زماں کے لقب سے بھی ملقب کیا گیا۔وہ ایک مایہ ناز محقق،نامور مصنف اور عالم اسلام کے بطلِ جلیل تھے۔وہ الاخوان المسلمون کے سرپرست،اتحاد علماء کے بانی و سابق صدر،ہزاروں علماء کے استاد و مربی،جبلِ صبر و عزیمت،حمیت و خودداری کا استعارہ،سیکڑوں کتابوں کے مصنف،ملت کے مختلف طبقات میں یکساں مقبول،باطل سے کبھی نہ دبنے والے مردِ مجاہد تھے۔وہ اپنے بیانات سے سامعین میں آتشِ ایمانی سے سینہ گرمانے میں منفرد مقام رکھتے تھے۔جب یہ مردِ درویش اور مردِ خدا مست کسی بھی جگہ اپنے شعلہ بیان کا آغاز کرتے تو لوگ پروانوں کی طرح ان کے چہرہ انور اور جذبہ ایمانی کا نظارہ کرنے کے لیے جمع ہو جاتے تھے۔اس مردِ حُر نے زمانہ طالبِ علمی سے ہی اقامت دین کی جدوجہد اور رضائے الٰہی کے داعیے کا ”ہوش“ پایا اور دنیائے دوں کی ہر خواہش،ہر آرزو اور ہر امنگ سے”بے ہوش“ ہو کر حضرت مجذوب کے اس شعر کے مصداق بن گئے کہ؎
*اب تو آجا اب تو خلوت ہوگئی*
آپؒ زندگی کے آخری سانس تک”قل الحق من ربکم“کی عملی تصویر بن گئے تھے۔آپؒ اپنے جگر میں سارے جہاں کا درد سمیٹے ہوئے تھے اور یہی وجہ تھی کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں پہ ظلم ہوتا تھا تو وہ فوراً شیر کی طرح اٹھ کھڑے ہوتے اور ظالموں اور ان کے ایوانوں کو اپنی شعلہ بیانی سے للکارتے اور ساتھ میں اہلِ ایمان کی ڈھارس باندھتے اور انہیں صبر و عزیمت کا راستہ مضبوطی سے تھام لینے کی تلقین کرتے۔آپؒ اکثر جوشیلے بیانات دیا کرتے تھے،باطل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے عادی تھے۔آپؒ نے ہمیشہ لومتہ لائم کی پرواہ کئے بغیر اپنے موقف کا برملا اظہار کیا۔آپؒ باطل حکمرانوں کے سامنے کبھی بھی نہ جھکے بلکہ اپنے بیانات اور اپنی تحریرات سے ان پر کافی ضرب لگائی اور یہی وجہ تھی کہ عیش پرست حکمران ان کے سایہ سے بھی خوف کھاتے تھے۔آپؒ اپنے ایک جوشیلے بیان میں باطل حکمرانوں کو جنجھوڑتے ہوئے یوں گویا ہوئے:
Place Shackles on my Hands,Burn my Ribs with the Whip,Place a knife upon my neck,You will not be able to block my ideas for an hour or take away my Faith.The Light is my Conviction,The Light is in my Heart and my Heart is in the hands of my Lord and my Lord is my Supporter and Helper.I will live holding on to the rope of my Creed and i will die smiling for giving life to my Religion.
وہ مظلوم فلسطینیوں کے بہت بڑے حامی تھے۔وہ اسرائیل کو کھلے الفاظ میں ظالم اور جابر کہا کرتے تھے،جس نے بغیرِ حق کے سر زمینِ فلسطین پر اپنا تسلط جما کر اس کے باشندوں کا جینا حرام کر دیا تھا۔جب اسرئیل نے ظلم کے تمام حدود پھلانگ دئے تو فوراً آپؒ نے بلا خوف و تردد کے ساتھ اسرائیل کے خلاف نفیرِ عام کا حکم دیا،اتنا ہی نہیں بلکہ ظالم و جابر اسرائیل کے خلاف خود کش حملوں تک کو جائز قرار دے دیا۔یہ ان کی غیرتِ ایمانی اور امت کے درد کا بین ثبوت تھا۔باطل نے بہت بار چاہا کہ ان کے ایمان کو خریدا جائے لیکن جس بندے نے اپنی جان اور اپنا مال اللہ رب العزت کو بیچا ہو اسے دنیا کی کوئی بھی طاقت اپنے موقف سے ہٹا نہیں سکتی۔
دعوتِ دین کی راہ پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا راستہ ہے،لہٰذا اس راستے پر چلنے والے ہر ایک راہی کے تلووں کو یہ کانٹے ضرور بالضرور زخمی کر کے ہی چھوڑیں گے۔تحریک کے علمبردار حقیقت میں تب ہی اپنے اصل مُراد کو پالیں گے جب ہی وہ ان کانٹوں کے لیے اپنے تلووں کو دل کی پوری آمادگی کے ساتھ پیش کریں گے۔بندہ مومن کے لیے اللہ کی راہ میں مصائب کو برداشت کرتے ہوئے اس کی راہ میں آگے ہی بڑھے جانا اور اپنے حقیقی نصب العین کی راہ میں پیہم جدوجہد کرتے رہنا انتہائی ناگزیر ہے۔آپؒ نے بھی جب پورے عزم و استقلال کے ساتھ اس راستے کو چُن لیا تو انہیں بھی مختلف صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا اور اللہ کی راہ میں بارہا جیل کی سلاخوں کے پیچھے اپنے دن رات کاٹنے پڑے۔آپؒ نے وہاں بھی موقع کو غنیمت جان کر سنتِ یوسفی کو زندہ کر کے بہت سارے اسیرانِ زنداں میں فکری انقلاب بپا کرنے میں ایک کلیدی رول ادا کیا۔آپؒ کے ساتھ ساتھ آپ کے اہلِ خانہ نے بھی کئی بار قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ایمان اور ہجرت لازم و ملزوم ہیں لہٰذا جب ظلم و ستم کی شدت حد سے بڑھ گئی تو آپؒ نے اپنے ایمان کو بچانے کے لیے قطر کی طرف”ہجرت“ کی۔دورِ جدید میں اس سنت کو زندہ کرنا نہایت ہی کٹھن ہوگیا ہے۔اپنے وطنِ عزیز کو اللہ کی خاطر چھوڑنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا،لیکن جس بندے نے عشقِ حقیقی کا جام پیا ہو اسے یہ پُر مشقت اور پُر خطر راستہ سر کرنا نہایت ہی آسان ہو جاتا ہے۔آپؒ دورِ شباب میں ہی امام حسن البنا شہیدؒ کی شخصیت اور دعوت کے گرویدہ ہو گئے تھے۔امام حسن البنا شہیدؒ کے ساتھ ساتھ جن دو مایہ ناز شخصیات نے آپؒ کی زندگی پہ انمٹ نقوش چھوڑے تھے وہ سید قطب شہیدؒ اور مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی شخصیتیں تھیں۔آپؒ مولانا مودودیؒ کی بے حد عزت و احترام کرتے تھے اور اپنی تصانیف میں جب بھی ان کی کتابوں کا حوالہ دیتے تو ان کا نام”الامام المودودی“ لکھ کر یہ واضح کرتے کہ آپؒ امت کے ائمہ عظام کی اولین صفوں میں شامل ہیں۔انھوں نے مولانا مودودیؒ کے افکار اور خدمات پر باضابطہ طور پر ایک گراں قدر کتاب بنامی”نظرات فی فکر الامام المودودی“ تصنیف کی ہے،جسے مولانا ابو الاعلیٰ سید سبحانی نے اردو زبان میں ترجمہ کیا اور اسے”امام مودودیؒ ایک مصلح،ایک مفکر،ایک مجدد“ کے نام سے موسوم کیا۔یہ کتاب مولانا مودودیؒ پر لکھی گئی کتابوں میں سب سے اہم اور سب سے زیادہ زوردار کتاب ہے۔اس کتاب کی ایک الگ شان اور الگ آن ہے،جسے لوگوں کے ہاں کافی مقبولیت حاصل ہوئی اور تحریکی کارکنان آج بھی اس کتاب کو پڑھ کر اپنی روح کو جِلا بخشتے ہیں۔1979 میں جب مولانا مودودیؒ کی وفات ہوئی تو آپؒ نے لاہور تشریف لاکر مولانا مودودیؒ کی نمازِ جنازہ کی امامت کا شرف بھی حاصل کیا،اگرچہ اس وقت عیدگاہ میں علمائے کرام کا جمِ غفیر تھا لیکن کسی عالمِ دین نے یہ جرات نہ کی کہ آگے آئے اور مجددِ ملت کا نمازِ جنازہ پڑھائے،بالآخر سبھی علمائے کرام کو اس بات پر اتفاق ہوا کہ اس وقت پورے مجمع میں علامہ یوسف القرضاویؒ صاحب ہی وہ واحد شخصیت ہیں جو امامت کرنے کے اہل ہیں۔مرنے کے بعد جس مشن کو سید مودودیؒ نے پیچھے چھوڑا،پوری دنیا میں اس مشن کی آبیاری کرنے والوں میں علامہ یوسف القرضاویؒ صاحب کا نام نمایاں ہے اور ستارے کی مانند چمکتا ہے۔
آپؒ نے علومِ اسلامیہ میں چار چاند لگا دئے اور ان کی خدمات کی بنا پر 1994 میں سعودی عرب کے ذریعے سے انہیں”شاہ فیصل ایوارڑ“ سے نوازا گیا۔یہ ازل سے ہی ایک اصول رہا ہے کہ مقصد کے شیدائیوں کو لوگوں کی اکثریت برداشت کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔آپؒ کو پہلے پہل سعودی عرب نے برداشت کیا لیکن جب انہیں آپؒ کی فکر اور پالیسی کی جانکاری ہوئی تو اپنے ہاں دہشت گردوں کی ایک لمبی فہرست بنائی جس میں آپؒ کا نام بھی شامل کیا تاکہ لوگ اسے دہشت گرد سمجھ کر اس کی فکر کو غلط قرار دیں۔لیکن جس شخصیت کے رگ و پے میں حق سرایت کر چکا ہو اس کے فکر کی تیز و تند لہروں کے سامنے دنیا کی کون سی طاقت کھڑا رہ سکتی ہے؟اس کی فکر دریا کے مانند اپنا راستہ خود بنا لیتی ہے اور باطل کو خس و خاشاک کی طرح اپنے ساتھ لے کر بالآخر سمندر کی گہرائیوں میں اسے دفن کر کے ہی دم لیتی ہے۔
آپؒ نے قدیم وجدید تمام موضوعات پر لکھا،ہر مسٸلہ پر امت کی رہنمائی کی،سلگتے مسائل میں امت کو راہِ صواب و سداد دکھائی،وہ جس موضوع پر لکھتے تحقیق و تدقیق کا حق ادا کر دیتے تھے۔آپؒ بہت سے اداروں،تحریکوں،تنظیموں اور فقہی و علمی اکیڈمیوں سے وابستہ رہے اور مغربیت و الحاد کے خلاف آخری دم تک بر سرِ پیکار رہے،اختلافی و فقہی مساٸل میں جمع و تطبیق کا راستہ اختیار کرتے تھے،وہ عالمِ اسلام کے مقبول مصنف و مٶلف اور رہبر تھے۔ان کی گراں قدر علمی تصانیف ساری دنیا میں پڑھی اور پڑھائی جاتی ہیں۔آپؒ کی کتابوں میں فقہ الجہاد،فقہ الزکاة،فقہ الصلاة،فقہ الطہارہ،الحلال والحرام فی الاسلام،العبادة فی الاسلام،کیف نتعامل مع القرآن العظیم،کیف نتعامل مع السنة النبویة،مشکلة الفقر وکیف عالجہا الاسلام،الصبر فی الاسلام،النیة والاخلاص،فواٸد البنوک،ظاھرة الغلو فی التکفیر،القدس قضیة کل مسلم،الوقت فی حیاة المسلم،من فقہ الدولة فی الاسلام،فی فقہ الاقلیات المسلمة،السیاسة الشرعیة فی ضو نصوص الشریعة،الصحوة الاسلامیة من المراھقة الی الرشد،التربیة الاسلامیة ومدرسة حسن البنا،اسی طرح آپؒ کی خودنوشت ابن القریة والکتاب بہت مشہور ہیں۔عصری مسائل پر ان کے فتاویٰ کا مجموعہ”فتاوی معاصَرَہ“کے نام سے مشہور ہے،جس نے علمی حلقوں میں کافی شہرت پائی اور اسے قدر کی نگاہوں سے دیکھا گیا۔شرق و غرب میں مذکورہ کُتب میں سے الحلال و الحرام فی الاسلام اور فقہ الزکاة نے غیر معمولی شہرت حاصل کی۔آپؒ کی جن کتابوں کا اردو زبان میں ترجمہ ہوا ہے ان میں سے اسلام میں حلال و حرام،فتاویٰ،اسلام اور فنونِ لطیفہ،دین میں ترجیحات،فقہ الزکوة،فقہ الجہاد،اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کے حقوق،اخوان المسلمون کا تربیتی نظام،فتویٰ میں تبدیلی،اسلام کیا ہے؟،غلبہءِ اسلام کی بشارتیں،اسلامی بیداری انکار اور انتہاء پسندی کے نرغے میں،بگاڑ کہاں؟،اسلام اور سیکولرازم،ایمان اور زندگی،اسلامی نظام ایک فریضہ ایک ضرورت،داعی کا منصب حقیقی،سنت نبوی اور ہمارا طریق عمل،بین المسالک ہم آہنگی کے اصول،وقت کی قدر کیجیے،اسلام میں غیر مسلموں کے حقوق،تعلیم کی اہمیت،اسلامی نظام کے خدو خال،اسلام اور معاشی تحفظ،سیاسی اور غیر سیاسی اسلام،بنک کا سود،سلامتی کی راہ،فکری تربیت کے اہم تقاضے،قرآن اور ہماری عملی زندگی،اسلام کے قیام کا راستہ،اسلام میں عبادت کا حقیقی مفہوم،دعوت دین کے عملی تقاضے قابلِ ذکر ہیں۔اس وقت پوری دنیا میں ان گراں قدر کتابوں کے ذریعے سے علم کے پیاسے اپنی پیاس بُجھانے میں سرگرمِ عمل ہیں۔آپؒ کی کتابوں میں کتاب و سنت سے بھرپور استدلال،علم کی وسعت،فکر کی بلندی،مساٸل کا بہترین حل پایا جاتا ہے۔
پوری دنیا میں خدمتِ دین کیلئے جن کا نام گونجا،آج وہ صاحب ہمارے درمیان نہیں رہے لیکن ان کا کام،ان کا نام،ان کے دینی کارنامے اور ان کی تحریک ان کی یاد کو ہمیشہ زندہ و تابندہ رکھے گی۔قوی امید یہی ہے کہ تیز سے تیز آندھی بھی ان کے جلائے ہوئے چراغوں کو بُجھا نہیں سکتی بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان چراغوں کی روشنی بڑھتی چلی جائے گی اور تائیدِ خداوندی سے یہ چراغ قافلہ انسانیت کو راہِ راست سے بھٹکنے نہیں دیں گے۔انتہائی مبارک بادی کے مستحق ہیں وہ لوگ جو اپنے ایمان کا سودا کرنے کے بجائے یہ چراغ جلاتے جلاتے مر جائیں۔
موت برحق ہے،اس سے کسی بھی متنفس کو مفر اور اسثنیٰ حاصل نہیں لیکن مبارک ہے وہ موت جو انسان کو مار کر بھی مار نہ سکے کیونکہ عاشقانِ الٰہی،عاشقانِ رسولؐ،دین کے خادم اور پیامبر،انسانیت کے غم کا بوجھ اٹھانے والے اور ملک و ملت کی بے پایاں خدمت کرنے والے نظروں سے اوجھل ہوکر بھی زندہ رہتے ہیں۔ان کا نام اور کام تاریخ کے صفوں کو گرماتا اور لوگوں کے دلوں کو تڑپاتا رہتا ہے۔نعمت اور مبارک ہے ایسی زندگی اور مبارک ہے ایسی موت۔لہٰذا بحثیتِ مسلمان ہمیں چاہئیے کہ ہم علامہ یوسف القرضاویؒ صاحب جیسے علمائے حق کی تادمِ واپسی قدر کریں اور ان کی زندگیوں کو اپنے لیے مشعلِ راہ بنائیں تاکہ ان کے نقشِ قدم پر چل کر ہم نقشِ ہدایت پاسکیں۔بقولِ شاد عظیم آبادی؎
*ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں،ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم*
*جو یاد نہ آئے بھول کے پھر،اے ہم نفسو! وہ خواب ہیں ہم*
*لاکھوں ہی مسافر چلتے ہیں،منزل پے پہنچتے ہیں دو ایک*
*اے اہلِ زمانہ قدر کرو،نایاب نہ ہوں کمیاب ہیں ہم*
Comments
Post a Comment