Suffering, Trials And The Demand Of Faith

 

 زندگی جہدِ مسلسل کا نام ہے۔ایک مومن کو دنیوی زندگی میں مختلف چیلنجز درپیش ہیں اور حق کے راستے پر آنے کے بعد ہی متلاشِ حق ان چیلنجز کو اپنے سامنے پاتا ہے اور قدم قدم پر اسے ان سے سابقہ پڑتا ہے۔اسے بظاہر لگتا ہے کہ یہ چیزیں اس راستے میں میرے لیے معین و مددگار نہیں،لیکن وقت گزرنے کے بعد ہی اسے اس چیز کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ یہ چیزیں اس راستے کے لیے ناگزیر ہیں۔جنت کے راستے کو اللہ تعالی نے مختلف آزمائشوں سے گھیرے رکھا ہے تاکہ جو سَچ مُچ میں جنت کا متلاشی ہو وہ ان آزمائشوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کر کے عظیم منزل کو چُھو سکے لہٰذا جو لوگ دعاؤں کے صلے میں اور بغیر کسی جدوجہد کے جنت کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنا چاہتے ہیں وہ قدرت کی حکمتوں کا خون کرتے ہیں۔دنیوی کامیابی کے لیے کوشش اگر ضروری ہے تو اُخروی کامیابی کے لیے یہ چیز اس سے بڑھ کر ہے کیونکہ ”Hardwork is the key of success“۔بہت سارے لوگ اس چیز کا اعتراف کرتے ہیں اور زندگی کے بیشتر حصے کو اس راستے ميں لُٹاتے ہیں لیکن ایک مرحلے پر چیلنجز کا مسلسل اور چو طرفہ ہجوم دیکھ کر وہ گھبرانے لگتے ہیں اور دنیوی مفادات کی خاطر وہ حق کا راستہ ہی چھوڑ بیٹھتے ہیں اور واپسی میں مختلف مجبوریوں کا حوالہ دیتے ہیں۔یہ لوگ حقیقت میں دنیوی زندگی کے عاشق ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ عین موقع پر وہ ان چیلنجز کو برداشت کرنے سے قاصر رہتے ہیں لہٰذا جو قافلہ جنت کی طرف رواں دواں ہے اسے ان بے صبر اور حق الیقین سے کوسوں دور لوگوں کو مولانا عامر عثمانی صاحبؒ کے اس شعر کو سنا کر ہی رخصت کرنا چاہیئے؎

یہ قدم قدم بَلائیں یہ سوادِ کوئے جاناں

وہ یہیں سے لوٹ جایے جسے زندگی ہو پیاری

      زندگی کی شاہراہ پر ایک مردِ مومن کو مختلف مصائب و مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہ ازل سے ہی اللہ تعالیٰ نے ایک قانون رکھا ہے کہ جو مردِ خدا اور قافلہ حق میری محبت کا دعویٰ کر کے راہِ حق پر چلنے کا فیصلہ کرے گا اسے مشکلات سے دوچار ہونا ہی پڑے گا۔تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ جس بندے نے بھی اللہ سے محبت کا دعویٰ کیا اسے آزمایا گیا کیونکہ محبت کے مقدر میں آرام ہوتا ہی نہیں؎

محبت کے مقدر میں کہاں آرام اے ہمدم

کہیں شعلہ کہیں بجلی کہیں سیماب ہوتی ہے

  جو قافلہ حق جنت کی طرف رواں دواں ہے اسے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے مطلع کر دیا کہ جنت کے راستے پر آپ کو قدم قدم پر مختلف قسم کی آزمائشیں آتی رہیں گی۔یہ اس کارواں پر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ انہیں پہلے ہی خبردار کیا گیا تاکہ عین وقت ان کے قدم نہ ڈگمگائیں اور پھر وہ واپسی کی پُلاننک میں لگ جائیں،جو کہ ایک طرح کی ایمانی خود کشی ہے۔ذیل کی آیاتِ مبارکہ میں انہی آزمائشوں کا تذکرہ کیا گیا ہے تاکہ قافلہ حق ان کو ذہن میں رکھ کر اپنی منزل کی طرف پوری ہمت،عزم اور استقلال کے ساتھ بڑھتا چلا جائے:

لَـتُبۡلَوُنَّ فِىۡۤ اَمۡوَالِكُمۡ وَاَنۡفُسِكُمۡ وَلَـتَسۡمَعُنَّ مِنَ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡكِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِكُمۡ وَمِنَ الَّذِيۡنَ اَشۡرَكُوۡۤا اَذًى كَثِيۡـرًا‌ؕ وَاِنۡ تَصۡبِرُوۡا وَتَتَّقُوۡا فَاِنَّ ذٰلِكَ مِنۡ عَزۡمِ الۡاُمُوۡرِ۞(آل عمران:186)

”مسلمانو! تمہیں مال و جان دونوں کی آزمائشیں پیش آکر رہیں گی،اور تم اہل کتاب اور مشرکین سے بہت سی تکلیف دِہ باتیں سنو گے۔اگر ان سب حالات میں تم صبر اور خدا ترسی کی روش پر قائم رہو تو یہ بڑے حوصلہ کا کام ہے۔“

   اس آیت کے ذیل میں مولانا سید احمد عروج قادریؒ نے بہت ہی قیمتی باتیں لکھی ہیں:

”ناموں کی صراحت کے ساتھ جن انبیاء کرام علیہم السلام کا ذکر قرآن مجید میں ہے،ان میں سے اکثر کو تکلیف دہ باتیں سننی پڑی تھیں اور ایک جگہ اجمال کے ساتھ تمام انبیاء و رسل کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان کو ان کی قوموں کی دھمکیاں اور تکلیف دہ باتیں سننی پڑی تھیں۔یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کو اس آیت میں پہلے ہی مطلع کر دیا گیا کہ جان و مال کی آزمائش سے تمہیں بھی گزرنا پڑے گا اور معاندین کی دل آزار باتیں بھی سننی پڑیں گی۔پہلے سے اس لیے خبر دے دی گئی کہ وہ ان آزمائشوں کے لیے تیار ہو جائیں اور اب قیامت تک ہر اس جماعت کو جو دعوت دین اور اقامت دین کا کام کرنا چاہتی ہو،آگاہ کر دیا گیا ہے کہ جان و مال کے نقصان اور دل آزار باتیں سننے کی آزمائش دعوت الی اللہ کے لوازم میں سے ہے۔               (کتابِ الٰہی کا پیغام،ص91)

وَلَـنَبۡلُوَنَّكُمۡ بِشَىۡءٍ مِّنَ الۡخَـوۡفِ وَالۡجُـوۡعِ وَنَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَالۡاَنۡفُسِ وَالثَّمَرٰتِؕ(البقرہ:156-155)

”اور ہم تمہیں لازماً آزمائیں گے کسی قدر خوف اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور ثمرات کے نقصان سے۔“

”اب اس سبق میں تحریک اسلامی کو نئے واقعات اور نئی صورتحال کے مقابلے کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔آنے والے واقعات کے سلسلے میں اسے ایک صحیح نقطہ نظر دیا جاتا ہے:

 تربیت کے لئے انسان کو مصائب کی بھٹی سے گزارا جاتا ہے۔خوف وخطر میں مبتلا کرکے،جان ومال کا نقصان دے کر،مصائب اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے،اللہ طالب صادق کے عزم صمیم کا امتحان کرتے ہیں۔یہ آزمائشیں اس لئے ضروری ہیں کہ مؤمنین اسلامی نظریہ حیات کی ذمہ داریاں اچھی طرح پوری کرنے کے قابل ہوسکیں اور اسلامی نظریہ حیات کی راہ میں جتنا مصائب سے دوچار ہوں اسی قدر نظریہ حیات انہیں عزیز ہوتا چلاجائے۔

 وہ نظریات جن کے لئے ان مجاہدین نے کوئی تکلیف نہ اٹھائی ہو نہ کوئی مصیبت برداشت کی ہو،پائیدار نہیں ہوتے۔ایسے لوگ مصیبت کے پہلے مرحلے ہی میں انہیں الوداع کہہ دیتے ہیں۔آزمائشیں دراصل ایک نفسیاتی امتحان ہوتی ہیں،جو ایک کارکن اپنے نظریہ حیات کے لئے پاس کرتا ہے اور اس کی وجہ سے دوسرے لوگوں سے پہلے یہ نظریہ اس کارکن کے لئے عزیز تر از جان ہوجاتا ہے۔کارکن نظریہ کی خاطر جب دکھ پائیں گے اور مال خرچ کریں گے تو پھر وہ اس کی قدر کریں گے اور اس کی حفاظت بھی کریں گے۔

 دوسرے لوگ بھی اس نظریے کی قدر تب ہی کریں گے جب وہ دیکھیں گے کہ اس نظریے کو ماننے والے ان پر جان دیتے ہیں اور اس کی وجہ سے آنے والی تمام مصیبتوں کو بخوشی برداشت کرتے ہیں۔اپنے نظریات کے لئے مصیبت اٹھانے والوں کو دیکھ کر عام تماشائی بھی یہ کہیں گے”وہ نظریہ حیات جس کے لئے یہ لوگ لڑتے ہیں،کوئی بڑی ہی قیمتی چیز ہے،اگر وہ قیمتی نہ ہوتی تو یہ لوگ اس قدر عظیم قربانیاں ہرگز نہ دیتے اور ان عظیم مصائب وشدائد پر صبر نہ کرتے۔“

 ایسے حالات میں اس نظریہ حیات کے مخالفین بھی لاجواب ہوجاتے ہیں اور اس کے بارے میں تحقیق شروع کردیتے،قدر کرنے لگتے ہیں اور خود بخود اس کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔یہ وہ مقام ہے جس تک پہنچ جانے کے بعد اللہ کی امداد اور نصرت آپہنچتی ہے اور لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہوتے ہیں۔آزمائش بہت ضروری ہے اس سے نظریاتی لوگوں کی قوت میں اضافہ ہوتا ہے ان کی کمر مضبوط ہوتی ہے۔مصائب وشداد سے ان کی خفیہ قوتیں جاگ اٹھتی ہیں۔ذخیرہ شدہ طاقتوں کے لئے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں جن کے بارے میں،ان مصائب وشدائد سے پہلے مومن کو گمان بھی نہیں ہوتا۔

 اسلامی اقدار اور اسلامی تصورات اس وقت پختہ اور سیدھے نہیں ہوسکتے جب تک انہیں شدائد ومصائب کی بھٹی سے نہ گزاراجائے۔یہ مصائب کا نتیجہ ہی ہوتا ہے کہ کارکنوں کی آنکھیں روشن ہوجاتی ہیں اور دلوں سے میل دورہوجاتا ہے۔

 اب سے اہم،سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ مصائب وشدائد کی حالت میں تمام دنیاوی رابطے کٹ جاتے ہیں۔مختلف الاقسام اوہام اور تمنائیں غائب ہوجاتی ہیں،دل اللہ کے لئے خالی ہوجاتا ہے بلکہ صرف اللہ کا سہارا باقی رہ جاتا ہے۔یہی وہ مقام ہوتا ہے،جہاں تمام پردے ہٹ جاتے ہیں،بصیرت کے دروازے کھل جاتے ہیں،مطلع دور تک صاف و شفاف ہوتا ہے،اللہ کے سوا کوئی شئے نظر نہیں آتی،اللہ کی قوت کے سوا کوئی قوت نظروں میں نہیں جچتی،اللہ کے سوا کسی کا کوئی اختیار نظر نہیں آتا،اللہ ہی کی پناہ ہوتی ہے،اس کے سوا کسی کی پناہ نہیں ہوتی۔اس مقام پر پہنچ کر انسانی روح اس حقیقت کے ساتھ یکجا ہوجاتی ہے۔یہی وہ مقام ہے جہاں قرآن کریم کی یہ آیت نفس انسانی کا ایک حصہ بن جاتی ہے۔(فی ظلال القرآن)

وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيۡنَۙ۞الَّذِيۡنَ اِذَآ اَصَابَتۡهُمۡ مُّصِيۡبَةٌ ۙ قَالُوۡٓا اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّـآ اِلَيۡهِ رٰجِعُوۡنَؕ۞(البقرہ:156-155)

”اور (اے نبی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )بشارت دیجیے ان صبر کرنے والوں کو۔وہ لوگ کہ جن کو جب بھی کوئی مصیبت آئے تو وہ کہتے ہیں کہ بیشک ہم اللہ ہی کے ہیں اور اسی کی طرف ہمیں لوٹ جانا ہے۔“

”صابرین کی ڈھال:یہ صابرین کی صفت بیان ہوئی ہے کہ وہ آزمائشوں کا مقابلہ بد دلی اور پست ہمتی کے ساتھ نہیں کرتے بلکہ خندہ پیشانی اور عزم و استقلال کے ساتھ کرتے ہیں۔یہاں جو ان کا یہ قول نقل ہوا ہے،یہ درحقیقت ان کے اس عقیدے کا اظہار ہے جس کی چٹان پر صبر و استقامت کی عمارت قائم ہوتی ہے۔اس عقیدے کا ایک جزو تو یہ ہے کہ آدمی اس بات پر ایمان رکھے کہ وہ اس دنیا میں اللہ ہی کا اور اللہ ہی کے لیے ہے اور اس کا دوسرا جزو یہ ہے کہ مرنے کے بعد اس کو اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔جو شخص ان دو حقیقتوں پر مضبوط ایمان رکھتا ہے کوئی بڑی سے بڑی مصیبت بھی اس کے قدم کو جادہ حق سے ہٹا نہیں سکتی۔جب ہم اس دنیا میں خدا ہی کے بھیجے ہوئے آئے ہیں،اسی کے لیے ہمارا مرنا اور جینا ہے اور مرنے کے بعد وہی ہے جس کی طرف ہمیں جانا ہے تو پھر اس کی خاطر تو ہم ہر چیز سے منہ موڑ سکتے ہیں لیکن وہ کون سی طاقت ہو سکتی ہے جو ہماری رخ کو اس سے موڑ دے۔یہی کلمہ صابرین کی ڈھال اور سپر ہے۔اس پر وہ مصیبت کے ہر وار کو روکتے ہیں۔اس میں اللہ کی طرف جو تفویض و سپردگی ہے وہ سرفروشی اور جاں بازی کی سپردگی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ بندہ مومن جب وقت آجاتا ہے تو یہی نعرہ لگاتا ہوا اپنے رب کے لیے دریا اور پہاڑ سے بھی لڑ جاتا ہے۔وہ سب کے قدم اکھاڑ دیتا ہے لیکن اس کے قدم کو کوئی چیز بھی اکھاڑ نہیں سکتی۔“(تدبر قرآن)

     مذکورہ بالا آیات میں جس خوشخبری کی نوید سنا دی گئی،یہ خوشخبری قرآن کی دوسری جگہ کی تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا اور آخرت دونوں کی کامیابی پر مشتمل ہے۔بالاختصار یہاں میں ایک ہی جگہ کا پتہ دیتا ہوں،ارشاد ربانی ہے:

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا هَلۡ اَدُلُّكُمۡ عَلٰى تِجَارَةٍ تُنۡجِيۡكُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ اَلِيۡمٍ۞تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ وَتُجَاهِدُوۡنَ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ بِاَمۡوَالِكُمۡ وَاَنۡفُسِكُمۡ‌ؕ ذٰلِكُمۡ خَيۡرٌ لَّـكُمۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَۙ‏۞يَغۡفِرۡ لَـكُمۡ ذُنُوۡبَكُمۡ وَيُدۡخِلۡكُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ وَمَسٰكِنَ طَيِّبَةً فِىۡ جَنّٰتِ عَدۡنٍ‌ؕ ذٰلِكَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُۙ۞وَاُخۡرٰى تُحِبُّوۡنَهَا‌ ؕ نَصۡرٌ مِّنَ اللّٰهِ وَفَـتۡحٌ قَرِيۡبٌ‌ ؕ وَبَشِّرِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ۞(الصف:13-10)

”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، میں بتاؤں تم کو وہ تجارت جو تمہیں عذاب الیم سے بچا دے؟ ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر،اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے یہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔اللہ تمہارے گناہ معاف کر دے گا،اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی،اور ابدی قیام کی جنتوں میں بہترین گھر تمہیں عطا فرمائے گا یہ ہے بڑی کامیابی۔اور وہ دوسری چیز جو تم چاہتے ہو وہ بھی تمہیں دے گا،اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہو جانے والی فتح اے نبیؐ،اہل ایمان کو اِس کی بشارت دے دو۔“

  لہٰذا جب ہر طرف مصائب کی آندھی ہو اور آزمائشوں کا طوفان ہو تو حقیقی مومن کے کرنے کے کیا کام ہیں؟اور ان حالات میں ایمان کا تقاضا کیا ہے؟ان سوالات کا تشفی بخش اور ایمان کو حرارت دینے والا جواب مولانا صدر الدین اصلاحی صاحبؒ نے اپنی ایک شاہکار کتاب”اساسِ دین کی تعمیر“میں اس طرح دیا ہے:

*”زندگی کا شاید ہی کوئی شعبہ ہو جس میں اللہ کے دین پر آپ اخلاص کے ساتھ چلنا چاہیں اور مشکلات و مصائب آپ کی راہ روک کر کھڑے نہ ہو جائیں،اور اپنوں اور غیروں،سب کی طرف سے دل آزار طعنوں،پروپیگنڈوں،بہتان تراشیوں،مخالفتوں اور ایزا رسانیوں کا سیلاب امنڈ نہ آئے۔ان حالات میں آپ کے ایمان کا تقاضا صرف یہ ہوگا کہ انھیں خلافِ توقع نہ سمجھیں،ان سے بھاگنے کی کوشش نہ کریں،ان کے آگے جُھک نہ پڑیں اور ھٰذا مَا وَعَدَنَا اللہُ وَرَسُولُہ کہہ کر پورے وقار کے ساتھ انہیں انگیز کر جائیں،اور یقین رکھیں کہ یہ میرے ایمان کی آزمائش ہو رہی ہے،وہ آزمائش جو ہر مدعیِ ایمان کے لیے سنتِ الٰہی میں ازل سے مقرر ہے اور جس پر اساسِ دین کے ایک ضروری بنیادی پتھر-صبر-کا وجود اور اعتبارِ وجود منحصر ہے۔“*

Comments