“Study, Its Significance And Worthiness”


     لفظ’’مطالعہ‘‘عربی زبان کا لفظ ہے جو’’طلع‘‘ سے ماخوذ ہے،جس کے معنی روشن،نمودار اور طلوع ہونے کے ہیں۔انگریزی زبان میں اس کے لئےStudy،Reading اور Research کے الفاظ کا استعمال ہوتا ہے۔اصطلاحی معنوں میں مطالعہ کرنے سے مراد کسی کتاب،رسالے یا اخبار کو پڑھنے کے ہیں۔جس طرح طلوعِ فجر سے دُنیا بھر کی گھٹاٹوپ اندھیری دور ہو جاتی ہے بالکل اسی طرح مطالعہ کرنے سے انسان کی اندرونی جہالت کی  اندھیری دھیرے دھیرے غائب ہو کر وہاں علم کی روشنی نمودار ہو جاتی ہے اور مسلسل مطالعہ کرنے سے یہ روشنی انسان کے پورے وجود میں سرایت کر جاتی ہے،پھر مستقبل میں یہی انسان مینارہ نور بن کر قافلہ انسانیت کو راہِ راست دکھاتا ہے۔دعوتِ دین ایک مومن کی زندگی کا حقیقی نصب العین ہے اور اس نصب العین کی طرف پیش قدمی کرتے رہنا مومن کے ایمان کی سلامتی کی ضمانت ہے۔لیکن مطالعہ سے پہلو تہی کرنے سے کوئی مومن انحطاط اور جمود سے نہیں بچ سکتا۔جمود موت کا نام ہے جو تحریک کے لیے سمِ قاتل ہے،لہٰذا ایک حقیقی کارکن اگر جمود کا شکار ہوگیا ہو تو جمود کی اس کیفیت کو توڑنے والی قوت بھی صرف مطالعہ ہی ہوتا ہے۔جو افراد علم سے لیث ہوں وہی تحریک کی گاڑی کو متحرک رکھ کر اسے آگے لے سکتے ہیں،اس کے برعکس جہالت اور دنیا کی محبت میں ڈوبے ہوئے افراد تو فائدے کے بجائے اسے نقصان ہی پہنچائیں گے،جس کا مشاہدہ ہمیں سر کی آنکھوں سے ماضی میں بھی ہوا اور آج بھی ہو رہا ہے۔

   جس طرح جسم کی نشوونما کے لئے خوراک کی ضرورت ہے بعینہٖ روح و ذہن کی حیات اور ارتقاء کے لئے مطالعہ بے حد ضروری ہے۔روز مرہ کی زندگی میں ہم دیکھتے ہیں کہ لوہے سے بنے ہوئے چیزوں کو بغیر استعمال کئے زنگ لگ جاتی ہے اور وہ بالآخر ناکارہ ہو جاتے ہیں،یہی حشر ہمارے ذہن و فکر کو اچھی کتابوں سے دوری رکھ کر ہوتا ہے اور یہی دوری ان کی قویٰ کو کمزور اور پھر مردہ کر دیتی ہے۔انسان اس ڈگر پر پہنچ کر زندگی کی حقیقت اور مقصدِ ِحیات کو سمجھنے سے بالکل قاصر رہ جاتا ہے۔لہٰذا زندگی کے آخری سانس تک مطالعہ کرنا ایک سلیم الفطرت انسان کے لئے ناگزیر ہے کیوں کہ مطالعہ تعمیر و ترقی کا ذریعہ،روح کی غذا اور علمی پیاس بُجھانے کے لیے”آبِ حیات“کا درجہ رکھتا ہے۔

   مطالعہ ہی کے ذریعے انسان نت نئے علوم سے آشنا ہوتا ہے بلکہ دنیا بھر کی معلومات حاصل کرتا ہے۔مطالعہ ہی سے خطرات و مشکلات سے آگاہی میں مدد ملتی ہے۔دنیا بھر کے مشاہدات،تجربات،فوائد لین دین،صلح و جنگ تمام معلومات کا نچوڑ مطالعہ ہی ہے۔مطالعے سے نہ صرف انسان کو زندگی کے مسائل حل کرنے میں مدد ملتی ہے بلکہ مزید ترقی کی راہیں کھلتی ہیں۔مطالعہ ہی سے انسان کی قوتیں بیدار ہوتی ہیں اور انسان صلاحیتوں کو احسن طریقے سے بروئے کار لاسکتا ہے۔مطالعہ نہ صرف ذاتی ترقی کا باعث ہے بلکہ مذہب و ملت اور معاشرے کی تعمیر و ترقی کا بھی اہم عنصر ہے۔مطالعے کی اہمیت یوں بھی واضح ہے کہ انسان اس کے ذریعے آہستہ آہستہ اپنی معلومات میں وسعت پیدا کرتا ہے جس کی بدولت اس کی فکر و نظر کا زاویہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جاتا ہے۔الغرض مطالعہ استعداد کی کنجی اور صلاحیتوں کو بیدار کرنے کا بہترین آلہ ہے۔انسان کی کامیابی کا دارومدار اللہ کے دین پر ہے اور اس کو جاننے کے لیے اس میں گہری بصیرت پیدا کرنے کے لئے علم اور مطالعہ نہایت ضروری ہے۔

    بلاشبہ دنیا میں بہترین ہمنشین کتاب ہے،اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اچھی کتاب اپنے قاری کے لیے ایسے دوست کی حیثیت رکھتی ہے جو اُس کو نہ تو کبھی تنہائی کا احساس ہونے دیتی ہے نہ اکتاہٹ کو اُس کے قریب ہونے دیتی ہے،یہ ایک ایسے ہمسفر کی مانند ہے جو اپنے ساتھی کو دوردراز کے علاقوں اور شہروں کی اپنی جگہ بیٹھے بٹھائے ہی سیر کرادیتی ہے،اسی سے انسان کو ایسی شخصیات سے مصاحبت کا شرف بھی حاصل ہوجاتا ہے جن سے ملاقات کی خاطر انسان کی حسرتیں ان کے عالم جاوداں کی طرف کوچ کرنے کی وجہ سے،محض ایک غیر ثمر آور آرزو کی طرح  ادھوری رہ جاتی ہے۔متعدد و متنوع افکار و نظریات سے واقفیت اس کے ذریعے حاصل ہوتی ہے،واقع میں اگر کتابوں سے وابستگی کی نعمت کا کسی کو ادراک ہو جائے تو اُس کے لیے بغیر مطالعہ کے زندگی گزارنا دشوار ہو جاتا ہے،اور یوں لمحہ لمحہ ایک ایسا وقت بھی آتا ہے کہ جب کتاب ہی اُس کے شب و روز کی دمساز و ہمراز بن چکی ہوتی ہے۔

 جب ہم اپنے اسلاف کے کارناموں کو پڑھتے ہیں تو عقل حیران ہو جاتی ہے کہ آخر وہ کیا قوت تھی جس نے انہیں فولاد بنا دیا اور ان میں دریاؤں کا رخ موڑنے،پہاڑوں سے ٹکرانے،سمندروں کو چیرنے اور آسمانوں کی بلندیوں کو چُھونے کی صلاحیت پیدا کر دی۔یہ مطالعہ ہی تھا جس نے انہیں اس قسم کا آدمی بنا دیا تھا۔انہوں نے اپنی پوری زندگی علم کے حصول اور اس کی ترویج و اشاعت میں گزاری۔اپنی پوری زندگی میں وہ علم کی پیاس بُجھانے کے لیے روشن ستارے بن کر قرآن کے اردگرد گھومتے رہے اور آنے والے نسلوں کو راہِ راست دکھانے میں کامیاب ہوگئے۔وہ شمع بن کر اپنے علم سے پورے معاشرے  کو منور کر گئے۔ان کا اوڑھنا بچھونا مطالعہ ہی ہوتا تھا اور زندگی کے آخری سانس تک وہ اسی میں لگے رہے۔یہ ان ہی کی مرہونِ منت ہے کہ علم کو آج ہم اپنی اصلی شکل میں پاتے ہیں۔انہوں نے اپنے اوپر راتوں کی نیدیں حرام کرکے اور جگر کا خون دے دے کر علم کے درخت کو تقویت پہنچائی۔

    ہمارے اسلاف میں کتابوں سے حد درجہ عقیدت،اُن کو جمع کرنے کا شوق،اپنے ذاتی کتب خانے کو وسیع سے وسیع تر کرنے کی جستجو نمایاں رہی ہے،اور شیفتگی کا یہ عالم تھا کہ اس سلسلے میں وہ بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔ﺁﭖ ﺫﺭﺍ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺳﻼﻑ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ،ﻭﮦ ﮐﺘﺐ ﺑﯿﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﺲ ﻗﺪﺭ ﻏﺮﻕ ﺭﮨﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔

ہمارے بہت سارے اکابر علماء و مشائخ کا یہ معمول رہا ہے کہ وہ رات کو تین حصوں میں بانٹ دیتے۔ایک حصے میں آرام کرتے،ایک حصہ عبادت میں گزارتے اور رات کا ایک حصہ مطالعۂ کتب میں بسر کرتے۔اپنے وقت کے مشہور عالم و مؤرخ علامہ ابن خلدونؒ نے لکھا ہے کہ:

*”میری پوری زندگی میں صرف دو رات ایسی گزری،جس میں مطالعے سے میں محروم رہا۔ایک میری شادی کی پہلی رات اور دوسری وہ رات جس میں میرے والد کا انتقال ہوا۔“*

ﺍﻣﺎﻡ ﺯﮨﺮﯼؒ ﮐﺘﺐ ﺑﯿﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﻨﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻣﺤﻮ ﺭﮨﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﻧﮯ ﺟﮭﻼ ﮐﺮ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮩﮧ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ:

ﻭﺍﻟﻠﻪ ﺇﻥ ﻫﺬﻩ ﺍﻟﻜﺘﺐ ﺃﺷﺪ ﻋﻠﻲ ﻣﻦ ﺛﻼﺙ ﺿﺮﺍﺋﺮ۔

*”یعنی اللہ کی قسم! یہ کتابیں میرے لیے تین سو تنوں سے زیادہ باعث گراں ہیں۔“*

 علامہ عبدالرحمن ابن جوزیؒ فرماتے ہیں کہ: 

*”مجھے یاد ہے کہ میں چھ سال کی عمر میں مدرسہ میں داخل ہوا،سات سال کی ابھی عمر تھی کہ میں جامع مسجد کے سامنے میدان میں چلا جایا کرتا تھا اور وہاں کسی مداری یا شعبدہ باز کے حلقے میں کھڑا ہوکر تماشہ دیکھنے کے بجائے محدث کے درس میں شریک ہوتا وہ حدیث کی سیرت کی جو بات کہتے وہ مجھے زبانی یاد ہو جاتی،گھر آکر اس کو لکھ لیتا دوسرے لڑکے دریائے دجلہ کے کنارے کھیلا کرتے تھے اور میں کسی کتاب کے اوراق لے کر کسی طرف نکل جاتا اور الگ بیٹھ کر مطالعہ میں مشغول ہو جاتا۔“*

 نیز یہ بھی آپؒ ہی کا قول ہے کہ:

إذا وجدتُ کتاباً جدیداً فکأنّی وقعتُ علی کَنزٍ۔

*’’یعنی اگر مجھے کوئی نئی کتاب ملتی تو گویا مجھے خزانہ حاصل ہوجاتا۔‘‘*

آپؒ مزید فرماتے ہیں:

 *”میری طبیعت کتابوں کے مطالعہ سے کسی طرح سیر نہیں ہوتی۔اگر میں اپنے مطالعے کے بارے میں حق بیان کرتے ہوئے یہ کہوں کہ میں نے زمانۂ طالب علمی میں بیس ہزار کتابوں کا مطالعہ کیا ہے تو میرا مطالعہ زیادہ ہوگا۔مجھے ان کتابوں کے مطالعہ سے سلف کے حالات و اخلاق ان کا قوت حافظہ،ذوق عبادت اور علوم نادرہ کا ایسا علم حاصل ہوا جو ان کتابوں کے بغیر نہیں حاصل ہو سکتا تھا۔“*

آپؒ نے زمانہ طالب علمی میں ہی بغداد کے بڑے بڑے کتب خانوں میں موجود ہزاروں کتب کا مطالعہ کر ڈالا۔

امام محمد بن حسن شیبانیؒ جو کہ امام ابوحنیفہؒ کے عظیم شاگردوں میں سے ہیں،ان کی سیرت کا مطالعہ کر کے ایک انگریز نے کہا تھا کہ مسلمانوں کے چھوٹے محمد کا یہ حال ہے تو بڑے محمد ﷺ کا کیا حال ہوگا؟

امام محمدؒ کے مطالعہ کا عالم یہ تھاکہ آپ پوری پوری رات مطالعۂ کتب میں جاگتے گزار دیتے۔جب لوگوں نے آپ سے اس مشقت اور مجاہدہ کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا:

*’’میں کیسے سو جاؤں،جبکہ عام مسلمان اس وجہ سے بے فکر ہو کر سوجاتے ہیں کہ انہیں جب کوئی مسئلہ درپیش ہوگا تو اس کا جواب محمد بن حسن سے مل جائے گا۔‘‘*

یعنی آپ کو امت مسلمہ کے مسائل کی اس قدر فکر رہتی تھی کہ ساری رات کتابوں میں ان کے مسائل کا حل تلاش کرتے اور ڈھونڈتے گزار دیتے تھے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ لوگ اُن پر اعتماد کر کے سو جاتے ہیں۔

ﺣﺎﻓﻆ ﺧﻄﯿﺐ ﺑﻐﺪﺍدیؒ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ کہ وہ چلتے تھے اور ان کے ہاتھ میں کتاب کا ایک نسخہ ہوتا،جس کا وہ مطالعہ کرتے تھے۔

مشہور مسلم مفکر،دانشور اور فلسفی ابو نصر الفارابیؒ جنہیں تاریخ ارسطوئے ثانی اور معلمِ ثانی کے نام سے پہچانتی ہے،مسلم دنیا کے یہ عظیم سائنسدان دنیا کی ستر زبانیں جانتے تھے،ان کی ابتدائی زندگی انتہائی غربت میں گزری مگر اتنا بڑا مقام انہیں کتاب کے ساتھ تعلق قائم کرنے سے ملا۔کہا جاتا ہے کہ ابونصر فارابی کی غربت کا یہ عالم تھا کہ ان کے پاس چراغ کے تیل خریدنے کے لئے بھی پیسہ نہ تھا،چنانچہ وہ رات کو چوکیداروں کی قندیلوں کے پاس کھڑے ہوکر کتاب کا مطالعہ کرتے تھے۔

حضرت سیدنا امام ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل امام  بخاریؒ سے پوچھا گیا:حافظے کی دوا کیا ہے؟آپؒ نے ارشاد فرمایا:

*”کُتب کا مطالعہ کرتے رہنا حافظے کی مضبوطی کے لیے بہترین دوا ہے۔“*

مشہور محدث امام مسلمؒ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ مطالعہ میں اتنے منہمک ہو گئے کہ پوری رات جاگتے رہے۔اور ساتھ ساتھ کھجوریں بھی تناول فرماتے رہے، صبح ہونے تک کھجوروں کا پورا ٹوکرا ختم کر چکے تھے۔مگر انہیں پتہ نہ چلا،چناں چہ اسی سے انہیں مرض لاحق ہوا اور وفات پاگئے۔

ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺍﺑﻮ ﺍﻟﮑﻼﻡ ﺁﺯﺍﺩؒ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﺘﺎﺏ”ﻏﺒﺎﺭِ ﺧﺎﻃﺮ“ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻮﻕِ ﻣﻄﺎﻟﻌﮧ ﮐﻮ ﺑﺎﯾﮟ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺑﯿﺎﻥ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ:

*”ﻣﯿﺮﮮ ﺗﺨﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﻋﯿﺶِ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﺗﺼﻮﺭ ﮐﯿﺎ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ؟ﺟﺎﮌﮮ ﮐﺎ ﻣﻮﺳﻢ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﺟﺎﮌﺍ ﺑﮭﯽ ﻗﺮﯾﺐ ﻗﺮﯾﺐ ﺩﺭجہ ﺍﻧﺠﻤﺎﺩ ﮐﺎ،ﺭﺍﺕ ﮐﺎ ﻭﻗﺖ ﮨﻮ،ﺁﺗﺶ ﺩﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﻧﭽﮯ ﺍﻭﻧﭽﮯ ﺷﻌﻠﮯ ﺑﮭﮍﮎ ﺭﮨﮯ ﮨﻮﮞ،ﻣﯿﮟ ﮐﻤﺮﮮ ﮐﯽ ﺳﺎﺭﯼ ﻣﺴﻨﺪﯾﮟ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﯾﺎ ﻟﮑﮭﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺸﻐﻮﻝ ﮨﻮﮞ۔“*

ﺍﭘﻨﯽ ﮐﺘﺎﺏ”ﺁﺯﺍﺩ ﮐﯽ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﺧﻮﺩ ﺁﺯﺍﺩ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻧﯽ“ﻣﯿﮟ ﺭﻗﻤﻄﺮﺍﺯ ﮨﯿں:

*”ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺴﺘﺮ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﮐﺘﺎﺑﯿﮟ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﻮﻡ ﺑﺘﯽ ﺟﻼ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﻟﻌﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﺘﺎ،ﺍﮔﺮ ﺩﻥ ﮐﻮ ﻣﻄﺎﻟﻌﮧ ﮐﺮﺗﺎ ﺭﮨﺎ،ﺗﻮ ﺩﺭﺳﯽ ﮐﺘﺎﺑﻮﮞ ﮐﺎ ﺷﺐ ﮐﻮ ﻣﻄﺎﻟﻌﮧ ﮐﺮﺗﺎ،ﺍﮐﺜﺮ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﺩﻭ ﺩﻭ ﺑﺠﮯ ﺗﮏ ﻣﺸﻐﻮﻟﯿﺖ ﺭﮨﺘﯽ۔“*

”ﺣﯿﺎﺕِ ﺟﺎﻭﯾﺪ“ﺍﯾﮏ ﮨﺰﺍﺭ ﺻﻔﺤﮯ ﻣﯿﮟ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ،ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﻭ ﺷﺐ ﻣﯿﮟ ﺧﺘﻢ ﮐﺮ ﮈﺍﻟﯽ ﺗﮭﯽ۔“

عرب کے مشہور عالم و ادیب ڈاکٹر عائض القرنی کے بقول:

*”میرے پاس سینکڑوں لوگ آتے ہیں اور ان کے لبوں پر ایک ہی سوال ہوتا ہے کہ ہم کیسے عمدہ قلم کار بن سکتے ہیں؟میری طرف سے ان تمام سوالات کا ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ یہ ایک دن کا کام نہیں۔یہ ایک سفر ہے جو کتاب سے شروع ہوتا ہے اور جب تک کتاب سے رشتہ جڑا رہتا ہے،یہ سفر جاری رہتا ہے۔ایک کامیاب مصنف اور قلم کار بننے کے لیے کتابوں کا خوب خوب مطالعہ کرنا چاہیے۔“*

سید سلیمان ندوی کہا کرتے تھے کہ:

*”ایک صفحہ کا مضمون لکھنے سے پہلے سو صفحات مطالعہ کرنا چاہیے۔ایک صفحے کا جو مضمون،سو صفحات مطالعہ کیے بغیر لکھا جائے،وہ پڑھے جانے کے لائق نہیں ہے۔“*

ﻋﻼﻣﮧ ﺍﻟﺒﺎﻧﯽؒ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮈﺭﺍﺋﯿﻮﻧﮓ ﮐﺮﺗﮯ ﻭﻗﺖ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺎﺱ ﮐﺘﺎﺏ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﻮﮞ ﮨﯽ ﮐﮩﯿﮟ ﻣﻮﻗﻊ ﻣﻠﺘﺎ،ﻣﻄﺎﻟﻌﮧ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﻮ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﮯ۔

علامہ انورشاہ کشمیریؒ نے فقط بیس دن میں فتح القدیر کا مطالعہ کر لیا۔

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ مطالعہ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے گویا ہوتے ہیں:

*”مطالعہ کی برکت سے استعداد اور فہم پیدا ہوتا ہے،اس کی مثال ایسی ہے جیسے کپڑے رنگنے کے لیے اسے دھویا جاتا ہے،پھر رنگ کے مٹکے میں ڈالا جاتا ہے اور اگر پہلے اسے دھویا نہ جائے تو کپڑے پر داغ پڑ جاتا ہے،اسی طرح اگر مطالعہ نہ کیا جائے تو سبق کا مضمون اچھی طرح سمجھ میں نہیں آتا اور اس سے معلم کو تکلیف ہوتی ہے۔“*

  شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ کے مطالعے کے بارے میں روایت ملتی ہے کہ بسا اوقات ایک ایک آیت کے مطالعے کے لیے کئی کئی تفاسیر کا مطالعہ کیا کرتے تھے اور وہ خود فرماتے ہیں کہ مطالعے کے بعد اللہ سے دعا کرتے تھے کہ اے اللہ مجھے آیات کی فہم عطا فرما۔اے آدم اور ابراہیم کے معلم میری تعلیم فرما۔سنسان اور غیر آباد مقامات اور مسجدوں میں چلے جاتے اور اپنی پیشانی خاک پر ملتے اور کہتے کہ اے ابراہیم کو تعلیم دینے والے مجھے سمجھ عطا کر۔٧٢٦ ہجری میں علامہ ابن تیمیہؒ جیل بھیج دیے گئے۔یکسوئی میسر ہوئی تو مطالعے میں مشغول ہوئے۔حکومت وقت نے لکھنے پڑھنے کا سامان ضبط کیا،قلم دوات چھین لیے گئے،تو کوئلے سے دیواروں پر لکھنا شروع کیا۔ان کے متعدد رسائل کوئلے سے دیواروں پر لکھی گئی ان تحریروں سے نقل کیے گئے ہیں۔

*متاع  لوح و قلم  چھن گئی تو کیا غم ہے*

*کہ خون دل میں ڈبودی ہیں انگلیاں ہم نے*

  سید قطب شہیدؒ نے مشہور زمانہ تفسیر فی ظلال القرآن مصر(فراعین) کے زندانوں میں لکھی۔تفہیم القرآن کے دیباچے میں سنٹرل جیل ملتان لکھا ہوا ہے۔سید مودودیؒ کو مطالعے اور کتب بینی سے اتنی محبت تھی کہ ان کا قول ہے کہ اگر شرعی لحاظ سے جائز ہوتا تو میں وصیت کرتا کہ میری لحد میں اینٹوں کی جگہ کتابیں چن دی جائیں۔اور یہ سید مودودیؒ فرماتے ہیں کہ انسان کے جملہ اعمال و افعال کا سرچشمہ اس کا ذہن ہے اور انسانی ذہن مطالعے ہی سے بنتا ہے۔مفتی محمد شفیعؒ فرماتے ہیں کہ دیوبند کے کتب خانے میں کوئی ایسی کتاب نہیں جس کا انہوں نے تفصیلی یا جزوی مطالعہ نہ کیا ہو۔دوپہر کے وقفے میں دار المطالعہ چلے جاتے،ناظم کتب خانہ کے لیے بھی مشکل تھی کیونکہ یہ ان کے آرام اور کھانے کا وقفہ ہوتا تھا تو ان سے یہ طے ہوا کہ وہ باہر سے تالا لگا کر جایا کریں اور مفتی محمد شفیعؒ اندر مطالعہ میں مشغول ہوتے۔

  المیہ یہ ہے کہ کشمیر جیسے خطے میں،جہاں کتاب پڑھنے کا کلچر پہلے ہی کم تھا،اب جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے مزید کم ہو تا جا رہا ہے اور نوجوان نسل لائبریریوں کی جگہ گیمنگ زون اور ہاتھوں میں کتاب کی جگہ موبائیل فونز تھامے نظر آتے ہیں۔اگرچہ کئی سطح پر گاہے بگاہے کتب میلوں کا انعقاد کیا جا رہا ہے،تاہم ان میلوں میں بھی نوجوان کتابیں خریدنے سے گریزاں نظر آتے ہیں۔’’کتاب بہترین دوست ہے‘‘کی پرانی کہاوت کو ٹیکنالوجی کی نئی لہر نے تبدیل کرکے ’’موبائیل فون بہترین دوست ہے‘‘میں تبدیل کر دیا ہے۔

 موجودہ دور میں مطالعہ نہ کرنے کی شکایت عام ہے۔ اور یہ شکایت عام طور سے نئی نسل سے ہے جو اپنے آپ کو مصروف کہنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی اور جب اُن سے کتاب یا reading کی بات کی جائے تو وہ عُذر بیان کرتے ہیں وقت کی تنگی اور عدیم الفرصتی کا،حالانکہ اگر وہ اپنے اوقات کا جائزہ لیں تو گھنٹوں برباد کردیتے ہیں۔مثلاً دیر رات تک youtube پر videos اور فلمیں دیکھنا،TV پر مختلف پروگرام دیکھتے رہنا یا فیس بک(facebook)،واٹس آپ(whatsapp) پر دوستوں سے Chat کرتے رہنا اور خالی اوقات میں دوستوں کے ساتھ خوش گپیاں اور پارٹیاں منانا،صبح دیر سے اٹھنا یا فجر نماز کے بعد بلا وجہ پھر سے سونا وغیرہ وغیرہ۔امتِ مسلمہ کے نوجوان باالخصوص اپنا اچھا خاصا وقت ان سب میں ضائع کردیتے ہیں۔کاش امتِ مسلمہ کا یہ عظیم سرمایہ اپنے مقام کو پہچانتے۔علامہ اقبالؒ نے جب امتِ مسلمہ کے نوجوانوں کو مطالعہ و کُتب سے بے اعتنائی و دوری اور یورپ میں اپنی کُتب کی حفاظت دیکھی تو دردِ دل کو لفظوں کا جامہ یوں پہنایا؎

*مگر  وہ  علم  کے  موتی،کتابیں  اپنے  آبا  کی*

*جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا*

    آج بھی اگر ہم ترقی کی شاہراہ پر قدم رکھنا چاہتے ہیں تو اس کا ذریعہ صرف یہ ہے کہ لوگوں میں پڑھنے کی عادت پیدا کریں۔کیونکہ علم کی فصل قلم و کتاب کی جس زمین پر اگتی ہے،اسے پڑھنے کا شوق رکھنے والے لوگ سیراب کرتے ہیں۔جس معاشرے سے مطالعے کا ذوق اور عادت ختم ہو جائے،وہاں کی پیداوار بھی ختم ہو جاتی ہے۔جس قوم میں علم نہ ہو،اس کا انجام سوائے مغلوبیت و غلامی کے کچھ اور نہیں ہو سکتا۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ نوجوان نسل کو اس دور سعید سے جوڑ دیں جسے خیر القرون کہا گیا تو علم اور مطالعہ کے بغیر اس کا کوئی دوسرا طریقہ نہیں ہے۔علامہ اقبالؒ امتِ مسلمہ کے ایک ایک فرد سے یوں گویا ہیں؎  

سبق پھر پڑھ صداقت کا،عدالت کا،شجاعت کا

لیا  جائے  گا  تجھ  سے کام  دنیا  کی امامت کا

Comments