Unity Of Ummah Is The Need Of The Hour.

 

    دُنیا کی ہر چیز اس بات پر شاہد ہے کہ کائنات کا سارا نظام باہمی ربط سے قائم ہے۔زمین،ستارے،پہاڑ اور سمندر وغیرہ کسی ایک چیز پر بھی غور کریں تو یہ بات آشکارا ہو جاتی ہے کہ ان سب چیزوں کا وجود باہمی ربط سے قائم ہے اور ان کا وجود باہمی ربط کا مرہونِ منت ہے۔ذرات کے ملنے سے صحرا اور قطرات کے ملنے سے سمندر وجود میں آتے ہیں۔اسی طرح قومیں اور ملّتیں باہمی اتحاد ہی سے بنتی ہیں۔

 مسلمانوں میں اتحاد کا مطلب یہ ہے کہ بے شمار افکار رکھنے والے لوگوں کو ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع کر دیا جائے تاکہ ان لوگوں کے اندر اجتماعیت کی کیفیت بیدار ہو کر ان کے دل ایک دوسرے کے ساتھ جُڑ جائیں،جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ اختلافات،تنازعات اور لڑائی جھگڑوں کا وجود ہی باقی نہ رہ جائے گا۔تب جاکے ہر ایک فردِ ملّت متحد ہو کر ایک آواز بن کر ایک ہی مقصد کے لئے کوشاں ہو جائے گا۔در حقیقت اتحاد و اتفاق کا فطری انداز اسلام کے نظریہ اتحاد میں ہی جلوہ گر نظر آتا ہے۔اسلام نے پوری دُنیا کو ملک و وطن،قوم و نسل،رنگ و روپ کے تنازعات کے باوجود جس فطری طریقہ پر یکجا ہونے کو مدعو کیا ہے وہ اور کسی دوسرے مذہب میں دیکھنے کو نہیں ملتا۔اللہ تعالیٰ نے یہ شرف مسلمانوں کو دینِ اسلام کے ذریعے بخشا تھا لیکن موجودہ دور میں ہمیں اس کے برعکس دیکھنے کو مل رہا ہے۔جہاں ملّتِ اسلامیہ کو اتحاد کی ضرورت تھی وہیں آج افتراق و انتشار کے انبار دیکھنے کو ملتے ہیں۔مسلمانوں کو موجودہ دور میں سب سے زیادہ ضرورت اتحاد و اتفاق کی ہے لیکن یہ لفظ محظ زبان تک محدود رہا اور عملی دنیا میں اس پر کوئی پیش قدمی نہ کی گئی۔یہی وجہ ہے کہ آج دُنیا بھر میں مسلمانوں کو تنقید و تشدّد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔کیا وجہ ہے کہ اسلام پر مر مٹنے والوں نے زمین کے بیشتر خطوں پر اللہ تعالیٰ کا کلمہ بلند کرکے حکمرانی کی اور اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے احکامات کے عین مطابق عدل و انصاف کا عملی نمونہ پیش کر کے دکھا دیا۔لیکن آج ہمارے دلوں میں دُنیا کی محبت نے جگہ لی ہے جس کی وجہ سے ہم اس عظیم کام کے لئے آگے نہیں آ رہے ہیں بلکہ اس کے برعکس ہر کوئی گروہ یہی نعرہ لگا رہا ہے کہ’’من دیگرم تو دیگری۔‘‘مسلمانوں میں آج ہر کوئی طبقہ اپنے آپ کو صحیح ثابت کرنے پر تُلا ہوا ہے،یہی وجہ ہے کہ اسلام کو آگے لے جانا تو دور کی بات بلکہ اس کی حفاظت کرنا بھی اب نہایت ہی مشکل نظر آ رہا ہے۔ہم خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف کام کر رہے ہیں۔قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے اس سنگین جُرم پر بہت ہی جگہوں پر گرفت فرمائی ہے۔اس سلسلے میں چند آیات ملاحظہ فرمائیں:

وَاعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰهِ جَمِيۡعًا وَّلَا تَفَرَّقُوۡا‌۞(آل عمران:103)

’’سب مل کر اللہ کی رسّی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔‘‘

  ”اللہ کی رسی سے مراد اس کا دین ہے،اور اس کو رسی سے اس لیے تعبیر کیا گیا ہے کہ یہی وہ رشتہ ہے جو ایک طرف اہل ایمان کا تعلق اللہ سے قائم کرتا ہے اور دوسری طرف تمام ایمان لانے والوں کو باہم ملا کر ایک جماعت بناتا ہے۔اس رسی کو”مضبوط پکڑنے“کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی نگاہ میں اصل اہمیت”دین“کی ہو،اسی سے ان کو دلچسپی ہو،اسی کی اقامت میں وہ کوشاں رہیں اور اسی کی خدمت کے لیے آپس میں تعاون کرتے رہیں۔جہاں دین کی اساسی تعلیمات اور اس کی اقامت کے نصب العین سے مسلمان ہٹے اور ان کی توجہات اور دلچسپیاں جزئیات و فروع کی طرف منعطف ہوئیں،پھر ان میں لازماً وہی تفرقہ و اختلاف رونما ہوجائے گا جو اس سے پہلے انبیاء(علیہم السلام) کی امتوں کو ان کے اصل مقصد حیات سے منحرف کر کے دنیا اور آخرت کی رسوائیوں میں مبتلا کرچکا ہے۔“(تفہیم القرآن)

وَلَا تَكُوۡنُوۡا كَالَّذِيۡنَ تَفَرَّقُوۡا وَاخۡتَلَفُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَهُمُ الۡبَيِّنٰتُ‌ؕ۞(آل عمران:105)

’’کہیں تم اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کُھلی کُھلی واضح ہدایات پانے کے بعد پھر اختلافات میں مبتلا ہوئے۔“

”یہ اشارہ ان امتوں کی طرف ہے جنہوں نے خدا کے پیغمبروں سے دین حق کی صاف اور سیدھی تعلیمات پائیں مگر کچھ مدت گزر جانے کے بعد اساس دین کو چھوڑ دیا اور غیر متعلق ضمنی و فروعی مسائل کی بنیاد پر الگ الگ فرقے بنانے شروع کردیے،پھر فضول و لایعنی باتوں پر جھگڑنے میں ایسے مشغول ہوئے کہ نہ انہیں اس کام کا ہوش رہا جو اللہ نے ان کے سپرد کیا تھا اور نہ عقیدہ و اخلاق کے ان بنیادی اصولوں سے کوئی دلچسپی رہی جن پر درحقیقت انسان کی فلاح وسعادت کا مدار ہے۔“(تفہیم القرآن)

مذکورہ بالا واضح اور روشن تعلیمات کے آنے کے باوجود بھی مسلمان ایک دوسرے کے پیچھے لگ گئے اور ان تعلیمات کو پسِ پشت ڈال دیا،جس کا منطقی نتیجہ وہی نکلا جو ہمیں سورۃ الانفال آیت نمبر 46 میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ارشاد ربّانی ہے:

وَاَطِيۡعُوا اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ وَلَا تَنَازَعُوۡا فَتَفۡشَلُوۡا وَتَذۡهَبَ رِيۡحُكُمۡ‌ وَاصۡبِرُوۡا‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِيۡنَ‌ۚ۞

’’اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمہاری ہوا اُکھڑ جائے گی۔صبر سے کام لو،یقینًا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘

”چھیالیسویں آیت میں ایک تیسری چیز کی تلقین اور کی گئی وہ ہے(آیت)وَاَطِيْعُوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ۔یعنی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کو لازم پکڑو۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کی امداد و نصرت اس کی اطاعت ہی کے ذریعہ حاصل کی جاسکتی ہے۔معصیت اور نافرمانی تو اللہ کی ناراضی اور ہر فضل سے محرومی کے اسباب ہوتے ہیں۔اس طرح میدان جنگ کے لئے قرآنی ہدایت نامہ کی تین دفعات ہوگئیں ثبات،ذکر اللہ،اطاعت۔اس کے بعد فرمایا(آیت)وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْهَبَ رِيْحُكُمْ وَاصْبِرُوْا،اس میں مضر پہلوؤں پر تنبیہ کرکے ان سے بچنے کی ہدایت ہے۔اور وہ مضر پہلو جو جنگ کی کامیابی میں مانع ہوتا ہے باہمی نزاع و اختلاف ہے۔اس لئے فرمایا وَلَا تَنَازَعُوْا یعنی آپس میں نزاع اور کشاکش نہ کرو۔ورنہ تم میں بزدلی پھیل جائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ 

اس میں باہمی نزاع کے دو نتیجے بیان کئے گئے ہیں ایک یہ کہ تم ذاتی طور پر کمزور اور بزدل ہوجاؤ گے۔ دوسرے یہ کہ تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی دشمن کی نظروں میں حقیر ہوجاؤ گے باہمی کشاکش اور نزاع سے دوسروں کی نظر میں حقیر ہوجانا تو بدیہی امر ہے لیکن خود اپنی قوت پر اس کا کیا اثر پڑتا ہے کہ اس میں کمزوری اور بزدلی آجائے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ باہمی اتحاد و اعتماد کی صورت میں ہر ایک انسان کے ساتھ پوری جماعت کی طاقت لگی ہوئی ہوتی ہے اس لئے ایک آدمی اپنے اندر بقدر اپنی جماعت کے قوت محسوس کرتا ہے اور جب باہمی اتحاد و اعتماد نہ رہا تو اس کی اکیلی قوت رہ گئی وہ ظاہر ہے جنگ و قتال کے میدان میں کوئی چیز نہیں۔ 

 اس کے بعد ارشاد فرمایا واصْبِرُوْا۔یعنی صبر کو لازم پکڑو۔سیاق کلام سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ نزاع اور جھگڑوں سے بچنے کا کامیاب نسخہ بتلایا گیا ہے اور بیان اس کا یہ ہے کہ کوئی جماعت کتنی ہی متحد الخیال اور متحد المقصد ہو مگر افراد انسانی کی طبعی خصوصیات ضرور مختلف ہوا کرتی ہیں نیز کسی مقصد کے لئے سعی و کوشش میں اہل عقل و تجربہ کی رایوں کا اختلاف بھی ناگزیر ہے۔اس لئے دوسروں کے ساتھ چلنے اور ان کو ساتھ رکھنے کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ آدمی خلاف طبع امور پر صبر کرنے اور نظر انداز کرنے کا عادی ہو اور اپنی رائے پر اتنا جماؤ اور اصرار نہ ہو کہ اس کو قبول نہ کیا جائے تو لڑ بیٹھے۔اسی صفت کا دوسرا نام صبر ہے۔آج کل یہ تو ہر شخص جانتا اور کہتا ہے کہ آپس کا نزاع بہت بری چیز ہے مگر اس سے بچنے کا جو گُر ہے کہ آدمی خلاف طبع امور پر صبر کرنے کا خوگر بنے اپنی بات منوانے اور چلانے کی فکر میں نہ پڑے۔یہ بہت کم لوگوں میں پایا جاتا ہے اسی لئے اتحاد و اتفاق کے سارے وعظ و پند بےسود ہو کر رہ جاتے ہیں۔آدمی کو دوسرے سے اپنی بات منوا لینے پر تو قدرت نہیں ہوتی مگر خود دوسرے کی بات مان لینا اور اگر اس کی عقل و دیانت کا تقاضا یہی ہے کہ اس کو نہ مانے تو کم از کم نزاع سے بچنے کے لئے سکوت کرلینا تو بہرحال اختیار میں ہے اس لئے قرآن کریم نے نزاع سے بچنے کی ہدایت کے ساتھ ساتھ صبر کی تلقین بھی ہر فرد جماعت کو کردی تاکہ نزاع سے بچنا عملی دنیا میں آسان ہوجائے۔ 

یہاں یہی بات بھی قابل نظر ہے کہ قرآن کریم نے اس جگہ لَا تَنَازَعُوْا فرمایا ہے یعنی باہمی کشاکش کو روکا ہے رائے کے اختلاف یا اس کے اظہار سے منع نہیں کیا۔ اختلاف رائے جو دیانت اور اخلاص کے ساتھ ہو وہ کبھی نزاع کی صورت اختیار نہیں کیا کرتا۔نزاع وجدال وہیں ہوتا ہے جہان اختلاف رائے کے ساتھ اپنی بات منوانے اور دوسرے کی بات نہ ماننے کا جذبہ کام کر رہا ہو۔اور یہی وہ جذبہ ہے جس کو قرآن کریم نے واصْبِرُوْا کے لفظ سے ختم کیا ہے اور آخر میں صبر کرنے کا ایک عظیم الشان فائدہ بتلا کر صبر کی تلخی کو دور فرما دیا۔ارشاد فرمایا(آیت)اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ۔یعنی صبر کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی معیت حاصل ہوتی ہے اللہ تعالیٰ ہر وقت ہر حال میں ان کا رفیق ہوتا ہے اور یہ اتنی بڑی دولت ہے کہ دونوں جہان کی ساری دولتیں اس کے مقابلہ میں ہیچ ہیں۔

رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے بعض غزوات میں انھیں ہدایات کو مستحضر کرانے کے لئے عین میدان جنگ میں یہ خطبہ دیا”اے لوگو دشمن سے مقابلہ کی تمنا نہ کرو بلکہ اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگو اور جب ناگزیر طور مقابلہ ہو ہی جائے تو پھر صبر و ثبات کو لازم پکڑو اور یہ سمجھ لو کہ جنت تلواروں کے سایہ میں ہے۔“( مسلم)  (معارف القرآن)

 آج ہمارے معاشرے میں کچھ لوگ ایسے مل رہے ہیں جو اگرچہ تبلیغ کے شعبہ کے ساتھ وابستہ ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہ دین کو صحیح انداز میں پیش کرنے کے بجائے فروعی مسائل کو فروغ دینے میں کوشاں ہیں۔ان کی اس غیر شرعی اور بے ترجیحی کام کی وجہ سے اب لوگ دن بدن دینِ اسلام سے دور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ان لوگوں پر ذمّہ داری تھی کہ وہ لوگوں کے سامنے دینِ اسلام کا صحیح اور جامع تصور پیش کرتے تاکہ ان کے دلوں میں اسلام کی محبت ہوجاتی اور پھر رفتہ رفتہ وہ خود بخود  اس پر عمل پیرا ہو جاتے اور اسے قائم کرنے کی بھر پور کوشش کرتے،لیکن ہوتا وہی ہے جو آج ہم اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔

 ہم جس کام کے لئے اٹھیں ہیں وہ ہے شہادت علی النّاس اور اقامتِ دین کی جدو جہد۔لیکن یہ بات پیش نظر رہے کہ اس کام کو سر انجام دینے کے لئے ایک مضبوط جماعت کی ضرورت ہے جو کہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار جیسی جماعت ہو۔جس کے افراد منظم طریقے پر پُرحکمت کام کرنے والے ہوں۔باطل نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکنا کوئی بچّوں کا کھیل نہیں ہے بلکہ اس کے لئے خون پسینہ ایک کر کے جان جوکھوں میں ڈالنا پڑتا ہے۔اس مقصد کے لئے ایک ایسی جماعت کی ضرورت ہے جس کے افراد کا ایک ہی نعرہ ہو اور وہ یہ کہ؎

میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی

میں اسی لئے مسلمان میں اسی لئے نمازی

 علامہ اقبالؒ نے بھی بزمِ انجم کے عنوان کے تحت ایک نظم میں ستاروں کی زبانی انسانوں کو نصیحت کی ہے کہ وہ اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لئے باہم متحّد رہیں اور ستاروں کی زندگی سے سبق حاصل کریں۔ستاروں کی زندگی باہمی ربط سے قائم ہے۔وہ آپس میں کشش رکھنے سے ہی قائم ہے اگر خدانخواستہ ان کا یہ ربط ختم ہو جائے تو ان کو اپنا وجود بر قرار رکھنا مشکل ہو جائے گا۔فرماتے ہیں؎

اک عمر میں نہ سمجھے جس کو زمین والے

وہ بات پا گئے ہم تھوڑی سی زندگی میں

ہیں ربطِ باہمی سے قائم نظام سارے

پوشیدہ ہے یہ نکتہ تاروں کی زندگی میں

 حضور ﷺْ کے ایک فرمان کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمان ایک عمارت کی مانند ہیں۔جس طرح عمارت کی اینٹیں مل کر عمارت بناتی ہیں اور ایک دوسرے کو سہارا دیتی ہیں،اسی طرح مسلمان بھی ایک دوسرے کو سہارا دیتے ہیں اور مل کر ایک مضبوط قوم بن جاتے ہیں۔عام طور پر جب کچھ افراد کا مفاد ایک ہو تو اُن میں باہمی اتحاد اور یگانگت پائی جاتی ہے اور وہ اپنے مقصد کے لئے مل کر کام کرتے ہیں۔لیکن حیرت ہے کہ مسلمانوں کا مفاد ایک ہے،ان کا نقصان بھی ایک ہے،ان کا دین،ایمان،نبیؐ،حرم پاک اور قرآن بھی ایک ہے۔لیکن پھر بھی ان میں باہمی اتحاد اور یگانگت کا فقدان ہے۔ اگر مسلمان اس نکتے کو سمجھ لیں تو وہ ایک ہو سکتے ہیں اور فرقہ پرستی سے بالا تر ہو کر اسلامی انقلاب کے لئے جدوجہد کر سکتے ہیں۔اسی حقیقت کو  شاعرِ مشرق علامہ اقبالؒ نے اپنے الفاظ میں اس طرح بیان کیا ہے؎

منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک

ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک

حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک

کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

  لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کو پھر سے اسی طرح جسدِ واحد بن کر رہنا چاہیے جس طرح ماضی میں اسلاف رہتے تھے چونکہ مسلمانوں کی آخری منزل کسی ایک ملک یا خطّے میں ان کا باہمی اتحاد نہیں بلکہ تمام دُنیا کے مسلمانوں کا اتحاد ہے۔اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے ہر ملک کے مسلمان نسلی،خاندانی،علاقائی اور فروعی اختلافات کو ختم کرکے متّحد ہو کر اپنے اپنے ملک میں اسلامی حکومت قائم کریں اور پھر پوری دُنیا میں غیر اللہ کی حاکمیت کے بجائے اللہ تعالیٰ کی حکومت کو نافذ کریں اور اسی چیز سے دُنیا بھر کے مسلمانوں کو اللہ کی رضا حاصل ہو سکتی ہے۔علامہ اقبالؒ نے کیا ہی خوب کہا ہے ؎

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے

نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر

Comments